Sunday, October 6, 2024

Ghurbut Say Tang aa Ker

ہم پہاڑ کے دامن میں آباد ایک چھوٹے سے شہر کے رہنے والے ہیں۔ ان دنوں یہ شہر نہیں ایک قصبہ تھا اور یہاں کے معاشی حالات بہت خراب تھے۔ خشک سالی کے علاوہ یہاں قبائل کی حکمرانی تھی جن کا اپنا الگ معاشرتی نظام تھا۔ جب افلاس سے ہمارے گھر کا چولہا مستقل ٹھنڈا رہنے لگا تو والد صاحب نے یہاں سے کوچ کر جانے میں ہی عافیت جانی۔ سوال یہ تھا کہ وہ اتنے بڑے کنبے کو لے کر کہاں جائیں؟ والد صاحب کے تایا زاد عرصہ ہوا کراچی چلے گئے تھے۔ وہ بھی محنت مزدوری اور روزی روٹی کمانے کے سلسلے میں اپنا یہ علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے کہ جہاں خشک سالی کی وجہ سے گندم کی فصل عنقا تھی۔ جن دنوں میرے والد رخت سفر باندھ رہے تھے۔ ان کے تایا زاد جن کو ہم چچا ارشاد کہتے تھے، کراچی سے اپنے اہل خانہ سے ملنے آگئے ۔ ابا نے ان سے مشورہ کیا۔ وہ کہنے لگے کہ تم فی الحال اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ میرے ساتھ چلو اور اہل خانے کو یہیں رہنے دو کیونکہ بڑے شہر میں رہائش کا مسئلہ سب سے بڑا ہے۔ پہلے تم لوگ کچھ عرصہ محنت مزدوری کر لو رقم جمع ہو جائے تو بعد میں بیوی بچے بھی بلوا لینا۔ ابا جان نے ان کا مشورہ مان لیا۔ کچھ رقم بھی ادھار ان سے مل گئی جو والد نے اماں کے حوالے کر دی تا کہ خرچہ پانی چلتا رہے۔ میرے دونوں بھائی اکرم اور اسلم ان کے ساتھ کراچی چلے گئے۔ کراچی میں چاچا ارشاد نے ایک سستا کرایہ کا مکان لے دیا۔ وہ خود بھی نزدیک ہی قیام پذیر تھے ۔ جاتے ہی ابا اور دونوں بھائی مزدوری پر لگ گئے۔ چھ ماہ بعد انہوں نے اتنی رقم اکھٹا کر لی کہ اماں اور ہم تینوں بیٹیوں کو ساتھ لے جاتے۔ ابا اور چچا ارشاد عید پر اکٹھے گھر آئے تھے، طے یہ ہوا کہ میری شادی چاچا ارشاد کے بیٹے طفیل سے کر دی جائے اور طفیل کی بہن ہاجرہ کو میرے بھائی اکرم سے بیاہ کر ہم دونوں کو وہ ساتھ لے جائیں گے۔ سارا کنبہ ساتھ لے کر نہ جائیں کہ فی الحال رہائش کے لئے بڑا مکان لینا محال تھا۔

ہوں میری اور ہاجرہ کی شادیاں وٹے سٹے میں ہو گئیں۔ میں طفیل کی اور ہاجرہ اکرام کی دلہن بن گئی ، ہم دونوں کو وہ کراچی لے آئے کیونکہ ہوٹل کے ستے کھانے ، کھانے سے ان کا ہاضمہ خراب رہنے لگا تھا۔ جہاں ہماری رہائش تھی یہ غریبوں کی بستی تھی ۔ زیادہ تر لوگ جھگی نشین تھے ، لیکن سامنے ہی بنگلے بنے ہوئے تھے۔ جھگی میں رہنے والی عورتیں ان بنگلوں میں کام کرنے جاتی تھیں اور ان کے مرد چوکیداری کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ مزدور بھی تھے۔ سامنے ایک بنگلے میں ایک دولتمند خاندان آباد تھا۔ میں اپنے گھر کے پردے سے اس کوٹھی کے گیٹ سے اکثر ایک بزرگ شخص کو نکلتے دیکھتی تھی جو اپنی بیٹی کو سہارا دیکر چہل قدمی کے لئے گھرسے باہر لاتا تھا۔ یہ لڑکی بیس برس کی ہوگی ، خوبصورت نقوش تھے لیکن زرد رو اور بیمار نظر آتی تھی۔ ان باپ بیٹی کے گھر سے باہر آنے کا ایک خاص وقت مقرر تھا۔ اس وقت میں اور ہاجرہ اکیلی ہوتی تھیں۔ مرد مزدوری کو نکلتے تو صبح کے گئے مغرب کے وقت لوٹ کر آتے تھے۔ ہم دونوں کو بنگلوں میں کام کرنے کی اجازت نہ تھی کیونکہ ہمارا تعلق قبیلے سے تھا اور ہمارے قبیلے کی روایات میں یہ ایک نا پسندیدہ بات تھی کہ ہم عورتیں دوسروں کے گھروں میں جا کر کام کریں۔ خواہ گھر میں فاقے ہی کیوں نہ ہوں۔ کام مرد ہی کرتے تھے۔ ہاجرہ کو سلائی کڑھائی کا شوق تھا، وہ فارغ وقت میں کڑھائی کرنے میں محو ہو جاتی تھی جبکہ میں کھانا پکاتی دیگر گھریلو کاموں سے نمٹ کر بور ہوتی تو پردے سے لگ کر بیٹھ جاتی اور باہر کا منظر تکتی رہتی۔ ایک روز اکرم اور طفیل گھر آرہے تھے کہ طفیل کی نگاہ ایک بٹوے پر گئی جو سامنے والے بنگلے کے گیٹ کے پاس گرا ہوا تھا۔ طفیل نے وہ بٹوہ اٹھا لیا۔ کھول کر دیکھا چند فوٹو شناختی کارڈ اور چھ ہزار روپے تھے۔ ان دنوں چھ ہزار کی رقم بہت زیادہ ہوا کرتی تھی۔ تصویر اور شناختی کارڈ سے طفیل نے پہچان لیا کہ یہ سامنے والے صاحب کا بٹوہ ہے۔ اس نے گیٹ پر لگی بیل بجائی۔ وہ صاحب باہر آئے۔ میرے خاوند نے بٹوہ اس کے حوالے کر دیا۔ وہ بہت خوش ہوئے کہا کیا تم میری فیکٹری میں کام کرو گے۔ تم دیانتدار آدمی ہو اور مجھ کو کسی ایسے آدمی کی تلاش تھی ۔ اگر تم میٹرک پاس ہو تو میں تم کو اچھی تنخواہ دوں گا۔ طفیل نے میٹرک پاس کیا تھا۔ وہ محنت مزدوری کرنا نہیں چاہتا تھا۔ کسی نوکری کی ہی تلاش میں تھا لہذا ان صاحب کی پیشکش کو قبول کر لیا۔ اگلے دن صبح صرف میرا بھائی اکرم مزدوری کے لئے گیا جبکہ طفیل جمیل صاحب کی فیکٹری میں ملازم ہو گیا ۔ جہاں اس کا کام مزدوروں کی حاضری لگانا اور ان کی روزانہ کی اجرت کا حساب رکھنا تھا۔ اس کام کی بہت اچھی تنخواہ مل رہی تھی اور وہ بہت خوش تھا کہ اللہ نے اس کی سن لی تھی۔ انہی دنوں کراچی کے حالات کچھ خراب رہنے لگے تو میرے سسر صاحب نے ہم خواتین کو واپس ہمارے گاؤں بھجوا دیا اور اکرم کو اپنے کرایہ کے مکان میں بلالیا جبکہ طفیل نے جمیل صاحب کی فیکٹری میں رہائش اختیار کر لی ۔ طفیل باقاعدگی سے اپنی تنخواہ سے معقول رقم خرچہ کے لئے مجھ کو بھجواتا تھا۔ اس کو مفت رہائش مل گئی تھی۔ چھ ماہ بعد صاحب نے اس کو گھر کے سرونٹ کوارٹر میں جگہ دے دی۔ اب صاحب نے اس کو ڈرائیونگ سکھلا دی اور اپنا ذاتی ڈرائیور رکھ لیا کیونکہ طفیل بہت خوش اخلاق فرمانبردار اور ذمہ دار لڑکا تھا۔ ان دنوں صاحب کا پرانا ڈرائیور بیمار ہو کر ملازمت چھوڑ گیا تھا۔ اپنے گھر کے اندر جمیل صاحب کسی موزوں آدمی کو رکھنا چاہتے تھے طفیل ان کو موزوں ترین نظر آیا۔

