میرے پہلے بیٹے کی پیدائش پر جیٹھ نے گاؤں بھر میں مٹھائی تقسیم کرائی۔ بڑی خوشیاں منائیں۔ تین دن تک حویلی کے دروازے پر نوبت بجوائی اور اتنا کھانا بنوایا کہ بستی کے تمام لوگوں نے سیر ہو کر کھایا۔ پھر بھی دیگیں بچی رہیں تو یتیم خانے کو دان کر دیا گیا۔
وجہ یہ تھی کہ میرے سسر صاحب کی کافی زرعی اراضی تھی لیکن اس کے وارث کل دو بھائی تھے۔ ایک میرے جیٹھ اور دوسرے میرے شوہر ۔ جیٹھ صاحب کی تین بچیاں تھیں مگر اولاد نرینہ نہیں تھی۔ وہ دعا کرتے تھے کہ اے خدا! اگر میرے نصیب میں بیٹا نہیں ہے تو میر عالم کو ہی بیٹا عنایت کر دے۔ ہماری جائداد و ناموس کا کوئی تو وارث بنے۔ یاد رہے کہ ہمارے علاقے میں بیشتر زمیندار گھرانے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو حق وراثت سے محروم رکھتے ہیں۔ وہ ان بچیوں کی ایسی تربیت کرتے تھے کہ وہ بالغ ہونے کے بعد اپنی مرضی سے بھائیوں کو حق وراثت بخوشی بخش دیتی تھیں۔ اگر شوہر یا سسرال والے ان سے کہتے کہ باپ اور بھائیوں سے اپنا حق ملکیت لاؤ تو اپنے حصے کا مطالبہ کرنے کی بجائے طلاق لینے کو ترجیح دیتی تھیں۔ یہ رواج آج بھی جنوبی پنجاب کے اکثر گھرانوں میں چلا آرہا ہے۔ میر عالم بیٹے کی پیدائش پر بہت خوش تھے۔ مجھ سے سوال کیا کہ تم کو اس پر مسرت موقع پر کیا تحفہ دوں؟ میں نے کہا مجھے آپ کوئی تحفہ دینا چاہتے ہیں تو ملتان میں کوٹھی خرید کر میرے نام کر دیں لیکن شرط یہ ہے کہ اس کوٹھی میں خود رہوں گی۔ میرے شوہر نے جواب دیا۔ کوٹھی خریدنے کی فرمائش تو کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہے، آج ہی خرید کر تمہارے نام کر دیتا ہوں لیکن اس میں رہائش پذیر ہونے کی شرط البتہ ذرا ٹیڑھی کھیر ہے۔ کیونکہ اس کیلئے بڑے بھائی سے اجازت لینی پڑے گی۔ ہمارے یہاں یہ رواج تھا کہ خواتین آبائی گھروں میں زندگی گزارتی تھیں ۔ البتہ مرد حضرات قریبی شہر میں رہائش کر لیتے ۔ وہ آبائی گھر اور زمین کی دیکھ بھال کو جب چاہتے آجاتے ۔ ہمارے گاؤں سے ملتان کا فاصلہ ساٹھ میل تھا جو کہ اپنی گاڑی میں ایک گھنٹے میں طے ہو جاتا تھا۔ بہر حال میں اپنی شرط پر اڑی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مجھے شہر سے بیاہ کر لائے تھے اور میرا میکہ لاہور میں تھا۔ لاہور ایک بڑا شہر تھا لہذا وہاں اور یہاں کے طرز زندگی میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ بستی میں کھلی فضا اور لہلہاتے کھیتوں کی بہار تو تھی لیکن بجلی اور کھانا پکانے کو گیس کی سہولت نہ تھی۔ لکڑیوں پر کھانا پکایا جاتا تھا۔ سخت گرمیوں میں بھی بغیر اے سی کے گزارا کرنا پڑتا تھا۔ یہ زندگی میرے لئے تو عذاب جان تھی حالانکہ نوکر چاکر ، ملازمائیں اور دوسری ہر طرح کی عیش و آرام بھری زندگی موجود تھی لیکن زندگی کی رونقیں نہ تھیں۔ شادی کے بعد بستی میں دل نہ لگا۔ چاہتی تھی کہ خاوند شہر میں سکونت اختیار کر لیں ۔ لاہور میں نہ ہی کم از کم ملتان میں ہی سہی، کیونکہ یہی بڑا شہر ہمارے گاؤں سے نزدیک تر تھا۔ میر عالم نے قانون کی ڈگری لی تھی اور وہ شوقیہ پریکٹس بھی کرتے تھے لیکن ان کی پریکٹس سٹی کورٹ تک محدود تھی جبکہ ڈیرہ کے وکلاء کو اکثر مقدمات کی پیروی ۔ کے سلسلے میں ہائیکورٹ جانا ہوتا تو وہ ملتان جاتے۔
میں نے میر عالم سے تاویل پیش کی کہ آپ کو بڑا اور نامور وکیل دیکھنا چاہتی ہوں۔ چاہتی ہوں کہ آپ ہائیکورٹ کے وکیل بن جائیں ، اس کیلئے آپ کا ملتان میں سکونت پذیر ہونا لازمی ہے تو کیوں نہ ہم ملتان چل کر رہیں؟ جب بستی آنا ہو تو گھنٹے بھر کا سفر ہے، آتے جاتے رہیں گے۔ میری شدت خواہش کو بھانپتے ہوئے انہوں نے ملتان میں گھر خرید دیا اور ہم شہر میں شفٹ ہو گئے۔ یہاں آکر پتا چلا کہ نوکر چاکر اور باندیاں کتنی بڑی نعمت ہوتے ہیں۔ اپنے لئے دو مرد نوکر میرے میاں گاؤں سے ساتھ لائے لیکن گھر یلو ملازمہ کے طور پر کوئی عورت بستی چھوڑ کر مستقل ملتان آنے پر بخوشی راضی نہ ہوئی ۔ جس کو لاتے ، چند دن ہمارے پاس رہ کر واپس بستی جانے کی رٹ لگا دیتی کسی کو اپنے بچے یاد آنے لگتے تو کوئی کھلی ہوا میں سانس لینے کی عادی ہونے کے باعث دم گھٹنے کا راگ الاپنے لگتی تھی۔ کسی نہ کسی بہانے بے سکون کرتی ۔ ہر ماہ ایک نئی عورت بستی سے بطور ملازمہ ہم منگواتے اور وہ ایک ماہ بھی سکون سے نہ رہتی۔ اس طرح کی افراتفری سے ذہنی پریشانی کا شکار ہوگئی۔ ایک تو بچہ چھوٹا تھا۔ اس کی دیکھ بھال یوں بھی پہلے بچے کی پرورش میں بزرگ خواتین کی معاونت کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ میرے پاس یہاں میرے علاوہ کوئی نہ تھا۔ ساس پہلے ہی اللہ کوپیاری ہو چکی تھیں۔ والدہ لاہور چھوڑ کر ملتان میرے پاس آنے پر راضی نہ تھیں، ان کا اپنا گھر بار تھا۔ چھوٹی دونوں بہنیں کالج میں زیر تعلیم تھیں۔ وہ بھی نہیں آتی تھیں۔ گاؤں میں جٹھانی ، ان کی تینوں بچیاں اور میری نندیں بھی میرے بچے کی سیوا میں لگی ہوتی تھیں۔ وہاں مجھے گھر کے کام کاج بھی نہ کرنے پڑتے تھے۔ ملازمائیں تھیں۔ میں تو نکا نہ توڑتی ہل کر پانی بھی نہ پیتی تھی۔ پیاس لگتی تو ملازمہ کو آواز دیتی کہ پانی لاؤ۔ سچ ہے کہ انسان کسی حال خوش نہیں رہتا۔ اپنے گاؤں والے گھر میں سو نعمتیں تھیں۔ عیش و آرام تھا۔ چھپر کھٹ پر بیٹھ کر راج کرتی تھی اور دکھی رہتی تھی۔ گرمی کا رونا بجلی کا نہ ہونا۔ یہی سب سے بڑا دکھ تھا اور یہاں اکیلی کوٹھی کا انتظام، میاں صاحب کے روزانہ کے مہمانوں کا کھانا بنانا اور چھوٹا سا بچہ گویا کہ ذمہ داریوں کا پہاڑ ہی تو مجھ پر ٹوٹ پڑا تھا۔ سچ ہے کہ مشترکہ فیملی ستم بھی ایک بڑی نعمت ہے۔ ہم کو جب اکیلے زندگی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تو دماغ ٹھکانے آگیا۔ ملتان میں ملازمہ جو بھی ملی ، مطلب کی نہ ملی۔ یہ اپنی مرضی سے آتی جاتی اور انہیں تو پیسوں کی بھی جیسے پروانہ تھی۔ ذراسی بات کہہ دو تو کام چھوڑ کر چلی جاتیں۔ پھر دوسری کا تردد کرنا پڑتا۔ نئے سرے سے ہر کام سمجھانا پڑتا۔ مہان زیادہ آجاتے تب ان کی بڑ بڑ شروع ہو جاتی۔ ان کے تو مزاج ہی نہ ملتے تھے اور ہم اس قسم کے ملازمین کے عادی نہ تھے۔ گاؤں میں تو جو کہو، ہمارے خدمت گار سر جھکا کر ہر حکم کی اطاعت کرتے تھے۔ میں بہت جلد تنگ آگئی۔ بڑے شہر کی سکونت میں سب سے بڑا مسئلہ میرے لئے اب کسی اچھی خدمت گار عورت کا نہ ملنا تھا۔ جو سکون دے، اچھا کام کرے اور میرے مزاج کی ہو۔ دو چار ملازم عورتیں ایسی بھی ملیں جو اچھی خدمت گار تھیں اور میری مرضی کا کام کرتی تھیں مگر انہوں نے میری کچھ اشیاء چرا لیں۔ جب مجھے علم ہوا، ان کو نکال دینے میں ہی عافیت سمجھی۔ ابھی یہ مسئلہ چل رہا تھا کہ اللہ تعالی نے پھر سے گود ہری کر دی اور میں دوسرے بچے کی ماں بن گئی۔ میرا پہلا بیٹا میر محمد صرف ایک سال دو ماہ کا تھا کہ دوسرا بیٹا میر خضر پیدا ہو گیا۔ دو چھوٹے بچوں کو سنبھالنے میں تو باؤلی کی ہو گئی۔ کبھی ملازمہ ہوتی تو کبھی نہ ہوتی۔
ایک روز رو کر خدا سے دعا کی ۔ اے اللہ ! مجھے کوئی اچھی خدمت گار عطا کر دے، سو نقل نماز شکرانہ ادا کروں گی۔ خدا نے میری دعا سن لی۔ ان دنوں جو عورت میرے گھر کی صفائی کرنے آتی تھی ، اس نے کہا کہ میرے محلے میں ایک عورت نے مجھے کہا ہے کہ وہ اپنی گیارہ برس کی بیٹی کو کسی شریف گھرانے میں دن رات کیلئے رکھوانا چاہتی ہے۔ اگر آپ کہیں تو اس لڑکی کو کل ساتھ لے آؤں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں فورا لے آؤ۔ میں نے جواب دیا۔ اگلے روز گلزار اپنے ہمراہ ایک عورت اور بچی کو لے آئی۔ بچی کو پہلی نظر دیکھا تو وہ مجھ کو اچھی لگی۔ کچھ بھی ہوئی سی، غربت کی ماری لیکن چہرہ پھر بھی شہزادیوں جیسا تھا۔ اتنی حسین لڑکی اس عورت کی نہیں ہو سکتی۔ میں نے اس کی سانولی اور قدرے موٹی ماں کی طرف دیکھ کر سوچا۔ ماں بھی بری شکل کی نہ تھی مگر لڑکی تو حسن میں کمال تھی۔ کیا تمہاری اپنی بیٹی ہے؟ تبھی میں نے عورت سے سوال کیا ۔ ہاں بیگم صاحبہ یہ میری اپنی بچی ہے، میری کوکھ سے پیدا ہوئی ہے۔ لگتا ہے اس بچی کا باپ خوبصورت ہوگا۔ میں نے دل میں خیال کیا ۔ بی بی جلدی سے تنخواہ طے کر لیں، میرا خاوند باہر کھڑا ہے، جلدی لوٹ کر جانا ہے۔ کیا تمہارا خاوند ساتھ آیا ہے؟ ہاں جی واپس اکیلی کیسے جاتی ۔ ہم تو قاسم بیلا سے آئے ہیں، میرا گھر یہاں سے دور ہے۔ اچھا تو کیا تنخواہ لوگی ؟ چھ ہزار پر آپ اس کو دن، رات رکھ لیں ۔ مہینے میں بس ایک دن کیلئے اسے لے جاؤں گی ۔ صبح لے جاؤں گی اور شام کو واپس چھوڑ جاؤں گی۔ یہ اپنےبہن، بھائیوں سے مل لے گی۔ مجھے منظور ہے۔ اب تم اسے چھوڑ جاؤ۔ میرے گھر کے ماحول کے بارے میں بے فکر ہو جاؤ ۔ اماں گلزار چھ ماہ سے میرے پاس کام کر رہی ہے۔ ہمارا ماحول جانتی ہے۔ میں نے اسے اطمینان دلایا۔ بی بی کچھ ایڈوانس دیں ۔ ہم بہت غریب ہیں اور ہمارے پاس واپسی کا کرایہ بھی نہیں ہے۔ اچھا ٹھیک ہے۔ میں نے اسے دو ہزار کے نوٹ تھما دیے تو وہ خوش ہوگئی۔ جب وہ گھر سے نکلی، گیٹ بند کرنے سے قبل میں نے ذرا سا تک کر دیکھا۔ ایک کالا ، بھدا ناٹا اور بد شکل شخص جو اس کا خاوند تھا، مجھے نظر آ گیا۔ اف خدا! تو کیا یہی اس پری چہرہ بچی کا باپ ہے؟ ہرگز نہیں یہ اس لڑکی کا باپ نہیں ہو سکتا۔ بچی کی ماں کے نقوش تو پھر بھلے سے تھے مگر باپ خدا مجھے معاف کرے، اچھا خاصا بد صورت بلکہ کریہ شکل کا تھا۔ سوچ کر رہ گئی کہ مجھے بچی کی ضرورت تھی۔ چوبیس گھنٹے میرے پاس رہے گی۔ میرے چھوٹے بچوں کو دیکھے گی۔ چھوٹے بچوں کے تو اوپر کے سو کام ہوتے ہیں، دوڑ دوڑ کر کرے گی۔ مجھے اس سے کیا کہ اس کے ماں ، باپ کیسی شکل وصورت کے ہیں۔ اس کی ماں کے جانے کے بعد میں نے لڑکی سے اس کا نام پوچھا۔ سائره … وہ بولی ۔ نام تو تمہارا بہت اچھا ہے۔ ہاں میرے اپنے ابو نے رکھا تھا۔ اچھا ٹھیک ہے۔ میں نے بچی کے کہے ہوئے فقرے پر غور نہ کیا۔ سائرہ ایک دو دن لئے دیئے رہی، پھر نارمل ہوگئی۔ وہ بہت اچھی اور اطاعت گزار ثابت ہوئی۔ جو کام کہتی، دوڑ کر پوری توجہ اور مستعدی سے کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ بہت جلد میری مرضی میں ڈھلتی گئی اور جس طرح میں چاہتی تھی ، ویسی ہی خدمت گزار بن گئی۔ سائرہ کے آجانے سے بہت سکون ملا۔ اس کی ماں بھی ہفتہ پندرہ دن بعد آکر مل جاتی۔ مجھے کوئی اعتراض نہ تھا۔
میرے پاس روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔ مجھے تو بس سکون درکار تھا، جو سائرہ نے دیا۔ بدلے میں اس کی ماں جو فرمائش کرتی، میں پوری کر دیتی۔ رقم کا تقاضا کرتی تو کبھی جوڑے مانگتی۔ میں اپنے ذرا اترے جوڑے جمع رکھتی اور وہ لے جاتی۔ ایک بار کچھ سامان کی فرمائش کی۔ دس ہزار اس کے ہاتھ میں تھما کر کہا۔ خود جا کر خرید لو۔ ایک بار آئی تو بولی۔ برسات میں چھت سے پانی آتا ہے، کمرے کی ہر شے بھیگ جاتی ہے۔ میں نے بیس ہزار دیئے کہ نئی چھت ڈلوا لو ۔ غرض میں کسی صورت سائرہ کو اسے نہیں لوٹانا چاہتی تھی کیونکہ وہ میرے گھر کا حصہ بن چکی تھی۔ اس نے تقریبا میری تمام پریشانیاں جو گھر داری سے متعلق تھیں، اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھالی تھیں۔ اگر میں اسے آدھی رات کو بھی آواز دیتی۔ سائرہ اٹھ جاؤ، میر محمد رو رہا ہے، اسے اپنے کمرے میں لے جا کر سلا دو۔ وہ بجلی کی تیزی سے اٹھ کر آجاتی اور منے کو اٹھا کر لے جاتی۔ پیار سے تھپک کر سلا دیتی یا فیڈر بنا کر پلا دیتی۔ اب تو وہ اتنی ٹرینڈ ہوگئی تھی کہ بچوں کی نیپی بدلوانا ، فیڈر ابالنا، وقت پر دودھ بنا کر ان کو پلا دینا ، ان کو نہلانا، کپڑے بدلوانا، ان کے کپڑے روزانہ دھو کر استری کر کے رکھنا غرض کونسا کام تھا جو وہ از خود سلیقے سے نہیں کرتی تھی۔ اب تو میں اس کے بغیر ایک دن رہنے کا تصور نہیں کر سکتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ اگر چند گھنٹوں کیلئے اپنے بہن، بھائیوں سے ملنے ماں کے ساتھ جاتی تو شام تک اس کے بغیر روہانسی ہو جاتی تھی جیسے کہ میرے دونوں بازو کٹ گئے ہوں۔ رفتہ رفتہ ان لوگوں نے بھانپ لیا کہ سائرہ اب میری کمزوری بن چکی ہے، تب اس کی ماں کے مطالبات بڑھنے لگے، مثلاً سائرہ کی بڑی بہن کی شادی ہے، اس کے جہیز کیلئے رقم چاہئے ۔ ہمارا گھر چھوٹا ہے صرف ایک مرلہ پر ایک کمرہ ہے، غسل خانہ تک نہیں ہے۔ ساتھ والا پلاٹ بک رہا ہے۔ میرے آٹھ بچے ہیں، تنگ جگہ گزارا نہیں ہوتا ، رات کو بچے دادی کے گھر اور کچھ چاچا کے گھر جا کر سوتے ہیں۔ اگر دولاکھ ادھار دے دیں تو ہم تین مرلے اور خرید لیں، گھر بڑا ہو جائے گا۔
جب مطالبات بڑھنے لگے تو ایک روز میرے منہ سے نکل گیا۔ سائرہ تمہارے ماں، باپ تو حد سے بڑھنے لگے ہیں۔ کیا اب مجھے تم کو انہیں واپس کرنا ہوگا ؟ وہ بولی….. باجی میری ماں لالچی نہیں ہے مگر میرا باپ لالچی ہے۔ وہی یہ سب ماں سے کرواتا ہے لیکن میں آپ کے پاس رہوں گی ، اب گھر واپس نہ جاؤں گی۔ کیوں کیا تم کو ماں باپ، بہن بھائیوں کی یاد نہیں آتی ؟ بہن بھائی تو یاد آتے ہیں لیکن ماں باپ سے پیار نہیں ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے سائرہ آخر تو وہ تمہارے ماں باپ ہیں۔ وہ میرے ماں باپ نہیں ہیں باجی ! آپ خود ان سے پوچھ لیں۔ اگر وہ میرے ماں باپ ہوتے تو مجھے یہاں دن رات کیلئے کیوں چھوڑ جاتے۔ ان کی دوسری بیٹیاں بھی تو ہیں ان کو تو ایسے کسی کوٹھی پر دن، رات کیلئے نہیں رکھواتے۔ باجی یہ میرے سگے ماں باپ نہیں۔ فضول باتیں نہ کرو سائرہ تمہاری شکل تمہاری ماں سے بہت ملتی ہے۔ ماں تو تمہاری سگی ہے اور باپ؟ میرا باپ تو امیر آدمی تھا اور اس کا نام راشد تھا ، ہاں باجی آپ امی سے پوچھ لینا۔ بچی کی بات پر میں حیران ہوگئی۔ اسے چپ کرا دیا کہ ایسی باتیں نہیں کرتے ۔ تمہاری ماں آئے گی تو پوچھ لوں گی کہ تمہاری بیٹی یہ کیا کہتی رہتی ہے۔ بخت آئی تو میں نے اسے کہا کہ تیری بیٹی کہتی ہے کہ میری ماں اور باپ سگے نہیں۔ یہ مجھ سے پیار بھی نہیں کرتے۔ میں تو ایک امیر آدمی کی بیٹی ہوں اور میرے بھائی بھی امیر ہیں۔ وہ تو مجھ سے ملنا چاہتے ہیں اور یہ ماں باپ مجھے ان سے نہیں ملاتے۔ میں نے سائرہ کو کام ذمے لگا کر اوپر کی منزل پر بھیج دیا اور بخت سے کہا۔ اب بتاؤ کہ یہ ایسا کیوں کہتی ہے؟ وہ اپنے باپ سے زیادہ تمہارا گلہ کرتی ہے کہ ابا تو پھر مجھے پیار کرتا ہے لیکن ماں نہیں کرتی ۔ دراصل تو میری یہ ماں ہی سوتیلی ہے۔ بخت گویا ہوئی۔ باجی کیا بتاؤں بات ایسی ہے کسی کو نہیں بتا سکتی مگر آپ کو بتا رہی ہوں کیونکہ آپ کو بتانا ضروری ہے۔ اگر کسی روز میرے بغیر اس کا باپ اکیلا اسے لینے آجائے تو کسی طور سائرہ کو اس کے حوالے نہ کرنا ورنہ وہ اسے بیچ دے گا۔
وہ کیوں اسے بیچ دے گا ؟ جبکہ اس کی اور بھی بیٹیاں ہیں ، ان کے بارے تو تم کو کوئی خطرہ نہیں ہے پھر سائرہ کیلئے خطرہ کیوں ہے؟ یہی تو بات ہے اور اسی وجہ سے اس کو ادھر رکھا ہے۔ بی بی میں آپ کو آج اصل بات بتاتی ہوں۔ ابھی سائرہ پیدا نہیں ہوئی تھی اور میں صرف تین بچوں کی ماں تھی، تب میں اور میرا شوہر راشد نامی ایک مالدار شخص کی کوٹھی پر کام کرتے تھے۔ میں ان کی گھریلو ملازم تھی اور میرا خاوندان کی کوٹھی کا مالی تھا۔ انہوں نے ہم کو سرونٹ کوارٹر بھی دے رکھا تھا۔ راشد کی بیوی اکثر گھر پر موجود نہ رہتی تھی۔ اس کی بیوی بہت خوبصورت تھی لیکن وہ لاہور کی تھی۔ ہر ماہ لاہور چلی جاتی تھی صاحب بہت ڈسٹرب ہوتے مگر وہ عورت ان کے کہنے میں نہیں تھی۔ ان کے تین بیٹے تھے اور بیٹی کوئی نہ تھی۔ صاحب اور بیگم کو بیٹی کی آرزو تھی۔ میں امید سے ہوگئی تو انہوں نے کہا بخت ! اگر تمہارے گھر اب بیٹی ہوئی تو ہم کو دے دینا۔ ہم اس گود لے لیں گے۔ میں نے اقرار کر لیا کہ ہاں صاحب دے دوں گی۔ خدا کی کرنی میں نے ان کے سرونٹ کوارٹر میں بیٹی کو جنم دیا۔ میری تو پہلے سے ہی تین بیٹیاں تھیں۔ انہوں نے اس کا نام سائرہ رکھا اور بیٹی دینے کی بات یاد دلائی۔ اس وقت ممتا نے روکا مگر اپنے عہد سے مجبور ہو کر بیٹی میں نے راشد صاحب اور ان کی بیگم کے حوالے کر دی۔ چند دن تو ان کی بیگم نے میری بچی کا چاؤ کیا اور اسے قبول کر لیا مگر شاید دل سے قبول نہ کیا تھا۔ راشد صاحب نے بچی کیلئے خوبصورت جھولا بنوایا ، اس کو سونے کی انگوٹھیاں پہنائیں، بڑا چاؤ کیا لیکن ایک روز دونوں میاں ، بیوی میں جھگڑا ہوا تو بیگم اپنے تینوں بیٹے لے کر لاہور چلی گئی اور میری بچی کو پالنے میں ہی چھوڑ گئی۔ میں سائرہ کو ان کے سپرد کر چکی تھی، لہذا اپنے گھر آگئی تھی تاکہ بچی سے دور ہو جاؤں اور اس بھلا سکوں ۔ اگر وہاں رہتی تو پھر اس کی محبت میرے دل سے نہ جاتی ۔اولاد کی محبت دل سے کب جاتی ہے۔ میں بچی کی یاد میں بیمار پڑی تھی۔ اچانک ایک روز دروازہ بجا اور راشد صاحب آئے ۔ وہ بیمار تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے دل کی شریانیں بلاک ہیں اور آپریشن ہوگا۔ بچنے کے امکانات کم ہیں۔ بیوی چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ لہذا یہ تمہاری بچی تم کو سپرد کرنے آیا ہوں ۔ اگر میری زندگی نے وفا نہ کی تو اس کو کون پالے گا۔ تمہارے سوا کوئی اور تو نہیں پال سکتا۔ میں نے دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ میری اولاد دوبارہ میری گود میں آگئی تھی مگر را شد صاحب کا بھی دکھ تھا۔ دعا کر رہی تھی کہ خدا ان کو آپریشن کے بعد نئی زندگی عطا کرے۔ وہ جاتے ہوئے کافی رقم دے گئے کہ بچی کی پرورش میں کام آئے گی۔ میرے شوہر نے رقم تو سمیٹ لی۔ میرے شوہر اور سسرال والوں کو شبہ ہوا کہ یہ بچی ان کی نہیں ہے بلکہ میری اور راشد صاحب کی کسی لغزش کا نتیجہ ہے۔ بہرحال راشد صاحب کا آپریشن کے دوران انتقال ہو گیا اور میری بچی ہمیشہ کیلئے میری ہو گئی۔ میرے شوہر کی فطرت اچھی نہیں ہے۔ وہ مجھے باتوں باتوں میں تنگ کرنے لگا کہ سائرہ کی صورت تو راشد سے ملتی ہے اور اس نے بچی کو اسی وجہ سے گود لیا تھا۔ اس نے بچی کی
پیدائش کا تمام خرچہ کیوں بھرا، کیوں اس کا اتنا چاؤ کرتا تھا اور کیوں اس کی بیوی اس کے ساتھ جھگڑا کر کے چلی گئی۔ سائرہ کو بھی چھوڑ گئی اور شوہر کو بھی! میرے پاس اپنے شوہر کی باتوں کا کوئی جواب نہ تھا۔ میرے تو اور بھی بچے تھے۔ شوہر سے علیحدگی لے کر بچے کہاں لے جاتی اور کیسے ان کو پالتی ۔ بس اس اذیت اور شک بھرے حالات میں اب تک جی رہی ہوں۔ جب تک سائرہ چھوٹی تھی ، حالات زیادہ نہیں بگڑے تھے۔ اذیت میری ذات تک محدود تھی لیکن اب جبکہ یہ بڑی ہو گئی ہے، میرے شوہر کا التفات اس پر کچھ زیادہ رہنے لگا ہے۔ اس بات سے میں خوف زدہ رہتی ہوں کہ یہ التفات سائرہ کو کہیں نقصان نہ پہنچائے ۔ اگر وہ کسی انتقامی کارروائی پر اتر آیا تو اسے نقصان پہنچائے گا یا اسے مجھ سے چوری بیچ دے گا تو میں کیا کرلوں گی۔ شوہر کے خلاف عدالت کیسے جاؤں گی۔ میرے اور بھی تو بچے ہیں۔ وہ رورہی تھی اس کی بے بسی دیکھ کر مجھے بھی روتا آ رہا تھا۔
