بونا سیرا اس وقت نیویارک کی فوجداری عدالت نمبر تین میں بیٹھا تھا اور انصاف کا منتظر تھا۔ اس کے دل میں اس وقت صرف ایک ہی خواہش تھی… وہ یہ کہ ان دو نوجوانوں کو قرار واقعی سزا ملے جنہوں نے بری نیت سے اس کی بیٹی پر حملہ کیا تھا اور جب وہ کسی طرح ان کے قابو میں نہیں آئی تو انہوں نے مار مار کر اس کا برا حال کردیا تھا۔ اس کا جبڑا توڑ ڈالا تھا۔
لڑکی ابھی تک اسپتال میں تھی۔ اس کا جبڑا چاندی کے تاروں کے ذریعے جوڑنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کی چوٹیں اور زخم ابھی ٹھیک نہیں ہوئے تھے۔ اس کی حالت دیکھ کر بونا سیرا کے دل پر جو گزرتی تھی وہ وہی جانتا تھا۔
جج صاحب بھاری بدن کے آدمی تھے۔ ان کے چہرے پر پسینہ تھا۔ انہوں نے آستینیں چڑھا کر اپنے سامنے کھڑے ہوئے دونوں نوجوان ملزموں کو اس طرح گھورا جیسے اٹھ کر، اپنے ہاتھوں سے انہیں عدالت میں ہی سزا دینے کا ارادہ کررہے ہوں۔ ان کے چہرے پر وہی جلال تھا جو کسی ایسے منصف کے چہرے پر ہوسکتا تھا جس کا خون کسی بھی زیادتی اور ظلم کی تفصیل سن کر کھول رہا ہو۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ تھا لیکن نہ جانے کیوں بونا سیرا کا دل کسی انجانے اندیشے اور خوف سے گویا ڈوبا جارہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے عدالت میں کوئی چیز کچھ مصنوعی سی ہے۔ جیسے وہاں کچھ کمی ہے، جیسے اس کے ساتھ کوئی دھوکا ہونے والا ہے۔
’’تم نے جو حرکت کی… اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تم انسان نہیں درندے ہو…!‘‘ جج صاحب گرجے۔
’’بالکل… بالکل…‘‘ بونا سیرا نے دل ہی دل میں جج صاحب کی تائید کی۔ ’’بلکہ درندوں سے بھی بدتر…!‘‘
وہ نفرت سے ان دونوں نوجوانوں کو گھور رہا تھا جن کے چہروں سے خوشحالی کی چمک عیاں تھی۔ جن کے تراشیدہ بال سلیقے سے جمے ہوئے تھے، جن کے لباس صاف ستھرے تھے۔ وہ گویا ایک انتہائی سنگین جرم کے سلسلے میں ملزم نامزد ہوکر عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے بلکہ کسی تقریب میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ انہوں نے گویا بادل ناخواستہ تھوڑی سی شرمندگی کے اظہار کے لئے جج صاحب کے سامنے ایک لمحے کے لئے سر جھکا لیا۔
جج صاحب نے غیظ و غضب کی گھن گرج کے ساتھ سلسلۂ کلام جاری رکھا۔ ’’تمہارا طرزعمل جنگل کے درندوں سے بھی بدتر تھا۔ تمہاری قسمت اچھی ہے کہ تم اس مظلوم لڑکی کی عزت لوٹنے میں کامیاب نہیں ہوئے ورنہ میں تم کو کم ازکم بیس سال کے لئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھجوادیتا۔‘‘
انہوں نے خاموش ہوکر گھنی بھنویں اچکاتے ہوئے غمزدہ بونا سیرا کی طرف دیکھا۔ دوسرے ہی لمحے انہوں نے گویا اس سے نظر چراتے ہوئے اپنے سامنے رکھے ہوئے کاغذات کی موٹی سی گڈی کی طرف دیکھا۔ وہ اسی مقدمے سے متعلق مختلف نوعیت کے کاغذات تھے۔ جج صاحب کی پیشانی پر شکنیں اور موٹے موٹے نقوش میں خفیف سا کھنچائو تھا۔ ان کے اندر گویا ایک زبردست کشمکش جاری تھی۔
چند لمحے کی خاموشی کے بعد آخر وہ کھنکار کر گلا صاف کرتے ہوئے بولے۔ ’’بہرحال تمہاری نوجوانی اور نادانی کی عمر کو دیکھتے ہوئے، تمہارے اعلیٰ خاندانی پس منظر اور صاف ستھرے ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے کہ قانون کا وقار انتقام لینے میں پوشیدہ نہیں ہے۔ میں تمہیں تین سال کی سزائے قید کا حکم سناتا ہوں لیکن اس حکم پر عمل درآمد اس وقت تک معطل رہے گا جب تک عدالت اسے مناسب سمجھے۔‘‘
بونا سیرا تکفین و تدفین کا کام کرتا تھا۔ بنیادی طور پر وہ ایک گورکن تھا لیکن برسوں کی محنت کے بعد اپنے پیشے کو زیادہ باعزت صورت دینے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اس کے پاس جو مردے تکفین و تدفین کے لئے لائے جاتے تھے، ان سے اس کا کوئی رشتہ یا قرابت داری نہیں ہوتی تھی لیکن اپنے پیشے کے تقاضوں کو زیادہ بہتر طور پر پورا کرنے کے خیال سے بونا سیرا مرنے والوں کے لواحقین کے غم میں شریک ہوجاتا تھا۔ دکھاوے کے لئے وہ بھی ان کے سامنے غمزدہ صورت بنا لیتا تھا اور کبھی کبھار کوشش کرکے دوچار آنسو بھی بہا لیتا تھا۔
لیکن آج وہ سچ مچ غمزدہ تھا۔ غم کی شدت سے اس کا دل پھٹا جارہا تھا اور جج صاحب کا فیصلہ سننے کے بعد تو اس کا جی چاہا کہ وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ اپنا سر پیٹ لے۔ اپنے بالوں میں خاک ڈال لے۔ آنسوئوں سے دھندلائی ہوئی اس کی آنکھوں میں بیٹی کا چہرہ نقش تھا جو درحقیقت زندگی سے بھرپور ایک خوبصورت لڑکی تھی لیکن اس وقت بگڑا ہوا چہرہ اور مضروب جسم لئے اسپتال کے بیڈ پر پڑی تھی۔
بونا سیرا نے بمشکل خود کو اپنے جذبات کے اظہار سے باز رکھا اور خود پر ضبط کئے عدالت کا منظر دیکھتا رہا۔ دونوں نوجوانوں کے والدین اٹھ کر اپنے چہیتوں کے قریب آگئے تھے اور انہیں پیار کررہے تھے۔ وہ سب بہت خوش نظر آرہے تھے، مسکرا رہے تھے۔
بونا سیرا کے حلق میں ایک زہریلی سی کڑواہٹ گھل گئی۔ اس کے سینے میں ایک چیخ بگولے کی طرح چکرا رہی تھی۔ اس چیخ سے وہ عدالت کے درودیوار ہلا دینا چاہتا تھا۔ جج صاحب کے کانوں کے پردے پھاڑ ڈالنا چاہتا تھا مگر اس نے اس چیخ کا گلا گھونٹنے کے لئے دانت سختی سے بھینچ لئے اور جیب سے رومال نکال کر منہ پر رکھ لیا۔ دونوں نوجوان اس کے قریب سے گزرتے ہوئے مسکراتے ہوئے اپنے والدین اور رشتے داروں کے ساتھ عدالت کے کمرے سے باہر کی طرف چل دیئے۔ انہوں نے بونا سیرا کی طرف ایک نگاہ غلط انداز ڈالنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔ وہ گویا ان کے نزدیک نہایت حقیر اور قطعی غیر اہم تھا۔ ان کے چہروں پر دھیمی لیکن فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔
تب گویا بونا سیرا مزید ضبط نہ کرسکا۔ وہ ان جاتے ہوئے لوگوں کی طرف منہ کرکے پھٹی پھٹی سی آواز میں چلا اٹھا۔ ’’تم بھی ایک روز اسی طرح روئو گے جس طرح میں رویا ہوں۔ تمہیں بھی اسی طرح رنج اور صدمہ اٹھانا پڑے گا جس طرح تمہارے بچوں کی وجہ سے مجھے اٹھانا پڑا ہے۔ دیکھ لینا میں تمہیں رونے پر مجبور کردوں گا۔‘‘ وہ ان لڑکوں کے والدین سے مخاطب تھا۔
کرب اور غصے کی شدت سے اس کی آواز اس کا ساتھ چھوڑ گئی۔ وہ رومال آنکھوں پر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا حالانکہ وہ اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں تھا لیکن مضبوط جسم کا ایک عدالتی اہلکار یوں اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا جیسے اسے اندیشہ ہو کہ وہ رخصت ہوتے ہوئے ملزمان کے والدین پر حملہ کردے گا۔ لڑکوں اور ان کے والدین نے گردنیں گھما کر ترحم آمیز سے انداز میں اس کی طرف دیکھا۔ ان کے ساتھ وکیلوں کا پورا گروپ تھا۔ ان وکیلوں نے یوں انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا جیسے وہ ان کے قانونی ہی نہیں جسمانی محافظ بھی ہوں۔
بونا سیرا امریکی نہیں تھا۔ وہ اطالوی تھا اور سسلی سے امریکا آیا تھا لیکن سالہا سال سے یہیں آباد ہونے کی بنا پر وہ یہاں اجنبیت محسوس نہیں کرتا تھا۔ وہ امریکی معاشرت میں رچ بس گیا تھا۔ اس نے یہاں انصاف ہوتے دیکھا۔ یہاں کے قانون اور نظام انصاف پر اس کا یقین بڑا پختہ ہوچکا تھا لیکن آج اس کے اعتماد کو جس طرح ٹھیس پہنچی تھی، اس کے بعد اس کا یقین ریت کے گھروندے کی طرح بکھر گیا تھا۔
اس کے ذہن میں نفرت کی آندھیاں چل رہی تھیں اور اس کے حواس پر غیض و غضب کی سرمئی دھند سی چھا گئی تھی۔ اس کی رگ و پے میں چنگاریاں دوڑ رہی تھیں۔ اس نے چشم تصور سے اپنے آپ کو کہیں سے ایک پستول خریدتے اور پھر ان دونوں نوجوانوں کے جسم گولیوں سے چھلنی کرتے دیکھا۔ تاہم وہ جلد ہی اس خواب کے اثر سے نکل آیا۔ وہ جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔
پھر وہ اپنی بیوی کی طرف مڑا جو ایک سادہ سی عورت تھی اور ابھی تک دم بخود بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھوں میں حزن و ملال اور چہرے پر مایوسی تھی۔ بونا سیرا گویا اسے حوصلہ دیتے ہوئے بولا۔ ’’تم فکر مت کرو۔‘‘ گویا وہ دل ہی دل میں کسی فیصلے پر پہنچ چکا تھا۔ ’’ہمارے ساتھ بے انصافی ہوئی ہے۔ انہوں نے دنیا کے سامنے ہمارا تماشا بنایا ہے۔ ہمارا مذاق اڑایا ہے۔ انصاف حاصل کرنے کے لئے ہم ڈون کارلیون کے پاس جائیں گے۔ ہمیں عدالت سے انصاف نہیں ملا لیکن ڈون کارلیون سے ہمیں ضرور انصاف ملے گا۔‘‘
٭…٭…٭
لاس اینجلس کے ایک اعلیٰ درجے کے ہوٹل کا وہ سوئٹ قدرے شوخ سے انداز میں آراستہ تھا۔ اس سوئٹ کے ڈرائنگ روم میں ایک کائوچ پر جونی فونٹا نیم دراز تھا۔ وہ نشے میں دھت تھا اور بوتل اب بھی اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے ایک اور گھونٹ بھرا۔ اس کے سینے میں گویا ایک بار پھر آگ سی لگ گئی مگر یہ اس آگ سے کہیں کمتر تھی جو پینے سے پہلے ہی اس کے وجود کو جلا رہی تھی۔
وہ رقابت کی آگ تھی۔
اپنی اداکارہ بیوی مارگوٹ ایشٹن کے بارے میں سوچتے ہوئے یہ آگ اس کے ہر مسام جاں سے پھوٹنے لگتی تھی۔ اس وقت صبح کے چار بج رہے تھے اور اسے نہیں معلوم تھا کہ گزشتہ شام سے اس کی بیوی کہاں تھی؟ خمار سے دھندلائے ہوئے ذہن کے ساتھ وہ سوچ رہا تھا کہ مارگوٹ جب واپس آئے گی تو وہ اسے قتل کردے گا۔ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ مارگوٹ کب واپس آئے گی اور آئے گی بھی یا نہیں؟
اس کی پہلی بیوی جسے اس نے چھوڑ دیا تھا۔ اس وقت تو وہ اس سے بھی فون کرکے نہیں پوچھ سکتا تھا کہ اس کا اور اس کے دونوں بچوں کا کیا حال تھا؟ رات کے پچھلے پہر وہ اپنے دوستوں اور جاننے والوں میں سے بھی کسی کو فون کرکے تسلی کا کوئی لفظ سننے کی امید نہیں رکھ سکتا تھا۔ اس وقت تو شاید کوئی اس کا فون ریسیو ہی نہ کرتا اور اگر کرتا بھی تو وہ یقیناً بیزاری یا غصے کا اظہار کرتا کیونکہ جونی اب ایک زوال زدہ شخص تھا۔
کچھ زیادہ پرانی بات نہیں تھی کہ وہ ہالی وڈ کا صف اول کا گلوکار تھا۔ وہ بے حد مقبول راک سنگر تھا۔ بے حد وجیہ بھی تھا۔ عورتیں اس پر مرتی تھیں۔ اسے فلموں میں بھی کام کرنے کی پیشکشیں ہوتی تھیں۔ اس نے چند ایک فلموں میں کام بھی کیا لیکن اسے خود ہی احساس ہوا کہ وہ زیادہ اچھا اداکار نہیں تھا۔ اس لئے اس نے دوبارہ گلوکاری پر ہی توجہ مرتکز کردی۔
پھر کچھ ایسے عوامل پیدا ہوئے کہ بطور گلوکار بھی اس پر بہت تیزی سے زوال آگیا۔ اب وہ نشے میں دھت ہونے کے باوجود صبح کے چار بجے کسی کو فون کرنے کی خود میں ہمت نہیں پاتا تھا۔ کوئی وقت تھا کہ اگر وہ رات کے اس پہر بھی کسی کو فون کرتا تو وہ اس پر فخر محسوس کرتا۔ وہ اپنے حلقۂ احباب میں بیٹھ کر بظاہر سرسری لیکن درحقیقت فخریہ لہجے میں بتاتا کہ جونی فونٹا نے رات کے چار بجے اسے فون کیا تھا۔
کوئی وقت تھا کہ وہ ہالی وڈ کی کئی سپر اسٹارز کے سامنے
اپنی پریشانیوں یا مسائل کا بھی تذکرہ کرتا تھا تو وہ نہایت دلچسپی اور حیرت سے آنکھیں پھیلا پھیلا کر سنتی تھیں لیکن اب اگر وہ ان سے رسمی باتیں بھی کرنے کی کوشش کرتا تو شاید وہ اس کے منہ پر ہی کہہ دیتیں کہ وہ انہیں بور کررہا ہے۔ اس نے وہسکی سے لتھڑے ہوئے اپنے ہونٹوں کو الٹے ہاتھ سے صاف کیا اور وقت اور حالات کے اس تغیر کے بارے میں سوچتے ہوئے افسردگی سے مسکرا دیا۔
