سوشل میڈیا کے اس دور میں جب ہر رائٹر کا آفیشل پیج بنا ہوا ہے، انہیں چلانے کے لیے ایڈمنز کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہر ایک پیج کے باقاعدہ ایڈمن موجود ہیں۔ کچھ مرد، کچھ عورتیں جو بڑے خلوص دل سے ہر پیج کی ذمہ داریاں سنبھال لیتے ہیں اور بدلے میں کچھ بھی نہیں پاتے۔ الٹا فینز کی سوسو باتیں ہی سننے کے لیے حاضر رہتے ہیں اور بدلے میں ملتی ہیں۔ کوئی بھی کہانی پیج پر لگاتا ہو، کوئی مخصوص پیراگراف، کسی سوال و جواب کا سلسلہ یا فینز کے سوالات اور فرمائشوں کے جوابات، سب ایڈمن سنبھال لیتے ہیں۔ رائٹر اس معاملے میں بے فکر ہو کر اپنے کام پر دھیان دیتا ہے۔ میں بھی ایک ایسی ہی ایڈمن ہوں جس نے نہ صرف رائٹرز کے لیے پیجز بنائے بلکہ انہیں چلایا بھی۔ یہ کام میں پچھلے پانچ سال سے کر رہی ہوں۔ بدلے میں بھی اپنے کام کی قدر اور عزت کے سوا نہ کچھ چاہا، نہ کچھ مانگا، کیونکہ مجھے یہ کام کر کے مزا آتا ہے۔ یہ میرا شوق ہے، وقت گزاری کا شغل اور دوسروں کو دیے جانے والی سہولت بھی۔ نوشین، میری بڑی بہن، اکثر چڑ کر مجھ سے کہتی، کیا مل جاتا ہے تمہیں دس دس رائٹرز کے بیچ پیج بنا کر چلانے سے؟ اور میں جواب میں بڑے مزے سے کہتی، میں سکون اور عزت و قدر پاتی ہوں۔ نوشین تاسف سے سر ہلاتی، مفت کی ملازمہ، سارا وقت اس بے کار شوق میں برباد کر دیتی ہو اور بدلے میں کچھ نہیں پاتی۔ارے ارے، کیوں نہیں پاتی؟ میری اتنی عزت ہے بطور ایڈمن، نام ہے۔ مجھے اچھا لگتا ہے رائٹرز سے بات کر کے جب وہ میرے کام کو سراہتے ہیں، میری مشکور ہوتے ہیں۔ مجھے محبت دیتے ہیں، یہ کم ہے؟ ان میں سے اکثر رائٹرز کو نہ پیج بنانا آتا تھا اور نہ ان کے پاس چلانے کا وقت ہے۔ ایسے میں ان کی آسانی کے لیے میں کام آ جاتی ہوں۔ اس میں برا کیا ہے بھلا؟ برا کچھ نہیں ہے، میں بس اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ کوئی رائٹر یہ نہ سوچے کہ اپنے پیج کے ایڈمن کی بے لوث خدمت کے عوض انہیں کچھ دے دیا جائے۔ بھلے بھی کبھی کبھی۔ آخر ایڈمن کی بھی کچھ ضروریات ہو سکتی ہیں۔ وہ بھی انسان ہیں۔ غریب بھی ہو سکتا ہے اور مشکل میں بھی۔ جب اس دور میں ہر شے کی قیمت ہے، معاوضہ ہے تو اس کی کاوشوں کا کیوں نہیں؟ اس کی تشہیر اور کام کی بدولت رائٹرز کو کتنا فائدہ ہوتا ہے۔ اسے اس کے کام کے عوض کچھ دینا کبھی کبھار برا ہے کیا؟ ہر جگہ اور ہر وقت ستائش کافی نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ آپ کو کسی اور صورت میں بھی صلہ درکار ہوتا ہے۔
نوشین کی بات درست تھی یا نہیں، میں نہیں جانتی تھی لیکن میں نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اب یہ سب تو میرا شوق تھا۔ کسی نے مجھے مجبور تو نہیں کیا تھا۔ ہاں یہ اور بات تھی کہ ہمارے گھر کے حالات تنگ تھے۔ ابو کی ایک معمولی سی کریانے کی دکان تھی۔ ایک کمانے والا اور ہم سات کھانے والے۔ میں نہ زیادہ پڑھی لکھی تھی، نہ ہی میری باقی بہنیں کہ کوئی ہمیں نوکری دیتا۔ سو ہم اپنے باپ کا ہاتھ اس طرح بٹا سکتے تھے کہ سلائی اور ٹیوشن کے نام پر چند ہزار کما لیتے۔ اس سے ہمارا اپنا جیب خرچ پورا ہو جایا کرتا تھا۔ بھائی دونوں ابھی بہت چھوٹے تھے، وہ بھی کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ ساری ذمہ داری ابو کے کندھے پر تھی ۔ خیر تو بات ہورہی تھی مجھ بے چاری غریب ایڈمن کی۔ میں اسی ایمانداری کے ساتھ اپنا کام کرتی رہی تھی، نہ میں نے نوشین کی باتوں کا پہلے اثر کیا تھا، نہ اب لے رہی تھی۔ اس وقت میں چھ پیجز کی ایڈمن کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہی تھی کیونکہ ڈائجسٹ پڑھنا میرا شوق تھا اور اس مشغلے کے سوا میرا کوئی شغل نہیں تھا۔ لیکن پھر ایک روز کچھ ایسا ہوا کہ مجھے نوشی کی کہی باتوں سے اتفاق کرنا ہی پڑا۔ ہوا یہ کہ موبائل، جو اتنے مہینوں کی جمع پونجی کے بعد میں نے خریدا تھا، میرے ہاتھ سے چھوٹا اور نیچے گر کر ایسا خراب ہوا کہ دوبارہ ٹھیک ہونے کے لائق ہی نہیں رہا۔ اب مجھے پھر سے پاکٹ منی جمع کرنا تھی تاکہ نیا موبائل خرید سکوں۔ بطور ایڈمن کام کرنے کے لیے یہ از حد ضروری تھا۔ وقتی طور پر گزارا کرنے کے لیے میں نوشین کے جنوں والے موبائل میں سم ڈال کر کام چلانے گئی تاکہ کم از کم میسجز اور کال تو کر سکوں۔ میرے یوں اچانک غائب ہو جانے کی صورت میں کچھ رائٹرز نے مجھے میسجز کیے کہ کہاں چلی گئی ہو؟ میری غیر حاضری کی وجہ سے پیج کا کام رکا ہوا تھا۔ میں نے انہیں اپنی مجبوری بتائی تو مختلف جوابات سننے کو ملے۔ میں تمہارا انتظار کروں کہ کب موبائل ٹھیک ہو اور کام چلے؟ میں کسی دوسری ایڈمن سے کہوں گی کہ وہ میری اسٹوریز لگا دیا کرے۔ ایک پل میں، مجھے لگا جیسے ایک طرف لگا دی گئی ہوں۔ کیا پیجز پر محض اسٹوریز بھی لگانے کا کام کیا جاتا ہے؟ چیز کو ایک ایڈمن ہی چلانے کے لیے روزانہ کے حساب سے متعین کیے جاتے ہیں۔ اوکے ، میں خود کچھ کرلوں گی۔
کسی اور کا جواب آیا، موبائل نیا لے لو، اس میں کیا مشکل ہے؟ کسی کے لیے واقعی کتنا آسان حل تھا، اور اس حل کے لیے مجھے کتنے ماہ اپنی پاکٹ منی جمع کرنا تھی۔ میرے پاس ہنر تو تھا مگر پیسے نہیں تھے۔ یہ سوچتے سوچتے میرے دماغ میں یہی جوڑ توڑ رہتا کہ موبائل کہاں سے اور کیسے لوں؟ سادہ بٹنوں والا موبائل لینا آسان تھا لیکن ایک غریب ایڈمن کے لیے سیکنڈ ہینڈ ٹچ اسکرین موبائل لینا بھی مشکل تھا۔ دیکھا اسی لیے میں کہتی تھی کہ ہر جگہ انسان کو داد و تحسین کے ڈونگرے ہی کافی نہیں ہوتے۔ کہیں کہیں اور ضروریات بھی ہوتی ہیں۔ اب اتنے رائٹرز کو تو تم نے بتا دیا کہ موبائل کام نہیں کر رہا، کسی نے یہ نہیں کہا کہ چلو بہن، ہم ہی لے دیتے ہیں۔ تمہاری سالوں کی محنت کا صلہ تمہاری اس مدد کی صورت میں کر دیتے ہیں۔ جب کوئی آپ کا ہیلپر ہو، ماتحت ہو تو اس کے حالات سے بھی آگاہ رہنا چاہیے، اور مشکل وقت میں بنا اس کے کہے اس کی مدد کر دینا چاہیے۔ مگر ہم سب اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ اگلے کی سفید پوشی کا بھرم رکھنا بھول چکے ہیں۔ ہم نے باتیں کرنا سیکھ لی ہیں اور عمل کرنا بھول گئے ہیں۔ نوشین نے سچ کہا، اس کی ہر بات میرے دل کو لگ رہی تھی۔ کیا ہو جاتا کہ کوئی میری مدد کے طور پر ہی سہی، مجھے موبائل خرید دیتا؟ آخر میں بھی ایک غریب ایڈمن ہوں، جو اپنا مفت کا وقت اور ٹیلنٹ ان کے لیے صرف کرتی تھی۔ اس رات میرا دل بہت برا ہوا تھا۔ میں بس سوچے چلی جا رہی تھی کہ کہاں سے کچھ پیسہ ہاتھ آجائے، لیکن پیسہ کہاں اتنی آسانی سے ملنے والی چیز ہے؟ ابھی میرے اس دکھ کو گزرے ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ مجھے ایک انجان نمبر سے میسج موصول ہوا۔ السلام علیکم، عنبرین! کیسی ہو؟ خیریت ہے نا؟ کہاں غائب ہو گئی اچانک؟ میری سم میں یہ نمبر محفوظ نہیں تھا، اس لیے میں نے پوچھ لیا کہ کون ہے۔ جواب موصول ہوا: میں ناعمہ نعیم ہوں۔ اتنے دنوں سے آپ سے رابطہ نہیں ہو سکا تو مجھے لگا کہ آپ کا موبائل خراب ہو گیا ہے۔ مجھے اپنا ایڈریس بھیجو، میں تمھیں نیا موبائل بھجواؤں گی۔ میں حیران و پریشان میسج کو پڑھتی جا رہی تھی کہ یہ کیا معجزہ ہوگیا! یہ وہ رائٹر تھیں جو بہت کم ملتی تھیں اور ان کا کام بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ تین چار ماہ بعد کوئی ایک آدھ افسانہ لگانا ہوتا اور بس۔ نہ میں نے کوئی اضافی پوسٹ لگائی، نہ انہوں نے مجھے لگانے کا کہا۔ نجانے میری غیر موجودگی کو انہوں نے کیسے محسوس کر لیا اور خود ہی میری مدد پر تیار ہوئیں۔ اب میں کیا کہوں اس بات پر؟ میرے پاس واقعی شکر گزار ہونے کے لیے الفاظ نہیں تھے۔ میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے، بس آپ کی مدد کے لیے اللہ نے دل میں یہ خیال ڈال دیا اور میں نے آپ سے رابطہ کر لیا۔ میں نے انہیں اپنا ایڈریس بھیج دیا اور دو دن بعد ایک اچھی حالت کا سیکنڈ ہینڈ موبائل میرے ہاتھ میں تھا۔ نوشین اور رامین اسے دیکھ کر خوش ہو رہی تھیں اور میں کچھ اور سوچ رہی تھی۔
قارئین، میں یہ سوچ رہی تھی کہ نوشین ٹھیک کہتی تھی، بعض دفعہ ستائش ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ کچھ اور ضرورتیں بھی ہوتی ہیں۔ اگر کوئی ہماری بے لوث مدد کرتا ہے تو کیا بدلے میں جب اسے ہماری مدد درکار ہو، ہمیں اسے ایک طرف کر دینا چاہیے، ہاتھ اٹھا لینا چاہیے؟ بے لوث مدد کرنے والوں کے وسیلے تو اللہ بنا ہی دیتا ہے، چاہے کسی کو بھی کہیں سے بنائے۔ جیسے ناعمہ جی میری مدد کا وسیلہ بنیں، اور اب میں ان کا وسیلہ بن گئی ہوں۔