Sunday, December 3, 2023

God Father | Episode 4

پال گیٹو کو جو حکم اچانک ملتا تھا اور جس پر اسے فوری طور پر عمل کرنے کی ہدایت کی جاتی تھی، وہ اسے بالکل اچھا نہیں لگتا تھا… لیکن مجبوری تھی۔ ’’اوپر‘‘ سے ملنے والے ہر قسم کے احکام پر اسے عمل کرنا ہی پڑتا تھا ورنہ وہ غوروخوض اور منصوبہ بندی سے کام کرنا پسند کرتا تھا۔ خاص طور پر ایسے کام جن میں مارپیٹ، تشدد اور سختی شامل ہوتی تھی۔ اس کا تجربہ تھا کہ سوچے سمجھے بغیر اس قسم کے کام کرنے میں کسی نہ کسی سے کوئی نہ کوئی غلطی ہوسکتی تھی جو بعد میں مسئلہ بن سکتی تھی۔
آج رات کیلئے جو کام اس کے ذمے لگایا گیا تھا، وہ بھی اسی زمرے میں آتا تھا۔ وہ اس وقت بار میں بیٹھا بیئر کی چسکیاں لے رہا تھا اور بظاہر سرسری انداز میں گردوپیش کا جائزہ لے رہا تھا لیکن درحقیقت اس کی نظر ان دونوں جوانوں کی طرف تھی جو کائونٹر کے سامنے بیٹھے پینے پلانے کے شغل کے ساتھ ساتھ لڑکیوں سے محوگفتگو تھے۔ وہ ایک خاص قماش کی لڑکیاں تھیں اور ان کی اصلیت ان کے چہروں پر لکھی تھی۔
گیٹو ان دونوں نوجوانوں کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کرچکا تھا۔ ان کے نام جیری اور کیون تھے۔ دونوں وجیہ اور دراز قد تھے۔ دونوں کی عمریں بیس سے بائیس کے درمیان تھیں۔ دونوں طالب علم تھے، ان دنوں ان کی چھٹیاں تھیں۔ دونوں دوسرے شہر کے ایک کالج میں پڑھ رہے تھے اور دو ہفتے بعد انہیں وہاں جانا تھا۔ دونوں خوشحال والدین کی اولاد تھے۔ دونوں کے والدین کا سیاسی اثرورسوخ بھی تھا جس کی وجہ سے وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جبری بھرتی کی زد میں آنے سے بچ گئے تھے۔
ان کے والدین کا اثرورسوخ انہیں اسی قسم کی نہیں بلکہ اور بھی کئی طرح کی مصیبتوں سے بچاتا تھا مثلاً پچھلے دنوں انہوں نے بونا سیرا نامی ایک شخص کی نوجوان اور خوبصورت بیٹی کے ساتھ جو کچھ کیا تھا، اس کے سلسلے میں جج نے انہیں سزا تو سنائی تھی مگر اس پر عملدرآمد معطل رکھا تھا چنانچہ وہ اطمینان سے آزاد پھر رہے تھے اور حسب معمول اپنے مشاغل میں مصروف تھے۔
وہ گویا ایک طرح سے ضمانت پر رہا تھے اور اس دوران ایک بار میں بیٹھ کر پینے پلانے اور ایک خاص قبیل کی لڑکیوں سے چہلیں کرکے وہ گویا ان قوانین کی خلاف ورزی کررہے تھے جن کے تحت جج نے انہیں رہا کیا تھا لیکن لڑکوں کے انداز و اطوار سے صاف ظاہر تھا کہ انہیں ان معاملات کی ذرّہ برابر بھی پروا نہیں تھی۔ وہ ہر اندیشے اور خوف سے بے نیاز اپنے من چاہے انداز میں زندگی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ یہ سب کچھ سوچتے ہوئے اور ان کی حرکتیں دیکھتے ہوئے گیٹو نے ایک بار پھر دل ہی دل میں انہیں گالی دی۔
حالانکہ گیٹو خود بھی جبری بھرتی سے بچ گیا تھا لیکن وہ خود کو اس کا مستحق سمجھتا تھا۔ اس کے خیال میں محاذ پر جاکر ملک کیلئے لڑنے کی نسبت اپنے مالکان کے احکام کی تعمیل کرنا اور ان کے مفادات کی حفاظت کرنا زیادہ ضروری تھا۔ وہ چھبیس سال کا ایک صحت مند، سفید فام نوجوان تھا لیکن جبری بھرتی کے دوران اس کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹروں نے بورڈ کے سامنے اس کے بارے میں رائے دی تھی کہ اس کی ذہنی حالت قابل اعتبار نہیں ہے اور دماغ کے علاج کے سلسلے میں اسے بجلی کے جھٹکے بھی لگائے جا چکے ہیں اس لئے اسے فوج میں بھرتی کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ چنانچہ اسے بھرتی سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا تھا۔
ظاہر ہے ڈاکٹروں کی یہ رپورٹ جھوٹ پر مبنی تھی۔ اس کا انتظام مینزا نے کیا تھا کیونکہ گیٹو اب ’’فیملی‘‘ کیلئے ایک قابل اعتماد کارندہ بن چکا تھا۔ کسی نہ کسی کام کے سلسلے میں اس کی ضرورت پیش آتی رہتی تھی اور اس نے ہمیشہ عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اس لئے اسے فوج میں جانے سے بچا لیا گیا تھا۔ گیٹو کو اس بات پر فخر تھا کہ اس کا شمار ’’فیملی‘‘ کے قابل اعتماد کارندوں میں ہونے لگا تھا۔
موجودہ کام کے بارے میں مینزا نے اسے عجلت کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ لڑکوں کے کالج واپس جانے سے پہلے ہدایات پر عمل ہوجانا چاہئے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اگر دونوں لڑکے بار سے اٹھتے وقت ان دونوں آوارہ قسم کی لڑکیوں کو بھی ساتھ لے لیتے تو پھر گیٹو کیلئے اپنے ’’پروگرام‘‘ پر عملدرآمد مشکل ہوجاتا۔ یوں ایک رات اور ضائع ہوجاتی۔
وہ کئی دن سے اس طرح ان لڑکوں کی نگرانی کررہا تھا کہ انہیں اس کا شبہ تک نہیں ہوا تھا۔ وہ ان کے معمولات کا جائزہ لے رہا تھا۔ آج کی رات اسے ’’پروگرام‘‘ پر عملدرآمد کیلئے موزوں ترین محسوس ہوئی تھی اس لئے اس نے حتمی انتظامات کرلئے تھے لیکن کچھ دیر پہلے جیری اور کیون ان دو لڑکیوں سے چپک کر بیٹھ گئے تھے اور گیٹو کو اپنا ’’پروگرام‘‘ خطرے میں نظر آنے لگا تھا۔
اچانک اس نے ایک لڑکی کی خمار زدہ سی ہنسی کی آواز سنی۔ وہ جیری کی طرف جھک کر کہہ رہی تھی۔ ’’نہیں بھئی… میں تمہارے ساتھ کار میں کہیں نہیں جائوں گی۔ میں نہیں چاہتی میرا حشر بھی اس لڑکی جیسا ہو جس کی وجہ سے پچھلے دنوں تم دونوں پکڑے گئے تھے اور تم پر مقدمہ بھی چلا تھا۔‘‘
اس کی بات سن کر جیری نے جھک کر اس کے کان میں دھیرے سے کچھ کہا۔ شاید وہ اسے سمجھا رہا تھا کہ اس لڑکی کی بات اور تھی جس کا ذکر ہورہا تھا جبکہ اب تو رضا و رغبت والی صورتحال تھی… لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ اس کی ساتھی لڑکی بدستور نفی میں سر ہلاتی رہی۔ یہ دیکھ کر گیٹو نے قدرے اطمینان کی سانس لی۔
