گائوں میں ہمارا گھرانہ خوشحال اور ہم معزز لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ میں نے میٹرک کیا تو منگنی چچازاد سے ہوگئی۔ میں تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکی۔ دلشاد میرے ساتھ پڑھتی تھی، وہ میری بچپن کی سہیلی تھی۔ اس نے تیسری جماعت سے اسکول کو خیرباد کہہ دیا۔ اس طرح ہماری دوستی بھی جاری نہ رہ سکی۔ ہمارے خاندان میں چادر اور چار دیواری کی پابندی لازم تھی جبکہ دلشاد پردہ نہ کرتی تھی۔ اس کا تعلق محنت کش طبقے سے تھا۔ خواتین کو کھیتوں میں کام کرنا پڑتا تھا۔ شادو بھی عورتوں کے ہمراہ کھیتوں میں کام کرتی تھی۔ اسی وجہ سے اس سے میری ملاقات شاذ ہی ہوتی۔
جب تک اس کی شادی نہ ہوئی، اپنی خالہ کے گھر پروان چڑھی۔ ماں کے انتقال کے بعد اس کے باپ نے دوسری شادی کرلی۔ سوتیلی ماں برا برتائو کرتی تھی۔ باپ نے بہتر جانا کہ شادو کو اس کی خالہ کو سونپ دے۔ شادو کی خالہ کا گھر ہمارے برابر میں تھا۔ وہ بچپن میں سارا دن ہمارے آنگن میں کھیلا کرتی تھی۔ بارہ برس کی عمر میں اس کا باپ شادو کو اپنے گھر لے گیا کیونکہ اس کی دوسری بیوی سے تین بچے ہوگئے تھے جو چھوٹے تھے۔ ماں کو تنگ کرتے تھے، گھر سنبھالنے کے لیے ان کو شادو کی ضرورت تھی۔ وہ روتی ہوئی چلی گئی۔ اس دن کے بعد سے اس کا ہمارے ہاں آنا متروک ہوگیا۔ کچھ عرصے بعد سنا کہ اس کی شادی سوتیلی ماں کے بھانجے سے ہوگئی ہے۔ سگی خالہ بھی شادو کا رشتہ لینا چاہتی تھی مگر سوتیلی والدہ نے ایسا نہ ہونے دیا۔ اس بات کا شادو کو ازحد دکھ تھا۔
جب سوتیلی ماں اچھی نہ تھی تو اس کی بہن کیسے اچھی ہوتی۔ کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ شادو کی ساس اس پر سخت پابندیاں رکھتی ہے، تبھی چاہتے ہوئے بھی وہ اپنی سگی خالہ کے گھر نہیں آسکتی تھی۔ یہ سردیوں کے دن تھے۔ میرا بھائی فصیح شہر سے چھٹیوں میں گھر آیا ہوا تھا۔ وہ شہر پڑھنے گیا ہوا تھا اور وہاں کالج کے ہاسٹل میں رہتا تھا۔ فصیح جب گائوں آتا، صبح واک کے لیے ضرور دریا کی طرف جاتا تھا۔ یہ اس کا معمول تھا۔ اس روز بھی وہ سردیوں کی دھوپ کا مزا لینے دریا کنارے چلا گیا۔ سردیوں کی خنکی میں دھوپ کی تمازت خوب لطف دے رہی تھی اور دریا کا پُرفضا کنارا روح کو سرور بخش رہا تھا۔ صبح کے دس بجے تھے۔ جب وہ دریا سے لوٹ کر آرہا تھا راستے سے گزرتے ہوئے ٹھٹھک گیا۔ اسے لگا جیسے کسی نے کنکر مارا ہو۔ اِدھر اُدھر دیکھا کوئی نظر نہ آیا۔ سامنے ہی ہمارے چچا کا گھر تھا جو دو منزلہ تھا۔ گمان ہوا شاید کنکر ادھر سے آیا ہو لیکن وہاں کوئی دکھائی نہ دیا۔
