Friday, September 20, 2024

God Father | Episode 13

سنی کے قتل سے پورے ملک کی انڈر ورلڈ میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ اس کے ساتھ یہ خبر بھی پھیل چکی تھی کہ ڈون اب بستر پر نہیں ہے اور معاملات سنبھالنے کے قابل ہوچکا ہے۔ سنی کے جنازے اور تدفین کے موقع پر جن لوگوں نے اسے دیکھا تھا، ان میں پانچوں فیملیز کے مخبر بھی شامل تھے۔ انہوں نے فیملیز کو اطلاع دی کہ ڈون کافی حد تک ٹھیک ٹھاک نظر آرہا تھا۔ چنانچہ فیملیز کو اب کارلیون فیملی کی طرف سے خوفناک ردعمل کا اندیشہ تھا۔ انہوں نے تو اس امید پر سنی کو مروایا تھا کہ شاید بستر پر پڑے ہوئے ڈون میں جوابی طور پر کوئی بڑی کارروائی کرنے کی ہمت نہ ہو اور وہ صلح میں ہی عافیت سمجھے لیکن اس کی صحت یابی اور پوری طرح فعال ہونے کی خبر سن کر انہیں اندیشہ محسوس ہونے لگا کہ انہیں بہرحال ڈون کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے گھبراہٹ کے عالم میں دفاع کی تیاریاں شروع کردی تھیں لیکن جو کچھ ہوا، وہ اس کے برعکس تھا۔
سنی کی آخری رسوم سے فارغ ہونے کے کچھ دن بعد کارلیون فیملی کی طرف سے پانچوں فیملیز کے پاس قاصد بھیجے گئے کہ اب امن قائم کرنے کے لیے اقدامات کئے جائیں۔ بے مقصد اور بے معنی خونریزی بہت ہوچکی، اب یہ سلسلہ رکنا چاہئے۔ صرف یہی نہیں ڈون نے بہت بڑے پیمانے پر ایک میٹنگ کی تجویز بھی پیش کی جس میں ملک بھر کی فیملیز کے نمائندے شریک ہوں اور متحارب فریق وہاں سب کے سامنے اپنا اپنا موقف بیان کریں۔
اس تجویز کو بہت سراہا گیا اور خاموشی سے بڑے پیمانے پر ایک میٹنگ کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ میٹنگ کے لیے ایک بینک کی عمارت منتخب کی گئی جس میں اوپر کی منزل پر ایک بڑا آڈیٹوریم تھا۔ اس بینک میں بھی ڈون کے شیئرز تھے۔
اس کانفرنس میں امریکا کے تمام شہروں کے ڈون اپنے اپنے قانونی مشیر سمیت شریک ہوئے۔ باقاعدہ کسی بہت بڑی کاروباری کانفرنس کا سماں تھا۔ تمام ڈون مقررہ وقت پر پروقار لباس میں کانفرنس میں شرکت کے لیے آڈیٹوریم میں پہنچ گئے تھے۔ ظاہر یہی کیا گیا تھا کہ بینکوں کی مختلف برانچز کے عہدیداروں کا اجلاس ہورہا ہے۔ نیویارک کی ’’فیملیز‘‘ ملک میں طاقتور ترین فیملیز تھیں اور ان میں سے طاقتور ڈون کارلیون فیملی تھی۔ انہی کے آدمی حفاظتی انتظامات کے سلسلے میں بینک کے چاروں طرف اور مختلف دروازوں پر تعینات تھے مگر وہ سب کے سب بینکوں کے گارڈز کی وردیوں میں تھے۔
کسی بہت بڑے کاروباری اجلاس کی سی صورت میں کانفرنس کی کارروائی شروع ہوئی۔ ڈون نے متاثرکن انداز میں اپنا موقف پیش کیا۔ جس کا لب لباب یہ تھا کہ اگر اس نے منشیات کے کاروبار میں شریک ہونا مناسب نہیں سمجھا تھا اور سولوزو کی پیشکش کے جواب میں انکار کردیا تھا تو اس میں کیا بری بات تھی کہ اس نے ٹیگ فیملی کی پشت پناہی سے اس پر قاتلانہ حملہ کرا دیا؟
ٹیگ فیملی اور دیگر چار فیملیز نے بھی اپنا اپنا موقف پیش کیا۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا۔ بیشتر ڈون ان سے متفق نہیں تھے۔ ان کی تقریروں کا اہم نکتہ یہی تھا کہ فیملیر کو بہرحال ہر کام میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے تھا۔ ڈون کارلیون نے انکار کرکے کوئی اچھی روایت قائم نہیں کی تھی۔ جس کے جواب میں ڈون کارلیون کو ایک بار پھر تقریر کرنا پڑی اور اس نے مدلل انداز میں کہا کہ اپنے فیصلے دوسروں پر ٹھونسنا بھی کوئی اچھی روایت نہیں۔
کچھ نمائندوں نے ڈون کارلیون سے سفارش کی کہ اسے بہرحال اب اس تجویز پر غور کرنا چاہئے۔ منشیات کا کاروبار بہرحال آنے والے دنوں کا سب سے بڑا کاروبار تھا اور مافیا اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتی تھی۔ ان باتوں پر سب نے اتفاق کیا کہ غلط فہمیاں دور ہونی چاہئیں، خونریزی رکنی چاہئے۔ تمام ڈون اور ان کے مشیر سسلی سے تعلق رکھنے والے تھے اور ان کا اپنا یا ان کی کسی نہ کسی نسل کے، کسی نہ کسی آدمی کا سسلی کی اصلی مافیا سے کبھی نہ کبھی، کوئی نہ کوئی تعلق رہ چکا تھا۔
کانفرنس کا انعقاد بہرحال مفید ثابت ہوا۔ فیملیز کے درمیان خونریزی رک گئی۔ اس کے بعد ڈون کارلیون کے سامنے مسئلہ مائیکل کو سسلی سے واپس بلانے کا تھا۔ اسے اس بات کی زیادہ فکر نہیں تھی کہ کسی فیملی یا سولوزو کا کوئی آدمی اس سے انتقام لینے کی کوشش کرے گا اور یوں اس کی سلامتی کو خطرہ ہوگا۔ ڈون کو اصل خطرہ پولیس سے تھا کہ وہ مائیکل کو کیپٹن کلس اور سولوزو کے قتل کے الزام میں پکڑ لے گی اور پھر اسے سزائے موت یا طویل سزائے قید دلوانا زیادہ مشکل کام نہیں ہوگا۔
مائیکل کے بارے میں سوچ بچار اور منصوبہ بندیاں کرتے مزید ایک سال گزر گیا۔ اس دوران کئی تجاویز ڈون کے سامنے پیش کی گئیں لیکن اسے ان میں سے کوئی بھی پسند نہ آئی۔
آخرکار اس مسئلے کا حل بھی نیویارک کی فیملیز میں سے ایک کی طرف سے آیا۔ یہ تجویز ڈون کے دل کو لگی۔ قصہ یہ تھا کہ ایک فیملی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کو ایک ناکردہ جرم میں پکڑ لیا گیا۔ پولیس کی تحویل میں اس کے ساتھ بہت سختی اور بے انصافی ہوئی۔ اسے اس بات پر بہت غصہ تھا۔ کچھ عرصے کی سزا کاٹ کر وہ جیل سے باہر آیا تو اس نے نہایت سکون سے کئی گواہوں کی موجودگی میںان دونوں پولیس والوں کو گولی مار دی جنہوں نے اس کے ساتھ زیادتیاں کی تھیں۔
