فانوکچی نے سلسلۂ کلام جوڑتے ہوئے کہا۔ ’’اگر تم نے میری بات نہ مانی تو پولیس تم سے پوچھ گچھ کے لیے آئے گی اور پھر تفتیش کے لیے تمہیں پولیس اسٹیشن بھی لے جائے گی۔ اندازہ کر لو کہ تمہاری اور تمہاری بیوی بچوں کی کتنی بے عزتی ہوگی۔ تم لوگ پڑوسیوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گے۔‘‘ پھر اس نے گویا ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’چلو، میں تم پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ میں اپنا مطالبہ تین سو ڈالر پر لے آتا ہوں لیکن اس سے کم ہرگز نہیں لوں گا اور دیکھو مجھے چکر دینے کی کوشش نہ کرنا۔‘‘
کارلیون نے اتنی دیر میں پہلی مرتبہ زبان کھولی۔ وہ نرم لہجے میں بولا۔ ’’میرے حصے کی رقم ابھی میرے دو دوستوں کے پاس ہے۔ مجھے ان سے بات کرنا پڑے گی۔‘‘
’’ان دونوں کو بتا دینا کہ انہیں میرے لیے یہی کرنا ہوگا جو میں تمہیں کرنے کے لیے کہہ رہا ہوں۔‘‘ فانوکچی فوراً بولا۔ ’’مینزا تو اچھی طرح جانتا ہے اور وہ ان معاملات کو زیادہ اچھی طرح سمجھتا ہے، بلکہ تم بھی اس سے رہنمائی حاصل کرنا۔ اسے اس قسم کے کاموں کا تم سے زیادہ تجربہ ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ میں تمہارا شکرگزار ہوں کہ تم نے ایک گاڈ فادر کی طرح مجھ سے بات کی۔‘‘ کارلیون نے خاصی عاجزی سے کہا حالانکہ اس کے دل میں غصّے کا آتش فشاں مچل رہا تھا۔
’’تم بہت اچھے اور مہذب نوجوان ہو۔‘‘ فانوکچی نے گرمجوشی سے اس سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’اگر اس قسم کے کاموں میں تمہیں رہنمائی اور مشورے کی ضرورت پڑے تو مجھ سے بات ضرور کرنا۔ میں تمہارے کام آنے کی پوری پوری کوشش کروں گا۔‘‘
کارلیون، فانوکچی سے ذرا بھی مرعوب نہیں تھا۔ اسے یہ سوچ کر ہی طیش آ رہا تھا کہ فانوکچی اس سے اس رقم میں سے حصہ وصول کرنے کی کوشش کر رہا تھا جسے حاصل کرنے کے لیے اس نے اپنی جان خطرے میں ڈالی تھی۔ اسے اُمید تھی کہ مینزا اور ٹیسو کے محسوسات بھی اس سے مختلف نہیں ہوں گے۔
اس کے خیال میں فانوکچی ایک نہایت ہی احمق شخص تھا جو ان جیسے تین نوجوانوں سے اُلجھ رہا تھا۔ کارلیون کے خیال میں مینزا اور ٹیسو تر نوالہ ہرگز نہیں تھے۔ وہ دیکھ چکا تھا کہ مینزا نے محض ایک قالین چُرانے کے لیے ایک پولیس مین پر ریوالور نکال لیا تھا اور کچھ بعید نہیںتھا کہ پولیس مین سے سامنا ہو جاتا تو وہ اس پر گولی بھی چلا دیتا۔ اسی طرح ٹیسو بھی اس کے خیال میں کچھ کم خطرناک نہیں تھا۔ وہ اسے، اُڑ کر حملہ کرنے والا کوئی سانپ معلوم ہوتا تھا۔
اس شام جب اس نے اپنے ان دوستوں سے اس موضوع پر بات کی تو ان کے بارے میں کارلیون اپنی رائے پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوگیا۔ ان کا ردعمل دیکھ کر اسے خاصی مایوسی ہوئی۔ وہ فانوکچی کا مطالبہ سن کر فوراً ہی ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نظر آنے لگے۔ البتہ اس امکان پر غور کرنے لگے کہ کیا فانوکچی ان کے ساتھ مزید رعایت کرتے ہوئے، تین سو کے بجائے دو دو سو ڈالر قبول کر لے گا؟
’’میرے خیال میں اسے معلوم ہوگیا ہے کہ ہم نے اس واردات میں کتنی رقم کمائی۔‘‘ مینزا بولا۔ ’’وہ تین سو ڈالر سے کم پر نہیں مانے گا اور ہم تینوں کو تین تین سو ڈالر دینے ہی پڑیں گے۔‘‘
’’کیوں دینے پڑیں گے؟‘‘ کارلیون نے اپنے غصے اور مایوسی کو چھپاتے ہوئے نرمی سے سوال کیا۔ ’’ہم تینوں نوجوان ہیں۔ ہماے پاس ریوالور بھی ہیں۔ ہمیں اس سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا وہ ہم سے بڑا بدمعاش ہے؟‘‘
’’تم نہیں جانتے۔‘‘ مینزا مایوسی سے بولا۔ ’’اس کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔‘‘
وہ اس وقت مینزا ہی کے فلیٹ میں بیٹھے تھے۔ مینزا کی نوجوان اطالوی بیوی انگریزی نہیں سمجھتی تھی۔ وہ ان کے سامنے کھانے پینے کی چیزیں رکھ کر خود نیچے چلی گئی تھی اور بلڈنگ کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر دوسری اطالوی عورتوں سے گپ شپ کرنے لگی تھی۔
کمرے میں چند لمحے خاموشی رہی۔ اس وقت کارلیون اپنی زندگی کی اہم ترین سوچوں میں اُلجھا ہوا تھا۔ اس کا نظریہ تھا کہ ہر انسان کی کوئی نہ کوئی منزل ضرور ہوتی ہے لیکن اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ اس وقت وہ خود ایک ایسے موڑ پر کھڑا تھا جو اس کی منزل کا تعین کرنے والا تھا۔ دل ہی دل میں اس وقت وہ ایک نہایت اہم فیصلے کی طرف بڑھ رہا تھا۔
آخر وہ بول اُٹھا۔ ’’یعنی تم دونوں کم از کم دو دو سو ڈالر تو
فانوکچی کو ادا کرنے کے لئے تیار ہی ہو؟‘‘
انہوں نے اَثبات میں سر ہلایا تو کارلیون بولا۔ ’’ایسا کرو، تم دونوں یہ رقم مجھے دے دو اور سارا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ فانوکچی میرے ہاتھ سے یہ کم رقم بھی قبول کرلے گا۔ تمہیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔‘‘
مینزا اور ٹیسو نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ پھر ٹیسو شک زدہ لہجے میں بولا۔ ’’تم اسے کم رقم لینے پر کیسے آمادہ کرو گے؟ وہ ایک بار جو کہہ دیتا ہے، اس سے پیچھے نہیں ہٹتا۔‘‘
’’میں نے کہا نا۔ یہ معاملہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔ میں اسے سمجھائوں گا۔ دلیل سے قائل کرنے کی کوشش کروں گا۔‘‘ کارلیون نے کہا۔ اس وقت اسے نہیں معلوم تھا کہ آئندہ زندگی میں یہ الفاظ گویا اس کے ایک خاص موڈ کی پہچان بن جائیں گے اور وہ نہایت ہی اہم موقعوں پر انہیں استعمال کرے گا۔ یہ مسئلے کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کے سلسلے میں اس کی آخری پیشکش ہوا کرے گی۔
اس نے بات جاری رکھتے ہوئے ٹیسو سے کہا۔ ’’تم کل صبح اسے پیغام دے دینا کہ میں شام کو اپنے فلیٹ میں اس سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ وہیں میں تینوں کی طرف سے رقم اس کی خدمت میں پیش کروں گا۔‘‘
