Monday, September 16, 2024

Ghar Kay Khawab

دن رات میں اپنے گھر کے خواب دیکھا کرتی تھی جب چھوٹی سی تھی ، والد صاحب نے قرض سے تنگ آ کر اپنا گھر بیچ دیا تھا. اپمی کو یہ بتایا تھا کہ اگر گھر نہ بیچا تو قرض خواہ ان کو قتل کر دیں گے- شوہر کی مجبوری دیکھ کر انہوں نے اپنی جنت کو اُن پر قربان کرنا منظور کر لیا۔ میری دو چھوٹی بہنیں اور ایک بڑا بھائی تھا جو اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتا تھا۔ گھر کے بک جانے کے بعد ابو نے ایک نئی جگہ کرایہ کا مکان حاصل کر لیا۔ مجھے اس کا بھی بہت قلق تھا کیونکہ ساری سہلیاں اور بچپن کی یادیں سبھی کچھ پیچھے رہ گیا۔ ہم نے نئے محلے میں نئے لوگوں کے بیچ رہنا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ دل لگ گیا ۔ ارد گرد کے لوگوں سے جان پہچان بڑھ گئی۔ پھر ایک دن میں نے امی ابو کو شدت سے جھگڑتے دیکھا۔ امی کو علم ہو گیا تھا کہ ابو کو جوئے کی لت لگ چکی ہے اور انہوں نے ذاتی مکان دراصل جوئے میں ہار دیا ہے۔ ان کے لڑائی جھگڑے بڑھنے لگے۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ مکان مالک نے نقص امن کا بہانہ بنا کر گھر ہی خالی کروالیا۔ اب شہر سے نکلے تو گاؤں نے پناہ دی، ایک بار پھر ہم کو دھچکا لگا۔ پھر سے وہی حالات، نیا محلہ نئے لوگ اسکول چھوٹ گیا۔ دیہاتی ماحول میں خود کو سمونا بہت مشکل تھا۔ ایک دن امی نے گلی کی دکان سے سودا لینے کو بھیجا۔ وہاں پہلے سے موجود عورت نے مجھے پیار کیا اور گھل مل کر باتیں کرنے لگی۔ بیٹی سنا ہے کہ تم لوگ پہلے بھی کئی جگہوں پر رہ چکے ہو- جی خالہ، میں نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔ ہم پہلے ساتھ والے شہر میں تھے۔ اب یہاں آگئے ہیں۔ پوچھنے لگی شہر میں کہاں گھر تھا۔ دکاندارعورت کے کان کھڑے ہو گئے۔ پوچھنے گئی بچی، پہلے بھی کہیں رہتے تھے؟ وہاں سے کیوں نکلے، پھر یہاں کیوں آگئے، لوگ تو گاؤں سے شہر جاتے ہیں اور یہاں دیکھو تو اُلٹے بانس بریلی کے مانند تم لوگ شہر سے آگئے۔

ارے بہن خدا جانے یہ کس قماش کے لوگ ہیں اور پہلے کہاں کہاں رہ کر آئے ہیں۔ سنا ہے کہ پہلے جہاں رہتے تھے وہاں کے لوگوں نے لڑائی جھگڑے دیکھ کر ان کو نکال دیا تھا۔ اب دیکھو ادھر یہ لوگ کیا کرتے ہیں۔ عورت کی بات سن کر دکان والی خاتون نے طنزیہ کہا بہن جی ، آپ تو دوسری گلی میں رہتے ہیں۔ ہمارے تو سر پر ہیں، یہ پتہ تو ہم کو چلے گا ، جب یہ لوگ جھگڑیں گے اور ایک دوسرے کا سر پھاڑیں گے۔ میرا دل ان عورتوں کی باتوں سے بہت دُکھا اور سودا خریدے بغیر لوٹ آئی۔ امی نے پوچھا تم نے سودا کیوں نہیں لیا ؟ امی دکان پر بہت رش تھا۔ میں نے بہانہ کر دیا اور کمرے میں آکر خوب روئی۔ اس معاملے میں میرا تو کوئی قصور نہیں تھا۔ پھر بھی میرے ننھے سے دل کو لوگوں کی ایسی باتوں سے ٹھیس پہنچتی تھی۔ نئے ماحول میں آکر بھی والد صاحب کے روئیے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جو کچھ کما کر لاتے جوئے اور نشے میں اُڑا دیتے ۔ امی نے گھر میں دو چار بکریاں اور مرغیاں وغیرہ پال لی تھیں۔ اس کے علاوہ چلچلاتی دھوپ میں جا کر کھیتوں میں مزدوری کرتی تھیں تب کہیں جا کر گھر کا گزارا چلتا تھا۔ گاؤں کا ماحول عموماً نوعمر لڑکوں کیلئے خطرناک ہو جاتا ہے۔ اگر باپ جوا کھیلتا اور نشہ کرتا ہو۔ لامحالہ میرا بھائی ابرار بھی گاؤں کے آوارہ منش لڑکوں کا ساتھی بن گیا جن کو تعلیم سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ مرغ لڑانا، کبوتر بازی ، بٹیر پالنا اور آوارہ پھرنا اُن کے مشاغل میں شامل تھا۔

