سنی کو دیکھ کر رزی بوکھلا گیا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سنی نے گھر سے نکلنا شروع کر دیا ہوگا اور خاص طور پر وہ اس موقع پر اس کے گھر آن پہنچے گا۔
حقیقت یہ تھی کہ سنی آج ہی گھر سے نکلا تھا۔ ڈون پر حملے کے بعد اس نے پہلی بار شہر کا رُخ کیا تھا۔ وہ بھی اس طرح کہ اس کی گاڑی کے آگے پیچھے دو گاڑیاں روانہ ہوئی تھیں جن میں مسلح افراد موجود تھے۔
سنی نے شہر میں اپنا کام نمٹانے کے بعد سوچا تھا کہ وہ اپنی بہن کونی کو بھی اپنے ساتھ گھر لیتا چلے۔ اسے معلوم تھا کہ کونی کا آج ڈون کی عیادت کے لیے آنے کا پروگرام تھا۔ سنی کو معلوم تھا کہ اسے آنے کے لیے ٹیکسی لینی پڑے گی کیونکہ اس کے پاس اپنی گاڑی نہیں تھی۔ سنی نے سوچا تھا کہ اسے زحمت سے بچانے کے لیے واپسی میں ساتھ لیتا چلے گا لیکن یہاں اسے کچھ اور ہی دیکھنے کو مل رہا تھا جو اس کے لیے بے حد تکلیف دہ اور اشتعال انگیز تھا۔ دراصل اس دوران کونی بھی دروازے پر آ گئی تھی اور اس کا آنسوئوں سے بھیگا مضروب چہرہ دیکھ کر گویا اس کے دل و دماغ میں آتش فشاں پھٹ پڑے تھے۔
اس وقت تک کونی کا پھٹا ہوا ہونٹ بُری طرح سوج چکا تھا اور اس کے آس پاس خون کی پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ صرف ہونٹ ہی نہیں، اس کا تقریباً پورا چہرہ سوجا ہوا تھا اور اس پر نیل پڑے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھوں میں بے پناہ دہشت تھی۔ سنی کا دل کٹ کر رہ گیا۔ اس کے لیے اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہوا تھا اور یہ اس کی وہ بہن تھی جو گھر بھر کی لاڈلی تھی۔ لڑکپن میں وہ بے حد شرارتی اور زندہ دل ہوا کرتی تھی۔ اس وقت وہ اس ہرنی کی طرح دہشت زدہ دکھائی دے رہی تھی جو درندوں کے نرغے سے جان بچا کر بھاگی تھی۔ اس کی یہ حالت اس وقت تھی جب اس کے ماں بننے میں چند ماہ باقی تھے۔
وہ سنی کے سینے سے آن لگی اور سسکنے لگی۔ سنی نے اسے ایک طرف ہٹا دیا۔ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ اس نے رزی کو گریبان سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا مگر ’’چرر…ر …ر‘‘ کی آواز کے ساتھ قمیض کا کچھ حصہ پھٹ کر اس کے ہاتھ میں آگیا کیونکہ رزی اسے جھکائی دیتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف بھاگ نکلا تھا۔
اس نے راہ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ سنی جسیم اور مضبوط ہی نہیں، پھرتیلا بھی تھا۔ اس نے رزی کو سیڑھیوں تک پہنچنے کا موقع نہیں دیا۔ طویل اور کشادہ راہداری میں ہی پکڑ لیا۔ اس نے رزی کو گھونسوں پر رکھ لیا۔ رزی اس دوران سیڑھیوں کے جنگلے تک پہنچ گیا تھا۔ وہ اپنا چہرہ اور سر گھونسوں کی زَد سے بچانے کے لیے چہرہ دونوں بازوئوں کی آڑ میں چھپا کر بیٹھ گیا۔ سنی کا جہاں بھی ہاتھ پڑا، وہ اس کے جسم پر گھونسے برساتا رہا اور رزی جھکا ہوا مار کھاتا رہا۔ اس نے ذرا بھی مزاحمت نہیں کی اور نہ ہی جوابی کارروائی کرنے کی کوشش کی۔
اس فلور پر کئی فلیٹ تھے۔ ان کے دروازے ذرا ذرا سے کھل چکے تھے اور یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ ان کے عقب سے لوگ تماشا دیکھ رہے تھے لیکن باہر آنا تو درکنار، کسی نے اپنا چہرہ ظاہر کرنے کی بھی جرأت نہیں کی تھی۔
آخر کونی نے ہی آ کر اپنے بھائی کو کمر سے پکڑا اور اسے پیچھے کھینچنے کی کوشش کی لیکن جب وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئی تو اس نے اپنی حالت کی پروا کئے بغیر دونوں کے درمیان حائل ہونے کی کوشش کی۔ اس کی حالت کا خیال کرتے ہوئے سنی کو اپنا ہاتھ روکنا پڑا۔
اس نے رزی کو ایک لات رسید کی اور پیچھے ہٹتے ہوئے گرجا۔ ’’اگر آئندہ تم نے میری بہن پر ہاتھ اُٹھایا تو میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ میں اس بات کی بھی پروا نہیں کروں گا کہ میرا بھانجا یتیم پیدا ہوگا۔‘‘
اس کی آنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا۔ اس نے اس سے پہلے سنا تو تھا کہ رزی اس کی بہن کے ساتھ مار پیٹ کرتا ہے لیکن اس نے اپنی آنکھوں سے کبھی اس کی یہ حالت نہیں دیکھی تھی۔
وہ وہاں مزید نہیں رُکا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے سرخ دُھند سی پھیل رہی تھی اور دماغ میں آندھیاں سی چل رہی تھیں۔ اسے اندیشہ تھا کہ اگر وہ وہاں رُکا تو کوئی انتہائی قدم نہ اُٹھا بیٹھے۔ اس لیے اس نے اپنی بہن کی طرف سے بھی نظر ہٹا لی اور مزید کچھ کہے سیڑھیاں اُترتا چلا گیا۔
٭…٭…٭
ڈون کارلیون پر حملے کے بعد کارلیون فیملی اور اس کی مخالفت میں متحد ہو جانے والی پانچوں فیملیز کے درمیان لڑائی فروری 47ء تک جاری رہی۔ پانچوں فیملیز کی سربراہی ٹیگ فیملی ہی کر رہی تھی۔ تاہم نقصان پانچوں فیملیز ہی کا زیادہ ہو رہا تھا۔ کارلیون فیملی گو اس لڑائی میں اکیلی تھی لیکن پلّہ اس کا بھاری تھا۔