دُوسرے روز شام کو کھانے کے بعد کارلیون نے اپنی بیوی کو حکم دیا کہ وہ نیچے جا کر بلڈنگ کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر دُوسری عورتوں سے گپ شپ کرے، دونوں بچوں کو بھی ساتھ لے جائے اور اس وقت تک فلیٹ میں واپس نہ آئے جب تک وہ اسے نہ بلائے۔ اس نے بیوی کو بتا دیا کہ اسے تخلیے میں فانوکچی سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔
اس کی بیوی روز بروز اس کی شخصیت میں کوئی بے عنوان تبدیلی محسوس کر رہی تھی اور جب وہ اس انداز میں بات کرتا تھا تو وہ خوفزدہ ہو جاتی تھی۔ اس نے فوراً اس کی ہدایت پر عمل کیا۔
فانوکچی جب اس سے ملنے آیا تو کارلیون کی ایک جیب میں سات سو ڈالر اور دوسری جیب میں وہ ریوالور موجود تھا جو مینزا نے اسے ٹرک کو لوٹنے کی واردات میں استعمال کرنے کے لئے دیا تھا۔ فانوکچی طے شدہ وقت پر رات کے ٹھیک نو بجے آ گیا تھا۔ کارلیون نے خاصی خوش خلقی سے اس کا استقبال کیا۔ مشروب سے اس کی تواضع کی۔ پھر سات سو ڈالر کی رقم اس کی خدمت میں پیش کی۔
فانوکچی رقم گن کر بٹوے میں رکھتے ہوئے بولا۔ ’’دو سو ڈالر تمہاری طرف باقی رہ گئے۔‘‘
’’وہ میں چند دن بعد دے دوں گا۔ ان دنوں ہمارا ہاتھ تنگ ہے۔‘‘ کارلیون نے ملائمت سے کہا۔
’’چلو… خیر… میں انتظار کر لوں گا۔ تم ایک معقول نوجوان ہو۔‘‘ فانوکچی نے غالباً اتنی آسانی سے سات سو ڈالر وصول ہونے پر طمانیت محسوس کرتے ہوئے کہا۔
اس نے مشروب کا ایک گلاس اور پیا۔ پھر کارلیون کو شب بخیر کہہ کر رخصت ہوگیا۔ کارلیون نے اپنے فلیٹ کی کھڑکی میں سے دیکھا کہ فانوکچی اس کی بلڈنگ سے نکل کر گلی میں پہنچ گیا تھا۔ گلی میں موجود بہت سے مردوں اور عورتوں نے دیکھ لیا تھا کہ وہ کارلیون کے گھر سے بخیر و عافیت واپس جا رہا تھا۔ وہ سب لوگ بعد میں اس بات کی گواہی دے سکتے تھے۔
فانوکچی دوسری گلی کی طرف مڑا تو کارلیون کو اندازہ ہوگیا کہ وہ اپنے فلیٹ کی طرف جا رہا تھا۔ شاید وہ دوبارہ گلیوں میں نکلنے سے پہلے رقم اور اپنا ریوالور گھر میں رکھ دینا چاہتا تھا۔
کارلیون فوراً کھڑکی سے ہٹا اور فلیٹ سے نکل کر، سیڑھیاں چڑھ کر بلڈنگ کی چھت پر چلا گیا۔ وہاں سے وہ برابر کی بلڈنگ کی چھت پر پہنچا۔ وہاں سے وہ برابر کی بلڈنگ کی چھت پرکود گیا اور اس کی ہنگامی سیڑھیوں کے راستے پچھلی گلی میں اُتر آیا۔ وہاں سے وہ کسی کی نظر میں آئے بغیر اس بلڈنگ تک پہنچ گیا جس میں فانوکچی کا فلیٹ تھا۔ اس حصے میں زیادہ تر عمارتیں گوداموں یا پھر کمپنیوں کے دفاتر پر مشتمل تھیں۔ بہت کم فلیٹ میں رہائش تھی اور ان میں زیادہ تر چھڑے یا پھر نچلے درجے کی پیشہ ور عورتیں رہتی تھیں۔
رات میں یہاں زیادہ تر ویرانی ہی رہتی تھی اس لیے کارلیون کوئی خطرہ محسوس کیے بغیر اس عمارت کی راہداری میں داخل ہو کر ایک ستون کی آڑ میں کھڑا ہوگیا جس میں فانوکچی کا فلیٹ تھا۔ اس نے وہ ریوالور جیب سے نکال لیا جس سے اس نے پہلے کبھی گولی نہیں چلائی تھی لیکن گولی چلانا بہرحال اس کے لیے کوئی نیا کام نہیں تھا۔ وہ کم عمری میں کئی مرتبہ اپنے باپ کے ساتھ شکار پر گیا تھا۔
چند منٹ بعد اس نے فانوکچی کو بلڈنگ کے دروازے سے راہداری
داخل ہوتے دیکھا۔ نہایت پُرسکون انداز میں اس نے دو فائر کئے۔ بلڈنگ فائروں کی آواز سے گویا لرز کر رہ گئی۔ فانوکچی کو اپنا ریوالور نکالنے کا موقع نہیں ملا اور وہ اپنی بلڈنگ کی راہداری میں ڈھیر ہوگیا۔
کارلیون نے پھرتی سے اس کی جیب سے اس کا بٹوا نکالا اور اس کی لاش کو پھلانگ کر بلڈنگ سے نکل آیا۔ چند سیکنڈ کے اندر اندر وہ ایک گندی گلی میں پہنچ چکا تھا۔ اسے یقین تھا کہ کسی کو کھڑکی سے جھانک کر یہ دیکھنے کا موقع نہیں ملا تھا کہ کون کدھر سے آیا تھا، کس نے فائر کئے تھے اور پھر وہ کہاں غائب ہوگیا تھا؟
وہ چند منٹ بعد اسی راستے سے واپس اپنے فلیٹ میں پہنچ چکا تھا جس راستے سے آیا تھا اور اس کی اپنی گلی میں کسی نے دیکھا تک نہیں تھا کہ وہ اپنے فلیٹ سے نکلا تھا۔ اس نے فانوکچی کے بٹوے سے رقم راستے میں ہی نکال لی تھی اور بٹوا ایک کوڑے دان میں پھینک دیا تھا۔ اس کے اپنے دیئے ہوئے سات سو ڈالر کے علاوہ فانوکچی کے بٹوے میں صرف چھ سات ڈالر تھے۔ شاید وہ زیادہ رقم لے کر باہر نکلنے کا قائل نہیں تھا۔ البتہ ایک خاص خانے میں کارلیون کو پانچ ڈالرکا ایک قدیم سکہ ملا جو سونے کا ہوا کرتا تھا۔ اسے شاید فانوکچی خوش بختی کی علامت یا نیک شگون کے طور پر بٹوے میں رکھتا تھا۔
کارلیون نے سکے کو اپنے پاس رکھنے کا لالچ نہیں کیا اور اسے بٹوے میں ہی رہنے دیا۔ فلیٹ میں پہنچ کر اس نے ریوالور کو بھی توڑ کر دو حصوں میں تقسیم کیا اور دونوں حصے الگ الگ سمتوں میں کنواں نما ان جگہوں میں پھینک دیئے جو ہوا کی آمدو رفت کے لئے چھوڑی گئی تھیں لیکن فلیٹوں کے مکین ان میں کوڑا کرکٹ بھی پھینکتے رہتے تھے۔ جب نیچے کافی کوڑا کرکٹ اور گند بلا جمع ہو جاتا تھا تو گاڑی اسے اُٹھا کر لے جاتی تھی۔ کارلیون کو معلوم تھا کہ صبح تک ریوالور کے ٹکڑے کچرے کی تہہ میں چھپ چکے ہوں گے۔ کچرا اُٹھانے والوں کے سوا ان جگہوں کی طرف کوئی جاتا بھی نہیں تھا۔
خون کے چھینٹے اس کے کپڑوں پر بھی گر گئے تھے۔ اس نے جلدی سے انہیں لوہے کے سنک پر دھو کر بالکونی میں بندھی ہوئی رسّی پر لٹکایا اور دوسرے کپڑے پہن لیے۔ اسے یہ محسوس کرکے خود بھی قدرے حیرت ہوئی کہ وہ کافی حد تک پُرسکون تھا۔ اس کے اعصاب میں صرف معمولی سا ارتعاش تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے آج اس نے اپنی ذہانت اور اپنی صلاحیتوں کو پہلی بار بھرپور طریقے سے استعمال کیا تھا۔