اس نے آثار سے اندازہ لگایا کہ دونوں لڑکیاں جیری اور کیون کے ساتھ نہیں جائیں گی۔ وہ جیسی بھی تھیں لیکن احتیاط پسند معلوم ہوتی تھیں۔ اس کا مطلب تھا کہ گیٹو کیلئے اپنے ’’پروگرام‘‘ پر عملدرآمد کے امکانات روشن ہوگئے تھے۔ وہ کافی حد تک مطمئن ہوکر اٹھا اور باہر آگیا۔
رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ سڑک تقریباً سنسان تھی اور وہاں روشنی بھی کچھ زیادہ نہیں تھی۔ یہ دیکھ کر گیٹو نے مزید اطمینان کی سانس لی۔ صرف ایک بار اور کھلا تھا، دکانیں تقریباً سبھی بند ہوچکی تھیں۔ گویا حالات نہایت موافق تھے۔ علاقے کی پولیس کی گشتی کار کے سلسلے میں بھی مینزا انتظام کرچکا تھا۔ معمول کے گشت کے سلسلے میں فی الحال اس کا اس طرف آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ’’طے‘‘ یہ پایا تھا کہ وہ تب ہی اس طرف آئے جب اسے یہاں کسی گڑبڑ کی اطلاع ملے گی اور اس وقت بھی وہ حتیٰ الامکان سست رفتاری سے پہنچے گی۔
وہ اپنی شیورلیٹ سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔ اس کی پچھلی سیٹ پر دو جسیم آدمی بیٹھے تھے لیکن کار میں روشنی اور بھی کم پہنچ رہی تھی اس لئے وہ دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ دونوں ٹرک چلایا کرتے تھے اور انہیں معمولی تنخواہیں ملتی تھیں لیکن اب وہ بھی ’’فیملی‘‘ کے کارندوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان سے مخصوص قسم کے کام لئے جاتے تھے لیکن انہیں صحیح طور پر معلوم نہیں تھا کہ وہ درحقیقت کس کیلئے کام کرتے تھے۔ وہ صرف گیٹو کو جانتے تھے جو ضرورت پڑنے پر انہیں طلب کرلیتا تھا، ہدایات دیتا تھا اور اپنی رہنمائی میں ان ہدایات پر عملدرآمد کراتا تھا۔
اپنے حساب سے گویا انہیں اب کام بہت کم کرنا پڑتا تھا اور معاوضہ پہلے سے کہیں زیادہ ملتا تھا۔ گزربسر نہایت آرام و آسائش سے ہوتی تھی۔ وہ بے حد خوش تھے۔ تازہ ترین ’’کام‘‘ کے سلسلے میں گیٹو انہیں دونوں لڑکوں کی تصویریں دکھا چکا تھا جو اس نے پولیس ریکارڈ سے حاصل کی تھیں۔
گیٹو نے ہدایات دیتے ہوئے کہا تھا۔ ’’بس… سر پر کوئی مہلک چوٹ نہیں لگنی چاہئے اس کے علاوہ جو تمہارا دل چاہے، کرسکتے ہو لیکن یاد رکھنا اگر دونوں لڑکے دو مہینے سے پہلے اسپتال سے باہر آئے تو تم دونوں کو واپس جاکر ٹرک ڈرائیوری کرنی پڑے گی۔‘‘
دونوں جسیم اور مضبوط آدمی ذرا موٹے دماغ کے تھے لیکن گیٹو کی ہدایات کو بڑی سعادت مندی سے ذہن نشین کرلیتے تھے۔ اس وقت گیٹو نے پچھلی کھڑکی پر ان کی طرف ذرا جھک کر نیچی آواز میں کہا۔ ’’وہ دونوں باہر آنے والے ہیں، اپنے کام کیلئے تیار رہو۔‘‘
وہ دونوں دروازہ کھول کر آہستگی سے باہر آگئے۔ وہ خاصے دراز قد تھے۔ کرختگی اور مضبوطی ان کے چہرے اور خدوخال سے عیاں تھی۔ کسی زمانے میں وہ دونوں باکسر بھی رہے تھے لیکن اس میدان میں نام پیدا نہیں کرسکے تھے۔ ان کی ٹرک ڈرائیوری کے زمانے میں گیٹو نے انہیں ایک پرانے قرض سے بھی نجات دلائی تھی جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان رہتے تھے۔ اس قرض کی ادائیگی کیلئے رقم سنی کارلیون نے فراہم کی تھی۔
جب جیری اور کیون بار سے باہر آئے تو وہ گویا خود بھی اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنے کیلئے پوری طرح تیار تھے۔ ایک تو خمار نے ان کے حواس دھندلا دیئے تھے، دوسرے دونوں لڑکیوں نے ان کے ساتھ چلنے سے انکار کرکے گویا ان کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ وہ کسی صورت مان کر نہیں دی تھیں۔ اس وجہ سے دونوں کا موڈ آف تھا اور جھنجھلاہٹ کے باعث ان کی کنپٹیاں تپ رہی تھیں۔
وہ شیور لیٹ کے قریب پہنچے تو گیٹو استہزائیہ اور بلند آواز میں بولا۔ ’’بھئی واہ…! ان دونوں لڑکیوں نے تمہیں خوب ٹکا سا جواب دیا۔‘‘
دونوں لڑکوں نے گردنیں گھما کر آنکھیں سکیڑتے ہوئے گیٹو کی طرف دیکھا۔ انہوں نے یقیناً یہی محسوس کیا کہ اپنا غصہ اور جھنجھلاہٹ نکالنے کیلئے انہیں ایک شاندار ’’ہدف‘‘ میسر آگیا تھا کیونکہ گیٹو زیادہ جسیم یا شخصیت کے اعتبار سے بارعب نہیں تھا۔ وہ میانہ قامت اور خوش لباس آدمی تھا۔ بعض خاص دکانوں سے سودے بازی کرکے کم قیمت میں ایسے سوٹ خرید لیتا تھا جن میں وہ نہایت معزز آدمی نظر آتا تھا۔ گو کہ اس کا چہرہ نیولے کی طرح سوکھا سا تھا۔ وہ کسی بھی اعتبار سے لڑنے والا یا خطرناک آدمی دکھائی نہیں دیتا تھا۔
دونوں نوجوان بلاتامل اس پر جھپٹے لیکن وہ نہایت پھرتی سے جھکائی دے کر ایک طرف ہوگیا۔ اسی لمحے عقب سے ان دونوں نوجوانوں کے بازو گویا آہنی شکنجوں میں پھنس گئے۔ تب انہیں احساس ہوا کہ وہاں دو آدمی اور بھی موجود تھے جنہوں نے عقب سے نہایت ماہرانہ انداز اور بے حد مضبوطی سے انہیں گرفت میں لے لیا تھا۔
اسی دوران گیٹو اپنے ہاتھ پر پیتل کا ایک مختصر سا خول چڑھا چکا تھا جس پر نہایت ننھے ننھے سے کانٹے ابھرے ہوئے تھے۔ یہ خول چڑھانے سے اس کا گھونسا گویا ایک کھردرا، آہنی گھونسا بن گیا تھا۔ اس نے تاک کر نہایت پھرتی سے یہ گھونسا نوجوان کی ناک پر رسید کیا۔ ایک ہی
گھونسے میں اس کی ناک چپٹی ہوگئی اور خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔
عقب سے جس شخص نے اس لڑکے کو قابو میں کیا ہوا تھا، اس نے اسے ہوا میں سڑک سے اونچا اٹھا لیا۔ اب وہ گیٹو کے سامنے اس بوری کی طرح لٹکا ہوا تھا جس پر گھونسے بازی کی مشق کی جاتی ہے۔ گیٹو نے اس پر سچ مچ مشق شروع کردی۔ اس نے اتنی پھرتی سے اس کی ناف پر گھونسے برسائے کہ اسے حلق سے آواز نکالنے کی بھی مہلت نہ ملی۔
جب لمبے تڑنگے شخص نے اسے چھوڑا تو وہ پٹ سے چھپکلی کی طرح سڑک پر گرا۔ تب لمبے تڑنگے شخص نے اسے ٹھوکروں پر رکھ لیا حالانکہ اس میں مزاحمت کی سکت نہیں رہی تھی۔ ادھر دوسرے نوجوان نے چیخنے کی کوشش کی تھی لیکن دوسرے لمبے تڑنگے شخص نے اس کی گردن کے گرد اپنے بازو کا شکنجہ کس دیا تھا اور اس کی آواز حلق میں گھٹ کر رہ گئی تھی۔ پھر اس شخص نے مشینی انداز میں اس کی بھی ہڈی پسلی ایک کرنا شروع کردی۔