وہ کوئی کام نہ کرتا ، امی گاؤں کے نمبردار کے پاس جا کر منت سماجت کرتیں ، اُن کی سفارش سے کوئی چھوٹا موٹا کام مل بھی جاتا تو ابرار اوباش دوستوں کو گھر لے آتا۔ تب ماں تو کھیتوں میں مزدوری کرنے چلی جاتی ۔ میں اور فروا گھر پر ہوتیں۔ بھائی کے دوست اچھی قماش کے نہ تھے۔ میں ابرار کو کہتی تھی۔ تمہاری دو بہنیں اکیلی گھر پر ہوتی ہیں، تم ان لوفر قسم کے لڑکوں کو گھر کے اندرمت لایا کرو لیکن وہ میری بات کواہمیت نہ دیتا بلکہ اس کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ وقت گزرتا گیا۔ حالات جوں کے توں ہی رہے۔ امی کے ساتھ مل کر بالآخر میں بھی مزدوری کو نکلنے لگی۔ ایک دن جبکہ میں گھر پر تھی، ایک شخص نے ہمارا دروازہ بجایا اور میری امی کا پوچھا۔ بتایا کہ وہ تو کھیتوں میں سبزیوں سے جڑی بوٹیاں نکالنے گئی ہیں۔ آنے والے نے کہا بیٹی ماں کو جلدی خبر کر دو کہ الیاس نے جوئے میں بیٹی کو ہار دیا ہے۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ الیاس میرے ابو کا نام تھا۔ یہ شاید کوئی ہمارا خیر خواہ تھا جو بروقت میری ماں کو خبردار کرنے آیا تھا۔ ہماری پھوپی اسی گاؤں میں رہتی تھیں۔ میں دوڑی ہوئی ان کے پاس گئی اور خبر دی کہ ایک اجنبی ایسا کہ کر گیا ہے۔ تبھی پھپھو بھاگی بھاگی کھیتوں میں امی کے پاس پہنچیں اور پھران دونوں نے ہم بہنوں کو پھپھو کے گھر پہنچا دیا۔ پھپھو کا بیٹا عدنان پولیو کا مریض تھا اور لنگڑا کر چلتا تھا جبکہ میں ہر لحاظ سے خوبصورت تھی ۔ عدنان کی کریانہ کی دکان تھی اور وہ بہ حسن و خوبی اپنی دکان چلا رہا تھا۔ پھپھونے مجھے سمجھایا کہ بیٹی عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ عدنان سے نکاح کرا دیتی ہوں تا کہ تیرا جواری باپ تجھے کھینچ کر نہ لے جاسکے۔ میں نے بھی یہی مناسب سمجھا کہ ہمارا پھپھو کے سوا آج کوئی ہمدرد نہیں ہے۔ امی کی مالی مدد بھی وہی کرتی تھیں۔ ہم بیمار ہوتے ، دوڑی آتیں، علاج کراتیں، ایسی انسان دوست کو ٹھکرانا غلطی ہو گئی۔ میں نے اُن کے پولیو کے مریض بیٹے کی بیوی بن جانا قبول کر لیا تا کہ میری ماں اور چھوٹی بہن کو پناہ مل جائے۔