اس نے چند منٹ کے اندر اندر یہ کام کر لیے۔ پھر وہ نہایت مطمئن انداز میں سیڑھیاں اُتر کر نیچے اپنی بیوی اور بچوں کے پاس چلا گیا۔ جہاں دوسرے بیسیوں لوگوں نے بھی اسے دیکھا۔ انہیں گماں بھی نہیں گزر سکتا تھا کہ صاف ستھرے حلیے میں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ٹہلتا ہوا وہ خاموش طبع نوجوان جسے وہ سر جھکائے آتے جاتے دیکھتے تھے، اس وقت اس شخص کو قتل کر کے آ رہا تھا جس کی اس علاقے میں بڑی دہشت تھی۔
دُوسرے روز اسے اندازہ ہوا کہ اس کی احتیاط پسندی کچھ ایسی زیادہ ضروری نہیں تھی۔ پولیس کو معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ فانوکچی قتل ہونے سے پہلے اس سے ملنے آیا تھا اور نہ ہی کسی اور وجہ سے پولیس کا دھیان اس کی طرف گیا۔ فانوکچی کی لاش دریافت ہونے کے گھنٹوں بعد کوئی پولیس والا اس سے رسمی پوچھ گچھ کے لیے بھی نہیں آیا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ علاقے میں اس کی ساکھ بہت اچھی تھی۔ اسے ایک امن پسند، شریف اور خاموش طبع نوجوان سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے اسے یہ بھی پتا چلا تھا کہ فانوکچی کے مارے جانے پر پولیس درحقیقت خوش تھی۔ اس قسم کے خبیث انسانوں کے مرنے سے ان کا درد سر کم ہوتا تھا۔ اس لیے وہ ان کے قتل کے بارے میں زیادہ سرگرمی سے تفتیش نہیں کرتے تھے۔
کارلیون کے دونوں دوست مینزا اور ٹیسو بہرحال سمجھ گئے تھے کہ معاملہ کیا تھا۔ وہ پورا ہفتہ اس سے نہیں ملے۔ پھر آخر ایک شام ملنے آئے تو ان کا رویہ بدلا ہوا تھا۔ ان کے رویئے میں کارلیون کے لیے بڑا احترام تھا۔ انہوں نے سب سے پہلے تو کارلیون کو اطلاع دی کہ علاقے کے بہت سے جائز اور ناجائز کاروبار کرنے والوں کو بھتہ خوری سے نجات مل گئی تھی۔
’’اس کی جگہ اب ہم ان لوگوں سے بھتہ لے سکتے ہیں۔‘‘ ٹیسو نے تجویز پیش کی۔
کارلیون کندھے اُچکا کر بولا۔ ’’مجھ سے کیا کہہ رہے ہو، مجھے ایسے کاموں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘‘
مینزا قدرے
استہزائیہ انداز میں ہنسا اور بولا۔ ’’اچھا۔ ذرا وہ ریوالور تو دکھانا جو ہم نے تمہیں ٹرک لوٹنے کے سلسلے میں استعمال کرنے کے لیے دیا تھا۔‘‘
’’وہ میں نے واردات کے بعد پھینک دیا تھا۔‘‘ کارلیون نے پلک جھپکائے بغیر اس کی طرف دیکھتے ہوئے پرسکون لہجے میں جواب دیا۔ پھر اپنی جیب سے کافی نوٹ نکال کر ان میں سے پچاس ڈالر کا ایک نوٹ الگ کرتے ہوئے اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔ ’’یہ لو، اس کی قیمت رکھ لو۔‘‘
’’اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ مینزا نے ایک ٹک اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کی آنکھوں میں مرعوبیت اور ہلکے سے خوف کی جھلک تھی۔ یہ خوف کارلیون کی مدھم سی مسکراہٹ کو دیکھ کر پیدا ہوا تھا۔ بظاہر وہ خوش دلی کی مسکراہٹ تھی لیکن اس میں ایک عجیب سی پُراسرار سفاکی تھی جو دیکھنے والے کی رگ و پے میں سرد لہر دوڑا سکتی تھی۔
اب تک تو مینزا اور ٹیسو نے یہ ظاہر کیا تھا کہ وہ سمجھ گئے ہیں، کس نے فانوکچی کو قتل کیا ہے اور نہ ہی کارلیون نے یہ موضوع چھیڑا تھا۔ وہ بالکل معصوم اور انجان بنا ہوا تھا۔
لگتا تھا کہ صرف مینزا اور ٹیسو ہی نہیں بلکہ آنے والے دنوں میں یہ بات علاقے کے بیشتر لوگ سمجھ گئے تھے کہ فانوکچی کو کس نے قتل کیا تھا لیکن عجیب بات یہ تھی کہ کسی نے اس سلسلے میں زبان کھولی اور نہ ہی کسی نے مخبری کی۔ اس کے بجائے کارلیون نے محسوس کیا کہ اس علاقے میں اس کی عزت بڑھ گئی تھی۔ لوگ اس سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ احترام سے پیش آنے لگے تھے۔
ایک روز اس کی بیوی ایک ادھیڑ عمر بیوہ کو ساتھ لے آئی۔ وہ ایک قریبی عمارت میں کرائے کے فلیٹ میں رہتی تھی۔ اس کا سولہ سال کا ایک بیٹا اور سترہ سال کی بیٹی تھی۔ دونوں گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتے تھے اور ہر ہفتے نہایت سعادت مندی سے تنخواہ کا لفافہ لا کر ماں کے سپرد کرتے تھے۔ ماں بھی گھر پر قمیضوں میں بٹن ٹانکنے کا کام کرتی تھی۔ یوں یہ کنبہ محنت اور سفید پوشی سے زندگی گزار رہا تھا۔
مسئلہ صرف یہ تھا کہ بیوہ کے بیٹے نے ایک کتا پالا ہوا تھا جس سے اسے بہت محبت تھی۔ اس کتے سے بعض پڑوسیوں کو شکایت تھی کہ اس کے بھونکنے سے ان کے سکون میں خلل پڑتا ہے۔ ان کی شکایت پر بلڈنگ کے مالک نے بیوہ کو زبانی طور پر حکم دے دیا تھا کہ وہ فلیٹ خالی کر دے۔
بیوہ نے اس حکم کی وجہ جاننے کے بعد کتے کو کہیں بھجوا دیا تھا حالانکہ اس کا بیٹا اس بات پر بہت رویا تھا لیکن اس نے پڑوسیوں کی شکایت دور کر دی تھی لیکن بلڈنگ کے مالک نے گویا اسے اَنا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ اس کی زبان سے ایک بار نکل گیا تھا کہ فلیٹ خالی کر دیا جائے تو اب وہ ہر حال میں اس حکم پرعمل کرانا چاہتا تھا۔ شاید اسے یہ احساس بھی ہو کہ نئے کرائے دار کو فلیٹ زیادہ کرائے پر دیا جا سکتا تھا۔
بیوہ اطالوی تھی اور بلڈنگ کا مالک بھی اطالوی ہی تھا۔ اس کی چار پانچ عمارتیں اور تھیں۔ ان سب کے فلیٹ کرائے پر اُٹھے ہوئے تھے۔ کسی زمانے میں وہ بھی غریب آدمی ہوا کرتا تھا لیکن اب پانچ چھ عمارتوں کا مالک بن گیا تھا تو اس کے مزاج ہی نہیں ملتے تھے۔ بیوہ اس کی بہت منت سماجت کر چکی تھی لیکن وہ اپنا حکم واپس لینے پر راضی نہیں تھا۔
بیوہ فلیٹ چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔ ایک تو وہ مالی طور پر اس تبدیلی کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ دوسرے وہ اس محلے سے جانا بھی نہیں چاہتی تھی۔ اس کے جو بھی تھوڑے بہت رشتے دار اور میل جول والے لوگ تھے، وہ سب یہیں تھے۔ اس وضعدار اور روایت پرست خاتون میں ان سے دور جانے کی ہمت نہیں تھی۔
کارلیون نے یہ سارا قصہ صبر و تحمل سے سنا لیکن وہ دل ہی دل میں اس بات پر قدرے حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکا کہ وہ عورت فریاد لے کر اس کے پاس کیوں آئی تھی؟ اور اس کی بیوی اسے ساتھ کیوں لائی تھی؟ کیا محلے، پڑوس کے لوگوں اور حتیٰ کہ اس کی بیوی نے بھی یہ سمجھنا شروع کر دیا تھا کہ وہ اس قسم کے معاملات میں دوسروں کی مدد کر سکتا ہے؟