صرف چھ سیکنڈ میں یہ سب کچھ ہوگیا تھا۔ گیٹو نے مزید زحمت نہیں کی۔ دونوں نوجوانوں کا بھرتا بنانے کیلئے وہ دونوں لمبے تڑنگے آدمی ہی کافی تھے۔ وہ اطمینان سے گاڑی میں جا بیٹھا اور اس نے انجن اسٹارٹ کردیا۔ دونوں نوجوانوں کی پٹائی اس انداز میں جاری تھی کہ یکے بعد دیگرے ان کی ہڈیاں ٹوٹ رہی تھیں مگر ان کے حلق سے ’’اوع… آع‘‘ کے علاوہ کوئی آواز نہیں نکل پا رہی تھی۔ جلد ہی یہ آوازیں بھی معدوم ہوگئیں۔
دونوں لمبے تڑنگے آدمی تاک تاک کر نہایت ماہرانہ اور نپے تلے انداز میں وار کررہے تھے۔ ان کے انداز میں ذرا بھی گھبراہٹ یا عجلت نہیں تھی اور ان کا کوئی وار اچٹتا ہوا نہیں پڑ رہا تھا۔ گیٹو کو گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اس دوران کیون کے چہرے کی جھلک نظر آئی۔ وہ ناقابل شناخت ہوچکا تھا۔ دونوں لڑکوں کے ہاتھ، پائوں اور جسم کی بیشتر ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں۔
آس پاس کی عمارتوں میں شاید کچھ لوگوں کو احساس ہوگیا تھا کہ گلی میں کچھ گڑبڑ ہے۔ کئی کھڑکیاں کھلیں اور کئی چہرے جھانکتے دکھائی دیئے مگر جلد ہی کھڑکیاں بند ہوگئیں۔ کسی نے باہر آکر دخل اندازی کرنا تو درکنار یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ معاملہ کیا تھا۔ بار میں سے بھی کچھ لوگ نکل کر باہر آن کھڑے ہوئے تھے مگر ان میں سے بھی کسی نے اس معاملے میں مداخلت نہیں کی۔ وہ سب دور کھڑے خوف زدہ نظروں سے سفاکانہ انداز میں نوجوانوں کی درگت بنتے دیکھتے رہے۔
’’چلو… بس… کافی ہے۔‘‘ گیٹو نے گاڑی سے ہانک لگائی اور دونوں لمبے تڑنگے آدمی اطمینان سے ہاتھ جھاڑ کر گاڑی میں جا بیٹھے۔ دونوں نوجوان گٹھڑیوں کی سی صورت میں سڑک پر بے حس و حرکت پڑے تھے۔
گیٹو نے ایک جھٹکے سے گاڑی آگے بڑھا دی۔ اسے اس بات کی پروا نہیں تھی کہ کسی نے شیورلیٹ کا نمبر نوٹ کرلیا ہوگا۔ وہ چوری کی شیورلیٹ تھی۔ اس ماڈل اور اس رنگ کی ہزاروں گاڑیاں شہر میں موجود تھیں۔
٭…٭…٭
ٹام ہیگن نے جمعرات کے روز اپنے آفس پہنچ کر سب سے پہلے کچھ کاموں کے سلسلے میں کاغذی کارروائیاں مکمل کیں۔ جمعہ کو ورجل سولوزو سے ڈون کارلیون کی ملاقات طے ہوچکی تھی اور ہیگن چاہتا تھا کہ اس ملاقات سے پہلے وہ چھوٹے موٹے کاموں اور کاغذی کارروائیوں سے فارغ ہوچکا ہو۔ ڈون سے سولوزو کی یہ ملاقات ہیگن کے اندازے کے مطابق نہایت اہم ثابت ہونے والی تھی۔ اسے معلوم ہوچکا تھا کہ سولوزو درحقیقت ’’فیملی‘‘ کے ساتھ کاروباری شراکت داری کی کوئی تجویز لے کر آرہا تھا۔
ڈون کو اس وقت کوئی خاص حیرت یا افسوس نہیں ہوا تھا جب ہیگن نے لاس اینجلس سے واپس آکر اسے بتایا تھا کہ فلمی دنیا کے بہت بڑے آدمی جیک والز سے اس کے مذاکرات ناکام ہوگئے تھے اور اس نے کسی بھی قیمت پر جونی کو اپنی فلم میں کاسٹ کرنے سے انکار کردیا تھا۔
ڈون نے ہر بات تفصیل سے پوچھی تھی اور ہیگن نے تمام جزئیات بیان کی تھیں۔ ان ماں، بیٹی کا ذکر بھی آیا تھا جنہیں ہیگن نے والز کے فارم ہائوس سے رخصت ہوتے دیکھا تھا۔ ہیگن نے اس وقت کمسن لڑکی کی جو حالت دیکھی تھی، وہ بھی بیان کی تھی۔ اس پر ڈون نے دانت پیسے تھے اور نہایت ہی ناگواری سے بڑبڑایا تھا۔ ’’خبیث…!‘‘
اس سے زیادہ اس نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔ مجموعی طور پر وہ اسی طرح پرسکون رہا تھا جیسے ناکامی کی اس خبر نے اسے کوئی خاص دھچکا نہ پہنچایا ہو۔ ان کے درمیان یہ گفتگو پیر کے روز ہوچکی تھی۔ پھر بدھ کو ڈون نے ہیگن کو ملاقات کیلئے بلایا تھا۔ وہ ہشاش بشاش اور مطمئن نظر آرہا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس نے مسئلے کا حل تلاش کرلیا ہو تاہم اس نے ہیگن کو اس سلسلے میں کچھ نہیں بتایا۔ اس نے کچھ کاموں کے بارے میں ہیگن کو ہدایات دیں۔ پھر سرسری انداز میں گویا پیشگوئی کی کہ جلد ہی والز کا فون آئے گا اور وہ انہیں بتائے گا کہ وہ جونی کو اپنی فلم میں مرکزی کردار کیلئے کاسٹ کرنے کو تیار ہے۔
اسی اثنا میں فون کی گھنٹی بج اٹھی اور ہیگن کی دھڑکن اس احساس سے تیز ہونے لگی کہ کیا واقعی والز کا فون آگیا تھا؟ لیکن وہ فون والز کا نہیں بلکہ بونا سیرا کا تھا۔ اس کی آواز تشکر اور ممنونیت سے لرز رہی تھی۔ وہ ہیگن سے درخواست کررہا تھا کہ اس کا شکریئے کا پیغام ڈون کو پہنچا دیا جائے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کا دل ٹھنڈا ہوگیا تھا اور ڈون نے اس کی درخواست قبول کرکے گویا اسے بن مول خرید لیا تھا۔ اس نے نہایت جذباتی ہوکر یہ بھی کہا کہ ڈون کو اگر زندگی میں کبھی اس کے خون کی بھی ضرورت پڑی تو وہ صرف ایک آواز دے کر دیکھے، بونا سیرا اس کے پسینے کی جگہ اپنا خون بہا دے گا۔
ہیگن نے نہایت تحمل سے اس کا شکریہ ادا کیا اور مربیانہ انداز میں اسے تسلی دی کہ اس کے جذبات ڈون تک پہنچا دیئے جائیں گے۔ وہ ’’ڈیلی نیوز‘‘ میں خبر اور تصویریں دیکھ چکا تھا کہ کس طرح جیری اور کیون سڑک پر نیم مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔ تصویروں میں ان کی حالت عبرتناک نظر آرہی تھی۔ وہ خون اور گوشت کا ملغوبہ دکھائی دے رہے تھے۔ اخبار نے خیال ظاہر کیا تھا کہ شاید انہیں مہینوں اسپتال میں رہنے اور پلاسٹک سرجری کرانے کی ضرورت پڑے گی اور اس کے بعد بھی شاید وہ پہلے جیسے نظر نہ آسکیں۔ ہیگن نے خبر پڑھ کر طمانیت سے سر ہلایا تھا اور ایک کاغذ پر نوٹ کیا تھا کہ گیٹو خصوصی بونس کا مستحق ہوچکا تھا۔ اس کے ذمے جو کام لگایا گیا تھا، اس نے اسے عمدگی سے انجام دیا تھا۔
