Monday, October 7, 2024

Ghayal | Complete Urdu Story

’’آج کی شام تیرے نام…!‘‘ وہ گنگناتا ہوا آیا اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی بال سنوارتی شازیہ کے بالکل قریب جاکر کھڑا ہوگیا۔ خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹی پڑرہی تھی۔
’’جلدی سے تیار ہوجائو۔ آج ہم خوب گھومیں گے، لمبی ڈرائیو پر نکلیں گے اور پھر رات کا کھانا کسی اچھے سے ہوٹل میں کھائیں گے۔ کیوں ٹھیک ہے نا…؟‘‘ اس نے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں شازیہ کا چہرہ تکتے ہوئے اپنے پروگرام کی تائید چاہی۔
’’خیال تو برا نہیں… لیکن یہ سب ہے کس خوشی میں…؟‘‘ شازیہ نے ترچھی نظروں سے اسے دیکھا۔
’’ارے اس سے بڑھ کر بھی کوئی خوشی ہوگی کہ ایک حسین، دلربا، دلکش خاتون ساتھ چلنے کو تیار ہے۔‘‘
’’آپ شاید بھول رہے ہیں کہ یہ خاتون سیکڑوں گواہوں کے سامنے آپ کے ساتھ زندگی بھر ساتھ چلنے کا تحریری عہد کرچکی ہے۔‘‘
’’کیا واقعی…! خواب سا لگتا ہے مجھے تو یہ سب کچھ!‘‘ اس نے شازیہ کے بالوں سے کھیلتے ہوئے والہانہ پن سے کہا۔
’’کیا بات ہے آج کچھ زیادہ ہی رومانٹک نہیں ہورہے ہیں آپ…؟‘‘ شازیہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’بات ہی ایسی ہے، سنو گی تو پھڑک اٹھو گی تم بھی!‘‘
’’بتائیں نا کیا بات ہے، کیوں پہیلیاں بجھوا رہے ہیں؟‘‘
’’تم پہلے تیار تو ہوجائو۔‘‘
’’نہیں جناب…! جب تک آپ پوری بات نہیں بتائیں گے، میں کہیں نہیں جائوں گی۔‘‘
’’ارے… ارے! ناراض نہ ہو۔ اچھا سنو! آج ایک بڑی اچھی بزنس ڈیل ہوئی ہے، کئی لاکھ کا فائدہ ہوا ہے۔ تم جانتی ہو جب جیب گرم ہو تو مابدولت کچھ نہیں سوچتے سوائے لائف انجوائے کرنے کے!‘‘
ہاں! یہ تو جانتی ہوں مگر انجوائے منٹ کے ان لمحات میں میری شرکت تو برائے نام ہی ہوتی ہے۔ فنکشن، تقریبات، کلب کی پارٹیاں ان میں تم مجھے اپنے ساتھ کب رکھتے ہو۔ تمہارے نزدیک تو بیوی گھر میں سجا پھولوں کا ایک محض گلدستہ ہے البتہ وہ عورت جو کلبوں اور پارٹیوں میں تمہارے ساتھ قہقہے لگاتی ہے، وہ ضرور لائف انجوائے کرتی ہے۔
’’ارے بھئی کہاں گم ہوگئیں؟‘‘ اس نے شازیہ کو گم صم دیکھ کر چھیڑا۔ تب وہ اپنے خیالات سے چونک اٹھی۔
’’ہاں! کیا کہہ رہے تھے آپ…؟‘‘ پھر سنبھل کر بولی۔ ’’کہاں چلنے کا ارادہ ہے؟‘‘
’’ایسا کرتے ہیں پہلے آنٹی زبیدہ کے گھر چلتے ہیں، پھر ڈرائیوان میں پکچر دیکھیں گے۔ اس کے بعد کا پروگرام تو تمہیں پتا ہی ہے۔ بس اب جلدی کرو۔‘‘ وہ یہ کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا اور شازیہ بھی تیار ہونے لگی۔
آج کافی عرصے بعد عامر نے اس کے ساتھ باہر جانے کا پروگرام بنایا تھا اور وہ بھی اس قدر والہانہ انداز سے ورنہ وہ تو اس کے ساتھ کہیں جانے کو ترستی ہی رہتی تھی۔ کبھی عامر اسے اپنے ساتھ لے کر بھی جاتا تو وہ بھی چچی، پھوپھی یا ایسے ہی دوسرے قریبی رشتے داروں کے ہاں! شاپنگ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی۔ عموماً عامر خود ہی وقتاً فوقتاً اپنی پسند کی چیزیں خرید کر لاتا رہتا۔ کبھی کبھار اسے بھی ساتھ لے جاتا اور پھر ضروری، غیر ضروری ڈھیروں چیزیں خرید ڈالتا۔ وہ ’’نہ… نہ!‘‘ کرتی رہ جاتی مگر عامر اس کی ایک نہ سنتا۔ تب وہ اپنے آپ پر فخر کرنے لگتی۔ سوچتی کیسی قابل رشک زندگی ہے اس کی، ہر چیز اسے بن مانگے ہی مل جاتی ہے، ورنہ کتنی ہی ایسی عورتیں ہیں جو ایک ایک چیز کو ترستی رہتی ہیں۔ ان کے دامن ہمیشہ خالی رہتے ہیں۔ خود اس کی سہیلیاں، کالج، یونیورسٹی کی ساتھی لڑکیاں جب بھی اس سے ملنے آتیں، اس کی زندگی پر عش عش کر اٹھتیں۔ شاندار گھر، اسمارٹ اور چاہنے والا شوہر…! اس کے سوا ایک عورت کو اور چاہئے ہی کیا…! وہ سوچتی اور خود بھی اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہونے لگتی لیکن کبھی کبھی عامر کا رویہ یکدم بدل جاتا خاص طور پر اس وقت جب راہ چلتے اس کی یونیورسٹی کے کسی ساتھی لڑکے یا لڑکی سے ملاقات ہوجاتی۔ ہرچند کہ سڑک پر رسمی علیک سلیک ہی ہوا کرتی تھی مگر پھر بھی عامر کا موڈ یکدم بدل جاتا۔ ایک عجیب قسم کی بیزاری اور کوفت اس کے چہرے سے ٹپکنے لگتی اور وہ بھی اس کا بگڑتا موڈ دیکھ کر جلد ہی ان لوگوں سے جان چھڑا کر آگے بڑھ جاتی، مگر اس کے باوجود وہ تمام راستے عامر کی شگفتگی بحال نہ کروا پاتی۔ عامر کی شخصیت کی یہ دورخی اسے اکثر پریشان کردیتی۔