کاروباری طور پر بھی دونوں فریقوں کو بہت نقصان اُٹھانا پڑا تھا۔ پہلے تو پولیس نے تمام ناجائز دھندے بند کرا دیئے تھے۔ کیپٹن کلس کے قتل کی وجہ سے پورا پولیس ڈپارٹمنٹ سخت اشتعال میں تھا لیکن جب ہیگن کی کوششوں سے اخبارات میں کیپٹن کلس کی بدعنوانیوں کی کہانیاں ثبوت کے ساتھ شائع ہوئیں اور یہ بھی واضح ہوا کہ قتل کے وقت بھی وہ منشیات کے ایک اسمگلر کے ساتھ تھا اور دونوں اکٹھے قتل ہوئے تھے تو پولیس والے کچھ ٹھنڈے پڑگئے۔
ادھر ناجائز دھندے بند ہونے سے ان کا اپنا مالی نقصان بھی ہو رہا تھا۔ اس طرح کے تمام اڈوں سے بہت سے پولیس افسروں کے بھتے بندھے ہوئے تھے۔ اڈے بند ہوئے تو بھتے بھی بند ہوگئے اور جلد ہی پولیس والوں کی حالت پتلی ہونے لگی۔
بہت سے پولیس والے ملازمت کے شروع شروع میں بڑے بلند خیالات لے کر ڈیوٹی پر نکلتے تھے لیکن رفتہ رفتہ احساس زیاں ان پر غالب آ جاتا تھا۔ وہ سوچنے لگے تھے کہ وہ قلیل تنخواہوں کے عوض جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں اور دُنیا عیش کر رہی ہے۔ آخر انہوں نے کیا قصور کیا ہے کہ وہ آسائشوں سے محروم رہیں اور ان کے بچّے گھٹیا اسکولوں میں پڑھیں؟ چنانچہ وہ ’’نذرانے‘‘ قبول کرنے شروع کر دیتے تھے لیکن پھر بھی مجموعی طور پر بدعنوان پولیس والوں میں بھی یہ سوچ غالب تھی کہ وہ چھوٹے موٹے ناجائز دھندوں کو نظرانداز کرنے کا معاوضہ تو وصول کر لیتے تھے لیکن منشیات کے دھندے کو وہ بہت ہی برا سمجھتے تھے۔ منشیات کی کمائی میں سے حصہ لینے والا پولیس آفیسر ہزاروں میں کوئی ایک ہوتا تھا اور اسے بدعنوان پولیس والے بھی بہت برا سمجھتے تھے۔ چنانچہ جب کیپٹن میک کلس کے ’’کارنامے‘‘ سامنے آئے تو بدعنوان پولیس والوں تک کی گردنیں جھک گئیں۔
تمام فیملیز کے ناجائز دھندے دوبارہ شروع ہوئے تو ان کے درمیان جنگ میں دوبارہ شدت آ گئی کیونکہ ان کے کاروبار سنبھالنے والے لوگ دوبارہ منظرعام پر آ گئے اور ان پر حملے کرنا آسان ہو گیا تھا۔ مینزا اور ٹیسو نے اپنے خاص خاص لڑاکوں کو ساتھ لے کر دو الگ الگ اپارٹمنٹس میں پڑائو ڈال لیا تھا۔
ڈون کو اس دوران اسپتال سے گھر منتقل کر دیا گیا تھا اور اس کے کمرے میں اسپتال جیسے تمام انتظامات کر دیئے گئے تھے۔ شفٹوں میں ڈیوٹی دینے کے لیے بااعتماد نرسیں مقرر کر دی گئی تھیں۔ کینیڈی نامی ایک ڈاکٹر کو مستقل طور پر گھر میں ملازم رکھ لیا گیا تھا۔
ڈون ابھی کسی بھی معاملے میں احکام تو جاری نہیں کر رہا تھا لیکن اس نے خاص خاص باتیں سن کر بعض کے بارے میں پسندیدگی اور بعض کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ مثلاً اسے یہ بات پسند نہیں آئی تھی کہ سولوزو اور کیپٹن کلس کو قتل کرکے مائیکل سسلی فرار ہو چکا تھا۔ آخر سنی نے فیصلہ کیا کہ ڈون کو اس قسم کے معاملات سے دُور رکھنا ہی بہتر تھا تاکہ اس کی بحال ہوتی ہوئی صحت پر بُرے اثرات مرتب
نہ ہوں۔
دونوں طرف کے کئی افراد مارے جا چکے تھے۔ اب پانچوں فیملیز کا پلہ بھاری پڑتا دکھائی دینے لگا تھا۔ اس قسم کی خبریں ڈون کو نہیں سنائی جا سکتی تھیں۔ ہیگن قدرے تشویش زدہ تھا لیکن سنی نہایت پراعتماد انداز میں تمام معاملات میں کمان سنبھالے ہوئے تھا۔ فریڈ کو آرام کرنے کے لیے لاس ویگاس بھیج دیا گیا تھا۔ وہ وہاں کے ڈون کا مہمان تھا جس نے ضمانت دی تھی کہ اس کی پناہ میں فریڈ کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔
اس طویل اور اعصاب شکن جنگ میں دونوں فریقوں کو بھاری مالی نقصانات بھی اُٹھانا پڑے تھے۔ تمام معاملات خوف اور تنائو کی فضا میں چل رہے تھے۔ اس دوران سنی نے ایک بڑا اور فیصلہ کن قدم اُٹھانے کے لیے خود کو تیار کرلیا۔ اس نے طے کر لیا کہ وہ پانچوں فیملیز کے سربراہوں کو مروا دے گا۔ خواہ اس میں کتنا ہی مالی اور جانی نقصان اُٹھانا پڑے۔
اس نے اپنے خاص آدمیوں کی ایک ٹیم تشکیل دی جس کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ پانچوں فیملیز کے سربراہوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں اور اس سلسلے میں تفصیلی رپورٹ دیں تا کہ فیصلہ کیا جا سکے کہ ان سب کو بیک وقت مروانے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جاسکتی تھی۔
نگرانی کرنے والی ٹیموں کو اپنا کام شروع کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ انہوں نے رپورٹ دی کہ پانچوں فیملیز کے سربراہ روپوش ہیں ان کا کہیں کچھ پتا نہیں چل رہا۔ شاید انہیں سنی کے نئے احکام کی بھنک پڑ گئی تھی یا پھر انہوں نے خود ہی فضا میں اپنے لیے خطرے کی بو سونگھ لی تھی۔ سنی کو اس خبر سے بے حد مایوسی ہوئی۔
اس کے بعد ماحول پر سکوت چھا گیا۔ دونوں فریقوں کے درمیان گویا غیر اعلانیہ جنگ بندی ہوگئی تھی۔
٭…٭…٭
تکفین اور تدفین کا کام کرنے والا بوناسیرا شام کو کچھ دیر کے لیے گھر آ جاتا تھا۔ اس کا گھر اس کے کام کی جگہ سے دُور نہیں تھا۔ وہ پیدل ہی آ جاتا تھا۔ کھانا کھاتا، تھوڑی دیر آرام کرتا۔ پھر کپڑے بدل کر، تازہ دم اور صاف ستھرا ہو کر دوبارہ اس عمارت کی طرف روانہ ہو جاتا تھا جہاں مردوں کو تکفین اور تدفین کے لیے تیار کیا جاتا تھا۔