میں نے قربانی دی تو میری زندگی میں خوشیاں آگئیں۔ عدنان مجھ سے محبت کرتے اور میرا خیال رکھتے تھے۔ پھوپی بھی مجھے پھولوں کی طرح رکھتی تھی۔ امی اور چھوٹی بہن واپس لوٹ گئیں اور میں اپنے شوہر کی محفوظ پناہ گاہ میں آگئی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ میری ماں شکر گزار ہوتی کہ مجھے پھپھونے جواریوں کے نرنے میں جانے سے بچالیا تھا۔ مگر وہ ہر وقت کہتی کہ اے میری بیٹی تو کتنی حسین ہے، بالکل گلاب کے پھول جیسی ہے مگر تیری قسمت کس قدر خراب ہے کہ ایک پولیو زدہ لنگڑے کی بیوی ہے۔ میں ان کو سمجھاتی ، امی جان عدنان میں صرف یہی ایک کمی ہے ورنہ ان میں کوئی عیب نہیں ہے۔ شکل وصورت اچھی ہے، اخلاق اچھا ہے اور کاروبار بھی اچھا ہے۔ جب مجھے ان میں کسی کمی کا احساس نہیں ہوتا تو آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں؟ ماں جواب دیتی۔ پولیو کی مریض کی زندگی کا کیا بھروسہ ہے۔ میرا گھر بک گیا، آج تک در بدری کے دھکے سہہ رہی ہوں۔ تیرے نام تیری پھپھو سے گھر لکھوا کر رہوں گی تا کہ تیرا مستقبل محفوظ ہو جائے۔ امی جان کو بہت منع کیا کہ آپ یہ خیال دل سے نکال دیں۔ پھپھو پر بوجھ نہ ڈالیں، میں آرام اور سکون سے رہ رہی ہوں۔ میری فکر نہ کریں، ابا کا تو کوئی بھروسہ نہیں۔ کل آپ کو ہی جوئے میں لگا دے۔ وہ نہ سمجھیں ایک ہی رٹ تھی کہ پھپھو اپنا مکان تیرے نام لکھ دے، تب مجھے سکون ملے گا۔ انہی دنوں میں اُمید سے ہوگئی تو ماں مجھے اپنے گھر لے آئی۔ دل میں ٹھان لی کہ اب تو میری بیٹی ماں بنے والی ہے۔ عدنان ضرور اس کے نام مکان لکھ دے گا تا کہ یہ بعد میں کبھی بے گھر نہ ہو۔ میں تو انجان تھی کہ آنے والا وقت میرے لئے کون سی آندھی لانے والا ہے۔ گھر میں ابرار بھائی کے اوباش دوستوں کا بھی آنا جانا رہتا تھا اور یہ بات پھپھو اور عدنان کو پسند نہ تھی۔ ایک دن عدنان مجھے لینے آیا تو سامنے ابرار کے دوست بیٹھے ہوئے تھے۔ عدنان کے منانے پر میں تو مان جاتی مگر امی نے ہم دونوں کو اکیلا نہ چھوڑا اور مجھے ان کے ہمراہ جانے سے بھی روک دیا۔ وہ واپس چلے گئے کیونکہ امی نے صاف کہہ دیا تھا۔ اپنا مکان میری بیٹی کے نام لکھ دو تو ٹھیک ہے ورنہ اسے بھول جاؤ ۔ جب تک گھر اس کے نام نہ کرو گے، میں اس کو تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گی۔ اگر ہم نے ایک لنگڑے کو قبول کیا ہے، اتنی حسین بیٹی دی ہے تو اب تم لوگ بھی ہماری قربانی کا صلہ اسی صورت میں دو کہ کبھی زندگی میں میری بیٹی بے گھر نہ ہو سکے۔ امی تو میرے امید سے ہونے کو ہتھیار بنا کر ان لوگوں کو دبا رہی تھیں ۔ مگر پھپھو بھی غصے میں آگئیں۔ وہ اپنی جگہ یہ سوچتی تھیں کہ میں نے تو سونیا کو ایک جواری کے ہتھے چڑھنے سے بچایا اور انہوں نے میری مہربانی کا یہ صلہ دیا ہے۔ خدا جانے میاں بیوی نے کیا صلاح کی کہ عدنان کو مجبور کر دیا کہ مکان دینے کی بجائے وہ مجھے طلاق دے دے۔ عدنان نے خط لکھ بھیجا کہ سونیا کی کوکھ میں جو بچہ ہے، وہ میرا نہیں ہے لہذا میں اسے نہ رکھوں گا۔ پس نوبت طلاق تک آگئی۔