’’کیوں بھئی تیار ہوگئیں کیا…؟‘‘ عامر نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
’’جی! بس ایک منٹ…!‘‘ اس نے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگاتے ہوئے کہا۔ تب تک عامر اس کے قریب آچکا تھا۔ اسے اپنے اتنے قریب اور غور سے تکتے ہوئے پا کر شازیہ ذرا اٹھلا کر بولی۔ ’’بتائیں تو بھلا کیسی لگ رہی ہوں میں…؟‘‘
اس کا خیال تھا کہ عامر اسے دیکھ کر خوش ہوگا، اس کی تعریف کرے گا۔ آج اس نے تیاری میں کچھ اہتمام کر ہی ڈالا تھا۔ ہلکا ہلکا میک اَپ اور زیور پہن کر وہ پہلے سے کہیں زیادہ نکھری نکھری لگ رہی تھی۔ اس میں کچھ میک اَپ کا جادو تھا تو کچھ عامر کی ستائش اور توجہ کا بھی دخل تھا جو وہ آج پھول کی طرح کھل اٹھی تھی۔ یوں بھی انسان اندر سے خوش ہو تو وہ خوشی چہرے پر حسن بن کر دمکتی ہے اور پھر وہ تو تھی بھی خوبصورت…! کالج میں لڑکیوں نے اسے کوئین آف بیوٹی کا خطاب دیا ہوا تھا۔ پھر عامر سے شادی بھی تو اس ہی وجہ سے ہوئی تھی۔
عامر چند لمحے اسے یک ٹک دیکھتا رہا۔ پھر ذرا اکھڑے اکھڑے سے لہجے میں بولا۔ ’’یہ تم شادی میں جارہی ہو یا شام کی سیر کو؟‘‘
’’شادی میں یہ کاٹن جارجٹ کا سوٹ پہن کر جایا جاتا ہے کیا؟‘‘ اس نے برجستہ کہا۔
’’میک اَپ اور زیورات تو اسی طرح چڑھا رکھے ہیں جیسے شادی ہی میں جارہی ہو۔‘‘ وہ بھی چوکنے والا نہ تھا۔
اس نے ایک نظر عامر کو دیکھا۔ پھر ٹشو پیپر کے پیکٹ میں سے ٹشو پیپر نکال کر لپ اسٹک صاف کرنے لگی۔ اس نے کن انکھیوں سے عامر کی طرف دیکھا جو بظاہر بیگانہ بنا اپنے اوپر پرفیوم کا اسپرے کرکے کمرے سے باہر نکل رہا تھا۔ چلتے چلتے اس نے آواز لگائی۔ ’’تیار ہوجائو تو باہر آجانا، میں گاڑی نکال رہا ہوں۔‘‘
اس نے خاموشی سے لپ اسٹک صاف کی، ایک ایک کرکے تمام زیور اتارا۔ زیور بھی ایسا کون سا زیادہ تھا جسے اتارنے میں دیر لگتی۔ چھوٹے چھوٹے بندے، انگوٹھیاں، لاکٹ اور سوٹ سے میچنگ کرتی ہوئی رنگین کانچ کی چوڑیاں…! کانچ کی چوڑیاں عامر کو بھی پسند تھیں مگر اس وقت اسے اتنا غصہ تھا کہ اس نے ایک ایک چیز اتار پھینکی۔ غسل خانے میں جاکر جلدی جلدی منہ پر پانی کے چھیٹنے مارے اور بالوں کو ٹھیک کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی۔ وہ بظاہر نارمل نظر آرہی تھی مگر اس کے ذہن میں لاوا سا پک رہا تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ چیخیں مار مار کر رونے لگے، مگر بے بسی کا عجب عالم تھا کہ وہ نہ رو سکتی تھی، نہ ہنس سکتی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آکر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ عامر نے اس کی بدلی بدلی سی حالت دیکھی مگر منہ سے کچھ نہ بولا، خاموشی سے گاڑی اسٹارٹ کی۔ گیٹ سے باہر نکلتے نکلتے اس نے چوکیدار سے کہا۔ ’’ہم رات کو دیر سے آئیں گے۔ اگر کوئی آئے تو اسے بتا دینا۔‘‘
’’جی صاحب…!‘‘ چوکیدار نے مؤدب ہوکر کہا اور کوٹھی کا مین گیٹ بند کرنے لگا۔
’’پہلے کہاں چلیں…؟‘‘ سڑک پر نکل کر عامر نے شازیہ سے پوچھا لیکن وہ خاموش بیٹھی کھڑکی سے باہر کا نظارہ کرتی رہی۔
’’بتائو نا کہاں چلیں…؟‘‘ اس نے ایک بار پھر اس سے پوچھا۔
’’جہاں دل چاہے۔‘‘ بالآخر اسے کہنا پڑا۔
’’اچھا! آنٹی زبیدہ کے ہاں چلتے ہیں پہلے۔‘‘ تبھی اس کی نظر شازیہ کے ہاتھوں پر پڑی جو انگوٹھیوں اور چوڑیوں سے خالی تھے۔
’’چوڑیاں کیوں اتار آئیں اور یہ تمہارے ہاتھ پر خون کے قطرے کیسے ہیں؟‘‘
’’چوڑی ٹوٹ گئی تھی، وہ چبھ گئی ہوگی۔‘‘ اس نے کلائی صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’ذرا احتیاط نہیں کرتیں۔ اب اگر ہاتھ میں سیپٹک ہوگیا تو؟‘‘ اس نے بظاہر فکرمندی سے کہا۔
’’کچھ نہیں ہوگا… آپ بے فکر رہیں۔‘‘ وہ بے دلی سے مسکراتے ہوئے بولی۔
’’وہ مسکرائے تو جان سی کلیوں میں پڑ گئی۔‘‘ وہ اس کی طرف دیکھ کر گنگنانے لگا۔ گویا مصالحت اور اسے منانے کی پیش قدمی تھی اور پھر وہ دیر تک مسلسل گپیں مارتا رہا، اِدھر اُدھر کی داستانیں سناتا رہا۔ بالکل یوں ظاہر کررہا تھا جیسے گھر سے نکلتے وقت ان کے درمیان کوئی چپقلش، کوئی بدمزگی ہوئی ہی نہ تھی۔ وہ آنٹی زبیدہ کے گھر پہنچے، تب تک شازیہ کا موڈ ٹھیک ہوچکا تھا۔ آنٹی ہمیشہ کی طرح بڑی محبت، خلوص سے ملیں۔ وہ آنٹی سگی آنٹی نہ تھیں، مگر سگے رشتے داروں سے بڑھ کر تھیں۔ پرانے وقتوں کی تھیں، اس لئے پرانی قدروں کی شیدائی بھی تھیں۔ انہوں نے شازیہ کو جو یوں اجڑا پجڑا دیکھا تو بے اختیار بول اٹھیں۔ ’’اے دلہن…! یہ کیا ڈھنگ ہیں۔ تمہارے کان میں بندہ، نہ ناک میں لونگ اور یہ لونڈوں کی طرح ننگے ننگے ہاتھ…! مانا کہ تم پڑھے لکھے لوگ یہ سب کچھ پسند نہیں کرتے مگر مجھے یہ تو بتائو کہ تمہاری کون سی کتاب میں لکھا ہے یوں اجڑا اجڑا رہنا؟‘‘ انہوں نے شازیہ کو پیار بھری ڈانٹ پلائی۔