اس مقصد کے لیے اس کے پاس باقاعدہ ایک عمارت موجود تھی جس میں مختلف شعبے تھے۔ یہ عمارت چند سال پہلے اسے سستی مل گئی تھی۔ اس نے اس میں کچھ تبدیلیاں بھی کرائی تھیں اور لفٹ بھی لگوا لی تھی کیونکہ جب میتیں زیادہ ہوتی تھیں تو انہیں تیار کر کے اُوپر کی منزلوں پر بھی رکھا جاتا تھا جہاں ان کا آخری دیدار اور تعزیت کرنے والے آتے تھے ان میں سے بعض بہت عمررسیدہ یا معذور ہوتے تھے۔ وہ سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتے تھے۔ ان کی سہولت کے لیے بوناسیرا نے لفٹ لگوائی تھی۔
تدفین کے لیے آنے والوں میں ہر طرح کی حالت کے مردے ہوتے تھے۔ کسی بیماری یا حادثے کی وجہ سے مرنے والے بعض لوگوں کی حالت اچھی نہیں ہوتی تھی۔ بوناسیرا کا کام میت کو اس حالت میں تیار کرکے رکھنا تھا کہ دیکھنے والے ذرا بھی کراہت محسوس نہ کریں۔
اس کام کے لیے اس کی عمارت میں باقاعدہ ایک الگ شعبہ تھا جسے ایک قسم کی لیبارٹری اور بیوٹی پارلر کا امتزاج کہا جا سکتا تھا۔ وہاں ہر ممکن طریقے سے مردے کو زیادہ سے زیادہ اچھی حالت میں لایا جاتا تھا۔ پھر لواحقین کے ادا کردہ اخراجات کی مناسبت سے اس کی تکفین کر کے اسے تابوت میں کسی کشادہ کمرے میں رکھ دیا جاتا تھا۔
جہاں آخری دیدار اور تعزیت کرنے والے آتے تھے۔ ہر کام کے لیے اس کے پاس ضروری اسٹاف بھی موجود تھا۔
بوناسیرا اپنے کام کو بہت سنجیدگی سے لیتا تھا اور اس پیشے کو نہایت معزز سمجھتا تھا۔ اسے وہ لطیفے سخت ناپسند تھے جو اس کام کے بارے میں گھڑے گئے تھے اور خاصے مشہور تھے۔ اسے وہ لوگ بھی بُرے لگتے تھے جو اس قسم کے لطیفوں کو پسند کرتے تھے۔ ابتدا میں وہ ہر کام خود اپنے ہاتھ سے کرتا تھا۔ حتیٰ کہ گورکن کے فرائض بھی انجام دیتا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس نے ترقی کر لی تھی اور اپنے پیشے کو معززانہ صورت دینے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اب اس کے پاس کئی ملازمین تھے۔ وہ زیادہ تر نگرانی کرتا تھا اور ہدایات دیتا تھا۔ اس کا سب سے اہم کام نہایت مشاقانہ اور متاثرکن انداز میں لواحقین کے غم میں شریک ہونا اور اپنی گفتگو سے ان کے دل میں گھر کرنا ہوتا تھا۔
اس روز بھی وہ معمول کے مطابق کھانا کھانے، کچھ دیر آرام کرنے اور تازہ دم ہو کر واپس جانے کی غرض سے گھر آیا تھا۔ رات گئے تک اس کی بلڈنگ میں تکفین اور میت کی تیاری کے سلسلے میں بہت کام نمٹائے جاتے تھے۔ تعزیت اور آخری دیدار کرنے والے بہت سے لوگ بھی رات کو آتے تھے۔
اپنی بیٹی کو بوناسیرا نے اس کی خالہ کے پاس بوسٹن بھیج دیا تھا۔ دو امیرزادوں نے اس کی عزت لوٹنے کی ناکام کوشش کے دوران تشدد کر کے اس کا چہرہ بگاڑ دیا تھا۔ چہرہ تو کافی حد تک ٹھیک ہوگیا تھا اور لڑکی کی خوبصورتی بحال ہو گئی تھی لیکن اس واقعے نے اس کے ذہن پر بہت برا اثر ڈالا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ہر وقت ایک خوف جاگزیں رہنے لگا تھا۔ وہ اب بھی ایک ایسی خوفزدہ ہرنی دکھائی دیتی تھی جس کے پیچھے درندے لگے ہوئے ہوں۔
گاڈ فادر نے ان دونوں نوجوانوں کو جس طرح سزا دلوائی تھی، اس سے بوناسیرا کے دل میں تو ٹھنڈ پڑ گئی تھی لیکن لڑکی کی کیفیت وہی تھی۔ اس لیے بوناسیرا نے اسے بوسٹن بھجوا دیا تھا۔ اسے اُمید تھی کہ ماحول کی تبدیلی سے لڑکی کی کیفیت میں تبدیلی آئے گی اور اس کے ذہن میں موجود یادوں کے زخم کسی نہ کسی حد تک مندمل ہوں گے۔
اس رات کھانا کھانے کے بعد اس نے کافی ختم ہی کی تھی کہ فون کی گھنٹی بج اُٹھی۔ اس نے اُٹھ کر فون ریسیو کیا اور ’’ہیلو‘‘ کہا تو دُوسری طرف سے بیٹھی بیٹھی سی جو آواز سنائی دی اس سے بولنے والے کے اعصابی تنائو کا پتا چل رہا تھا۔
’’میں ٹام ہیگن بول رہا ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’میں نے تمہیں ڈون کارلیون کا پیغام دینے کے لیے فون کیا ہے۔‘‘
بوناسیرا کے معدے میں گرہ سی پڑنے لگی۔ تقریباً ایک سال پہلے وہ اپنی بیٹی والے واقعے کے سلسلے میں فریاد لے کر ڈون کے پاس گیا تھا۔ اس نے تھوڑی بہت خفگی کا اظہار ضرور کیا تھا لیکن بہرحال اس کی فریاد اَن سنی نہیں کی اور دونوں امیرزادوں کو عبرت ناک سزا دلوائی تھی۔ اب ہیگن کی آواز سنتے ہی نہ جانے کیوں اس کے دل کے کسی گوشے سے آواز اُبھری تھی کہ اس احسان کا بدلہ اُتارنے کا وقت آ گیا تھا۔
’’ہاں… ہاں… کہو… کیا بات ہے؟‘‘ وہ قدرے مرتعش لہجے میں بولا۔
ہیگن بولا۔ ’’ڈون کارلیون کو اُمید ہے کہ جس طرح وہ تمہارے کام آیا تھا۔ تم بھی آج ضرورت پڑنے پر اس کے کام آئو گے اور شاید اس میں خوشی بھی محسوس کرو گے۔ اب سے تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد ڈون خود تمہارے پاس آئے گا۔ وہ تمہاری بلڈنگ کے پچھلے دروازے پر آئے گا۔ اس کے استقبال کے لیے موجود رہنا۔ بہتر ہوگا کہ تم اسے وہاں اکیلے ملو۔ تمام ملازموں کو چھٹی دے دینا اور آج کی تمام ملاقاتیں ملتوی کر دینا۔‘‘ اتنا کہہ کر ہیگن نے ایک لمحے توقف کیا۔ بوناسیرا خاموش رہا۔ ہیگن بولا۔ ’’اگر تم ایسا نہیں کرتے تو ابھی کہہ دو۔ میں تمہارا جواب ڈون تک پہنچا دوں گا۔ اس کے اور کئی ایسے دوست ہیں جو اس موقع پر اس کے کام آ سکتے ہیں۔‘‘
