مون ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں کھانا ختم کرنے والا آخری جوڑا شانتی اور اس کے شوہر انیل داس تھے۔
ہوٹل کے منیجر نے داخلی دروازے پر پہلے ہی ہوٹل بند ہونے کی اطلاع دینے والی تختی آویزاں کردی تھی۔ اس ہوٹل میں صرف دو ملازم تھے۔ ایک ہوٹل کا منیجر اور دوسری اس کی بیوی۔ منیجر کی بیوی کھانا پکاتی تھی اور منیجر کھانا میزوں پر سرو کردیتا تھا۔
اس ہوٹل میں بہت کم مسافر قیام کرنا پسند کرتے تھے۔ کمروں کی صفائی کے لئے دن کے وقت بڑھیا آتی تھی۔ شانتی اور انیل، مون ہوٹل کی چوتھی منزل پر ٹھہرے ہوئے تھے، جس وقت انہوں نے کھانا ختم کیا اس وقت ہوٹل کا منیجر اور اس کی بیوی ڈائننگ ہال کی صفائی تقریباً مکمل کرچکے تھے۔
انیل داس دونوں پیروں سے معذور تھے اور وہ وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ شانتی نے آگے بڑھ کر لابی کا دروازہ کھولا اور اپنے شوہر کا انتظار کرنے لگی۔ وہ آہستہ آہستہ وہیل چیئر چلاتا ہوا دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ انیل داس عموماً اپنی بیوی کو وہیل چیئر دھکیلنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس طرح وہیل چیئر سے اچھی خاصی ورزش ہو جاتی ہے۔ انیل داس روزانہ سویرے قریب ترین جمنازیم میں ہاتھوں کے بل ورزش کیا کرتے تھے۔ اس لئے نچلا دھڑ بے کار ہونے کے باوجود ان کا اوپری جسم تندرست اور پرکشش تھا۔ وہ خوبصورت تھے اور اپنی عمر سے دس برس چھوٹے نظر آتے تھے… شانتی سارا کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھی۔ وہ اکہرے بدن کی ایک پرکشش عورت تھی۔
انیل داس نے آگے بڑھ کر لفٹ کا دروازہ کھولا اور جب شانتی کو اطمینان ہوگیا کہ اس کا شوہر بحفاظت لفٹ میں داخل ہوگیا ہے تو اس نے چوتھی منزل کا بٹن دبا دیا اور جب وہ اپنے کمرے میں داخل ہوئے تو انیل داس نے پائپ میں تمباکو بھرا اور لائٹر کے لئے جیبیں ٹٹولنے لگے۔
’’جان من…!‘‘ انہوں نے معذرت آمیز انداز میں کہا۔ ’’میرا خیال ہے کہ میں اپنا لائٹر نیچے میز پر چھوڑ آیا ہوں۔‘‘
’’اوہ… میں لے کر آتی ہوں۔‘‘ شانتی کمرے سے باہر نکل گئی۔
جب وہ لفٹ سے نکل کر ڈائننگ ہال میں آئی تو منیجر اور اس کی بیوی صفائی ختم کرکے جا چکے تھے۔ جس میز پر انہوں نے کھانا کھایا تھا وہ صاف پڑی تھی۔ ہوٹل کا کچن ڈائننگ ہال سے ملحق تھا۔ شانتی نے کچن کا دروازہ کھولا اور جھانک کر اندر دیکھا۔ کچن میں ایک میز رکھی تھی، اس کے گرد تین افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ منیجر، اس کی بیوی اور ایک اجنبی آدمی۔ اسے شانتی نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اجنبی کی عمر چالیس برس کے لگ بھگ ہوگی۔ وہ دہرے جسم کا ایک درازقد آدمی تھا۔ اس کے چہرے کے دائیں جانب آنکھ کے پاس سے جبڑے کے نچلے حصے تک زخم کا ایک لمبا سا نشان تھا۔ اجنبی کی آنکھیں بے حد سرد تھیں۔