’’مسز کولمبو!‘‘ کارلیون نے جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’اگر آپ کو مالی مدد کی ضرورت ہے تو وہ میں کر سکتا ہوں۔‘‘
مسز کولمبو کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ’’نہیں مجھے رقم کی ضرورت نہیں۔ ہم نے کبھی کسی سے مالی مدد نہیں لی۔ میں بس اتنا چاہتی ہوں کہ ہمیں وہ فلیٹ نہ چھوڑنا پڑے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ آپ کو وہ فلیٹ چھوڑنا نہیں پڑے گا۔‘‘ قطعی غیرارادی طور پر کارلیون کے منہ
’’میں کل آپ کے مالک مکان سے بات کروں گا۔ آپ اطمینان سے گھر جائیں۔‘‘ کارلیون کو خود بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کے لہجے میں اتنا اعتماد کیوں تھا۔
٭…٭…٭
مالک مکان کا نام رابرٹ تھا۔ وہ اپنی بلڈنگ کا جائزہ لینے اور کوئی نہ کوئی کام نمٹانے کی غرض سے روزانہ اس گلی کا ایک چکر ضرور لگاتا تھا۔ وہ پڑھا لکھا آدمی تھا۔ گو اس نے زیادہ پیسہ غیرقانونی اطالوی تارکین وطن کو امریکا اسمگل کرنے کے دھندے میں کمایا تھا لیکن اب وہ اپنے ان ہم وطنوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ اس کے خیال میں ان جاہل لوگوں کو ایک ترقی یافتہ ملک میں برسوں رہنے کے بعد بھی تمیز اور سلیقہ نہیں آیا تھا۔ یہ لوگ جہاں چاہتے کچرا پھینک دیتے تھے اور جن جگہوں میں رہتے، ان کی حالت خراب کر دیتے تھے۔ وہ اپنا رہن سہن بہتر بنانے کے لیے ذرا سی بھی زحمت کرنے کے قائل نہیں تھے اور بہتر طرز معاشرت کا ان کے ذہنوں میں کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ ان خیالات اور اپنی کاروباری پریشانیوں کی وجہ سے وہ اکثر چڑچڑاہٹ کا شکار رہتا تھا۔ اس کا چہرہ دیکھ کر ہی اس کی بدمزاجی کا اندازہ ہو جاتا تھا۔
دوسرے روز کارلیون نے اسے گلی میں روکا اور نہایت احترام سے مخاطب کرنے کے بعد مسئلہ بیان کیا۔ اس نے درخواست کی کہ وہ ہمدردی سے کام لیتے ہوئے اس بیوہ خاتون کو فلیٹ میں رہنے دے۔
رابرٹ نے اس کا سر تا پا جائزہ لیتے ہوئے بے نیازی سے کہا۔ ’’لیکن میں وہ فلیٹ ایک دوسری فیملی کو دے چکا ہوں۔ اب میں اپنے وعدے سے نہیں پھر سکتا۔ اس کے علاوہ مجھے ان سے کرایہ بھی زیادہ ملے گا۔‘‘
’’کتنا زیادہ ملے گا؟‘‘ کارلیون نے رسان سے پوچھا۔
’’پانچ ڈالر ماہوار زیادہ۔‘‘ رابرٹ نے بتایا۔
کارلیون کے لیے اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا تھا۔ ایک تو فلیٹ خالی ہونے سے پہلے کسی دُوسرے کرائے دار سے پکی بات کر لینا ذرا مشکل ہی تھا۔ دوسرے کارلیون کو ان ڈربا نما تنگ و تاریک فلیٹوں کی قدر و قیمت اچھی طرح معلوم تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ کوئی انہیں پانچ ڈالر ماہوار اضافی کرائے کے ساتھ لینے پر مشکل سے ہی رضامند ہوگا۔
اس کے باوجود اس نے جیب سے چند نوٹ نکال کر رابرٹ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ آپ چھ ماہ کا اضافی کرایہ پیشگی رکھ لیں اور اس فلیٹ میں مسز کولمبو کو ہی رہنے دیں۔‘‘
رابرٹ نہ جانے کیوں یکدم طیش میں آ گیا اور پھٹ پڑنے کے سے انداز میں بولا۔ ’’تم کون ہوتے ہو مجھے حکم دینے والے؟ تم مجھے بتائو گے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں؟ اپنے کام سے کام رکھو اور اپنا راستہ ناپو ورنہ گلی میں اوندھے منہ پڑے خاک چاٹتے نظر آئو گے۔‘‘
کارلیون حیرت سے آنکھیں پھیلاتے ہوئے بولا۔ ’’میں آپ کو حکم تو نہیں دے رہا، میں تو درخواست کر رہا ہوں جسے آپ قبول کرلیں تو اسے میں اپنی ذات پر ایک احسان سمجھوں گا۔‘‘ پھر وہ رقم تقریباً زبردستی اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے، اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے نہایت ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں بولا۔ ’’آپ یہ رقم رکھ لیں اور کل تک ذرا ٹھنڈے دل سے سوچ لیں۔ کل اگر آپ مجھے رقم واپس کرنا چاہیں تو ضرور کر دیجئے گا۔ اس گلی میں رہنے والے کچھ لوگوں سے اگر آپ میرے بارے میں مشورہ کرنا چاہیں تو کرلیں۔ مجھے یقین ہے وہ سب میری سفارش کریں گے اور میرے بارے میں آپ کو یہی بتائیں گے کہ میں زیادتی اور مہربانی دونوں کو یاد رکھنے والا آدمی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے رابرٹ کے کندھے پر دوستانہ انداز میں تھپکی دی اور آگے بڑھ گیا۔
رابرٹ نے غالباً اس کے اس مشورے پر عمل کر لیا تھا کہ وہ کچھ لوگوں سے اس کے بارے میں پوچھ لے۔ دوسرے روز کارلیون کو اسے تلاش کرنے کی زحمت نہیں کرنی پڑی۔ وہ خود ہی کارلیون کے گھر آ گیا۔ اب وہ ایک قطعی بدلا ہوا انسان نظر آ رہا تھا۔ کارلیون نے اسے مشروب پیش کیا جو اس نے خوشی سے قبول کر لیا۔
پھر وہ معذرت خواہانہ لہجے میں بولا۔ ’’میں کچھ کاروباری پریشانیوں کی وجہ سے تم سے صحیح انداز میں بات نہیں کر سکا تھا لیکن تم میری کسی بات کو دل پر مت لینا۔ مسز کولمبو کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ جب تک چاہیں اس فلیٹ میں رہ سکتی ہیں۔‘‘
صرف یہی نہیں، اس نے کارلیون کے دیئے ہوئے تیس ڈالر بھی نکال کر میز پر رکھ دیئے اور شرمساری سے بولا۔ ’’مجھے بعد میں یہ سوچ کر بہت ندامت ہوئی
تم ایک غریب بیوہ، کرائے دار خاتون کی ہمدردی میں اتنی زحمت اٹھا رہے ہو اور میں اتنی سنگدلی کا مظاہرہ کر رہا ہوں۔ خدا کا شکر ہے کہ مجھے فوراً ہی اپنی اصلاح کا خیال آ گیا۔‘‘
جاتے وقت رابرٹ نہایت برادرانہ انداز میں کارلیون سے گلے مل کر بھی گیا۔ خدا حافظ کہتے وقت اس نے یہ بھی کہا۔ ’’مجھے خوشی ہے کہ اس بہانے تم جیسے اچھے نوجوان سے شناسائی ہوگئی۔‘‘
اس کے بعد وہ تین روز تک اس گلی میں چکر لگانے نہیں آیا!
