Friday, September 20, 2024

God Father | Episode 3

جونی قدرے بے یقینی سے ڈون کی طرف دیکھنے لگا۔ اسے بھی صحیح طور پر معلوم نہیں تھا کہ اس کا گاڈ فادر واقعی یہ کام کرانے کی طاقت رکھتا ہے یا نہیں؟ حالانکہ وہ ڈون کے بیٹوں ہی کی طرح اس کے بہت قریب رہا تھا اور ڈون نے اسے تقریباً بیٹے جیسی ہی حیثیت دے رکھی تھی۔ مگر بہت سی باتیں اس کے بھی علم میں نہیں تھیں۔ تاہم ایک بات اسے یقینی طور پر معلوم تھی کہ گاڈ فادر کبھی ایسے کام کا وعدہ نہیں کرتا جو وہ نہ کرسکتا ہو۔ وہ کبھی ایسا کوئی دعویٰ نہیں کرتا تھا جسے وہ پورا کرکے نہ دکھا سکتا ہو۔
’’میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ وہ شخص امریکا کے صدر ریڈگر۔جے۔ ہوور کا ذاتی دوست ہے۔‘‘جونی نے گویا ڈون کو یاد دلایا۔ ’’اس کے سامنے کوئی اونچی آواز میں بات بھی نہیں کرسکتا۔‘‘
’’لیکن وہ بہرحال ایک بزنس مین ہے۔‘‘ ڈون بولا۔ ’’میں اسے ایک ایسی پیشکش کروں گا جسے وہ رد نہیں کرسکے گا۔‘‘
’’اب بہت تاخیر ہوچکی ہے۔‘‘ جونی بولا۔ ’’تمام معاہدے سائن ہوچکے ہیں۔ ایک ہفتے میں شوٹنگ شروع ہونے والی ہے، اب یہ کام ناممکن ہے۔‘‘
’’تم باہر باغ میں واپس جائو اور دعوت سے لطف اندوز ہو۔ یہ کام تم مجھ پر چھوڑ دو اور سب کچھ بھول جائو۔‘‘ ڈون نے اٹھ کر اسے کمرے سے باہر کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا۔
وہ جا چکا تو ڈون ایک بار پھر ہیگن کی طرف متوجہ ہوا جو اپنی میز پر بیٹھا کاغذ پر ضروری پوائنٹس نوٹ کررہا تھا۔ گہری سانس لیتے ہوئے اس نے پوچھا۔ ’’اب اور کیا کرنا ہے؟‘‘
’’سولوزو سے آپ کی ملاقات کو میں ٹالتا آرہا ہوں۔ وہ آپ سے ملنے کیلئے بضد ہے جبکہ آپ فی الحال اس سے ملنا مناسب نہیں سمجھ رہے۔ اب اسے مزید ٹالنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ اس کے بارے میں کیا کرنا ہے؟‘‘
ڈون نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ ’’اب میں شادی سے فارغ ہوچکا ہوں، کسی بھی روز اس سے ملاقات رکھ لو۔‘‘
ڈون کے اس جواب سے ہیگن کو دو باتوں کا اندازہ ہوگیا۔ ایک یہ کہ سولوزو جس کام کے سلسلے میں ڈون سے ملنا چاہتا تھا، اس کے بارے میں ڈون کا جواب انکار میں ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ انکار میں جواب دینے کیلئے ڈون اس ملاقات کو شادی کے بعد تک کیلئے ٹالتا آرہا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس کے انکار سے بدمزگی پیدا ہونے کا امکان تھا۔
چنانچہ ہیگن نے محتاط لہجے میں پوچھا۔ ’’کیا میں مینزا سے کہہ دوں کہ وہ کچھ آدمیوں کو اس گھر میں رہنے کیلئے بھیج دے؟‘‘
’’اس کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ ڈون نے بے نیازی سے کہا۔ ’’یہ درست ہے کہ شادی سے پہلے میں نے اس سے اس لئے ملاقات نہیں کی تھی کہ میں اس تقریب پر ناخوشگواری کا معمولی سا سایہ بھی پڑنے نہیں دینا چاہتا تھا۔ دوسرے میں ملاقات سے پہلے اندازہ کرنا چاہتا تھا کہ وہ کیا بات کرنا چاہتا ہے۔ اب مجھے اندازہ ہوگیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ ہمارے ساتھ شامل ہونے کی کوئی تجویز لے کر آئے گا۔‘‘
’’اور آپ انکار کردیں گے؟‘‘ ہیگن نے تصدیق چاہی۔
ڈون نے اثبات میں سر ہلایا تو ہیگن بولا۔ ’’لیکن میرے خیال میں اسے کوئی حتمی جواب دینے سے پہلے ہم سب لوگوں کو… پوری ’’فیملی‘‘ کو ایک بار بیٹھ کر اس معاملے پر تبادلۂ خیال کرلینا چاہئے۔‘‘
’’اگر تمہاری یہ رائے ہے تو ایسا کرلیں گے۔‘‘ ڈون مسکرایا۔ ’’لیکن ہم یہ کام تمہارے لاس اینجلس سے واپس آنے کے بعد کریں گے۔ پہلے تم جونی والے معاملے کو سلجھانے کیلئے لاس اینجلس جائو گے۔ میں چاہتا ہوں تم کل ہی چلے جائو اور فلمی دنیا کے اس اُچکّے سے ملو جس سے جونی بہت مرعوب ہے۔ کیا نام بتایا تھا جونی نے اس کا؟ ہاں! جیک والز… تم جیک والز سے مل کر مسئلہ حل کرو اور سولوزو سے کہہ دو کہ جب تم لاس اینجلس سے واپس آئو گے تب میں اس سے ملوں گا اور کچھ…؟‘‘
ہیگن ہموار لہجے میں بولا۔ ’’اسپتال سے فون آیا تھا ڈینڈو اب قریب المرگ ہے۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ وہ آج کی رات مشکل سے گزار پائے گا۔ وہ چند گھنٹوں کا مہمان ہے۔ انہوں نے اس کی فیملی کو بھی بلا لیا ہے تاکہ وہ لوگ آخری لمحات اس کے قریب گزار سکیں۔‘‘
ڈینڈو، ڈون کا وہ پرانا وکیل تھا جس کی جگہ ہیگن کام کررہا تھا۔ فی الحال اس کے پاس قانونی مشیر کا یہ ’’عہدہ‘‘ عارضی طور پر تھا۔ ڈینڈو کی موت کے بعد ہی اس کے مستقل ہونے کی امید تھی لیکن اس معاملے میں ہیگن کے ذہن میں کچھ شکوک وشبہات تھے۔ اس نے سنا تھا کہ اس عہدے پر کسی ایسے شخص کو ہی رکھا جاسکتا تھا جو بہت گھاگ، شاطر اور تجربہ کار ہو اور جس کی رگوں میں اطالوی خون دوڑ رہا ہو۔ ہیگن صرف پینتیس سال کا تھا اور وہ اطالوی بھی نہیں تھا۔ ڈون نے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی واضح اشارہ نہیں دیا تھا۔
’’میری بیٹی کب رخصت ہورہی ہے؟‘‘ ڈون نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
’’کچھ دیر بعد کیک کٹنے والا ہے۔ اس کے آدھ پون گھنٹے بعد وہ اپنے شوہر کے ساتھ رخصت ہوجائے گی۔‘‘ ہیگن نے جواب دیا اور اس کے ساتھ ہی اسے گویا ایک ضروری بات یاد آگئی۔ اس نے پوچھا۔ ’’کیا آپ کے داماد کو ’’فیملی‘‘ میں کوئی اہم پوزیشن دی جائے گی؟‘‘
