مہمانوں کی تعداد سیکڑوں میں تھی۔ ان میں سے کچھ ایک طرف بنے ہوئے چوبی فرش پر ڈانس کررہے تھے اور کچھ کھانے کیلئے لمبی لمبی میزوں پر بیٹھ چکے تھے جن پر انواع و اقسام کے کھانے اور مشروبات سجے ہوئے تھے۔ باغ میں جشن کا سا سماں تھا، فضا میں موسیقی کی لہریں بکھر رہی تھیں۔ ڈون کارلیون کی بیٹی کا پورا نام کونس تانزیا تھا لیکن اختصار سے اسے صرف کونی کہا جاتا تھا۔ وہ اپنے دولہا کارلورزی کے ساتھ ایک آراستہ اسٹیج پربیٹھی تھی جس کے فرش پر بہت سے پھول بکھرے ہوئے تھے۔ وہ بھاری بھرکم عروسی لباس میں تھی۔ اس کے ساتھ دو اور نوجوان لڑکیاں بھی تقریباً دلہن ہی کی طرح تیار ہوکر پیچھے بیٹھی تھیں۔
سب کچھ قدیم روایتی اطالوی انداز میں ہورہا تھا۔ کونی کو روایتی طور طریقے زیادہ پسند نہیں تھے لیکن باپ کی خوشی کی خاطر وہ خاموش رہی تھی اور اس نے سب کچھ اسی طرح ہونے دیا تھا جس طرح ڈون چاہتا تھا کیونکہ ڈون نے بھی اپنے ہونے والے داماد رزی کو برداشت ہی کیا تھا۔ ڈون کو وہ نوجوان پسند نہیں آیا تھا لیکن وہ کونی کو پسند تھا اور باپ نے بیٹی کی پسند کے سامنے سر جھکا دیا تھا۔
رزی کا باپ سسلی اور ماں نارتھ اٹلی کی تھی جس سے اسے سنہری بال اور نیلی آنکھیں ورثے میں ملی تھیں۔ اس کے والدین نویڈا میں رہتے تھے لیکن رزی نے کچھ عرصے پہلے وہ ریاست چھوڑ دی تھی۔ یہ کہنا زیادہ درست تھا کہ وہ وہاں سے بھاگ آیا تھا کیونکہ وہاں پولیس کے ساتھ اس کا کچھ مسئلہ ہوگیا تھا۔
وہ نیویارک آیا تو یہاں اس کی ملاقات سنی سے ہوئی اور اسی کے توسط سے وہ اس کی بہن سے بھی مل لیا جس کے ساتھ آخر اس کی شادی کی نوبت آگئی۔ ڈون نے اڑتی اڑتی سی خبر سن لی تھی کہ وہ نویڈا میں کسی سلسلے میں پولیس کو مطلوب تھا۔ ڈون نے بیٹی کی شادی اس کے ساتھ کرنے سے پہلے اس معاملے کی صحیح معلومات حاصل کرنے کیلئے اپنے قابل اعتماد آدمیوں کو نویڈا بھیجا جنہوں نے آکر رپورٹ دی کہ نویڈا میں رزی کسی سنگین معاملے میں پولیس کو مطلوب نہیں تھا۔
بات بس اتنی تھی کہ ایک بار اس کے پاس سے ایک غیر قانونی پستول برآمد ہوا تھا۔ وہ ضمانت پر رہا تھا مگر فرار ہوکر نیویارک آگیا تھا۔ یہ حرکت جرم سے زیادہ سنگین تھی تاہم اتنی سنگین بھی نہیں تھی کہ اس پر تشویش میں مبتلا ہوا جاتا۔ نوجوان اس قسم کی حرکتیں کرتے ہی رہتے تھے۔ یہ ایسا معاملہ تھا جس کا ریکارڈ آسانی سے صاف کرایا جاسکتا تھا۔ ڈون نہیں چاہتا تھا کہ اس کے خاندان کے کسی فرد اور خصوصاً اس کے ہونے والے داماد کا پولیس میں کوئی ریکارڈ موجود ہو۔
ڈون کے جو آدمی نویڈا گئے تھے، وہ رزی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے علاوہ یہ خبر بھی لائے تھے کہ اس ریاست میں کچھ مخصوص شرائط پوری کرنے کے بعد قانونی طور پر جواخانے کھولنے کی اجازت تھی۔ وہاں بہت بڑے بڑے کیسینو موجود تھے جو نائٹ کلب کے طور پر بھی چل رہے تھے اور ان کا کچھ حصہ قمار بازی کیلئے بھی مخصوص تھا۔ ڈون نے یہ خبر دلچسپی سے سنی تھی کیونکہ اسے ایسے ہر کام سے دلچسپی تھی جس میں زیادہ قانونی خطرات کے بغیر زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جاسکے۔
کونی معمولی شکل صورت کی لڑکی تھی۔ بدقسمتی سے اس میں والدین اور بھائیوں کی وجاہت کی کوئی جھلک نہیں تھی۔ وہ دبلی پتلی تھی اور اس کی حرکات و سکنات سے اضطراب جھلکتا تھا لیکن آج شادی کی خوشی سے تمتماتے چہرے اور دلہن کے لباس میں وہ کسی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی اور وہ رزی پر آنکھوں ہی آنکھوں میں قربان ہوئی جارہی تھی۔
دولہا رزی کسرتی جسم کا مالک تھا۔ نویڈا میں اس نے نوجوانی میں مزدوروں کی طرح محنت مشقت کے کام بھی کئے تھے لیکن اس کے خیال میں اب اس کی قسمت سنور گئی تھی۔ وہ ایک ایسے خاندان میں شادی کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا جو اپنے رکھ رکھائو اور طور طریقوں میں شاہی خاندان سے کم نہیں تھا۔ اسے اپنی دلہن کی والہانہ نظروں سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ وہ تو اس کے کندھے پر لٹکے ہوئے بڑے سے پرس کو دیکھ رہا تھا جس میں مہمانوں کے دیئے ہوئے نوٹوں کے لفافے بھرے ہوئے تھے۔ وہ اندازہ لگانے کی کوشش کررہا تھا کہ اس پرس میں کتنی رقم جمع ہوچکی ہوگی؟… اور یہ تو محض ابتدا تھی!