ایک قدم آگے چلا تھا کہ ایک چھوٹا سا کنکر دوبارہ آکر لگا۔ فصیح نے مڑ کر دیکھا۔ اپنے پیچھے اسے ایک الہڑ مٹیار آتی دکھائی دی۔ وہ اتنی خوبصورت تھی کہ بس وہ اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ یہ اٹھارہ برس کی شادو تھی۔ سر پر پانی کا گھڑا اٹھائے سہج سہج چلتی آرہی تھی۔ وہ اس وقت دریا سے گھڑا بھر کر لوٹ رہی تھی۔ شادو کو میرے بھائی نے بہت عرصہ قبل دیکھا تھا۔ پہلی نظر میں پہچان نہ سکا۔ جونہی وہ قریب سے گزری، ایک اور کنکر فضا میں سنسناتا ہوا آیا اور اس کے گھڑے پر زور سے لگا۔ بھائی کی محویت ٹوٹی مگر اس کا گھڑا بھی ٹوٹ گیا۔ وہ بچاری گھڑے کے پانی میں نہا کر شرابور ہوگئی۔ اس ناگہانی آفت سے گھبرا کر اس نے فصیح کو خشمگیں نگاہوں سے گھورا کیونکہ وہ اس کے قریب ترین تھا۔ شادو سمجھی یہ فصیح کی شرارت ہے۔ وہ غصے سے بولی۔ کیا تمہیں شہر میں یہی پڑھاتے ہیں کہ دوسروں کو تنگ کیا کرو؟ ان کے گھڑے کنکر مار کر توڑ دیا کرو۔ وہ توپانی میں شرابور تھی مگر اس کے ایسا کہنے پر فصیح بھی پانی پانی ہوگیا حالانکہ یہ حرکت میرے بھائی سے سرزد نہ ہوئی تھی۔ شادو سردی سے بری طرح کپکپا رہی تھی۔ فصیح کو افسوس ہوا۔ بولا۔ یقین کرو میں نے تمہارا گھڑا نہیں توڑا، نجانے یہ پتھر کہاں سے آیا ہے۔ کیا جنوں نے پھینکا ہے؟ یہاں تمہارے سوا کون ہے۔ بھائی کی نگاہ دفعتاً سامنے چچا کے مکان کی چھت کی جانب گئی جہاں اس کی منگیتر سعدیہ دکھائی دی۔ پل بھر کو اس نے جھانکا اور پھر نیچے بیٹھ گئی۔ شادو اسے نہ دیکھ سکی لیکن فصیح سمجھ گیا کنکر سعدیہ نے مارا ہے۔ یہ سعدیہ کی حرکت تھی۔ اپنے منگیتر کو دیکھ کر اسے شرارت سوجھی مگر ایک کنکر پیچھے آتی شادو کے گھڑے پر بھی جا لگا۔ فصیح نے شادو کو بتانا مناسب نہ سمجھا کہ کنکر سعدیہ نے مارا ہے۔ اس نے خاموشی اختیار کرلی۔
شادو! یقین کرو یہ کنکر میں نے نہیں مارا۔ اگر تم کو میرا یقین نہیں ہے تو بے شک نہ کرو۔ مجھے معاف کردو کہ میں تمہارے راستے میں آگیا۔ پھر احتراماً اپنی چادر اس کی طرف بڑھا کر ملتمس ہوا۔ تمہیں سردی لگ رہی ہے، یہ اوڑھ لو۔ میدان میں کچھ بچے گیند سے کھیل رہے تھے، اچانک گیند ادھر آگئی جہاں یہ دونوں کھڑے تھے۔ ایک بچہ بھاگتا ہوا آیا اور ان کے پاس آکر رک گیا۔ میں تیری چادر کیوں اوڑھ لوں، کیا یہ چادر اوڑھ کر میرا گھر جانا مناسب ہوگا؟ کیا میری ساس پوچھے گی نہیں کہ تو نے یہ کس کی چادر اوڑھی ہوئی ہے، کیا وہ میرا برا حشر نہ کردے گی؟
میں نے اس خیال سے کہا کہ تمہیں گھر تک اس سردی میں بھیگے کپڑوں میں جانا پڑے گا، بیمار نہ ہوجاؤ۔ اس پر شادو کی بجائے اس لڑکے نے جواب دیا جو گیند ہاتھ میں لئے قریب کھڑا تھا۔ لالہ جی! یہ میری چاچی ہے، میں ابھی دوڑ کر گھر سے چادر لے آتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ گھر کی جانب دوڑ گیا۔ میری ساس بہت سخت ہے۔ جانے اب وہ کیا حشر کرے میرا اس حلیے میں دیکھ کر، نجانے تجھے کیا ملا میرا گھڑا پھوڑ کر… اُف کیا کروں؟