’’ہرگز نہیں۔‘‘ ڈون نے میز پر ہاتھ مار کر اتنے سخت لہجے میں جواب دیا کہ ہیگن حیران رہ گیا۔ ’’اسے ’’فیملی‘‘ کے کاروبار… اصل معاملات اور دوسری اہم باتوں کی ہوا بھی نہیں لگنی چاہئے۔ بس اس کیلئے کسی اچھے ذریعہ معاش کا بندوبست کردینا جس سے وہ آرام و آسائش سے زندگی گزار سکے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں اور یہ بات سنی، فریڈ اور مینزا کو بھی بتا دینا۔‘‘ پھر ایک لمحے کے توقف کے بعد ڈون بولا۔ ’’میرے تینوں بیٹوں سے کہہ دو کہ ہم سب ڈینڈو سے الوداعی ملاقات کیلئے اسپتال جائیں گے۔ وہ ہمارا بہت اہم اور باعزت ساتھی تھا۔ ہم اس کیلئے نیک تمنائوں کا اظہار کریں گے اور پورے احترام سے الوداع کہیں گے۔ فریڈ سے کہنا کہ جانے کیلئے بڑی گاڑی نکالے اور جونی سے کہنا کہ اگر وہ بھی ہمارے ساتھ چلے تو مجھے خوشی ہوگی۔‘‘
پھر ہیگن کی آنکھوں میں سوال دیکھ کر وہ بولا۔ ’’تمہیں ہمارے ساتھ جانے کی ضرورت نہیں۔ تمہارے پاس وقت نہیں ہوگا۔ تمہیں آج رات ہی لاس اینجلس جانے کی تیاری کرنی ہوگی لیکن تم اسپتال سے میری واپسی کا انتظار ضرور کرلینا۔ تمہارے جانے سے پہلے میں تمہیں کچھ ضروری باتیں سمجھانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’گاڑی کس وقت نکلوائوں؟‘‘ ہیگن نے پوچھا۔
’’جب کونی اور تمام مہمان رخصت ہوجائیں۔‘‘ ڈون نے جواب دیا۔ ’’مجھے امید ہے کہ ڈینڈو میرا انتظار ضرور کرے گا۔ وہ مجھ سے ملاقات کئے بغیر اس دنیا سے رخصت نہیں ہوگا۔‘‘
’’سینیٹر کا فون آیا تھا۔‘‘ ہیگن نے بتایا۔ ’’وہ شادی میں شرکت نہ کرسکنے پر معذرت کررہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ آپ اس کی مجبوری سمجھ گئے ہوں گے۔ شاید اس کا اشارہ ایف بی آئی کے ان دو آدمیوں کی طرف تھا جو باہر گاڑیوں کے نمبر نوٹ کررہے تھے۔ بہرحال، اس نے خصوصی قاصد کے ذریعے شادی کا تحفہ بھجوا دیا تھا۔‘‘
ڈون نے سر ہلانے پر اکتفا کیا۔ اس نے ہیگن کو بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ درحقیقت اس نے خود ہی احتیاطاً سینیٹر کو شادی میں آنے سے منع کردیا تھا۔
’’اس نے کیا تحفہ بھیجا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’چاندی کا ایک ڈنر سیٹ ہے جو نوادرات میں شمار ہوتا ہوگا۔ اس کی قیمت سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سینیٹر نے اسے تلاش کرنے اور منتخب کرنے میں اپنا بہت قیمتی وقت صرف کیا ہوگا۔‘‘ پھر ہیگن خوشدلی سے مسکراتے ہوئے بولا۔ ’’اس قسم کی چیزیں برے وقت کیلئے بھی اچھا سہارا ہوتی ہیں، ہزاروں ڈالر میں بک جاتی ہیں۔‘‘
ڈون ایک اہم تحفے کا ذکر سن کر خوش نظر آنے لگا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اسے اس بات کی بھی خوشی تھی کہ سینیٹر جیسا اہم آدمی اس کے خاص وفاداروں میں تھا۔
٭…٭…٭
جونی کو باغ میں مہمانوں کے سامنے گاتے دیکھ کر مائیکل کی منگیتر ’’کے‘‘ حیران رہ گئی تھی۔
’’تم نے مجھے بتایا ہی نہیں کہ اتنا بڑا اسٹار بھی تمہاری فیملی کا اتنا اچھا جاننے والا ہے؟‘‘ وہ مائیکل سے بولی۔ ’’اب میں ضرور تم سے شادی کرلوں گی۔‘‘
’’کیا تم اس سے ملنا چاہتی ہو؟‘‘ مائیکل نے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ ’کے‘ بولی۔ ’’کوئی زمانہ تھا کہ میں اس کی دیوانی تھی۔ تین سال میں اس کے عشق میں مبتلا رہی۔ جب یہ کلب میں گایا کرتا تھا تو میں صرف اس کا گانا سننے نیویارک آتی تھی اور اسے داد دینے کیلئے گلا پھاڑ کر چیختی تھی۔‘‘ پھر ’کے‘ نے جونی کو اندر جاتے دیکھا تو بولی۔ ’’اب یہ مت کہنا کہ اتنا بڑا اسٹار بھی تمہارے والد کے پاس کوئی درخواست لے کر آیا ہوگا۔‘‘
’’وہ میرے والد کا گاڈ سن ہے اور اگر اس کے سر پر میرے والد کا ہاتھ نہ ہوتا تو یہ اتنا بڑا اسٹار ہرگز نہ بنتا۔ انہوں نے اسے نہ جانے کس کس موقع پر کس کس مصیبت سے بچایا ہے۔‘‘
٭…٭…٭
رات کے پچھلے پہر ٹام ہیگن اپنی بیوی کو خداحافظ کہہ کر لاس اینجلس جانے کیلئے ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوا۔ خصوصی ذرائع سے اس کیلئے ہنگامی طور پر سیٹ کا انتظام ہوا تھا۔ رات کے تین بجے ڈینڈو کا اسپتال میں انتقال ہوگیا تھا۔ اسپتال سے واپس آکر ڈون نے ہیگن کو بتا دیا تھا کہ اب وہ اس کا مستقل قانونی مشیر ہے۔ یوں اس نے اس روایت کو توڑ دیا تھا کہ اس کے قانونی مشیر کو خالصتاً اطالوی ہونا چاہیے۔ ہیگن دوغلی نسل کا تھا۔ وہ جرمن آئرش تھا۔
ڈون نے اسے رخصت کرنے سے قبل جیک والز سے ملاقات کے بارے میں ضروری ہدایات دی تھیں اور بہت سی باتیں اس پر بھی چھوڑ دی تھیں۔ اس معاملے کو صحیح انداز میں نمٹانا ڈون کے وکیل کے طور پر اس کی قابلیت اور اہلیت کا امتحان تھا۔
جن دو لڑکوں نے بونا سیرا کی بیٹی پر ظلم کیا تھا، ان کے سلسلے میں پال گیٹو کو مینزا کے توسط سے ہدایات دی گئی تھیں۔ گیٹو کو اس مقصد کیلئے دو آدمیوں کا بندوبست کرنا تھا جنہیں اصل بات سے بے خبر رکھا جانا تھا حتیٰ کہ انہیں یہ بھی خبر نہ ہو کہ ان کی خدمات درحقیقت کون حاصل کررہا تھا۔ اس قسم کے کاموں میں انہی احتیاطوں کی وجہ سے کبھی بات ڈون کی ذات تک نہیں پہنچتی تھی۔ اگر کبھی پولیس کے ہتھے چڑھ جانے یا کسی اور وجہ کے باعث بیچ کی کوئی ’’کڑی‘‘ غداری کرجاتی تب بھی ڈون یا اس کے خاص آدمیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا کیونکہ اس ’’کڑی‘‘ کو زنجیر کی باقی کڑیوں کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہوتا تھا۔
ٹام ہیگن پہلی بار
ذرا مشکل قسم کے کام پر لاس اینجلس روانہ ہوتے وقت معمولی سا نروس تھا لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس معاملے کو صحیح طرح ہینڈل کرنے پر ’’فیملی‘‘ میں اس کی عزت اور توقیر میں بے حد اضافہ ہوگا۔
جیک والز کے بارے میں تمام ضروری معلومات جمع کرلی گئی تھیں۔ وہ ہالی وڈ کے تین اہم ترین پروڈیوسرز اور اسٹوڈیو مالکان میں سے ایک تھا۔ بیسیوں اسٹارز اس کیلئے طویل معاہدوں کے تحت کام کررہے تھے۔ اس میں شک نہیں تھا کہ صدر امریکا سے اس کے مراسم تھے۔ وہ وہائٹ ہائوس میں کئی بار ڈنر کرچکا تھا اور ایک بار صدر اس کے ہالی وڈ والے گھر میں ضیافت پر آچکے تھے۔ سی آئی اے کے سربراہ سے بھی اس کے مراسم تھے۔