مہمانوں میں ایک اور شخص بھی کبھی کبھی کن انکھیوں اور للچائی ہوئی نظروں سے اس پرس کی طرف دیکھ لیتا تھا۔ اس کا نام پالی گیٹو تھا۔ وہ عمدہ سوٹ میں تھا اور اس کا چہرہ کسی حد تک نیولے جیسا تھا۔ اس کے بال سلیقے سے جمے ہوئے تھے۔ وہ عادت سے مجبور ہوکر پرس کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا اور اسے پار کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا جبکہ اسے معلوم تھا کہ اس قسم کی حرکت کرنا ایسا ہی تھا جیسے کسی نہتے آدمی کا شیر کے منہ سے نوالا چھیننا لیکن خواب دیکھنے پر بہرحال کوئی پابندی نہیں تھی۔
کبھی کبھی وہ اپنے باس پیٹر مینزا کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا جو ڈانسنگ فلور پر کئی لڑکیوں کے ساتھ باری باری ڈانس کررہا تھا۔ مینزا ایک دراز قد اور نہایت مضبوط جسم کا آدمی تھا۔ اکثر لڑکیوں کے سر اس کے سینے تک بھی نہیں پہنچ پاتے تھے اور وہ اس کے سامنے بالکل گڑیوں جیسی لگتی تھیں۔ وہ اس قسم کے لوگوں میں سے تھا جسے آتے دیکھ کر لوگ خود ہی راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔ مینزا اور گیٹو دونوں ڈون کے خاص کارندے تھے۔
آخرکار مینزا تھک کر ایک کرسی پر ڈھیر ہوگیا تو گیٹو جلدی سے آگے بڑھ کر ایک ریشمی رومال سے اس کی پیشانی سے پسینہ پونچھنے لگا۔ مینزا تیزی سے بولا۔ ’’ان نخرے بازیوں کو چھوڑو اور اپنے اصل کام پر توجہ رکھو۔ ادھر ادھر گھوم پھر کر جائزہ لیتے رہو کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ پاس پڑوس پر بھی نظر ڈالتے رہنا کہ کہیں کسی گڑبڑ کے آثار تو نہیں۔‘‘
کیٹو اس کا حکم سنتے ہی مہمانوں کے ہجوم میں کہیں غائب ہوگیا۔
اسی دوران نینو نامی ایک نوجوان نے مینڈولین اٹھا کر بجانا شروع کردیا۔ وہ ترنگ میں تھا۔ مینڈولین کی دھن پر اس نے ایک خاصا بے تکلفانہ قسم کا محبت بھرا گیت بھی لڑکھڑاتی آواز میں گانا شروع کردیا۔ مہمان اس کا ساتھ دینے لگے۔ عورتیں خوشی سے چیخ رہی تھیں، قہقہے لگا رہی تھیں جن میں ڈون کی بیوی بھی شامل تھی۔
ڈون کو اس انداز کی ہنگامہ خیزی پسند نہیں تھی لیکن وہ مہمانوں کی خوشی اور تفریح میں رکاوٹ بھی نہیں بننا چاہتا تھا۔ وہ خاموشی سے اندر کی طرف چل دیا۔ باپ کو اندر جاتے دیکھ کر سنی جلدی سے دلہن کے عقب میں اس کی میڈ کے طور پر بن سنور کر بیٹھی ہوئی لوسی کے قریب جا بیٹھا۔ سنی نے پہلے یہ دیکھ لیا تھا کہ اس کی بیوی وہاں موجود نہیں تھی۔ وہ کچن میں مصروف تھی۔
سنی نے لوسی کے کان میں سرگوشی میں کچھ کہا اور وہ اٹھ کر مکان کے اندرونی حصے کی طرف چل دی۔ سنی نے اس وقت تک انتظار کیا جب تک وہ اندرونی دروازے کے عقب میں غائب نہیں ہوگئی۔ پھر وہ بھی اٹھ کر اسی طرف چل دیا لیکن راستے میں ادھر ادھر رک کر وہ بعض مہمانوں سے تھوڑی بہت بات چیت کرتا جارہا تھا۔ وہ یہ ظاہر کرنے کی پوری کوشش کررہا تھا کہ وہ لوسی کے تعاقب میں نہیں جارہا تھا جبکہ وہاں اس بات کی کسی کو پروا بھی نہیں تھی۔ چند لمحے بعد وہ دونوں اوپر کے ایک کمرے میں یکجا تھے اور مرتعش سانسوں کے درمیان اس خلوت سے پورا پورا استفادہ کررہے تھے۔
اس دوران نچلی منزل کے ایک کمرے کی کھڑکی کے شیشے سے ٹام ہیگن شادی کی تقریب کا نظارہ کررہا تھا۔ وہ ڈون کارلیون کا وکیل تھا اور یہ کمرہ اس کے دفتر کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اس میں اونچی اونچی دیوارگیر الماریوں میں شیشے کے دروازوں کے پیچھے قانون کی موٹی موٹی کتابیں بھری دکھائی دے رہی تھیں۔ یہ کمرہ ڈون کارلیون کے کمرے سے متصل تھا۔ اس طرح ڈون کو آسانی رہتی تھی۔ وہ جب چاہتا، کسی بھی خاص اور فوری نوعیت کے مسئلے پر ٹام ہیگن سے تبادلہ خیال کرنے آجاتا تھا۔
ڈون کا قانونی مشیر ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ’’ڈون فیملی‘‘ کے نظام اور کاروبار میں یہ اہم ترین عہدہ تھا۔ اس سے پہلے جس شخص نے برسوں تک ڈون کیلئے اس حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں، وہ اب کینسر کے باعث بستر مرگ پر تھا۔ اس کی بیماری کے بعد سے ہیگن کو یہ حیثیت حاصل ہوچکی تھی۔ اس نے اور ڈون نے اسی کمرے میں آمنے سامنے بیٹھ کر بہت سے کاروباری مسائل کی گتھیاں سلجھائی تھیں۔ ’’فیملی‘‘ کے بہت سے معاملات پر سر جوڑ کر غوروخوص کیا تھا۔ کھڑکی کے قریب بیٹھے بیٹھے اس نے ڈون کو بھی اندر آتے دیکھا۔ پھر سنی کو لوسی کے کان میں سرگوشی کرتے اور انہیں یکے بعد دیگرے مکان میں غائب ہوتے بھی دیکھا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ دانت پیس کر رہ گیا تھا کہ سنی کہیں بھی دائو لگانے سے باز نہیں رہتا تھا۔ پہلے اس نے سوچا کہ ڈون کو اس معاملے کی خبر کردے لیکن پھر اس نے زبان بند رکھنے میں ہی مصلحت سمجھی۔
ڈون کو اندر آتے دیکھ کر وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ اس سے ملنے بھی آئے گا اور آج خواہ اس کی بیٹی کی شادی تھی لیکن وہ کچھ نہ کچھ معاملات ضرور نمٹائے گا۔ جس کا مطلب تھا کہ ہیگن کو بھی کچھ نہ کچھ کام کرنا ہوگا۔ اس نے گہری سانس لی اور ریوالونگ چیئر کو میز کی طرف گھما لیا۔ اس نے میز سے چند افراد کے ناموں کی فہرست اٹھائی۔ ہاتھ سے لکھے گئے یہ نام ان افراد کے تھے جنہیں آج تخلیے میں ڈون کارلیون سے ملاقات کی اجازت تھی۔
جب ڈون کمرے میں داخل ہوا تو ہیگن نے اٹھ کر وہ فہرست اسے پیش کردی۔ ڈون نے فہرست پر نظر ڈالی اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔ ’’بونا سیرا کا نام فہرست کے آخر میں کردو۔‘‘
ہیگن نے فہرست میں بونا سیرا کا نمبر تبدیل کیا۔ پھر ٹیرس کا دروازہ کھول کر باغ میں اس طرف چلا گیا جہاں ملاقات کے خواہشمندوں کی ٹولی کھڑی تھی۔ اس نے گٹھے ہوئے جسم کے پستہ قد نیزورین کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ بیکری کا مالک نیزورین جب ہیگن کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا تو ڈون کارلیون نے اٹھ کر اس کا استقبال کیا اور اس سے گلے ملا۔ اٹلی میں وہ دونوں بچپن میں ساتھ کھیلے تھے اور جب سے نیزورین نیویارک میں بیکری چلا رہا تھا، تب سے وہ ہر خاص موقع اور تہواروں پر خاص طور پر تیار کیا گیا ایک بڑا سا کیک ڈون کے گھر بھجوانا نہیں بھولتا تھا۔ آج وہ پہلی بار کسی کام سے ڈون کے گھر آیا تھا۔