آخر اسے دروازے کے تالے میں چابی گھومنے کی آواز سنائی دی۔ اس کی بیوی واپس آگئی تھی۔ اس وقت بھی بوتل جونی کے ہونٹوں سے لگی ہوئی تھی۔ اس نے اسے ہٹانے کی کوشش نہیں کی حتیٰ کہ مارگوٹ کمرے میں آگئی اور اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ وہ بے پناہ خوبصورت عورت تھی۔ اس کا سراپا قیامت تھا۔ بہت سے خوبصورت لوگ فلم اسکرین پر زیادہ خوبصورت نظر نہیں آتے لیکن وہ اسکرین پر بھی اصل سے خوبصورت دکھائی دیتی تھی۔ کیمرہ اس کے حسن میں چار چاند لگا دیتا تھا۔ اس کے سراپے میں گویا کچھ اور جان پڑ جاتی تھی۔
جونی کے لئے مشکل یہ تھی کہ وہ اب بھی اس حسین بلاخیز کا دیوانہ تھا۔ مارگوٹ کی فلمیں دیکھنے والوں میں سے کم ازکم دس کروڑ مرد اس پر دل و جان سے مرتے تھے اور جونی محسوس کرتا تھا کہ شاید وہ بھی انہی دس کروڑ مردوں میں سے ایک تھا۔ وہ اس کا شوہر نہیں، اس کا پرستار، اس کا عاشق زار تھا۔ وہ جب اس کے سامنے آتی تھی تو وہ اپنا سارا غصہ، برہمی اور نفرت بھول جاتا تھا۔ بالکل بے بس ہوجاتا تھا۔
’’کہاں تھیں تم اب تک؟‘‘ جونی نے اپنی لڑکھڑاتی آواز میں غصہ سمونے کی کوشش کی لیکن اسے اس میں کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی۔
’’باہر… عیش کررہی تھی۔‘‘ مارگوٹ نے بے خوفی سے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ وہ گویا اسے چھیڑ رہی تھی۔ چڑانے کی کوشش کررہی تھی۔
اس نے جونی کی مدہوشی کے بارے میں غلط اندازہ لگایا تھا۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ شاید جونی میں اپنی جگہ سے ہلنے کی بھی سکت نہیں ہے مگر وہ اچھل کر اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے مارگوٹ کا گلا دبوچ لیا لیکن اتنے قریب سے اس حسین چہرے کو دیکھ کر وہ جیسے بالکل ہی بے بس ہوگیا اور پھر کچھ نشے کی زیادتی کے باعث بھی اس کے ہاتھوں میں جان نہیں تھی۔ مارگوٹ کے گلے پر اس کی گرفت ذرا بھی سخت نہیں تھی۔ وہ استہزائیہ انداز میں مسکرا رہی تھی۔
جونی نے گویا اس کے اس انداز سے چڑ کر دوسرا ہاتھ گھونسا رسید کرنے کے لئے بلند کیا تو وہ دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے چلا اٹھی۔ ’’دیکھو… میرے چہرے پر گھونسا ہرگز نہ مارنا۔ ابھی میری شوٹنگ چل رہی ہے۔ فلم ختم نہیں ہوئی۔ ابھی میں اپنے چہرے پر ذرا سا بھی نشان افورڈ نہیں کرسکتی۔‘‘
جونی کا ہاتھ اٹھا کا اٹھا رہ گیا۔ وہ اسے گھونسا رسید کرنے سے باز رہا۔ بے بسی اس پر پہلے ہی غالب تھی۔ مارگوٹ اس کی حالت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہنسنے لگی۔ تب جونی نے اسے قالین پر گرا دیا اور اس کے جسم کے ایسے حصوں پر گھونسے رسید کرنے لگا جہاں اول تو نشان پڑ نہیں سکتے تھے اور اگر پڑتے بھی تو نظر نہیں آسکتے تھے۔ درحقیقت خمار حد سے زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کے ہاتھوں میں اتنی طاقت ہی نہیں تھی کہ وہ مارگوٹ کو کوئی گزند پہنچا سکتا۔
وہ اس کے نیچے دبی اس طرح ہنس رہی تھی جیسے جونی اسے مارنے کے بجائے اس کے گدگدی کررہا ہو۔ وہ نہایت نازک اندام نظر آتی تھی۔ اس کا بے داغ مرمریں سراپا گویا ذرا سی رگڑ بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا لیکن درحقیقت وہ اتنی نازک اندام بھی نہیں تھی۔
چند لمحوں بعد وہ اسے ایک طرف دھکیل کر اٹھ کھڑی ہوئی اور استہزائیہ لہجے میں بولی۔ ’’تمہارا ہر کام ہی بچکانہ ہوتا ہے۔ تمہیں ڈھنگ سے کچھ بھی کرنا نہیں آتا۔ حتیٰ کہ تم وہ نشے بازوں جیسے فضول اور واہیات گانے گایا کرتے تھے، اب تو تم سے وہ بھی نہیں گائے جاتے۔‘‘ پھر اس نے گھڑی دیکھی اور اس کے لہجے میں بیزاری آگئی۔ ’’میں سونے جارہی ہوں۔ خداحافظ اور شب بخیر۔‘‘
وہ بیڈ روم میں چلی گئی اور دروازہ اس نے مقفل کرلیا۔ جونی سوئٹ کے ڈرائنگ روم میں ہی پڑا رہ گیا۔ چند لمحے بعد وہ اٹھ بیٹھا اور اس نے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا۔ اس کا سر گھوم رہا تھا۔ ذلت اور شکستگی کے احساس سے اس کی آنکھیں کچھ اور دھندلائی جارہی تھیں۔
پھر دھیرے دھیرے اس کے دل کے کسی گوشے سے عزم اور ہمت کی ایک لہر سی ابھری۔ وہ عزم اور ہمت جس کی مدد سے اس نے ہالی وڈ کے ’’جنگل‘‘ میں اپنی بقا کی جنگ لڑی تھی اور اپنا ایک مقام بنایا تھا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اب وہ ایک دلدل میں دھنس چکا تھا۔ دھیرے دھیرے نیچے جارہا تھا۔ ناکامیاں چاروں طرف سے اس پر حملہ آور تھیں۔ ہر قسم کی کامیابی اور ہر قسم کی خوشی گویا اس کی زندگی سے رخصت ہوچکی تھی۔ مگر اسے زندہ رہنا تھا۔ کامیابیوں اور خوشیوں کے حصول کے لئے ہاتھ، پائوں مارنے تھے۔ وہ اتنی آسانی سے شکست تسلیم نہیں کرسکتا تھا۔ اس دنیا میں ابھی ایک فرد موجود تھا جو اس کا ہاتھ تھام سکتا تھا۔ اسے حالات کی دلدل سے نکال سکتا تھا۔ اسے سہارا دے سکتا تھا۔ اسے دوبارہ کامیابیوں کے راستے پر ڈال سکتا تھا اور وہ تھا اس کا مربی اور سرپرست، اس کا گاڈ فادر ڈون کارلیون! جس کے لئے جونی منہ بولے بیٹے کی طرح تھا۔
جونی نے فیصلہ کیا کہ وہ نیویارک جائے گا اور گاڈ فادر سے ملے گا۔ اس نے اسی وقت فون اپنی طرف کھسکایا اور نیویارک کے لئے جہاز پر ایک سیٹ بک کرانے کی غرض سے ایئرپورٹ کا نمبر ملانے لگا۔
٭…٭…٭
نیزورین کی بیکری اطالوی چیزوں کے لئے مشہور تھی اور بیکری کی بالائی منزل پر ہی نیزورین اپنی بیوی اور جوان بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ اس وقت وہ ایپرن باندھے بیکری کے پچھلے حصے میں کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میدے میں لتھڑے ہوئے تھے اور چہرے پر بھی کہیں کہیں میدہ لگا ہوا تھا۔