بھائی نے کہا۔ اچھا یہ لو بیس روپے، نیا گھڑا خرید لینا۔ وہ سمجھا کہ شاید شادو کو گھڑے کے ٹوٹنے کا صدمہ زیادہ ہے۔ دوبارہ کہا۔ اچھا! یہ لو سو روپے، اپنا نقصان پورا کرلینا۔ ایک نہیں دو گھڑے خرید لینا۔ دیہاتی غریب لوگ ہوتے ہیں، اپنا تھوڑا سا نقصان بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ بھائی نے نوٹ اس کی طرف بڑھایا تھا۔ اسی وقت لڑکا اپنے گھر سے چادر لے کر آگیا۔ بھائی کو نوٹ شادو کی طرف بڑھاتے دیکھا تو ٹھٹھک گیا۔ بولا۔ یہ کیا ہورہا ہے چاچی! ابھی جاکر بتاتا ہوں دادی کو، نوٹ لیتی ہے غیر مرد سے! وہ تجھے بہت مارے گی دیکھ لینا۔ لڑکا گھر کی طرف دوبارہ بھاگا۔
سن لیا کیا کہا ہے اس نے؟ اب میرا جو حشر ہونے والا ہے، وہ بھی سن لینا۔ یہ کہہ کر شادو اپنے گھر کی جانب روانہ ہوگئی۔ اس کے جانے کے بعد بھائی افسردہ سا گھر میں داخل ہوا۔ امی نے پوچھا۔ بیٹا! ناشتہ لائوں؟ نہیں ماں! بھوک نہیں ہے۔ طبیعت تو ٹھیک ہے؟ دوپہر ہونے لگی ہے اور تجھے بھوک نہیں ہے۔ شہر جاکر کیوں بھوک اُڑ گئی ہے تیری؟
بھائی نے کچھ نہ بتایا، بس پتھر کی مورت بنا بیٹھا رہا۔ آدھ گھنٹے بعد وہ بغیر کسی کو کچھ بتائے پھپھو کے گھر چلا گیا۔ پھپھو کے بیٹے اشرف سے اس کی دوستی تھی۔ شام کو لوٹا تو والدہ سخت برہم تھیں۔ فصیح کو دیکھتے ہی برس پڑیں۔ کہاں چلے گئے تھے تم؟ ہمیں اس گائوں میں رہتے برسوں ہوگئے، کبھی ہم سے گائوں والوں کو شکایت نہیں ہوئی۔ آج تو نے یہ کیا حرکت کی؟ کیا اماں! میں سمجھا نہیں؟
تو نے تمیزے کی گھر والی کو چھیڑا، کنکر مار کر اس کا گھڑا پھوڑ دیا۔ ماں! ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ لوگ بس بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں۔ تو نے شادو کو نہیں چھیڑا؟ اس کا گھڑا نہیں توڑا؟ اسے نوٹ نہیں دے رہا تھا تو پھر کس بات کی مار پڑ رہی ہے اسے۔ اس کے دیور کا لڑکا وہاں کھڑا تھا اور یہ سب کچھ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ شادو کی ساس آئی تھی میرے پاس، مجھے سب بتا کر گئی ہے۔ آخر کیا تعلق ہے شادو کا تجھ سے، کیوں پیسے دے رہا تھا تو اسے؟
بھائی سر جھکائے بیٹھا تھا اور ماں بولے جارہی تھی۔ گائوں کی بہو، بیٹیاں ہم سب کی بہو، بیٹیاں ہوتی ہیں۔ تمہارے بابا کو جب یہ لوگ بتائیں گے تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل رہیں گے؟ تو جانتا ہے کہ بچاری شادو کا کیا حال کیا ہے انہوں نے، بہت مار پڑی ہے اسے، بدن نیلا کر ڈالا ہے ان ظالموں نے تمہاری اس حرکت کی وجہ سے! اس شیطان چھوکرے نے نہ جانے کیا باتیں اس کی ساس سے جاکر جڑی ہیں۔ اب اس لڑکی کا بچنا محال ہے۔ سر سے پائوں تک بھیگی ہوئی گھر جب پہنچی تو کون اس لڑکے کی بات کا یقین نہ کرتا۔