تاہم یہ سب باتیں ٹام ہیگن یا ڈون کیلئے زیادہ متاثر کن نہیں تھیں کیونکہ یہ درحقیقت رسمی قسم کے تعلقات تھے۔ والز کی اپنی کوئی ٹھوس سیاسی حیثیت نہیں تھی۔ ویسے بھی وہ ایک تند مزاج آدمی تھا اور ڈون کا کہنا تھا کہ تند مزاج آدمیوں کے دوست کم اور دشمن زیادہ ہوتے ہیں۔ والز کو اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کا بہت زعم تھا اور وہ موقع بے موقع اس کا اظہار بھی کرتا رہتا تھا۔
طیارہ جب لاس اینجلس کے ایئرپورٹ پر اترا تو صبح کا اجالا نمودار ہورہا تھا۔ ہیگن اس ہوٹل میں پہنچا جہاں وہ فون پر اپنے لئے کمرہ ریزرو کرا چکا تھا۔ لباس تبدیل کرکے اس نے ناشتہ کیا اور اطمینان سے اخبار پڑھنے بیٹھ گیا۔ دراصل وہ سستا رہا تھا۔ اپنے اعصاب کو سکون دے رہا تھا اور اپنے آپ کو والز سے ملاقات کیلئے تیار کررہا تھا۔ والز سے دس بجے اس کی ملاقات طے تھی۔
ملاقات کیلئے والز سے وقت حاصل کرنا زیادہ مشکل ثابت نہیں ہوا تھا۔ اسٹوڈیو ورکرز کی سب سے بڑی اور طاقتور یونین کا صدر گوف، ڈون کا عقیدت مند تھا۔ ڈون نے اسے فون پر ہدایت کردی تھی کہ وہ والز سے ہیگن کی ملاقات کا وقت طے کرا دے اور یہ بات بھی والز کے کان میں ڈال دے کہ اگر اس ملاقات کے نتائج ہیگن کیلئے خوش کن نہ ہوئے تو والز کے اسٹوڈیو میں ورکرز کی ہڑتال بھی ہوسکتی ہے۔
اس کال کے ایک گھنٹے بعد گوف نے ہیگن کو فون کرکے بتایا کہ صبح دس بجے والز سے اس کی ملاقات طے ہوگئی ہے تاہم اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کی طرف سے ممکنہ ہڑتال کی مبہم دھمکی سن کر والز زیادہ متاثر نہیں ہوا تھا۔ ملاقات کا دس بجے کا وقت بھی کچھ اچھی علامت نہیں تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ والز نے اسے اتنی اہمیت نہیں دی تھی کہ کھانے پر مدعو کرتا۔ شاید ڈون کی شہرت ابھی اس تک نہیں پہنچی تھی کیونکہ ڈون شہرت حاصل کرنے کا قائل ہی نہیں تھا۔ وہ تو خود کو حتی الامکان غیر معروف ہی رکھ کر کام کرنے کا قائل تھا۔ نیویارک سے باہر کے لوگ اس کے بارے میں بہت کم جانتے تھے یا پھر سرے سے جانتے ہی نہیں تھے تاہم ہر جگہ ضرورت کے وقت ڈون کا کوئی نہ کوئی پرانا رابطہ نکل آتا تھا۔
ہیگن کے اندازے درست نکلے۔ والز نے اسے ملاقات کے وقت سے آدھا گھنٹہ زائد انتظار کرایا تاہم ہیگن نے برا نہیں منایا۔ والز کا استقبالیہ کمرہ جہاں بیٹھ کر وہ انتظار کررہا تھا، نہایت شاندار، آرام دہ اور آراستہ تھا۔ اس وسیع کمرے میں دوسری طرف کائوچ پر ایک بچی اور ایک عورت بیٹھی تھی۔
بچی کی عمر گیارہ بارہ سال کے قریب تھی تاہم وہ بڑی عورتوں کی طرف پرتکلف لباس میں تھی۔ ہیگن نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ خوبصورت بچی نہیں دیکھی۔ اس کے بال سنہرے ریشمیں اور آنکھیں شفاف نیلی تھیں۔ بھرے بھرے سرخ ہونٹ یاقوت سے تراشیدہ لگ رہے تھے۔
عورت محافظ کی طرح بچی کے ساتھ تھی۔ وہ یقیناً اس کی ماں تھی کیونکہ اس کے چہرے میں بچی کی کچھ مشابہت تھی تاہم وہ لومڑی کی طرح چالاک، موقع پرست اور لالچی معلوم ہوتی تھی۔ بچی فرشتہ صورت تھی جبکہ ماں کوئی عیار بلا معلوم ہوتی تھی۔ اس نے چند لمحے بڑی نخوت اور تکبر سے ہیگن کو گھورا شاید اس کا خیال تھا کہ ہیگن نظر چرا لے گا مگر جب ہیگن نے ایسا نہیں کیا تو وہ خود دوسری طرف دیکھنے لگی۔ ہیگن کا دل چاہ رہا تھا کہ اٹھ کر اس کی ناک پر ایک گھونسہ رسید کردے۔
آخرکار ایک عورت آئی اور ہیگن کو اپنی رہنمائی میں کئی دفاتر کے سامنے سے گزار کر والز کے آفس میں لے گئی جو ایک پرتعیش اپارٹمنٹ کی طرح تھا۔ ہیگن ان تمام دفاتر اور ان میں کام کرنے والوں کو دیکھ کر کچھ متاثر ہوا لیکن دل ہی دل میں وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ شاید ان دفاتر میں کام کرنے والے بیشتر لوگ درحقیقت فلموں میں کام کرنے آئے تھے اور ’’چانس‘‘ کے منتظر تھے۔
والز ایک لحیم شحیم اور مضبوط آدمی تھا جس کی قدرے ابھری ہوئی توند کو خوبصورتی سے سلے ہوئے سوٹ نے چھپا لیا تھا۔ ہیگن اس کی پوری زندگی کی کہانی سے واقف ہوچکا تھا۔ دس سال کی عمر میں والز، ایسٹ سائڈ کے علاقے میں بیئر کے خالی بیرل ایک ٹھیلے پر جمع کرکے کباڑی کے ہاتھ بیچنے جاتا تھا۔ بیس سال کی عمر میں وہ اپنے باپ کا ہاتھ بٹانے لگا جو گارمنٹ فیکٹری میں ورکر تھا۔ تیس سال کی عمر تک وہ کچھ رقم جمع کرچکا تھا۔ اس نے نیویارک چھوڑ دیا اور ہالی وڈ آکر اپنی رقم فلموں کے کاروبار میں لگا دی۔
اڑتالیس سال کی عمر تک وہ بہت بڑا فلم پروڈیوسر بن گیا لیکن اس کی شخصیت کا اکھڑ پن اور کرختگی برقرار رہی۔ وہ ایک تند خو، اجڈ اور گنوار سا آدمی تھا۔ پیٹھ پیچھے لوگ اس کا ذکر کچھ زیادہ عزت سے نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنا غصہ زیادہ تر چھوٹے اور کمزور لوگوں پر نکالتا تھا۔ پچاس سال کی عمر میں اس نے کھانے، پہننے اور اچھی محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے کے آداب سیکھنے کیلئے باقاعدہ کچھ لوگوں کی خدمات حاصل کیں جس سے اس کی شخصیت اور انداز و اطوار کچھ سنور تو گئے لیکن ’’اصلیت‘‘ بہرحال مکمل طور پر نہیں چھپ سکی۔ اب بھی کسی نہ کسی موقع پر اس کی اصل شخصیت کی جھلک نظر آتی رہتی تھی۔
جب اس کی بیوی کا انتقال ہوا تو اس نے ایک ایسی اداکارہ سے شادی کرلی جو دنیا بھر میں مشہور تھی لیکن اداکاری چھوڑنا چاہتی تھی۔ اس سے شادی کرکے اداکارہ نے اداکاری چھوڑ دی۔ اب والز ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ چکا تھا اور فلمسازی وغیرہ کے علاوہ اس کے مشاغل وہی تھے جو اکثر بڑے دولت مندوں کے ہوتے ہیں۔ اس کی بیٹی نے ایک انگریز لارڈ سے شادی کی تھی اور بیٹے نے ایک اطالوی شہزادی سے!