اس کے سامنے اس کی بیوی، جوان بیٹی اور بیکری کے کاموں میں کچھ عرصہ پہلے تک اس کا ہاتھ بٹانے والا نوجوان اینزو موجود تھا۔ اینزو خوش شکل اور میانہ قامت تھا۔ وہ ورزشی جسم کا مالک تھا۔ اس کے جسم پر اطالوی جنگی قیدیوں والی مخصوص وردی تھی۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکا میں غیر قانونی طور پر مقیم اطالویوں میں سے بیشتر کو پکڑ لیا گیا تھا۔ کچھ چھان بین کے بعد ان میں سے بیشتر کو پیرول پر رہا کردیا گیا تھا اور ان کی صلاحیتوں کے اعتبار سے سرکاری طور پر مختلف مقامات پر کاموں پر لگا دیا گیا تھا جن کا انہیں بہت کم معاوضہ ملتا تھا۔ ان کا کام گویا ایک طرح کی بیگار تھی جو امریکی حکومت ان سے لے رہی تھی۔ ان کی حیثیت جنگی قیدیوں کی سی تھی تاہم وہ کسی قیدخانے یا کیمپ میں نہیں تھے البتہ ان کے لئے اپنے کام کی جگہ پر پہنچنا ضروری تھا۔ عام خیال یہی تھا کہ اب جبکہ جنگ اختتام پذیر تھی، جلد ہی انہیں ان کے وطن واپس بھیج دیا جائے گا۔
اینزو بھی ان دنوں اسی طرح سے دوچار تھا۔ نیزورین خونخوار نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔ اس وقت ان چاروں کے درمیان نہایت سنجیدہ گفتگو جاری تھی اور اینزو کو خدشہ تھا کہ اس بحث میں الجھ کر وہ گورنرز آئی لینڈ پہنچنے میں لیٹ ہوجائے گا جہاں اس کی ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ کام پر پہنچنے میں لیٹ ہونا ایک سنگین مسئلہ تھا۔ اس کے نتیجے میں اس کی پیرول منسوخ ہوسکتی تھی اور اسے قید میں ڈالا جاسکتا تھا جبکہ اس کے لئے رسمی سی آزادی بھی نعمت تھی۔
’’میں پوچھتا ہوں کہ تم نے میری بیٹی کو محبت کا جھانسہ دے کر اس کی عزت تو برباد نہیں کی؟‘‘ نیزورین نے خونخوار لہجے میں اینزو سے دریافت کیا۔ ’’تم کہیں اسے گناہ کی کوئی نشانی تو نہیں دیئے جارہے؟ جنگ ختم ہوتے ہی امریکی حکومت تمہیں تو سسلی تمہارے گائوں واپس بھیج دے گی جہاں گندگی اور غربت کے سوا کچھ نہیں۔ تم دھکے کھانے کے لئے وہاں چلے جائو گے اور میری بیٹی یہاں روتی رہ جائے گی۔‘‘
اینزو سینے پر ہاتھ رکھ کر مؤدبانہ انداز میں جھکتے ہوئے اور اپنی آواز کو گلوگیر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے مجروح سے لہجے میں بولا۔ ’’یہ آپ کیسی باتیں کررہے ہیں؟ میں نے کبھی آپ کی نوازشات اور آپ کی بیٹی کی محبت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں۔ میں مقدس کنواری کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کوئی غلط حرکت نہیں کی۔ میں آپ کی بیٹی سے محبت کرتا ہوں لیکن اس کی عزت بھی مجھے عزیز ہے۔ آپ سب میری نظر میں محترم ہیں۔ میرے دل میں آپ سب کے لئے عزت بھی ہے اور اپنائیت بھی! میں باعزت انداز میں آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور یہ کوئی غلط بات نہیں ہے لیکن اگر امریکی حکومت نے جبری طور پر مجھے واپس میرے وطن، میرے گائوں بھیج دیا تو پھر میں کیتھرین سے شادی نہیں کرسکوں گا۔‘‘
اس موقع پر نیزورین کی بیوی فیلومینا نے مداخلت کی اور ڈانٹنے کے سے انداز میں اپنے پستہ قد شوہر سے مخاطب ہوئی۔ ’’بے وقوفی کی باتیں چھوڑو اور اصل مسئلے کی طرف دھیان دو۔ ہمیں اینزو کو ہر حال میں امریکا میں رکھنے کا بندوبست کرنا چاہئے۔
اسے فی الحال روپوش ہونے کے لئے اپنے بھائی کے گھر لانگ آئی لینڈ بھیج دو اور اس دوران اس کے کاغذات بنوانے کی کوشش کرو جن کی مدد سے یہ جائز اور قانونی طریقے سے امریکا میں رہ سکے۔‘‘
نیزورین خود سسلی کا باشندہ تھا لیکن وہ برسوں سے امریکا میں مقیم تھا اور یہاں کی شہریت حاصل کرچکا تھا۔ اسے سسلی میں واقع اپنے آبائی گائوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی تاہم وہ سسلی کے پرانے اور روایت پسند لوگوں میں سے تھا جن کی پہلی کوشش یہی ہوتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کی شادیاں اپنے ہم وطنوں میں کریں۔
نیزورین کو تو ویسے بھی اینزو جیسا خوش شکل اور نوجوان داماد میسر آنا مشکل تھا کیونکہ اس کی بیٹی نہایت عام سی شکل صورت کی مالک اور اچھی خاصی موٹی تھی۔ یہ کہنا بے جا نہیں تھا کہ وہ کسی حد تک بھدے پن کا شکار تھی اور مردوں کی طرح اس کی ناک کے نیچے ہلکا سا رواں بھی تھا جیسے کسی نوعمر لڑکے کی مسیں بھیگ رہی ہوں۔
معلوم نہیں اینزو کس طرح اس پر مہربان ہوگیا تھا۔ جن دنوں وہ بیکری کے کاموں میں ہاتھ بٹا رہا تھا، نیزورین نے اسے اکثر آنکھ بچا کر اپنی بیٹی کے ساتھ اٹکھیلیاں اور چھیڑ چھاڑ کرتے دیکھا تھا۔ کیتھرین پوری گرمجوشی سے اس کی حرکتوں کا جواب دیتی تھی۔ نیزورین کو اندیشہ تھا کہ اگر اس نے ان دونوں پر کڑی نظر نہ رکھی ہوتی تو اس کی بیٹی خود اینزو کی طرف مائل
ہوچکی ہوتی۔
کیتھرین اس وقت رو رہی تھی۔ اس کی ماں نے جب اس کے باپ کو ڈانٹا تو کیتھرین نے امید بھری نظروں سے باپ کی طرف دیکھا لیکن جب وہ متذبذب انداز میں خاموش رہا تو کیتھرین چلا اٹھی۔ ’’اگر اینزو کو سسلی بھیجا گیا تو میں بھی اس کے ساتھ وہیں چلی جائوں گی اور وہیں رہوں گی۔ اگر اس کے ساتھ میری شادی نہ کی گئی تو میں اس کے ساتھ بھاگ جائوں گی۔ اگر اسے یہاں نہیں روکا گیا تو اس کے ساتھ رہنے کے لئے میں کچھ بھی کرگزروں گی۔‘‘
نیزورین نے ناگواری سے بیٹی کی طرف دیکھا۔ اسے احساس ہوا کہ بیٹی اس کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ اس پر نوجوانی کے جذبات کا غلبہ تھا۔ اس سلسلے میں صحیح سمت میں قدم اٹھانا ضروری ہوگیا تھا۔ اس کے خیال میں درست اقدام یہی تھا کہ اینزو کو امریکا میں روکا جاتا اور اسے شہریت دلوانے کی کوشش کی جاتی۔ یہ بہت مشکل کام تھا۔ نیزورین کے بس کی بات نہیں تھی۔ فی الحال تو یہ تقریباً ناممکن ہی تھا۔ صرف ایک شخص ایسا تھا جو نیزورین کے خیال میں اس ناممکن کام کو ممکن بنا سکتا تھا اور وہ تھا گاڈ فادر ڈون کارلیون!