ڈون نے اسے مشروب کا ایک گلاس اور اعلیٰ درجے کا ایک سگار پیش کیا۔ خیر و عافیت دریافت کرنے کے دوران وہ محبت اور
اپنائیت سے نیزورین کا کندھا تھپتھپاتا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ کسی شریف، باعزت اور انا پرست آدمی کیلئے کسی کے سامنے اپنی مجبوری، ضرورت یا مسئلہ بیان کرنا آسان کام نہیں تھا۔ وہ نیزورین میں گویا اپنا مسئلہ بیان کرنے کی جرأت پیدا کررہا تھا، اصل بات کیلئے ماحول بنا رہا تھا۔
آخر نیزورین نے اپنا مسئلہ بیان کر ہی دیا کہ کس طرح اس کی بیٹی اینزو سے شادی کرنے کیلئے بضد تھی جبکہ اینزو امریکا میں غیرقانونی طور پر مقیم تھا۔ خطرہ تھا کہ اسے جلد ہی اٹلی واپس بھجوا دیا جائے گا اور اس کی بیٹی کیتھرین شاید اس صدمے سے مرجائے گی۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں ڈون کارلیون اس کی آخری امید تھا۔
وہ دونوں اٹھ کر کمرے میں ٹہلتے ہوئے یہ بات کررہے تھے۔ ڈون کا بازو دوستانہ انداز میں نیزورین کے کندھوں پر ٹکا ہوا تھا اور وہ وقفے وقفے سے تفہیمی اور ہمدردانہ انداز میں سر ہلا رہا تھا۔
نیزورین نے بات ختم کی تو ڈون نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’اپنی اس پریشانی کو بھول جائو۔ اینزو کو یہاں کی شہریت مل جائے گی خواہ اس کیلئے مجھے کانگریس میں خصوصی بل ہی پاس کرانا پڑے۔ میں کانگریس کے ایک ایسے ممبر کو جانتا ہوں جو آسانی سے یہ بل پیش کردے گا اور کانگریس کی اکثریت اسے منظور بھی کرے گی کیونکہ یہ لوگ اسی طرح ایک دوسرے کے مسئلے حل کرتے ہیں۔ بس، کانگریس کے اس ممبر کی خدمت میں دو ہزار ڈالر کا نذرانہ پیش کرنا پڑے گا۔ اگر تمہارے لئے دو ہزار ڈالر کا بندوبست کرنا مشکل ہو تو وہ بھی میں اپنی جیب سے دے دوں گا۔‘‘
’’نہیں… نہیں… ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘ نیزورین جلدی سے بولا۔ ’’دو ہزار ڈالر کوئی مسئلہ نہیں ہیں۔ میری تو یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کام ہوگا کیسے؟‘‘ خوشی سے اس کی حالت عجیب تھی۔
’’بس۔ تم بے فکر ہوجائو۔ میرا کوئی آدمی بیکری پر آکر تم سے ملے گا۔ رقم بھی لے لے گا اور تمہیں بتا دے گا کہ اس سلسلے میں کیا کاغذی کارروائی کرنی ہے۔ اوکے؟‘‘
نیزورین نے تشکر اور ممنونیت سے اس کا ہاتھ چوما اور رخصت ہوگیا۔ اس کے جانے کے بعد ڈون، ہیگن سے مخاطب ہوا۔ ’’نیزورین کیلئے یہ سرمایہ کاری بری نہیں رہے گی۔ دو ہزار ڈالر میں اسے داماد اور عمر بھر کیلئے بیکری پر ایک کارکن مل جائے گا۔‘‘ ایک لمحے کے توقف کے بعد ڈون پرخیال لہجے میں بولا۔ ’’میں سوچ رہا ہوں کہ یہ کام اپنے کس آدمی کے سپرد کروں؟‘‘
اس سے پہلے کہ ہیگن کوئی جواب دیتا، ڈون خود ہی بولا۔ ’’وہ جو دوسرے علاقے میں یہودی رہتا ہے، اس کے ذمے یہ کام لگائو اور ہاں اس بار کانگریس مین لیو کے بجائے فشر کو آزما کر دیکھو۔ اب جنگ ختم ہوئی ہے تو ہمارے پاس اس قسم کے غیر قانونی تارکین وطن کے بہت سے کیسز آئیں گے۔ ہمیں ایسا کانگریس مین تلاش کرنا ہوگا جو موقع دیکھتے ہی اپنا معاوضہ بڑھا دے۔‘‘
ہیگن نے ایک پیڈ پر یہ اہم نکات نوٹ کئے پھر فہرست کے مطابق دوسرے ملاقاتی کو بلانے چلا گیا۔ اس بار اس کے ساتھ اندر آنے والے آدمی کا نام کپولا تھا۔ اس کے باپ کے ساتھ ڈون نے اپنی نوجوانی کے زمانے میں ریلوے یارڈ میں کام کیا تھا۔ کپولا کو پیزا کی دکان کھولنے کیلئے پانچ سو ڈالر کی ضرورت تھی اور اسے کہیں سے قرض نہیں مل رہا تھا۔
ڈون نے جیب میں ہاتھ ڈال کر نوٹ نکالے لیکن وہ کل چار سو ڈالر تھے۔ اس نے دانت بھینچ کر گہری سانس لی اور ہیگن سے مخاطب ہوا۔ ’’ذرا سو ڈالر ادھار تو دینا، پیر کو میں بینک جائوں گا تو واپس دے دوں گا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں… چار سو ڈالر سے بھی کام چل جائے گا۔‘‘ سائل جلدی سے بولا۔
’’جب تم نے پانچ سو ڈالر مانگے ہیں تو پانچ سو ڈالر ہی ملیں گے۔‘‘ ڈون نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ پھر اس کا لہجہ معذرت خواہانہ ہوگیا۔ ’’دراصل شادی کی تیاریوں کے چکر میں میری جیب میں نقد رقم نہیں رہی۔‘‘
ہیگن نے اپنی جیب سے سو ڈالر نکال کر ڈون کی طرف بڑھا دیئے۔ اسے ڈون کا اصول معلوم تھا کہ ذاتی طور پر وہ رقم کے معاملے میں کسی پر احسان کرتا تھا تو اپنی جیب سے نقد رقم نکال کر دیتا تھا، چیک وغیرہ نہیں لکھتا تھا اور نہ ہی اس رقم کا کہیں اندراج ہوتا تھا۔ کپولا جیسے آدمی کیلئے یقیناً یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا کہ ڈون جیسی شخصیت اسے قرض دینے کیلئے خود اپنے ملازم سے ادھار مانگ رہی تھی۔ بے شک ڈون کروڑ پتی تھا لیکن کروڑ پتی بھلا کسی چھوٹے آدمی کے کام آنے کیلئے اتنی زحمت کرسکتے تھے؟
کپولا کے جانے کے بعد ہیگن بولا۔ ’’لوکا براسی کا نام فہرست میں نہیں ہے لیکن وہ بھی تخلیے میں آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ شاید وہ خاص طور پر صرف اس بات کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہے کہ آپ نے اسے شادی میں مدعو کیا، اسے اس کی امید نہیں تھی۔‘‘
ڈون کے چہرے پر ہلکی سی ناگواری ابھری جیسے وہ محض اس مقصد کیلئے براسی سے ملنا ضروری نہ سمجھتا ہو لیکن پھر وہ گہری سانس لے کر بولا۔ ’’چلو… خیر… بلا لو اسے بھی۔‘‘
باہر باغ میں مائیکل کی منگیتر ’’کے‘‘ دور سے ہی براسی کو دیکھ کر حیران ہورہی تھی کیونکہ وہ چہرے مہرے سے ہی ایک خطرناک اور خونخوار آدمی نظر آتا تھا۔ وہ مائیکل سے اس کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔
مائیکل حقیقت میں اپنی منگیتر ’’کے‘‘ کو اسی مقصد کیلئے ساتھ لایا تھا کہ وہ اسے دھیرے دھیرے اپنے باپ کی اصل حیثیت اور فیملی کے بارے میں حقائق کو قبول کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار کرسکے۔ وہ اس کے ذہن میں اپنے باپ اور ’’فیملی‘‘ کا قدرے بہتر تصور بٹھانا چاہتا تھا تاکہ اسے کبھی اچانک کسی قسم کا دھچکا نہ لگے لیکن اسے لگ رہا تھا ’’کے‘‘ نے حقیقت کو کسی نہ کسی حد تک محسوس کرلیا تھا۔
وہ ایک ذہین لڑکی تھی۔ اس نے غالباً یہ رائے قائم کی تھی کہ ڈون کا سارا ہی بزنس کچھ اتنا زیادہ شریفانہ، معززانہ اور اخلاقی حدود و قیود کے اندر نہیں تھا۔ کہیں نہ کہیں، کچھ نہ کچھ ناخوشگوار پہلو موجود تھے۔ آخر مائیکل نے فیصلہ کیا کہ ’’کے‘‘ کو آہستگی اور نرمی کے ساتھ مناسب حد تک حقائق سے روشناس کرانا بہتر تھا۔ بہت کھلے اور واضح انداز میں تو نہیں لیکن مبہم اور ذرا ڈھکے چھپے انداز میں یہ کام کرنا ضروری تھا۔
اس نے براسی کے بارے میں ’’کے‘‘ کو بتایا۔ ’’سنا ہے کہ مشرقی علاقے کی انڈر ورلڈ میں یہ شخص دہشت کی علامت ہے۔ یہ کسی کی بھی مدد کے بغیر کسی کو اس طرح قتل کرسکتا ہے کہ پولیس یا ایف بی آئی کبھی حقیقت کا سراغ نہیں پا سکتی اور کوئی ایسا نقطہ تلاش نہیں کرسکتی جس کی بنا پر وہ اس پر ہاتھ ڈال سکے۔‘‘ پھر مائیکل کے چہرے پر قدرے ناگواری ابھر آئی اور ایک لمحے کے توقف کے بعد وہ ذرا ناپسندیدگی سے بولا۔ ’’یہ شخص کسی حد تک میرے والد کا دوست ہے۔‘‘
مائیکل نے سر اٹھا کر ’’کے‘‘ کی طرف دیکھا۔ ’’کے‘‘ کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ گویا بے یقینی سے بولی۔ ’’کہیں تم مجھے یہ بتانے کی کوشش تو نہیں کررہے کہ یہ آدمی تمہارے والد کیلئے کام کرتا ہے؟‘‘
مائیکل نے دل ہی دل میں مصلحت پسندی پر لعنت بھیجی اور کافی حد تک کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ بولا۔ ’’تقریباً پندرہ سال پہلے کچھ لوگوں نے میرے والد کے تیل کی امپورٹ کے کاروبار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ میرے والد اٹلی سے زیتون کا تیل امپورٹ کرنے والے سب سے بڑے امپورٹر تھے۔ انہوں نے انہیں قتل کرنے کی کوشش کی تھی اور یوں سمجھو کہ وہ اپنے مقصد میں تقریباً کامیاب بھی ہوگئے تھے۔ اس وقت براسی ان سے نمٹنے کیلئے نکلا تھا۔ سنا ہے اس نے دو ہفتوں کے اندر اندر چھ آدمیوں کو قتل کر ڈالا تھا جس کے بعد وہ لڑائی ختم ہوگئی تھی جسے انڈر ورلڈ کی اصطلاح میں ’’اولیو آئل وار‘‘ کہا جاتا تھا۔‘‘ مائیکل نے یہ کہتے ہوئے اس انداز میں مسکرانے کی کوشش کی جیسے اس نے کوئی لطیفہ سنایا ہو۔
’’کیا گروہ بازوں نے تمہارے والد کو گولی مار دی تھی؟‘‘ ’’کے‘‘ نے دریافت کیا۔
’’ہاں… لیکن یہ پندرہ سال پہلے کی باتیں ہیں تب سے اب تک حالات بالکل پرسکون ہیں۔‘‘ اس نے ’’کے‘‘ کو تسلی دی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں اس نے ’’کے‘‘ کو ضرورت سے زیادہ تو نہیں بتا دیا؟ اور یہ بات ان کے باہمی تعلق کیلئے نقصان دہ تو ثابت نہیں ہوگی؟
’’تم اصل میں مجھے ڈرانے کی کوشش کررہے ہو۔‘‘ ’’کے‘‘ نے مسکراتے ہوئے ہولے سے اس کی پسلیوں میں کہنی ماری۔ ’’تم چاہتے ہو کہ میں تم سے شادی سے انکار کردوں۔‘‘
مائیکل تحمل سے مسکرایا اور بولا۔ ’’نہیں، میں چاہتا ہوں کہ تم شادی سے پہلے ان باتوں کے بارے میں سوچ لو… غور کرلو۔‘‘
’’کیا اس نے واقعی چھ آدمیوں کو قتل کیا تھا؟‘‘ ’’کے‘‘ نے براسی کی طرف دیکھتے ہوئے بے یقینی سے پوچھا۔
’’اخبارات نے تو یہی لکھا تھا لیکن کوئی بھی اس بات کو ثابت نہیں کرسکا تھا۔‘‘ مائیکل نے کہا۔ ’’اس کے بارے میں اس سے بھی زیادہ خوفناک ایک کہانی اور بھی ہے لیکن وہ اخبارات میں نہیں آسکی۔ میرے والد اس کے بارے میں زبان نہیں کھولتے۔ ڈیڈی کا وکیل ٹام ہیگن اس کہانی سے واقف ہے لیکن وہ بھی مجھے کچھ نہیں بتاتا۔ ایک بار میں نے اس سے پوچھا تھا کہ کس عمر میں تم مجھے اس قابل سمجھو گے کہ وہ کہانی سنا سکو تو اس نے جواب دیا کہ جب تم سو سال کے ہوجائو گے۔‘‘ یہ کہہ کر مائیکل نے ٹھنڈی سانس لی اور گلاس سے مشروب کی چسکی لے کر بولا۔ ’’نہ جانے وہ کیا کہانی ہوگی؟‘‘
براسی درمیانے قد مگر مضبوط جسم کا ایک ایسا آدمی تھا جس کی طرف غور سے دیکھنے پر اچھے بھلے دلیر انسان کے جسم میں بھی کپکپی دوڑنے لگتی تھی۔ اس کے پتلے پتلے ہونٹ سفاکانہ انداز میں بھنچے رہتے تھے اور اس کی آنکھوں سے موت کی سرد مہری جھلکتی تھی۔ انڈرورلڈ کے لوگ بھی اس سے خوف کھاتے تھے لیکن ڈون کارلیون کا وہ بے حد وفادار تھا۔ ڈون سے اس کی یہ وفاداری مثالی تھی اور ڈون کی سلطنت کے ڈھانچے میں وہ ایک اہم ستون تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اس طرح کے کردار اب بہت کمیاب تھے۔
براسی دنیا میں کسی سے نہیں ڈرتا تھا البتہ اس نے اپنی مرضی سے گویا خود کو ڈون سے ڈرنے اور اس کی عزت کرنے کا پابند بنا رکھا تھا۔ وہ ہیگن کے ساتھ اس کے کمرے میں داخل ہوا تو ڈون کو سامنے پا کر اس کا انداز نہایت مؤدبانہ ہوگیا۔ اس نے پہلے ڈون کو بیٹی کی شادی کی مبارکباد دی پھر دعا کی کہ اس کی بیٹی کے ہاں پہلی
ہو۔ اس کے بعد اس نے موٹا سا ایک لفافہ نکال کر ڈون کی خدمت میں پیش کیا۔
تب ہیگن سمجھ گیا کہ براسی کیوں خاص طور پر ڈون سے تنہائی میں مل کر اسے بیٹی کی شادی کی مبارکباد دینا چاہتا تھا۔ دراصل اس نے اندازے لگا کر اپنی دانست میں تمام مہمانوں سے زیادہ رقم تحفے کے طور پر پیش کرنا تھی۔ اس رقم کا لفافہ وہ براہ راست ڈون ہی کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تھا۔ ڈون نے وہ لفافہ ایک شاہانہ تمکنت کے ساتھ قبول کیا اور اس کے چہرے پر خفیف سی مسکراہٹ آگئی۔ براسی کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔ اس کے چہرے کی خشونت اور خونخواری اس لمحے کم ہوگئی۔ اس نے جھک کر نہایت احترام سے ڈون کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور دروازے کی طرف چل دیا۔ ہیگن اس کیلئے دروازہ کھولے کھڑا تھا۔