اخباری کالموں میں اکثر اس کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔ کچھ عرصے سے اس کی دلچسپی اپنے اصطبل میں بہت بڑھ گئی تھی جس میں اس نے بہت اعلیٰ نسل کے ریس کے گھوڑے جمع کئے تھے۔ اخبار نویس گویا اپنا فرض سمجھ کر اس کی سرگرمیوں اور مشاغل کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے۔ پچھلے دنوں ایک بار پھر اس وقت اس کا تذکرہ اخبارات میں جلی سرخیوں کے ساتھ ہوا تھا جب اس نے انگلینڈ کا ایک نہایت مشہور ریس کا گھوڑا ’’خرطوم‘‘ چھ لاکھ ڈالر میں خریدا تھا۔ ان دنوں ایک گھوڑے کی یہ قیمت ناقابل یقین تھی۔
اس قیمت پر یہ گھوڑا خریدنے کے بعد والز نے یہ اعلان کرکے لوگوں کو مزید حیرت زدہ کردیا تھا کہ وہ اس گھوڑے کو ریس میں دوڑانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ وہ اسے ریس سے ریٹائر کررہا تھا اور اپنے اصطبل میں صرف افزائش نسل کیلئے رکھنا چاہتا تھا۔
اس نے قدرے خوش خلقی سے ہیگن کا استقبال کیا تاہم اس کا چہرہ اب بھی اس کی شخصیت کی کرختگی کا پتا دیتا تھا۔ شاید اس نے اپنے بڑھاپے کو چھپانے کیلئے چہرے پر کچھ کرایا ہوا بھی تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے چہرے کی کھال کو لٹکنے سے بچانے کیلئے بہت اونچے ہنرمندوں نے کچھ کوششیں کی تھیں۔ ان باتوں سے قطع نظر وہ بہت توانا آدمی لگتا تھا۔ ڈون کارلیون کی طرح اس کی شخصیت اور حرکات و سکنات سے بھی حاکمیت جھلکتی تھی۔ لگتا تھا کہ وہ اپنی سلطنت پر حکمرانی کرنا خوب جانتا ہے۔
ہیگن نے تمہید میں وقت ضائع نہیں کیا اور براہ راست مطلب کی بات پر آگیا۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک طاقتور آدمی کا نمائندہ ہے اور وہ طاقتور آدمی جونی کا دوست، مہربان اور مربی ہے۔ اس نے جونی پر ایک چھوٹی سی عنایت کرنے کی درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ اگر اس کی درخواست پر عمل ہوگیا تو وہ زندگی بھر ممنون رہے گا اور اگر کبھی والز کو اس سے کوئی کام پڑا تو اسے مایوسی نہیں ہوگی۔ پھر ہیگن نے درخواست کی نوعیت بھی بیان کردی یعنی جونی کو اس فلم میں کاسٹ کرلیا جائے جس کی شوٹنگ اگلے ہفتے شروع ہورہی تھی۔
’’تمہارا طاقتور دوست میرے کس کام آسکتا ہے؟‘‘ والز نے پوری بات سننے کے بعد چبھتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
ہیگن نے اس کے لہجے کے تیکھے پن کو نظرانداز کرتے ہوئے ملائمت سے کہا۔ ’’آپ کے اسٹوڈیو میں ورکرز کی ایک ہڑتال متوقع ہے۔ میرے باس جو میرے دوست اور محسن بھی ہیں، اس ہڑتال کو رکوا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کا ایک اہم اسٹار جو پہلے چرس پیتا تھا، اب ترقی کرکے ہیروئن پینے لگا ہے۔ اسے فلموں میں کاسٹ کرکے آپ کروڑوں ڈالر کماتے تھے، اب بھی اس کے نام پر آپ کی خاصی دولت دائو پر لگی ہوئی ہے لیکن وہ روزبروز ناکارہ ہورہا ہے۔ کام کے قابل نہیں رہا ہے۔ میرے باس ایسا انتظام کردیں گے کہ آپ کے اس ہیرو کو کہیں سے ہیروئن نہیں ملے گی اور وہ یہ عادت چھوڑنے پر مجبور ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ بھی اگر آپ کو مستقبل میں کبھی کوئی مسئلہ درپیش ہوا تو آپ صرف ایک فون کردیجئے گا، مسئلہ حل ہوجائے گا۔‘‘
والز کچھ اس طرح اس کی باتیں سن رہا تھا جیسے اس کے سامنے کوئی چھوٹا بچہ بیٹھا بڑی بڑی گپیں ہانک رہا ہو۔ جب وہ بولا تو اس کی آواز میں کھردرا پن تھاجو یقیناً اس کے ماضی کا آئینہ دار تھا۔ ’’تم مجھے دھمکانے کی کوشش کررہے ہو؟‘‘
’’ہرگز نہیں۔‘‘ ہیگن نے ہموار لہجے میں کہا۔ ’’میں صرف ایک دوست کا پیغام لے کر آیا ہوں جس کی درخواست قبول کرنے میں تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے۔‘‘
تب شاید والز نے کوشش کرکے اپنے چہرے پر غصے اور برہمی کے تاثرات پید کئے اور میز پر ہیگن کی طرف جھکتے ہوئے پھنکارنے کے سے انداز میں بولا۔ ’’ٹھیک ہے اب میں تم سے صاف صاف باتیں کرتا ہوں۔ سنو! تم اچھی طرح سن لو اور جو بھی تمہارا باس ہے، اسے بھی جاکر بتا دو کہ جونی کو اس فلم میں ہرگز کام نہیں ملے گا خواہ مافیا کے کتنے ہی کیڑے، مکوڑے اپنے بلوں سے نکل کر میرے پاس آجائیں۔‘‘ پھر وہ کرسی سے ٹیک لگا کر ذرا پھیل کر بیٹھتے ہوئے استہزائیہ لہجے میں بولا۔ ’’شاید تم نے کبھی جے۔ایڈگر ہوور کا نام سنا ہو! یہ صاحب اتفاق سے


امریکا کے صدر ہوتے ہیں۔ وہ میرے قریبی دوست ہیں۔ اگر میں ان سے ذکر کردوں کہ مجھ پر دبائو ڈالا جارہا ہے تو تم لوگوں کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ کیا چیز آکر تم سے ٹکرائی اور تمہیں فنا کرگئی۔‘‘
ہیگن نے نہایت صبر و تحمل سے والز کی بات سنی۔ والز کی حیثیت کو دیکھتے ہوئے اسے امید تھی کہ اگر وہ ایسی کوئی بات کرے گا بھی تو ذرا سلیقے سے اور موثر انداز میں کرے گا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اتنا سطحی اور اجڈ سا آدمی اتنے اونچے مقام پر پہنچ سکتا تھا۔ یہ خیال آنے پر ہیگن کچھ اور بھی سوچنے لگا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ فلمی دنیا میں پیسہ کمانا زیادہ مشکل نہیں تھا۔ ڈون اس سے کہتا رہتا تھا کہ سرمایہ کاری کیلئے نئے میدان تلاش کئے جائیں جہاں سے منافع کی توقع ہو۔ وہ سوچ رہا تھا کہ واپس جاکر ڈون سے ذکر ضرور کرے گا کہ فلمی دنیا میں بھی سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔ جب وہاں والز جیسا جاہل اور اجڈ آدمی اتنا کامیاب ہوسکتا ہے تو وہ لوگ کیوں نہیں ہوسکتے؟
وہ والز کے اندازگفتگو پر ذرّہ بھر غصے میں نہیں آیا کیونکہ ڈون نے اسے یہی سکھایا تھا۔ ’’کبھی غصے میں نہ آئو، کبھی کسی کو دھمکی نہ دو، اسے دلیل سے سمجھانے کی کوشش کرو۔‘‘