٭…٭…٭
ان سب لوگوں کو ڈون کارلیون کی بیٹی تانزیا کارلیون کی شادی کی تقریب کے دعوت نامے ملے تھے۔ دعوت نامے نہایت خوبصورت تھے اور ان پر طلائی حروف ابھرے ہوئے تھے۔ شادی کے لئے اگست 45ء کے آخری سنیچر کا دن مقرر کیا گیا تھا۔ ڈون کارلیون گو کہ اب لانگ آئی لینڈ پر ایک طویل و عریض محل نما مکان میں رہ رہا تھا لیکن وہ تمام اہم تقریبات کے موقع پر اپنے پرانے پڑوسیوں، دوستوں اور عقیدت مندوں کو مدعو کرنا نہیں بھولتا تھا۔
شادی کی ضیافت کا اہتمام اس محل نما مکان میں ہی کیا گیا تھا اور جشن کے سے انداز میں مختلف رسوم کا سلسلہ تمام دن ہی جاری رہتا تھا۔ مدعوئین کے لئے اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ یہ ایک یادگار تقریب ہوگی۔ لوگوں کے لئے یہ احساس بھی طمانیت بخش تھا کہ جنگ عظیم تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ آخری معرکہ آرائی جاپانیوں سے چل رہی تھی۔ اب وہ بھی اختتام کو پہنچ چکی تھی۔ لوگوں کے بیٹے جو فوج میں بھرتی ہوکر مختلف محاذوں پر گئے ہوئے تھے، گھروں کو لوٹ آئے تھے۔ اب وہ صحیح طور پر کوئی خوشی منا سکتے تھے۔ کسی تقریب سے لطف اندوز ہوسکتے تھے۔ تقریب کے دوران ان کے دل و ذہن پر اس قسم کے تفکرات اور اندیشوں کے سائے نہ ہوتے کہ ان کے بیٹے نہ جانے کن محاذوں پر ہوں گے۔ کس حال میں ہوں گے اور وہ زندہ بھی واپس آئیں گے یا نہیں؟ ان کے خیال میں شادی کی یہ تقریب بہت ہی اچھے موقع پر آئی تھی۔
چنانچہ اس سنیچر کو دن چڑھتے ہی بہت سے لوگ نیویارک سٹی سے لانگ آئی لینڈ کی طرف روانہ ہوچکے تھے۔ ان کے پاس دلہن کو تحفے کے طور پر دینے کے لئے لفافے تھے جن میں ہر ایک نے حسب حیثیت زیادہ سے زیادہ رقم رکھ کر ڈون کارلیون سے اپنی عقیدت اور وابستگی کا اظہار کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ رقوم وہ کسی مجبوری کے تحت نہیں بلکہ حقیقت میں اپنی خوشی سے لے کر جارہے تھے۔ وہ سب ہی کسی نہ کسی وجہ سے ڈون کے لئے اپنے دل میں عقیدت، ممنونیت اور تشکر کے جذبات رکھتے تھے اور ان کے اظہار کا ان کے خیال میں یہ ایک نہایت اچھا موقع اور نہایت اچھا طریقہ تھا۔
ان میں بیشتر وہ لوگ تھے جنہوں نے ہر مشکل گھڑی میں مدد کے لئے ڈون کارلیون کے دروازے پر دستک دی تھی اور انہیں کبھی مایوس نہیں لوٹنا پڑا تھا۔ ڈون نے کبھی ان سے کوئی جھوٹا وعدہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی کبھی کسی کی مدد کے سلسلے میں یہ عذر پیش کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اپنے سے بھی بڑی کسی طاقت کے سامنے مجبور تھا۔ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے یا فلاں کام، فلاں ٹھوس وجہ کی بنا پر ممکن ہی نہیں تھا۔ ڈون کارلیون کے منہ سے کبھی کسی نے اس قسم کی بات نہیں سنی تھی۔
اس کے پاس مدد کی غرض سے جانے والے سائل کے لئے یہ بھی ضروری نہیں تھا کہ وہ کوئی اہم آدمی ہوتا یا ڈون اس سے یہ توقع رکھتا کہ کبھی وہ بھی جواب میں اس کے کسی کام آئے گا۔ چھوٹے موٹے، معمولی اور غیر اہم آدمی بھی مدد مانگنے کے لئے ڈون کے پاس جاسکتے تھے۔ شرط صرف یہ تھی کہ ڈون سے ان کی شناسائی، دوستی یا نیاز مندی ہوتی یا وہ ڈون کے پرانے ہم وطن ہوتے اور انہوں نے اس سے رابطہ اور رشتہ کسی نہ کسی صورت میں کسی نہ کسی انداز میں برقرار رکھا ہوتا۔
ڈون ایک روایت پسند آدمی تھا۔ اگر کوئی شخص اس سے تعلق یا قرابت داری کا دعوے دار ہوتا تو ڈون کی یہ بھی خواہش ہوتی کہ وہ کسی نہ کسی انداز میں اس کا اظہار بھی جاری رکھتا۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا کہ عام حالات میں تو کوئی ڈون سے برسوں لاتعلق رہتا، کبھی رابطہ نہ رکھتا اور جب کوئی مشکل یا مصیبت پڑتی تو روتا ہوا اس کے پاس پہنچ جاتا۔
اس کے شناسا، دوست، پرانے پڑوسی یا ہم وطن کبھی کبھار اسے کوئی تحفہ بھجواتے رہتے تھے یا کسی اور انداز میں رابطہ رکھتے تھے اور ڈون کو یہ احساس دلاتے رہتے تھے کہ وہ اسے بھولے نہیں تھے تو ڈون بہت خوش ہوتا تھا۔ کسی کے چھوٹے موٹے تحفے کی اس کے لئے کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی لیکن وہ یہ محسوس کرکے خوش ہوتا تھا کہ تحفہ بھیجنے والے نے اس کی ذات سے اپنی عقیدت، ممنونیت اور تعلقِ خاطر کا اظہار کیا ہے۔ اس کی نظر میں ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی بہت اہمیت تھی۔ ممنونیت، عقیدت اور تشکر کے انہی جذبات کے تحت بہت سے لوگ اسے گاڈ فادر کہتے تھے۔ اسے اپنا مربی، سرپرست اور منہ بولا یا روحانی باپ قراردیتے تھے۔
آج کا دن خود ڈون کے لئے بھی یادگار تھا۔ آج اس کی بیٹی کی شادی تھی۔ وہ خود اپنے محل کے صدر دروازے پر مہمانوں کے استقبال کے لئے کھڑا تھا۔ ان میں سے بیشتر ایسے تھے جو ڈون ہی کی کسی نہ کسی نوازش کی وجہ سے کامیابی کے راستے پر گامزن ہوئے تھے۔ وہ تو اس کے روبرو بھی دلی محبت اور عقیدت سے اسے گاڈ فادر کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔
محل میں مستقل یا پھر اس خاص موقع پر عارضی طور پر خدمات انجام دینے والوں سے بھی ڈون کا کوئی نہ کوئی پرانا تعلق یا دوستی کا رشتہ تھا۔ مثلاً آج کے دن بار ٹینڈر کے فرائض انجام دینے والا ڈون کا پرانا دوست تھا اور تقریب کیلئے تمام مشروبات کا انتظام اس نے اپنی جیب سے کیا تھا۔ یہ گویا اس کی طرف سے شادی کا تحفہ تھا۔
ویٹرز کے طور پر کام کرنے والے لوگ ڈون کارلیون کے بیٹوں کے دوست تھے اور اس موقع پر ڈون فیملی کی خدمت انجام دے کر خوشی محسوس کررہے تھے۔ ایک ایکڑ پر پھیلے ہوئے خوبصورت اور سرسبز باغ میں بہت سی پکنک ٹیبلز پر طرح طرح کے جو کھانے سجے ہوئے تھے وہ ڈون کی بیوی نے اپنی نگرانی میں ملازمائوں اور اپنی سہیلیوں سے پکوائے تھے۔ اس نے خود بھی ان کے ساتھ کام کیا تھا۔ باغ کی سجاوٹ اور آرائش دلہن کی سہیلیوں نے کی تھی۔
ڈون کارلیون ہر مہمان کا استقبال یکساں احترام اور گرم جوشی سے کر رہا تھا۔ کوئی امیر تھا یا غریب۔ اہم تھا یا غیر اہم۔ بڑے سماجی رتبے کا حامل تھا یا کوئی معمولی کارندہ۔ ڈون کارلیون سب کو یکساں انداز میں خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ اس کے رویّے سے کسی مہمان کو اپنے بارے میں گمان بھی نہیں گزر سکتا تھا کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں کمتر تھا۔ ڈون کا رویہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا۔ یہ اس کے کردار کا ایک حصہ تھا۔ وہ اس عمر میں بھی اپنے ڈنر سوٹ میں اتنا وجیہ، پروقار اور دلکش نظر آرہا تھا کہ اگر آنے والا کوئی مہمان اس کا صورت آشنا نہ ہوتا تو شاید یہ سمجھتا کہ وہ دولہا ہے۔
اس کے تین بیٹوں میں سے دو اس کے ساتھ صدر دروازے پر کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک سین ٹینو تھا۔ پیدائش کے بعد اس کا نام تو سین ٹینو رکھا گیا تھا لیکن زیادہ تر لوگ اسے سنی کے نام سے جانتے تھے۔ باپ کے سوا تقریباً سبھی اسے اسی نام سے پکارتے تھے۔
ڈون کارلیون کے بچے امریکا میں ہی پیدا ہوئے تھے اور یہیں پلے بڑھے تھے۔ ان کے نقوش پر اطالوی رنگ غالب تھا مگر شخصیت میں امریکی چھب بھی تھی مثلاً سین ٹینو عرف سنی قدکاٹھ اور ہاتھ، پیروں کی ساخت سے امریکی لگتا تھا۔ اس کا قد چھ فٹ اور جسم کسی بیل یا گھوڑے کی طرح مضبوط تھا جبکہ اس کے سنہرے بال نہایت گھنے اور گھنگھریالے تھے۔ اس کاچہرہ کسی حد تک کیوپڈ کی خیالی تصویر سے ملتا تھا۔
عورتوں کے لئے اس میں بے پناہ کشش تھی۔ وہ شادی شدہ اور تین بچوں کا باپ تھا مگر اس پر عورتوں کی نوازشات میں کوئی کمی نہیں آئی تھی اور وہ ان نوازشات سے استفاد کرنے میں چوکتا بھی نہیں تھا۔ جن عورتوں کو اس سے واسطہ پڑتا تھا وہ اس کی بے پناہ کشش پر عرصے تک حیران رہتی تھیں۔
آج بھی بیشتر جوان ملازمائیں اور چھوٹی موٹی دیگر خدمات انجام دینے والی عورتیں آتے جاتے موقع پا کر اسے میٹھی میٹھی نظروں سے دیکھ رہی تھیں لیکن وہ ان کی طرف سے انجان بنا ہوا تھا۔ آج وہ بہن کی شادی کے موقع پر نہایت سنجیدہ اور ذمہ دار طرزعمل کا مظاہرہ کرنا چاہتا تھا تاہم دلہن کی اس وقت کی خاص خادمہ لوسی پر نظر رکھنے سے وہ باز نہیں رہا تھا اور موقع ملنے کا منتظر تھا۔
لوسی دلہن سے کہیں زیادہ خوبصورت اور پرکشش تھی۔ آج کچھ زیادہ ہی اہتمام سے بنی سنوری ہونے کی وجہ سے وہ اور بھی غضب ڈھا رہی تھی۔ وہ خوبصورت گلابی گائون میں تھی اور اس کے ریشمیں سیاہ بالوں میں پھولوں کا تاج سجا ہوا تھا۔ پچھلے ایک ہفتے سے شادی کی تیاریوں اور مختلف رسوم کی ریہرسل کے دوران وہ سنی سے اچھی خاصی بے تکلفی سے بات کرتی رہی تھی اور صبح چرچ میں شادی کی رسم کے دوران اس نے موقع پا کر چپکے سے سنی کا ہاتھ بھی پکڑ لیا تھا۔
سنی کے بارے میں عام خیال یہی تھا کہ اس میں باپ والی بیشتر خصوصیات نہیں تھیں۔ گو کہ وہ فراخدلی اور مستعد آدمی تھا مگر اس میں باپ جیسا تحمل اور معاملہ فہمی نہیں تھی۔ اسی جلدبازی اور تند مزاجی میں وہ غلط فیصلے کر جاتا تھا۔ گو کہ اس وقت وہ باپ کے کاروبار میں ہاتھ بٹا رہا تھا لیکن اس کے بارے میں یہ امید نہیں رکھی جاتی تھی کہ وہ صحیح معنوں میں باپ کا جانشین یا اس کا صحیح وارث ثابت ہوسکے گا۔
ڈون کے دوسرے بیٹے کا نام فریڈ ریکو تھا جسے پیار سے فریڈ کہا جاتا تھا۔ اکثر اطالوی اپنے ہاں اس قسم کا بیٹا پیدا ہونے کی دعا مانگتے تھے۔ وہ آنکھیں بند کرکے باپ کے حکم پر چلنے والا، ہر حال میں اس کا وفادار اور خدمت گار تھا۔ تیس سال کی عمر میں بھی وہ باپ کے ساتھ ہی رہتا تھا۔
وہ سنی جتنا دراز قد اور خوبرو تو نہیں تھا لیکن بہرحال جسمانی
اسی کی طرح مضبوط تھا۔ اس کی صورت میں بھی کیوپڈ کی جھلک تھی تاہم اس کی آنکھوں اور چہرے کی ساخت سے سرد مہری جھلکتی تھی۔ وہ کبھی اپنے باپ سے اختلاف نہیں کرتا تھا اور نہ ہی کبھی عورتوں کے بارے میں اس کا کوئی اسکینڈل بنا تھا جس سے اس کے باپ کو شرمندگی اٹھانا پڑتی۔ اس کی یہ خوبیاں اپنی جگہ تھیں مگر اس میں بھی وہ طاقت، وہ خود اعتمادی اور وہ قائدانہ صلاحیتیں نظر نہیں آتی تھیں جو ڈون کارلیون جیسے آدمی کی روایات اور وراثت کو مکمل طور پر سنبھالنے کے لئے ضروری تھیں۔
