صائب ہمارے گاؤں کا خوبصورت لڑکا اور سردار کا بیٹا تھا۔ ایک دن اسکول جانے کے لئے گھر سے نکلا تو راستے میں ایک لڑکی گل مہک نظر آئی، جو اپنی بھیڑیں چرا رہی تھی۔ اس کو وہ بہت اچھی لگی۔ اس دھیان میں اس کے قدم سست ہو گئے اور وہ تاخیر سے اسکول پہنچ سکا۔ پھر اگلے دن بھی یہی ہوا۔ آج گل مہک نے خود ہی کلام کیا۔ تم روز ادھر سے کیوں جاتے ہو ؟ کیا تمہیں خبر نہیں ہے کہ ادھر اسکول ہے اور میں اسکول جاتا ہوں۔ وہ کہنے لگی کہ مجھے شک ہے، میری ایک بھیٹر گم ہو گئی ہے۔ مہربانی ہو گی ذرا ان کو شمار تو کر دو۔ چالاک لڑکی نے کئی بار بھیٹروں کو شمار کرایا، حالانکہ کوئی جانور بھی کم نہیں ہوا تھا۔ اسی چکر میں آج پھر اسکول سے دیر ہو گئی اور اپنے استاد کے تند و تیز سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اب یہ روز کا معمول ہو گیا کہ جب صائب اسکول جانے کے لئے ادھر سے گزرتا اور مہک جھاڑ کے کانٹے کی طرح اس سے الجھ جاتی اور اسکول سے دیر کرا دیتی۔ ایک دن استاد نے اس کے باپ سے شکایت کر دی کہ کیا وجہ ہے جو آپ کا صاحب زادہ روزانہ اسکول دیر سے آتا ہے ؟ باپ نے لڑکے کو تاکید کی کہ آئندہ وقت پر اسکول پہنچنے کی کوشش کیا کرو ورنہ استاد کی چھڑی سے تمہیں کوئی نہیں بچائے گا۔ اب گل مہک اس کو روکتی، مگر وہ نہ رکتا بھاگتا ہی جاتا کہ کہیں اس کے والد پر یہ بات نہ کھل جائے کہ وہ ایک چرواہن کی زلف کا اسیر ہو گیا ہے۔ میٹرک کے امتحان جوں توں دیئے پھر گل مہک کے ساتھ سر سبز و شاداب وادیوں میں گھومنے لگا۔ ایسی باتیں کہاں چھپتی ہیں ان کی ملاقاتوں کی خبریں چاروں جانب پھیلنے لگیں۔ سردار صاحب کو بھی پتا چل گیا۔ انہوں نے لڑکی کے باپ کو بلا کر تنبیہ کی کہ اپنی بیٹی کو سنبھالو یا گھر میں بند رکھو۔ اس کی وجہ سے ہماری عزت خاک میں مل گئی ہے۔ سردار سے سب خوف کھاتے تھے۔ مہک کے باپ نے بیٹی کو برا بھلا کہا اور اس کا گھر سے باہر نکلنا بند کر دیا۔ اگلے دن صائب اس کا انتظار کر کے لوٹ آیا مگر وہ ملاقات کرنے نہیں آئی بالآخر صائب کو اس کی سہیلی کا سہارا لینا پڑا۔ مہوش نے بتایا کہ اس کے باپ کو پتا چل گیا ہے اور اس نے مہک کے گھر سے نکلنے پر پابندی لگادی ہے۔ سہیلیاں ایسے معاملات میں اکثر بڑی مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔ مہک نے بھی اس کا سہارا لیا اور چوری چوری اپنے محبوب سے ملنے آ گئی۔ صائب کو دیکھ کر وہ رونے لگی۔ بولی کہ اب ہمارا ملنا نا ممکن ہے کیونکہ یہاں تو تمہارے باپ کا حکم چلتا ہے۔ بہتر ہے کہ ہم کسی اور شہر کو نکل جائیں، ورنہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو ترس جائیں گے۔ جانثار سہیلی نے کہا کہ کل فلاں وقت رات کو میں مہک کو لاؤں گی۔ تم بھی آجانا اور اس کو یہاں سے شہر لے جانا۔ اگلے دن سہیلی نے مہک کی ماں کی منت کی کہ اس کو جانے کی اجازت دے دو، میرے گھر میں سہیلیوں کی دعوت ہے مگر ماں نے اجازت نہ دی۔