اب وہ اس جرم میں دوبارہ جیل میں تھا اور آثار بتا رہے تھے کہ اسے سزائے موت ہوجائے گی۔ تجویز یہ پیش کی گئی تھی کہ وہ نوجوان کیپٹن کلس اور سولوزو کا قاتل ہونے کا بھی اعتراف کرلے۔ اسے مرنا تو تھا ہی… وہ یہ دونوں قتل اپنے کھاتے میں ڈال کر بھی مر سکتا تھا۔ مطالبہ یہ کیا گیا تھا کہ ڈون اس نوجوان کے اہل خانہ کو ایک بڑی رقم یکمشت دے دے اور اس کے بعد کم ازکم بیس سال کے لیے ان کا ایک مخصوص رقم کا وظیفہ باندھ دے۔
نوجوان مائیکل کی عمر کا تھا۔ اس کا قد کاٹھ بھی بالکل مائیکل جیسا ہی تھا اور اس کی شخصیت میں بڑی حد تک مائیکل کی شباہت آتی تھی۔ اس واقعے کے چشم دید گواہ اگر پولیس کو میسر تھے تو وہ بھی شناختی پریڈ کے موقع پر دھوکا کھا سکتے تھے۔
کافی غوروخوض کے بعد یہ تجویز ڈون کو پسند آئی اور اس نے اس کی منظوری دے دی۔ جیل میں اس نوجوان کو کیپٹن کلس اور سولوزو کے قتل کے واقعے کے بارے میں تمام تر باریکیوں کے ساتھ تفصیلات سمجھائی گئیں تاکہ اس کے اقبالی بیان میں کوئی جھول نہ محسوس ہو۔ جیل میں جو وکیل اس سے ملاقات کے لیے جاتا تھا، اس کے ذریعے تمام تفصیلات اس طرح اس کے ذہن نشین کرائی گئیں کہ وہ محسوس کرنے لگا، واقعی ان دونوں افراد کو بھی اسی نے قتل کیا تھا۔
اس کے اقبالی بیان نے اخبارات میں ہلچل مچا دی۔ پولیس اور عدالت نے اس کے بیان کو قبول کرلیا اور اسے مجموعی طور پر چار افراد کے قتل میں سزائے موت سنا دی گئی۔ اس کے باوجود ڈون نے فوری طور پر مائیکل کو واپسی کا پیغام نہیں بھجوایا۔ وہ بہت احتیاط پسند آدمی تھا۔ اس نے اس وقت تک انتظار کیا جب تک نوجوان کی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہوگیا۔
٭…٭…٭
مائیکل جس بحری جہاز کے ذریعے ایک ماہی گیر کی حیثیت سے سسلی پہنچا تھا، اس نے اسے پالرمو کی بندرگاہ پر اتارا تھا۔ وہاں سے اسے جزیرے کے مرکز کی طرف لے جایا گیا تھا جہاں مافیا کی متوازی حکومت قائم تھی۔ وہاں کی مقامی مافیا کا چیف ڈون کارلیون کا کسی وجہ سے احسان مند تھا۔ اسی علاقے میں کارلیون نام کا وہ گائوں بھی تھا جس کی یاد میں مائیکل کے باپ نے اپنا اصل نام چھوڑ کر کارلیون رکھ لیا تھا۔
اب وہاں ڈون کارلیون کا کوئی دورپار کا عزیز رشتے دار بھی نہیں تھا۔ عورتیں
بڑھاپے اور بیماریوں کی وجہ سے مر گئی تھیں، مرد لڑائی جھگڑوں اور انتقام در انتقام کی نذر ہوگئے تھے یا پھر امریکا، برازیل کی طرف نکل گئے تھے۔ مائیکل یہ جان کر حیران رہ گیا تھا کہ اس غربت زدہ گائوں میں آبادی کی مناسبت سے قتل کی وارداتوں کی شرح دنیا میں زیادہ تھی۔
مائیکل کو مقامی مافیا چیف کے ایک عمر رسیدہ انکل کے گھر میں اس کے ساتھ ٹھہرایا گیا تھا۔ اس بوڑھے کا نام ٹازا تھا اور وہ اس علاقے کا اکلوتا ڈاکٹر بھی تھا۔ مافیا کے مقامی چیف کا نام ٹوما تھا۔ وہ پچپن سے اوپر کا تھا جبکہ اس کا انکل ڈاکٹر ٹازا ستّر سے اوپر کا تھا۔
مافیا کے مقامی چیف یعنی ڈون ٹوما کا سب سے بڑا کام ایک امیر خاندان کی طویل و عریض جاگیر اور زمینوں کو غریبوں کی دست برد اور قبضے سے بچانا تھا۔ سسلی کے قانون کے مطابق غیرآباد پڑی ہوئی کسی بھی زمین کو کوئی بھی شخص کاشتکاری کی غرض سے خرید سکتا تھا لیکن اس امیر خاندان کی جو زمین غیر آباد پڑی ہوئی تھی، اس کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔
اس کے علاوہ ڈون ٹوما میٹھے پانی کے مقامی کنوئوں کا بھی مالک تھا۔ پانی، ظاہر ہے زندگی کے لیے ناگزیر تھا اور اس پر ڈون کی اجارہ داری تھی۔ یہ اس کی بہت بڑی تجارت تھی اور اس پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے اس نے علاقے میں ڈیم بنانے کی رومن حکومت کی کوششیں بھی ناکام بنا دی تھیں تاہم ڈون ٹوما بھی اس اعتبار سے پرانے انداز کا مافیا چیف تھا کہ وہ منشیات کی تجارت یا عورتوں کے دھندے میں ہاتھ نہیں ڈالتا تھا جبکہ پالرمو یا اس طرح کے دوسرے بڑے شہروں میں جو نوجوان مافیا شخصیتیں ابھر رہی تھیں، وہ کسی بھی دھندے کو شجر ممنوع نہیں سمجھتی تھیں۔ اس کا فلسفہ یہ تھا کہ بس دولت آنی چاہئے تھی، خواہ کسی بھی ذریعے سے آئے۔
ڈون کا مہمان ہونے کی حیثیت سے مائیکل کو کسی بھی معاملے میں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن اس نے اپنی اصلیت کو پوشیدہ رکھنے اور اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے میں ہی مصلحت سمجھی تھی۔ اسے ہدایات بھی کچھ اسی قسم کی ملی تھیں۔ زیادہ تر وہ اپنے آپ کو ڈاکٹر ٹازا کی جائداد کی حدود میں ہی رکھتا تھا۔
ڈاکٹر ٹازا کے بال برف کی طرح سفید تھے لیکن صحت عمدہ تھی۔ اس کا قد بھی سسلی کے عام باشندوں سے اونچا یعنی تقریباً چھ فٹ تھا۔ عمر ستّر سال سے زیادہ ہونے کے باوجود اس نے جوانی کے مشاغل ترک نہیں کئے تھے۔ ہر ہفتے وہ بڑی باقاعدگی سے جوان اور حسین پیشہ ور خواتین کو خراج تحسین پیش کرنے پالرمو جاتا تھا۔
اس کا دوسرا محبوب مشغلہ مطالعہ تھا۔ اسے صرف اپنے پیشے سے متعلق یعنی میڈیکل کی کتابیں پڑھنے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ باقی وہ دنیا کی ہر چیز بڑی دلچسپی سے پڑھتا تھا اور بڑے گنجلک موضوعات پر اپنے اردگرد کے لوگوں سے تبادلہ خیال کرنے کی کوشش کرتا تھا لیکن اس کے اردگرد چونکہ صرف سادہ لوح، اَن پڑھ اور کھیتی باڑی کرنے والے لوگ پائے جاتے تھے، اس لیے وہ بیچارے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ پیٹھ پیچھے وہ یہی کہتے تھے کہ سنکی بڈھا نہ جانے کہاں کہاں کی ہانکتا رہتا ہے۔