وہ ان کی باتوں پر بیٹھی مسکراتی رہی۔ کیا کہتی، دل تو چاہ رہا تھا کہ آنٹی کے سامنے ساری حقیقت کھول کر رکھ دے کہ وہ لاکھ چاہنے کے باوجود عام بیویوں کی طرح خود کو بنا سنوار کر نہیں رکھ سکتی۔ وہ عامر کی ذہنی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھی۔ وہ بظاہر بہت اچھا تھا، محبت کرنے والا تھا۔ اسے روپے پیسے کے معاملے میں بھی کوئی تنگی نہیں دیتا تھا۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود وہ اس کی اس بات سے ہمیشہ خائف رہا کرتی تھی کہ وہ نہ تو اسے دوستوں سے ملنے دیتا تھا اور نہ ہی کہیں آتے جاتے، بننے سنورنے کی اجازت تھی۔ وہ اس کے حسن کے قصیدے پڑھتے ہوئے کہا کرتا۔ ’’شازی…! تم تو یونہی اتنی پیاری، اتنی سندر ہو، تمہیں ان چھوٹی چھوٹی آرائشوں کی کیا ضرورت ہے۔ یہ مصنوعی چیزیں تو وہ عورتیں استعمال کرتی ہیں جو خوبصورت نہیں ہوتیں۔‘‘
اور شازیہ یہ سن کر خوشی سے جھوم اٹھتی لیکن انسان اپنی فطرت دبا نہیں سکتا، خاص طور پر ان حالات میں تو اس کو اپنی حالت پر اور بھی افسوس ہوتا جب وہ کسی محفل میں اپنے سے زیادہ حسین اور نوعمر خواتین کو زیورات اور فیشن ایبل ملبوسات میں دیکھتی۔ محفلوں میں شریک خواتین بھی اکثر اسے ٹوکتی رہتیں۔ بعض اسے ڈھنگ سے رہنے کے مشورے دیتیں تو بعض اسے مخلصانہ
مشورہ دیتیں کہ بی بی! شوہر کو قابو میں رکھنا ہے تو عورت کو چاہئے کہ عمر کے ساتھ ساتھ خود کو خوب سے خوب تر رکھنے کی کوشش کرے۔ وہ یہ سب سنتی اور مسکرا کر چپ ہوجاتی۔ کس سے کہتی کہ وہ بہتے دریا کے کنارے کھڑی ہے مگر پھر بھی پیاسی ہے۔ وہ اکثر سوچا کرتی تھی کہ عامر کیسا انسان ہے جو خود پارٹیوں میں، کلبوں میں، گھومتا پھرتا ہے، اچھے فیشن کرتا ہے مگر اسے شادی بیاہ کے موقعوں پر بھی بننے سنورنے کی، اچھے کپڑے پہننے کی اجازت نہیں دیتا اور تب ایک دن خاندان کی کسی تقریب میں اس پر یہ انکشاف ہوا تھا کہ عامر کے مزاج میں یہ سختی کیوں ہے۔ خاندان کی کچھ خواتین اس کی پچھلی لائن میں بچھی کرسیوں پر بیٹھی اسی کے بارے میں بے لاگ تبصرہ کررہی تھیں۔ ان میں سے کسی نے کہا۔ ’’شادی ہوکر آئی تھی تو بڑی خوبصورت لگا کرتی تھی، اب تو ماند پڑتی جارہی ہے۔‘‘
’’نہ اچھا پہنے، نہ اچھا کھائے تو روپ کہاں سے آئے؟‘‘ ان میں سے کسی دوسری نے ٹکڑا لگایا۔
’’اللہ کا دیا ہے تو بہت کچھ لیکن لگتا ہے کنجوس بہت ہے۔‘‘
’’نہ بہن…! یوں نہ کہو… بھلا کس کا دل کھانے پہننے کو نہیں چاہتا۔ وہ تو یہ کہو کہ عامر ہی کا مزاج بدل گیا ہے۔ سنا ہے کہ وہ اسے بننے سنورنے کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ بے چارہ بھی کیا کرے، پہلی بیوی کے کرتوت دیکھے ہوئے ہے نا، اسی لئے دوسری پر اتنی سختی ہے۔ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے نا!‘‘
’’سنا ہے عامر کی پہلی بیوی بہت ایڈوانس تھی۔ اس کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا اور بھئی تھی بھی تو وہ بڑے باپ کی بیٹی…! عامر کی یہ دولت اور ٹھاٹ باٹ اسی کی بدولت تو ہیں۔ اس کے بزنس کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی میں اس کی پہلی بیوی شائستہ اور اس کے والد کا ہاتھ ہے۔‘‘
’’علیحدگی اختیار کرنے کی بجائے مصالحت کا راستہ کیوں نہ اختیار کیا…؟‘‘ کسی خاتون نے پوچھا۔
’’وہ عامر کو خاطر ہی میں نہیں لاتی تھی۔ دولت کی ریل پیل کے علاوہ اس کے طور طریقے بھی ٹھیک نہ تھے، اس لئے نوبت طلاق تک پہنچی۔‘‘
’’چہ … چہ…! کتنے افسوس کی بات ہے کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی…! اس بیچاری بچی کا کیا قصور جو اس کو ناکردہ گناہوں کی سزا مل رہی ہے؟‘‘
شازیہ بظاہر اپنے ساتھ بیٹھی ہوئی خواتین سے گفتگو میں مصروف تھی مگر اس کے کان پچھلی سیٹوں سے آنے والی باتوں میں لگے ہوئے تھے۔