اس کے جانے کے بعد ڈون نے طمانیت کی گہری سانس لی۔ اس کے خیال میں براسی ڈائنامائٹ کی طرح تھا اور اسے احتیاط سے ہینڈل کرنے کی ضرورت تھی تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں تھا کہ وہ براسی سے کسی قسم کا خوف محسوس کرتا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ڈائنامائٹ سے بھی خود کو نقصان پہنچائے بغیر اپنے مقاصد کیلئے کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔
’’کیا اب صرف بونا سیرا باقی رہ گیا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
ہیگن نے اثبات میں سر ہلایا تو ڈون ایک لمحے پرخیال انداز میں چپ رہنے کے بعد بولا۔ ’’اسے بلانے سے پہلے سین نینو کو بھی یہاں بلا لو۔ میں چاہتا ہوں کہ ان باتوں اور ان ملاقاتوں سے وہ بھی کچھ سیکھے۔‘‘
ہیگن جلدی سے مضطرب انداز میں باہر چلا گیا۔ اسے اندازہ تھا کہ سین نینو عرف سنی اس وقت کس کمرے میں دلہن کی سہیلی کے ساتھ داد عیش دے رہا ہوگا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر یہ بات کھل جائے تو کیا ہنگامہ اٹھ کھڑا ہو۔ اس نے احتیاطاً پہلے اسے نظروں ہی نظروں میں باغ میں تلاش کیا لیکن وہ وہاں نہیں تھا۔ ہیگن نے اسے آدھا گھنٹہ پہلے اوپر کی منزل کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ ابھی وہیں تھا کیونکہ لوسی بھی کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔
اس نے ٹھنڈی سانس لی اور واپس مڑ گیا۔ اس دوران مائیکل کی منگیتر ’’کے‘‘ نے بھی اسے دیکھ لیا تھا۔ وہ اس کے بارے میں مائیکل سے پوچھنے لگی۔ ’’یہ شخص حقیقت میں کون ہے؟ اس سے جب میری ملاقات ہوئی تو اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے خود کو تمہارا بھائی کہا تھا لیکن اس کی شکل میں تم بھائیوں کی ذرا سی بھی شباہت ہے اور نہ ہی یہ اطالوی معلوم ہوتا ہے۔‘‘
’’یہ اصل میں بارہ سال کی عمر میں ہمارے گھر میں آیا تھا اور یہیں پلا بڑھا ہے۔‘‘ مائیکل نے بتایا۔ ’’اس کے والدین مر گئے تھے اور یہ لاوارثوں کی طرح گلیوں میں دھکے کھا رہا تھا۔ انفیکشن سے اس کی ایک آنکھ خراب ہورہی تھی۔ سنی ترس کھا کر اسے اپنے ساتھ لے آیا تھا بس تب سے یہ یہیں ہے۔ اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا جہاں یہ جاتا۔ یہ ہمارے ساتھ ہی پلا بڑھا۔ اس کی آنکھ کا علاج کرایا گیا۔ اسے قانون کی تعلیم دلائی گئی۔ اسے وکیل بننے کا شوق تھا۔ پھر اس کی شادی بھی ہوگئی۔ اب یہ میرے والد کا وکیل ہے۔‘‘
’’حیرت ہے!‘‘ ’’کے‘‘ نے ایک بار پھر آنکھیں پھیلائیں۔ ’’یہ تو بالکل فلموں اور قصے کہانیوں جیسا واقعہ ہے۔ تمہارے والد یقیناً بہت رحم دل انسان ہیں جو انہوں نے ایک یتیم اور لاوارث لڑکے کو گود لیا اور اتنے اچھے طریقے سے اس کی پرورش کی جبکہ ان کے اپنے بھی کئی بچے تھے۔‘‘
’’انہوں نے اسے گود نہیں لیا تھا، ایڈاپٹ نہیں کیا تھا۔‘‘ مائیکل نے اس کی غلط فہمی دور کی۔ ’’بس اس نے ہمارے ہاں پرورش پائی ہے اور اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میرے والد کے اپنے کئی بچے تھے۔ ہم صرف چار بہن بھائی ہیں اور اطالویوں کے ہاں چار بچوں کو زیادہ نہیں سمجھا جاتا۔ اسے ایڈاپٹ نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ میرے والد کے خیال میں کسی بھی بچے کو اس کے اصل والدین کے ناموں سے محروم کرکے اپنے نام کے ساتھ نتھی کردینا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ وہ اس کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں یہ اصل والدین کی توہین ہے۔‘‘
اس دوران انہوں نے دیکھا کہ ہیگن کہیں سے سنی کو تلاش کرکے اپنے ساتھ اندر لے جارہا تھا۔ جاتے جاتے اس نے بونا سیرا کو بھی اندر آنے کا اشارہ کیا۔ بونا سیرا جلدی سے ادھر لپکا۔ یہ دیکھ کر ’’کے‘‘ کو گویا ایک اور سوال کرنے کا موقع مل گیا۔
’’آج تمہاری بہن کی شادی ہے۔ آج بھی لوگ تمہارے والد کے پاس کسی نہ کسی کام سے آئے ہوئے ہیں۔‘‘ وہ بولی۔
’’آج تو وہ خاص طور پر آئے ہیں۔ آج کا دن ان کے خیال میں عام دنوں سے زیادہ اچھا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ کوئی بھی روایت پسند اطالوی اپنی بیٹی کی شادی کے دن کسی کی درخواست رد نہیں کرسکتا اور کوئی بھی اطالوی اپنا کام نکالنے کا ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتا۔‘‘ مائیکل نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اس دوران ہی لوسی واپس آگئی۔ اس کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا۔ وہ دلہن کے قریب آبیٹھی۔
’’کہاں چلی گئی تھیں تم؟‘‘ کونی نے سرگوشی میں پوچھا۔
’’میں ذرا باتھ روم گئی تھی۔‘‘ لوسی نے عذرِلنگ پیش کیا۔ کونی نے گویا حقیقت کا اندازہ کرلینے کے باوجود اس کے عذر کو قبول کرلیا اور نیچی آواز میں بولی۔ ’’اب کہیں مت جانا، میرے پاس ہی بیٹھی رہنا۔‘‘
’’بس تھوڑی دیر کی بات ہے پھر تو تمہیں اپنے دولہا کے سوا کسی کا بھی اپنے پاس بیٹھنا بہت ناگوار گزرے گا۔‘‘ لوسی نے شریر لہجے میں کہا اور دولہا نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔
اس دوران بونا سیرا، ہیگن کے ساتھ اس کے کمرے میں داخل ہوچکا تھا۔ اس نے ڈون کارلیون کو ایک بڑی سی میز کے عقب میں بیٹھے پایا۔ سنی کھڑکی کے قریب کھڑا باہر دیکھ رہا تھا۔ آج کے دن بونا سیرا وہ پہلا فرد تھا جس کے استقبال کے سلسلے میں ڈون نے خاصی سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ اس نے بونا سیرا سے مصافحہ کیا اور نہ ہی اس سے گلے ملنے کیلئے اپنی جگہ سے اٹھا۔ بونا سیرا کیلئے اس کے دل میں کوئی خاص دوستانہ جذبات نہیں تھے۔ اسے شادی کی تقریب میں بھی صرف اس لئے مدعو کرلیا گیا تھا کہ اس کی بیوی سے ڈون کی بیوی کی خاصی دوستی تھی۔
’’میں شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے اور میری فیملی کو اس تقریب میں بلا کر عزت بخشی اور معذرت خواہ ہوں کہ میری بیوی اور بیٹی تقریب میں نہیں آسکیں۔ میری بیٹی ابھی تک اسپتال میں ہے۔‘‘ بونا سیرا نے ہوشیاری سے گفتگو کا آغاز کیا۔