مائیکل کی صورت میں ڈاکٹر ٹازا کو ایک بہتر سامع مل گیا تھا۔ کبھی کبھی ڈون ٹوما بھی آجاتا تو وہ تینوں شام کو بڑے سے باغ میں بیٹھ کر دیر تک باتیں کرتے۔ باغ میں پھلوں سے لدے درختوں کے علاوہ ماربل کے بہت سے مجسمے بھی تھے۔ وہاں ویسے بھی ہر جگہ مجسمے نصب کرنے کا رواج بہت زیادہ تھا۔ باغوں میں تو ایسا لگتا تھا گویا مجسمے درختوں کے ساتھ اگتے ہوں۔
یہاں مختلف پھلوں اور پھولوں کی خوشبو پھیلی رہتی اور مدھم ہوا کے جھونکے حواس میں فرحت کا احساس اور بڑھا دیتے۔ ایسے میں ڈون مقامی مشروب کی چسکیاں لیتے ہوئے ماضی میں کھو جاتا اور مائیکل کو وہاں کی تاریخ، کلچر اور مافیا کے پس منظر کے بارے میں بتاتا۔
مافیا کا اصل مطلب ’’پناہ گاہ‘‘ تھا لیکن رفتہ رفتہ یہ اس گروہ کا نام بن گیا جو ان حاکموں کے خلاف جدوجہد کرنے لگا تھا جنہوں نے ہمیشہ غریبوں کا خون چوسا تھا، انہیں کچلا تھا اور ان کی محنت پر خود عیش کرتے رہے تھے۔ سسلی میں یہ عمل دنیا کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ طویل عرصے سے چلا آرہا تھا۔ پولیس حاکموں کی آلۂ کار رہی تھی جس کی مدد سے وہ اَن پڑھ اور غریب عوام کو کچلتے تھے اور ان پر اپنا جابرانہ تسلط برقرار رکھتے تھے۔ اس لیے ان طبقات میں پولیس نفرت کا نشانہ تھی۔ انہیں آپس میں کسی کو گالی دینا ہوتی تھی تو وہ اسے پولیس والا کہتے تھے۔
مافیا روز بروز طاقتور اور منظم ہوتی گئی۔ لوگ اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں اور مظالم کے سلسلے میں ان کے پاس فریادیں لے کر جانے لگے جو ان سے رازداری کا عہد لیتی تھی۔ مظلوم اور پسے ہوئے افراد رازداری کے اتنے عادی ہوگئے کہ اگر کوئی اجنبی ان سے کہیں کا راستہ پوچھتا تو وہ اسے بھی کوئی جواب نہ دیتے۔ ان کا کوئی آدمی قتل ہوجاتا اور انہوں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوتا، تب بھی وہ قاتل کا نام نہ لیتے۔ کسی کی بیٹی کی عزت لٹ جاتی اور وہ مجرم سے واقف ہوتا، تب بھی اس کا نام زبان پر نہ لاتا۔
مافیا بنی تو ظالموں، جابروں، حاکموں اور دولت مندوں کے خلاف خفیہ اور مسلح جدوجہد کے لیے لیکن رفتہ رفتہ خود غریب، مظلوم اور فریادی طبقات بھی اس کی کارروائیوں کی زد میں آنے لگے۔ ان کے مسائل میں اضافہ کرنے والا گویا ایک اور طبقہ پیدا ہوگیا۔ پھر لوگ ان کی آپس کی چپقلشوں کی زد میں بھی آتے تھے۔
رفتہ رفتہ مافیا کا ’’رابن ہڈ‘‘ والا کردار ختم ہوگیا اور وہ خود استحصالی طبقوں کی ساتھی بن گئی۔ حاکموں، دولت مندوں اور لٹیروں نے انہیں اپنا شریک کار اور محافظ بنا لیا۔ دولت جمع کرنے اور لوٹ مار سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کے لیے گویا دونوں کا گٹھ جوڑ ہوگیا۔ جن طبقات کے خلاف جدوجہد کے لیے مافیا بنی تھی، درحقیقت وہ انہی کی آلۂ کار بن گئی۔ غریب، مظلوم اور فریادی بے چارے بدستور نقصان میں ہی رہے۔ مافیا درحقیقت انہی کی طرف تھی جو انہیں بھتے یا کسی اور شکل میں خراج ادا کرسکتے تھے۔ خالی ہاتھ والے خالی ہاتھ ہی رہے۔
مائیکل کا ٹوٹا ہوا جبڑا صحیح طور پر جڑ نہیں سکا تھا اور اسے اسی حالت میں فرار ہونا پڑا تھا، اس لیے اسے مناسب علاج بھی میسر نہیں آیا تھا جس کے نتیجے میں اس کا منہ مستقل طور پر ٹیڑھا ہوگیا تھا اور کبھی کبھار اس کے جبڑے میں درد بھی اٹھتا تھا جس کے لیے ڈاکٹر ٹازا اسے کچھ دردکش گولیاں دے دیتا تھا۔
ڈاکٹر نے اسے پالرمو لے جاکر باقاعدہ سرجری کرا کے جبڑا ٹھیک کرانے کی پیشکش کی لیکن جب مائیکل نے اس کا تفصیلی طریقۂ کار سنا تو اس نے اتنی زحمت اور تکلیف اٹھانے سے انکار کردیا۔ ڈاکٹر ٹازا نے خود اس کا تفصیلی علاج کرنے کی پیشکش کی لیکن مائیکل اسے بھی ٹالتا رہا کیونکہ اسے پتا چلا تھا ڈاکٹر ٹازا نے باقاعدہ پڑھ لکھ کر ڈگری نہیں لی تھی بلکہ اسے مافیا نے ڈاکٹر بنوایا تھا۔ مافیا جسے جو ڈگری چاہتی، دلوا سکتی تھی اور جس کو جس پیشے میں چاہتی، داخل کروا سکتی تھی۔ مائیکل کے یہ سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے کہ جس سوسائٹی میں یہ سب کچھ ہورہا تھا، اس کا انجام کیا ہوسکتا تھا۔ یہ ایک کینسر تھا جو، جس سوسائٹی، جس معاشرے میں بھی پھیلتا، رفتہ رفتہ اسے کھا جاتا۔ سسلی اس کی ایک مثال تھا جو اب بدروحوں کا مسکن معلوم ہوتا تھا۔ اس کے زیادہ تر لوگ روزی کی تلاش میں یا پھر قتل ہونے سے بچنے کے لیے دوسرے ملکوں کی طرف نکل گئے تھے۔
مائیکل کے پاس سوچ


کرنے کے لیے بہت وقت ہوتا تھا۔ دن میں وہ دیہات میں لمبی چہل قدمی کے لیے نکل جاتا۔ دو چرواہے مقامی بندوقیں لیے اس کے ساتھ ہوتے۔ یہ چرواہے درحقیقت کرائے کے قاتل تھے اور مائیکل کی حفاظت کے لیے ڈون کی طرف سے تعینات کئے گئے تھے۔
مائیکل آوارہ گردی کے لیے نکلتا تو علاقے کی خوبصورتی دیکھ کر حیران رہ جاتا اور سوچتا کہ ان لوگوں کو کیسی بدنصیبی نے گھیرا ہوگا جو اتنی خوبصورت جگہوں اور فطری حسن سے مالا مال نظاروں کو چھوڑ کر چلے گئے۔ کبھی کبھی مائیکل یونہی گھومتا پھرتا اپنے آبائی گائوں کارلیون چلا جاتا جس کی آبادی تقریباً اٹھارہ ہزار تھی۔ اٹھارہ ہزار کی اس آبادی میں گزشتہ ایک سال کے دوران ساٹھ افراد قتل ہوئے تھے۔ اس گائوں پر ہر وقت موت کے مہیب سائے منڈلاتے محسوس ہوتے تھے۔