اس کیلئے ضروری تھا کہ توہین آمیز انداز گفتگو کا اثر دل پر نہ لیا جائے۔ اس نے ایک بار ڈون کو ایک بہت بڑے بدمعاش اور گروہ باز کے سامنے میز پر بیٹھ کر مسلسل آٹھ گھنٹے تک سمجھانے کی کوشش کرتے دیکھا تھا۔ ڈون اس بدمعاش کو اپنے کچھ طور طریقے ٹھیک کرنے کیلئے کہہ رہا تھا مگر اس نے ڈون کی بات ماننے کے بجائے کئی بار اس کی توہین کر ڈالی۔ اس کے باوجود ڈون کی پیشانی پر بل نہیں آیا تھا اور وہ اسے سمجھانے کی کوشش کرتا رہا تھا۔
آٹھ گھنٹے بعد آخرکار وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا اور اس نے بے بسی آمیز انداز میں ہاتھ پھیلاتے ہوئے صرف اتنا کہا۔ ’’بھئی اس آدمی کو دلیل سے قائل کرنا ممکن نہیں۔‘‘ پھر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیا تھا۔
تب اس بدمعاش کا چہرہ دہشت سے سفید پڑ گیا تھا۔ آخری جملہ ادا کرتے وقت ڈون کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی جسے محسوس کرکے بدمعاش کی ساری اکڑفوں ہوا ہوگئی تھی۔ اس نے ڈون کو کمرے میں واپس بلانے کیلئے قاصد دوڑائے تھے لیکن اس کی منت خوشامد بھی ڈون کو کمرے میں واپس نہیں لا سکی تھی۔ اس کے بعد ان دونوں کے درمیان صلح کا معاہدہ تو ہوگیا لیکن اس کے دو ماہ بعد اس بدمعاش کو اس وقت کسی نے گولی مار دی تھی جب وہ ایک باربر شاپ میں بال کٹوا رہا تھا۔
چنانچہ ہیگن نے نئے سرے سے ملائمت سے والز کو سمجھانا شروع کیا۔ ’’تم نے شاید میرا کارڈ توجہ سے نہیں دیکھا۔ میں ایک وکیل ہوں۔ میں اتنا احمق نہیں ہوسکتا کہ لوگوں کو دھمکیاں دیتا پھروں۔ کیا میں نے ایک لفظ بھی ایسا کہا ہے جس میں کوئی دھمکی پوشیدہ ہو؟ میں مزید یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر جونی کو فلم میں کاسٹ کرنے کیلئے تمہاری کوئی شرط ہے تو وہ بتا دو۔ ہم اسے پوری کرنے کی کوشش کریں گے۔ ویسے اتنے چھوٹے سے کام کے عوض میں پہلے ہی خاصے بڑے فائدے کی پیشکش کرچکا ہوں جبکہ وہ کام خود تمہارے اپنے لئے بھی فائدے کا ہے۔ تم خود اعتراف کرچکے ہو کہ جونی اس کردار کیلئے موزوں ترین آدمی ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو تم سے یہ درخواست نہ کی جاتی۔ اگر تمہیں خطرہ ہے کہ جونی کو لینے سے فلم نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے تو میرے باس فلم کیلئے پورا بجٹ اپنے پاس سے دے دیں گے۔ وہ ہر کام کا نقصان برداشت کرلیں گے۔ بہرحال میں یہ واضح کردوں کہ ہم تمہیں مجبور ہرگز نہیں کررہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ تمہارے منہ سے ایک بار انکار نکل جائے تو پھر وہ انکار ہی رہتا ہے۔ ہمیں صدر ہوور سے تمہاری دوستی کے بارے میں بھی علم ہے اور ہماری نظر میں تمہاری بڑی عزت ہے۔ ہم جو بھی درخواست کررہے ہیں، جو بھی بات چیت کررہے ہیں، نہایت عزت و احترام سے کررہے ہیں۔‘‘
سرمایہ کاری کے ذکر پر والز کے چہرے پر قدرے نرمی کے آثار نمودار ہوئے اور وہ بولا۔ ’’تمہاری اطلاع کیلئے بتا دوں کہ اس فلم کا بجٹ پانچ ملین ڈالر کا ہے۔‘‘
’’کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ ہیگن سرسری سے لہجے میں بولا۔ ’’میرے باس کے بہت سے دوست ہیں جو ان کے مشورے پر اس سے زیادہ سرمایہ کسی پروجیکٹ میں لگانے کیلئے تیار رہتے ہیں۔‘‘
والز پہلی بار اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کیلئے آمادہ نظر آیا۔ وہ ہیگن کے کارڈ پر نظر ڈالتے ہوئے بولا۔ ’’میں نیویارک کے زیادہ تر بڑے وکیلوں کو جانتا ہوں لیکن میں نے کبھی تمہارا نام نہیں سنا۔ آخر تم ہو کون؟‘‘
’’میں زیادہ بڑی بڑی کمپنیوں کیلئے کام نہیں کرتا۔ میرا بس ایک ہی کلائنٹ ہے، وہی میرا باس بھی ہے۔‘‘ ہیگن نے خشک لہجے میں کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے مصافحے کیلئے والز کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ والز نے مصافحہ کرلیا۔
دروازے کی طرف دو قدم بڑھنے کے بعد ہیگن پلٹا جیسے اسے کچھ یاد آگیا ہو۔ ’’مجھے معلوم ہے تمہیں آئے دن بہت سے ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جو اپنے آپ کو بہت اہم ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ وہ اہم ہوتے نہیں۔ ہمارا معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ تم ہمارے بارے میں معلومات کرلو، اس کے بعد اگر تم اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنا چاہو تو میرے ہوٹل میں مجھ سے رابطہ کرلینا۔‘‘ ایک لمحے کے توقف کے بعد وہ پھر بولا۔ ’’میرے باس تمہارے لئے کچھ ایسے کام بھی کرسکتے ہیں جو شاید صدر امریکا کو بھی مشکل لگیں۔‘‘
والز آنکھیں سکیڑے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ شاید اب وہ بات کی گہرائی کو کچھ کچھ سمجھ رہا تھا۔ ہیگن نے نہایت شائستگی سے مزید کہا۔ ’’برسبیل تذکرہ میں ذاتی طور پر تمہاری فلمسازی کی صلاحیتوں کا بڑا معترف ہوں۔ تمہاری بنائی ہوئی سبھی فلمیں مجھے اچھی لگی ہیں۔ اسی لگن اور توجہ سے کام جاری رکھو۔ ہمارے ملک کو اچھی چیزوں کی ضرورت ہے۔‘‘ پھر وہ دروازہ کھول کر باہر آگیا۔
اس شام ہیگن کو ہوٹل میں والز کی سیکرٹری کا فون آیا۔ اس نے بتایا کہ ایک گھنٹے بعد ایک کار اسے لینے آئے گی۔ کار میں اسے مسٹر والز کے اس مکان پر جانا ہوگا جو ایک دیہی علاقے میں واقع تھا۔ ہیگن کو وہاں والز کے ساتھ ڈنر کرنا تھا۔ کار میں یہ سفر تقریباً تین گھنٹے کا تھا۔ سیکرٹری نے یہ بتاتے ہوئے والز کو تسلی بھی دے دی کہ کار میں بھی کھانے، پینے اور موسیقی وغیرہ سننے کا انتظام ہے۔ اس لئے سفر بوریت میں نہیں گزرے گا۔ اس کے بعد سیکرٹری بولی۔ ’’مسٹر والز نے مشورہ دیا ہے کہ آپ اپنا بیگ ساتھ لیتے آئیں کیونکہ رات کو آپ کو فارم ہائوس میں ہی قیام کرنا ہوگا۔ صبح مسٹر والز آپ کو نیویارک واپسی کیلئے خود ایئرپورٹ پہنچا دیں گے۔‘‘