میز پر ایک سوٹ کیس کھلا ہوا رکھا تھا اور اجنبی اس میں سے لال نوٹوں کی موٹی موٹی گڈیاں نکال کے تین حصوں میں تقسیم کر رہا تھا۔ پورا سوٹ کیس نوٹوں سے بھرا ہوا تھا۔
شانتی نے اپنی زندگی میں کبھی ایک جگہ اتنے سارے نوٹ نہیں دیکھے تھے۔ جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا تو کئی آنکھیں اس پر مرکوز ہوگئیں۔ اجنبی نے پھرتی سے نوٹوں کی گڈیاں اٹھا کر دوبارہ سوٹ کیس میں ڈالیں، حالانکہ وہ تیسرا شخص اس کے لئے قطعاً اجنبی تھا۔ اس نے فوراً ہی سوٹ کیس بند کردیا۔ شانتی کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ شانتی نے دوسرے لمحے اسے پہچان لیا تھا۔
ابھی تین روز پہلے اس نے اخبار میں اس شخص کا اسکیچ دیکھا تھا جو پولیس کے مصور نے بچی کے بیان کی مدد سے بنایا تھا۔ اخباروں میں دو اسکیچ اور شائع ہوئے تھے لیکن وہ دونوں اسکیچ واضح نہیں تھے۔ وہ منیجر اور اس کی بیوی سے ہلکی سی مشابہت رکھتے تھے۔ اگر شانتی نے اس وقت منیجر اور اس کی بیوی کو اس اجنبی کے ساتھ بیٹھا ہوا نہ دیکھا ہوتا تو وہ کبھی ان دونوں اسکیچوں میں ان کی مطابقت نہیں ڈھونڈ سکتی تھی۔ چوں کہ دونوں اس اجنبی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اس لئے یہ ثابت ہوتا تھا کہ اس بچی کو اغوا کرنے والے مجرموں میں منیجر اور اس کی بیوی بھی شامل تھے۔
شانتی کو فوراً احساس ہوگیا کہ وہ بہت غلط وقت پرکچن میں داخل ہوئی ہے۔ صاف ظاہر تھا کہ مجرم بچی کے اغوا سے ملنے والی دو لاکھ کی رقم آپس میں بانٹ رہے تھے۔
اغوا ہونے والی بچی کی عمر چھ برس تھی۔ وہ ایک بڑے اور معروف صنعت کار کی بیٹی تھی۔ مجرموں نے لڑکی کے باپ سے دو لاکھ روپے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس نے پولیس کو اطلاع دیئے بغیر یہ رقم ادا کردی تھی۔ مجرموں نے وعدے کے مطابق بچی کو چھوڑ دیا تھا۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بچی کی کم عمری دیکھتے ہوئے مجرموں کو یقین تھا کہ وہ واپس جا کر ان کے حلیوں سے آگاہ نہیں کرسکے گی۔ شاید اسی لئے انہوں نے بچی کے سامنے اپنے چہرے چھپانے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی تھی، لیکن ان کا خیال غلط ثابت ہوا۔
وہ بچی بلا کی ذہین تھی۔ وہ پولیس کو زیادہ معلومات فراہم نہیں کرسکی لیکن اس نے یہ ضرور بتا دیا کہ اسے ایک لمبے چوڑے تہہ خانے میں رکھا گیا تھا۔ اس نے خصوصاً مجرموں کے حلیے کافی تفصیل سے پولیس کو بتائے تھے۔ ان حلیوں کی مدد سے پولیس کے آرٹسٹ نے مجرموں کی خیالی تصویریں بنائی تھیں۔ یہ تصویریں شام کے اخبارات نے شائع کی تھیں۔ ہندوستان میں نابالغ بچوں کا اغوا قتل سے بھی زیادہ بھیانک جرم تصور کیا جاتا ہے۔ اس لئے مجرموں کو گرفتار کرنے کے لئے عوام اور اخبارات پولیس سے ہرممکن تعاون کرتے ہیں۔