مسولینی نے سسلی کو مافیا سے پاک کرنے کے لیے جس شخص کو پولیس چیف بنا کر بھیجا تھا، اس نے پورے جزیرے میں تین فٹ سے اونچی بیرونی دیوار تعمیر کرنا ممنوع قرار دیا تھا اور جو دیواریں اس سے زیادہ اونچی تھیں، ان کا فاضل حصہ تڑوا دیا تھا تاکہ مافیا کے لوگ قتل و غارت اور گھات لگانے کے لیے انہیں استعمال نہ کرسکیں۔ اس تدبیر کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا تھا۔
آخرکار اس نے ہر اس شخص کو گرفتار کرکے قید خانوں میں ڈلوا دیا تھا جس پر مافیا کاآدمی ہونے کا شبہ ہوتا تھا لیکن دوسری عالمگیر جنگ کے بعد جب اتحادی فوجوں نے سسلی کے جزیرے پر قبضہ کیا یا اپنے الفاظ میں جزیرے کو ’’آزاد‘‘ کرایا تو عارضی طور پر وہاں امریکی فوج نے حکومت قائم کی۔ امریکی فوجیوں کی نظر میں ہر وہ آدمی جمہوریت پسند تھا جسے ’’فاشسٹ‘‘ حکومت نے جیل میں ڈالا ہوا تھا۔ چنانچہ انہوں نے ان لوگوں کو جیلوں سے نکال کر مختلف عہدوں پر فائز کردیا۔ یوں مافیا کے بہت سے لوگ گائوں، دیہات کے میئر اور فوجی حکمرانوں کے ترجمان بن گئے یا انہیں دوسرے اہم عہدے مل گئے۔ اس طرح مافیا کو دوبارہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہونے کا موقع مل گیا۔
مائیکل کو اطالوی زبان کی پہلے سے ہی کچھ شدبد تھی۔ وہ تھوڑا بہت لکھ پڑھ بھی لیتا تھا اور سمجھ، بول بھی لیتا تھا۔ سسلی میں سات ماہ کے قیام کے دوران وہ اس زبان سے مزید آشنا ہوگیا تھا تاہم اسے مقامیوں کی طرح زبان پر عبور حاصل نہیں تھا۔ اس کے باوجود اسے مقامی سمجھا جاسکتا تھا کیونکہ بہت سے ایسے اطالوی بھی تھے جنہوں نے دوسرے ملکوں میں پرورش پائی تھی اور وہ اپنی زبان صحیح طور پر نہیں بول پاتے تھے۔ اس کے علاوہ مائیکل کو اس کے ٹیڑھے جبڑے کی وجہ سے بھی مقامی سمجھا جاسکتا تھا کیونکہ مقامیوں میں اس قسم کے جسمانی نقائص عام تھے جنہیں معمولی سرجری یا پھر بہت اچھے علاج کے ذریعے درست کیا جاسکتا تھا لیکن مقامی لوگوں کو یہ سہولتیں میسر نہیں تھیں۔
مائیکل کو کبھی کبھی ’’کے‘‘ بھی یاد آتی تھی اور یہ سوچ کر اس کے دل میں درد کی لہر سی ابھرتی تھی اور وہ اپنے ضمیر پر بوجھ سا محسوس کرتا تھا کہ وہ آتے وقت اسے خداحافظ بھی نہیں کہہ سکا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ زندگی میں اگر آئندہ کبھی اس سے ملاقات ہوئی تب بھی پرانا رشتہ بحال نہیں ہوسکے گا۔
ڈون ٹوما سے بھی اب اس کی ملاقات کم ہی ہوتی تھی۔ ڈون نے ڈاکٹر ٹازا کے ولا پر آنا کم کردیا تھا۔ وہ اپنے کچھ مسائل میں الجھا ہوا تھا۔ پالرمو میں جنگ کی تباہ کاریاں ختم ہونے کے بعد تعمیر نو کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا، پیسہ گردش میں آچکا تھا، معاش اور روزگار کے ذرائع پیدا ہورہے تھے۔ ایسے میں مافیا کی نئی نسل نے اندھیر مچانا شروع کردیا تھا۔ ان لوگوں کی نظر میں ڈون ٹوما جیسے لوگ پرانی اور مضحکہ خیز نسل کے نمائندے تھے۔ وہ ان کا صرف مذاق ہی نہیں اڑاتے تھے بلکہ انہیں زک پہنچانے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ ڈون ٹوما کچھ اسی قسم کے مسائل میں الجھا ہوا تھا۔
ایک روز مائیکل نے فیصلہ کیا کہ وہ آوارہ گردی کرتا ہوا کارلیون سے بھی آگے پہاڑوں تک جائے گا۔ حسب معمول دونوں چرواہے بندوقیں لیے بطور باڈی گارڈ اس کے ہمراہ تھے۔ یہ باڈی گارڈز اس کے ساتھ اس لیے نتھی نہیں کئے گئے تھے کہ یہاں اسے کارلیون فیملی کے دشمنوں سے کوئی خطرہ تھا بلکہ یہاں ویسے ہی کسی اجنبی کا رہنا اور ادھر ادھر آوارہ گردی کرتے پھرنا، خطرے سے خالی نہیں تھا۔ علاقہ جرائم پیشہ لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ ہر قسم کی وارداتیں عام تھیں۔ راہ چلتے لوگ بھی ان کی لپیٹ میں آجاتے تھے۔
مائیکل اکیلا ادھر ادھر پھرتا تو اسے ایک خاص قبیل کا چور بھی سمجھا جاسکتا تھا جو کھلیان نما جھونپڑیوں میں چوری کرتے تھے۔ دراصل یہاں زمینوں پر کام کرنے والے کارندے وہیں قیام نہیں کرتے تھے۔ ان کے گھر تو اپنی بستیوں میں ہی ہوتے تھے جو عام طور پر زرعی زمینوں سے دور ہوتی تھیں چنانچہ وہ اپنے کاشتکاری کے اوزار یا ہاتھ سے چلنے والی چھوٹی موٹی مشینیں کھیتوں کے قریب ہی چھوڑ جاتے تھے تاکہ روز اٹھا کر نہ لانی پڑیں۔ ان میں سے بعض چیزیں خاصی بھاری ہوتی تھیں۔ یہ چیزیں قدرے حفاظت سے رکھنے کے لیے انہوں نے فارمز، کھیتوں اور باغات کے قریب کھلیان نما جھونپڑیاں بنائی ہوئی تھیں۔
چور انہیں بھی نہیں بخشتے تھے۔ ان میں سے یہ چیزیں چرا کر لے جاتے تھے۔ کاشتکاروں اور زرعی کارندوں نے بھی آخر اس مسئلے کے تدارک کے لیے مافیا ہی کی خدمات حاصل کیں۔ مافیا کے لوگوں نے جن چوروں کو پکڑا، انہیں موقع پر ہی مار ڈالا، کئی افراد محض شک کی بنا پر ہی مارے جاچکے تھے لہٰذا کسی کا محض اس شک کی زد میں آنا بھی موت کے پیغام سے کم نہیں تھا۔
مائیکل کے دونوں محافظوں میں سے ایک تو بالکل اَن پڑھ اورکوڑھ مغز تھا۔ وہ بولتا بھی بہت کم تھا اور اس کا چہرہ ہمیشہ جذبات سے عاری رہتا تھا۔ اس کا نام کیلو تھا۔ دوسرا البتہ معمولی پڑھا لکھا تھا اور اس نے تھوڑی بہت دنیا بھی دیکھی تھی کیونکہ وہ اطالوی نیوی میں ملاح رہ چکا تھا۔ اس کے پیٹ پر ایک ٹیٹو بنا ہوا تھا جو اس علاقے میں ذرا غیر معمولی بات تھی۔ وہ اپنے اس ٹیٹو کی وجہ سے آس پاس مشہور تھا۔ اس کا نام فیب تھا۔