ہیگن کو معلوم ہوچکا تھا کہ والز خود اپنے ذاتی جہاز میں فارم ہائوس گیا تھا۔ اگر وہ ہیگن کو وہاں ڈنر پر مدعو کرنا چاہتا تھا تو اپنے ساتھ جہاز میں بھی لے جاسکتا تھا۔ نہ جانے اس نے ایسا کیوں نہیں کیا تھا کہ اسے کار کے ذریعے بلوانے کا بندوبست کیا تھا جو زیادہ زحمت کا کام تھا۔ اسے اس بات پر بھی حیرت تھی کہ والز کو کیسے معلوم ہوا کہ وہ کل صبح کی پرواز سے نیویارک جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
امکان یہی نظر آرہا تھا کہ والز نے اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے پرائیویٹ سراغرسانوں کی خدمات حاصل کی ہوں گی۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ ڈون کارلیون کے بارے میں جان چکا ہوگا اور اب ذرا سنجیدگی سے بات کرنے کیلئے تیار ہوگا۔ بہرحال ہیگن نے سیکرٹری کا شکریہ ادا کیا اور بتادیا کہ ایک گھنٹے بعد وہ چلنے کیلئے تیار ہوگا۔ اسے اب امید کی کرن نظر آرہی تھی۔ شاید والز اتنا گنوار اور موٹے دماغ کا نہیں تھا۔ جتنا ہیگن نے آج صبح محسوس کیا تھا۔
٭…٭…٭
والز کا فارم ہائوس دیہی طرز کی کسی فلمی حویلی سے مشابہہ تھا۔ اس کی حدود میں باغات، اصطبل اور دو رویہ درختوں سے ڈھکے ہوئے راستے بھی شامل تھے۔ گھوڑوں کے چرنے کیلئے سبزہ زار بھی تھے۔ ہر چیز سجی، سنوری اور سلیقے سے آراستہ تھی۔ صفائی ستھرائی اور آرائش کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ ہر چیز کی کتنی عمدگی سے دیکھ بھال کی جاتی تھی۔
والز نے ایک ایسے برآمدے میں ہیگن کا استقبال کیا جو ایئرکنڈیشنڈ تھا اور جس کی ایک دیوار شیشے کی تھی۔ وہ اب آرام دہ لباس میں تھا۔ امارت اور آسودگی کا ایک نادیدہ ہالہ اس کی شخصیت کے گرد زیادہ روشن محسوس ہورہا تھا۔ اس کا رویہ صبح کے مقابلے میں بہت بہتر تھا۔
وہ دوستانہ انداز میں ہیگن کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔ ’’ڈنر میں ابھی کچھ دیر ہے۔ آئو تب تک میں تمہیں اپنے ریس کے گھوڑے دکھاتا ہوں۔‘‘
وہ اصطبلوں کی طرف چل دیا۔ راستے میں والز بولا۔ ’’میں نے تمہارے بارے میں معلومات کرائی تھی ہیگن! تم نے مجھے پہلے ہی بتا دیا ہوتا کہ تمہارا باس ڈون کارلیون ہے۔ میں سمجھا تھا کہ تم کوئی تھرڈ کلاس قسم کے وکیل ہو اور شاید کسی تھرڈ کلاس بدمعاش کی نمائندگی کرتے ہو۔ جونی کی زیادہ تر واقفیت ایسے ہی لوگوں سے ہے۔ اب ہمیں یہاں کی فضا سے لطف اندوز ہونا چاہئے۔ کام کی بات ہم ڈنر کے بعد کرلیں گے۔‘‘
پھر وہ ہیگن کو ریس کے گھوڑوں کے بارے میں اپنے منصوبے بتانے لگا۔ اسے یقین تھا کہ ان منصوبوں پر عملدرآمد کے بعد اس کے اصطبل امریکا کے بہترین اصطبل شمار ہوں گے جہاں ریس کے اعلیٰ ترین گھوڑوں کی افزائش اور پرورش ہوگی۔ اصطبل فائر پروف تھے، حفظان صحت کے اصولوں پر عملدرآمد کا وہاں بہترین انتظام تھا۔ گندگی کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ پرائیویٹ سراغرساں ان کی حفاظت اور نگرانی کرتے تھے۔
ہیگن کو بہت سے گھوڑے دکھانے اور ان کے ’’شجرئہ نسب‘‘ کے بارے میں بتانے کے بعد والز اسے آخری اسٹال کے سامنے لے گیا جس کی بیرونی دیوار پر چمکتی ہوئی ایک خوبصورت نیم پلیٹ نصب تھی جس پر پیتل کے حروف میں ’’خرطوم‘‘ لکھا تھا۔ ہیگن کو گھوڑوں کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں تھیں لیکن اس اسٹال میں کھڑے گھوڑے کو ظاہری طور پر دیکھ کر ہی ہیگن کو تسلیم کرنا پڑا کہ وہ ایک غیر معمولی اور نہایت خوبصورت گھوڑا تھا۔
وہ پورا سیاہ تھا اور اس کی جلد ریشم سے بنی معلوم ہوتی تھی۔ صرف اس کی پیشانی پر ہیرے کی سی ساخت کا ایک سفید نشان تھا۔ اس کی بڑی بڑی بھوری آنکھوں میں گویا چراغ روشن تھے۔ وہ آنکھیں قیمتی پتھروں کی طرح جھلملا رہی تھیں تاہم قیمتی
پتھروں میں زندگی کی ایسی بھرپور چمک نہیں ہوسکتی تھی جیسی ان آنکھوں میں تھی۔
’’یہ دنیا بھر میں ریس کا عظیم ترین گھوڑا ہے۔‘‘ والز کے لہجے میں دنیا بھر کا فخر سمٹ آیا تھا۔ ’’اسے میں نے انگلینڈ میں چھ لاکھ ڈالر میں خریدا تھا۔ مجھے امید ہے کہ کسی رئیس زادے نے بھی اپنے دور میں اس قیمت کا گھوڑا نہیں خریدا ہوگا۔ میں نے اسے ریس کیلئے نہیں لیا ہے، میں اس سے افزائش نسل کا کام لوں گا اور اسی کے ذریعے میرے اصطبل ریس کے گھوڑوں کے سلسلے میں دنیا کے بہترین اصطبل شمار ہوں گے۔‘‘
وہ گھوڑے کی ریشمیں ایال میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اسی طرح لاڈ پیار سے اس کا نام لے کر نیچی آواز میں اسے پکارنے لگا جس طرح باپ اپنے کمسن بیٹوں کو پکارتے ہیں۔ گھوڑا بھی اپنی حرکات و سکنات سے گویا اس کے پیار کا جواب پیار سے دے رہا تھا۔
آخر کار وہ ڈنر کیلئے حویلی میں لوٹ آئے۔ ڈنر تین ویٹرز سرو کررہے تھے اور ایک بٹلر انہیں ہدایات دے رہا تھا تاہم ہیگن کے خیال میں کھانا بہت اعلیٰ معیار کا نہیں تھا۔ والز شاید اب اکیلا رہتا تھا اور اسے کھانوں کے معیار کی کچھ زیادہ پروا نہیں تھی۔
کھانے کے بعد جب وہ آرام سے بیٹھ گئے اور انہوں نے ہوانا کے بہترین سگار سلگا لئے تو ہیگن نے ملائمت سے پوچھا۔ ’’تو پھر تم جونی کو فلم میں کاسٹ کررہے ہو یا نہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ والز نے بلا تامل جواب دیا۔ ’’میں چاہوں بھی تو ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ تمام معاہدے سائن ہوچکے ہیں۔ اگلے ہفتے شوٹنگ شروع ہوجائے گی، اب میں فلم کے معاملات میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا۔‘‘
’’مسٹر والز!‘‘ ہیگن نے قدرے مضطربانہ لہجے میں کہا۔ ’’سب سے اوپر والے آدمی اور مالک و مختار سے بات اسی امید پر کی جاتی ہے کہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ اپنے پروجیکٹ میں جو تبدیلی چاہے، لا سکتا ہے۔‘‘