سہیلی چلی گئی لیکن گل مہک کو کسی کروٹ چین نہیں تھا۔ آدھی رات کو وہ اس جگہ اکیلی چلی گئی جہاں صائب اس کا انتظار کر رہا تھا۔ دونوں رات کی تاریکی میں نامعلوم سمت روانہ ہو گئے۔ رات بھر سفر کر کے صبح ایک گاؤں پہنچ گئے، یہاں صائب کا دوست رہتا تھا۔ دوست کے باپ نے اپنی جیپ اور کچھ آدمی دیئے ، جو ان کو آگے میدانی علاقے میں چھوڑ آئے۔ یہاں سے دونوں لاہور اپنے دوست کے گھر آئے۔ اس نے ان کو صرف دو دن رکھا، پھر اپنے ایک اور دوست کے گھر بھیج دیا جو شیخو پورہ میں رہتا تھا۔ اُدھر سردار صاحب نے تندہی سے ان دونوں کی تلاش شروع کروا دی، ساتھ ہی بیٹے کی فوٹو بھی اخبار میں شائع کروا دی کہ جو کوئی اس کے بارے میں بتائے گا، پچاس ہزار روپے کا انعام پائے گا۔ اخبار وہاں بھی آیا جہاں دونوں چھپے ہوئے تھے۔ صائب ڈر گیا کہ اب اس کا دوست اس کو حوالہ پولیس کر دے گا مگر اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ کہا کہ بہتر ہے تم لوگ اپنا کوئی اور ٹھکانہ تلاش کر لو۔ اس نے سیالکوٹ جانے کا ارادہ کیا، وہاں اس کا ماموں رہتا تھا، اب وہی اس کو پناہ دے سکتا تھا۔ جو نہی وہ موٹر سائیکل پر سوار ہو کر نکلا ایک آدمی نے اس کو پہچان لیا کیونکہ اس کے ہاتھ میں اخبار تھا، جس میں اس کی تصویر چھپی تھی۔ وہ آدمی اس کا پیچھا کرنے لگا، تاہم صائب اس کے ہاتھ نہ آیا۔ دوسرے دن وہ پھر مجبور ہو کر ماموں کے گھر جانے کو نکلا۔ ابھی سڑک پر آیا ہی تھا کہ ایک پولیس والے نے اس کا پیچھا شروع کر دیا ۔ وہ دوکان پر ٹھہر گیا۔ اچانک وہاں پولیس کی گاڑی آ گئی۔ صائب کی نظر اس پر پڑی تو وہ تیزی سے موٹر سائیکل کو سڑک پر بھگانے لگا۔ پولیس کی گاڑی اس کے پیچھے تھی۔ صائب نے گھبرا کر موٹر سائیکل اور بھی تیز کر دی اور آگے سے آتے ہوئے ٹرک سے جا ٹکرایا۔ وہ ٹرک میں اڑ کر جا لگا اور بے ہوش ہو گیا، لوگ جمع ہو گئے ، تعاقب میں آنے والی گاڑی بھی ٹھہر گئی، ٹرک بھی آگے جا کر رک گیا۔ اس کو اسپتال لے گئے مگر وہ ختم ہو چکا تھا۔ یوں ایک نوجوان محبت کے اندھے جذبے پر شار ہو گیا۔