وہ پھولوں اور پھلوں سے لدے باغات اور خوبصورت نظاروں کے درمیان پگڈنڈیوں پر چلے جارہے تھے۔ کبھی کبھی گدھا گاڑیاں ان کے قریب سے گزرتی تھیں۔ مائیکل نے دیکھا تھا کہ یہاں گدھا گاڑیوں پر رنگ برنگا پینٹ کرنے اور طرح طرح کی تصویریں بنانے کا رواج تھا۔ وہ گردوپیش کی ہر چیز سے محظوظ ہوتا جارہا تھا حالانکہ اس کا جبڑا تکلیف دے رہا تھا اور اس کے دبائو کی وجہ سے اس کی دائمی نزلے کی تکلیف بھی بڑھ گئی تھی۔
پندرہ میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد آخر وہ تھک گئے اور مالٹے کے درختوں کے ایک جھنڈ میں چشمے کے قریب کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ کھانے پینے کی کچھ چیزیں وہ ساتھ لائے تھے۔ کھانے کے بعد ان پر سستی چھانے لگی۔ وہ سستانے کے لیے وہیں لیٹ گئے۔ فیب نے اپنے ٹیٹو کی نمائش کرنے کے لیے قمیض کے سارے بٹن کھول دیئے۔
وہیں پس منظر میں رومن طرز تعمیر کا ایک ولا بھی نظر آرہا تھا جو کسی چھوٹے سے قلعے سے کم نہیں تھا۔ اس قلعے سے گائوں کی لڑکیوں کی ایک ٹولی بڑی عمر کی دو عورتوں کی قیادت میں نکلی۔ وہ عورتیں ڈھیلے ڈھالے سیاہ لبادوں میں تھیں۔ لڑکیاں شاید اس مکان کی صفائی ستھرائی اور دیگر کاموں کے لیے آئی تھیں۔ غالباً وہ مکان کسی امیر آدمی کی ملکیت تھا جو اپنی فیملی کے ساتھ سردیوں میں آکر وہاں قیام کرتا تھا۔
لڑکیاں کام سے فارغ ہونے کے بعد چہلیں کرتی اور ایک خاص قسم کے پھول جمع کرتی چلی آرہی تھیں۔ ان میں سے ایک لڑکی پھول جمع کرتی بے
خیالی میں ان کے قریب چلی آئی۔ وہ سب ہی لڑکیاں نوخیز تھیں۔ کسی کی بھی عمر اٹھارہ، انیس سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔ جو لڑکی اکیلی بے خبری میں ان کی طرف چلی آرہی تھی، اس کے ایک ہاتھ میں سیاہ انگوروں کا خوشہ اور دوسرے ہاتھ میں پھول تھے۔
مائیکل ایک درخت کے سہارے نیم دراز مبہوت سا اسے دیکھے جارہا تھا۔ ایسا حسن کبھی اس نے اس قدر سادگی اور معصومیت کے ساتھ یکجا نہیں دیکھا تھا۔ لڑکی کے بال سیاہ گھنگھریالے، آنکھیں غزالی اور رنگت چاندنی جیسی تھی۔ مائیکل کے باڈی گارڈ اسے یوں محویت سے لڑکی کی طرف تکتے دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ ان کے خیال میں مائیکل کے ہوش و حواس پر بجلی گر گئی تھی۔ جب پہلی بار اور محض ایک نظر کسی لڑکی کو دیکھ کر کسی مرد کی یہ حالت ہوتی تھی تو وہاں اس کے لیے یہی اصطلاح استعمال ہوتی تھی کہ اس کے ہوش و حواس پر بجلی گر پڑی۔
عین قریب آکر لڑکی کی نظر ان لوگوں پر پڑی اور اس کے حلق سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ انگوروں کا خوشہ اور پھول اس کے ہاتھوں سے گر گئے۔ پھر وہ پلٹ کر کسی خوف زدہ ہرنی کی طرح بھاگی۔ کیلو اور فیب دھیرے دھیرے ہنس رہے تھے جبکہ مائیکل دم بخود بیٹھا تھا۔ وہ اب بھی لڑکی کو ایک ٹک عقب سے دیکھ رہا تھا۔ دوڑتے وقت اس کے اعضا کا لہرائو، واقعی اس کے ہوش گم کئے دے رہا تھا۔ اس کا دل گویا اس کی کنپٹیوں میں آکر دھڑک رہا تھا۔ دونوں باڈی گارڈ اس کی حالت پر اب باقاعدہ زور زور سے ہنس رہے تھے۔
لڑکی دوسری لڑکیوں اور بڑی عمر کی عورتوں کے پاس پہنچ چکی تھی اور پلٹ کر ہاتھ کے اشاروں سے گھبرائے ہوئے انداز میں انہیں درختوں کے جھنڈ میں مردوں کی موجودگی کے بارے میں بتا رہی تھی۔ مائیکل اتنی دور سے بھی اس کے حسن بلاخیز کی کشش محسوس کرسکتا تھا۔ بڑی عمر کی عورتوں نے غالباً ڈانٹنے کے انداز میں اس سے کچھ کہا۔ پھر وہ سب کی سب آگے چل دیں۔
’’بھئی تمہارے ہوش و حواس پر تو واقعی بجلی گر پڑی۔‘‘ فیب بے تکلفی سے بولا۔ ’’لیکن یہ اتفاق کسی کسی کے ساتھ پیش آتا ہے اور اسے خوش قسمت سمجھا جاتا ہے۔‘‘
مائیکل نے مقامی مشروب کی بوتل سے ایک گھونٹ لیا۔ اس کا سر گھوم رہا تھا۔ اپنی کیفیت پر وہ خود بھی حیران تھا۔ زندگی میں پہلی بار اس کی یہ حالت ہوئی تھی۔ اس کیفیت سے اس کا واسطہ کبھی لڑکپن میں بھی نہیں پڑا تھا۔ ’’کے‘‘ سے پہلی بار تعلق استوار ہوتے وقت بھی اس نے ایسا کچھ محسوس نہیں کیا تھا۔
اس لڑکی کا بیضوی چہرہ اس کے ذہن پر نقش ہوکر رہ گیا تھا اور وہ گویا سرتاپا طلب بن گیا تھا۔ اس کا رواں رواں گویا پکار رہا تھا کہ اگر وہ لڑکی اسے نہ ملی تو وہ ایک عجیب محرومی کی اذیت سے تڑپ تڑپ کر مر جائے گا۔ اس لڑکی کو اس نے پہلی بار دیکھا تھا اور چند لمحوں کے اس نظارے نے ’’کے‘‘ کے تصور کو بھی گویا اس کے ذہن کے نہاں خانوں سے نکال باہر کیا تھا۔
’’کیا وہ اجڈ چرواہے صحیح کہہ رہے تھے؟ کیا واقعی اس کے ہوش و حواس پر بجلی گر پڑی تھی؟‘‘ وہ سوچ رہا تھا۔
فیب بولا۔ ’’ہم گائوں چلتے ہیں… ہم اسے ڈھونڈ نکالیں گے۔ تمہاری حالت کا علاج اب یہی ہے کہ وہ لڑکی تمہیں مل جائے اور کچھ بعید نہیں کہ وہ آسانی سے ’’دستیاب‘‘ ہوجائے۔ ہم خواہ مخواہ پریشان ہورہے ہیں۔ کیا خیال ہے کیلو؟‘‘
کیلو نے اس کی تائید میں سر ہلایا۔ مائیکل کچھ نہ بولا اور ان دونوں کے ساتھ اس گائوں کی طرف چل دیا جہاں پہنچ کر وہ لڑکیاں ان کی نظر سے اوجھل ہوگئی تھیں۔
گائوں، بیشتر دیہات جیسا ہی تھا تاہم وہ ایک قدرے بڑی سڑک کے قریب واقع تھا اس لیے اس کی حالت کچھ بہتر نظر آرہی تھی۔ گائوں کے وسط میں ایک فوّارہ تھا جو گویا یہاں کے دیہات کی روایت تھی۔ چند دکانیں تھیں، وائن شاپ تھی اور ان سب سے پہلے ایک کیفے تھا جس کے برآمدے میں تین میزیں لگی ہوئی تھیں۔
وہ ایک میز پر جاکر بیٹھ گئے۔ گائوں کچھ ویران سا لگ رہا تھا۔ کیفے کا مالک خود انہیں سرو کرنے آیا اور خوش خلقی سے بولا۔ ’’تم لوگ یہاں اجنبی معلوم ہوتے ہو۔ میرے ہاں کی وائن پی کر دیکھو۔ یہاں کے بہترین انگوروں اور مالٹوں سے میرے اپنے بیٹے تیار کرتے ہیں۔ یہ اٹلی کی بہترین وائن ہے۔‘‘