’’تمہاری بیٹی جس المیے کا شکار ہوئی، ہم سب اس کے بارے میں جانتے ہیں۔‘‘ ڈون نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ ’’اگر تمہیں اس سلسلے میں کسی مدد کی ضرورت ہے تو کہہ ڈالو، تمہیں مایوسی نہیں ہوگی۔‘‘
بونا سیرا نے سنی اور ہیگن کی طرف دیکھا۔ پھر ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا۔ ’’کیا میں آپ سے تخلیے میں بات کرسکتا ہوں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ ڈون نے بلاتامل گمبھیر لہجے میں کہا۔ ’’یہ دونوں میرے بازوئوں کی طرح ہیں۔ میری کوئی بات، میرا کوئی معاملہ ان سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ میں انہیں باہر بھیج کر ان کی توہین نہیں کرسکتا۔‘‘
بونا سیرا نے ایک لمحے کیلئے آنکھیں بند کرلیں۔ پھر گہری سانس لے کر گویا کسی فیصلے پر پہنچتے ہوئے بولا۔ ’’میں امریکا میں رچ بس گیا تھا اور اس ملک کو پسند بھی کرتا تھا۔ یہاں مجھے سکون سے زندگی گزارنے کا موقع ملا اور میں نے پیسہ بھی کمایا۔ میں نے اپنی بیٹی کی پرورش امریکی انداز میں کی تھی اور اسے آزادی دے رکھی تھی تاہم اس نے کبھی ایسا کوئی کام نہیں کیا جس سے میرا سر شرم سے جھک جاتا، تاہم اس کا ایک بوائے فرینڈ ضرور تھا جس کے ساتھ وہ باہر گھومنے پھرنے جاتی تھی۔ وہ لڑکا رشتہ مانگنے کبھی ہمارے گھر نہیں آیا۔‘‘ وہ ایک لمحے کیلئے خاموش ہوا پھر گویا گفتگو کے نازک موڑ کی طرف آتے ہوئے بولا۔ ’’ایک روز وہ اس لڑکے کے ساتھ ڈرائیو پر گئی۔ راستے میں لڑکے نے اپنے ایک دوست کو بھی ساتھ لے لیا۔ انہوں نے کسی طرح میری بیٹی کو شراب پینے پر بھی مجبور کیا اور پھر ویرانے میں اس کی عزت لوٹنے کی کوشش کی۔ اس نے شدید مزاحمت کی تو انہوں نے مار مار کر اس کا برا حال کردیا، اس کا جبڑا توڑ ڈالا، ناک بھی توڑ ڈالی۔ اس کے چہرے اور جسم پر نیل پڑ گئے۔ وہ تکلیف سے روتی تھی تو میرا دل بھی خون کے آنسو روتا تھا۔‘‘ اس کی آواز رندھ گئی۔ پھر وہ دھیرے دھیرے رونے لگا۔
ڈون نے گویا بادل ناخواستہ ہمدردی اور تاسف سے سر ہلایا۔ اس سے حوصلہ پا کر بونا سیرا شکستہ سے لہجے میں مزید بولا۔ ’’میری بیٹی میری آنکھوں کا تارہ تھی۔ بہت خوبصورت تھی مگر اب شاید وہ زندگی بھر کیلئے بدصورت ہوجائے۔ انسانوں سے اس کا اعتماد شاید ہمیشہ کیلئے اٹھ چکا ہے۔ میں ایک اچھے امریکی کی طرح پولیس کے پاس گیا۔ دونوں لڑکے گرفتار بھی ہوئے۔ مقدمہ بھی چلا۔ ان کے خلاف شہادتیں مضبوط تھیں۔ انہوں نے اپنا جرم تسلیم بھی کرلیا۔ جج نے انہیں تین سال کی سزائے قید بھی سنائی مگر اس پر عملدرآمد معطل رکھا۔ دونوں لڑکے اسی دن رہا بھی ہوگئے اور میں احمقوں کی طرح عدالت میں کھڑا رہ گیا۔ وہ سب فاتح انداز میں میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے رخصت ہوگئے۔ تب میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ انصاف کیلئے ہم ڈون کارلیون کے پاس جائیں گے۔
ڈون کا سر گویا بونا سیرا کے دکھ کے احترام میں جھکا ہوا تھا۔ وہ خاموش ہوا تو ڈون نے سر اٹھایا اور سرد لہجے میں بولا۔ ’’تم پولیس کے پاس کیوں گئے؟ اگر تمہیں انصاف چاہئے تھا تو تم پولیس کے پاس جانے کے بجائے میرے پاس کیوں نہیں آگئے؟‘‘
بونا سیرا نے مجرمانہ انداز میں سر جھکا لیا۔ ڈون گویا خود ہی اپنے سوال کا جواب دیتے ہوئے بولا۔ ’’اتنے برسوں میں تم نے کبھی مجھ سے کوئی رابطہ نہیں رکھا حالانکہ میری بیوی تمہاری بیوی کی دوست تھی۔ گویا وہ تمہاری بچی کی ’’گاڈ مدر‘‘ تھی لیکن تم کبھی اس بچی کو ہمارے گھر میں نہیں لائے۔ ہم ایک دوسرے کے بہت پرانے جاننے والے تھے لیکن تم نے کبھی مجھے چائے، کافی پر بھی اپنے گھر مدعو نہیں کیا۔ شاید تمہیں خوف تھا کہ مجھ سے تعلق رکھ کر تم کسی مصیبت میں نہ پھنس جائو۔ تم سمجھتے تھے کہ امریکا ایک جنت ہے جہاں تمہاری طرح شرافت سے زندگی گزارنے والوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ تمہیں مجھ جیسے دوستوں کی ضرورت نہیں تھی۔ تمہارا خیال تھا کہ ضرورت پڑنے پر انصاف اور تحفظ دلانے کیلئے امریکا کی پولیس اور عدالتیں کافی ہیں لیکن جب تمہیں وہاں منہ کی کھانی پڑی تو تم
میرے پاس آگئے۔ اتنے برسوں بعد تمہیں ڈون کارلیون یاد آگیا اور اس کے پاس بھی تم دل میں عزت اور احترام کے جذبات لے کر نہیں آئے۔ مجھے پتا چلا ہے کہ تم نے اپنی بیوی سے کہا تھا۔ اگر میں تمہاری مرضی کے مطابق ان لڑکوں کے بارے میں ایسی انتقامی کارروائی کروں جس سے تمہارے دل میں ٹھنڈک پڑ جائے تو اس کیلئے تم بھاری رقم بھی خرچ کرنے کو تیار ہو۔ تم ان لڑکوں کو مروانا چاہتے ہو۔ کیا تم مجھے کرائے کا قاتل سمجھتے ہو؟ کیا میں تمہاری نظر میں اتنا چھوٹا آدمی ہوں؟‘‘
’’مم… میں معافی چاہتا ہوں گاڈ فادر!‘‘ بونا سیرا شرمندگی اور گھبراہٹ سے ہکلایا۔
ڈون چند لمحے خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا پھر قدرے نرم لہجے میں بولا۔ ’’اب مجھ سے کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’میں انصاف چاہتا ہوں۔ میری بیٹی نے جتنی تکلیف اٹھائی ہے، کم ازکم اتنی تکلیف تو ان لڑکوں اور ان کے والدین کو بھی پہنچنی چاہئے۔‘‘ بونا سیرا لجاجت سے بولا۔ اس کا چہرہ زرد تھا۔
’’اگر تم انصاف کیلئے پہلے ہی میرے پاس آجاتے تو تمہیں اتنا خوار نہ ہونا پڑتا اور لوگوں کی نظر میں تماشا نہ بننا پڑتا۔ تم انصاف کیلئے ان وکیلوں کے پاس دھکے کھاتے رہے اور ان ججوں کے سامنے گڑگڑاتے رہے جو بکائو مال ہیں۔ اسی طرح تم کاروبار چلانے کیلئے بھی شروع شروع میں ان بینکوں میں بھکاریوں کی طرح چکر لگاتے رہے جنہوں نے تمہاری ہر چیز کی اچھی طرح چھان پھٹک کرنے کے بعد تمہیں بھاری سود پر قرضہ دیا۔ اگر اس وقت بھی تم نے مجھے اپنا یا خود کو میرا دوست سمجھا ہوتا تو میں منہ مانگی رقم تمہارے ہاتھ پر رکھ دیتا۔‘‘ پھر اس نے گہری سانس لی اور بولا۔ ’’بہرحال میری بیوی تمہاری بیٹی کی گاڈ مدر ہے۔ اب جائو، تمہیں انصاف مل جائے گا۔‘‘