اللہ تعالیٰ نے مجھے بیٹی دی مگر میری اماں جان نے بیٹی کا گھر بسانے کی بجائے مجھے بے گھر کر ڈالا۔ نہ صرف میری زندگی برباد ہوئی بلکہ میری معصوم بچی بھی باپ کے پیارے ہمیشہ کے لئے محروم ہو گئی ۔ اس واقعہ کوئی کئی برس گزر چکے ہیں۔ بیٹی اب مجھ سے اپنے والد کے بارے سوالات کرتی ہے۔ پوچھتی ہے کہ کیوں آپ میرے ابو کے گھر سے نکلیں۔ اس کے سوال کا میرے پاس جواب نہیں ہے۔ مجھے گھر دلوانے کے لالچ میں ماں نے میری زندگی اور میری بچی کا مستقبل داؤ پر لگا دیا۔ پھوپھا تو پہلے ہی نہیں چاہتے تھے کہ ایک جواری کی بیٹی کو بہو بناؤں، یہ تو پھوپی کی نیک نیتی تھی۔ ان کے خاوند کو بہانہ مل گیا مجھے گھر بدر کرنے کا ، حالانکہ عدنان بھی بالکل ایسا نہ چاہتے تھے۔ وہ تو اولاد ہونے پر خوش تھے مگر ان کے اختیار میں کیا تھا، وہ کلی طور پر اپنے والد کے دباؤ میں تھے۔ آج جب اپنا گھر ، اپنے شوہر کا پیار اور وہ پرسکون دن یاد آتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ پہلے ماں کھیتوں میں مزدوری کرتی تھی، اب میرا بھی یہی مقدر ہو چکا ہے۔ سارا دن امی کے ہمراہ چلچلاتی دھوپ اور کڑ کڑاتی سردی میں مشقت کی چکی میں پستی ہوں اور جب ماتھے سے پینے کے قطرے گرتے ہیں۔ یہی دعا کرتی ہوں اے اللہ جیسی میری قسمت ہے ویسی میری بیٹی کی نہ ہو۔ اُسے پڑھانا لکھانا چاہتی تھی۔ مگر گاؤں والے تو لڑکیوں کو پڑھانے پر بھی سو سو باتیں کرنے لگتے ہیں۔ خدا جانے آگے پڑھ کر ماں کی طرح کیا گل کھلائے گی ؟ گاؤں کی عورتوں کے منہ سے یہی الفاظ نکلتے تھے۔ لوگ مجھے مورد الزام ٹھہراتے کہ مکان لکھوانے کے لالچ میں طلاق لی مگر میں کس کو الزام دوں ۔ اپنی ماں کو جس نے گھر کا مطالبہ کیا یا اُس باپ کو جس نے سب کچھ جوئے میں اُڑا دیا یا اُس بھائی کو کہ جس کے دوستوں کی وجہ سے میرا آنچل داغدار ہوا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ میرا قصور یہ تھا میں غریب گھر میں پیدا ہوئی اور غربت سے بڑھ کر اس دنیا میں کوئی عذاب نہیں ہے۔

اب زندگی کا ایک ہی مقصد تھا کہ اپنی بیٹی کی اچھی تعلیم و تربیت کروں۔ اس لئے محنت کر کے لوگوں کا کام کر کے تنکا تنکا چن کر گھر بنایا اور کوڑی کوڑی اکٹھی کر کے بیٹی کو پڑھایا تا کہ اس کی زندگی سے جہالت کے اندھیرے دور ہو جائیں۔ آج میری بیٹی نے بی اے پاس کر لیا ہے۔ سچ ہے تپتی زمین پر چلنے سے پاؤں نہیں جلتے بلکہ انسان کندن بن جاتا ہے۔ سونیا بھی کندن بن چکی ہے۔ حالات سے ہاری نہیں بلکہ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بیٹی کا مستقبل سدھارا مگر میری اپنی زندگی تو کوئی نہیں سدھار پایا۔ والدین کے جھگڑوں سے اولاد کا ذہن تباہ ہو جاتا ہے۔ میرے ماں باپ کا کیا نقصان ہوا۔ نقصان تو میرا میری بہن اور بھائی کا ہوا ہے-چھوٹی بہن ذہنی مریض ہے اور بھائی نشے کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ اے کاش بیٹیوں کے باپ جو کھیلنے سے قبل سوچ لیں کہ ان کی اولاد کہیں اس جوئے کی عادت کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔ آج میری بچی خدیجہ تعلیم یافتہ ہے۔ خدا اس کے لئے اچھے گھرانے سے رشتہ بھی جوڑ دے گا لیکن غم ہے تو عدنان کا جو ابھی تک بیٹی کی یاد میں سلگتا ہے۔ جس نے کبھی اپنی نورالعین کو نہیں دیکھا لیکن اسے خوابوں میں دیکھتا ہوگا۔ ایسے ہی جیسے ہماری نورالعین اپنے والد کو اکثر خواب میں دیکھتی ہے۔ دونوں ہی ایک دوسرے سے ملنا چاہتے ہیں۔ ایک جگہ رہ کر سانس لینا چاہتے ہیں مگر دنیا ان کو ایک جگہ رہنے نہیں دیتی۔

Latest Posts

Related POSTS