٭…٭…٭
علاقے میں کارلیون کی عزت میں روز بروز خود ہی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس کے لیے اسے کوئی کوشش نہیں کرنی پڑی۔ نہ جانے کب اس کے بارے میں یہ افواہ پھیل گئی کہ وہ نیویارک میں سسلی کی مافیا کا نمائندہ ہے۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ایک روز جوئے کا اڈہ چلانے والے ایک آدمی نے خود ہی آ کر باتوں باتوں میں کارلیون کی خدمت میں بیس ڈالر پیش کر دیئے۔ اس کی خواہش صرف یہ تھی کہ کارلیون اسے اپنے دوستوں میں شمار کرے تاکہ وہ لوگوں کو تاثر دے سکے کہ جوئے کا اڈہ چلانے میں اسے کارلیون کی سرپرستی حاصل ہے۔
دکانوں کے جن مالکان کو چھوٹے موٹے غنڈے اور آوارہ لڑکے تنگ کرتے تھے۔ انہوں نے اس سے درخواست کی کہ وہ انہیں روکے۔ کارلیون کا ہفتے میں ان دکانوں کا ایک آدھ چکر لگا لینا ہی کافی ثابت ہوا۔ اس کے دوست مینزا اور ٹیسو بھی اس کے ساتھ ہوتے تھے۔ کارلیون کو کچھ نہیں کرنا پڑا۔ اس کی مفت کی دہشت ہی کام آ گئی۔ چھوٹے موٹے بدمعاشوں اور آوارہ لڑکوں کو تاثر مل گیا کہ دکانداروں کو اس کا تحفظ حاصل ہے۔ وہ اس طرح دُم دبا کر بھاگے کہ پھر ان دکانوں کے قریب نہیں پھٹکے۔
دکانداروں نے کارلیون کے مطالبے کے بغیر ہی باقاعدگی سے اس کی خدمت میں نقد رقم کے نذرانے پیش کرنے شروع کر دیئے۔ جلد ہی اسے اچھی خاصی مستقل آمدنی ہونے لگی۔ جس میں سے وہ نہایت منصفانہ طور پر مینزا اور ٹیسو کو بھی حصہ دیتا تھا۔
مالی حالت کچھ بہتر ہوئی تو کارلیون نے اپنے پرانے دوست ڈینڈو کے تعاون سے اٹلی سے زیتون کا تیل درآمد کرنا شروع کر دیا۔ مینزا اور ٹیسو اس کام میں بھی حسب مقدور اس کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ جن کاموں میں زیادہ پڑھے لکھے آدمی کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، وہ ان دونوں کے ذمے تھے۔ پڑھے لکھوں والے کام ڈینڈو سنبھالتا تھا۔ اس کے باپ کا اسٹور، گودام کے طور پر کام آتا تھا۔
چند سالوں کے اندر اندر اس کی کمپنی زیتون کا تیل درآمد کرنے والی سب سے بڑی کمپنی بن گئی۔ اس دوران ان چاروں دوستوں نے بلاشبہ بے پناہ محنت بھی کی اور کاروبار کو پھیلانے کے لیے ہرممکن حربہ، ہر ہتھکنڈہ بھی استعمال کیا۔
پھر شراب کے کاروبار پر کچھ پابندیاں لگیں تو کارلیون نے اس کاروبار میں بھی قدم رکھ دیا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جنہیں پابندیوں سے نقصان کے بجائے فائدہ ہوتا تھا کیونکہ وہ ممنوع راستے اختیار کرنا جان چکا تھا۔ اس میں اور اس کے دوستوں میں مشکلات کا سامنا کرنے اور چور دروازے دریافت کرنے کا حوصلہ تھا اور وہ متبادل طور طریقے بھی سیکھ چکے تھے۔
اس دوران امریکا میں مشہور زمانہ معاشی بحران بھی آیا لیکن ان تمام ناموافق حالات میں کارلیون کی دولت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور یہی وہ زمانہ تھا جب اس کے نام کے ساتھ دھیرے دھیرے غیرمحسوس انداز میں ’’ڈون‘‘ کا لاحقہ لگ گیا۔ وہ ویٹو کارلیون کے بجائے ڈون کارلیون کہلانے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے گاڈ فادر کا لقب بھی مل گیا۔
اس دوران کچھ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے کہ وہ لوگ بھی اس سے خوف کھانے لگے جو اپنے کاروبار صاف ستھرے اور سیدھے سادے طریقوں سے نہیں، بلکہ دھونس دھمکی سے چلاتے تھے۔ ڈون نے انہیں بھی سیدھا کر دیا اور انہیں بتا دیا کہ وہ ایسے طور طریقے ان سے زیادہ بہتر طور پر جانتا تھا۔ ان برسوں میں کارلیون نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ لوگوں کو صرف اپنی دہشت سے ہی نہیں، اپنی ذہانت سے بھی متاثر کر سکتا تھا۔ اسے لوگ جینئس ماننے لگے تھے۔
ڈون نے اس دوران اپنے ساتھیوں کو بہت عمدہ انداز میں منظم کر لیا۔ مینزا اور ٹیسو کے پاس اپنے اپنے آدمیوں کی ’’فورس‘‘ تھی جس کے وہ سربراہ تھے۔ ان کے لیے علاقے بھی بانٹ دیئے گئے تھے۔ تمام دفتری اور قانونی معاملات کا نگران ڈینڈو تھا جو مرتے دم تک اپنے فرائض نہایت عمدگی اور وفاداری سے انجام دیتا
رہا۔
ڈون کی دولت، طاقت اور اثر و رسوخ میں بھی اضافہ ہوتا رہا اور اس کا دائرئہ کار بھی پھیلتا چلا گیا۔ اس دوران اسے چند دوسرے گروہوں کی مخالفت اور مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن اس نے ایسے عبرت ناک انداز میں ان کا صفایا کرایا کہ دوسرے بھی سیدھے ہوگئے اور اس کی منصوبہ بندی اس قسم کی ہوتی تھی کہ پولیس یا کوئی اور ایجنسی اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی تھی۔ اس دوران اسے لوکا بداسی جیسے دوست کا ساتھ بھی میسر آ چکا تھا اور دشمنوں اور حریفوں کو عبرت ناک انجام سے دوچار کرنے میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔ ایک بار اس نے اس زمانے کے، شکاگو کے مشہور زمانہ بدمعاش ال کیپون کے دو آدمیوں کے کلہاڑی سے بالکل اس طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے تھے جس طرح ماہر قصاب دکان میں لٹکانے کے لئے گائے یا بکری کے ٹکڑے کرتے ہیں۔ اس کے بعد ڈون نے ال کیپون کو ایک خط بھجوایا جسے پڑھ کر وہ بالکل سیدھا ہوگیا جبکہ ال کیپون وہ شخص تھا جس سے نہ صرف شکاگو بلکہ آس پاس کے شہروں کی زیر زمین دنیا کے لوگ بھی کانپتے تھے۔