اب میں اس لڑکی کو کیسے سمجھاؤں کہ میں تیری سگی ماں ہوں۔ میرا شوہر دن رات اس کے دماغ میں یہی بات بھرتا رہتا تھا کہ یہ تیری سگی ماں نہیں ہے۔ اگر سگی ماں ہوتی تو کیوں تجھ کو لاہور والی عورت اور اس کے شوہر راشد کو دے دیتی۔ سائرہ نادان ہے، وہ میرے شوہر کے جھوٹے پیار کو نہیں سمجھتی۔ مجھے اپنی فکر نہیں ہے لیکن میرا آدمی بہت خراب ہے۔ مجھے اس کی نیت پر بھروسہ نہیں۔ چاہتی ہوں اس کا کوئی اچھا رشتہ مل جائے تو جلد از جلد اس کے ہاتھ پیلے کردوں۔ یہ آپ کے گھر سے میرے گھر آنے کی بجائے شادی ہو کر اپنے گھر جائے تا کہ میرے شوہر کو اسے بہکانے یا ورغلانے کا موقع نہ ملے۔ تمام کہانی سن کر میں نے کہا۔ بخت تمہاری مظلومیت پر میں دکھی ہوں ، تمہارے ساتھ ہوں اور تمہارا ساتھ دوں گی لیکن اس کہانی میں جو ایک نکتہ متنازع ہے، وہ یہ ہے کہ تمہاری بیٹی شکل وصورت سے تمہارے تمام بچوں سے بہت مختلف اور علیحدہ ہے۔ رہا تمہارے شوہر کا تم پر شک بھرا الزام ؟ تو کیا تم اس بارے میں کچھ کہنا چاہو گی۔ کچھ دیر وہ خاموش رہی، نظریں زمین پر گاڑھے تھی۔ پھر دبی آواز میں بولی۔ باجی یہ صحیح ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے اور اگر کوئی خطا کرے تو اس کی سزا بھی ملتی ہے۔ مجھ سے جو بھی خطا ہو گئی ، اس کی سزا بھگت رہی ہوں۔ جانے کب کتنی اور ملے گی لیکن دعا کرتی ہوں کہ میرے گناہ کی سزا مجھے ہی ملے، میری معصوم بچی سائرہ کو نہ ملے اور یہ عزت کی زندگی گزارے۔ بی بی ! ہم بہت غریب لوگ ہیں اور مفلسی بری چیز ہے۔ غربت میں کبھی کبھی عزت کو بھی داؤ پر لگانا پڑ جاتا ہے۔ یہ کہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی جیسے اپنا راز میرے دامن میں ڈال کر پشیمان ہو۔ میں نے زیادہ بات کرنی مناسب نہ سمجھی۔ اسے کچھ رقم دی اور کہا۔ فکر نہ کرو تمہاری لڑکی میرے گھر میں محفوظ ہے۔ یہاں کوئی اس کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ تنخواہ اور بڑھا دوں گی۔ تمہارا شوہر رقم کا مطالبہ کرے تو لے لینا۔ لیکن اب یہ بڑی ہو رہی ہے، اس کا رشتہ تلاش کرو اور جب کوئی اچھا رشتہ مل جائے تو جہیز کی بھی فکر نہ کرنا ہم اس کو اپنے گھر سے عزت کے ساتھ بیاہ دیں گے۔بخت نے مجھے دعائیں دیں۔ اس کے بعد چار برس اور سائرہ میرے پاس رہی۔ اب میرے بچے اسکول جانے لگے تھے۔ ایک روز اس کی ماں آگئی۔ بولی۔ سائرہ کا اچھا رشتہ ملا ہے۔ بھائی کا بیٹا ہے لیکن میرا خاوند ، میرے بھائی سے رشتے کے بدلے تین لاکھ مانگتا ہے۔ میں نے میر عالم سے ذکر کیا۔ انہوں نے کہا اس بچی نے اتنے برس خلوص کے ساتھ کام کیا ہے اور ہمارے بچوں سے پیار کرتی ہے، بدلے میں یہ رقم کچھ نہیں۔ انہوں نے بخت کے بھائی کو بلایا اور معاملے کی چھان بین کر کے تین لاکھ دیئے کہ تم اپنے بہنوئی کو دے کر بھانجھی کو بہو بنا لو- بتاتی چلوں کہ دیہات کے غریبوں کا یہ رواج ہے کہ لڑکی کے بدلے لڑکی ( وٹہ سٹہ) لیتے ہیں یا پھر رقم طے کرتے ہیں لہذا رقم لے کر بخت کے شوہر نے سائرہ کا رشتہ اپنے سالے کے بیٹے کو دیا۔ آج سائرہ خوش و خرم اپنے گھر آباد ہے۔ کبھی کبھی مجھ سے ملنے آیا کرتی ہے۔