ہیگن اگلے تین گھنٹوں تک کاغذات میں الجھا رہا۔ اس نے ڈون کی ان تین کمپنیوں کی آمدنی کی رپورٹس کا جائزہ لیا جن میں سے ایک جائداد کا کاروبار کرتی تھی، ایک اٹلی سے زیتون کا تیل درآمد کرتی تھی اور تیسری کنسٹرکشن کا کام کرتی تھی۔ جنگ کے دوران تینوں کے کاروبار زیادہ اچھے نہیں رہے تھے لیکن اب جنگ کے بعد امید تھی کہ وہ تیزی سے پھلیں پھولیں گی۔
کاغذات میں الجھ کر وہ جونی والے مسئلے کو تقریباً بھول ہی چکا تھا مگر اچانک اس کی سیکرٹری نے اسے بتایا کہ لاس اینجلس سے اس کیلئے کال تھی۔ اس کا دل انجانی توقعات سے دھڑک اٹھا تاہم اس نے ریسیور اٹھا کر پرسکون اور باوقار لہجے میں کہا۔ ’’ ہیگن بول رہا ہوں… فرمایئے؟‘‘
دوسری طرف سے جو چنگھاڑتی ہوئی آواز سنائی دی، اسے پہلے تو ہیگن پہچان نہیں سکا پھر اس کی سمجھ میں آیا کہ وہ والز تھا جو اسے گالیاں دیتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ’’میں تم سب کو سو سال کیلئے جیل بھجوا دوں گا۔ چاہے اس کیلئے مجھے اپنی آخری پینی تک خرچ کرنی پڑ جائے۔ میں تم لوگوں کو نہیں چھوڑوں گا اور اس جونی کے بچے کو تو میں زندگی بھر کیلئے ہیجڑا بنوا دوں گا۔ تم میری بات سن رہے ہو نا ۔سؤر کے بچے؟‘‘
ہیگن نے سنبھلتے ہوئے متانت سے کہا۔ ’’میں سؤر کا بچہ نہیں…! جرمن، آئرش والدین کی اولاد ہوں۔‘‘
دوسری طرف ایک لمحے خاموشی رہی پھر فون بند کردیا گیا۔ ہیگن مسکراتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ والز نے بلاشبہ خوب گالیاں دی تھیں اور بکواس کی تھی لیکن اس نے براہ راست ڈون کارلیون کا نام لے کر کوئی دھمکی نہیں دی تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ آدمی بہرحال ذہین تھا۔
٭…٭…٭
دس سال پہلے جیک والز کی پہلی بیوی کا انتقال ہوا تھا تب سے وہ اپنے بیڈ روم میں اکیلا ہی سوتا تھا۔ اس کا بیڈ روم اتنا بڑا تھا کہ اس میں کسی کلب کے منظر کی شوٹنگ ہوسکتی تھی اور بیڈ اتنا بڑا تھا کہ اس پر دس آدمی سو سکتے تھے تاہم وہ تنہا ہی سوتا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد اس کی زندگی میں کوئی عورت نہیں آئی تھی، اس نے دوسری شادی بھی کی تھی مگر جب یہ شادی برقرار تھی، ان دنوں بھی اس کا اور اس کی بیوی کا بیڈ روم الگ تھا۔ بیوی کے ساتھ اس کا رویہ ایسا ہی تھا جیسے وہ دوسری ضروریات زندگی کی طرح محض ضرورت کی ایک چیز ہو۔ وہ صرف بوقت ضرورت ہی اس کے پاس جاتا تھا۔
شاید اسی لئے وہ جلد ہی اسے چھوڑ گئی تھی۔ والز کیلئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ اس کیلئے عورتوں کی کوئی کمی نہیں تھی اور ساٹھ سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود وہ ایک توانا آدمی تھا مگر کچھ عرصے سے خوبصورت مگر کمسن لڑکیاں اس کی کمزوری بن گئی تھیں۔ وہ پہلے ہی کچھ زیادہ اچھی فطرت کا مالک نہیں تھا لیکن اب تو فطرت میں کجروی کا کوئی ایسا پہلو ابھر آیا تھا کہ کمسن لڑکیوں کو دیکھ کر ہی اسے خوشی ہوتی تھی۔
جمعرات کا اجالا اس کے طویل و عریض بیڈ روم میں صرف اس حد تک ہی پہنچ پا رہا تھا کہ وہاں ملگجے اندھیرے کا سا سماں تھا۔ اسے اپنے بیڈ کے پائنتی کوئی مانوس سی چیز رکھی دکھائی دے رہی تھی لیکن کمرے میں روشنی کم اور ذہن پر غنودگی کا غلبہ ہونے کی وجہ سے اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا چیز تھی۔
اسے بہتر طور پر دیکھنے کیلئے وہ ایک کہنی کے بل ذرا اونچا ہوا۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا دیکھ رہا تھا۔ اسے وہ چیز کسی گھوڑے کے سر سے مشابہہ لگ رہی تھی۔ شاید اس کی آنکھیں اسے دھوکا دے رہی تھیں۔ اس چیز کو صحیح طور پر دیکھنے کیلئے اس نے بڑا سا ٹیبل لیمپ روشن کیا۔
دوسرے ہی لمحے اسے کچھ یوں لگا جیسے کسی نے اس کے سر پر ہتھوڑا رسید کردیا ہو۔ اس کا دل گویا اچھل کر حلق میں آگیا جس کی وجہ سے اسے قے آگئی۔ خوبصورت، نفیس اور ریشمی چادر سے آراستہ اس کا بستر آلودہ ہوگیا۔
اس کے پائنتی واقعی ایک گھوڑے کا کٹا ہوا سر رکھا تھا اور وہ سر دنیا کے اب تک کے بیش قیمت ترین گھوڑے کا تھا۔ وہ اس کے اپنے ’’خرطوم‘‘ کا سر


جسے خریدنے کے بعد سے وہ گویا خوشی سے پھولا نہیں سماتا تھا۔ جہاں سے گھوڑے کی گردن کاٹی گئی تھی، وہیں سے موٹی پتلی نسیں بھیانک انداز میں جھانک رہی تھیں اور بستر پر خون پھیلا نظر آرہا تھا۔ اس کی سیاہ ریشمیں کھال جو چمکتی دکھائی دیتی تھی، زندگی سے محروم ہوکر دھندلی پڑ گئی تھی۔
اس کی بڑی بڑی آنکھیں جو موتیوں کی طرح جھلملاتی تھیں، اب وہ بھی چمک سے محروم تھیں۔ آنکھیں کھلی تھیں مگر اب ان میں پھیلی ہوئی موت کی ویرانی نے انہیں دھندلا اور خوفناک بنا دیا تھا۔ دنیا کے عظیم ترین گھوڑے کا کٹا ہوا سر کسی حقیر سی چیز کی طرح اس کے پیروں سے ذرا دور پڑا تھا۔
ایک عجیب سا خوف اور وحشت اس پر اس طرح حملہ آور ہوئی کہ وہ بے اختیار چیخیں مارنے اور اپنے ملازموں کو پکارنے لگا۔ ملازم دوڑے آئے۔ اسی وحشت کے عالم میں والز نے ہیگن کو نیویارک فون کر ڈالا۔ اس کا بٹلر اس کی حالت دیکھ کر تشویش زدہ تھا۔ آخر اس نے اس کے ذاتی معالج کو فون کردیا تاہم اس کی آمد سے پہلے والز نے کافی حد تک اپنی حالت پر قابو پا لیا۔
اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس پر اس پہلو سے بھی حملہ ہوسکتا ہے۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ کوئی اس سفاکی سے دنیا کے خوبصورت ترین گھوڑے کو ہلاک کرسکتا تھا۔ والز نے اپنے اصطبل کی سیکورٹی کیلئے اپنی دانست میں جو فول پروف انتظامات کئے تھے، وہ سب دھرے کے دھرے رہ گئے تھے۔