ڈون کا تیسرا بیٹا مائیکل کارلیون تھا۔ وہ اس وقت اپنے باپ اور دونوں بھائیوں سے الگ تھلگ، باغ کے ایک گوشے میں میز پر بیٹھا تھا لیکن وہاں بھی وہ بہت سے مہمانوں کی توجہ کا مرکز تھا۔ وہ ڈون کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا اور اپنے باپ کا سب سے کم فرمانبردار تھا۔ وہ اپنے بھائیوں کی طرح مضبوط اور قدرے بھاری بھرکم سی شخصیت کا مالک نہیں تھا۔ اس کے بال بھی گھنے سنہرے اور گھنگھریالے نہیں بلکہ سیدھے سیاہ ریشمیں تھے۔ وہ چھریرے جسم کا تھا اور بال ذرا لمبے رکھتا تھا۔ اس کی زیتونی جلد میں ہلکی سی زردی تھی۔ ایسی جلد اگر کسی عورت کی ہوتی تو بہت اچھی لگتی۔
مائیکل بھی ایک وجیہ نوجوان تھا لیکن اس کی شخصیت میں کچھ نزاکت تھی۔ جب وہ چھوٹا تھا، اس وقت تو ڈون کو یہ نزاکت کسی حد تک نسوانیت محسوس ہوتی تھی اور اسے اندیشہ تھا کہ شاید اس کے بیٹے میں وہ وجاہت اور مردانگی نہ ہو جو اس کے خاندان کا خاصا تھی لیکن جب مائیکل سترہ سال کا ہوا تو اس کے باپ کی یہ تشویش دور ہوگئی۔
اس وقت بھی مائیکل گویا اپنے اور اپنی فیملی کے درمیان کچھ فاصلہ ظاہر کرنے کے لئے سب سے ہٹ کر، الگ تھلگ بیٹھا ہوا تھا لیکن اکیلا نہیں تھا۔ اس کے ساتھ اس کی دوست ایک امریکی لڑکی موجود تھی جس کا نام کے ریڈمز تھا۔ کارلیون فیملی کے جاننے والوں نے اس لڑکی کے بارے میں سن تو رکھا تھا لیکن آج وہ پہلی بار اسے دیکھ رہے تھے۔
مائیکل اسے ساتھ لئے سب سے الگ تھلگ ضرور بیٹھا تھا لیکن اس نے بدتہذیبی یا ناشائستگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ اس نے ’’کے‘‘ کو پہلے تمام مہمانوں اور اپنے خاندان کے افراد سے ملوا دیا تھا اور اس کا تعارف بھی کرا دیا تھا۔ اس کے خاندان کے افراد اس سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوئے تھے۔ ان کے خیال میں وہ بہت نازک اندام اور بہت دبلی تھی۔ اس کے چہرے سے بہت زیادہ ذہانت جھلکتی تھی اور مائیکل کے خاندان میں عورت کا زیادہ ذہین نظر آنا خوبی نہیں، خامی تھی۔ انہیں تو اس کا نام بھی پسند نہیں آیا تھا۔ ’کے‘… ! بھلا یہ بھی کوئی نام ہوا؟
ہر مہمان محسوس کررہا تھا کہ ڈون کارلیون اپنے اس بیٹے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دے رہا تھا۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہونے سے پہلے مائیکل ہی ڈون کا سب سے چہیتا بیٹا تھا اور لوگوں کا خیال تھا کہ مناسب وقت آنے پر ڈون اسے ہی اپنا جانشین قرار دے گا کیونکہ اس میں ایک خاموش ذہانت اور باپ جیسی معاملہ فہمی نظر آتی تھی۔ وہ صحیح وقت پر صحیح فیصلے کرنے کا اہل نظر آتا تھا اور اس میں کوئی ایسی بات تھی کہ لوگ اس کی عزت کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ اس کی یہ خوبیاں ظاہر کرتی تھیں کہ اس میں باپ کی زبردست شخصیت کی جھلک موجود تھی۔ خواہ اس کا سراپا باپ سے مختلف نظر آتا تھا مگر جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو مائیکل نے باپ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی مرضی سے اپنا نام فوج میں لکھوا دیا۔
ڈون ابھی تک امریکیوں کو ایک غیر قوم ہی محسوس کرتا تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا سب سے چھوٹا اور سب سے لاڈلا بیٹا ایک غیر قوم کے محافظ کے فرائض انجام دیتے ہوئے کسی دور افتادہ محاذ پر مارا جائے۔ ڈون نے اسے فوج میں جانے سے روکنے کے لئے خفیہ طور پر کوششیں بھی کی تھیں۔ ڈاکٹروں کو رشوت دی گئی تھی کہ وہ اسے فوج کے لئے نااہل قرار دے دیں۔ دوسرے کئی طریقے اختیار کرنے کے لئے بھی بہت رقم خرچ کی گئی تھی لیکن مائیکل کی عمر اکیس سال تھی۔ یعنی قانونی طور پر وہ خود مختار تھا اور رضاکارانہ طور پر فوج میں جانے کے لئے تیار تھا۔ اس لئے اسے روکنے کی تمام ظاہری اور خفیہ کوششیں ناکام ہوئیں۔
فوج میں مائیکل نے کیپٹن کا عہدہ حاصل کیا اور کئی محاذوں پر شجاعت کے ساتھ نمایاں کارنامے انجام دیئے۔ 44ء میں اس وقت کے امریکا کے سب سے بڑے میگزین ’’لائف‘‘ میں جنگی ہیرو کی حیثیت سے اس کی تصویر بھی چھپی۔ ڈون کی اپنی فیملی میں سے تو کسی کو جرأت نہیں ہوئی کہ وہ تصویر اسے دکھاتا البتہ ڈون کے ایک دوست نے اسے وہ میگزین پیش کیا۔ اس کا خیال تھا کہ ڈون اپنے بیٹے پر فخر محسوس کرے گا۔ ’’لائف‘‘ میں اس طرح تصویر اور کارناموں کا تذکرہ چھپنا بہت بڑا اعزاز تھا۔
لیکن ڈون نے یہ سب کچھ ناگواری سے سرسری انداز میں دیکھا اور میگزین ایک طرف ڈالتے ہوئے بولا۔ ’’کیا فائدہ…؟ اس احمق نے یہ کارنامے غیروں اور اجنبیوں کے لئے انجام دیئے ہیں۔‘‘
مائیکل کو جنگ میں ایک ایسا زخم بھی آیا تھا جس نے اسے تقریباً معذور کردیا۔ 45ء میں جب اسے فوج سے ڈسچارج کردیا گیا تو وہ یہی سمجھا کہ اسے طبی بنیادوں پر سبکدوش کیا گیا ہے۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کے باپ نے اسے فوج سے واپس بلوانے کا بندوبست کیا تھا۔ گھر آکر چند ہفتوں بعد جب وہ صحت یاب ہوگیا تو اس نے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے نیو ہمشائر کے ایک کالج میں داخلہ لے لیا۔ اس وجہ سے وہ ایک بار پھر باپ کا گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ اب وہ بہن کی شادی میں شرکت کے لئے خاص طور پر آیا تھا اور اپنے ساتھ اپنی ہونے والی بیوی کو بھی لے آیا تھا تاکہ اسے خاندان کے افراد سے ملوا سکے مگر کسی نے بھی اس لڑکی کو پسند نہیں کیا تھا۔