شانتی نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ اس نے سوٹ کیس اور نوٹ نہیں دیکھے ہیں۔ اس نے سوٹ کیس نظرانداز کرتے ہوئے منیجر کی طرف دیکھا۔ اس کا حلق خشک ہو رہا تھا۔
’’میرے شوہر اپنا لائٹر میز پر بھول گئے تھے… مسٹر رندھیر…! کیا آپ کو وہ لائٹر ملا ہے؟‘‘
منیجر رندھیر شانتی کو اس طرح دیکھ رہا تھا، جیسے شیر پنجرے میں بند ہوجائے تو راہ فرار تلاش کرتا ہے۔ شانتی کے لہجے نے یہ امید پیدا کردی تھی کہ اس نے نوٹوں کی گڈیاں نہیں دیکھیں، اگر دیکھیں تو ان کی اہمیت نہیں سمجھ پائی۔ اس لئے منیجر نے زبردستی مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی جیب سے لائٹر نکالا اور بولا۔ ’’جی ہاں… مسز انیل داس…! یہ رہا آپ کے شوہر کا لائٹر…‘‘
منیجر شانتی کو لائٹر دینے کے لئے اٹھنے لگا۔ ٹھیک اسی وقت اجنبی نے غیر متوقع طور پر حیرت انگیز پھرتی کا مظاہرہ کیا، اس نے کرسی کھسکائی اور آگے بڑھ کر شانتی کو تیزی سے اندر گھسیٹا اور اسے کچن کے درمیان کھڑا کرکے خود دروازے پر کھڑا ہوگیا تاکہ وہ وہاں سے فرار نہ ہوسکے۔
’’تم احمق ہو… رندھیر…!‘‘ اجنبی منیجر نے کہا۔ ’’یہ عورت بڑی چالاک معلوم ہوتی ہے… مجھے یقین ہے کہ اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا تھا۔ لعنت ہے اس تصویر اور لڑکی پر…‘‘
منیجر کی بیوی نے غصے سے اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ ’’میں پہلے ہی کہہ رہی تھی کہ اس لڑکی کو چھوٹا سمجھنا مناسب نہیں۔ وہ اتنی بھولی نہیں تھی جتنی نظر آتی تھی۔‘‘
منیجر کی بیوی کے الفاظ سن کر شانتی کو زبردست ذہنی دھچکا لگا۔ اس کے اس جملے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اس بچی کو رہا کرنے کے خلاف تھی اور اسے ہلاک کرنے کے حق میں تھی۔ منیجر نے اپنی بیوی کو نظرانداز کرتے ہوئے شانتی کو دیکھا اور پھر اجنبی کی طرف دیکھ کر بولا۔ ’’اب کیا کیا جائے؟‘‘
’’یہ کون ہے؟‘‘ اجنبی نے شانتی کو اوپر سے نیچے تک گھورتے ہوئے منیجر سے پوچھا۔
’’یہ اپنے شوہر کے ساتھ چوتھی منزل پر بیس نمبر کمرے میں ٹھہری ہوئی ہے۔ دونوں کو یہاں آئے ہوئے صرف ایک ہفتہ ہوا ہے۔ اس کے شوہر مسٹر انیل داس گولڈن نائٹ کلب میں کسی قسم کا مظاہرہ کرتے ہوئے روزی کماتے ہیں۔‘‘
’’خوب…!‘‘ اجنبی نے کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’دس بج چکے ہیں۔ آخر یہ لوگ ابھی تک یہاں کیوں موجود ہیں؟‘‘
’’آج پیر ہے… پیر کی رات کو گولڈن نائٹ کلب بند رہتا ہے۔‘‘ منیجر نے جواب دیا۔