بوناسیرا بے اختیار بول اُٹھا۔ ’’تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں گاڈ فادر کے کسی کام سے انکار کر سکتا ہوں؟ وہ جو بھی کہیں گے، میں کرنے کے لیے تیار ہوں۔ میں ابھی اپنے آفس کی طرف روانہ ہوجاتا ہوں۔ میں ڈون کی ہدایات کے مطابق تمام انتظامات کر کے ان کا منتظر ہوں گا۔‘‘
’’ڈون کو تمہاری طرف سے اسی جواب کی توقع تھی۔‘‘ ہیگن کی آواز میں اب نرمی آ گئی۔ ’’وہ تو میں نے
احتیاطاً اپنی طرف سے پوچھ لیا تھا کہ اگر تمہیں کوئی مسئلہ درپیش ہو تو تم ڈون کے کام آنے سے انکار بھی کر سکتے ہو۔ تمہارے جواب سے مجھے ذاتی طور پر بھی خوشی ہوئی ہے۔ اگر تمہیں آئندہ کوئی مسئلہ درپیش ہو تو تم سیدھے میرے پاس آ سکتے ہو۔‘‘
’’ڈون خود میرے پاس تشریف لائیں گے؟‘‘ بوناسیرا نے تصدیق چاہی۔
’’ہاں۔‘‘ ہیگن نے جواب دیا۔
’’اس کا مطلب ہے کہ وہ مکمل صحت یاب ہوچکے ہیں اور چلنے پھرنے لگے ہیں؟ ان کے تمام زخم ٹھیک ہوگئے ہیں؟‘‘ بوناسیرا نے دریافت کیا۔
’’ہاں۔‘‘ ہیگن نے مختصر جواب دیا اور سلسلہ منقطع کر دیا۔
بوناسیرا دُوسرے کمرے میں جا کر جلدی جلدی تیار ہوا۔ سستانے کا ارادہ اس نے ملتوی کر دیا۔ وہ جانے لگا تو اس کی بیوی کھانا کھا رہی تھی۔ اس نے حیرت سے بوناسیرا کی طرف دیکھا۔
’’ایک ہنگامی نوعیت کا کام آ گیا ہے۔ مجھے ذرا جلدی جانا ہے۔‘‘ اس نے بیوی کے سوال کرنے سے پہلے وضاحت کی۔
بلڈنگ میں پہنچ کر اس نے اپنے صرف ایک اسسٹنٹ کو روکا۔ باقی کارکنوں کو چھٹی دے دی۔ اسسٹنٹ کو اس نے ہدایت کی کہ وہ بلڈنگ کے صرف سامنے والے حصے میں رہے اور آنے والوں کو بھی وہیں تک محدود رکھے۔ پچھلے حصے کی طرف کوئی نہ آئے۔ وہاں وہ خود کچھ ضروری کام اپنے ہاتھوں سے انجام دے گا۔ درمیانی دروازے اس نے بند کر دیئے اور پیچھے جا پہنچا۔ مردوں کی حالت بہتر بنانے اور انہیں تکفین و تدفین کے لیے تیار کرنے کے انتظامات اسی طرف تھے۔
ڈون کی ہدایات پر عمل کرنے کے بعد وہ قدرے خوف کے عالم میں اس کا انتظار کرنے لگا۔ اس کے لیے اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ ڈون کو اس کی کس قسم کی خدمات کی ضرورت آن پڑی تھی۔ پچھلے ایک سال سے وہ مافیائوں کے درمیان جنگ کے بارے میں اخبارات میں پڑھ رہا تھا۔ ایک طرف کارلیون ’’فیملی‘‘ تھی اور دوسری طرف پانچ ’’فیملیز‘‘ تھیں جن کی سربراہی ٹیگ فیملی کر رہی تھی۔
بیچ میں کچھ عرصہ ذرا سکون رہا تھا لیکن پھر ایک دوسرے کے آدمیوں پر حملے شروع ہوگئے تھے۔ بہت سے لوگ مارے جا چکے تھے۔ دونوں فریقوں کے درمیان خونریزی رُکنے میں نہیں آ رہی تھی۔ شاید اب کارلیون فیملی کے لوگوں نے دوسری طرف کے کسی اہم آدمی کو مار دیا تھا اور وہ چاہ رہے تھے کہ اس کی لاش بھی دریافت نہ ہو۔ وہ اسے بالکل غائب کرنا چاہ رہے تھے اور اسے خفیہ طریقے سے دفن کرنے کے لیے انہیں بوناسیرا کی مدد درکار تھی۔
بوناسیرا کو یہ بھی اندازہ تھا کہ اس کام میں تعاون کے کیا نتائج ہو سکتے تھے۔ وہ ایک باقاعدہ رجسٹرڈ انڈر ٹیکر تھا۔ اس کے پاس تکفین اور تدفین وغیرہ کے کام کا باقاعدہ لائسنس موجود تھا۔ ڈون اور اس کے آدمی اس کے پاس جس کام سے آ رہے تھے، اس قسم کے کام میں حصہ لے کر وہ گویا اپنے کاروبار، ا پنے مستقبل، اپنی آزادی پر حتیٰ کہ اپنی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال رہا تھا۔
اگر یہ بات سامنے آ جاتی تو قانونی طور پر اسے اس قتل میں شریک اور مافیا کا ساتھی سمجھا جا سکتا تھا۔ وہ لمبے عرصے کے لیے جیل جا سکتا تھا۔ ادھر دوسری طرف کے لوگ اسے کارلیون فیملی کا ساتھی سمجھ کر موت کے گھاٹ اُتار سکتے تھے۔ اس کے لیے ہر طرح سے خطرہ ہی خطرہ تھا اب اسے اس بات پر بھی پچھتاوا محسوس ہو رہا تھا کہ جب اس کی بیٹی کے ساتھ وہ تکلیف دہ واقعہ پیش آیا تھا اور عدالت سے اُسے انصاف نہیں ملا تھا تو وہ گاڈ فادر کے پاس فریاد لے کر جا پہنچا تھا۔ اب اتنے عرصے میں احسان مندی کے جذبات ٹھنڈے پڑ چکے تھے اور وہ سوچ رہا تھا کہ دونوں امیرزادوں کو بری طرح پٹوا کر اور مہینوں کے لیے اسپتال پہنچوا کر اسے بھلا کیا ملا تھا؟
انہی سوچوں میں اُلجھا وہ سگریٹ پیتا رہا۔ پھر اس نے خود کو تسلی دینے کی کوشش کی۔ ڈون کارلیون کوئی ایسا گیا گزرا آدمی نہیں تھا کہ اس کے کام آنا گھاٹے کا سودا ہوتا۔ اس کی مخالفت مول لینا یا اسے ناخوش کرنا زیادہ مصائب کا باعث بن سکتا تھا۔ اس نے اس خوش گمانی کا سہارا لینے کی کوشش کی کہ وہ ڈون کے لیے جو کچھ کرے گا، وہ خفیہ ہی رہے گا۔
وہ پچھلی پارکنگ لاٹ میں کسی گاڑی کے داخل ہونے کی آواز سن کر چونکا۔ اس نے بلڈنگ کا پچھلا دروازہ کھول دیا۔ مینزا اور اس کے ساتھ دو کرخت صورت نوجوان اندر آ گئے۔ انہوں نے بوناسیرا سے کوئی بات کئے بغیر پہلے، پچھلے کمروں میں جھانک کر یہ اطمینان کیا کہ وہاں کوئی موجود تو نہیں تھا۔ پھر مینزا باہر چلا گیا۔ دونوں نوجوان، بوناسیرا کے پاس ہی موجود رہے۔
کچھ دیر بعد ایک ایمبولینس بلڈنگ کے ڈرائیو وے میں آرُکی۔ دو آدمیوں نے اس میں سے ایک اسٹریچر اُتارا اور وہ مینزا کی رہنمائی میں اندر آنے لگے۔ بوناسیرا کے اندیشوں کی تصدیق ہوگئی۔ اسٹریچر پر یقیناً ایک لاش تھی۔ اس پر کمبل پھیلا ہوا تھا لیکن اس کے زرد پائوں کمبل سے نکلے ہوئے تھے اور ان پیروں سے بوناسیرا کی تجربہ کار آنکھوں کے لیے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ وہ ایک لاش تھی۔