انہوں نے آمادگی ظاہر کردی اور کیفے کا مالک وائن سے بھرا ہوا ایک جگ لے کر آگیا۔ وہ گٹھے ہوئے جسم کا ایک پستہ قد، ادھیڑ عمر آدمی تھا۔ اس کی وائن واقعی اچھی تھی۔ انہوں نے چند گھونٹ بھرنے کے بعد اس کی تعریف کی۔
پھر فیب اس سے مخاطب ہوا۔ ’’مجھے یقین ہے تم یہاں کی سب لڑکیوں کو جانتے ہو گے۔ کچھ دیر پہلے ہم نے چند حسینائوں کو ادھر آتے دیکھا تھا۔ خاص طور پر ان میں سے ایک کو دیکھ کر تو ہمارے دوست کے ہوش و حواس پر بجلی گر پڑی ہے۔‘‘ اس نے مائیکل کی طرف اشارہ کیا۔
کیفے کے مالک نے دلچسپی سے مائیکل کی طرف دیکھا۔ مائیکل جلدی سے بولا۔ ’’اس لڑکی کے بال سیاہ، ریشمی اور گھنگھریالے ہیں، آنکھیں بھی بڑی بڑی اور سیاہ ہیں اور اس کی رنگت چاندنی جیسی ہے مگر اس میں گلابوں کی جھلک بھی ہے۔ کیا گائوں میں کوئی ایسی لڑکی موجود ہے؟ کیا تم اسے جانتے ہو؟‘‘
’’نہیں… میں ایسی کسی لڑکی کو نہیں جانتا۔‘‘ کیفے کے مالک نے رُکھائی سے کہا اور اندر چلا گیا۔
انہوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے دھیرے دھیرے جگ ختم کیا۔ پھر مزید وائن منگوانے کے لیے اس شخص کو پکارا مگر وہ باہر نہیں آیا۔ تب فیب اٹھ کر اندر چلا گیا۔ چند لمحوں بعد وہ واپس آیا تو اس کے چہرے پر تنائو کے آثار تھے۔
وہ دبی دبی سی آواز میں مائیکل سے مخاطب ہوا۔ ’’ہم اس سے جس لڑکی کے بارے میں پوچھ رہے تھے، وہ اس کی اپنی بیٹی ہے۔ وہ اندر غصے سے بھرا بیٹھا ہے اور اپنے دونوں بیٹوں کا انتظار کررہا ہے۔ شاید اس کا ارادہ ہے کہ اس کے بیٹے آجائیں تو وہ تینوں مل کر ہماری خبر لینے کی کوشش کریں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اب کارلیون کی طرف روانہ ہوجانا چاہئے۔‘‘
مائیکل نے سرد سی نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔ اس کے تاثرات بدل گئے تھے۔ ان دونوں باڈی گارڈز کو وہ اب تک ایک نرم خو اور عام سا نوجوان دکھائی دیا تھا لیکن اب یکایک وہ گویا ایک بدلا ہوا انسان دکھائی دے رہا تھا۔ اس کی شخصیت سے کچھ ایسا تحکم جھلکنے لگا تھا جسے محسوس کرکے دوسرے اس کی عزت کرنے پر مجبور ہوسکتے تھے۔ دونوں باڈی گارڈ یک دم اس کے سامنے مرعوب سے نظر آنے لگے۔ مائیکل کا وہاں سے اٹھنے اور روانہ ہونے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا تھا۔ اس نے انہیں حکم دیا۔ ’’اسے ذرا باہر بلا کر لائو۔‘‘
دونوں باڈی گارڈ اپنی بندوقیں سنبھال کر سعادت مندی سے اندر گئے اور چند لمحے بعد کیفے کے مالک کو ساتھ لیے باہر آگئے۔ وہ دونوں اس کے دائیں بائیں چل رہے تھے۔ وہ شخص ان سے خوف زدہ ہرگز نہیں تھا بلکہ اب بھی غصے میں نظر آرہا تھا۔
مائیکل نے کرسی سے ٹیک لگا کر ایک لمحے خاموشی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔ پھر پرسکون لہجے میں کہا۔ ’’مجھے اندازہ ہے کہ میں نے تمہاری بیٹی کے بارے میں اس طرح بات کرکے تمہارے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ اس کے لیے میں تم سے معذرت خواہ ہوں۔ میں اس علاقے میں اجنبی ہوں، یہاں کے رسم و رواج سے ناواقف ہوں لیکن یقین کرو میں نے جو کچھ کہا، اس سے تمہاری یا تمہاری بیٹی کی توہین کرنا ہرگز میرا مقصد نہیں تھا اور نہ ہی میں نے تمہاری بیٹی کو کوئی ایسی ویسی لڑکی سمجھ کر اس کے بارے میں بات کی تھی۔‘‘
اس کے اندازخطابت سے دونوں باڈی گارڈ متاثر نظر آرہے تھے۔ انہوں نے اس سے پہلے مائیکل کو اس طرح بات کرتے نہیں سنا تھا۔ اس کے لہجے میں نرمی کے باوجود ایک قسم کا تحکم، وقار اور دبدبہ تھا۔ اس نے معذرت بھی باوقار انداز میں کی تھی۔
کیفے کے مالک نے


کندھے اچکائے اور اس کے چہرے کی سختی میں کچھ کمی آئی۔ تاہم جب وہ بولا تو اس کا لہجہ تنائو زدہ تھا۔ اس نے پوچھا۔ ’’تم کون ہو اور میری بیٹی سے کیا چاہتے ہو؟‘‘
مائیکل بلاتامل اور بلاہچکچاہٹ بولا۔ ’’میرا نام مائیکل ہے۔ میں امریکی ہوں اور روپوش ہونے کے لیے سسلی آیا ہوں۔ میرے ملک کی پولیس کو میری تلاش ہے، تم چاہو تو میرے بارے میں اسے مطلع کرکے بہت بڑی رقم انعام کے طور پر حاصل کرسکتے ہو لیکن اس طرح تمہاری بیٹی کو شوہر بھی نہیں ملے گا اور وہ باپ سے بھی محروم ہوجائے گی۔‘‘ اس نے ایک لمحہ توقف کیا، پھر بولا۔ ’’میں تمہاری اجازت سے اور تمہاری فیملی کی موجودگی میں نہایت باعزت طریقے سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں ایک باعزت آدمی ہوں۔ تمہیں اور تمہاری ساری فیملی کو بھی باعزت سمجھ رہا ہوں۔ میں تمہاری بیٹی سے مل کر باعزت انداز میں اس سے شادی کی درخواست کرنا چاہتا ہوں۔ اگر بات بن جاتی ہے، وہ مان جانتی ہے، مجھے قبول کرلیتی ہے تو ہم شادی کرلیں گے۔ اگر وہ انکار کردیتی ہے تو آئندہ تم کبھی میری شکل نہیں دیکھو گے۔ مناسب وقت آنے پر میں تمہیں وہ سب کچھ بتا دوں گا جو ایک سسر کو اپنے داماد کے بارے میں معلوم ہونا چاہئے۔‘‘
تینوں آدمی دم بخود سے مائیکل کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کیفے کے مالک کے چہرے پر غصے کے تاثرات اب اتنے شدید نہیں رہے تھے۔ اب ان میں بے یقینی اور تذبذب کی بھی آمیزش ہوچکی تھی۔ آخر اس نے بہت سوچ سوچ کر پوچھا۔ ’’کیا تم دوستوں کے دوست ہو؟‘‘
مائیکل کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ ان الفاظ کا اصل مطلب کیا تھا۔ سسلی میں کوئی براہ راست کسی سے یہ نہیں پوچھتا تھا۔ ’’کیا تم مافیا کے آدمی ہو؟‘‘