والز خشک لہجے میں بولا۔ ’’مجھے معلوم ہے کہ مجھے اسٹوڈیو میں ورکرز کی ہڑتال کے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مزدور لیڈر گوف نے مجھے اس کا اشارہ دے دیا ہے اور جس وقت وہ یہ بات کررہا تھا، کوئی سنتا تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں اس خبیث کو خفیہ طور پر ایک لاکھ ڈالر سالانہ اس بات کے دیتا ہوں کہ وہ ورکرز کو ہڑتال سے باز رکھے۔ مجھے یہ یقین نہیں ہے کہ تم میرے اس نیم زنانہ قسم کے ہیرو کو ہیروئن پینے سے باز رکھ سکتے ہو جس کا تم نے صبح ذکر کیا تھا اور مجھے اب اس کی کوئی پروا بھی نہیں ہے۔ جہاں تک کسی فلم کیلئے سرمایہ کاری کرنے کی تمہاری پیشکش کا تعلق ہے تو اس کی بھی میری نظر میں ذرّہ بھر اہمیت نہیں۔ میں اپنی فلمیں خود اپنے سرمائے سے بنا سکتا ہوں۔ جونی کو میں کسی بھی حال میں اپنی فلم میں کاسٹ نہیں کرسکتا کیونکہ مجھے اس سے نفرت ہے۔ اپنے باس سے کہنا کہ آئندہ کبھی کوئی کام ہو تو مجھے ضرور یاد کرے۔‘‘
ہیگن کو حیرت کا جو جھٹکا لگا تھا، اس نے اس کا اظہار نہیں ہونے دیا۔ وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اگر والز کو یہی کچھ کہنا تھا تو اس نے اسے اتنے اہتمام سے اتنی دور کیوں بلایا تھا۔ کوئی بات ضرور تھی۔
دل ہی دل میں والز کو گالیاں دیتے ہوئے اس نے بظاہر ملائمت سے کہا۔ ’’مسٹر والز! میرا خیال ہے کہ تم صورتحال کی نزاکت کو سمجھ نہیں رہے ہو۔ ڈون کارلیون، جونی کے گاڈ فادر ہیں۔ یہ ایک بہت ہی قریبی اور روحانی قسم کا رشتہ ہے۔ اطالوی ازراہ مذاق کہا کرتے ہیں کہ دنیا میں زندگی گزارنا اتنا مشکل کام ہے کہ انسان کی دیکھ بھال کیلئے اس کے دو باپ ہونے چاہئیں۔ اس مذاق کی کوکھ سے ’’گاڈ فادر‘‘ کے نہایت سنجیدہ رشتے نے جنم لیا ہے۔ اطالوی جسے اپنا مربی، سرپرست اور ایک قسم کا روحانی باپ سمجھ لیتے ہیں، اسے اپنا گاڈ فادر کہتے ہیں۔ جونی کے گاڈ فادر ڈون کارلیون ہیں اور چونکہ جونی کے گاڈ فادر ڈون کارلیون ہیں اور چونکہ جونی کا حقیقی باپ مر چکا ہے۔ اس لئے مسٹر کارلیون اور بھی زیادہ گہرائی سے جونی کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور ڈون کارلیون ایک بہت حساس انسان بھی ہیں۔ جو انسان ایک بار ان کی کوئی درخواست قبول کرنے سے انکار کردے، اسے وہ زندگی میں پھر کبھی کوئی کام نہیں بتاتے۔‘‘
والز نے کندھے اچکائے۔ ’’سوری! لیکن میرا جواب بہرحال وہی رہے گا جو میں دے چکا ہوں لیکن اب تم آئے ہوئے ہو تو ہم کسی نہ کسی معاملے پر تو تعاون کی بات کرلیں۔ یہ بتائو کہ اسٹوڈیو میں ورکرز کی ہڑتال رکوانے کیلئے مجھے کتنی رقم خرچ کرنی پڑے گی؟ میں اسی وقت نقد ادائیگی کرسکتا ہوں۔‘‘
تب ہیگن کی کم ازکم ایک الجھن دور ہوگئی۔ اس کی سمجھ میں آگیا کہ جب جونی کے بارے میں والز اپنے انکار پر قائم تھا تو اس نے اسے اتنی دور بلانے اور اس کے ساتھ اتنا وقت گزارنے کی زحمت کیوں کی تھی۔ وہ اصل میں صرف یہی بات کرنا چاہتا تھا جو اب اس کی زبان پر آئی تھی۔ وہ ڈون کارلیون سے خوف زدہ نہیں تھا۔ اسے اپنے بارے میں یقین تھا کہ اسے نقصان پہنچانا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اسے صرف ایک بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ڈون کی نظر میں اپنے وعدے کی کیا اہمیت تھی۔ ڈون نے جونی سے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ والز کی فلم میں کاسٹ ہوگا۔ ڈون نے آج تک کسی سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کیا تھا جسے وہ پورا نہ کرسکا ہو۔
ہیگن پرسکون لہجے میں بولا۔ ’’تم شاید جان بوجھ کر میری بات کا غلط مطلب لے رہے ہو۔ تم مجھے کسی ایسے آدمی کا نمائندہ قرار دینے کی کوشش کررہے ہو جو لوگوں کو ڈرا دھمکا کر رقم وصول کرتا ہے۔ مسٹر کارلیون نے ہڑتال رکوانے کی جو بات کی تھی، وہ صرف دوستانہ بنیادوں پر اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے یہ کام انجام دینے کی بارے میں تھی اور اس کے جواب میں تم سے بھی ایک چھوٹی سی مہربانی کی درخواست کی گئی تھی۔ یہ صرف اپنے اثرورسوخ اور اختیارات کے دوستانہ تبادلے کی بات تھی لیکن لگتا ہے تم ہر شخص کی درخواست کے پیچھے اس کا کوئی مقصد تلاش کرنے کے عادی ہو۔ تم نے میری بات کو صحیح طور پر سمجھا ہی نہیں اور میرا خیال ہے تم غلطی کررہے ہو۔‘‘
والز ایک بار پھر گویا جان بوجھ کر اشتعال میں آگیا۔ ’’میں سب کچھ بہت اچھی طرح سمجھ رہا ہوں۔ اپنی بات منوانے کا مافیا کا یہی اسٹائل ہے۔ بظاہر مافیا کے لوگ بڑی میٹھی میٹھی باتیں کررہے ہوتے ہیں، اپنے مخاطب کو مکھن لگا رہے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت وہ دھمکیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ میں ایک بار پھر تمہیں صاف صاف بتا دوں کہ جونی کو کبھی میری فلم میں کام نہیں ملے گا۔ حالانکہ مجھے اعتراف ہے کہ وہ اس کردار کیلئے موزوں ترین آدمی ہے لیکن اس فلم سے اسے فلمی دنیا میں دوسرا جنم مل جائے گا اور میں اسے دوبارہ زندہ کرنا نہیں بلکہ دھکے دے کر فلم انڈسٹری سے باہر نکالنا چاہتا ہوں کیونکہ اس نے اس لڑکی کو مجھ سے چھینا تھا جس پر پانچ سال تک میں نے پیسہ پانی کی طرح بہایا تھا، اسے مستقبل کی سپر اسٹار بنانے کیلئے ہر شعبہ زندگی کے بہترین لوگوں سے ٹریننگ دلوائی تھی۔ تم پھر کہو گے کہ شاید میں صرف مالی فائدے، نقصان کو نظر میں رکھتا ہوں اس لئے میں مالی نقصان کی بات چھوڑ دیتا ہوں۔ مجھے جذباتی طور پر بھی جو نقصان پہنچا ہے، اس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ میرے دنیا کی معروف ترین عورتوں کے ساتھ تعلقات رہے ہیں لیکن اس لڑکی میں کچھ ایسی خوبیاں تھیں کہ میں اس کا دیوانہ تھا اور میں اسے نہ جانے کیا سے کیا بنا دیتا لیکن وہ احمق لڑکی جونی کی خوبصورت شخصیت اور اس کی میٹھی میٹھی باتوں کے طلسم میں گرفتار ہوکر اپنی پرتعیش زندگی اور شاندار مستقبل پر لات مار کر چلی گئی اور اس کتیا کی بچی کو جونی سے چند رنگین راتوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اس واقعے سے جو کچھ ہوا، سو ہوا لیکن میری پوزیشن بڑی مضحکہ خیز ہوکر رہ گئی اور میں جس مقام پر ہوں، میری جو حیثیت ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے میں مضحکہ خیز نظر آنا افورڈ نہیں کرسکتا مسٹر ہیگن…! کیا بات تمہاری سمجھ میں آگئی؟‘‘