یہ ساری باتیں سن کر میرے کان کھڑے ہوگئے۔ یقین نہ آرہا تھا کہ میرا بھائی ایسی مذموم حرکت کرسکتا ہے۔ میں نے موقع پاتے ہی فصیح سے پوچھا۔ سچ بتائو بھائی! کیا آپ نے ایسا کیا؟ مجھے یقین نہیں آرہا۔ سچی بات ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میں دریا سے لوٹ رہا تھا، وہ راستے میں مل گئی۔ ایک کنکر مجھے لگا، دوسرا اس کے گھڑے پر پہلے تو میری سمجھ میں نہ آیا کیا ہوا کیونکہ میدان میں دور لڑکے دوسری طرف کھیل رہے تھے۔ ان کا پھینکا پتھر ہمیں نہ لگتا۔ سامنے دیکھا تو سعدیہ اپنے گھر سے جھانک کر غائب ہوگئی۔ سمجھ گیا یہ اسی کی کارستانی ہے۔ مجھے اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے اس نے جو دوسرا کنکر مارا، وہ شادو کے گھڑے کو لگا۔ میں سعدیہ کا نام کیسے لیتا، شادو گائوں بھر میں شور ڈال دیتی اسی لئے چپ ہوگیا۔
مجھے یقین آگیا میرا بھائی صحیح کہہ رہا ہے۔ چاہتی تھی کہ اماں کو یہ بات بتا کر ان کی غلط فہمی دور کردوں لیکن فصیح نے سختی سے منع کردیا۔ ہرگز سعدیہ کا نام زبان پر مت لانا۔ اماں، ابا کو کہیں گی اور ابا، چچا سے جاکر بولیں گے۔ بات کہاں سے کہاں جا پہنچے گی۔
بھائی کے منع کرنے پر میں نے بھی لب سی لئے افسوس ضرور تھا کہ ناحق شادو پر ظلم ہوا اور اب انہوں نے اس کا گھر سے باہر نکلنا دشوار کردیا تھا۔ اسے کوٹھری میں بند کردیا تھا کہ اس کا باپ شہر گیا ہوا تھا۔ سسرال والوں کا کہنا تھا کہ وہ شہر سے لوٹ کر آئے گا تو پھر اس کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔ بھائی نے اپنی منگیتر کی پاسداری میں اس امر کو بھلا دیا کہ شادو کا کیا حشر ہونے والا ہے جبکہ اس کی ساس اعلانیہ کہہ رہی تھی کہ اس کی بہو خراب ہے۔ اس کا چکر فصیح سے نجانے کب سے چل رہا ہے۔ فصیح کو جب والدہ نے یہ سب بتایا تو اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ وہ یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ یہ سیدھے سادے دیہاتی غریب لوگ اس قدر شکی اور بدگمان ہوسکتے ہیں۔ وہ تو چھٹیوں میں چند روز کے لیے شہر سے گھر آتا تھا۔ میں سعدیہ کو دل دل میں کوسنے لگی کہ اس احمق لڑکی کی چھچھوری حرکت کی وجہ سے شادو غریب کی شامت آگئی تھی۔ اب ماں بھی کیونکر اپنے بیٹے کی صفائی دینے جاسکتی تھی کہ نجانے اس بے وقوف لڑکے نے
کیا جاکر اپنی دادی کو بتایا تھا۔ میں نے بھائی کو سمجھایا۔ ماں کو بتا دو کہ پتھر سعدیہ نے اپنی چھت سے مارا تھا تمہیں چھیڑنے کی خاطر لیکن یہ بات شادو کے سسرالیوں کو کیونکر کہی جاسکتی تھی، سعدیہ ان کی ہونے والی بہو تھی۔
اگلے دو دنوں میں یہ بات معلوم ہوگئی کہ شادو کی ساس نے معاملے کو اس قدر ہوا دے دی ہے کہ گھر کے مرد شادو کی جان کے درپے ہوگئے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہم فصیح کو بھی دیکھ لیں گے۔ بڑے باپ کا بیٹا ہے تو کیا ہوا، اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ غریبوں کی بہو، بیٹیوں کی طرف ہاتھ بڑھائے۔ یہ ہمارے گائوں کا پہلا واقعہ تھا جو اس رنگ میں سامنے آیا تھا۔ فصیح نے تصور بھی نہ کیا تھا کہ بات کا ایسا بتنگڑ بن جائے گا۔ بھائی نے کہا کہ میں جاکر شادو کے سسر سے ملتا ہوں اور اسے اصل بات بتا دیتا ہوں۔ تب ماں نے سمجھایا۔ بیٹا! تم وہاں اکیلے ہرگز مت جانا، یہ اَن پڑھ لوگ ہیں اور بات بات پر کلہاڑیاں نکال لیتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ بات بڑھ جائے۔ بہتر ہے کہ تم شہر چلے جائو، تمہارے والد اپنی اراضی سے آجائیں تو وہ ان لوگوں سے نمٹ لیں گے۔