درحقیقت وہاں مافیا کا نام ہی نہیں لیا جاتا تھا۔ کوئی خواہ مافیا کو پسند کرتا تھا یا اس سے نفرت کرتا تھا، ڈھکے چھپے الفاظ میں اسے مافیا کو ’’دوست‘‘ ہی کا درجہ دینا پڑتا تھا۔ اس لیے سوال اس طرح کیا جاتا تھا۔ ’’کیا تم دوستوں کے دوست ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ مائیکل نے جواب دیا۔ ’’میں نے کہا نا کہ میں یہاں اجنبی ہوں۔‘‘
کیفے کے مالک نے اس کا سرتاپا جائزہ لیا۔ وہ گویا اسے نظروں ہی نظروں میں پرکھ رہا تھا۔ پھر اس نے دونوں چرواہوں کی طرف دیکھا جو اس وقت باڈی گارڈز کے فرائض انجام دے رہے تھے اور بے خوفی سے بندوقیں سرعام لیے پھر رہے تھے۔ دل ہی دل میں وہ غالباً اس نتیجے پر پہنچا کہ اس طرح دو باڈی گارڈز کے ساتھ پھرنے والا اور روپوشی کی غرض سے ایک ملک سے بھاگ کر دوسرے ملک آجانے والا آدمی، معمولی اور بے حیثیت تو نہیں ہوسکتا۔ تاہم وہ اپنے لہجے میں خفگی کا عنصر برقرار رکھتے ہوئے بولا۔ ’’اتوار کی سہ پہر کو یہاں آجائو۔ میرا نام وٹیلی ہے اور میرا گھر گائوں سے ذرا آگے پہاڑی پر ہے لیکن تم یہیں کیفے میں آجانا۔ میں یہاں سے تمہیں اپنے ساتھ گھر لے چلوں گا پھر بیٹھ کر بات کریں گے۔‘‘
فیب نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا لیکن مائیکل نے اس کی طرف ایسی نظر سے دیکھا کہ وہ گویا بولنا بھول گیا۔ کیفے کا مالک غالباً اس بات سے کچھ اور متاثر ہوا۔ غالباً اسی کا نتیجہ تھا کہ جب مائیکل نے مصافحے کے لیے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے نہ صرف مصافحہ کیا بلکہ قدرے خوش خلقی سے مسکرانے بھی لگا۔ شاید اس کا دل اس سے کہہ رہا تھا کہ اس طرح اچانک اس قسم کا رشتہ مل جانا، اس کے اور اس کی بیٹی کے لیے خوش بختی کا باعث ہوسکتا تھا۔
اس کے بعد آوارہ گردی میں مائیکل کو دلچسپی نہیں رہی۔ انہوں نے کارلیون سے کرائے کی ایک کار لی جس میں ڈرائیور بھی موجود تھا۔ اس کار کے ذریعے وہ دوپہر کے بعد واپس پہنچ گئے۔
اس شام ڈون ٹوما بھی آیا ہوا تھا۔ اسے اور ڈاکٹر ٹازا کو یقینا باڈی گارڈز کی زبانی آج کے واقعے کی خبر مل چکی تھی کیونکہ شام کو جب وہ تینوں باغ میں اکٹھے ہوئے تو ڈاکٹر ٹازا نے مائیکل کی طرف دیکھ کر شریر انداز میں مسکراتے ہوئے ڈون کو یاد دلایا۔ ’’آج ہمارے دوست کے ہوش و حواس پر بجلی گر پڑی ہے۔‘‘
ٹوما مسکرایا اور اس نے مربیانہ انداز میں سر ہلایا۔ مائیکل نے ٹوما سے کہا۔ ’’اتوار کو میں ان لوگوں کے گھر شادی کی بات کرنے جارہا ہوں۔ مجھے کچھ رقم کی ضرورت ہوگی۔ میں ان لوگوں کے لیے تحائف خریدنا چاہتا ہوں اس کے علاوہ میرے پاس گاڑی بھی ہونی چاہئے۔‘‘
ڈون ٹوما نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’رقم تمہیں صبح مل جائے گی اور گاڑی کے لیے میں فیب سے کہہ دوں گا۔ اسے مشینی چیزوں کی کچھ سمجھ بوجھ ہے، وہ تمہارے لیے کوئی سیکنڈ ہینڈ گاڑی خرید لائے گا۔‘‘ پھر ایک لمحے کے توقف کے بعد بولا۔ ’’میں اس فیملی کو جانتا ہوں۔ اچھے معزز لوگ ہیں، گئے گزرے نہیں ہیں۔ لڑکی بھی اچھی ہے لیکن ایک بار پھر سوچ لو، مجھے اپنے باپ کے سامنے شرمندہ نہ کرانا۔‘‘
مائیکل نے اس کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو۔ ’’سوچنے کا ہوش کس کم بخت کو ہے؟‘‘
اتوار سے پہلے فیب، مائیکل کے لیے ایک سیکنڈ ہینڈ گاڑی خرید لایا۔ گاڑی پرانی لیکن عمدہ حالت میں تھی۔ رقم مائیکل کو پہلے ہی مل چکی تھی اور وہ بس کے ذریعے پالرمو جا کر لڑکی اور اس کے گھر والوں کے لیے تحائف خرید لایا تھا۔ اسے معلوم ہوچکا تھا کہ لڑکی کا نام لونیا تھا۔ وہ اب ہر رات اسی کے خواب دیکھتا تھا۔
اتوار کو مائیکل گاڑی میں کیفے جا پہنچا۔ کیلو اور فیب پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ کیفے اس روز بند تھا لیکن وٹیلی ان کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ مائیکل نے دونوں باڈی گارڈز کو وہیں رکنے کے لیے کہا اور وٹیلی کے ہمراہ پیدل اس کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ سفر مختصر تھا لیکن اس میں پہاڑی پر چڑھائی بھی شامل تھی۔ عام حالات میں شاید تحائف کے پیکٹ اٹھا کر پہاڑی پر چڑھنا مائیکل کو دشوار محسوس ہوتا لیکن اس وقت پہلی نظر کا عشق گویا اسے اڑائے لیے جارہا تھا۔
وٹیلی کا گھر دیکھ کر مائیکل کو اندازہ ہوا کہ وہ عام لوگوں کی نسبت ذرا خوشحال تھا۔ اس کے دونوں بیٹے بھی گویا خاص طور پر اس کے استقبال کے لیے تیار ہوکر بیٹھے تھے۔ ان کی عمریں زیادہ نہیں تھیں مگر تنومند اور مضبوط ہونے کی وجہ سے وہ اپنی عمر سے کچھ بڑے لگ رہے تھے۔ وٹیلی کی بیوی بھی چاق و چوبند اور صحت مند عورت تھی۔ لڑکی کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔
ماں، بیٹوں سے مائیکل کا تعارف کرایا گیا لیکن اس نے ایک لفظ بھی نہیں سنا۔ اس نے ان لوگوں کے تحائف انہیں دیئے البتہ اس تحفے کا پیکٹ اپنے پاس رکھا جو وہ لڑکی کے لیے لے کر آیا تھا۔ اس کے تحائف شکریئے کے ساتھ قبول کر لیے گئے لیکن کچھ زیادہ خوشی یا گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ مائیکل کو احساس ہوا کہ شاید اس نے تحائف لانے میں عجلت دکھائی تھی۔ ابھی تو بات شروع بھی نہیں ہوئی تھی اور وہ تحفے لے آیا تھا۔ نہ جانے لڑکی والوں کا جواب کیا ہوتا؟