جب بونا سیرا چلا گیا اور دروازہ اس کے عقب میں بند ہوگیا تو ڈون نے ہیگن کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا ’’یہ معاملہ مینزا کے سپرد کردو۔ اس سے کہنا کہ بھروسے کے آدمیوں سے کام لے، جو لہو کی بو سونگھ کر زیادہ مستی میں نہ آجائیں اور بہت آگے نہ بڑھ جائیں۔ ہم بہرحال کرائے کے قاتل نہیں ہیں۔‘‘
سنی جو اس دوران کھڑکی سے باہر باغ کی طرف دیکھ رہا تھا، مڑتے ہوئے بولا۔ ’’جونی بھی شادی میں شرکت کیلئے آن پہنچا ہے۔ میں نے آپ سے کہا تھا نا کہ وہ ضرور آئے گا۔‘‘ باہر سے مہمانوں کا شور بھی سنائی دینے لگا تھا شاید کچھ لوگ بہت جوش و خروش سے جونی کا استقبال کررہے تھے۔ ہیگن نے بھی آگے بڑھ کر کھڑکی سے دیکھا۔ پھر ڈون کی طرف مڑتے ہوئے بولا۔ ’’واقعی… آپ کا ’’گاڈ سن‘‘ جونی آیا ہے۔ کیا میں اسے یہاں لے آئوں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ ڈون نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ابھی ذرا لوگوں کو اس سے مل کر خوش ہولینے دو۔ وہ مشہور آدمی ہے۔ لوگ اس سے ملنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ وہ بہرحال ایک اچھا ’’گاڈ سن‘‘ بھی ہے۔ اس موقع پر وہ میرے پاس آنا نہیں بھولا۔‘‘
ہیگن ذرا چبھتے ہوئے لہجے میں بولا۔ ’’ضروری نہیں کہ وہ خاص طور پر آپ سے ملنے یا شادی میں شرکت کرنے کیلئے آیا ہو۔ دو سال سے اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اب وہ پھر کسی مشکل میں نہ پھنس گیا ہو جس کی وجہ سے اسے آپ کے پاس آنا پڑا ہو۔‘‘
’’ظاہر ہے… مشکل یا مصیبت میں وہ مدد کیلئے اپنے گاڈ فادر کے پاس نہیں آئے گا تو کس کے پاس جائے گا؟‘‘ ڈون نے خوشدلی سے کہا۔
٭…٭…٭
جونی پر سب سے پہلے کونی کی نظر پڑی تھی اور وہ اپنے دلہن والے تکلفات بالائے طاق رکھتے ہوئے گلا پھاڑ کر چلا اٹھی تھی۔ ’’جونی!‘‘
جونی سیدھا اس کی طرف آیا۔ دونوں بے تکلفی سے گلے ملے۔ دولہا سے بھی اس کا تعارف ہوا۔ چند لمحوں میں جونی سب کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اسی دوران بینڈ اسٹینڈ کی طرف سے آواز آئی۔ ’’جونی! آج تو ہم سب کو ایک گانا سنا دو۔‘‘
اس شناسا آواز پر جونی نے گھوم کر دیکھا۔ وہ اس کا لڑکپن کا ساتھی نینو تھا جو چند لمحے پہلے تک مینڈولین کی دھن پر کوئی نغمہ سنا رہا تھا۔ کسی زمانے میں جونی اور نینو ہر وقت ساتھ رہتے تھے۔ وہ اکٹھے گاتے تھے، اکٹھے محفلوں میں شرکت کرتے تھے، لڑکیوں سے ملنے اکٹھے جاتے تھے لیکن پھر دھیرے دھیرے جونی زندگی کی دوڑ میں شہرت کے راستوں پر آگے نکل گیا اور نینو پیچھے رہ گیا۔
جونی نے پہلے ریڈیو کیلئے گانا شروع کیا اور جب وہ خاصا مشہور ہوگیا تو اسے گلوکاری کیلئے ہالی وڈ سے بلاوا آگیا۔ وہ فلموں کیلئے گانے لگا اور بڑی کمپنیاں اس کے البم بھی تیار کرنے لگیں۔ اس نے ہالی وڈ سے دو تین مرتبہ نینو کو فون کیا اور اس سے وعدہ کیا کہ وہ اسے کسی اچھے کلب میں سنگر کے طور پر کام دلانے کی کوشش کرے گا۔ یہ وعدہ کبھی پورا نہیں ہوسکا۔
تاہم آج نینو نظر آیا تو جونی اس سے لڑکپن کے اسی پرانے انداز میں گرمجوشی سے ملا۔ اس نے نینو سے مینڈولین لے کر پائوں زور زور سے چوبی فرش پر مارتے ہوئے دلہن کے اعزاز میں ایک گانا شرع کردیا۔ نینو اور دیگر بہت سے مہمان اس کا ساتھ دینے لگے۔ مہمان جونی پر فخر محسوس کررہے تھے۔ وہ گویا ان کا اپنا آدمی تھا جس نے شوبزنس کی دنیا میں اتنا نام کمایا تھا۔ وہ صرف گلوکاری کے میدان میں ہی نہیں، اداکاری کے میدان میں بھی اسٹار بن گیا تھا لیکن گاڈ فادر کے احترام میں وہ بھی تین ہزار میل کا سفر کرکے اس کی بیٹی کی شادی میں شرکت کرنے آن پہنچا تھا اور آتے ہی اس نے سماں باندھ دیا تھا، فضا کو جوش و خروش، مستی اور موسیقی سے بھر دیا تھا۔
آخرکار وہ گاڈ فادر سے ملنے اندر جا پہنچا۔ ڈون کارلیون نے اسے سینے سے لگا کر اس کا استقبال کیا۔ جونی بولا۔ ’’جب مجھے شادی کا دعوت نامہ ملا تو اس احساس سے میرا دل باغ باغ ہوگیا کہ میرا گاڈ فادر مجھ سے اب ناراض نہیں ہے۔ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینے کے بعد میں نے پانچ مرتبہ آپ کو فون کیا لیکن ہیگن نے ہر بار مجھے یہی بتایا کہ آپ کہیں گئے ہوئے ہیں۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ آپ مجھ سے ناراض ہیں۔‘‘
’’اب میں نے ساری ناراضی بھلا دی ہے۔‘‘ ڈون نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’اگر اب میں تمہارے لئے کچھ کرسکتا ہوں تو بتا دو۔ ابھی تم اتنے مشہور اور بڑے آدمی نہیں بنے کہ میں تمہارے لئے کچھ نہ کرسکوں۔‘‘
’’میں اب اتنا مشہور اور کامیاب آدمی نہیں رہا۔ میں بہت تیزی سے نیچے جارہا ہوں۔‘‘ جونی مشروب کا گلاس خالی کرتے ہوئے بولا۔ ’’آپ نے ٹھیک کہا تھا کہ مجھے اپنی پہلی بیوی اور بچوں کو نہیں چھوڑنا چاہئے تھا۔ آپ اس بات پر مجھ سے ناراض ہوئے تھے تو ٹھیک ہی ناراض ہوئے تھے۔ ہالی وڈ کی جس سپر اسٹار سے میں نے شادی کی، وہ کال گرل سے بھی بدتر ثابت ہوئی۔ اس کی صورت فرشتوں جیسی لیکن حرکتیں شیطان کو شرمانے والی ہیں۔ اگر اس کی کوئی فلم کامیاب ہوجاتی ہے تو وہ اس فلم کے ڈائریکٹر، پروڈیوسر سے لے کر لائٹ مین تک کو اپنے حسن سے فیض یاب ہونے کا موقع دے دیتی ہے اور…!‘‘
’’تمہاری سابق بیوی اور بچے کیسے ہیں؟‘‘ ڈون نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔
’’میں نے اچھے طریقے سے ان سے علیحدگی اختیار کی تھی۔‘‘ جونی نے جواب دیا۔ ’’طلاق کے بعد میں نے انہیں اس سے کہیں زیادہ رقم اور دوسری چیزیں دی تھیں جتنی عدالت نے کہی تھیں۔ ہفتے میں ایک مرتبہ میں ان سے ملنے بھی جاتا ہوں لیکن اب مجھے زندگی میں ان کی کمی محسوس ہوتی ہے۔‘‘
