میں غربت دور کرنے گھر سے نکلی تھی اور حالات نے مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ ہم تو اپنے دیس میں بھی محنت کش لوگ تھے۔ ابا کی تھوڑی سی زمین تھی۔ وہ اور بھائی صبح سے شام تک اپنے کھیتوں میں دھان بویا کرتے تھے ، ہمیں دو وقت کی روٹی میسر تھی، سو خوشحال تصور کیے جاتے تھے کیونکہ جہاں ہم رہتے تھے وہاں دو وقت کی روٹی بھی لوگوں کو نصیب نہیں تھی۔ میرے باپ اور بھائی کی محنت کی وجہ سے ہمارے گھر میں اچھا کھانا پکتا تھا۔ اس بار بھی ہماری فصل بہت اچھی ہوئی تھی لہذا میں نے بھیا سے فرمائش کی کہ جب منڈی میں فصل بیچنے جائو تو میرے لئے سینڈل لے آنا۔ تیرے لیے سینڈل لائوں گا اور چوڑیاں بھی، تو فکر نہ کر۔ اس نے جواب دیا تھا لیکن اس وقت سارے منصوبے خاک میں مل گئے جب ایک طوفانی رات نے ہمارے ہرے بھرے کھیت اور کھلیان اجاڑ دیئے۔ پہلے بند ہوا کے جھکڑ چلے پھربارش شروع ہو گئی۔ اتنی تیز بارش ہوئی کہ پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ اس کے بعد ژالہ باری ہونے لگی جس نے ہماری کھڑی فصلیں اجاڑ دیں۔ کھانے کے لئے دانہ نہ بچا تو ابا اور بھیا سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ امی رو رہی تھیں کہ اب کیا کھائیں گے اورکیونکر جئیں گے۔ قدرت کے سامنے سبھی بے بس تھے۔ یہ تو قدرتی آفت تھی، جس کو روکا نہ جا سکتا تھا۔ گھر میں اناج کا تھوڑا سا ذخیرہ باقی تھا۔ کچھ دن گزارا ہوتا رہا۔ اب نئی فصل کے اگنے اور اس کو منڈی میں فروخت کرنے میں بہت وقت درکار تھا۔ اناج ختم ہو گیا تو ابا نے بھائی سے کہا کہ تم نوکری ڈھونڈو، فصل تو موسم پر ہو گی۔ اتنے دن کیا کریں گے۔ بھائی شہر چلا گیا اور اس کو ایک جوٹ مل میں کام مل گیا۔ وہ ہمیں گزارے کے پیسے بھجوانے لگا، مگر بازار کے کھانے سے اس کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی۔ اماں کو علم ہوا تو بیٹے کی فکر سے بیمار رہنے لگیں۔ تبھی ابا نے بھیا کو سندیسہ بھیجوایا کہ آ کرماں سے مل جائو۔ وہ تمہاری جدائی کے صدمے سے پریشان ہے۔ سندیسہ ملتے ہی بھائی اسی شام روانہ ہو گیا گرچہ، اس روز موسم خراب تھا اور ندیوں میں طغیانی کی صورت حال تھی۔ بارش ہو رہی تھی، راستے بھی خراب تھے۔ بھائی نے بس کا سفر چنا تھا۔ سڑک پر پھسلن اور جا بہ جا گڑھے تھے۔ دوران سفر بس کی راڈ کھل گئی یا کچھ ایسا ہوا کہ ڈرائیور گاڑی پر قابو نہ رکھ سکا اور وہ ایک درخت سے جا کر ٹکرائی۔ میرا بھائی بھی دیگر مسافروں کے ساتھ شدید زخمی ہوا۔ ابا کو اطلاع ملی۔ بھائی کو اسپتال لے گئے تھے۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ آپریشن ہو گا، جس کے لئے بہت سے روپوں کی ضرورت تھی جبکہ ہمارے پاس گھر میں دو سکے نہ تھے۔ مجبوراً ابا نے زمین سستے داموں بیچ دی اور بیٹے کا علاج کروایا۔ اس کی جان تو بچ گئی مگر وہ ساری زندگی کے لئے اپاہج ہو گیا۔ زمین ہی تو ہمارا سہارا تھی۔ یہ سہارا بھی جاتا رہا۔ اب ارد گرد کے لوگوں کی طرح ہمارے گھر بھی فاقے ہونے لگے۔ ایک رات تیز بارش ہو رہی تھی کہ ایک شخص نے ہماری جھونپڑی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ابا نے دروازہ کھولا۔ وہ بولا۔ میں نزدیک ہی رہتا ہوں۔ گھرجا رہا تھا کہ بارش آ گئی ۔ آپ کی کٹیا میں روشنی دیکھی تو یہاں پناہ کے لئے آ گیا۔ رستہ بہت خراب ہے۔ اس لئے آگے نہیں جاسکتا۔ ایک رات کے لئے مجھ کو پناہ دے دو۔ یہ شخص کسی پڑھے لکھے کی مانند بڑی شستہ بنگالی بول رہا تھا تبھی ابا اس کو اندر لے آئے۔ ہم جو روکھا سوکھا کھا رہے تھے۔ اس میں ایک کھانے والا اور شامل ہو گیا۔ اسے بھی کھانا دیا۔ وہ کھا کر ایک طرف سو گیا۔ میں بھی وہیں سورہی تھی کہ باقی گھر بارش سے گیلا ہو رہاتھا۔ جتنی بار رات کو میری آنکھ کھلی، میں نے محسوس کیا کہ وہ اجنبی جاگ رہا ہے اور میری طرف دیکھا رہا ہے۔ اس خیال سے میری نیند اڑ گئی کہ وہ کیوں ایسا کر رہا ہے۔ صبح ہو گئی۔ گھر میں امی اور میں پہلے جاگ جاتی تھیں۔ ہم باورچی خانے گئیں۔ ماں نے قہوہ بنایا اور کہا کہ اس مہمان کو دے آئو۔ میں نے اس کو قہوہ دیا۔ اس نے شکریہ کہا۔ اس کی نظر بار بار میری طرف اٹھتی تھی جیسے شکاری چوکس انداز میں اپنے شکار کو دیکھتا ہے۔ گھر کی حالت سے اس نے ہمارے حالات کا اندازہ کر لیا تھا۔ اب اس نے ابا کو اپنے دام میں الجھانا شروع کر دیا۔ کہنے لگا کہ میں فلاں شہر میں ایک دکان کا مالک ہوں۔ اگر آپ میرے ساتھ وہاں چلیں تو میں آپ کو کام دلا سکتا ہوں۔ اس نے کچھ رقم جو ہمارے حساب سے بہت زیادہ تھی ابا کو دے دی۔ رقم بطور ایڈوانس تھی۔ ہماری لئے تو یہ دن عید کا دن ثابت ہوا کہ جہاں ٹکہ موجود نہ تھاوہاں اتنے سارے پیسے وہ شخص دے گیا تھا۔ ابانے رخت سفر باندھ لیا۔ تب اس شخص نے کہا اگر آپ اپنی بیٹی کو بھی لے چلیں تو میں اس کی تنخواہ بھی آپ کو ابھی ایڈوانس دے دیتا ہوں۔ اتنے سارے اور پیسوں کا سن کر میرے والد کی آنکھوں میں چمک آگئی، جیسے کئی دن کا پیاسا، صحرا کا مسافر سامنے سراب کو دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے۔ یوں امی نے میر اسامان بھی ابا کے سامان کے ساتھ باندھ دیا۔ میں ابا کے ساتھ جارہی تھی پھر بھی جانے کیوں میرے دل ڈوب رہا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ اب میں کبھی گھر واپس نہیں آسکوں گی۔ میری چھٹی حس بار بار مجھے خطرے سے آگاہ کر رہی تھی مگر مجبور تھی۔ والد نے کہا۔ چلو ، تو میں خاموش سے ان کے ساتھ چلی گئی۔ چلتے سمے گھر پر ایک آخری نگاہ ڈالی۔ ماں کو دیکھا تو رونا آ گیا۔ برا ہو اس غربت کا کہ اس نے مجھ کو کہیں کا نہ چھوڑا اور در بدر کر دیا۔ شام کو ہم بس میں سوار ہوئے۔ ساری رات سفر کرتے رہے۔ صبح ایک شہر میں پہنچے۔ میں نے شہر پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ اس نے ابا کو دکان پر ملازم کرا دیا اور مجھے ایک گھر میں ٹھہرا دیا۔ کہنے لگا کہ فکر نہ کریں ، یہاں عورتیں چمڑے کے پرس مشین پرسیتی ہیں۔ فیکٹری کھلے گی تو تم کو وہاں کام مل جائے گا کچھ دن یہاں رہنا ہو گا۔ ابا نے گھر خط بھیج دیا تا کہ امی کو تسلی ہو اور گھر سے جواب بھی آ گیا۔ یہ ہی آدمی ہم کو گھر سے آئے خطوط پڑھ کر سناتا اور ان کی طرف سے جواب بھی لکھ کر بھیجواتا تھا۔ اس شخص کا نام قاسم تھا۔ ایک روز اس نے بتایا کہ گھر سے خط آیا ہے۔ بھائی کی طبیعت خراب ہے۔ آپ کو بلا رہے ہیں۔ یہ خبر سن کر میں پریشان ہو گئی کیونکہ حادثے کے بعد سے میرے بھائی کی طبیعت خراب ہی رہتی تھی۔ ابا کے پاس کرایہ نہیں تھا۔ قاسم نے ہی اپنے پیسوں سے ٹکٹ لے کر دیا اور سفر خرچ کو بھی رقم دی۔ میں رونے لگی، والد جا رہے تھے۔ میں نے کہا کہ مجھے بھی جانا ہے۔ قاسم بولا۔ بیٹی دیکھو ! بارش تھم گئی ہے۔ ایک دو روز میں راستے صاف ہو جائیں گے اور فیکٹری کھل جائے گی اور ضرورت مند خواتین کو انہوں نے کھپا دیا تو پھر تم کو نوکری نہ ملے گی۔ تم ذرا حوصلے سے کام لو۔ تمہارے ابا دو چار روز میں لوٹ ہی آئیں گے۔ میرے رونے سے میرا باپ پریشان ہوا مگر ٹکٹ کے پیسے بھی نہ تھے، سو میں ان کے ساتھ نہیں جا سکتی تھی۔ وہ مجبورا آنکھوں میں نمی بھر کے چلے گئے۔ ان کے جانے سے مجھے یوں لگا جیسے یہ جہاں ہی ویران ہو گیا ہے۔ اداسی مجھ پر برس پڑی اور چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے۔ شام کو وہ شخص گھر لوٹا اور کہنے لگا۔ تیار ہو جائو ، میں تمہارے کام کی جگہ دکھا دوں۔ میں مبادل نخواستہ تیار ہو گئی۔ کام کے لئے ہی تو اتنا لمبا سفر کر کے آئی تھی اور اب ایک اور لمبے سفر پر جانا تھا۔ جب راستہ کسی طور ختم نہ ہو رہا تھا تو میں نے جان لیا یہ خیر کا سفر نہیں ہے۔ گاڑی کا سفر ختم ہوا تو ہم ندی کنارے پہنچ چکے تھے۔ اب لانچ کا سفر شروع ہو گیا۔ سمجھ گئی کہ ہم فیکٹری نہیں جا رہے کسی دوسرے دیس جا رہے ہیں۔ میں لانچ میں اکیلی نہ تھی کچھ دوسری عور تیں بھی کام کی تلاش میں جارہی تو رہی تھیں۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ فیکٹری شاید کسی دوسرے جزیرے پر ہے۔ ہم میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ جزیرہ کون سا ہے اور ہماری منزل کہاں ہے تاہم ہمیں لے جانے والے ضرور جانتے تھے کہ ہماری منزل کہاں ہے۔ جب لانچ کنارے لگی، پتا چلا کہ یہ ہمار ابنگلہ دیش نہیں بلکہ ہم کو یہاں تک لانے والوں کا دیس ہے۔ یہ ہمارا پڑوسی ملک تھا۔ انہوں نے ہم کو ایک گھر میں بند کر دیا۔ دوسرے دن ایک آدمی ہمیں ایسی جگہ لے گیا جہاں حوا کی بیٹیاں بیچی اور خریدی جاتی تھیں۔ یہاں میری ہم وطنوں کی بولی لگائی جارہی تھی۔ خریدنے والے قیمت دیتے اور کسی جانور طرح اپنا خریدا ہوا مال ہانک کر لے جاتے۔ یہاں کوئی چہرہ شناسا نہ تھا۔ مجھے ایک ایسے شخص نے خریدا جو بیوی بنا کر عورتوں کو مشرق وسطیٰ ممالک میں لے جاتا تھا اور وہاں باندی کے طور پر فروخت کر دیتا تھا۔ اس سے مجھے جس دوسرے شخص نے خریدا، وہ دن بھر مجھ سے کام لیتے اور رات کو جانوروں کے باڑے میں بند کر دیتے۔ انہوں نے مجھے طویلے میں سونے کی جگہ دی تھی۔ میں نے وہاں انتھک محنت کی اور کئی ماہ قید رہی۔ اس دوران مالک جب چاہتا، مجھ سے اپنی خواب گاہ کی رونق بڑھا لیتا۔ میں تو ان کی خریدی ہوئی باندی تھی۔ بھلا میرے اور کیا حقوق تھے ،سب حقوق تو اسی کے تھے۔ جب اس شخص کا مجھ سے دل بھر گیا تو کہیں اور میرا سودا کر دیا۔ آہستہ آہستہ میری شناخت گم ہوتی گئی۔ میں تو یہاں فریاد بھی نہیں کر سکتی تھی۔ ان لوگوں کی زبان سے نابلد تھی۔ جو کچھ یہ آپس میں گفتگو کرتے ، سمجھ نہ سکتی تھی۔ اب جس نے مجھے خریدا وہ بال بچے دار آدمی تھا اور اس کی بیوی بیمار تھی۔ گھر میں بیوی کی دیکھ بھال کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ اس نے مجھے بیوی کی دیکھ بھال کی خاطر خریدا تھا۔ میں سارا دن اس کی بیوی کی خدمت کرتی پھر بھی شکر کرتی کہ اس کی عورت اور بچوں کی خدمت کرتی ہوں مگر میری عزت تو محفوظ ہے۔ میری روح پر تو کوئی تشدد نہیں ہے۔ کچھ ہی عرصہ بعد اس شخص کی بھی نیت خراب ہو گئی۔ میں اس کے لئے بھی خریدا ہوا مال تھی ، اس کی ملکیت تھی۔ میں یہ اذیت کب تک برداشت کرتی ، ایک رات اس کے بچے نے دروازہ کھلا چھوڑ دیا اور مجھے بھاگ نکلنے کا موقعہ مل گیا۔ شب بھر کے سفر کے بعد میں سڑک پر پہنچی۔ ادھر سے مسافروں کی بس کا گزر ہوا، ڈرائیور کو میں نے رکنے کا اشارہ کیا۔ اس نے بس روکی اور مجھے بٹھالیا۔ میرے پاس کرایہ نہ تھا۔ ایک مسافر نے میری شکل کو بھانپ لیا تھا۔ اس نے میرا کرایہ دیا۔ وہ ایک پاکستانی تھا۔ میں نے اس کو اپنا احوال مختصر بتایا۔ اس نے کہا کہ اس ملک کا قانون ہے کہ میں نامحرم عورت کو نہیں رکھ سکتا اور نہ اس کے ساتھ سفر کر سکتا ہوں۔ جہاں میں کام کرتا ہوں وہاں کچھ بنگالی ہیں ، وہ تمہارے ہم وطن ہیں۔ تم ان کو اپنی بپتا کہو ، ممکن ہے وہی تمہاری مدد کریں۔ وہ مجھے بنگالیوں کے پاڑے لے گیا، جہاں مجھ کو وہی بھارتی دلال نظر آیا، جس نے مجھے پہلی بار کلکتہ میں بیچا تھا۔ اس نے مجھے اور میں نے اس کو پہچان لیا۔ وہ مجھ سے معافیاں مانگنے لگا۔ بولا۔ اس بار اعتبار کرو، میں تم کو تمہارے والدین کے پاس پہنچا دوں گا کیونکہ میرے سوا تم کو وہاں اور کوئی نہیں لے جا سکتا۔ تمہارے پاس تو پاسپورٹ بھی نہیں ہے۔ تم گرفتار کر لی جائو گی۔ یہاں کے مقامی بہت سخت لوگ ہیں۔ ان کے ہتھے لگ گئیں تو پھر سے تم کو تمہارے سابقہ مالک کے حوالے کر دیں گے۔ یہاں کے تھانے میں بھی کوئی تمہاری بات کو سمجھے گا اور نہ تم ان کی زبان کو سمجھو گی۔ مرتا کیا نہ کرتا اور کہاں جاتی۔ اس دلال نے دبئی لا کر پھر سے مجھ کو فروخت کر دیا۔ جس نے مجھے خریدا تھا وہ برا آدمی نہ تھا۔ اس کو بس ایک خدمت گار کی ضرورت تھی۔ گھر پر ملنے اس کا ایک پاکستانی دوست وحید آیا کرتا تھا۔ ایک روز مجھے وحید سے بات کرنے کا موقع مل گیا۔ میں نے اس کو اپنی بپتا سنائی اور مدد کی درخواست کی وہ بولا۔ میں ضرور تمہاری مدد کروں گا۔ مجھے اپنے دوست سے بات کرنی ہو گی کیونکہ میں دوست سے غداری نہیں کر سکتا۔ اس نے دوست سے بات کی جس نے مجھے خریدا تھا، وہ بولا۔ اگر تم اس کو لینا چاہتے ہو تو لے سکتے ہوں، ورنہ میں کسی اور کے حوالے کر دوں گا۔ بہر حال پاکستانی بھائی نے اس شرط پر مدد کا وعدہ کیا کہ وہ کسی شریف آدمی سے میرا انکاح کر دے گا اور میں کسی کی بیوی بن کر اس کے ساتھ عزت کی زندگی گزاروں گی۔ میں نے یہ شرط قبول کر لی- تو وہ مجھے اپنے ساتھ پاکستان لے آیا اور یہاں ایک خوشحال دیہاتی کے ساتھ میرا نکاح کرا دیا، جس کی بیوی فوت ہو چکی تھی مگر اس کے تین لڑکے تھے۔ اس کا نام جہانیاں تھا۔ وہ صحت مند اور خوش شکل آدمی لیکن عمر میں مجھ سے کافی بڑا تھا۔ اپنے سے بڑے عمر کے شخص کو قبول کرنا اب میری مجبوری تھی۔ کوئی ٹھکانہ جو نہیں تھا اور پاکستانی بھائی سے وعدہ بھی کر چکی تھی۔ میں نے نکاح تو کر لیا مگر دلی خوشی نہیں ملی۔ پھر بھی ایک گھر ، اور تحفظ دینے والا جیون ساتھی ملا تھا۔ سمجھی اب میرا سفر ختم ہو گیا ہے لیکن قسمت میں سکون بھی نصیب والوں کو ملتا ہے۔ شوہر تو محبت بھر اسلوک رکھتا مگر اس کے بچے سیانے تھے۔ وہ مجھے قبول نہیں کرتے تھے۔ سوتیلے لڑکوں نے مجھے ستانا شروع کر دیا۔ وہ میری جھوٹی شکایتیں باپ سے لگاتے تھے تو میرا شوہر کہتا کہ تم میرے لڑکوں کا خیال رکھا کرو اور ان کو شکایت کا موقعہ نہ دینا ورنہ میں تم کو طلاق دے دوں گا۔ میں اتنی بھٹک چکی تھی کہ اب کسی صورت طلاق لینا نہ چاہتی تھی۔ جو بھی سلوک بچے کرتے ، چپ چاپ سہتی اور سوچتی کہ شریف آدمی اور اس کے گھر کی چھت تو مجھے ملی ہوتی ہے۔ گھر کی چاردیواری اور عزت کی روٹی بھی بڑی نعمت ہے۔ شوہر کے لڑکے مجھے اپنا دشمن سمجھتے تھے لیکن میں تو انہیں دشمن نہیں سمجھتی تھی۔ آخر وہ دن آگئے کہ مجھے سکون نصیب ہو گیا۔ لڑکے بڑے ہو گئے تو ان کو عقل آگئی۔ اب وہ مجھے نہیں ستاتے تھے بلکہ میراخیال رکھتے تھے کیونکہ ان کو کھانا پینا وقت پر ملتا تھا۔ میں ہر طرح سے ان کی خدمت کرتی اور ان کے سب کام کرتی تھی۔ دکھ کے دن آخر کار تمام ہو گئے۔ لڑکوں کی شادیاں ہو گئیں، ان کے بچے ہو گئے۔ میں نے ان کی پرورش میں بھی مدد کی تو ان کی بیویاں مجھے چاہنے لگیں۔ شوہر وفات پاگئے تو انہیں سوتیلے لڑکوں نے مجھ کو سکھ دیا اور زمانے کے سر دو گرم سے بچایا۔ وہ اب مجھ کو سگی ماں کی طرح سمجھتے اور عزت کرتے ہیں۔ سوچتی ہوں اگر یہ میرے نہ بنتے تو اس بڑھاپے میں ، میں کہاں جاتی۔ اپنوں کو تو کھو چکی تھی اب ان سے ملنا محال تھا۔ یہ صرف میری ہی کہانی نہیں ہے۔ ایسی ہزاروں بنگلہ دیشی لڑکیاں غربت کے باعث در بدر ہوئیں ہیں۔ ان کو نوکریوں کا جھانسا دے کر یہ مجرم لوگ، بردہ فروشی کرتے رہے اور اب بھی کرتے ہوں گے۔