اس نے سیکورٹی اسٹاف سے پوچھ گچھ کی تو رات کی ڈیوٹی دینے والوں نے حلفیہ بتایا کہ انہوں نے کسی قسم کی آواز تک نہیں سنی۔ نہ ہی انہوں نے کسی قسم کی غفلت برتی اور نہ ہی انہیں کسی گڑبڑ کا احساس ہوا۔ والز فیصلہ نہیں کرسکا کہ وہ جھوٹ بول رہے تھے۔ انہیں خرید لیا گیا تھا یا پھر ان کے ساتھ کوئی ایسی چال چلی گئی تھی کہ انہیں احساس ہی نہیں ہوسکا تھا کہ درحقیقت کیا ہوا تھا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ شاید وہ پولیس کو اس بات پر آمادہ کرسکے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ اتنی سختی کریں کہ وہ سچ اگل دیں لیکن یہ سب بعد کی باتیں تھیں۔ فی الحال یہ بھیانک حقیقت سامنے تھی کہ ’’خرطوم‘‘ کو ذبح کیا جا چکا تھا اور وارننگ کے طور پر اس کا سر اس کے قدموں میں پھینک دیا گیا تھا۔
بہرحال والز احمق نہیں تھا۔ اس جھٹکے نے اس کی انا پرستی کو کہیں دور لے جا پھینکا تھا۔ یہ پیغام اس کی سمجھ میں آگیا تھا۔ اس کی عقل میں یہ بات آگئی تھی کہ جو لوگ اس کی دولت، طاقت، اثرورسوخ، صدر مملکت سے اس کے مراسم اور اس طرح کی دوسری کسی بھی بات کو خاطر میں نہیں لائے تھے، وہ اگر کرنے پر آتے تو کیا کچھ کرسکتے تھے۔ وہ اسے ہلاک بھی کرسکتے تھے!اوہ محض اس بات پر اس کی جان لے سکتے تھے کہ وہ جونی کو اپنی فلم میں کاسٹ نہیں کررہا تھا۔
یہ احساس گویا اسے اس کی دنیا سے باہر لے آیا تھا جہاں اس نے ہمیشہ اپنے آپ کو بہت طاقتور، بہت محفوظ محسوس کیا تھا۔ اسے اندازہ ہوا تھا کہ کچھ عناصر ایسی دیوانگی کی پیداوار ہوتے تھے جن کے سامنے یہ سب باتیں بیکار ہوکر رہ جاتی تھیں کہ آپ کتنے اثر رسوخ والے تھے، آپ کتنی کمپنیوں اور کتنی دولت کے مالک تھے، کہاں کہاں آپ کا حکم چلتا تھا۔ اسے پہلی بار اندازہ ہوا تھا کہ کچھ لوگ اس جیسے افراد کو یہ احساس بھی دلا سکتے ہیں کہ وہ ہر کام اپنی مرضی کے مطابق نہیں کرسکتے۔ اس کے خیال میں یہ تو کمیونزم سے بھی زیادہ خطرناک چیز تھی۔
ڈاکٹر نے اسے سکون آور دوا کا انجکشن لگا دیا۔ اس سے اسے اپنے اعصاب پر قابو پانے میں مدد ملی اور وہ کافی حد تک پرسکون انداز میں سوچنے کے قابل ہوگیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ جذباتی انداز میں سوچنا قطعی مناسب نہیں رہے گا۔
جب اس نے قطعی غیر جذباتی انداز میں سوچنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ اول تو یہ ثابت کرنا ہی تقریباً ناممکن تھا کہ اس کے گھوڑے کو ڈون کارلیون کے اشارے پر ہلاک کیا گیا تھا اور اگر کسی معجزے کے تحت یہ ثابت ہو بھی جاتا تو بھلا ایک گھوڑے کو ہلاک کرنے کی زیادہ سے زیادہ سزا کیا ہوسکتی تھی؟
اس قسم کے مزید کچھ واقعات اسے ملک بھر میں تماشا بنا سکتے تھے، اس کی طاقت اور اثررسوخ کا بھرم ٹوٹ سکتا تھا، اس کی شخصیت کا سارا تاثر خاک میں مل سکتا تھا۔ عین ممکن تھا کہ وہ لوگ اسے ہلاک کرنے کے بجائے ایسے ہی طریقے آزماتے رہتے کہ وہ دنیا کے تمسخر کا نشانہ بن جاتا، اس کی شخصیت دو کوڑی کی ہوکر رہ جاتی۔ یہ سب کچھ موت سے بھی بدتر تھا اور یہ محض اس لئے ہوتا کہ وہ ایک شخص کو اپنی فلم میں اس کردار میں کاسٹ نہیں کررہا تھا جس کیلئے وہ موزوں ترین تھا۔ اس نے ایک ایسی بات کو انا کا مسئلہ بنا لیا تھا جس کے بارے میں دنیا کو کچھ پتا نہیں تھا۔
اس نے سوچا، بہت سوچا۔ گھنٹوں اس کے دل و دماغ میں دلائل کی جنگ جاری رہی۔ آخرکار وہ اہم فیصلے کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے اپنے اسٹاف کو بلا لیا اور انہیں کچھ ضروری ہدایات دیں۔ پریس کو یہ اطلاع فراہم کرنے کا بندوبست کیا گیا کہ خرطوم کسی بیماری کے باعث مر گیا تھا۔ حقائق جاننے والے تمام افراد سے قسم لی گئی کہ وہ اس معاملے میں کہیں اصل بات کا بھولے سے بھی تذکرہ نہیں کریں گے۔ گھوڑے کی بیماری کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ شاید اسے انگلینڈ سے امریکا منتقلی کے دوران راستے میں کہیں سے لگی تھی۔ اس کی لاش کو رازداری سے والز نے اپنی جاگیر کی حدود میں دفن کرا دیا۔
اور پھر اسی رات جونی کو نیویارک میں ایک فون کال موصول ہوئی جس میں اسے بتایا گیا کہ والز کی فلم میں کام شروع کرنے کیلئے اسے پیر کے روز اسٹوڈیو پہنچنا تھا۔
٭…٭…٭
اسی شام ہیگن، ڈون سے ملاقات کرنے اس کے گھر پہنچا۔ آئندہ روز چونکہ سولوزو سے ڈون کی ملاقات طے تھی، اس لئے ہیگن چاہتا تھا کہ اس سلسلے میں کچھ تیاری کرلی جائے، کچھ باتوں پر پیشگی غور کرلیا جائے۔ چنانچہ وہ شہر میں واقع اپنے لا آفس سے اٹھا اور ڈون کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
ڈون نے اپنے سب سے بڑے بیٹے سنی کو بھی اس گفتگو میں شریک کرنے کیلئے بلا رکھا تھا۔ ہیگن نے دیکھا کہ سنی کے کیوپڈ جیسے چہرے پر تھکن اور درماندگی تھی۔ وہ نیند کی کمی کا بھی شکار لگتا تھا۔ ہیگن سوچے بغیر نہ رہ سکا کہ شاید وہ کچھ زیادہ ہی اس لڑکی کے چکر میں پڑ گیا تھا جو اس کی بہن کی شادی کے موقع پر ’’میڈ آف آرنر‘‘ بنی تھی اور جس کے ساتھ وہ اسی روز آنکھ بچا کر گھر کے ایک کمرے میں چلا گیا تھا۔ اگر وہ اس لڑکی کے چکر میں اپنی نیند اور آرام سے بھی غافل رہنے لگا تھا تو یہ ہیگن کیلئے تشویش کی بات تھی۔
ڈون نے سگار کا کش لیتے ہوئے گفتگو کا آغاز کیا۔ ’’کیا ہم سولوزو کے بارے میں وہ سب کچھ جانتے ہیں جو ہمارے لئے جاننا ضروری ہوسکتا ہے؟‘‘
ہیگن کو یوں تو سب باتیں یاد تھیں لیکن محض احتیاطاً اس نے ایک فائل کھول لی جس میں ضروری نوٹس موجود تھے لیکن ان نوٹس سے کوئی دوسرا شخص اصل باتیں نہیں سمجھ سکتا تھا۔ وہ انہیں محض کاروباری یادداشتیں سمجھتا۔ فائل میں ایک طرح سے سولوزو سے ملاقات کا متوقع ایجنڈا بھی درج تھا۔