39ء میں ڈون نے شہر سے دور، اپنی خاص منصوبہ بندی کے مطابق رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے بہت دیکھ بھال کر لانگ بیچ پر ایک چھوٹی سی سڑک کے دونوں طرف واقع جائداد خریدی۔ یہ سڑک آگے سے بند تھی اور ’’دی مال‘‘ کہلاتی تھی۔ اسی پر چار طویل و عریض مکانات بنے ہوئے تھے اور ویسے ہی مزید چار مکانات بنانے کے لیے زمین موجود تھی۔ بعد میں یہ مکانات بھی بن گئے اور یوں آٹھ مکانات پر مشتمل یہ گوشہ گویا ڈون اور اس کی ’’فیملی‘‘ کی پناہ گاہ اور محفوظ قلعہ بن گیا۔
اس محفوظ گوشے میں بیٹھ کر ڈون اپنی ’’سلطنت‘‘ کو توسیع دیتا رہا۔ اس کے بچے جوان اور پھر شادی شدہ ہوگئے۔ ایک طویل دور کا بیشتر حصہ پرسکون انداز میں گزر گیا۔ صرف ایک بار کچھ زیادہ ہلچل مچی جب کارلیون کو گولی لگی لیکن دس برس بعد اس سے کہیں زیاد ہلچل اس وقت مچی جب سولوزو نے ڈون سے ٹکر لے لی اور اسے اسپتال کے ایک بستر پر پہنچا دیا۔ پھر مائیکل نے اسے اور اس کے سرپرست پولیس افسر کو دوسری دنیا میں پہنچا دیا اور خود روپوش ہوگیا۔
یہ گویا طوفان خیز واقعات کا ایک نیا دور تھا۔
٭…٭…٭
نیو ہمپشائر ایک چھوٹا سا قصبہ بلکہ گائوں تھا۔ وہاں کی کسی گلی میں رونما ہونے والا ذرا سا بھی خلاف معمول واقعہ جلد ساری آبادی کے علم میں آ جاتا تھا۔ ’کے‘ وہاں کے ایک خاصے بڑے مکان میں رہتی تھی۔ اس کے والد مسٹر ایڈمز مقامی چرچ کے پادری تھے لیکن ان کی حیثیت ایک بڑے مذہبی عالم کی تھی تاہم وہ چرچ میں نہیں رہتے تھے اور ان کا ذاتی کاروبار بھی تھا۔
اس روز اس مکان کے سامنے بڑی سی ایک سیاہ گاڑی آکر رکی جس پر نیویارک کی نمبر پلیٹ تھی۔ پاس پڑوس کی عورتوں اور دکانداروں نے کھڑکیوں اور دروازوں کی اوٹ سے جھانک کر پُرتجسس انداز میں اس گاڑی کو دیکھا۔ ’کے‘ نے بھی اپنے کمرے کی کھڑکی سے اس گاڑی کو رکنے سے پہلے دیکھ لیا تھا۔ اسے اندیشہ محسوس ہوا کہ اس میں مائیکل کے خاندان سے تعلق رکھنے والے بدمعاش قسم کے لوگ نہ آئے ہوں۔
پھر اس نے کچھ اسی قسم کے دو آدمیوں کو گاڑی سے اترتے دیکھا۔ ان میں سے ایک کال بیل کی طرف ہاتھ بڑھا رہا تھا۔ ’کے‘ جلدی سے اٹھ کر گھنٹی بجنے سے پہلے ہی دروازے کی طرف بھاگی۔ اس کے والد اور والدہ دونوں ہی گھر میں موجود تھے اور ’کے‘ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے شریف اور مذہبی قسم کے والدین اس قسم کے لوگوں کو دیکھ کر گھبرا جائیں۔ ویسے بھی وہ اپنے والدین سے کچھ زیادہ قربت محسوس نہیں کرتی تھی اور مائیکل سے متعلق تمام معاملات کو اپنی ذات تک ہی محدود رکھنا چاہتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اس کے والدین بھی اس سے کچھ زیادہ قربت محسوس نہیں کرتے تھے اور نہ ہی اس کی کوئی خاص خواہش رکھتے تھے۔ شاید کسی کو صحیح طور پر معلوم بھی نہیں تھا کہ کب اور کس طرح ان کے درمیان یہ خلیج دَر آئی تھی۔
دروازہ کھولنے کے بعد اس وقت اسے قدرے حیرت کا سامنا کرنا پڑا، جب آنے والے دونوں بھاری بھرکم اور کرخت صورت افراد نے اپنا تعارف پولیس آفیسرز کی حیثیت سے کرایا۔
’’میں سراغرساں فلپس ہوں۔‘‘ ایک لمبے تڑنگے آدمی نے اپنا کارڈ نکال کر اسے دکھاتے ہوئے کہا، پھر سیاہ بالوں اور گھنی بھنوئوں والے اپنے ساتھی کی طرف اشارہ کیا۔ ’’یہ میرے ساتھی
سیرانی ہیں۔ ہمارا تعلق نیویارک پولیس سے ہے۔‘‘
سراغرساں سیرانی بولا۔ ’’اور آپ غالباً مس کے ایڈمز ہیں؟‘‘
’کے‘ نے اثبات میں سر ہلایا تو سراغرساں فلپس بولا۔ ’’کیا ہم اندر آ سکتے ہیں؟ ہمیں آپ سے مائیکل کارلیون کے بارے میں بات کرنی ہے۔‘‘
’کے‘ نے ایک بار پھر اثبات میں سر ہلایا اور انہیں اندر آنے کے لیے راستہ دیا۔ تب اس نے دیکھا کہ پیچھے اس کے والد اس راہداری میں آن کھڑے ہوئے تھے جس کے سرے پر ان کی اسٹڈی تھی۔ وہ سفید بالوں والے ایک خوش شکل اور باوقار آدمی تھے۔ وہ سوالیہ انداز میں ان تینوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔
’’یہ پولیس کے سراغرساں ہیں، نیویارک سے آئے ہیں۔‘‘ ’کے‘ نے والد کو بتایا۔ ’’اور مجھ سے میرے ایک کلاس فیلو کے بارے میں معلومات حاصل کرنے آئے ہیں۔‘‘
خلاف توقع اس کے والد نے کسی قسم کی تشویش، پریشانی یا گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا بلکہ خوشگوار لہجے میں بولے۔ ’’انہیں میری اسٹڈی میں لے جا کر بٹھائو اور وہیں بات کر لو۔‘‘
’کے‘ نے دل ہی دل میں ایک عجیب سی شکرگزاری محسوس کرتے ہوئے ان کی ہدایت پر عمل کیا۔ اسٹڈی میں بیٹھنے کے بعد سراغرساں فلپس نے گفتگو کا آغاز کیا۔ ’’مس ایڈمز! کیا گزشتہ تین ہفتوں کے دوران آپ کی مائیکل کارلیون سے کوئی ملاقات ہوئی ہے یا آپ کو اس کی کچھ خیر خبر ملی ہے؟‘‘
’کے‘ ذرا چوکنی ہوگئی۔ ٹھیک تین ہفتے پہلے ہی اس نے اخبار میں ایک پولیس آفیسر اور منشیات کے ایک اسمگلر سولوزو کے قتل کے بارے میں پڑھا تھا۔ اس سلسلے میں اخبار نے یہی خیال ظاہر کیا تھا کہ یہ اسی گینگ وار کا ایک حصہ تھا جس میں کارلیون فیملی ملوث تھی۔