جب کافی دیر تک وہ نہیں لوٹا تو دوست کو تشویش ہوئی، ادھر گل مہک بھی گھبرا گئی۔ دوست باہر نکلا اور ادھر ادھر پوچھ کچھ کی تو لوگوں نے بتایا کہ ایک نوجوان کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے ، جس کو پولیس لے گئی ہے اور موٹر سائیکل بھی ساتھ لے گئے ہیں۔ یہ سن کر وہ ڈر گیا کہ اب یقینا لڑکی کو چھپانے کے الزام میں وہ پکڑا جائے گا۔ اس نے مہک کو اس کے گاؤں جانے والی بس میں بٹھا دیا۔ اب گل مہک کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تھا کہ وہ اجنبیوں سے بھری دنیا میں دردر کی ٹھوکریں کھاتی پھرے یا پھر ماں باپ کے پاس لوٹ جائے۔ وہ سمجھدار تھی، سوچا، مرنا تو ہے۔ کیوں نہ اپنے ہی گھر جا کر مروں۔ غیروں کے ہاتھوں کھلونا بننے اور ذلیل ہونے سے تو بہتر ہے، باپ بھائی کے ہاتھوں عزت کی موت مر جاؤں۔ بس ابھی تک لاری اڈے پر رکی ہوئی تھی کیونکہ کافی سیٹیں خالی پڑی تھیں۔ گل مہک افسردہ اور اداس بیٹھی تھی۔ رات سے اس نے کچھ نہ کھایا تھا، بھوک پیاس سے اس کا بلڈ پر یشر لو ہوتا جارہا تھا۔ وہ بے حد نقاہت محسوس کرنے لگی، اسے لگا جیسے وہ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے بے ہوش ہو جائے گی، تبھی کسی نے ہولے سے پکارا۔ کیا بات ہے بی بی ! تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ دراصل دو افراد بغور اس کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے تھے ۔ وہ جلد ہی سمجھ گئے کہ یہ بے آسرا ہے اور کسی پریشانی کے تحت تنہا سفر کر رہی ہے۔ جب ایک مرد نے ہولے سے اس کا کندھا تھپتھپایا تو اس نے دقت کے ساتھ اپنا جھکا ہوا سر اٹھا کر دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں چند بسکٹ اور چائے کی پیالی تھی۔ یہ میں اپنے لئے لایا تھا۔ اس نے کہا۔ لیکن جو نہی اپنی سیٹ پر بیٹھنے لگا مجھے محسوس ہوا کہ تم کچھ کمزوری محسوس کر رہی ہو کیا سچ مچ تم بیمار ہو ؟ میں بیمار نہیں ہوں۔ مرد نے اصرار کر کے چائے کی پیالی اور بسکٹ کا پیکٹ اس کے ہاتھوں میں تھا یا تو وہ انکار نہ کر سکی اور کپ اس سے لے لیا۔
چکر تھم گئے او بے شک انسان کتنا دکھی اور غمگیں کیوں نہ ہو بھوک پیاس کی حقیقت اپنی جگہ ہے۔ ایک نیم گرم پیالی اور چند بسکٹ، اس وقت اسے آب حیات لگی اور اس کے تن مردہ میں جیسے کھلا سانس آنے لگا۔ اس نے پوری طرح آنکھیں کھول کر دیکھا۔ وہی شخص جس نے چائے لا کر دی تھی، اپنے ساتھی کے ہمراہ تھوڑے سے فاصلے پر اسے اپنی نگرانی کرتا محسوس ہوا۔ اس کی نظریں بار بار کھڑ کی کی جانب اٹھ رہی تھیں۔ وہ چاہتی تھی کہ خالی کپ اس شخص کو واپس کر دے، وہ اپنا پرس کھول کر پیسے بھی نکالنے کا ارادہ کر چکی تھی تا کہ بسکٹ کے پیکٹ اور چائے کی قیمت بھی چکا سکے۔ اجنبی نے بھانپ لیا لڑ کی اس کی منتظر ہے۔ وہ کھڑ کی کے قریب آگیا مہک نے کپ اور سو کانوٹ اس کی طرف بڑھایا۔ رہنے دو، اپنے پرس میں واپس رکھ دو۔ میں نے پیسے ادا کر دیئے ہیں۔ کیا تم اکیلی سفر کر رہی ہو ؟ اس نے سوال کیا۔ ہاں۔ مہک نے جواب دیا۔ وہ جھوٹ نہیں بول سکتی تھی۔ یقیناً جان چکا تھا کہ وہ اکیلی ہے۔ کہاں جانا ہے ؟ اس ۔ ہے ؟ اس نے دوسرا سوال کر دیا۔ بالآخر بتہ آخر بتانا ہی پڑا۔ تم غلط بس میںبیٹھ گئی ہو ، یہ بس ادھر کو نہیں جائے گی، تم کو کس نے اس میں بٹھایا ہے ؟ میرے ایک رشتے دار نے۔ تبھی اجنبی نے اسے غور سے دیکھا۔ گل مہک کے چہرے سے رنگ اور مہک سب اڑے ہوئے تھے۔ اس کا چہرہ اس قدر مر جھایا ہوا اور آنسوؤں سے دھلا لگ رہا تھا جیسے ابھی ابھی اپنے کسی پیارے کی میت سے اٹھ کر آئی ہو۔ وہ رشتہ دار بس کے روانہ ہونے تک رکا کیوں نہیں ؟ اسے جلدی تھی، واپس جانے کی۔ اچھا، ٹکٹ تو ہو گا تمہارے پاس ، مجھے دکھاؤ۔ مہک نے پرس سے نکال کر ٹکٹ دکھا دیا۔ یہ تو کوئی تمہارا دشمن ہی کر سکتا ہے ، جس نے تم کو غلط بس میں بٹھا دیا ہے۔ یہ تو ہے۔ یہ تو خو شاب تک کا ٹکٹ ہے نہ کہ نوشہرہ کا اور نہ وادی سون کا … وہ گھبرا گئی۔ اسے تو وادی سون کا رستہ بھی پتا نہ تھا۔ آتے ہوئے صائب ساتھ تھا۔ زندگی میں پہلی بار گاؤں سے نکلی تھی، بھلا اسے ان راستوں ، بسوں، لاریوں، اور ویگنوں کی کیا خبر تھی۔ ابھی وہ سوچوں میں گم تھی کہ مسافر ایک کے بعد ایک سوار ہونے لگے، تبھی وہ اتر گئی کیونکہ اب بس چلنے والی تھی۔
وہ اجنبی اسے عورتوں کے لئے مخصوص انتظار گاہ میں لے گیا اور بولا۔ یہاں بیٹھ جاؤ، ناشتہ و غیرہ کر لو۔ ابھی وادی سون کی طرف جانے والی بس کے آنے میں کافی ٹائم ہے۔ مہک نے ناشتے سے انکار کر دیا۔ آنکھوں میں تو صائب کے ایکسیڈنٹ کا منظر جما ہوا تھا، دل میں اس کی جدائی کا دور د لہریں لے رہا تھا۔ کہاں کا ناشتہ اور کھانا، بس چائے کافی ہو گئی۔ اسے انتظار گاہ میں چھوڑ کر ا جنبی اور اس کا ساتھی بظاہر معلومات کی خاطر ٹکٹ کاؤنٹر پر چلے گئے۔ پندرہ منٹ بعد وہ لوٹے اور مہک کو بتایا کہ خوشاب جانے والی بس تو صبح چلی گئی تھی اور اب وہ بس کل صبح آئے گی۔ یہ سن کر مہک پریشان ہو گئی ۔ تم رات کہاں رہو گی؟ جہاں کہتی ہو ہم تم کو پہنچا دیتے ہیں۔ کل صبح سات بجے سے قبل ادھر آجانا، وادی سون والی سواری تم کو مل جائے گی۔ وہ گنگ بیٹھی تھی۔ لگتا ہے ، رات رہنے کو تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ اگر مجھ پر بھروسہ کرو تو میرے ساتھ میرے گھر چل سکتی ہو۔ گھر میں میری بیوی بچے ہیں۔ رات ان کے پاس رہ جانا، صبح تم کو تمہارے علاقے کو جانے والی بس میں سوار کر دیں گے۔ میں یہاں انتظار گاہ میں بیٹھ کر رات گزار لوں گی۔ تمہاری مرضی ہے۔ مسافر تو آدھی رات تک چلے جائیں گے ، یہ جگہ تمہارے لئے محفوظ نہیں ہے، پولیس بھی رات کو چیکنگ کرتی ہے۔ مگر وہ ان اجنبیوں کے ساتھ کسی طور جانے پر راضی نہ تھی، تبھی اس شخص نے اپنے ساتھی سے کہا۔ چلو چلتے ہیں۔ ہماری بس نکل جائے گی۔ دیر نہ کرو، یہ لڑکی تو ہمیں لے ڈوبے گی۔ بس واقعی آہستہ آہستہ اڈے سے نکل رہی تھی۔ وہ دونوں تیز قدموں سے چلے، تبھی مہک نے خود کو اکیلا اور غیر محفوظ محسوس کیا اور اجنبی کو پکارا۔ اجنبی ٹھہر گیا۔ دونوں نے بس کو جانے دیا اور اس کی طرف لوٹ آئے۔ ہاں، بولو۔ اب تو ہماری بس بھی نکل گئی ہے۔ ناچار وہ اٹھ کر ان کے ساتھ چل دی۔ وہ اسے کچھ آگے لے آئے، جہاں ایک کار موجود تھی۔ انہوں نے اسے کار میں بیٹھنے کو کہا۔ اس کے سوا چارہ کیا تھا کہ وہ خود کو قسمت کے حوالے کر دے۔ وہ دھڑکتے دل کے ساتھ خدا کو زیر لب پکارتی جارہی تھی۔ جانے اس کی منزل کہاں تھی اور آگے کیا ہونے والا تھا کہ دفعتاً ان لوگوں نے گاڑی کو بریک لگائی اور کچے میں اترنے لگے ۔ گل مہک کا دل دھک دھک کرنے لگا اسے سامنے پولیس کی گاڑیاں نظر آئیں۔
انہوں نے سڑک کی ناکہ بندی کی ہوئی تھی۔ آنا فانا پولیس نے ان کو گھیرے میں لے لیا۔ تینوں کو کار سے اتار لیا گیا۔ مہک کی نظر پولیس کے ساتھ آئے سردار پر پڑی۔ وہ سردار کو دیکھ کر ڈر گئی۔ جب سب تھانے آگئے تو سردار نے تھانے دار سے کہا۔ یہ ہماری اپنی بچی ہے، اسے حوالات میں رکھنے یا کوئی قانونی کاروائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مہک سمجھی شاید پولیس اسے بچالیتی لیکن سردار ضرور اسے کسی کھائی میں پھینکنے جارہا ہے۔ وہ اس شخص سے نہ بچ سکے گی وہ رو رہی تھی، کیونکہ سردار کو بیٹے کے حادثے کا زخم لگ چکا تھا، لیکن وہ اس درد کو سینے میں دبائے مہک کی تلاش میں نکلا تھا کہ اس کے گاؤں کی بچی کہیں غلط ہاتھوں میں نہ چلی جائے۔ اس کے گاؤں کی عزت آبرو، عفت و عصمت کی مہک سے محروم نہ ہو جائے۔ ماں باپ اپنے بچوں کو جو بھی سزاد یں مگر ان کو یہ گوارا نہیں ہوتا ہے کہ کوئی اور ان کو سزا دے یا وہ کسی بد قماش کے ہتھے چڑھ کر ان کے ظلم کا شکار ہوں۔ سردار نے اپنا بیٹا کھو دینے کے باوجود اپنے گاؤں کی بیٹی کو اغوا ہونے سے بچا لیا تھا۔ اس نے اس کے والدین کے حوالے کر کے کہا کہ میرے بیٹے کی قسمت میں ایسی موت ہی لکھی تھی۔ وہ سڑک پر جاں بحق ہوا، سو ہو گیا۔ میں اللہ کی رضا پر راضی ہوں۔ صد شکر کہ مہک مل گئی ہے اور ہمارے گھر کی عزت خاک ہونے سے بچ گئی۔ ایسے ہوتے ہیں سردار ، جو سر اونچا ہی رکھتے ہیں، چاہے فرش پر ہوں یا تختہ دار پر ، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سر بڑے سرداروں کے۔ جو حقیقی معنوں میں سردار ہوتے ہیں ان کے سر (عقل) ہی نہیں دل بھی بڑے ہوتے ہیں۔