طویل عرصہ کی محنت و مشقت اور مسلسل کشیدہ کاری کے سبب قدسیہ کی انگلیاں فگار اور بینائی ختم ہو رہی تھی۔ وہ بھی کیا دن تھے ، جب وہ اپنے شوہر اختر کے ساتھ سکھ اور سکون کی زندگی جی رہی تھی۔ گرچہ اختر معمولی ملازم تھا لیکن رشوت نہیں لیتا تھا، اس لئے گھر میں دولت کی ریل پیل نہیں تھی۔ کم تنخواہ میں بھی ان کی گزر بسر چین سے ہو رہی تھی۔ قدسیہ تو چین سکون سے تھی مگر اختر دفتری پریشانیوں میں گھرا رہتا تھا۔ وہ چونکہ رشوت نہیں لیتا تھا اس لئے اس کی، اپنے افسران سے نہیں بنتی تھی۔ بد قسمتی سے ایک بار ایسا افسر بھی آگیا جس نے اس کا جینا دشوار کر ڈالا، یہاں تک کہ اُسے ایک ایسے جھوٹے کیس میں ملوث کروا دیا گیا کہ جیل ہو گئی۔ بے گناہ جیل جانے کا اختر کو سخت صدمہ ہوا۔ بلڈ پریشر کا مریض تھا ہی، دل کا دورہ پڑنے سے اس کا انتقال ہو گیا۔ قدسیہ شوہر کے غم میں نڈھال تھی اس کی ہنستی بستی دنیا اجڑ گئی تھی۔ بچے چھوٹے تھے اور ان کی ذمہ داری بہت بڑی تھی۔ وہ لوگوں کے گھروں میں، گھریلو کام کاج کرنے لگی اور وقت گزرتا گیا، یہاں تک کہ اس کا بڑا لڑکا پڑھ لکھ کر برسر روزگار ہو گیا۔ چھوٹے نے بھی تعلیم مکمل کر لی تو اسکالر شپ پر ملک سے باہر چلا گیا۔ قدسیہ اب عمر رسیدہ اور کمزور ہو چکی تھی۔ بلڈ پر یشر کی وجہ سے اس کی طبیعت درست نہ رہتی تھی۔ بڑا بیٹا اس کے پاس تھا جو ماں کا خیال رکھتا تھا۔ وہ لائق اور شریف نوجوان تھا محلے بھر میں اس کی عزت تھی۔ قدسیہ نے بہو لانے کا جتن کیا تو آسانی سے اُسے ایک متوسط گھرانے سے رشتہ مل گیا اور وہ اپنی پسند کی بہو بیاہ لانے میں کامیاب ہو گئی۔ نصر کی دُلہن خُوبصورت تھی۔ وہ اپنی دُلہن کو پا کر بہت خوش تھا مگر صوفیہ خوش نہ تھی کیونکہ شادی سے پہلے وہ اپنے محلے کے ایک نوجوان گل رخ کو پسند کرتی تھی اور دونوں شادی کرنا چاہتے تھے مگر یہ شادی یوں نہ ہو سکی کہ صوفیہ کے والدین گل رُخ کو پسند نہ کرتے تھے۔ انہوں نے صوفیہ کو نصر سے بیاہ دیا، جس کا رنج صوفیہ اور گل رُخ ، دونوں کو تھا۔ نصر ایک سیدھا سادہ نوجوان تھا جو صبح دفتر جاتا تو شام گئے گھر لوٹتا۔ صوفیہ چند دن تو مغموم مگر باصبر رہی لیکن وقت کے ساتھ غم کی شدت کم ہونے کی بجائے بڑھنے لگی۔ وہ اب اپنے محبوب کی جدائی سے بے چین رہتی اور چھپ چھپ کر رویا کرتی۔ ساس تقریب اندھی تھی، وہ بہو کے آنسو کیا دیکھ پاتی۔ اس کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صوفیہ نے دوبارہ گل رخ سے رابطہ کر لیا اور پرانے افسانے کو دہرائے جانے لگے ، پھر اس کا حوصلہ بڑھا اور اس نے دن میں گل رُخ کو گھر میں بلا نا شروع کر دیا کیونکہ اس سے بہتر اور محفوظ جگہ اور کوئی نہ تھی۔ شوہر تو صبح کا گیا شام کو آتا تھا اور ساس اپنے کمرے میں پڑی ہوتی تھی ، پس وہ اپنے ہی گھر میں گل رخ سے ملنے لگی۔ شوہر کے دفتر چلے جانے کے بعد وہ گھر کا دروازہ کھلا ر کھتی۔ جب مقررہ وقت پر اس کا محبوب اندر آجاتا، وہ دروازہ بند کر لیتی۔ سیاس اپنے کمرے میں دوا کھا کر منہ لپیٹ سو جاتی۔ صوفیہ اور گل رُخ بے خوف وقت اکٹھے بتاتے۔ نصر کے آنے سے قبل وہ چلا جاتا۔ شروع میں محلے والوں نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ جب یہ روز کا معمول ہو گیا تو محلے والوں کا ماتھا ٹھنکا کہ کوئی کتنا بھی قریبی رشتہ دار ہو یوں روز تو ملنے نہیں آتا۔ سامنے نعیم کا گھر تھا جو نصر کا دوست بھی تھا۔ اس کی متجسس طبیعت نے اکسایا کہ کھوجنا چاہئے، یہ بندہ کون ہے ؟ جو روز روز نصر کی غیر موجودگی میں اُس کے گھر آتا ہے اور اس کے دفتر سے لوٹنے سے پہلے چلا جاتا ہے۔ نعیم کی بیٹھک نصر کے گھر کے دروازے کے عین سامنے تھی۔ اس نے کئی روز تک وہاں سے مشاہدہ کیا تو اس کا شک یقین میں بدل گیا۔ اس نے نصر کو بتا دیا کہ دفتر چلے جانے کے بعد تمہارے گھر ایک شخص آتا ہے اور تمہارے آنے سے پہلے ہی چلا جاتا ہے۔ اس کی بات سُن کر نصر سوچنے پر مجبور ہو گیا۔ دوست نے اُسے سمجھایا کہ فوری طیش میں آنے کی ضرورت نہیں، تم پہلے معاملے کی اچھی طرح چھان بین کر لو۔ نصر نے یہ سوچ کر خود پر قابو رکھا کہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد ہی صوفیہ سے باز پرس کرنا چاہئے۔ اگلے دن وہ گھر سے دفتر کے لئے نکلا اور دوست کی بیٹھک میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ حسب معمول گل رخ آیا اور اس کے گھر کے اندر چلا گیا۔ اس کے بعد دروازہ بند ہو گیا۔ اب نصر ایک منٹ بھی توقف نہ کر سکا اور اپنے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بیوی نے پوچھا۔ کون ہے ؟ نصر کو مجبور جواب دینا پڑا کہ میں ہوں دروازہ کھولو۔ خلاف توقع شوہر کی آواز سُن کر صوفیہ حیرت میں پڑ گئی۔ اس نے گل رخ کو عقبی دیوار سے گلی میں پھاند جانے کا اشارہ کیا جہاں دیوار کے ساتھ ہی چار پائی رکھی تھی۔ وہ جلدی سے پچھلی طرف کود گیا، پھر صوفیہ نے دروازہ کھولا اور شوہر کے چہرے کو بدلا پا کر ٹھٹک گئی- سچ سچ بتائوابھی گھر میں کون آیا تھا؟ کوئی بھی نہیں۔ صوفیہ نے جواب دیا۔ تم کو وہم ہوا ہے۔ بیوی کے جواب کی پروانہ کرتے ہوئے اس نے سارے گھر میں گھوم پھر کر دیکھا۔ وہاں کوئی نہ تھا، تبھی اس کی نظر دیوار کے پاس کھڑی ہوئی چارپائی پر پڑی۔ سمجھ گیا کہ جو بھی تھا اسی چار پائی کے سہارے دیوار پر سے باہر کو کود گیا ہے۔ اس کو اپنی جلد بازی اور حماقت پر افسوس ہوا۔ سوچا کہ پہلے کسی کوگھر کی پچھلی جانب دیوار کے پاس کھڑا رکھنا چاہئے تھا پھر دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے تھا۔ صوفیہ صاف مکر گئی کہ کوئی بھی نہیں آیا تھا۔ تم کو شک ہوا ہے۔ شک کی مگر گنجائش نہیں تھی جبکہ اس نے ایک شخص کو اپنی آنکھوں سے گھر کے اندر داخل ہوتے دیکھا تھا۔ اس روز تو نصر غصہ پی گیا سوچا کہ میں اس عورت کو رنگے ہاتھوں پکڑوں گا۔ لاوا، اندر ہی اندر پکتا رہا۔ بڑی مشکل سے اس نے خود پر قابو رکھا ہوا تھا۔ ہفتہ گزرا، ایک دن اس نے پھر وہی کیا۔ وہ صبح دفتر جانے کا کہہ کر گھر سے نکلا لیکن دفتر نہیں گیا، بلکہ دوست کی بیٹھک میں جا کر بیٹھ گیا۔ دوست سے کہا۔ نگرانی رکھو کوئی آتا نظر آئے، تم گھر کے پچھواڑے کھڑے ہو جانا تا کہ کوئی پہلے کی طرح دیوار کود کر نہ بھاگ سکے۔ اس نے ایک خنجر بھی کوٹ کی جیب میں چھپا لیا اور یہ بات اپنے دوست کو نہیں بتائی۔ صوفیہ تو اس دن کے بعد سے بہت محتاط ہو چکی تھی۔ اس نے گل رخ کو منع کر دیا تھا کہ اب تم یہاں مت آنا۔ بد قسمتی سے اس دن بھی ایک شخص کو نصر نے اپنے گھر کے اندر جاتے دیکھا۔ اس نے محض اس کی پشت ہی دیکھی تھی۔ جو نہی وہ اس کے گھر میں گیا، یہ بھی دوڑ کر گھر کی طرف چلا گیا۔ اس کی بیوی دروازہ بند کر چکی تھی۔ نصر نے دروازہ کھٹکھٹایا اور جونہی بیوی نے در کھولا ، وہ اس پر پل پڑا۔ خنجر نکال کر اس کا وہیں کام تمام کر دیا۔ صوفیہ کی چیخ پکار سُن کر وہ شخص کمرے سے نکل آیا، جو بھی ابھی گھر میں داخل ہوا تھا۔ نصر پر تو جیسے خون سوار ہو چکا تھا، اس نے یہ غور ہی نہیں کیا کہ یہ کون شخص ہے ، نہ اس نے کوئی سوال ہی کیا۔ بس اس پر خنجر سے وار کرنے لگا اور جب دو چار وار کر چکا تو اچانک اس کو سوجھ آگئی کہ یہ لڑکا تو اس کی بیوی کا ماموں ہے جو شادی کے دن بھی ان کے گھر موجود تھا اور جس کو وہ ایک بار پہلے دیکھ چکا ہے۔ جب تک اس کا ہاتھ رکا، نوجوان فرش پر گر چکا تھا، خون اس کے ہاتھوں اور شانوں سے بہ رہا تھا لیکن ابھی اس میں قوت موجود تھی اور بے ہوش نہیں ہوا تھا۔ اس اچانک حملہ سے حواس باختہ ہو گیا تھا۔ تبھی اس کی نظر دروازے کے پاس پڑی صوفیہ پر گئی جو خون میں لت پت فرش پر پڑی تھی۔ اسی لمحے وہ بھی بے ہوش ہو گیا۔ اس کے بعد نصر خود ہی تھانے چلا گیا تمام حالات بتائے اور خود کو گرفتاری کے لئے پیش کر دیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اصل مجرم جو گل رخ تھا وہ تو بچ گیا مگر صوفیہ کا ماموں بچارا بے گناہ مارا گیا۔ وہ اسپتال لے جاتے ہوئے زیادہ خون بہہ جانے کے سبب چل بسا۔ واقعہ یہ تھا کہ اس روز صوفیہ کی ماں کی طبیعت خراب تھی۔ سو اس نے اپنے سب سے چھوٹے بھائی احمر کو بھیجا تھا کہ جا کر صوفیہ کو، اس کی ساس کی اجازت سے لے آئے۔ احمر کے تو وہم و گمان میں نہ تھا کہ وہاں بھانجی کی دہلیز پر موت اس کی منتظر کھڑی ہے اور بھانجی کے قتل کا سبب بھی وہ ہی بنے والا ہے۔ شاید قسمت میں اس کی موت اسی طرح لکھی گئی تھی۔ سچ ہے کہ غصہ ایک بے لاگ بلا ہے۔ یہ ایک ایسی آندھی ہے جو دماغ کے چراغ کو بجھا دیتی ہے۔ نصر کے دماغ کا چراغ بھی فوری اشتعال سے بجھ گیا اور وہ غصے میں ایسا اندھا ہو گیا کہ گل رُخ اور احمر میں تمیز نہ کر سکا کہ وہ کس کو مار رہا ہے۔ نصر کا بھائی ملک سے باہر تھا۔ اس کے کیس کی پیروی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ نعیم نے کافی ساتھ دیا مگر نصر کو جیل جانے سے نہ بچا سکا کیونکہ اس نے خود تھانے جا کر اقبالی بیان دیا تھا۔ نصر کو سزا ہو گئی ، بوڑھی ماں اس کے غم میں تڑپتی گھر میں تنہا رہ گئی۔ ایک بیٹا پردیس میں تھا تو دوسرا جیل میں، قدسیہ کو سنبھالنے اور دیکھنے والا کوئی نہ تھا۔ نعیم کے گھر والے اور ہم پڑوسی اُسے سنبھالتے اور دیکھ بھال کرتے تھے۔ وہ بچاری تو بیٹے کے غم میں بیمار پڑی تھی۔ اندھی ہونے کی وجہ سے کھانا بھی خود نہ پکاتی تھی۔ صبح کا ناشتہ اور کھانا نعیم کی ماں دیتی تھیں اور رات کا ہمارے گھر سے جاتا تھا۔ نصر کو عمر قید ہو گئی اور چھوٹا لڑکا نجانے کس مجبوری کے سبب نہ آ پایا تھا جبکہ اندھی آنکھیں انتظار میں کھلی رہتی تھیں۔ اس واقعہ کے سات برس تک قدسیہ کی آنکھیں دونوں بیٹوں کے انتظار میں کھلی رہیں اور آخر کار کھلی آنکھوں سے ہی وہ موت کی آغوش میں چلی گئی۔ نصر جب رہا ہوا، گھر خالی ہو چکا اور اس پر تالا لگا تھا۔ نہ ماں رہی اور نہ بیوی۔ خدا ایسی بیوی کسی کو نہ دے اور ایسا غم بھی کسی ماں کو نہ دکھائے۔ سچ ہے کہ غصے کی آندھی دماغ کے چراغ کو بجھا دیتی ہے۔