مینزا نے اسٹریچر اسی بڑے سے کمرے میں رکھوا دیا جہاں مردوں کی حالت ٹھیک کی جاتی تھی۔ پھر دروازے سے ایک اور شخص اندر آیا۔ وہ ڈون کارلیون تھا۔ وہ پہلے کے مقابلے میں کمزور ہوگیا اور اس کی چال بھی ذرا بدل گئی تھی۔ بال کچھ چھدرے ہوگئے تھے۔ بوناسیرا نے آخری مرتبہ اسے ایک سال پہلے دیکھا تھا لیکن اس ایک سال میں ہی اس کی عمر میں گویا کئی سالوں کا اضافہ ہوگیا تھا مگر اب بھی اس کی شخصیت میں ایک خاص دبدبہ تھا۔ اس کے وجود سے گویا کسی انجانی طاقت کی لہریں پھوٹتی محسوس ہوتی تھیں۔ اس نے ہیٹ اُتار کر سینے سے لگایا ہوا تھا۔
’’پرانے دوست! کیا تم میرا کام کرنے کے لیے تیار ہو؟‘‘ اس نے قدرے تھکے تھکے سے لہجے میں پوچھا۔ تاہم اس کی آواز پہلے ہی کی طرح گونجیلی اور با رُعب تھی۔
بوناسیرا نے اثبات میں سر ہلایا۔ دونوں آدمیوں نے اسٹریچر میز پر رکھ دیا۔ ڈون نے اپنے ہیٹ سے خفیف اشارہ کیا اور سب لوگ کمرے سے رُخصت ہوگئے۔
’’آپ مجھ سے کیا کام لینا چاہتے ہیں؟‘‘ بوناسیرا نے سرگوشی کے انداز میں پوچھا۔
’’میں چاہتا ہوں تم اس پر اپنی ساری مہارت، سارا تجربہ آزمائو۔‘‘ ڈون نے کمبل سے ڈھکی لاش کی طرف اشارہ کیا۔ ’’اس کی حالت اچھی نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں تم بہت پیار سے۔ بہت اپنائیت سے۔ اس کا چہرہ جتنا اچھا بنا سکتے ہو، بنا دو۔‘‘ اس کی آواز میں خفیف سا ارتعاش اور کرب جھلک آیا۔ ’’میں نہیں چاہتا کہ اس کی ماں اسے اس حال میں دیکھے۔‘‘
اس نے آگے بڑھ کر لاش کے چہرے سے کمبل ہٹا دیا اور بوناسیرا کے جسم میں سرد سی لہر دوڑ گئی۔ وہ سر سے پائوں تک لرز کر رہ گیا۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے اتنے برسوں میں اس نے بہت سی لاشوں کو لرزہ خیز حالت میں دیکھا۔ اس کے باوجود اس لاش کا چہرہ دیکھنا گویا اس کے لیے ایک نیا، لرزہ خیز تجربہ تھا۔ چہرہ گو کافی حد تک مسخ ہوگیا تھا لیکن وہ اسے پہچان سکتا تھا۔
وہ سنی تھا!
اس کے چہرے پر گولیاں ماری گئی تھیں۔ ایک آنکھ کی جگہ خون سے بھرا ایک چھوٹا سا گڑھا نظر آ رہا تھا۔ ناک اور رُخسار کا کچھ حصہ ملغوبے میں تبدیل ہو گیا تھا۔
اس بار ڈون بولا تو اس کے لہجے میں پہلے سے زیادہ ارتعاش، پہلے سے کرب تھا۔ ’’تم دیکھ رہے ہو۔ انہوں نے میرے بیٹے کا کیا حال کیا ہے!‘‘
٭…٭…٭
مافیائوں کی جنگ جب ذرا تھمی اور ماحول پر سکوت چھا گیا تو سنی نے اسے دُشمن کی کمزوری سمجھا۔ اس کی جنگجو اور خوں خوار فطرت میں اُبال آیا اورکچھ دنوں بعد اس نے اپنی دانست میں دشمنوں کو’’مزید سبق سکھانے‘‘ کے لیے ان کے آدمیوں کو ایک بار پھر مروانا شروع کر دیا۔ اکثر اس قسم کے ’’آپریشنز‘‘ کی نگرانی وہ خود
کرتا۔ گو ان کارروائیوں کی وجہ سے خود کارلیون فیملی کو بھی اپنے بہت سے منافع بخش کاروباری اڈے بند کرنے پڑے مگر سنی کو اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔
ایک بار ہیگن نے دبی دبی زبان میں اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ جب امن قائم ہوگیا تھا تو اسے قائم رہنے دینا چاہئے تھا۔ اس پر سنی نے قہقہہ لگا کر کہا تھا۔ ’’میں ان خبیثوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دوں گا۔ وہ صلح کے لیے گڑگڑاتے ہوئے ہمارے پاس آئیں گے۔‘‘
یہ اس کی خام خیالی تھی!
اسے نہیں معلوم تھا کہ پانچوں فیملیز ایک فیصلے پر پہنچ گئی تھیں۔ انہوں نے جب دیکھ لیا کہ شکست خوردگی کا انداز اختیار کرنے کے باوجود ان پر حملے بند نہیں ہو رہے تھے اور ان کے آدمی مسلسل قتل ہو رہے تھے تو انہوں نے نتیجہ اخذ کر لیا کہ فساد کی جڑ سنی تھا۔ اس کی جنگجو طبیعت کو چین آنا مشکل تھا۔ ان کے خیال میں ڈون اس کے مقابلے میں پھر معقول اور معتدل آدمی تھا۔ جس کے ساتھ دلیل سے بات کی جا سکتی تھی لیکن سنی کو کچھ سمجھانا اور اس کی جنگجو طبیعت کے آگے بند باندھنا بہت مشکل تھا۔ چنانچہ فیصلہ یہ کیا گیا کہ ساری توجہ اور توانائی سنی کا قصہ پاک کرنے پر لگائی جائے۔ ان کے درمیان جو بے معنی اور بے مقصد خوں ریزی جاری تھی اس کا خاتمہ تبھی ممکن ہو سکتا تھا جب انہیں سنی سے چھٹکارا مل جاتا۔ اس سے نجات پانے کے بعد امن کی کچھ نہ کچھ اُمید رکھی جا سکتی تھی۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے منصوبہ بندی شروع ہوگئی۔
خوں ریزی اور خطرات کی وجہ سے کارلیون فیملی کو اپنے دھندوں کے جو اڈے بند کرنے پڑے تھے ان میں ڈون کے داماد، رزی کا بک میکنگ کا اڈہ بھی شامل تھا۔ اس طرح رزی جو پہلے ہی اس بات پر نالاں تھا کہ کارلیون فیملی نے اسے اس کے شایان شان کاروبار کرا کے نہیں دیا تھا، بالکل فارغ ہوگیا۔ ان حالات میں اس نے پہلے سے بھی زیادہ عیاشی شروع کر دی۔