ہیگن اور ڈون کارلیون کی دنیا میں یہ احمقانہ باتیں تھیں، بچکانہ اندازفکر تھا لیکن اس نے یہ کہنے کے بجائے ملائمت سے کہا۔ ’’تم جتنا جہاں دیدہ ہوجانے کے بعد انسان کو اس قسم کی باتوں کو دل پر نہیں لینا چاہئے۔ تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ مسٹر کارلیون، جونی کو کتنا عزیز رکھتے ہیں۔ اس سے کیا ہوا وعدہ ان کی نظر میں بہت اہم ہے بلکہ مسٹر کارلیون جس سے بھی جو وعدہ کرلیتے ہیں، وہ ان کی نظر میں بہت اہم ہوتا ہے۔ چاہے بات کتنی ہی معمولی ہو۔ ڈون کارلیون کبھی اپنے دوستوں کو شرمندہ نہیں ہونے دیتے۔‘‘
والز اچانک اٹھ کھڑا ہوا اور برہمی سے بولا۔ ’’میں نے تمہاری باتیں بہت سن لی ہیں۔ میں بدمعاشوں کا حکم نہیں مانتا، بدمعاش میرا حکم مانتے ہیں۔ میں چاہوں تو ابھی یہ فون اٹھا کر صرف چند سیکنڈ بات کروں تو تمہاری کم ازکم آج کی رات جیل میں گزرے گی اور اگر تمہاری مافیا کے اس سردار نے کوئی بدمعاشی دکھانے کی کوشش کی تو اسے پتا چل جائے گا کہ میں کوئی تر نوالا نہیں ہوں۔ اسے اندازہ بھی نہیں ہوسکے گا کہ اس پر کیا آفت ٹوٹی جو اسے فنا کر گئی۔ اس مقصد کیلئے اگر مجھے وہائٹ ہائوس میں بھی اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا پڑا تو میں کروں گا۔‘‘
ایک بار پھر وہ شخص ہیگن کو بہت ہی احمق لگا اور ایک بار پھر وہ حیرت سے سوچے بغیر نہیں رہ سکا کہ اتنا احمق شخص اتنی بڑی حیثیت کا حامل کیونکر ہوگیا تھا؟ اس مقام پر اور اس عمر کو پہنچ کر بھی وہ بچکانہ انا، سفلی جذبات اور مالی نفع، نقصان کی جنگ میں الجھا ہوا تھا۔ اصل پیغام اس کے موٹے دماغ تک پہنچ ہی نہیں رہا تھا۔
’’ڈنر اور میرے ساتھ ایک اچھی شام گزارنے کا شکریہ!‘‘ آخر ہیگن نے کہا۔ ’’کیا کچھ دیر بعد میرے لئے سواری کا انتظام ہوجائے گا؟ میں ایئر پورٹ جانا چاہتا ہوں۔ معذرت چاہتا ہوں کہ رات یہاں نہیں گزار سکوں گا۔ مسٹر کارلیون کی خواہش ہوتی ہے کہ اگر کوئی بری خبر ہو تو وہ انہیں جلد ازجلد سنا دی جائے۔‘‘
کچھ دیر بعد وہ تیار ہوکر اپنا بیگ لے کر شیشے کی دیوار والے برآمدے میں آگیا۔ وہ اپنے لئے کار کا انتظار کررہا تھا۔ باہر خوبصورت درختوں سے آراستہ طویل و عریض احاطے میں فلڈ لائٹس کی وجہ سے تیز روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ دور درختوں کے پاس ایک شاندار لیموزین کھڑی تھی لیکن ہیگن کو بتایا گیا تھا کہ اس کیلئے دوسری کار آئے گی۔
اسی اثنا میں اس نے حویلی کے کسی اور دروازے سے دو عورتوں کو نکل کر اس


طرف جاتے دیکھا۔ اس نے ذرا توجہ سے دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ ان میں سے ایک دراصل گیارہ بارہ سال کی بچی تھی جسے اس نے صبح والز کے اسٹوڈیو کے استقبالیہ کمرے میں دیکھا تھا۔ اس کے ساتھ وہی عورت تھی جس کے بارے میں ہیگن کا اندازہ تھا کہ وہ بچی کی ماں تھی۔
اس کی تصدیق یوں بھی ہوگئی کہ بڑی سی گاڑی تک پہنچنے کیلئے انہیں خم دار راستے پر تھوڑا سا گھومنا پڑا اور یوں ان کے چہرے ہیگن کی طرف ہوگئے۔ تیز روشنی میں وہ انہیں صاف دیکھ سکتا تھا جبکہ وہ خود لائٹ آن کئے بغیر برآمدے میں بیٹھا تھا۔ وہ دونوں شاید شیشے کی دیوار کے پار اسے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔
ہیگن نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، وہ اس جیسے آدمی کی رگوں میں بھی ایک لمحے کو خون منجمد کردینے کیلئے کافی تھا۔ عورت نے درحقیقت بچی کو سہارا دے رکھا تھا۔ اس کے باوجود وہ بھیڑ کے کسی نوزائیدہ بچے کی طرح چل رہی تھی۔ اس کی ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھیں۔ وہ قدم رکھ کہیں رہی تھی اور پڑ کہیں رہا تھا۔ اس کے بھرے بھرے ہونٹوں کی لپ اسٹک بری طرح پھیل گئی تھی اور اس کی آنکھیں کچھ اس طرح پھٹی پھٹی سی تھیں جیسے وہ کوئی دہشت ناک خواب دیکھ کر جاگی ہو۔
ہیگن کو عورت کے ہونٹ ہلتے نظر آرہے تھے۔ وہ شاید لڑکی کو نیچی آواز میں صحیح طرح چلنے اور اپنے آپ کو سنبھالنے کی ہدایات دے رہی تھی لیکن لڑکی سے صحیح طرح چلا ہی نہیں جارہا تھا۔ کار کے قریب وہ دونوں ایک لمحے کیلئے رکیں۔ عورت نے پلٹ کر عجیب سے انداز میں حویلی کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں فاتحانہ چمک تھی جیسے اس نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دے دیا ہو۔ کوئی بہت بڑا مرحلہ سر کرلیا ہو اور کوئی بہت بڑی کامیابی اسے سامنے نظر آرہی ہو۔
وہ عورت اس لمحے ہیگن کو عورت نہیں، ایک گدھ محسوس ہوئی جو اپنی بچی کی عزت اور معصومیت کی لاش کو نوچ نوچ کر کھا رہی تھی۔ اس ایک لمحے میں سب کچھ ہیگن کی سمجھ میں آگیا۔ کسی مقصد کیلئے ماں نے اپنی نوخیز بچی کو سیڑھی بنایا تھا اور اس عمر میں والز کے اندر شیطان نے ایک نیا جنم لیا تھا۔
وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ بڑی سی سیاہ کار انہیں لے کر خاموشی سے رخصت ہوگئی۔ اس کا تاریک وجود دوسری بہت سی تاریکیاں اپنے اندر چھپائے رات کی تاریکی میں مدغم ہوگیا۔ ہیگن نے زندگی میں بہت کچھ دیکھا تھا لیکن اس لمحے وہ بھی حیرت، دکھ اور تاسف سے سوچتا رہ گیا۔ ’’یہ ہے وہ ہالی وڈ جس کے لوگ خواب دیکھتے ہیں اور جونی اس جنگل سے چمٹے رہنے کیلئے بضد ہے؟‘‘
اب اس کی سمجھ میں یہ بھی آگیا کہ والز اسے اپنے ذاتی جہاز میں ساتھ لے کر یہاں کیوں نہیں آیا تھا۔ جہاز میں اس کے ساتھ یقیناً وہ ماں بیٹی آئی تھیں۔
چند لمحے بعد دوسری کار ہیگن کو لینے آگئی۔ اس نے دل ہی دل میں والز کو خداحافظ کہا اور برآمدے سے نکل کر اس میں بیٹھ گیا۔
(جاری ہے)

Latest Posts

Do Humsafar

Related POSTS