’’نہیں۔‘‘ کے نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’میں نے آخری بار مائیکل کو اس وقت دیکھا تھا جب وہ اسپتال میں اپنے والد کو دیکھنے جا رہا تھا۔ یہ تقریباً ایک ماہ پہلے کی بات ہے۔‘‘
سراغرساں فلپس نرم اور خلیق لہجے میں بات کر رہا تھا لیکن سیرانی خاصے کھردرے لہجے میں بولا۔ ’’آپ دونوں کی اس ملاقات کے بارے میں تو ہمیں معلوم ہے۔ ہم یہ پوچھ رہے ہیں کہ اس کے بعد تو اس سے رابطہ نہیں ہوا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ ’کے‘ نے نفی میں سر ہلایا۔
’’اگر آپ کا اس سے رابطہ ہوا ہے اور آپ اس بات کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں یا اگر آئندہ رابطہ ہوا اور آپ نے ہمیں اس کے بارے میں اطلاع نہ دی تو یوں سمجھئے کہ آپ کو مائیکل کے نہایت سنگین جرم میں شریک سمجھا جائے گا۔ وہ ایک پولیس آفیسر اور اس کے ایک مخبر کے قتل کے سلسلے میں پولیس کو مطلوب ہے۔‘‘ سراغرساں سیرانی نے بدستور کھردرے لہجے میں کہا۔ ’’ہمیں معلوم ہے آپ دونوں نیویارک کے ایک ہوٹل میں میاں بیوی کی حیثیت سے قیام کرچکے ہیں۔‘‘
٭…٭…٭
تین دن بعد لانگ بیچ کی سڑک ’’دی مال‘‘ پر ایک ٹیکسی ڈون کارلیون کے گھر کے سامنے آ کر رکی اور اس میں سے ’کے‘ اُتری۔ وہاں اس کی آمد کی پہلے سے اطلاع تھی۔ اس لیے اسے اندر آنے دیا گیا تھا اور گھر کے دروازے پر ہیگن اس کے استقبال کے لیے موجود تھا۔
ہیگن نے ’کے‘ کو لیونگ رُوم میں لا کر بٹھایا اور ڈرنک پیش کی۔ ’کے‘ بلاتمہید بولی۔ ’’کیا تمہیں معلوم ہے مائیکل کہاں ہے؟ اور میں کس طرح اس سے رابطہ کر سکتی ہوں؟‘‘
’’ہمیں یہ معلوم ہے کہ وہ خیریت سے ہے۔‘‘ ہیگن نے پُرسکون لہجے میں کہا۔ ’’لیکن یہ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے۔ جب اس پولیس کیپٹن کو قتل کیا گیا تو اسے اندیشہ محسوس ہوا تھا کہ اس پر قتل کا الزام عائد کیا جائے گا۔ اس لیے اس نے روپوش ہو جانا بہتر سمجھا۔ اس نے پیغام بھجوایا ہے کہ وہ چند ماہ میں ہم سے رابطہ کرے گا۔‘‘
’کے‘ کے لیے اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ وہ نہایت مشاقی سے جھوٹ بول رہا تھا۔ وہ اپنے پرس سے ایک لفافہ نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔ ’’کیا تم میرا یہ خط کسی طرح اس تک پہنچا سکتے ہو؟‘‘
ہیگن نے خط لینے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا اور نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔ ’’میں کہہ چکا ہوں کہ مجھے اس کے موجودہ ٹھکانے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ اگر میں یہ خط لے لیتا ہوں اور بعد میں کبھی کسی وجہ سے آپ کورٹ میں بیان دینے پر مجبور ہو جاتی ہیں کہ میں نے خط آپ سے لیا تھا تو اس سے یہ مطلب اخذ کیا جائے گا کہ میں مائیکل کے ٹھکانے سے واقف تھا۔ آپ کچھ عرصہ انتظار کیوں نہیں کرلیتیں؟ مجھے اُمید ہے کہ مائیکل آپ سے ضرور
رابطہ کرے گا۔‘‘
’کے‘ نے خاموشی سے ڈرنک ختم کی اور جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہیگن اسے چھوڑنے کے لیے باہر آیا۔ وہ ہال میں پہنچے تو کچن کی طرف سے بڑی عمر کی ایک عورت، سیاہ لباس میں آتی دکھائی دی۔ ’کے‘ نے اسے پہچان لیا۔ وہ مائیکل کی ماں مسز کارلیون تھی۔ اس نے بھی ’کے‘ کو پہچان لیا اور شکستہ انگریزی میں بولی۔ ’’ارے! تم تو مائیکل کی دوست ہو۔‘‘ پھر فوراً ہی اسے گویا خاطرمدارات کا خیال آیا اور اس نے ہیگن سے پوچھا۔ ’’تم نے لڑکی کو کچھ کھلایا پلایا بھی… یا نہیں؟‘‘
’’مجھے کچھ کھانا پینا نہیں ہے۔‘‘ ’کے‘ جلدی سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔ اس نے ایک بار پھر اپنے پرس سے خط نکالا اور مسز کارلیون کی طرف بڑھاتے ہوئے قدرے ملتجیانہ لہجے میں بولی۔ ’’کیا آپ میرا یہ خط مائیکل تک پہنچا سکتی ہیں؟‘‘
ہیگن گویا خبردار کرنے والے انداز میں کھنکارا لیکن مسز کارلیون نے اس کی طرف توجہ دیئے بغیر لفافہ ’کے‘ کے ہاتھ سے لے لیا اور اطالوی لہجے میں ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بولی۔ ’’کیوں نہیں، کیوں نہیں۔ لیکن اگر برا نہ مانو میں تمہیں ایک مشورہ دوں۔‘‘
’’ضرور۔‘‘ ’کے‘ نے جلدی سے کہا۔
مسز کارلیون نے مشفقانہ انداز میں اس کا کندھا تھپتھپایا اور کہا۔ ’’میں تمہیں سچی بات بتائوں، مائیکل کا کچھ پتا نہیں ہے کہ وہ کب واپس آئے۔ عین ممکن ہے وہ دو تین سال تک واپس نہ آئے، تم اتنی اچھی لڑکی ہو۔ میں نہیں چاہتی کہ تم اس کے انتظار میں زندگی خراب کرو۔ تمہاری عمر کے یہ سال بڑے قیمتی ہیں۔ کوئی اور اچھا سا لڑکا دیکھ کر شادی کر لو اور اپنا گھر بسائو۔‘‘
٭…٭…٭
ڈون کارلیون کا داماد اور کونی کا شوہر، رزی اب اکثر غصے میں رہتا تھا۔ دراصل وہ جن امیدوں اور توقعات کے ساتھ، ڈون کا داماد بنا تھا، وہ پوری نہیں ہوئی تھیں۔ اس کا خیال تھا کہ ’’فیملی‘‘ میں شامل ہونے کے بعد اسے کوئی بہت بڑا بزنس کرا کے دیا جائے گا اور لانگ بیچ پر واقع فیملی کے آٹھ طویل و عریض اور شاندار مکانات میں سے کوئی ایک مکان اس کے حصے میں آ جائے گا لیکن ہوا یہ تھا کہ بُک میکنگ کا ایک چھوٹا سا کاروبار اس کے سپرد کیا گیا تھا اور اس کی رہائش اوسط درجے کی ایک عمارت میں آٹھویں منزل کے ایک فلیٹ میں تھی۔