اس کے پاس جو تھوڑے بہت اثاثے تھے۔ وہ بھی خطرے میں نظر آنے لگے۔ وہ اب پہلے سے زیادہ پینے لگا اور جب بھی کہیں سے رقم ہاتھ لگتی، وہ اسے ٹھکانے لگانے اپنی من پسند عورتوں کے پاس پہنچ جاتا۔ ان میں سے بہت سی ایسی بھی تھیں جن کے ساتھ رنگین گھڑیاں گزارنے کے لیے اسے رقم کی ضرورت بھی نہیں ہوتی تھی۔
سنی نے جب سے اس کی پٹائی کی تھی، اس نے کونی کو مارنا پیٹنا چھوڑ دیا تھا۔ سنی سے وہ خوف محسوس کرتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ غصے میں وہ شخص اسے واقعی قتل کر سکتا تھا۔ پٹائی کے بعد رزی کئی دن تک تو یہی محسوس کرتا رہا تھا کہ وہ اپنی بلڈنگ کے پڑوسیوں کو بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا تھا لیکن پھر جب اس نے محسوس کیا کہ بلڈنگ میں رہنے والا کوئی بھی فرد اس کی طرف عجیب یا استہزائیہ نظروں سے نہیں دیکھتا تو اس نے قدرے اطمینان سے گھر سے نکلنا شروع کیا۔
کونی سے انتقام لینے کا اس نے اب ایک مختلف طریقہ اختیار کیا تھا۔ وہ اب خود اس کے قریب جاتا اور نہ اسے اپنے پاس آنے دیتا تھا۔ وہ اس سے انتہائی مختصر اور ضروری بات کرنے کے سوا کچھ نہیں کہتا تھا۔ اس کی کسی غیرضروری بات کا جواب نہیں دیتا تھا۔ اب وہ میاں بیوی ہوتے ہوئے ایک ہی گھر میں گویا اجنبیوں کی طرح رہ رہے تھے۔ یہ اندازہ کونی کے لیے اور بھی زیادہ جھنجھلاہٹ کا باعث تھا۔ وہ پہلے ہی جلی بھنی بیٹھی تھی کہ ایک روز گھر پر رزی کی عدم موجودگی میں ایک لڑکی کا فون آ گیا جو رزی کو پوچھ رہی تھی اور اپنا نام نہیں بتا رہی تھی۔
’’کون ہو تم؟‘‘ کونی نے دوبارہ غصے سے پوچھا۔
’’میں رزی کی دوست ہوں۔‘‘ لڑکی شوخ سی ہنسی کے ساتھ بولی۔ ’’دراصل آج شام اس سے میری ملاقات طے تھی لیکن مجھے اچانک شہر سے باہر جانا پڑ رہا ہے۔ اسے پیغام دے دینا کہ وہ میری طرف نہ آئے۔‘‘
’’تم… کتیا…!‘‘ کونی فون پر گلا پھاڑ کر چیخی اور پھر اس نے لڑکی کو بے نقط سنانا شروع کر دیں۔ لڑکی نے فون بند کر دیا۔
شام کو رزی باہر سے آیا تو نشے میں دُھت تھا۔ اس کے باوجود اس نے نہا کر، لباس تبدیل کر کے دوبارہ باہر جانے کی تیاری شروع کر دی۔ اس دوران بھی وہ مزید پیئے جا رہا تھا۔ کونی خاموش بیٹھی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی اور اس کے اندر ہی اندر آتش فشاں پھٹ رہے تھے۔
آخر رزی نے لڑکھڑاتے ہوئے باہر کا رُخ کیا تو کونی گویا پھٹ پڑی اور چلائی۔ ’’مت زحمت کرو باہر جانے کی، وہ حرافہ آج تمہیں نہیں ملے گی۔‘‘
’’کیا… مطلب؟‘‘ رزی نے رُک کر لڑکھڑاتی آواز میں پوچھا۔
’’اس کا فون آیا تھا کہ وہ شہر سے باہر جا رہی ہے۔ اس لیے تم آنے کی زحمت نہ کرنا۔‘‘ پھر اس کی آواز اور اُونچی ہوگئی۔ ’’سؤر! تمہاری یہ جرأت کہ ان فاحشائوں کو گھر کا فون نمبر بھی دے دیتے ہو! میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی۔‘‘
وہ مجنونانہ انداز میں دونوں ہاتھوں سے رزی کا چہرہ نوچنے کے لیے جھپٹی۔ رزی گو نشے میں دُھت تھا لیکن اس عالم میں بھی اس کے لیے کونی سے اپنا بچائو کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ اس نے اسے آسانی سے ایک طرف دھکیل دیا لیکن جب کونی نے اپنی کوشش جاری رکھی تو اسے غصہ آ گیا۔ اس نے اپنا ’’پرہیز‘‘ توڑ دیا اور کونی کے منہ پر لگاتار کئی تھپڑ رسید کئے۔ البتہ یہ خیال ضرور رکھا کہ تھپڑ زیادہ زوردار نہ ہوں اور اس کے ہونٹ یا چہرے کی کھال پھٹنے نہ پائے۔
وہ بیڈروم میں اپنے بیڈ پر جا گری اور رونے لگی۔ رزی نے باہر جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا اور دوسرے کمرے میں بیٹھ کر مزید پینے لگا۔ کچھ دیر بعد کونی نے کچن کے فون سے اپنے گھر کا نمبر ملایا۔ وہ اپنی ماں سے کہنا چاہتی تھی کہ کوئی آ کر اسے لے جائے۔ سنی سے وہ خود بات کرنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ سنی کو اندازہ ہو، اس کے شوہر نے ایک بار پھر اسے مارا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ اس طرح بات زیادہ بگڑ سکتی ہے لیکن اس کی یا پھر شاید سنی کی بدقسمتی تھی کہ دوسری طرف فون اس نے ریسیو کیا۔
کونی نے گھبراہٹ میں بات بنانے کی جتنی کوشش کی، بات اتنی ہی بگڑتی چلی گئی۔ سنی کے لیے اندازہ کرنا مشکل نہ رہا کہ کونی کو رزی نے آج پھر مارا تھا اور سنی کے لیے یہ گویا بڑی توہین کی بات تھی کہ رزی نے اس کی انتہائی سخت دھمکی کو بھی یاد نہیں رکھا تھا۔
’’میں آ رہا ہوں۔‘‘ وہ اس بھیڑیے کی طرح غرّایا جسے خون کی پیاس بے تاب کر رہی تھی۔ ’’بس… تم میرا انتظار کرو۔‘‘
کونی اسے آنے سے منع کرنا چاہتی تھی، سمجھانا چاہتی تھی کہ بات کوئی خاص نہیں تھی لیکن اسے کچھ بھی کہنے کا موقع نہ ملا۔ سنی نے فون بند کر دیا۔
’’سؤر کا بچہ…!‘‘ سنی ریسیور رکھنے کے بعد بڑبڑایا۔ دوران خون کی تیزی سے اس کی مضبوط گردن سرخ ہوگئی تھی اور چہرہ بھی لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔
ہیگن قریب ہی موجود تھا۔ اس کے لیے اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ سنی اس وقت غصے میں اندھا ہو رہا ہے۔ سنی نے اسے کچھ نہیں بتایا اور اپنا کوٹ اُٹھا کر باہر کی طرف لپکا۔ اس کی گاڑی میں ڈیش بورڈ کے خانے میں گن موجود تھی اور اس کے خیال میں اس کے لیے وہ کافی تھی۔