مگر ’’کے‘‘ کو اس بات کا احساس نہیں تھا۔ وہ بے چاری ہر ایک سے خوش خلقی سے مل رہی تھی۔ ہر مہمان کے بارے میں مائیکل سے کرید کرید کر پوچھ رہی تھی اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر آنکھیں پھیلا کر حیران ہورہی تھی۔ شادی کے لئے اس قدر اہتمام اور تکلفات بھی اس کے لئے گویا انوکھی بات تھی۔
پھر اس کی نظر چند افراد کی ٹولی پر پڑی جو گھر میں تیار کی گئی شراب کے ایک بیرل کے پاس کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک تو تکفین و تدفین کا کام کرنے والا بونا سیرا تھا۔ دوسرا ایک بیکری کا مالک نیزورین تھا۔ تیسرے کا نام کپولا اور چوتھے کا براسی تھا۔ ’’کے‘‘ ایک ذہین لڑکی تھی اور اس کی قوت مشاہدہ تیز تھی۔ اس نے محسوس کرلیا کہ وہ چاروں آدمی اس طرح خوش دکھائی نہیں دے رہے تھے جس طرح شادی میں شرکت کرنے والے دوسرے لوگ نظر آرہے تھے۔ اس نے اس بات کا ذکر مائیکل سے بھی کردیا۔
’’ہاں… وہ واقعی خوش نہیں ہیں۔‘‘ مائیکل نے مسکراتے ہوئے اس کے خیال کی تائید کی۔ ’’اس وقت شادی میں شرکت تو ان بے چاروں کے لئے ایک ضمنی کام ہے۔ حقیقت میں یہ اپنے کسی کام سے آئے ہیں۔ غالباً کوئی فریاد لے کر آئے ہیں اور تخلیے میں میرے والد سے ملاقات کے منتظر ہیں۔‘‘
مائیکل کی بات صحیح معلوم ہوتی تھی۔ ’’کے‘‘ دیکھ رہی تھی کہ ان چاروں آدمیوں کی نظریں مسلسل ڈون کے تعاقب میں تھیں۔ مہمان آتے تو ڈون آگے بڑھ کر گیٹ پر ان کا استقبال کرتا۔ اسی دوران سڑک کے دوسری طرف سیاہ رنگ کی ایک بڑی گاڑی آکر رکی۔ اس میں موجود دونوں افراد گاڑی سے اترنے کے بجائے اپنے اپنے کوٹ کی جیب سے ایک ایک نوٹ بک اور قلم نکال کر بیٹھ گئے۔
انہوں نے وہاں موجود گاڑیوں کے نمبر نوٹ کرنے شروع کردیئے۔ انہوں نے اپنی کارروائی کو خفیہ رکھنے کا بھی تکلف نہیں کیا تھا۔ سنی نے گھوم کر باپ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’یہ لوگ یقیناً پولیس والے ہیں۔‘‘
’’ان کا تعلق ایف بی آئی سے ہے۔‘‘ ڈون نے بے نیازی سے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن ہمیں اس سے کیا؟ سڑک تو میری ملکیت نہیں ہے۔ سڑک پر کھڑے ہوکر جس کا جو دل چاہے کرسکتا ہے۔‘‘
سنی کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ اس نے سیاہ کار والوں کو نیچی آواز میں گالی دی اور بولا۔ ’’ان لوگوں کی نظر میں کسی کی کوئی عزت نہیں ہے۔ انہیں موقع محل کا کوئی خیال نہیں ہے۔‘‘ پھر وہ غصیلے انداز میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا سیاہ کار تک پہنچا اور ڈرائیونگ سیٹ پر موجود شخص کی طرف جھک کر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اس نے ایک کارڈ جیب سے نکال کر اس کے سامنے لہرایا۔ ڈون کا اندازہ ٹھیک ہی تھا۔ ان لوگوں کا تعلق ایف بی آئی سے ہی تھا۔ سنی غالباً انہیں کھری کھری سنانے کے ارادے سے گیا تھا تاہم کارڈ دیکھ کر اس نے ارادہ ملتوی کردیا۔
سیدھا ہوکر وہ ایک لمحے انہیں خونخوار نظروں سے گھورتا رہا پھر اس نے نفرت سے بظاہر تو سڑک پر تھوکا لیکن جان بوجھ کر گردن کو اس طرح جھٹکا دیا کہ تھوک گاڑی کے دروازے پر جاگرا۔ پھر وہ گھوما اور واپس گھر کی طرف چل دیا۔ اس کا خیال تھا کہ ایف بی آئی والے اس کے پیچھے پیچھے آئیں گے مگر وہ نہیں آئے اور نہ ہی ان میں سے کسی نے ایک لفظ بھی کہا۔
گیٹ پر پہنچ کر سنی نے باپ سے کہا۔ ’’آپ کا خیال ٹھیک ہی تھا۔ وہ ایف بی آئی والے ہی ہیں۔‘‘
ڈون مربیانہ انداز میں مسکرا دیا۔ گویا اسے اس تصدیق کی ضرورت نہیں تھی۔ سنی بولا۔ ’’وہ خبیث ہمارے ہاں آنے والے ہر مہمان کی گاڑی کا نمبر نوٹ کررہے ہیں۔‘‘
ڈون نے اب بھی مربیانہ انداز میں مسکرانے پر ہی اکتفا کیا۔ اس نے بیٹے کو نہیں بتایا کہ اسے اپنے ذرائع سے پہلے ہی اطلاع مل چکی تھی کہ اس موقع پر ایف بی آئی والے آئیں گے اور یہی کام کریں گے۔ چنانچہ اس نے اپنے تمام قریبی جاننے والوں کو یہ پیغام بھجوا دیا تھا کہ شادی میں شرکت کے لئے وہ اپنی گاڑیوں میں نہ آئیں بلکہ ادھر ادھر سے گاڑیوں کا انتظام کرلیں۔
اسے اپنے بیٹے سنی کی طرف سے یوں غصے کا اظہار اچھا نہیں لگا تھا۔ ڈون اس انداز میں کسی بھی معاملے میں اپنا ردعمل ظاہر کرنے والا آدمی نہیں تھا لیکن اس کے خیال میں سنی کی اس حرکت کا ایک فائدہ بھی ہوا تھا۔ اس کے انداز سے ایف بی آئی والوں کو یقین ہوگیا ہوگا کہ ان کی آمد ڈون فیملی کے لئے غیر متوقع تھی۔ اس لئے انہوں نے کوئی احتیاطی تدبیر نہیں کی ہوگی۔
ڈون کارلیون طاقتور ترین دشمن سے انتقام لینے کے لئے بھی اپنے صبر و ضبط اور تحمل کو برقرار رکھنے کا قائل تھا۔ اس لئے وہ اس وقت بھی غصے میں نہیں تھا۔ اسی دوران بینڈ نے طربیہ موسیقی کی دھن چھیڑ دی۔ تمام مہمان آچکے تھے۔ کھانا
ہورہا تھا۔ ڈون نے اپنے دونوں بیٹوں کو اپنے ساتھ اندر چلنے کا اشارہ کیا اور وہ باغ کی طرف چل دیئے جہاں کھانے کی میزیں سجی ہوئی تھیں۔ (جاری ہے)