’’سولوزو ہمارے پاس مدد کی درخواست لے کر آرہا ہے۔‘‘ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’وہ چاہتا ہے کہ ’’فیملی‘‘ اس کے کاروبار میں کم ازکم ایک ملین ڈالر لگائے اور بعض معاملات میں اسے قانون سے تحفظ فراہم کرے جس کے بدلے میں ہمیں کچھ حصہ ملے گا۔ ابھی یہ طے نہیں ہے کہ وہ حصہ کتنا ہوگا، یہ بات سولوزو خود بتائے گا۔ سولوزو کی سفارش ’’ٹے ٹیگ لیا فیملی‘‘ کر رہی ہے۔ یہ فیملی اس کی پشت پناہی بھی کرتی ہے۔ شاید اسے بھی سولوزو کے کاروبار میں کچھ حصہ ملتا ہے۔ سولوزو جس کاروبار میں حصے داری کی بات ہم سے کرنے آرہا ہے، وہ منشیات کا کاروبار ہے۔‘‘
ہیگن نے ایک لمحے کیلئے خاموش ہوکر ڈون اور سنی کی طرف دیکھا۔ وہ دونوں خاموش رہے اور ان کے چہروں پر کوئی تاثر نہیں ابھرا تو ہیگن نے سلسلۂ کلام جوڑا۔ ’’سولوزو کے ترکی میں کچھ لوگوں سے رابطے ہیں جو وہاں پوست کی کاشت کرتے ہیں۔ وہاں سے وہ پوست کو بغیر کسی دشواری کے سسلی منتقل کرلیتا ہے۔ سسلی میں اس نے پلانٹ لگایا ہوا ہے جس کے ذریعے پوست سے ہیروئن تیار کی جاتی ہے۔ اس سے پہلے وہ پوست سے مارفین بھی تیار کرا لیتا ہے اور چاہتا ہے تو اسے ہیروئن کے درجے تک لے آتا ہے۔ وہاں اس نے اس کام کے سارے انتظامات کررکھے ہیں اور اسے ہر طرح کا تحفظ حاصل ہے۔ خطرے کی صورت میں اسے پیشگی اطلاع مل جاتی ہے۔‘‘
ایک لمحے کیلئے خاموش ہوکر اس نے گہری سانس لی اور پھر بولا۔ ’’یہاں تک تو سب ٹھیک ہے، اب وہ ہیروئن کو اس ملک میں لانا چاہتا ہے۔ ہیروئن یہاں لانے اور پھر اس کی تقسیم کاری کا نظام تیار کرنے میں اسے دشواریاں درپیش ہیں۔ اس سلسلے میں اسے مالی مدد بھی درکار ہے اور قانون سے تحفظ بھی۔ ان خطوط پر کاروبار کو پھیلانے کیلئے اس کے پاس سرمائے کی کمی ہے۔ اسے ایک ملین ڈالر کی ضرورت ہے جو ظاہر ہے ایک بڑی رقم ہے۔ ڈالر درختوں پر تو نہیں اگتے۔‘‘
ہیگن نے دیکھا کہ اس لمحے ڈون نے دانت پیسے تھے۔ تب اسے یاد آیا کہ کاروباری گفتگو کے دوران ڈون کو محاوروں کا استعمال یا جذبات کا اظہار بالکل پسند نہیں تھا۔ وہ جلدی سے بات آگے بڑھاتے ہوئے بولا۔ ’’سولوزو کی عرفیت ’’دی ترک‘‘ ہے۔ شناسا حلقوں میں اس کا ذکر صرف ترک کہہ کر بھی کیا جاتا ہے شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ترکی سے اس کا بہت رابطہ رہتا ہے۔ اس کی ایک بیوی بھی ترک ہے جس سے اس کے بچے بھی ہیں۔ سنا ہے سولوزو بے حد سفاک آدمی ہے اور نوجوانی کے زمانے میں چاقو کے استعمال میں بہت ماہر تھا شاید وہ مہارت اب بھی برقرار ہو۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی سے جھگڑا صرف اسی وقت کرتا ہے جب کاروباری معاملات میں اس سے کوئی معقول شکایت یا اختلاف پیدا ہوجائے۔‘‘
ہیگن نے ایک لمحے کیلئے خاموش ہوکر فائل میں لگے ایک کاغذ پر اچٹتی نظر ڈالی پھر بولا۔ ’’بہت باصلاحیت آدمی سمجھا جاتا ہے، اپنا باس خود ہے، کسی کی ماتحتی میں کام نہیں کرتا۔ پولیس کے پاس اس کا ریکارڈ بھی موجود ہے کیونکہ وہ دو مرتبہ سزا بھی کاٹ چکا ہے۔ ایک مرتبہ اٹلی اور دوسری مرتبہ امریکا میں۔ منشیات کے اسمگلر کی حیثیت سے وہ حکام کی نظر میں ہے۔ یہ چیز اس اعتبار سے ہمارے حق میں جاتی ہے کہ ایسے لوگ کبھی کسی کے خلاف وعدہ معاف گواہ نہیں بن سکتے۔ اس کی ایک امریکی بیوی بھی ہے جس سے


بچے ہیں۔ ترک بیوی ترکی میں رہتی ہے۔ اپنے کنبے کا پوری طرح خیال رکھنے والا آدمی سمجھا جاتا ہے۔ اگر اسے یہ اطمینان ہو کہ اس کی عدم موجودگی میں اس کی بیویوں اور بچوں کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی تو آرام سے کوئی سزا کاٹنے کیلئے جیل بھی چلا جائے گا۔‘‘
ڈون نے سگار منہ سے نکال کر اپنے بیٹے سنی کی طرف دیکھا اور پوچھا۔ ’’کیا خیال ہے سین ٹینو؟‘‘
ہیگن کو اندازہ تھا کہ سنی کیا سوچ رہا ہوگا۔ وہ مکمل طور پر ڈون کے زیرسایہ رہنے کے بارے میں کچھ عرصے سے مضطرب تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ اسے آزادانہ طور پر کوئی بڑا کام کرنے کو ملے۔ یہ اس کیلئے ایک اچھا موقع ہوسکتا تھا۔ شاید یہ ’’شعبہ‘‘ مکمل اور آزادانہ طور پر اس کے سپرد کردیا جاتا۔
سنی نے مشروب کا ایک گھونٹ بھرا اور ایک لمحے خاموش رہنے کے بعد محتاط انداز میں بولا۔ ’’اس پائوڈر کے کاروبار میں دولت تو بہت ہے لیکن خطرات بھی ہیں۔ اس سلسلے میں اگر آدمی قانون کی گرفت میں آجائے تو بیس سال کیلئے جیل بھی جاسکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ہم باقاعدہ طور پر اس کام میں ملوث ہونے اور عملی طور پر حصہ لینے سے دور ہی رہیں تو بہتر ہے۔ البتہ ہم اپنا کردار سرمایہ کاری اور قانونی تحفظ فراہم کرنے تک محدود رکھ سکتے ہیں۔‘‘
ہیگن نے تحسین آمیز نظروں سے سنی کی طرف دیکھا۔ اس نے بڑے تحمل اور سمجھداری سے جواب دیا تھا اور جو کچھ وہ کہہ رہا تھا، مناسب بھی وہی تھا۔ ہیگن کو اس سے اتنے معقول اور متوازن جواب کی توقع نہیں تھی۔
ڈون نے سگار کا ایک اور کش لے کر ہیگن کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’اور تم کیا کہتے ہو ہیگن؟‘‘
ہیگن نے ایک لمحے توقف کیا۔ وہ قطعی دیانتداری سے اپنی رائے دینا چاہتا تھا۔ اسے یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ ڈون، سولوزو کی تجویز رد کردے گا اور اس کے ساتھ کسی قسم کا تعاون کرنے کیلئے تیار نہیں ہوگا اور ہیگن کو اس کے ساتھ اب تک کی رفاقت کے دوران پہلی بار یہ احساس ہوا تھا کہ ڈون کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ وہ زیادہ آگے تک نہیں دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر مستقبل بعید پر نہیں تھی۔ ہیگن کو اندازہ تھا کہ ہیروئن کے کاروبار میں بہت پیسہ تھا اور مستقبل میں دنیا بھر میں اس کا سیلاب آنے والا تھا لیکن مشکل یہ تھی کہ ڈون منشیات کے دھندے کو اچھا نہیں سمجھتا تھا۔ وہ پیسے کے لالچ میں اس حد تک جانا نہیں چاہتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ جب تک بھی ممکن ہوسکے، خود کو اس دھندے سے دور رکھا جائے۔ ’’فیملی‘‘ کو اس کاروبار کی طرف نہ لایا جائے۔