آخر وٹیلی نے اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے کہا۔ ’’یہ مت سمجھنا کہ ہم ہر اجنبی کو اس طرح گھر میں بلا کر اس کی خاطر مدارات کرسکتے ہیں اور اس سے تحفے قبول کرسکتے ہیں۔ دراصل ٹوما نے ہمیں تمہارے بارے میں اطمینان دلایا ہے اور اس علاقے میں ٹوما جیسے آدمی کے الفاظ پر کوئی شبہ کرسکتا ہے اور نہ اس کی سفارش کو نظرانداز کرسکتا ہے، اسی لیے ہم نے تمہیں خوش آمدید کہا ہے لیکن اس بات سے تم بھی اتفاق کرو گے کہ اگر ہم اتنا بڑا فیصلہ کرنے جارہے ہیں اور تم اس معاملے میں بالکل سنجیدہ ہو تو ہمیں تمہارے بارے میں کچھ زیادہ معلوم ہونا چاہئے۔ ہمیں یہ تو معلوم ہوچکا ہے کہ تمہارے خاندان کا تعلق یہیں سے ہے۔ فی الحال ہمارے لیے اتنا جاننا کافی ہے کہ ڈون ٹوما تمہیں اور تمہارے
اپنے دوستوں میں شمار کرتا ہے۔‘‘
’’آپ میرے بارے میں جو پوچھیں گے، میں بتا دوں گا۔‘‘ مائیکل نے کہا۔
اسی لمحے اس کی کسی نامعلوم حس نے اسے بتایا کہ لڑکی کہیں آس پاس ہی موجود تھی۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ واقعی کمرے کے اندرونی دروازے پر کھڑی تھی۔ اس نے صرف ایک نظر مائیکل کی طرف دیکھا اور شرمیلے انداز میں سر جھکا لیا۔ اس کی چاندنی جیسی رنگت میں شفق کی لالی شامل ہوگئی۔ اس نے بالوں یا لباس پر کوئی پھول نہیں لگایا ہوا تھا لیکن اس کے وجود سے پھولوں کی خوشبو پھوٹتی تھی۔ مائیکل نے یہی خوشبو محسوس کرکے سر اٹھا کر دیکھا تھا۔ لڑکی کا لباس بتا رہا تھا کہ اس نے بھی آج کے دن کے لیے خصوصی اہتمام کیا تھا۔
’’آئو… آئو…! یہاں بیٹھو لونیا!‘‘ لڑکی کی ماں نے اسے بلایا اور اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
وہ سر جھکائے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی آئی اور اپنی ماں کے پاس کائوچ پر بیٹھ گئی۔ ایک بار پھر مائیکل کی سانس اس کے سینے میں اٹکنے لگی اور خون گویا آتش سیال بن کر اس کی کنپٹیوں میں ٹھوکریں مارنے لگا۔ اس لمحے اسے یہ احساس بھی ہوا کہ وہ لڑکی کو کسی اور کی ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ وہ شاید اس مرد کو قتل کردے گا جو اسے چھونے کی بھی کوشش کرے گا۔
اسے پا لینے، اپنا بنا لینے اور اپنے قبضے میں کرلینے کی خواہش اس کے دل میں اتنی شدید تھی کہ صبر کرنا اسے ناممکن محسوس ہورہا تھا۔ کسی بخیل کو سونے کے سکوں کی، کسی خانہ بدوش کو گھر کی اور کتنے ہی دنوں سے صحرا میں بھٹکتے کسی مسافر کو پانی یا کسی جاں بہ لب مریض کو دوا کی طلب، جتنی شدت سے ہوسکتی تھی، مائیکل کے خیال میں اس کی طلب ان سب سے کہیں زیادہ شدید تھی۔ اس کی کیفیت کو شاید کسی حد تک لڑکی کے گھر والوں نے بھی محسوس کرلیا تھا۔ انہوں نے شاید یہ بھی محسوس کرلیا تھا کہ اس کا تعلق بہرحال کسی بڑے خاندان سے ہے۔ اس کے ٹیڑھے جبڑے کو بھی کسی نے ناپسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا تھا کیونکہ دوسری طرف سے اس کے چہرے کو دیکھ کر اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ جبڑا ٹیڑھا ہونے سے پہلے وہ کتنا وجیہ رہا ہوگا۔
مائیکل ایک ٹک لڑکی کے بیضوی چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ گویا اس کے یاقوتی ہونٹوں میں گردش کرتے خون کی حرکت بھی صاف دیکھ سکتا تھا۔ وہ مرتعش لہجے میں بولا۔ ’’میں نے اس روز باغ میں تمہیں دیکھا تھا۔ اگر تم اچانک مجھے دیکھ کر ڈر گئی تھیں تو میں معذرت خواہ ہوں۔‘‘
لڑکی نے صرف ایک لمحے کے لیے نظر اٹھاکر دیکھا۔ لمبی لمبی سیاہ پلکیں یوں جھکی ہوئی تھیں جیسے اس کی آنکھیں بند ہوں۔ لڑکی کی ماں بولی۔ ’’بیٹی! اس سے بات کرو نا۔ بیچارہ میلوں کا سفر کرکے ہم لوگوں سے ملنے آیا ہے۔‘‘
لیکن لڑکی نے تب بھی سر نہیں اٹھایا اور نہ ہی کچھ بولی۔ مائیکل نے سنہرے کاغذ میں لپٹا ہوا اس کے تحفے کا پیکٹ اس کی طرف بڑھایا۔ لڑکی نے پیکٹ لے کر گود میں رکھ لیا لیکن اسے کھولا نہیں اور بدستور سر جھکائے بیٹھی رہی۔
’’اسے کھولو نا… لونیا!‘‘ لڑکی کی ماں نے کہا لیکن لونیا نے اس کی ہدایت پر عمل نہیں کیا اور شرمیلے انداز میں سر جھکائے بیٹھی رہی۔ آخر ماں نے ہی پیکٹ کھولا اور اس میں سے برآمد ہونے والے مخملیں ڈبے کو دیکھ کر مرعوب نظر آنے لگی۔ ڈبے سے سونے کی موٹی سی خوبصورت چین برآمد ہوئی۔ چین صرف قیمتی ہی نہیں بلکہ سسلی کی روایات کے مطابق اس قسم کا تحفہ اس بات کا اشارہ تھا کہ تحفہ دینے والا شادی کے معاملے میں نہایت سنجیدہ تھا۔
لڑکی نے ایک بار پھر صرف ایک لمحے کے لیے سر اٹھا کر مائیکل کی طرف دیکھا اور فوراً ہی دوبارہ نظریں جھکاتے ہوئے نہایت دھیمی اور مترنم آواز میں بولی۔ ’’شکریہ۔‘‘
اس کی آواز بھی اس کی شخصیت کی طرح خوبصورت تھی۔ مائیکل کے دل میں نقرئی گھنٹیاں سی بج اٹھیں۔ لونیا کی شخصیت میں ایک عجیب اُجلاپن اور اچھوتا پن تھا۔ ایک انوکھی تازگی اور پاکیزگی تھی۔ یہ چیزیں اس نے امریکا یا کسی اور ملک میں کسی لڑکی میں محسوس نہیں کی تھیں۔
آخرکار وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ تمام اہل خانہ نے اس سے باری باری مصافحہ کیا جن میں لڑکی بھی شامل تھی۔ اس کا نازک مرمریں ہاتھ اس کے ہاتھ میں آیا تو اس کے لمس سے اس کی کنپٹیاں پہلے سے زیادہ سنسنانے لگیں۔ اس نے بمشکل اپنا ہاتھ پیچھے کیا کہ طویل مصافحے کو کہیں اس کی بدتمیزی اور بدتہذیبی نہ سمجھا جائے۔
وہ سب لوگ اسے دروازے تک چھوڑنے آئے۔ (جاری ہے)

Latest Posts

Do Humsafar

Related POSTS