صدف نے ایم بی اے کیا ہوا تھا۔ وہ میری دوست کی بہن تھی۔ عمر میں بھی مجھ سے بڑی تھی ۔ اکثر وہ سائرہ کے ساتھ میرے گھر آیا کرتی تھی۔ آہستہ آہستہ اتنی جان پہچان ہوگئی کہ عمرکا فرق بھی نہ رہا۔ صدف سے باتیں زیادہ ہونے لگیں وہ اپنی ہر بات مجھ سے کرنے لگی۔
ایک دن میں اپنی امی کے ساتھ ان کے گھر گئی ۔ وہ چھت پر تھی ۔ امی سے اجازت لے کر اوپر اس کے پاس چلی گئی۔ صدف اندھیرے میں چھت پر کھلے آسمان تلے ایک چٹائی پر بیٹھی تھی اور فون پر بات کر رہی تھی ۔ وہ زار و قطار رو بھی رہی تھی ۔ دھیرے سے پوچھا کہ صدف کیا ہوا ؟ اس نے میری طرف دیکھا مگر خاموش رہی۔ کال سے فارغ ہو کر اور بھی زور سے رونے لگی۔ آخر بہت اصرار پر اس نے اپنے لب کھولے اور رونے کی وجہ بیان کی ۔ صدف یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ تھی ، اس لئے کافی کھلے ذہن کی مالک تھی۔ اپنے کلاس میٹ دانیال کی وجہ سے رورہی تھی۔ اس نے کہا مریم میں دانیال کی وجہ سے پریشان ہوں کیونکہ اس سے پیار کرتی ہوں، مگر اس نے میرے متعلق غلط فہمی پال لی ہے، منانے کی بہت کوشش کی مگر وہ میری بات تک سننے کو تیار نہیں ، کیا کروں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا۔ کبھی دانیال کا ذکر تو نہیں کیا مجھ سے تم دانیال کو کیسے جانتی ہو، مطلب کہ کب سے ہے یہ سب؟ دانیال مجھ سے آٹھ سال بڑے ہیں، انہیں میں تب پسند آئی جب پانچویں کلاس میں تھی۔ میرے میٹرک کرنے تک انتظار کیا اور جیسے ہی میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا انہوں نے مجھے پرپوز کر دیا۔ وہ واقعی بہت خوب صورت تھی ۔ گلابی رنگت سیاہ بال، تیکھے نقوش بادامی آنکھیں ، اس کے حسن میں چار چاند لگا دیتی تھیں۔ صدف نے بتایا کہ دانیال پولیس انسپکٹر ہے۔ بہت خوبصورت ہے۔ پھر اس نے بتایا کہ …… دانیال کی مجھے کال آئی تھی تو میرے یونیورسٹی فیلو کی بھی کال آگئی تو میں نے کال کانفرنس کر دی تا کہ دانیال کو شک نہ ہو، مگر دانیال کے دل میں شک کا کیڑا بیٹھ گیا کہ شاید وہ لڑکا جس کی کال آئی تھی اس کی جگہ میرے دل میں ہے۔ اس شک کی بناء پر مجھ سے تعلق ختم کر دیا ہے اور آخر میں کہا کہ اب مجھے کال یا میسج کرنے کی کوشش مت کرنا ورنہ میں تمہاری پھوپھو کو بتا دوں گا۔ صدف کے والد بہت غریب تھے اس لئے اپنی آنٹی کے پاس رہتی تھی جو اسکول ہیڈ مسٹریس تھیں، ان کی شادی نہیں ہوئی تھی انہوں نے صدف اور سائرہ کو اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔ صدف زار و قطار روئے جارہی تھی۔ اسے حوصلہ دینے کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ آہستہ آہستہ وہ سنبھل گئی ۔ کچھ دن گزرے تو ایک نادانی اور کر بیٹھی ۔ صدف کا ایک دور کا کزن ان کے گھر رہنے کے لئے آیا، اس کا نام محمود تھا- محمود انجینئر تھا اور شادی شدہ بھی تھا۔ وہ اس کے ساتھ وقت گزارنے لگی۔ ایک دن محمود نے صدف سے شادی کا کہہ دیا۔ وہ تو سہارا چاہتی تھی۔ اس نے ہاں کہہ دی۔ پھر صدف اور محمود کی شادی طے ہوگئی۔ شادی میں شرکت کے لئے اس کے گھر چلی گئی۔ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اپنی اور محمود کی منگنی کی تصویریں دکھائیں اور پھر شادی کا جوڑا بھی دکھایا۔ اس کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ میں نے پوچھا کہ محمود تم سے شادی کیوں کر رہا ہے؟ حالانکہ وہ تو پہلے سے شادی شدہ ہے۔ اتراتے ہوئے جواب دیا کہ محمود کی پہلی بیوی عاصمہ کے اولاد نہیں ہوتی ہے۔ وہ محمود اور اس کے گھر والوں کو خوشی نہیں دے سکتی۔ میں حسین و جمیل ہوں ، خوبصورت اور جوان ہوں۔ میں محمود کو اور اس کے گھر والوں کو اولاد کی خوشی ضرور دوں گی۔ عاصمہ کے ساتھ محمود کی لو میرج ہوئی تھی۔ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اس نے مجھ سے شادی کا فیصلہ کر لیا ہے کیوں نہ کرے دوسری شادی یہ تو اس کا حق ہے۔
اگر تمہارے بھی اولاد نہ ہوئی، اور محمود نے تیسری شادی کر لی تو ؟ نہیں محمود ایسا نہیں کریں گے، صدف نے دعوے سے جواب دیا۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں، میرے بغیر نہیں رہ سکتے۔ پیار تو محمود اپنی پہلی بیوی عاصمہ کو بھی بہت کرتا تھا مگر اولاد نہ ہونے پر اس نے اس کو بھی تو چھوڑ ہی دیا ہے تو کیا وہ اولاد نہ ہونے پر تم کو نہیں چھوڑے گا۔ میں نے باتوں میں صدف کو بہت سمجھایا مگر وہ نہ سمجھی۔ آخرکار اس کی شادی ہوگئی ۔ شادی کے بعد صدف جب اپنی پھوپھو کے گھر آتی تو محمود دن رات اسے کال کرتا۔ شادی کو چار سال ہونے کو تھے مگر وہ ابھی تک ماں نہ بن سکی تھی۔ پھوپھو کے گھر آئے دو ماہ ہو چکے تھے۔ وہ واپس اپنے سسرال جاہی نہیں رہی تھی ۔ اس کے پاس اکثر ان دنوں میرا بھی آنا جانا لگا رہتا تھا۔ دو مہینے سے صرف ادھر ہی تھی۔ میں نے پوچھا۔ کیا بات ہے محمود سے جھگڑا تو نہیں ہوا تمہارا؟ بتایا کہ میرے اور محمود کے درمیان واقعی جھگڑا چل رہا ہے۔ میں نے وجہ پوچھی تو صدف نے کہا کہ میرا چیک اپ کروایا تھا محمود نے تو ڈاکٹر نے کہا کہ مجھ میں اولاد نہ ہونے کی وجہ کوئی خاص مسئلہ ہے اور علاج کی ضرورت ہے۔ محمود نے مجھے یہ کہہ کر گھر سے میرے میکے بھیج دیا کہ علاج کروا کر آجانا … تم نے محمود کی پہلی بیوی کا گھر اجاڑا ہے محمود سے شادی کر کے۔ میں نے تب بھی بہت سمجھایا تھا کہ سوچ سمجھ کر فیصلہ لو۔ مگر تم نے میری ایک نہ سی اور کہا کہ پہلی بیوی کے کون سی اولاد ہوتی ہے، وہ اس سے زیادہ میرا خیال رکھیں گے۔ اب اگر تم کو اولاد نہیں ہورہی تو کتنی پریشان ہو، صائمہ بھی تو اتنی ہی دکھی ہوئی ہے۔ صدف رونے لگی۔ اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا اس نے کہا میں نے عاصمہ کے ساتھ بہت برا کیا، یہ اس کی سزا ہے جو مجھے مل رہی ہے۔ وقت بہت ظالم ہوتا ہے۔ اگر کسی کے ساتھ برا کرو تو اس کے ساتھ بھی بُرا ہوتا ہے۔ صدف نے اللہ کے حضور اپنی جھولی پھیلائی کہ یا اللہ میں مانتی ہوں میرا ہی قصور ہے، میری غلطی ہے جو کسی کا گھر برباد کیا ہے اپنے سکون کے لئے ۔ مگر اب مجھے اولاد دے دے، اس نعمت سے محروم نہ رکھ میرے مولا ۔ وہ روتی اور دن رات دعائیں مانگتی۔ اس نے رورو کر خود کو نڈھال کر لیا۔ شوہر کو فون کرتی آ کر مجھے لے جاؤ لیکن وہ نہیں آیا۔ وہ ہرجائی طبیعت تو ایک بھنورا تھا، کسی اور کی کے گرد چکر لگارہا تھا۔ اس نے اپنی پہلی بیوی صائمہ سے بھی صلح کر لی تھی کیونکہ اسے طلاق نہ دی تھی ۔ صدف منتیں کر کر تھک گئی۔ محمود نے اسے نہ گھر آنے دیا اور نہ ہی منانے آیا۔ تبھی وہ بہت افسردہ رہتی تھی۔ کسی کام میں اس کا دل نہیں لگتا تھا۔ ماں باپ اس کی حالت دیکھ دیکھ کر کڑھتے تھے، کہتے تھے فیصلہ لے لو، مگر وہ طلاق نہیں لینا چاہتی تھی بس دن رات اولاد کے لئے دعائیں کرتی رہتی۔ کبھی کبھار محمود ملنے آجاتا اور خرچہ بھیج دیتا۔
پانچ سال ہو گئے مگر ان پانچ سالوں میں کچھ نہیں بدلا ۔ صدف کو اپنے غرور میں بولے الفاظ پر پچھتاوا ہوتا تھا۔ سوچتی تھی انتظار کر لیتی ہوں شاید کہ شوہر کا دل نرم ہو جائے ۔ خدا کا انصاف سب کے لئے ہے۔ اس کی لاٹھی بے آواز ہے۔ انسان کو تکبر میں نہیں رہنا چاہیے۔ کیوں کہ تکبر اللہ کو پسند نہیں ۔ اللہ کو بس عاجزی وانکساری پسند ہے۔ صدف کے غرور اور حقارت سے بولے الفاظ آج اسے خون کے آنسو رلا رہے تھے۔ اور وہ اس امید پر جی رہی تھی کہ شاید اسے اولاد ہو جائے۔ خدا کی کرنی ۔ رب کی طاقت کا کرشمہ اور معجزہ کہ صائمہ کو تو اولا د ہو گئی لیکن اسے نہ ہوئی محمود نے دراصل ایک عرصہ صدف کو اسی لئے اس کے میکے میں ہی رکھا تا کہ وقت کوئی فیصلہ کر دے۔ اگر اولاد ہوگئی تو گھر لے جاؤں گا ورنہ یہ انتظار سے تنگ آکر خود طلاق لے لے گی نہیں تو اس کے والدین اس گومگو کی صورت حال سے تنگ آکر طلاق کا مطالبہ کردیں گے۔
انہوں نے بہت کہا۔ مگر صدف نے یہی جواب دیا کہ اگر میں آپ پر بوجھ ہوں تو کہیں اور چلی جاتی ہوں مگر اس وقت تک انتظار کروں گی جب تک محمود مجھے گھر نہیں لے جاتے۔ محمود نے چھ سال بعد صدف کے پاس اس کے میکے آنا بھی بند کر دیا اور خرچہ بھی بند کر دیا۔ کیونکہ اب اس کی پہلی بیوی دو بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ اس کا گھر مکمل تھا۔ اس کو صدف کی ضرورت نہ رہی تھی۔ اس نے خود ہی طلاق بھجوا دی۔