والدہ کے اصرار پر بھائی شہر لوٹ گیا حالانکہ ابھی اس کی چھٹیاں باقی تھیں مگر امی نے دوراندیشی کا مظاہرہ کیا کہ بات بڑھ نہ جائے کیونکہ وہ لوگ سخت غصے میں تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے شادو کے باپ کو بلوایا اور شادو پر بدچلنی کا الزام لگا کر اسے طلاق دے دی۔ والد صاحب نے ’’چٹی‘‘ (رقم) دے کر لڑکی کے والد کا غصہ ٹھنڈا کردیا۔ باپ نے شادو کو دور کے گائوں میں ایک عمر رسیدہ شخص کے نکاح میں دے کر بدلے میں اس سے رقم لے لی یعنی اسے فروخت کردیا۔ اس طرح گائوں والوں اور اس کے رشتے داروں کا شادو سے کوئی تعلق واسطہ باقی نہ رہا۔
ہم لوگوں نے بھی چپ سادھ لی کہ جو ہونا تھا، سوہوا۔ اب یہ معاملہ دبا رہنے دیا جائے تو بہتر ہوگا ورنہ گائوں والے فصیح سے بدظن ہوگئے تو اس کا یہاں عزت سے رہنا دشوار ہوجائے گا۔ شادی کے بعد میرے شوہر ایک بار مجھے اپنے ایک دوست کے گھر لے گئے۔ یہ ایک دور کے گائوں کے زمیندار تھے، ان لوگوں نے ہماری شادی کی دعوت کی تھی۔ وہاں ان کے گھر ایک عورت کو کام کاج کرتے دیکھ کر میں ٹھٹھک گئی۔ چہرہ جانا پہچانا لگتا تھا۔ ذرا غور کیا تو لگا کہ یہ شادو ہے۔ تبھی اس کے پاس گئی اور پکارا شادو…!
اس نے کہا۔ اب پہچانا ہے مجھے، آپ کو تو میں نے دیکھتے ہی پہچان لیا تھا۔ یہ کیا حالت ہوگئی ہے تمہاری؟ تم تو واقعی پہچانی نہیں جارہی ہو؟ حالات انسان کو بدل دیتے ہیں سمعیہ بی بی! مجھے بھی حالات نے بدل دیا ہے۔
شکر ہے کہ تم مل گئیں۔ میرے دل پر منوں بوجھ تھا۔ آج بتاتی ہوں کہ وہ کنکر کس نے مارا تھا جس سے تمہارا گھڑا ہی نہیں، تمہاری قسمت بھی پھوٹ گئی تھی۔ وہ کنکر سعدیہ نے میرے بھائی کو مارا تھا، فصیح کا کوئی قصور نہیں تھا۔ خدا کے لیے اس کی طرف سے دل صاف کرلینا۔ اب دل میلا رہے یا صاف ہوجائے، اس کا کیا فائدہ… میری تو زندگی برباد ہوگئی نا! انہوں نے میری معصوم بچی بھی چھین لی اور ایک بوڑھے کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ بوڑھا غریب ہی نہیں بیمار بھی ہے۔ اللہ نے دو بچے اس شخص سے دیئے ہیں، ان کو پالنے کے لیے مشقت کرتی ہوں۔ اپنوں سے جدائی بڑی بُری شے ہے۔ میں بچپن میں ماں کے پیار سے محروم ہوئی اور میری معصوم بچی کا نصیب کہ وہ بھی بچپن میں ہی ماں کے پیار سے محروم کردی گئی۔ یہی غم ہے جس نے دیمک بن کر میرے وجود کو چاٹ لیا ہے۔ وہ صحیح کہہ رہی تھی۔ یہ شادو اب وہ شادو نہ رہی تھی کہ جس کے حسن کے سامنے چاند کی چاندنی بھی ماند پڑ جاتی تھی اور جس کے چہرے پر نظر نہیں ٹکتی تھی۔ وہ شادو اب ایک بوڑھی اور بدصورت عورت میں تبدیل ہوچکی تھی۔ (س… فیصل آباد)