اسے خاموش دیکھ کر ڈون نے ہمت بڑھانے والے انداز میں کہا۔ ’’جو بھی تمہارے دل میں ہے، کہہ ڈالو ہیگن! ضروری نہیں کہ کوئی وکیل ہر معاملے میں اپنے باس سے متفق ہو۔‘‘
’’میرے خیال میں تو آپ کو سولوزو کی تجویز قبول کرلینی چاہئے۔ اس کیلئے بہت سے دلائل دیئے جاسکتے ہیں لیکن سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ اس کام میں بہت پیسہ ہے اور اگر ہم اس میں ہاتھ نہیں ڈالیں گے تو کوئی اور ڈال دے گا۔ یہ بہرحال نہیں ہوگا کہ ہمارے باز رہنے سے امریکا میں ہیروئن نہ آئے۔ وہ تو اب بھی آرہی ہے اور آئندہ مزید آئے گی۔ اگر ہم پیچھے رہے تو ’’ٹے ٹیگ لیا فیملی‘‘ یقینا آگے بڑھ کر اس میں ہاتھ ڈال دے گی۔ اس سے اس کی دولت میں جو اضافہ ہوگا، اس کے بل بوتے پر وہ مزید پولیس افسروں اور سیاستدانوں کو خرید لے گی۔ اس کے اثررسوخ اور طاقت میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ وہ ہم سے زیادہ طاقتور ’’فیملی‘‘ بن جائے گی اور اس کے بعد وہ ہم سے وہ سب کچھ بھی چھیننے کیلئے حرکت میں آجائے گی جو ہمارے پاس اس وقت ہے۔‘‘
اس کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ ابھری اور ایک لمحے کے توقف کے بعد اس نے سلسلۂ کلام جوڑا۔ ’’ہم جیسی ’’فیملیز‘‘ کا معاملہ بھی حکومتوں اور ملکوں والا ہوتا ہے۔ اگر ایک ملک اپنے آپ کو مسلح کرتا ہے تو دوسرے کو بھی اپنے آپ کو مسلح کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایک ملک اپنی فوجی طاقت اور ہتھیاروں میں اضافہ کرتا ہے تو دوسرے کو بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایک ملک زیادہ طاقتور ہوجاتا ہے تو دوسرے کیلئے خطرہ بن جاتا ہے۔ اس وقت مکمل طور پرجائز اور قانونی کاروبار کے علاوہ جن تھوڑے بہت غیر قانونی دھندوں میں ہمارا ہاتھ ہے، وہ جوا اور یونین بازی ہے۔ ان دونوں چیزوں کی پشت پناہی سے ہمیں اچھی آمدنی ہورہی ہے۔ موجودہ وقت کے لحاظ سے یہی بہترین دھندے ہیں لیکن ہیروئن مستقبل کی چیز ہے۔ میرا خیال ہے ہمیں لازماً اس دھندے میں ہاتھ ڈالنا ہوگا ورنہ ہماری باقی چیزیں بھی خطرے میں پڑ جائیں گی۔ آج نہ سہی لیکن دس سال بعد خطرہ ضرور لاحق ہوگا۔‘‘
ڈون اس کی تقریر سے خاصا متاثر نظر آرہا تھا تاہم اس نے بڑبڑانے کے انداز میں صرف اتنا کہا۔ ’’ہاں… یقیناً یہ بات بہت اہم ہے۔‘‘ پھر ایک گہری سانس لے کر وہ اچانک ہی اٹھ کھڑا ہوا اور بولا۔ ’’اس شاطر آدمی سے کل مجھے کس وقت ملنا ہے؟‘‘
’’وہ صبح دس بجے یہاں پہنچ جائے گا۔‘‘ ہیگن نے جواب دیا۔ اسے کچھ امید نظر آنے لگی تھی کہ ڈون، سولوزو کے ساتھ پارٹنر شپ پر آمادہ ہوجائے گا۔
ڈون انگڑائی لیتے ہوئے بولا۔ ’’میں چاہتا ہوں تم دونوں کل کی اس ملاقات کے دوران موجود رہو۔‘‘ پھر وہ سنی کی طرف دیکھ کر بولا۔ ’’سین ٹینو! لگتا ہے تم آج کل آرام بالکل نہیں کررہے۔ اپنی صحت کا خیال رکھو اور نیند پوری لیا کرو۔ یہ جوانی زندگی بھر ساتھ نہیں دے گی۔‘‘
سنی نے گویا اس پدرانہ شفقت کے اظہار سے شہ پا کر پوچھا۔ ’’پاپا! آپ کا سولوزو کو کیا جواب دینے کا ارادہ ہے؟‘‘
’’ابھی میں کیا بتا سکتا ہوں؟ ابھی تو مجھے خود بھی معلوم نہیں ہے۔‘‘ ڈون مسکرایا۔ ’’پہلے میں اس کی تجویز اس کی زبان سے سن لوں۔ مجھے تفصیلات معلوم ہونی چاہئیں۔ یہ پتا چلنا چاہئے کہ وہ ہمیں کتنے فیصد منافع کی پیشکش کرنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ ابھی ہمارے درمیان جو بات ہوئی ہے، میں آج رات اس پر غور کروں گا۔ میں جلد بازی میں فیصلے کرنے والا آدمی نہیں ہوں۔‘‘
وہ دروازے کی طرف چل دیا لیکن دروازے پر رک کر مڑا اور بظاہر سرسری سے انداز میں ہیگن سے مخاطب ہوا۔ ’’تم نے سولوزو کے بارے میں کافی معلومات جمع کی ہیں لیکن کیا تمہیں یہ معلوم ہے کہ جنگ سے پہلے سولوزو عورتوں کی دلالی سے پیسہ کماتا تھا اور ’’ٹے ٹیگ لیا فیملی‘‘ تو ابھی تک یہ دھندا کرتی ہے۔ اگر تم نے اپنے کاغذات میں یہ بات نوٹ نہیں کی ہے تو اب کرلو، کہیں تم بھول نہ جائو۔‘‘
ہیگن کے چہرے پر ہلکی سی سرخی آگئی تاہم وہ خاموش رہا۔ اسے یہ بات معلوم تھی لیکن اس نے اسے غیر اہم سمجھتے ہوئے جان بوجھ کر اس کا ذکر نہیں کیا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ ڈون اس دھندے کو برا سمجھتا تھا۔ اس کی اپنی کچھ اخلاقیات تھیں۔
٭…٭…٭
سولوزو کچھ ایسا دراز قد تو نہیں تھا لیکن کسی گینڈے کی طرح مضبوط دکھائی دیتا تھا۔ اس کا جسم ٹھوس اور ورزشی معلوم ہوتا تھا۔ اس کی رنگت ایسی تھی کہ اسے سچ مچ ترک بھی سمجھا جاسکتا تھا۔ اس کی ناک طوطے کی چونچ کی طرح مڑی ہوئی تھی اور اس کی سیاہ آنکھوں سے سفاکی جھلکتی تھی۔ وہ دیکھنے میں ہی ایک خطرناک آدمی معلوم ہوتا تھا تاہم اس کی شخصیت میں وقار اور دبدبہ تھا۔
سنی کارلیون نے مین گیٹ پر اس کا استقبال کیا اور اسے اس کمرے میں لے آیا جہاں ہیگن اور ڈون اس کے منتظر تھے۔ ہیگن نے اس کا جائزہ لینے کے بعد محسوس کیا کہ اس سے زیادہ خطرناک دکھائی دینے والا شخص براسی تھا۔ اسے اب تک جن لوگوں سے واسطہ پڑا تھا، ان میں سے کوئی اسے طاقت اور خطرے کی اتنی واضح علامات لئے ہوئے دکھائی نہیں دیا تھا۔ اس کے مقابلے میں ڈون ایک عام، سادہ لوح بلکہ کسی حد تک دیہاتی آدمی دکھائی دے رہا تھا۔
سب نے بظاہر خاصی خوش خلقی سے ایک دوسرے سے مصافحہ کیا۔ رسمی طور پر سولوزو کی خاطر مدارات کیلئے عمدہ مشروب بھی پیش کیا گیا۔ اس نے تمہید اور رسمی گفتگو میں وقت ضائع نہیں کیا، جلد ہی وہ مطلب کی بات پر آگیا۔ اس کے پاس تجویز واقعی منشیات کے کاروبار کی تھی۔ تمام انتظامات کرلئے گئے تھے۔ ترکی میں پوست کی کاشت کرنے والے کچھ لوگوں نے اسے ہر سال ایک مخصوص مقدار میں پوست مہیا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