’’سنتے آئے تھے کہ دوسری بیوی ہمیشہ عیش کرتی ہے مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے۔ عامر کے مزاج میں شک اور سختی کا عنصر دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔‘‘ خواتین میں سے کسی کی زبانی یہ جملہ سن کر وہ حیران رہ گئی۔ وہ تو اب تک یہ سمجھتی آئی تھی کہ خاندان والوں کو اس کی نجی زندگی کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے مگر یہاں آکر اندازہ ہوا کہ اس کے حالات کا علم خود اس سے زیادہ تو ان لوگوں کو ہے۔
اس کا دل چاہتا کہ کبھی عامر سے اپنے دل کی بات کہے۔ اس سے کھل کر بات کرے، اسے اس کے کامپلکس سے نکال دے۔ اسے بتادے کہ ہر عورت شائستہ نہیں ہوتی مگر وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے منصوبے پر عمل نہ کر پاتی کہ وہ عامر کی اذیت پسندی اور خودسری سے بھی واقف تھی۔ وہ اپنی بات منوانے کے عجب عجب گر جانتا تھا۔ وہ اتنے غیر محسوس طریقے سے اپنی من مانی کر جاتا کہ شازیہ یہ سوچتی ہی رہ جاتی کہ اس موقع پر میرا کیا ردعمل ہونا چاہئے تھا۔ اسے یاد ہے شادی کے کچھ دنوں بعد ایک دن بیٹھے بیٹھے اچانک عامر کو باہر جانے کا خیال آگیا۔ اس دن وہ بہت موڈ میں تھا۔ اس نے شازیہ کو خوب ڈھیر ساری شاپنگ کرائی تھی اور پھر اسے کچھ بتائے بغیر ہی اس نے گاڑی کلفٹن کی طرف موڑ لی تھی۔ اولڈ کلفٹن پر اس وقت بڑا رش تھا۔ وہاں بیٹھ کر انہوں نے کولڈ کافی پی۔ خنک موسم میں کولڈ کافی کچھ زیادہ ہی لطف دے رہی تھی۔ وہاں سے انہوں نے ساحل سمندر کا رخ کیا اور گاڑی پارک کرکے پتھروں کی بنی اونچی دیوار پر بیٹھ کر سمندر کا نظارہ کرنے لگے۔ سمندر کے پانیوں پر پڑتا ہوا ڈوبتے سورج کا عکس بڑا دلکش منظر پیش کررہا تھا۔ وہ اس منظر کو دیکھنے میں محو تھی کہ اچانک کسی نے آکر اس کے کندھے پر زور سے ہاتھ مارا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو فرزانہ، رضوانہ، نادر اور خاور کا گروپ کھڑا تھا۔
پرانے دوستوں کو یوں اچانک اپنے سامنے دیکھ کر وہ بے حد خوش ہوگئی۔ فرزانہ تو اسے دیکھتے ہی اس کے گلے میں جھولتے ہوئے بولی۔ ’’بڑی بے وفا نکلی، شادی کے بعد کبھی پلٹ کر شکل نہ دکھائی۔ ایک ہم ہیں کہ تیرے بغیر ہر دم اداس رہتے ہیں۔ ساری محفلیں سونی ہوگئی ہیں ہماری!‘‘
’’ہاں! وہ تو تمہاری صحت بتا رہی ہے کہ میرے بغیر کتنی اداس رہی ہو۔‘‘ اس نے فرزانہ کے صحت مند جسم کو دیکھتے ہوئے مسخرے پن سے کہا۔
’’تجھ سے یہ امید نہ تھی کہ یوں بالکل الگ تھلگ ہوکر بیٹھ رہے گی۔‘‘ رضوانہ نے بھی شکوہ کیا۔
’’اور سنائو کیا حال ہے، کیسی گزر رہی ہے تمہاری گھر گرہستی؟‘‘ خاور نے بھی بشاشت سے کہا۔
’’فائن…!‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ معاً اس کی نظریں عامر کے چہرے سے جا ٹکرائیں۔ عامر کا سپاٹ اور بیزار چہرہ اس کے دلی جذبات کی ترجمانی کررہا تھا۔ تب شازیہ نے سٹپٹاتے ہوئے جلدی سے عامر کا تعارف اپنے پرانے کلاس فیلوز سے کرایا۔
’’ان سے ملو یہ میرے شوہر ہیں عامر… اور عامر! یہ سب میرے کلاس فیلوز ہیں۔‘‘
’’آئی ایم گلیڈ ٹو میٹ یو!‘‘ عامر بھی خوشدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان لوگوں سے ملا تھا۔ تھوڑی سی گپ شپ کے بعد وہ ان لوگوں سے معذرت کرکے گھر واپس آنے کے لئے گاڑی میں آبیٹھے تھے۔
’’بہت مس کرتے ہیں تمہیں یہ سب…!‘‘
’’ہاں بہت… ایک طویل عرصے تک ساتھ رہے ہیں نا!‘‘ اس نے عامر کے جملے پر توجہ دیئے بغیر کہا تھا۔
’’ان میں سے کوئی زندگی بھر کا ساتھی کیوں نہ بن سکا؟‘‘
عامر نے ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا۔
اس کی بات سن کر شازیہ دم بخود رہ گئی تھی۔ اسے غصہ تو بہت آیا تھا مگر پھر بھی مصلحت سے کام لیتے ہوئے اس نے سادگی سے کہا تھا۔ ’’عامر…! ضروری تو نہیں کہ ہر ملنے والے سے شادی کرلی جائے۔‘‘
’’میں ہر ملنے والے کی نہیں، ان دونوں کی بات کررہا ہوں۔ بڑے جذبے مچل رہے تھے ان کی نگاہوں میں! یوں لگ رہا تھا جیسے تمہیں کھونے کا غم بھی ہو انہیں اور اب اچانک پانے کی خوشی بھی!‘‘
’’کیا آپ مجھے اتنا ہی گرے ہوئے کریکٹر کا سمجھتے ہیں؟‘‘ غصے سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔
’’ناراض کیوں ہوتی ہو؟ اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں۔ تم نے بے شک انہیں اس نظر سے نہ دیکھا ہو مگر کسی اور کی نظروں پر تو تم لائسنس نہیں لگا سکتیں نا!‘‘
’’ہمارے گھریلو مراسم رہے ہیں ان سب سے۔‘‘ اس نے روہانسی ہوتے ہوئے کہا۔
’’پریشان کیوں ہوتی ہو… دراصل تم ہو ہی اتنی اچھی، اتنی پیاری چیز کہ تمہیں چاہا جائے، پسند کیا جائے۔‘‘ عامر نے ہنستے ہوئے اتنے نارمل انداز سے یہ بات کہی جیسے کوئی بات ہی نہ ہو اور پھر ماحول کو خوشگوار بنانے کے لئے حسب عادت چٹکلے چھوڑنے لگا اور شازیہ خاموش بیٹھی سوچتی رہی کہ یہ شخص جو اس وقت میرے مجازی خدا کے روپ میں بیٹھا میرے ماضی میں جھانکنا چاہتا ہے، اس عامر سے کس قدر مختلف ہے جو اتنے عرصے سے میرے ساتھ تھا۔ جس کی خوبیوں ہی سے نہیں خامیوں سے بھی مجھے پیار تھا۔ میں تو آنکھیں بند کرکے اس کے ہر حکم پر سر جھکاتی آئی تھی اور اس کا مجھے پچھتاوا بھی نہ تھا، مگر شک و شبہات اور بے اعتباری کی فضا میں تو لمحہ بھر سانس لینا بھی دوبھر ہے۔ یوں زندگی کیسے کٹے گی؟ وہ گاڑی میں بیٹھی جانے کیا کیا سوچتی رہی۔ انجانے سے خدشے اور وسوسے اس کے دل کو دہلاتے رہے۔ اس کا خیال تھا کہ گھر جاکر عامر پھر اس کے دوستوں کا قصہ لے بیٹھے گا مگر اس نے کوئی ذکر نہ نکالا تو وہ بھی خاموش ہی رہی لیکن اسے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ عامر اس کے کلاس فیلوز سے ملنا جلنا پسند نہیں کرے گا، اس لئے اس نے پھر ان لوگوں سے کوئی رابطہ نہ رکھا۔ رضوانہ اور فرزانہ نے کئی بار ٹیلیفون بھی کیا لیکن اس نے رکھائی سے بات کی۔ انہوں نے کسی دن مل بیٹھنے کا پروگرام بنایا، تب بھی اس نے مصروفیت کا بہانہ کرکے ٹال دیا۔ اس طرح خودبخود اس کا رابطہ ان لوگوں سے ٹوٹتا گیا۔
زندگی کے کتنے ہی سال یونہی گزر گئے۔ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ عامر کی عدم اعتمادی اور شکوک میں کوئی کمی واقع نہ ہوسکی تھی۔ وہ شازیہ کو کچھ نہ کہتا تھا مگر اس کی نظریں کسی تھانیدار کی طرح ہر وقت اس کا تعاقب کرتی رہتیں۔ کون آیا تھا، کون گیا، کس سے کیا بات ہوئی، وہ اپنی تمام مصروفیات کے باوجود ان چھوٹی چھوٹی گھریلو باتوں پر نظر رکھتا تھا اور وہ اس کے رویئے پر کوئی شکوہ بھی نہ کر پاتی لیکن کبھی کبھی اس کا دل یہ ضرور چاہتا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنی دنیا میں واپس چلی جائے۔ کتنی عجیب بات تھی زندگی کا ایک طویل عرصہ ساتھ گزارنے کے باوجود وہ آج بھی ذہنی طور پر عامر سے بہت دور تھی۔ گڈو، پنکی کی پیدائش کے بعد اس کی مصروفیات کچھ بڑھ گئی تھیں۔ اب اسے بچوں کے جھمیلے میں پڑ کر گھر سے باہر جانے یا بننے سنورنے کا شوق بھی نہ رہا تھا۔ وہ سارا سارا دن ان کے آگے پیچھے بھاگتی رہتی۔ بچوں کے کاموں میں مگن ہوکر وہ اپنے آپ کو بھلا بیٹھی تھی۔
وہ اب اس زندگی کی کچھ عادی سی ہوتی جارہی تھی لیکن انہی دنوں ایک ایسا واقعہ ہوگیا جس نے اس کی زندگی کو درہم برہم کردیا۔ پندرہ سولہ سال بعد اچانک ایاز لندن سے پلٹ آیا۔ ایاز جو بھابھی کا چھوٹا بھائی تھا لیکن اسے بھی بھائیوں ہی کی طرح عزیز تھا۔ وہ اور ایاز برسوں ساتھ رہے تھے۔ وہ ان دنوں میٹرک کا امتحان دے رہی تھی کہ اچانک بھابھی کی امی کے انتقال کی خبر ملی۔ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ لاہور پہنچیں کہ دم رخصت ماں کا چہرہ دیکھ سکیں۔ واپس آئیں تو اپنے ساتھ گول مٹول ایک آٹھ دس سال کا بچہ بھی لیتی آئیں۔ یہ ایاز تھا بھابھی کا سب سے چھوٹا بھائی! ماں کے انتقال کے بعد جس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ تھا، بہن اور اس کے سسرال والوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا، شاید اس لئے بھی گھر میں وہی سب سے چھوٹا تھا۔ بچہ سمجھ کر سب ہی اس کی ناز برداری کرتے تھے۔ اس میں کچھ ہمدردی کا جذبہ بھی شامل تھا۔ بن ماں، باپ کا بچہ سمجھ کر سب ہی اس کی جھولی میں پیار کی بھیک ڈالتے رہتے تھے۔
شروع شروع میں وہ شرمایا شرمایا، جھجکا جھجکا سا رہا مگر

ماحول میں رچ بس گیا۔ شازیہ سے تو اس کی خاص دوستی تھی۔ وہ عمر میں اس سے سات آٹھ سال بڑی تھی، مگر بالکل دوستوں کی طرح تھی۔ ایاز کسی کی بات نہ سنتا تھا مگر اس کی ہر بات مان لیتا تھا۔ وہ اس کے ساتھ بالکل بچہ بن کر رہتی تھی۔ کبھی لٹو گھماتی تو کبھی صحن میں اس کے ساتھ ہاکی یا کرکٹ کھیلتی نظر آتی۔ گھر کے دوسرے لوگ اس سے محبت تو کرتے تھے، اس کی جا بے جا فرمائش بھی پوری کردیتے تھے، مگر کسی کے پاس اتنی فرصت نہ تھی کہ اس کی طرح بونگی حرکتیں کرتا پھرتا۔ یوں ایاز، شازیہ سے مانوس ہوتا چلا گیا۔ کھیل کود سے لے کر لکھنے پڑھنے تک شازیہ اس کی دست راست بنی ہوئی تھی۔ اس طرح کئی سال بیت گئے۔ ایاز بھی پرائمری کلاس پاس کرکے مڈل کا طالب علم بن چکا تھا کہ اچانک کینیڈا سے ایاز کے بڑے بھائی رضوان پاکستان آئے۔ چھوٹے بھائی کو جو بہن کے گھر پر پلتے دیکھا تو جانے محبت نے جوش مارا یا عزت نے کہ انہوں نے بھائی کو اپنے ساتھ لے جانے کا فیصلہ کرلیا۔
ایاز کے سامنے انہوں نے وہاں کی زندگی کا ایسا خوبصورت نقشہ پیش کیا تھا کہ اس کا دل تو پہلے ہی وہاں جاکر سیر و تفریح کے لئے مچل اٹھا تھا۔ بھابھی البتہ اپنے بھائی کے اس فیصلے پر جزبز سی تھیں مگر کہہ بھی کیا سکتی تھیں کہ بھائی کا بہتر مستقبل بھی پیش نظر تھا۔ ایاز کینیڈا کیا گیا، سارے گھر کی رونق بھی ساتھ ہی لیتا گیا۔ وہ دن بھر خالی خالی گھومتی رہتی۔ یوں لگتا جیسے کرنے کو کوئی کام ہی نہ ہو۔
امتحان ہوچکے تھے اور اب رزلٹ کا بھی جان لیوا انتظار باقی تھا۔ چار سال تک یونیورسٹی میں گزار کر اب ہمیشہ کے لئے گھر بیٹھے رہنے کا تصور بھی محال تھا مگر اسے اس حقیقت کو قبول کرنا ہی تھا۔ ملازمت کی اجازت ملنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ رزلٹ نکل بھی آیا تب بھی اسے گھر ہی میں رہنا تھا لیکن پھر ہوا یوں کہ رزلٹ کے آتے آتے چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کے مصداق اسے عامر کے سپرد کردیا گیا۔ اچھے رشتے مشکل سے ملتے ہیں اور عامر جیسا رشتہ تو ڈھونڈنے سے بھی مشکل ہی سے ملتا ہے۔ اسی لئے یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ اسے کچھ کہنے سننے کا بھی موقع نہ ملا، پھر کہنے سننے کی ضرورت ہی کہاں تھی، اس نے کون سے اپنے ذہن میں آئیڈیل بٹھا رکھے تھے۔
عامر بظاہر بہت اچھا تھا۔ شادی کے بعد جس قسم کی پرآسائش زندگی کے خواب کوئی لڑکی دیکھ سکتی ہے، وہ اسے میسر تھی لیکن زندگی گزارنے کے لئے زیور، کپڑا، کوٹھی ، موٹر سے کہیں زیادہ پراعتماد اور سمجھوتے کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے یوں محسوس ہوتا جیسے عامر کی زندگی اعتماد سے خالی ہو۔ اس کا اظہار وہ باربار کر بھی چکا تھا۔
شازیہ بھی اس کی اس عادت کی کچھ عادی ہوچکی تھی مگر برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور اس بار اچانک ایاز کی آمد پر عامر نے جو رویہ اپنایا تھا، وہ شازیہ کی برداشت سے باہر تھا۔ وہ کئی بار ایاز کے بارے میں اسے بتا چکی تھی۔ بچپن سے لے کر لڑکپن تک کے واقعات اتنی بار دہرائے تھے کہ اسے زبانی یاد ہوجانا چاہئے تھے، مگر پھر بھی وہ ایاز کے سامنے کوئی نہ کوئی ایسی بات کہہ جاتا جسے سن کر وہ کھول اٹھتی، مگر جواب نہ بن پڑتا، مگر آج کے واقعہ نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا۔
اتنی بے عزتی، اتنی حقارت! اس کا تو اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا۔ ایاز جسے اس نے ہمیشہ چھوٹے بھائیوں والا پیار دیا تھا اور وہ بھی ہمیشہ اس سے بہنوں جیسے رشتے ہی سے ملتا تھا، لیکن آج عامر نے اسی مقدس رشتے کو تارتار کردیا اور وہ یقین و بے یقینی کے دوراہے پر کھڑی یہ سوچ رہی تھی کہ اسے کیا کرنا چاہئے۔
اور پھر بہت سوچ سمجھ کر اس نے بالآخر ایک فیصلہ کر ہی لیا۔ یہ فیصلہ کرتے ہوئے اسے بڑی اذیتوں سے گزرنا پڑا تھا۔ عامر اور اس کے گھر کو چھوڑنا آسان نہ تھا۔ عورت سب کچھ برداشت کرسکتی ہے مگر اپنے کردار کے بارے میں کچھ نہیں سن سکتی اور وہ بھی شوہر کی زبانی…! اسے علم نہ تھا کہ ایاز جو چند دن کے لئے اس کے گھر آکر ٹھہرا ہے اور اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ویسا ہی کھلنڈرا اور لاپروا ہے، جیسا اب سے پندرہ برس پہلے تھا، اس کے کھلنڈرے پن کا عامر اس قدر سخت نوٹس لے گا نہ صرف اسے سخت وسست کہہ ڈالے گا بلکہ ایاز کو بھی ذلیل کرنے سے باز نہیں آئے گا تو شاید وہ کبھی بھی ایاز کو اپنے گھر نہ ٹھہراتی۔
اور پھر بہت سوچ سمجھ کر اس نے ایک بھیانک فیصلہ کرلیا۔ زندگی میں جب اعتماد کے رشتے ٹوٹ جائیں تو پھر کوئی رشتہ باقی نہیں رہتا اور آج وہ یہ رشتہ بھی توڑ بیٹھا تھا۔ اس لمحے اسے اپنے آپ سے، عامر سے اور اس گھر سے نفرت ہونے لگی جہاں وہ زندگی کے سہانے دن گزار آئی تھی۔
’’عامر…! تم اسے اعتراف شکست کہہ لو یا احساس گناہ! مگر یہ حقیقت ہے اور میں اپنے تمام تر جذبوں کی صداقتوں کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرتی ہوں کہ تم میری زندگی میں داخل ہوتے ہوئے بھی بہت دور رہے ہو۔ تمہاری قربت نے مجھے کبھی بھی اپنائیت کا احساس نہیں بخشا۔ میں سوچا کرتی تھی کہ تم میرے جیون ساتھی ہوتے ہوئے بھی سڑک پر دوڑتی بھاگتی ان اجنبی گاڑیوں کی طرح ہو جو نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتی ہیں، محض اپنی اپنی سلامتی اور بقاء کی خاطر…! میں کبھی سمجھ نہ سکی تھی کہ مجھے یہ اجنبیت کا احساس کیوں ہوتا ہے…؟
لیکن آج یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ تم صرف ایک ایسے مرد تھے جو شک و شبے کا پتلا ہوتا ہے۔ وہ خود قدم قدم پر فلرٹ کرسکتا ہے، ہر لڑکی سے بیباک گفتگو کرسکتا ہے، اس کے حسن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا سکتا ہے، لیکن اس کی بیوی یا بہن کی طرف کوئی نظر اٹھا کر دیکھے تو یہ اس سے کبھی برداشت نہیں ہوتا لیکن عامر! تم ان مردوں سے بھی مختلف ہو۔ تم شکی ہی نہیں اذیت پسند بھی ہو۔ تمہارے نزدیک مقدس رشتے بھی تارتار ہوسکتے ہیں لیکن میرے ہاں اتنے شک و شبے کی گنجائش نہیں اسی لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب تمہاری زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل جائوں۔‘‘
اس نے آخری جملہ لکھ کر قلم میز پر ڈالا اور خود خالی الذہن ہوکر کرسی پر نڈھال ہوکر گر گئی اور تب ہی آنسوئوں کا ایک سیلاب اس کی آنکھوں سے رواں ہوگیا۔ وہ بے اختیار سسک اٹھی۔ اس نے خالی خالی نظروں سے گھر کو دیکھا۔
کچھ دیر بعد اس میں سے کوئی چیز بھی اس کی اپنی نہ ہوگی، اس نے افسردگی سے سوچا۔ آنسو، آہیں اور کراہیں، احساس ندامت اور کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں اور میں نہ کمزور ہوں اور نہ نادم…! پھر یہ آنسوئوں کی برسات کس لئے؟ تم جو اپنے حلقے میں خاصی سمجھدار، گریس فل اور ریزرو قسم کی لڑکی سمجھی جاتی رہی ہو، اچانک ریت کے گھروندے کی طرح کیوں بکھرنے لگیں؟
اس نے اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے سوچا۔
’’کیا بچے میری کمزوری ہیں؟‘‘
’’نہیں… یا شاید ہاں!‘‘
لیکن بچے…! وہ کون سے میرے ساتھ ہیں۔ وہ تو ہاسٹل میں پڑھ رہے ہیں اور پھر سال دو سال بعد عامر کا پروگرام انہیں ویسے بھی اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکا بھجوانے کا ہے۔ وہ گھر چھوڑنے کا جواز ڈھونڈ رہی تھی۔ یوں بھی اس وقت اس کی ذہنی کیفیت ایسی تھی کہ کسی طور بھی سمجھوتہ کرنے پر راضی نہ تھی۔
اس نے خط لفافے میں بند کرکے عامر کے سرہانے رکھا اور خود اپنا پرس اٹھا کر گھر سے نکل گئی۔ عامر اب تک حسب معمول گھر نہیں آیا تھا۔
رات آنسوئوں سے بھرے پپوٹوں کی طرح بھاری ہوگئی تھی اور اسے یوں لگ رہا تھا جیسے ریگستان میں اکیلی ریت کے ٹیلوں میں گھری کھڑی ہو۔ اس نے بمشکل تمام رکشہ لیا اور امی کے پاس جا پہنچی۔ گھر پہنچ کر اس نے ساری بات تفصیل سے بتا دی۔ گھر والوں نے مصالحت کرانے کی کوشش بھی کی مگر اس نے ٹکا سا جواب دیا اور اس لمحے عامر کے کہے ہوئے جملے اس کے کانوں میں گونجنے لگے۔
’’سنا ہے تمہارا اور ایاز کا زبردست افیئر رہا ہے؟‘‘ ہاکس بے سے واپسی پر عامر نے اس سے پوچھا تھا اور تب وہ اسے حیرت سے دیکھتی رہ گئی تھی کہ اتنی بڑی بات وہ کس قدر آسانی سے، کس قدر سادگی سے کہہ بیٹھا تھا۔ اس نے عامر کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی، مگر وہ تو کورے کاغذ کی طرح سپاٹ تھا اور اس لمحے اس کو عامر سے یکدم کراہیت سی محسوس ہوئی تھی۔ یہ عامر کی عام عادت تھی کہ انتہائی خوشگوار موڈ میں ہوتے ہوئے جب وہ اسے بہت اپنا اپنا سا لگنے لگتا، وہ فوراً ہی کوئی ایسا جملہ کہہ دیتا کہ وہ بکھر کر رہ جاتی۔ یہ بھی اس کی اذیت پسندی کا ایک انداز تھا۔
’’ارے کس سوچ میں پڑ گئیں تم! میں نے تو یونہی ایک بات پوچھی تھی۔ بھلا میں پچھلی زندگی کا احتساب کیسے کرسکتا ہوں؟ تمہارا ایاز سے چکر رہا ہو یا فیاض سے… لڑکی خوش شکل اور اسمارٹ ہو تو اس سے چکر چلانے کو خودبخوددل چاہتا ہے۔ اس میں تمہارا بھلا کیا قصور!‘‘
عامر اپنی بات کہہ کر یوں خاموش ہوا جیسے اس نے کوئی اچھی بات کہی ہو اور تب اس کا دل چاہا تھا کہ کاش! وہ بھی ڈریکولا جیسی شخصیت کی مالک ہوتی تو اس لمحے اپنے لمبے لمبے ناخنوں سے اس کی گردن دبوچ لیتی لیکن وہ کچھ نہ کرسکتی تھی، سوائے اپنے اوپر جبر کرنے کے!