ادھر ڈون کو اپنے داماد کے بارے میں جلد ہی معلوم ہوگیا تھا کہ وہ ایک عیش پرست نوجوان تھا اور کاروبار کے معاملے میں بھی سخت نالائق تھا۔ اس نے بُک میکنگ کے چھوٹے سے کاروبار کو بھی شروع میں ہی تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا تھا۔ آخر ڈون نے ہیگن کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ خفیہ طور پر اس کاروبار کی نگرانی کرتا رہے اور جب رزی کوئی حماقت کرنے لگے تو اسے روک دے۔
اسے تو یہ بھی معلوم تھا کہ رزی نے شادی کے پہلے ہی دن کونی سے رقوم کے وہ سارے لفافے لے لیے تھے جو اسے تحفے کے طور پر ملے تھے اور جب کونی نے اس سلسلے میں مزاحمت کی تھی تو رزی نے سہاگ رات کو اس کے چہرے پر گھونسا مار کرآنکھ کے گرد نیل ڈال دیا تھا۔ ڈون کو یہ بھی معلوم تھا کہ رزی نے وہ ساری رقوم کون کون سی فاحشہ عورتوں اور کن کن شراب خانوں میں اُڑائی تھی۔
یہ سب دیکھ کر ہی ڈون نے اسے کسی بڑے کاروبار میں شریک کرنے کا خیال دل سے نکال دیا تھا لیکن رزی اپنے جھنجلاہٹ میں جب آئے دن کونی کے ساتھ مار پیٹ کرنے لگا تھا تو حیرت انگیز طور پر ڈون نے اس سلسلے میں کسی قسم کی برہمی یا سخت ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا اور بیٹی کی حمایت کر کے اسے ذرا بھی شہ نہیں دی تھی۔
اس سلسلے میں اس کا فلسفہ قدیم اطالویوں والا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ جب لڑکی کی شادی کر دی جاتی ہے تو وہ شوہر کی ملکیت ہو جاتی ہے۔ اس کی مرضی، وہ اس سے جیسا چاہے سلوک کرے۔ اب یہ لڑکی کی عقل و دانش اور سلیقہ مندی پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح اپنے شوہر کی خوشنودی حاصل کرے، ایسی کوئی بات نہ کرے جس سے اسے غصہ آئے اور مار پیٹ کی نوبت آئے۔ بیٹیوں کو جب بادشاہ بھی بیاہ دیتے تھے تو پھر وہ میاں بیوی کے جھگڑے میں بولنے کے حقدار نہیں رہتے تھے اور انہیں حالات کے سامنے سر جھکانا پڑتا تھا۔
رزی ایک مضبوط اور طاقتور نوجوان تھا۔ وہ کونی کو مارتا تھا تو بے رحمی سے مارتا تھا۔ اگر وہ ایک سخت جان لڑکی نہ ہوتی تو شاید آئے دن اسپتال پہنچ جایا کرتی۔ اب وہ اُمید سے تھی۔ ساتواں مہینہ چل رہا تھا۔ اس حالت میں بھی
بات بے بات اس پر ہاتھ اُٹھانے سے باز نہیں آتا تھا۔
شادی کی پہلی رات جب اس نے کونی کو مارا تھا اور وہ چہرے پر نیل لیے دوسرے روز اپنے والدین سے شکایت کرنے لانگ بیچ پہنچ گئی تھی تو رزی کو کچھ تشویش ہوئی تھی کہ اسے کسی ردّعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن کونی کچھ بجھی بجھی اور مایوس سی واپس آئی۔ وہ ایک روایتی اطالوی بیوی کی طرح فرماں برداری سے اس کی خدمت میں جت گئی تھی۔
رزی چونکہ دل میں ڈرا ہوا تھا، اس لیے اس نے چند ہفتوں تک کونی کے ساتھ اپنا رویہ بہت اچھا رکھا اور ایک آئیڈیل شوہر کی طرح پیش آتا رہا۔ اس سے کونی کو یہ خوش فہمی ہوگئی کہ آئندہ بھی رزی ٹھیک ہی رہے گا۔ اس کی ازدواجی زندگی میں بس وہ تکلیف دہ وقت ایک بار ہی آنا تھا، جو گزر گیا تھا۔ چنانچہ ایک روز اس نے باتوں باتوں میں اپنے پاپا کا فلسفہ اور شادی شدہ بیٹیوں کے بارے میں ان کے ’’زرّیں خیالات‘‘ رزی کے سامنے بیان کر دیئے تھے۔
اس کے بعد رزی کا خوف دور ہوگیا۔ اس نے دوسرے ہی دن سے بات بے بات اسے مارنا شروع کر دیا۔ کونی کو مار پیٹ کر اور اس کی تذلیل کر کے اسے ایک عجیب سی تسکین کا احساس ہوتا تھا کہ وہ ایک ایسے آدمی کی بیٹی کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرنے کی پوزیشن میں ہے جس کے نام سے بڑے بڑے غنڈے بدمعاش اور مقام و مرتبے کے مالک ڈرتے تھے۔
اس روز اس نے کونی کو تیار ہوتے ہوئے دیکھا تو کھردرے لہجے میں پوچھا۔ ’’کہاں جارہی ہو؟‘‘
’’لانگ بیچ، پاپا کو دیکھنے۔ وہ ابھی تک بستر پر ہی ہیں۔‘‘ کونی نے جواب دیا۔ وہ اب خاصی موٹی ہو چکی تھی۔ رزی اکثر اس کے جسم کے مختلف حصوں پر بے رحمی سے ہاتھ مارتے ہوئے کہتا تھا۔ ’’تمہارے جسم پر جتنی چربی ہے، اتنی تو خوب پلے ہوئے کسی سور کے جسم پر بھی نہیں ہوتی۔‘‘
کونی مجروح سی نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر رہ جاتی تھی۔ رزی کے خیال میں اسے لباس پہننے کا بھی سلیقہ نہیں تھا۔ اکثر ایسے کپڑے پہنتی تھی جن میں اس کی عمر بیس سال سے زیادہ لگنے لگتی تھی۔
’’تمہارا باپ بستر پر ہے تو کیا سارے دھندے ابھی تک سنی ہی چلا رہا ہے؟‘‘ رزی نے بدتمیزی سے پوچھا۔
’’کون سے دھندے؟‘‘ کونی نے ذرا غصے سے کہا۔
’’مجھ سے اس طرح باتیں مت کرو سور کی بچی۔‘‘ وہ چیخ کر بولا اور اچھل کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے کونی کے منہ پر تین زوردار تھپڑ رسید کیے۔ اس کا ہونٹ پھٹ گیا، خون بہنے لگا۔ چہرے پر ابھار نمودار ہوگئے جو یقیناً کچھ دیر بعد نیلے پڑ جاتے۔ کونی اوندھے منہ بیڈ پر گر کر رونے لگی۔ رزی بے پروائی سے باہر جانے کی تیاری کرنے لگا۔
چند منٹ بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ رزی نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو ایک لمحے کے لیے لڑکھڑا کررہ گیا۔ سامنے سنی کھڑا تھا۔ (جاری ہے)