دُشمنوں نے جب سے شکست خوردگی کا انداز اختیار کیا تھا، تب سے سنی اپنے حفاظتی انتظامات کے سلسلے میں بھی قدرے بے پروا ہوگیا تھا۔ کونی کی شادی کے موقع پر لوسی نامی جس لڑکی سے اس کے تعلقات استوار ہوئے تھے، وہ شہر میں رہتی تھی۔ سنی اکثر اس سے ملنے جاتا تھا تاہم اس نے اس حد تک احتیاط ضرور رکھی تھی کہ لوسی کے گھر کی چوبیس گھنٹے نگرانی کے لیے آدمی مقرر کر رکھے تھے۔ اسے معلوم تھا کہ اسے گھیرنے کے لیے وہ بہترین جگہ تھی۔ اس لیے اس نے اپنی موجودگی اور عدم موجودگی، دونوں صورتوں میں خبردار رہنے کا بندوبست کیا تھا۔
باہر جاتے وقت اکثر اس کی گاڑی کے آگے پیچھے مسلح گارڈز بھی ہوتے تھے لیکن اس
نے انہیں طلب کرنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ اس نے اپنا کوٹ اُٹھایا اور اسے پہنتے ہوئے، کسی سے کچھ کہے بغیر باہر کی طرف چل دیا۔
چند لمحے بعد جب ہیگن نے باہر اس کی بیوک کا انجن غرانے کی آواز سنی تو اس نے دوسرے کمرے میں موجود مسلح افراد کو حکم دیا۔ ’’تم دوسری گاڑی میں اس کے پیچھے جائو۔‘‘
رات کے وقت شہر کی طرف جاتے وقت عموماً سنی اس راستے کا رُخ کرتا تھا جسے ’’جونز بیچ کازوے‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ شہر کی طرف جانے کا شارٹ کٹ تھا اور رات کو اس پر رش نہیں ہوتا تھا۔ اس راستے پر البتہ چند سیکنڈ کے لیے وہاں رُکنا پڑتا تھا جہاں ٹول ٹیکس کی وصولی کے لیے محرابیں اور بوتھ بنے ہو ئے تھے۔
سنی کی گاڑی کی کھڑکیوں کے شیشے چڑھے ہوئے نہیں تھے۔ راستے میں ٹھنڈی ہوا لگی تو دھیرے دھیرے اس کا غصہ کچھ کم ہوا اور اس نے ذرا ٹھنڈے دل سے سوچنا شروع کیا۔ وہ اسی نتیجے پر پہنچا کہ رزی کو قتل کرنا بہرحال مناسب نہیں تھا۔ آخر وہ اس کا بہنوئی اور اس کے ہونے والے بھانجے کا باپ تھا۔ تاہم آج اس نے اس سے تفصیلی بات چیت یا پھر سختی کے ذریعے یہ بات ہمیشہ کے لیے طے کرنے کا بندوبست کرنے کا فیصلہ کیا کہ آئندہ رزی اس کی بہن کے ساتھ مار پیٹ نہ کرے۔
کازوے پر روشنی بہت کم تھی اور ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا۔ ٹول ٹیکس کی محرابیں اسے دُور سے نظر آ گئیں۔ وہ بہت تیز رفتاری سے جا رہا تھا۔ ہیگن نے جن دو آدمیوں کو اس کے پیچھے روانہ کیا تھا وہ بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ کچھ دیر پہلے وہ راستے میں ایک جگہ ٹریفک میں پھنس گئے تھے۔ پھر ایک جگہ انہیں سگنل پر بھی رُکنا پڑا۔
سنی جب ٹول ٹیکس کی محرابوں کے نیچے اپنے لین میں جا کر رُکا تو اس نے دیکھا، صرف اسی بوتھ میں ٹیکس لینے والا کلرک موجود تھا۔ سنی کی گاڑی سے آگے ایک گاڑی پہلے ہی رُکی ہوئی تھی۔ اس میں موجود افراد غالباً کلرک سے کسی راستے کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔
رُکنے کے بعد سنی کو معلوم ہوا کہ اس کے پاس ٹول ٹیکس دینے کے لیے ریزگاری یا کوئی چھوٹا نوٹ موجود نہیں ہے۔ اس نے ایک بڑا نوٹ نکالا اور اگلی گاڑی کو آگے بڑھنے کے لیے ہارن دیا۔ گاڑی آگے بڑھ گئی۔ اس نے کھڑکی سے ہاتھ نکال کر کلرک کو نوٹ تھمایا اور بقایا لینے کے لیے رُکا رہا۔
بوتھ میں بھی روشنی بہت کم تھی۔ وہ کلرک کی صورت بھی صحیح طرح نہیں دیکھ سکا تھا۔ کلرک نوٹ لینے کے بعد جھک گیا تھا اور اب سنی کو نظر نہیں آ رہا تھا کیونکہ بوتھ میں شیشہ اُوپر کی طرف صرف تھوڑے سے حصے میں لگا ہوا تھا۔ کلرک شاید نیچے کسی خانے سے پیسے نکال رہا تھا۔
سنی بے چینی سے اُنگلیاں اسٹیئرنگ وہیل پر نچاتے ہوئے بقایا رقم کا انتظار کر رہا تھا۔ اس دوران اس نے دیکھا کہ اگلی کار چند قدم آگے بڑھنے کے بعد رُک گئی تھی اور بدستور راستہ روکے کھڑی تھی اور اس کا انجن اسٹارٹ تھا۔ کلرک ابھی تک بوتھ میں گویا نیچے ہی بیٹھا ہوا تھا۔
اس لمحے سنی کو اس کی چھٹی حس نے خطرے کا احساس دلایا۔ وہ گاڑی بھگا نہیں سکتا تھا۔ آگے راستہ مسدود تھا۔ یکدم اسے گویا کرنٹ سا لگا۔ اس نے انتہائی پھرتی سے دروازہ کھولا لیکن اس وقت تک اگلی گاڑی سے دو آدمی اُتر چکے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں گنیں تھیں۔ اسی لمحے بوتھ میں کلرک بھی نمودار ہوگیا۔ اس کے ہاتھ میں بھی گن تھی۔
وہ یقیناً جعلی کلرک تھا۔ ٹول ٹیکس کے ناکے پر قبضہ ہو چکا تھا اور وہ لوگ یقیناً سنی کے لیے ہی گھات لگائے بیٹھے تھے۔ سنی کو گاڑی سے اُترنے یا ڈیش بورڈ کے خانے سے گن نکالنے کی مہلت نہیں ملی۔ گولیاں چلیں اور دُنیا اس کی نظروں میں تاریک ہوگئی۔ وہ اس طرح گاڑی سے باہر لٹک آیا کہ اس کا سر نیچے تھا اور پائوں گاڑی میں ہی پھنسے رہ گئے تھے۔ اس کے چہرے، گردن اور جسم کے کئی دوسرے حصوں میں گولیاں لگی تھیں۔
گاڑی سے اُترنے والے دونوں آدمیوں کو جب اس کی موت کا یقین ہوگیا تو انہوں نے فائرنگ بند کی اور ان میں سے ایک نے قریب آ کر سنی کے چہرے پر ایک ٹھوکر رسید کی۔ یہ محض نفرت کا اظہار تھا ورنہ ان کا کام تو مکمل ہو چکا تھا۔