اس کے پاس فرانس میں ایک پلانٹ تھا جسے رشوت کے عوض تحفظ حاصل تھا۔ اس پلانٹ پر پوست سے مارفین تیار کی جاسکتی تھی۔ دوسرا پلانٹ اس کے پاس سسلی میں تھا۔ وہ بھی رشوت کی عنایت کی بدولت ہر قسم کے خطرات سے محفوظ تھا۔ اس پلانٹ کے ذریعے مارفین کو ہیروئن میں تبدیل کیا جاسکتا تھا۔ دونوں ملکوں میں پوست اور مارفین کی اسمگلنگ اور نقل و حرکت کیلئے بھی اسے ضروری تحفظ حاصل تھا۔
مال تو ریاست ہائے متحدہ امریکا تک لانے میں کل مالیت کا پانچ فیصد خرچ ہونا تھا۔ ایف بی آئی سے بچائو کا راستہ تلاش کرنا ضروری تھا کیونکہ وہ ابھی کرپشن کی دیمک سے بچی ہوئی تھی۔ اسے رشوت کے ذریعے خریدنا ممکن نہیں تھا اس کے باوجود سولوزو کی رائے میں ہیروئن کی اسمگلنگ میں خطرات نہ ہونے کے برابر تھے اور منافع اتنا زیادہ تھا جو دنیا کے کسی اور دھندے میں نہیں تھا۔
’’جب خطرات نہ ہونے کے برابر ہیں تو تم میرے پاس کیوں آئے ہو؟‘‘ ڈون نے ملائمت سے پوچھا۔ ’’تم مجھے آسانی سے کمائے جانے والے بھاری منافع میں شریک کرنا چاہتے ہو۔ میں اس فیاضی اور فراخدلی کی وجہ جان سکتا ہوں؟‘‘
سولوزو اپنے چہرے سے کسی خاص ردعمل کا اظہار کئے بغیر بولا۔ ’’پہلی وجہ یہ کہ مجھے اپنے کاروبار کو توسیع دینے کیلئے فوری طور پر سرمائے کی ضرورت ہے۔ مجھے دو ملین ڈالر نقد چاہئیں۔ دوسری اتنی ہی اہم وجہ یہ ہے کہ خطرات کم ہونے کے باوجود بہرحال مجھے بعض خاص خاص جگہوں پر بیٹھے ہوئے افراد کے تعاون کی ضرورت پڑے گی۔ آنے والے برسوں میں میرے کچھ کارندے بہرحال پکڑے جائیں گے۔ یہ امر ناگزیر ہے تاہم میں یہ ضمانت دیتا ہوں کہ وہ پیشہ ور مجرم نہیں ہوں گے۔ ان کا ریکارڈ صاف ہوگا۔ اس لئے جج انہیں نرم سزائیں دینے پر مجبور ہوں گے لیکن اس بات کو یقینی بنانے کیلئے مجھے تمہارے تعاون کی ضرورت ہوگی۔ اگر ان کارندوں کو یقین ہوگا کہ انہیں جیل میں ایک دو سال سے زیادہ عرصہ نہیں گزارنا پڑے گا تو پھر وہ زبان نہیں کھولیں گے۔‘‘ ایک گہری سانس لے کر وہ دوبارہ بولا۔ ’’لیکن اگر انہیں دس بیس سال کی سزا کا خطرہ نظر آیا تو پھر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
عین ممکن ہے وہ زبان کھول دیں۔ دنیا میں سبھی انسان مضبوط دل اور سخت جان نہیں ہوتے۔ ہوسکتا ہے وہ اپنے ساتھ کچھ اہم لوگوں کو بھی لے بیٹھیں۔ اس لئے قانون کے شعبے میں یقینی تحفظ کی ضرورت ہے۔ میں نے سنا ہے بہت سے جج تمہاری جیب میں ہیں؟‘‘
ڈون کارلیون نے اس خیال کی تردید یا تصدیق کرنا ضروری نہیں سمجھا اور ہموار لہجے میں پوچھا۔ ’’میری فیملی کو منافع میں کتنے فیصد حصہ ملے گا؟‘‘
سولوزو کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ وہ فوراً بولا۔ ’’پچاس فیصد۔ ہم ففٹی ففٹی کے پارٹنر ہوں گے۔ اس حساب سے پہلے سال میں تمہارا حصہ تین سے چار ملین کے درمیان ہوگا اور آئندہ برسوں میں اس میں اضافہ ہوتا رہے گا۔‘‘
’’اور ٹے ٹیگ لیا فیملی کو کیا ملے گا؟‘‘ ڈون نے بدستور ملائمت سے پوچھا۔
سولوزو پہلی بار قدرے مضطرب نظر آیا۔ وہ جلدی سے بولا۔ ’’انہیں جو کچھ بھی دوں گا، اپنے حصے میں سے دوں گا۔ بعض معاملات میں بہرحال مجھے ان کے تعاون کی ضرورت ہے۔‘‘
’’یعنی مجھے صرف دو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری اور کچھ قانونی تحفظ فراہم کرنے کے عوض پچاس فیصد حصہ ملے گا؟‘‘ ڈون نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’اگر تم دو ملین ڈالر کا ذکر ایک معمولی رقم کی طرح کرسکتے ہو تو میں تمہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ تم واقعی اتنے ہی بڑے سرمایہ دار ہو جتنا تمہارے بارے میں عام تاثر ہے ڈون کارلیون!‘‘ سولوزو کا لہجہ قدرے استہزائیہ ہوگیا۔
ڈون پرسکون لہجے میں بولا۔ ’’تمہیں ٹے ٹیگ لیا فیملی کی پشت پناہی حاصل ہے اور میں اس فیملی کا احترام کرتا ہوں۔ اسی احترام کے ناتے میں نے تم سے ملنے پر آمادگی ظاہر کردی تھی۔ میں تمہاری پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کرنا چاہتا ہوں لیکن میں تمہیں اس کی وجہ بھی بتائوں گا۔ اس میں شک نہیں کہ تم بہت اچھے منافع کی پیشکش کررہے ہو لیکن اس کام میں خطرات اس سے کہیں زیادہ ہیں، جتنا تم ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہو۔ اس میں شک نہیں کہ سیاستدانوں اور ججوں سے میرے تعلقات ہیں۔ سیاست، قانون اور انصاف کے شعبوں میں میرا اثررسوخ ہے لیکن اگر ان لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ میں منشیات کے دھندے میں پڑ گیا ہوں تو وہ مجھ پر اتنے مہربان نہیں رہیں گے جتنے اس وقت ہیں اور یوں میرے دوسرے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ اس وقت ہم جن غیر قانونی دھندوں کی سرپرستی کررہے ہیں، وہ ان لوگوں کی نظر میں زیادہ سنگین یا زیادہ ضرررساں نہیں۔ قمار بازی، شراب کی سپلائی یا یونین بازی کی حد تک وہ برداشت کرسکتے ہیں اور کچھ فائدوں کے عوض ان سے نظر چرا سکتے ہیں لیکن ڈرگز کا دھندا ان کی نظر میں بہت گندا، بہت سنگین اور بہت ضرررساں ہے۔ اس کی طرف سے آنکھیں بند کرنا ان کیلئے بہت مشکل ہوگا۔ بہرحال یہ میں تمہیں ان کا نقطۂ نظر بتا رہا ہوں، اپنا نہیں۔ مجھے ان کے خیالات سے غرض نہیں ہے۔ میں تو صرف یہ بتا رہا ہوں کہ اس کاروبار میں خطرات بہت زیادہ ہیں۔ پچھلے دس سال سے میری فیملی کسی قسم کے خطرات کے بغیر خاصی عزت و آبرو سے زندگی گزارتی آرہی ہے۔ اب میں محض لالچ میں آکر ان کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کرنا نہیں چاہتا۔‘‘
وہ خاموش ہوا تو کمرے میں گہرا سناٹا چھا گیا۔ (جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS