ہمیں سعودی عرب آئے ہوئے دو برس ہوئے تھے کہ میرے شوہر ار باب کی ملاقات کمپنی میں ایک پاکستانی شخص خالد سے ہوئی، جو اسی سعودی کمپنی میں ملازمت کے لئے آیا تھا، جہاں میرے شوہر کام کرتے تھے۔ خالد سے ارباب کی بہت اچھی دوستی ہو گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان تعلقات بڑھتے گئے۔ پردیس میں تو یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی نیا پاکستانی کسی جگہ مل جائے قدرتی طور پر اس سے دوستی بڑھانے کو جی چاہتا ہے ، مگر بقول ارباب کے خالد تو بہترین انسان تھا۔ کچھ عرصے وہاں رہ کر میں پاکستان لوٹ آئی، مگر خالد کو وہیں رہنا تھا، کہ ملازمت جو وہاں تھی۔ اب وہ خالد کے ساتھ رہنے لگے۔ دونوں ساتھ کھانا کھاتے، چھٹی کے دن ساتھ باہر جاتے اور خوب گپ شپ کرتے۔ اس طرح پردیس میں تنہائی کا احساس کم ہوتا اور وقت اچھا گزر جاتا۔ خالد کے تین بچے تھے ،اس کی شادی کو آٹھ سال گزر چکے تھے مگر روزگار کے چکر ہیں اسے اپنی فیملی کے ساتھ رہنے کا بہت کم موقع ملا تھا۔ ہمارے ملک کے رواج ایسے ہیں کہ کم آمدنی میں گزارا نہیں چلتا۔ تین سال بعد جب میرے شوہر چھٹی پر وطن آنے لگے تو خالد نے ان سے کہا۔ دوست گھر سے بچوں کا خط آیا ہے ، انہوں نے بہت ساری فرمائشیں لکھ کر بھیجی ہیں۔ میری چھوٹی بچی نے کچھ کھلونوں اور فراکوں کی فرمائش کی ہے۔ تم یہ چیزیں لے جانا، شاید بچے بہت اداس ہیں، تبھی بیوی نے ایسا خط لکھا ہے کہ دل گھبرارہا ہے۔ مجھے ان سے اتنا پیار ہے کہ جی چاہتا ہے اڑ کر گھر پہنچ جاؤں۔
ارباب پاکستان پہنچے تو چند دن گھر پر گزارنے کے بعد شہر چلے گئے۔ کھلونے پارسل اور خط لے کر وہ خالد کے گھر گئے اور کال بیل بجائی۔ ایک بچے نے آکر جھانکا، پھر دوڑتا ہوا واپس اندر گیا۔ اس کی آواز جیسے کانوں میں رس گھول رہی ہو ۔ وہ کہہ رہا تھا،امی ، ابو نے انکل کو بھیجا ہے۔ انکل ہمارے لئے کھلونے لائے ہیں۔ ارباب کے ہاتھوں میں پارسل دیکھ کر شاید بچے نے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ شخص ان کے والد کی طرف سے آیا ہے۔ ممکن ہے اس کو ہر وقت باپ کا انتظار رہتا ہو یا وہ گیٹ پر ہر آنے جانے والے کو باپ کا نمائندہ سمجھتا ہو۔ ذرا دیر کے بعد دروازہ کھل گیا۔ خالد کی بیوی آئی اور کہنے لگی۔ آ جائے بھائی صاحب ! آپ سعودی عرب سے آئے ہیں نا! ارباب نے اپنا تعارف کروایا۔ جی ہاں، میں ارباب احمد ہوں۔ میں نے آپ کی امانتیں سپرد کرنا تھیں۔ خاتون نے ان کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ اتنے میں خالد کے بچے بھی دوڑتے آگئے۔ دو چھوٹے ان کی گود میں چڑھ بیٹھے اور اپنے باپ کے بارے میں بار بار سوال کرنے لگے۔ وہ پوچھتے تھے کہ ہمارے ابو کب آئیں گے ؟ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ اڑ کر اپنے باپ کے پاس پہنچ جائیں۔
خالد کی بیوی چائے لے آئی اور باتیں کرنے لگی۔ بھیا تین سال کا عرصہ بیت گیا ہے ان کو گئے ہوئے، یہاں ان کے بغیر زندگی مشکل سے گزر رہی ہے ، پر کیا کریں، مجبوری ہے۔ اچھی آمدنی کے بغیر بھی تو بچوں کی زندگی نہیں بن سکتی۔ دل پر پتھر کی سل رکھی ہوئی ہے، بچے بہت اداس رہتے ہیں۔ ان کور وز بہلاتی ہوں تو اپنا جی برا ہو جاتا ہے۔ بھائی جان تین سال ہو چکے ہیں، وہ تو آنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ آپ بتائیے وہ کب آئیں گے ؟ ارباب نے اسے تسلی دی کہ بھابی فکر نہ کریں، وہ جلد آجائیں گے۔ جب میں چھٹی ختم کر کے یہاں سے جاؤں گا تو وہ چھٹی لے کر آجائیں گے۔ میں بھی تین سال کے بعد آیا ہوں۔ دوبارہ آنے کا کہہ کر وہ بچوں کو پیار کر کے لوٹ آئے۔ پندرہ روز بعد ارباب کو خیال آیا۔ ایک بار اور خالد کے گھر بچوں کی خیر خبر لے آئیں۔ وہ گئے تو بچے اسی طرح دوڑتے ہوئے آئے اور بہت خوش ہو کر ملے۔ انہوں نے کہا۔ میں واپس جارہا ہوں بھابی ! اگر خالد کو کوئی پیغام دینا ہو تو دے دیں، میں پہنچا دوں گا۔ دوپہر کا وقت تھا، بھابی نے ان کو زبر دستی کھانے کے لئے روک لیا۔ بچے ان سے لپٹے رہے۔ کہتے تھے ، انکل ابو سے کہیں کہ جلدی آئیں اور یہ لائیں ، وہ لائیں۔ غرض بچوں کی فرمائشیں تو کبھی ختم ہونے والی نہیں ہوتیں۔ خالد کی بیوی البتہ بولیں۔ بس اب وہ خود ہی آجائیں تو اچھا ہے۔ بچے بڑے اداس ہیں، تبھی ارباب بولے۔ بھابی لگتا ہے آپ بچوں سے زیادہ اداس ہیں۔ اس پر وہ روپڑیں۔ کہنے لگیں۔ ارباب بھائی ! بڑی مشکل سے تو ہماری شادی ہوئی تھی۔ انہوں نے شادی سے پہلے مجھے خط لکھ دیا تھا، جو بھائی نے پکڑ لیا۔ بس پھر کیا تھا، اس قدر طوفان اٹھا کہ کیا بتاؤں۔ ان کا دو سال تک ہمارے گھر آنا جانا بند ہو گیا، پھر نانا جان کے انتقال پر وہ آئے تھے ، کیونکہ میرے نانا ان کے دادا لگتے تھے۔ وہ ماضی میں کھو چکی تھیں۔ جب میری خالد کے ساتھ شادی ہوئی تو ہم صرف چار ماہ ساتھ رہے ، پھر یہ ملازمت کی تلاش میں چلے گئے۔ ایک سال کراچی میں ملازمت کی کبھی آجاتے تھے پھر چلے جاتے تھے۔ بعد میں ہمیں بھی بلالیا، مگر ہم تھوڑے دنوں ساتھ رہے۔ جب وہ سعودی عرب گئے تو اس وقت میرابیٹا صرف چند ماہ کا تھا۔ اس کو تو اپنے ابو کی صورت بھی یاد نہیں۔ کبھی سال بہت لمبا ہو جاتا ہے اور کبھی پتا بھی نہیں چلتا وقت گزرتا جاتا ہے۔ پہلی بار ڈھائی سال کے بعد دوماہ کے لئے آئے تھے۔ جاتے ہوئے تسلی دے گئے کہ تم لوگوں کو بھی بلوا لوں گا۔ اب تو ایک ایک لمحہ مشکل سے گزر رہا ہے۔ ہر چیز گھر میں موجود ہے ، مگر وہ نہیں ہیں تو بھرا گھر بھی خالی لگتا ہے۔ بھیا! ان سے کہنا اب ہمیں زیادہ چیزوں کی ضرورت نہیں ہے ، اب وہ خود آجائیں۔
ار باب نے انہیں سمجھایا کہ وہ پردیس میں محنت کر رہے ہیں تو آپ اور آپ کے بچوں ہی کے لئے ،تا کہ آپ لوگ سکھ اور سکون سے رہیں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ جب وہ پچھلی چھٹیوں پر آئے تھے تو کیا ان کا جی چاہتا تھا کہ ان بچوں اور آپ کو چھوڑ کر واپس جائیں ؟ نہیں بھیا۔ خالد کی بیوی دکھی ہو کر کہنے گی۔ تب تو ہم نے ایک ماہ دس دن کا عرصہ اس دھڑکے میں گزار دیا تھا کہ پھر جدا ہونا ہے۔ دل چاہتا تھا وقت تھم جائے یا وہ کبھی پردیس نہ جائیں مگر مجبوری ہے۔ اگر وہ نہ جاتے تو ان کی بہنوں کی شادیاں کیسے ہوتیں، چھوٹے بھائی کی بھی شادی کرنا تھی، گھر کا پورا بوجھ انہی پر ہے۔ جس رات وہ جارہے تھے میں ان کو سمجھا رہی تھی چھ سال پردیس میں کاٹے ہیں اب چھوڑو وہاں کی ملازمت۔ کہنے لگے، پہلے تو گھر والوں کے لئے کما رہا تھا۔ ماں باپ بہن بھائیوں کا حق ادا کر رہا تھا، اب تمہارے اور بچوں کے لئے کماؤں گا، پھر آجاؤں گا۔ جس دن خالد جارہے تھے، وہ ساری رات ہم نے جاگ کر گزار دی۔ میں نے ان کے قدموں میں سر رکھ دیا تھا کہ اپ مت جایئے ، مجھے وہم آرہے ہیں۔ میرا دل نہیں مانتا تھا مگر انہوں نے مجھے اٹھایا اور بولے تمہاری جگہ میرے قدموں میں نہیں میرے دل میں ہے۔ جب وہ چلے گئے خالد بھیا تو میں اور بچے ایسے رہ گئے جیسے مالی کے بغیر پھول۔ اس جدائی کے لمحے کی کیفیت میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی، جیسے میری اپنی دنیا لٹ گئی ہو۔ یہ کہ کر بھابی رونے لگیں توارباب گھبرا گئے کہ اب خاتون کو کیسے تسلی دیں، کیونکر چپ کرائیں ؟ ان کے پاس جیسے الفاظ نہ ہوں۔ انہیں لگا کہ خالد کی بیوی کو جیسے کوئی بڑا خوف ستا رہا ہے۔ وہ تبھی خالد کے گھر سے بھاری دل کے ساتھ چلے آئے۔ اس کے بچوں کو پیار کرتے ہوئے ارباب کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان کو یاد آگیا کہ اب انہوں نے بھی روانہ ہونا ہے اور ان کے پردیس جانے سے ان کے بچوں پر اور مجھ پر بھی ایسی اداسی ٹوٹے گی۔ جب وہ ریاض پہنچے تو قریبی دوست ملنے آئے لیکن خالد نہ آیا۔ وہ دن گزر گیا۔ شام چھ بجے کا وقت تھا، سوچ میں تھے کہ خالد کیوں ملنے نہیں آیا؟ سب ڈیوٹی ختم کر کے واپس آجارہے تھے۔ اتنے میں ایک ڈرائیور نے آکر بتایا کہ فلاں جگہ ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے ، روشن محمد اور محمد خالد فوت ہو گئے ہیں۔ یہ سنتے ہی سبھی کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی مگر موت برحق ہے اور اس کا یقین کرنا ہی پڑتا ہے۔ میرے شوہر کو تو اس بات کا بہت ہی دکھ تھا کہ جو پیغامات خالد کی بیوی اور بچوں کے لے کر گئے تھے ، وہ بھی اس تک نہ پہنچ سکے۔ کاش ایک روز پہلے پہنچ جاتے کچھ دیر بعد ان کی لاشوں کو طائف کے اسپتال کے سرد خانے میں رکھ دیا گیا۔
موت کے بعد بھی پردیس آنے کی سزا ان بے چاروں کو کاٹنی تھی۔ تقریباً پندرہ روز بعد ان کی میتوں کو پاکستان بھیجنے کا انتظام ہو سکا۔ ارباب کے ہمراہ چند ساتھی ان کے تابوت لے کر گئے۔ اسپتال جاکر ان کو پیٹیوں میں بند کیا۔ سوچ میں تھے کہ جب ان لوگوں کی لاشیں گھر پہنچیں گی تو کیا حشر برپا ہو گا۔ سرد خانوں میں جمے ہوئے پاکستانی نوجوانوں کے چہرے اپنے پاکستانی بھائیوں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ بھائیو! ہمیں یہ ریال زندگی میں بھی بے چین رکھتے ہیں اور مر کر بھی۔ ارباب نے مجھے بتایا کہ جب ہم نے خالد اور روشن کی لاشوں کو سرد خانے سے نکالا تو نہ انہیں غسل دیا گیا تھا اور نہ ہی انہیں کپڑوں کی قید سے آزاد کر کے کفن پہنایا گیا تھا۔ اس کے بعد ار باب پھر آخری بار ہی ملازمت پر پردیس گئے۔ وہ کہتے تھے کہ وہاں سرد خانے میں جمے ہوئے نوجوانوں کے چہرے یاد آتے تھے، تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا تھا۔ کتنے کڑیل اور خو بصورت نوجوان ، روزی روٹی کمانے کے پیچھے گھروں سے دور آکر خاک ہو گئے۔ وہ جو اپنوں کے لئے خوشیاں خریدنے جاتے ہیں اور پھر کبھی گھر واپس نہیں لوٹ پاتے۔ ان کے پیاروں پر کیا گزرتی ہے یہ وہی جانتے ہیں جو یہ دکھ سہتے ہیں۔