اس نے ہیگن سے اپنے لئے مشروب کا ایک اور گلاس بھروایا۔ ایک گھونٹ بھرنے اور سگریٹ کا ایک کش لینے کے بعد بولا۔ ’’میری دوسری بیوی مجھ پر ہنستی ہے اور میں اس کی بدچلنی پر ناراض ہوتا ہوں تو وہ مجھے قدامت پرست قرار دے کر میرا مذاق اڑاتی ہے۔ وہ میرے گانوں کا بھی مذاق اڑاتی ہے۔ ویسے بھی آج کل گلوکاری کے میدان میں مجھے ناکامیوں کا سامنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قسمت کے ساتھ ساتھ آواز بھی مجھ پر مہربان نہیں رہی۔ اب مجھ سے گایا بھی نہیں جاتا، میری آواز میرا ساتھ چھوڑ گئی ہے۔ آنے سے پہلے بھی بیوی سے میرا جھگڑا ہوا۔ میں نے اس کی پٹائی کی لیکن اس کے چہرے پر نہیں مارا کیونکہ ابھی اس کی فلم کی شوٹنگ چل رہی ہے۔‘‘ اس نے ایک آہ بھری اور دردناک لہجے میں بولا۔ ’’لگتا ہے اب زندگی میں کوئی کشش… کوئی دلچسپی نہیں رہی۔‘‘
’’بھئی… ان معاملات میں، میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔‘‘ ڈون نے ملائمت سے کہا۔
’’جس اسٹوڈیو کی فلموں میں میں نے کام کیا تھا، اب وہ بھی مجھے کاسٹ کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ اسٹوڈیو کا مالک شروع سے ہی مجھ سے جلتا تھا، اب گویا اسے مجھ سے انتقام لینے کا بہترین موقع مل گیا ہے۔ وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے۔‘‘
’’کیوں…؟‘‘ ڈون نے دریافت کیا۔
’’میں نے اس کی ایک خاص محبوبہ کو اس سے چھین لیا تھا حالانکہ ہمیشہ کیلئے نہیں چھینا تھا صرف چند دنوں کی بات تھی اور وہ خود ہی میرے پیچھے آئی تھی۔ اب میں بھلا کیا کرتا؟ ایسا لگتا ہے کہ اب کوئی بھی مجھے قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ گاڈ فادر! میں کیا کروں؟‘‘
’’اور کچھ نہیں کرسکتے تو کم ازکم مرد تو بنو۔‘‘ ڈون نے سخت ناگواری سے کہا۔ ’’یہ عورتوں کی طرح رونا دھونا اور فریاد کرنا تو بند کرو۔‘‘
جونی نے اس کی ڈانٹ کا برا نہیں منایا اور ہنسنے لگا۔ ڈون کو اس کی یہ عادت اچھی لگتی تھی۔ اس کی اپنی اولاد بھی اس کی ڈانٹ پھٹکار پر کوئی نہ کوئی ناخوشگوار ردعمل ظاہر کرتی تھی لیکن جونی ہنس دیتا تھا اور ڈون کی ڈانٹ پھٹکار کو اپنے حق میں بہتر سمجھتا تھا۔
ڈون نے سلسلۂ کلام جوڑتے ہوئے کہا۔ ’’تم نے اپنے سے زیادہ طاقتور اور بااختیار آدمی سے اس کی محبوبہ چھینی۔ اس کے بعد شکوہ کررہے ہو کہ وہ تمہیں اپنی فلم میں کاسٹ نہیں کررہا۔ تم نے اپنی بیوی اور بچوں کو چھوڑ دیا اور اب شکوہ کرتے ہو کہ وہ تم سے اچھی طرح پیش نہیں آتے۔ اپنی دوسری بیوی کو تم کال گرل سے بدتر قرار دیتے ہو لیکن اس کے منہ پر گھونسہ نہیں مارتے کہ کہیں اس کی شوٹنگ کھٹائی میں نہ پڑ جائے۔ جونی! تم ایک احمق انسان ہو اور تمہارا وہی انجام ہوا ہے جو عام طور پر احمقوں کا ہوا کرتا ہے۔ اس میں رونے دھونے کی کیا بات ہے؟‘‘
’’میں اپنی پہلی بیوی جینی سے دوبارہ شادی نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی شرائط پوری کرنا میرے بس کی بات نہیں۔‘‘ جونی نے فریادی انداز میں اپنی بات جاری رکھی۔ ’’وہ کہتی ہے کہ مجھے جوئے، شراب، عورتوں اور مرد
دور رہنا ہوگا۔ جوا اور شراب میں نہیں چھوڑ سکتا۔ عورتیں خود میرے پیچھے آتی ہیں۔ اب میں کیا کروں؟ اس سلسلے میں بھی میں کچھ نہیں کرسکتا۔ ویسے بھی جب میں جینی کے ساتھ زندگی گزار رہا تھا، تب بھی مطمئن نہیں تھا۔ اب میں اسی زندگی کی طرف واپس نہیں جاسکتا۔‘‘
’’میں نے تم سے کب کہا ہے کہ تم جینی سے دوبارہ شادی کرو یا مزید کوئی شادی کرو۔ یہی غنیمت ہے کہ تم نے ایک باپ کی طرح اپنے بچوں کی گزراوقات کا خیال رکھا ہے۔ جو انسان اپنے بچوں کا خیال نہیں رکھتا، میں اسے مرد ہی نہیں سمجھتا… لیکن…! بہرحال … تم جن حالات سے دوچار ہو، وہ تمہارے اپنے ہی پیدا کردہ ہیں۔ تم نے اپنے اچھے دوست بھی نہیں بنائے بلکہ لڑکپن کا جو ایک آدھ اچھا دوست تھا، اسے بھی ترقی کے راستے پر آگے نکلتے ہی فراموش کردیا۔ دوست بہت اہم ہوتے ہیں، تقریباً فیملی کی طرح…!‘‘
پھر ڈون کارلیون ایک لمحے کیلئے خاموش رہا۔ جونی امید بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ آخر ڈون نرم لہجے میں بولا۔ ’’وہ جو اسٹوڈیو کا مالک ہے جو تمہیں اپنی فلم میں کاسٹ نہیں کررہا، اس کا نام کیا ہے اور وہ کس قسم کا آدمی ہے؟ مجھے اس کے بارے میں ذرا تفصیل سے بتائو۔‘‘
’’اس کا نام جیک والز ہے۔ وہ بہت بڑا بہت دولت مند، طاقتور اور بارسوخ شخص ہے۔ امریکا کے صدر تک سے اس کی شناسائی ہے کیونکہ جنگ کے زمانے میں اس نے پروپیگنڈا فلمیں بھی بنائی تھیں جو دنیا میں امریکا کا امیج بہتر بنانے اور اس کا موقف اجاگر کرنے میں مدد دیتی تھیں۔ صدر اس قسم کے معاملات میں اس سے مشورہ کرتا ہے۔ ایک ماہ پہلے اس نے اب تک کے مشہور ترین اور سب سے زیادہ بکنے والے ناول پر فلم بنانے کے حقوق خریدے ہیں۔ اس کا مرکزی کردار بالکل مجھ جیسا ہے۔ میں اگر ایکٹنگ نہ کروں تب بھی اس کردار کو بہت اچھے طریقے سے کرسکتا ہوں۔ میں اس کردار میں بالکل اسی طرح فٹ ہوں جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔ شاید مجھے اس پر اکیڈمی ایوارڈ بھی مل جائے۔ فلمی دنیا کے ہر آدمی کا خیال ہے کہ وہ کردار گویا میرے لئے بنا ہے۔ اگر مجھے اس فلم میں سائن کرلیا جائے تو مجھے گویا دوسری زندگی مل جائے گی لیکن اس مردود جیک والز نے اس بات کو انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ وہ کسی بھی صورت مجھے اس فلم میں کاسٹ کرنے کیلئے تیار نہیں حتیٰ کہ میں نے مفت کام کرنے کی بھی پیشکش کردی لیکن اس کا انکار، اقرار میں نہیں بدلا۔ میں نے ہر کوشش کرکے دیکھ لی ہے۔‘‘
ڈون نے متاسفانہ انداز میں سر ہلایا اور کہا۔ ’’مایوسی اور شکستہ دلی کی حالت میں تمہاری بے اعتدالیاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ تم زیادہ پینے لگے ہو، سگریٹ بھی پیتے ہو، سونے کیلئے خواب آور گولیاں لیتے ہوگے۔ انہی بے اعتدالیوں کی وجہ سے تمہاری آواز بھی تمہارا ساتھ چھوڑ گئی ہے۔ اب تم میرے احکام سن لو۔ تم ایک ماہ اس گھر میں میرے ساتھ رہو۔ اس دوران تم صحیح طرح کھائو گے، پینا پلانا بالکل چھوڑ دو گے، خواب آور گولیاں نہیں لو گے۔ صحت مندانہ طریقے سے زندگی گزارو گے۔ ایک ماہ بعد تم ہالی وڈ واپس جائو گے اور میرا وعدہ ہے کہ جیک والز تمہیں اپنی فلم میں سائن کرلے گا۔ ٹھیک ہے؟‘‘
(جاری ہے)