جمیل صاحب کا ایک بیٹا تھا جو بیرون ملک پڑھنے گیا تو وہ وہاں ہی سیٹ ہو گیا۔ بیٹی بھی ایک ہی تھی بیمار تھی اور اس کی بیماری عجیب و غریب تھی کسی کی سمجھ میں اس لڑکی کا مرض نہیں آتا تھا۔ اس لڑکی کا نام حنا تھا۔ اس کو دورے پڑتے تھے جس کی وجہ سے اتنی لاغر ہوگئی کہ اب سہارے کے بغیر نہیں چل سکتی تھی وہ گھر میں بھی وہیل چیئر پر رہتی۔ جمیل صاحب ہر ہفتے اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتے تھے۔ حنا کو فزیو تھراپی کے لئے با قاعدگی سے لے جایا جاتا تھا تا کہ وہ چلنے پھرنے کے قابل ہو سکے۔ حنا بہت کم خوراک لیتی ، وہ کھانا بالکل نہ کھاتی ۔ تھوڑے سے دودھ اور جوس پر گزارہ تھا۔ اسی وجہ سے وہ اتنی نا تواں ہوگئی تھی کہ بغیرسہارے کھڑی بھی نہ ہو سکتی تھی ۔ طفیل کے ذمے جمیل صاحب نے یہ کام لگا دیا کہ وہ وقت پر رو گی لڑکی کو ڈاکٹر کے پاس لے جائے ۔ لڑکی کی والدہ سوتیلی تھی شاید اس لئے وہ اس کے ساتھ نہیں جاتی تھی۔ خود جمیل صاحب جاتے یہ وہ ملازمہ جو ان کی دیکھ بھال کرتی تھی- حنا طفیل سے مانوس ہوگئی۔ اس سے باتیں کر کے خوش ہوتی۔ اس کو خوش دیکھ کر صاحب بھی خوش تھے۔ وہ معصوم بچوں کی طرح باتیں کرتی تھی ۔ طفیل اس کا بہت خیال رکھتا تھا۔ کیونکہ وہ قریب المرگ ہو چکی تھی اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا۔ اب دوبارہ زندگی کی طرف لوٹنے لگی تھی۔ جمیل صاحب کے لئے یہ خوشی کی نوید تھی۔ طفیل رحمت کا فرشتہ بن کر ان کے گھر آ گیا تھا۔ اپنی بیٹی کی خوشی کی خاطر وہ اس کی بہت آؤ بھگت اور پذیرائی کرنے لگے تھے۔ ایک دن ان کو خیال آیا اگر کوئی غریب نوجوان طفیل جیسا ان کا داماد بن جائے اور بیٹی اچھی ہو جائے تو اس بات میں کیا مضائقہ ہے جہاں دیدہ شخص نے سمجھ لیا کہ حنا طفیل کو دل سے پسند کرنے لگی ہے، تب ہی زندگی کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اپنے طفیل کے بارے میں بتا دوں کہ نہایت خوبصورت نوجوان تھا۔ اونچا لمبا قد اور سرخ و سفید رنگت وہ ہزاروں میں نمایاں لگتا تھا۔ جب صاحب کے گھر کا ستھرا ماحول اور اچھا کھانا ملا تو خوبروئی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ وہ ان کے گھر کا ہی فرد نظر آنے لگا۔ ایک دن صاحب دل کی بات لبوں پر لے آئے طفیل کو بلا کر کہا۔ بیٹا اگر تم غیر شادی شدہ ہو، تو میں ایک تجویز دینا چاہتا ہوں تم خوبصورت ہو اور سمجھدار، دیانتدار بھی ہو۔ مجھ کو ایسے ہی شریف اور نیک اطوار لڑکے کی تلاش تھی ، اگر تم میری بیٹی کا سہارا بننے کی پیشکش قبول کر لو تو میں تمہاری زندگی بدل دوں گا۔ صاحب کی بات سن کر طفیل سوچ میں پڑ گیا۔ ہمارے علاقے میں کئی شادیوں کا رواج ہے لہذا اس کے لئے دوسری شادی وجہ کشمکش نہیں تھی لیکن در بدری کی تکالیف سے دل میں فتور آگیا۔ اس نے صاحب کو کہا کہ وہ غیر شادی شدہ ہے اور حنا سے شادی پر راضی ہے، بشرطیکہ وہ صحتمند ہو سکتی ہو۔ وہ صحتمند ہوسکتی ہے اگر اس کو خوشی مل جائے جو صرف تم سے شادی کرنے سے مل سکتی ہے۔ کیونکہ وہ تم کو پسند کرتی ہے۔ طفیل نے عندیہ دے دیا تب ہی سیٹھ صاحب نے اس کے لئے گھر پر اپنا خاص درزی بلوا کر چند اچھے جوڑے سلوائے اور طفیل سے کہا اب تم اچھا لباس پہنا کرو اور میں تمہاری مزید تعلیم کے لئے ایک ٹیوٹر رکھ دیتا ہوں۔ ان دنوں حنا تمام وقت بستر پر دراز رہتی تھی اس کا رنگ پیلا اور گردن پتلی ہو گئی تھی ، تاہم جب بھی طفیل کو دیکھتی، مسکرا دیتی اور اس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی تھی۔ طفیل اس کو وہیل چیئر پر بٹھا کر گھماتا اور باتیں کرتا تو وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتی ۔ اب اس کے کے دوروں میں کمی آتی جارہی تھی۔ بقول طفیل .. اس کی معصوم آنکھیں مجھ کو اچھی لگتی تھیں اور اس کو لڑکی پر ترس آتا تھا ۔ تب ہی میں نے سوچا کہ تم کو سمجھا لوں گا لیکن یہ لڑکی اگر دوبارہ جی اٹھے تو یہ بڑا ثواب کا کام ہوگا اور ہماری غربت بھی دور ہو جائے گی۔ طفیل کا خیال تھا کہ وہ ہمیشہ مجھے آبائی گاؤں میں ہی رکھے گا اور کبھی کبھی ملنے آتا رہے گا- حنا سے شادی کے بعد گویا اس کی قسمت پلٹنے والی تھی۔ اب حنا کے مردہ لبوں پر مستقل مسکراہٹ رہنے لگی۔ وہ کفیل کا انتظار کرتی، کھانا بھی اس کے ہاتھ سے کھاتی ، اس میں اتنی توانائی آگئی تھی کہ بستر سے اٹھ کر باغ میں ٹہلنے لگی تھی، بشرطیکہ تفصیل ساتھ ہوتا۔ حنا کی زرد رنگت سرخی مائل ہو چکی تھی۔ جمیل صاحب بہت خوش تھے۔ ان کا خیال تھا کچھ ماہ بعد جب ان کی بیٹی مزید تندرست ہو جائے گی تو اس کے ساتھ طفیل کا نکاح کردیں گے اور دونوں کو بیرون ملک بھجوا دیں گیے۔ ایک سال طفیل ان کے گھر رہا، اس دوران حنا مکمل طور پر صحت یاب ہوگئی، وہ مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے نکل آئی، اب وہ اپنا اچھا برا خوب سوچ سکتی تھی ، اس نے طفیل کو بتا دیا کہ ایک شخص نے اسے محبت کا چکردے کر دھوکا دیا تھا۔ اسی وجہ سے وہ اس حال کو پہنچی۔ طفیل اس کی بے وفائی نے مجھے ہلاک کر دیا تھا، جب تم نے توجہ کی تو مجھے کو نئی زندگی مل گئی۔ جمیل صاحب نے دیکھا کہ ان کی بیٹی صحتمند ہو چکی ہے، تب ان کو خیال آیا کہ وہ ایک انجان لڑکے سے کیونکر بیٹی کی شادی کریں جو پہلے ایک مزدور تھا اور اب ان کا ڈرائیور ہے، دنیا کیا کہے گی؟ انہوں نے بیٹی کو سمجھایا کہ ایک معمولی ڈرائیور کی بیوی بنے سے بہتر ہے تم ایک بار اور سوچ لو تب تک میں طفیل کو دبئی بھجوا دیتا ہوں تا کہ یہ دنیا دیکھ لے اور میرے دوست کے پاس رہ کر کام بھی جان لے۔ حنا نے باپ سے کہا۔ جیسی آپ کی مرضی میں اب کافی سنبھل چکی ہوں آپ میرے لئے جو بہتر سمجھیں کریں۔ صاحب نے طفیل کو دبئی بھجوا دیا ۔ دبئی جانے سے پہلے وہ گھر آیا اور مجھے کو تمام احوال بتا کر کہا۔ دل چھوٹا مت کرنا ، میں بہت جلد ایک امیر آدمی بن کر لوٹوں گا۔ ایک سال وہ دبئی میں جمیل صاحب کے دوست کے پاس ملازمت کرتا رہا۔ اس دوران اچھے پیسے کما لئے لیکن جب واپس آیا تو پتا چلا کہ حنا کی شادی ایک امیر آدمی کے صاحبزادے سے ہو گئی ہے، وہ بہت افسردہ اور مایوس ہوا کیونکہ جمیل صاحب کے ساتھ ساتھ ان کی صاحبزادی حنا بھی اس کے معصوم جذبات سے کھیل گئی تھی اور اب اسے طفیل کی رفاقت کی ضرورت نہ رہی تھی۔ طفیل اس حسین بیمار سے شاید محبت کرنے لگا تھا یا پھر اپنے ان خوابوں سے جو حنا کے ساتھ شادی سے وابستہ تھے، اور اب ٹوٹ کر بھر چکے تھے۔ وہ کافی عرصہ اداس اور پریشان رہا اور پھر ایک اور ویزا لے کر دوبارہ دبئی چلا گیا۔ جہاں وہ سات برس رہا اور جب لوٹا تو واقعی امیر آدمی بن چکا تھا۔ ان سات برسوں کی جدائی کو میں نے صبر کے ساتھ سہا اور ایک باوفا بیوی کی طرح اس کا انتظار کرتی رہی۔ روز نماز پڑھ کر اس کے لئے دعا کرتی تھی اس کی سلامتی سے لوٹ آنے کے لئے عبادت کیا کرتی تھی۔ خدا نے میری عبادت قبول کر لی میری دعائیں بارگاہ ایزدی میں قبول ہو گئیں ۔ طفیل نہ صرف امیر آدمی ہے وہ آج میرا باوفا شوہر ہے جس کو میری خوشی سکھ اور سکون کا ہر وقت خیال رہتا ہے۔ طفیل کا کہنا ہے بے شک میں تم سے دولت کی خاطر بے وفائی کرنے چلا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اس نے مجھ کو بے وفائی سے بچا لیا اور دولت بھی عطا کر دی، اب ہم فاقوں کے خوف سے اپنے گھر بار چھوڑ کر کہیں نہ جائیں گے۔ اپنے آبائی گاؤں میں رہیں گے اور اسی جگہ کو گلشن بنائیں گے۔ اس گاؤں کے 80 فیصد مرد جو افلاس سے تنگ آکر کسی زمانے میں دبئی اور سعودی عربیہ محنت مزدوری کی خاطر وطن سے دور پیاروں کی جدائی جھیلنے چلے گئے تھے۔ وہ وطن خالی ہاتھ نہیں لوٹے ۔ بے انتہا زرمبادلہ لے کر آئے ہیں۔ پہلے یہاں ایک بھی بینک نہیں تھا آج بینک بھی ہیں جو زرمبادلہ سے بھرے ہیں۔ اور مفلس دیہاتیوں کا ان کی محنت سے کمایا ہوا رزق حلال سرمایہ ہے جس پر کوئی بھی قوم فخر کر سکتی ہے۔

Latest Posts

Related POSTS