اس نے بڑے صبر و سکون کا مظاہرہ کرتے ہوئے پراعتماد لہجے میں کہا تھا۔ ’’افیئر…! اور وہ بھی ایاز سے، توبہ کریں جی! یہ تو میرے چھوٹے بھائیوں جیسا ہے۔ بچپن سے ہمارے ساتھ ہمارے گھر میں رہا ہے۔‘‘
’’قرب کے شعلے انسیت کو ہوا دیتے ہیں، اس سے بھلا تم کیونکر انکار کرسکتی ہو۔‘‘ اس نے مجسٹریٹوں والے انداز سے اپنا فیصلہ سنایا اور منہ میں سگار دباتے ہوئے لاپروائی سے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔
عامر کی باتیں سن کر اسے بے حد غصہ آیا تھا اور یہ غصہ اسے عامر سے زیادہ اپنے آپ پر تھا کہ کاش! زندگی کا اتنا بڑا معاہدہ وہ یوں آنکھیں بند کرکے نہ کرتی۔ ایک ایسے انسان کے پلے نہ بندھتی جو ذہنی پسماندگی کے اس مقام پر ہے جہاں اسے ہر لڑکی اپنی ادائوں کے جال بچھا کر لڑکوں سے فلرٹ کرتی نظر آتی ہے۔
عجب منطق ہے ان مردوں کی بھی شادی کے لئے لڑکی بھی چاہئے تو ایسی جو اسمارٹ ہو، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو اور سوسائٹی کے آداب سے واقف ہو لیکن اس کے ساتھ ہی یہ قدغن بھی کہ اس پر کسی انسان کی تو کیا فرشتوں کی بھی نظر نہ پڑی ہو۔
’’تم جیسے لوگوں کو لڑکیوں سے نہیں، کسی کمپیوٹر سے شادی کرنا چاہئے۔‘‘
بارہا اس کا دل چاہا کہ عامر کو کھری کھری سنا ڈالے مگر ہر بار مصلحت آڑے آتی رہی مگر آہ! تمام
مصلحتیں، تمام سمجھوتے ریت کے گھروندے کی طرح ڈھے گئے تھے۔ اس وقت اس کے ذہن میں کچھ نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ ایک عورت ہے۔ ایک ایسی عورت جو سب کچھ برداشت کرسکتی ہے، ہر اذیت سہ سکتی ہے لیکن اپنے کردار کو، اپنی پارسائی کو مجروح ہوتے نہیں دیکھ سکتی، اپنے اوپر بہتان برداشت نہیں کرسکتی۔ چند دن بعد شازیہ کی طرف سے خلع کا نوٹس ملنے پر عامر حیران رہ گیا۔ وہ تو سمجھا تھا کہ چند دن کا غصہ ہے، خود ہی ٹھیک ہوجائے گی مگر اتنا بڑا قدم اٹھا لے گی، اس کا تو اسے وہم و گمان بھی نہ تھا۔
اس نے سوچا ایک بار جاکر اسے سمجھانے کی کوشش کرے، شاید مان جائے۔ یہی سوچ کر وہ اس کے پاس جا پہنچا۔ گھر والے اس کی اچانک آمد پر حیران بھی ہوئے اور خوش بھی کہ شاید اب معاملہ ٹھیک ہوجائے۔
اس نے بڑی معصومیت سے اپنا مقدمہ سب کے روبرو پیش کرتے ہوئے کہا۔ ’’آپ اس سے پوچھئے کہ اسے تکلیف کیا ہے؟ اچھا، خوبصورت گھر ہے، نوکرچاکر ہیں، روپے پیسے کی تنگی نہیں، پھر یہ سب کیا ہے؟‘‘
’’تم ٹھیک کہتے ہو… ہم تو خود بھی چاہتے ہیں کہ حالات سدھر جائیں۔ اب تم خود ہی اسے سمجھائو۔‘‘
امی نے مصالحت کرانے کی کوشش کی اور خود چپ چاپ کسی معقول عذر کے ساتھ کمرے سے چلی گئیں۔
’’سنو…! کیا تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں رہا یا میری محبت میں کمی محسوس کرنے لگی ہو؟‘‘ اس نے بڑی اپنائیت سے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
’’مجھے تمہاری محبت نہیں، اعتماد چاہئے اور اعتماد کے معاملے میں تم بالکل مفلس ہو۔ عورت اور مرد کی زندگی میں اگر اعتبار کے رشتے قائم نہ رہیں تو پھر ان رشتوں کو ٹوٹ ہی جانا چاہئے اور تم نے مجھ پر کبھی اعتماد نہیں کیا، ہمیشہ مجھ پر شک کرتے رہے۔ میری پچھلی زندگی کے واقعات کھنگالتے رہے اور اب وہ لمحہ آگیا ہے کہ میں نے تم سے قطع تعلق کرنے پر خود کو آمادہ کرلیا ہے۔ اب میں ایک ایسی زندگی گزارنا چاہتی ہوں جو صرف میری ہو۔ جہاں کسی کو میری کردارکشی کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اب مجھ میں تمہارا ساتھ دینے کا حوصلہ نہیں کہ میری روح زخمی ہوچکی ہے اس لئے خداحافظ!‘‘ اس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ عامر کے ہاتھ سے چھڑایا اور دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
اور عامر سوچتا رہ گیا کہ اس کا معمولی مذاق اور کھوج لگانے کی عادت کیا اتنی ہی خطرناک تھی کہ ایک عورت جو اس کی بیوی اور اس کے بچوں کی ماں بھی ہے، سب کچھ چھوڑ کر اس سے قطع تعلق کر گئی۔ میں نے تو کبھی اس پر بہتان نہیں لگایا، کبھی اسے کچھ نہیں کہا مگر یہ عورت ذات ہوتی ہی بے وفا ہے۔ پہلی بیوی نے بھی یونہی منجدھار میں چھوڑا تھا تو دوسری بھی تعلق توڑ بیٹھی۔
(ختم شد)

Latest Posts

Related POSTS