جعلی کلرک بھی بوتھ سے نکل آیا۔ چند لمحے بعد تینوں قاتل گاڑی میں بیٹھ کر تیز رفتاری سے روانہ ہو چکے تھے۔ سنی کے پیچھے آنے والے مسلح افراد ان کا تعاقب بھی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ راستے میں سنی کی بڑی سی کار حائل تھی۔
انہوں نے جب وہاں پہنچنے پر یہ منظر دیکھا اور سنی کو مردہ پایا تو فوراً اپنی کار واپسی کے لیے گھمائی اور تیز رفتاری سے لانگ بیچ کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستے میں انہیں جو پہلا پبلک فون بوتھ نظر آیا، اس پر رُک کر ان میں سے ایک نے ہیگن کو فون کیا۔
’’سنی کو ٹول ٹیکس کے ناکے پر قتل کر دیا گیا ہے۔‘‘ اس نے غیرجذباتی لہجے میں ہیگن کو اطلاع دی۔
ہیگن اس وقت گھر کے کچن میں کھڑا تھا جب اس نے یہ کال ریسیو کی۔ ڈون کی بیوی جسے تقریباً سب لوگ ’’ماما کارلیون‘‘ کہہ کر پکارتے تھے، اس کے قریب ہی موجود تھی اور کچھ پکار رہی تھی۔ ہیگن کو بذات خود شدید دھچکا لگا تھا لیکن وہ نہیں چاہتا تھا کہ ماما کارلیون یہ خبر یوں اچانک سنے۔ اس لیے اس نے اپنی آواز کو ہموار رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔ تم مینزا کے گھر چلے جائو اور اس سے کہو کہ فوراً یہاں آئے۔ وہی تمہیں بتائے گا کہ کیا کرنا ہے۔‘‘
ماما کارلیون کو اگرچہ کسی گڑبڑ کا احساس ہوگیا تھا تب بھی اس نے اس کا اظہار نہیں ہونے دیا اور بدستور اپنے کام میں منہمک رہی۔ ڈون اور اس کے لوگوں کے ساتھ رہ کر اس نے یہ سیکھا تھا کہ ناآگہی میں بڑی راحت تھی۔ کسی ناخوشگوار واقعے کے بارے میں اس وقت تک جاننے کی کوشش نہ کرو جب تک کوئی خود آ کر اس کے بارے میں نہ بتائے۔ اس طرح مزید چند لمحے، چند گھنٹے یا چند روز آپ کرب و اذیت سے بچ سکتے تھے۔
ہیگن جلدی سے فون بند کر کے آفس میں آ گیا۔ دروازہ اس نے بند کرلیا۔ تب اس کا جسم یکایک لرزنے لگا۔ اس کی ٹانگوں میں جان نہ رہی۔ وہ صوفے پر بیٹھ گیا اور اس نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا۔ آنسو خود بہ خود اس کے رُخساروں پر پھسلتے آ رہے تھے۔
ان آنسوئوں کے پیچھے یادوں کی ایک طویل فلم چل رہی تھی۔ اس کا بچپن، لڑکپن اور جوانی سنی کے ساتھ گزری تھی۔ اس کی بدولت اسے اس گھر میں اس کے بھائیوں جیسا مقام ملا تھا۔ سنی دوسروں کے لیے خواہ کیسا بھی تھا لیکن ہیگن کے ساتھ اس نے ہمیشہ محبت اور نرمی کا رویہ رکھا تھا۔
اس کا دل ماما کارلیون کے بارے میں بھی سوچ کر پھٹا جا رہا تھا۔ اس عورت کے تین بیٹوں میں سے کوئی بھی اس کے پاس نہیں رہا تھا۔ مائیکل روپوش ہونے کے لیے سسلی چلا گیا تھا۔ فریڈ کو ذہنی اور اعصابی صحت کی بحالی کے لیے لاس ویگاس بھیج دیا گیا تھا اور سنی اس دُنیا میں نہیں رہا تھا۔ کیسی بدنصیب ماں تھی! دُنیا کی سب آسائشیں میسر ہوتے ہوئے اسے کسی اولاد کی طرف سے سکھ نہیں تھا۔
چند منٹ بعد آخر ہیگن نے خود کو سنبھالا اور چند ضروری فون کئے۔ اس نے ٹیسو کو بھی وہیں طلب کرلیا۔ رزی کو بھی اس نے یہ خبر دے دی لیکن اسے ہدایت کی کہ ابھی کونی کو نہ بتائے اور اپنے رویّے سے بھی کوئی غیر معمولی بات ظاہر نہ ہونے دے۔
اس کے بعد ہیگن ایک بار پھر صوفے پر ڈھیر ہوگیا۔ اب اسے سب سے مشکل مرحلہ درپیش تھا۔ اب اسے ڈون کو اس واقعے کی اطلاع دینی تھی۔ ڈون اس وقت سویا ہوا تھا۔ ڈاکٹر اسے خواب آور دوا دے کر سلاتے تھے۔ اسے ایسی نیند سے جگا کر ایسی خبر سنانا بڑا اعصاب شکن کام تھا۔ نہ جانے ڈون کا ردعمل کیا ہوتا؟
ہیگن کا تاسف یہ سوچ کر بھی بڑھ رہا تھا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران اگر معاملات سنی کے بجائے ڈون کے ہاتھ میں آ جاتے تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔
اس کے ساتھ ساتھ اسے خود اپنے بارے میں بھی سوچ کر افسوس ہو رہا تھا۔ وہ شاید اس خاندان کے لیے اتنا اچھا مشیر ثابت نہیں ہو سکا تھا جتنا ڈینڈو تھا! ڈینڈو کے دور میں کارلیون فیملی پر اتنی بڑی تباہی نہیں آئی تھی۔
اسے سوگوار بیٹھے کچھ دیر گزر گئی۔ پھر باہر گاڑیاں رُکنے کی آوازیں سن کر وہ اپنے خیالات کی دُنیا سے باہر آیا۔ لوگوں کی آمد شروع ہوگئی تھی۔ اب اسے ڈون کو یہ خبر سنانے کے لیے خود کو تیار کرنا تھا۔ وہ مصنوعی سہارے کی تلاش میں اُٹھ کر اس الماری کی طرف بڑھا جس میں بوتلیں رکھی تھیں۔
اس نے اپنے لیے پیگ تیار کیا۔ اسی اثناء میں دروازہ کھلنے کی آواز سن کر گھوم کر دیکھا۔ ڈون دروازے میں کھڑا تھا۔ وہ مکمل سوٹ میں تھا۔ سر پہ ہیٹ بھی تھا۔ وہ گویا کہیں جانے کے لیے تیار تھا۔
’’میرے لیے بھی ایک ڈرنک تیار کرنا۔‘‘ اس نے آگے آتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا۔ وہ آ کر اپنی مخصوص ریوالونگ چیئر پر بیٹھ گیا۔
ہیگن نے سحرزدہ سے انداز میں اس کے لیے ڈرنک تیار کی اور اس کے سامنے رکھ کر خود صوفے پر بیٹھ گیا۔ ڈون اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ٹھہری ٹھہری مخصوص گونجیلی آواز میں بولا۔ ’’میری بیوی سونے کے لیے لیٹی تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور اب ہمارے خاص آدمیوں کی آمد بھی شروع ہوگئی ہے ہیگن! میرے وکیل، میرے مشیر! کیا تم بُری خبر مجھے سب سے آخر میں سنائو گے۔‘‘ (جاری ہے)