اجنبی بہت غور سے شانتی کا جائزہ لینے لگا۔ کچھ دیر کمرے میں خاموشی طاری رہی۔
’’مسٹر انیل داس کا نچلا دھڑ مفلوج ہے، لہٰذا وہ ہر وقت وہیل چیئر پر بیٹھے رہتے ہیں۔‘‘ منیجر نے خاموشی کا قفل توڑتے ہوئے کہا۔
’’خوب…!‘‘ اجنبی نے بھنویں اونچی کرکے شانتی کو دیکھا۔ ’’اگر اس کا شوہر اپاہج ہے تو وہ کلب میں کس قسم کا مظاہرہ کرتا ہے؟‘‘
’’شعبدے بازی… مسٹر انیل داس خیالات پڑھنے کے ماہر کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ کسی زمانے میں جب سرکس کا رواج تھا اس میں وہ کرتب دکھاتے تھے۔‘‘
اجنبی نے منیجر کی بیوی کو غور سے دیکھا۔ ’’تم بتائو کرن…! اب کیا کیا جائے؟‘‘
’’میں کیا بتائوں…؟‘‘ کرن نے جواب دیا۔ ’’لیکن میں ایک پیش گوئی کرسکتی ہوں کہ اگر ہم نے شانتی کو یہاں روکے رکھا تو اس کا شوہر جلد ہی نیچے فون کرکے اپنی بیوی کے متعلق دریافت کرے گا۔ اسے معلوم ہے کہ یہ نیچے لائٹر لینے آئی تھی۔ اسے یہ جواب دیا کہ ہم نے اس کی بیوی کو نہیں دیکھا تو چوں کہ وہ اپاہج اور خود اپنی بیوی کو تلاش نہیں کرسکتا، اس لئے فوراً پولیس کو ٹیلی فون کردے گا اور دس منٹ بعد ہوٹل کے چپے چپے پر پولیس موجود ہوگی۔‘‘
اجنبی نے اثبات میں سر ہلایا اور کچھ سوچنے لگا۔ چند لمحوں بعد بولا۔ ’’تم ٹھیک کہہ رہی ہو، گویا اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم اس کے شوہر کو بھی اس معاملے میں شامل کرلیں۔‘‘
’’نہیں!‘‘ شانتی نے جلدی سے کہا۔ ’’میرے شوہر کو اس معاملے میں شامل مت کرو۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ اپنی زبان بند رکھوں گی۔‘‘
اجنبی نے سرد نظروں سے شانتی کو گھورا۔ اس کی آنکھوں سے بے یقینی کے آثار جھلک رہے تھے۔
’’شاید تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ اگر ہم تمہیں چھوڑ دیں تو تم اس کمرے سے باہر نکل کر پولیس کو فون کروگی اور نہ ہی اپنے شوہر کو اس معاملے کی اطلاع دو گی… کیوں؟‘‘
شانتی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ جانتی تھی کہ خواہ وہ کچھ بھی کہے یہ لوگ اسے کسی قیمت پر نہیں چھوڑتے۔ اس لئے اس نے اس قسم کی کوشش کرنے کا خیال ہی ترک کردیا۔
اجنبی نے کوٹ کی اندرونی جیب سے ریوالور نکال کر شانتی کو نشانے پر رکھتے ہوئے بولا۔ ’’امید ہے تم مجھے یہ چلانے پر مجبور نہیں کرو گی… رندھیر! شانتی کو لائٹر دے دو۔ ہم تینوں اس کے ساتھ چل کے اس کے شوہر سے ملتے ہیں۔‘‘
منیجر نے لائٹر شانتی کے حوالے کردیا۔ جب وہ بیسمنٹ میں
داخل ہو رہے تھے تو کرن نے اجنبی سے کہا۔ ’’جگدیش… وعدہ کرو کہ تم ہوٹل میں کوئی غلط حرکت نہیں کرو گے؟‘‘
’’شاید ہمیں کوئی غلط حرکت کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔‘‘ جگدیش نے جواب دیا۔ ’’پہلے ہم انیل داس کو پیسوں سے رام کرنے کی کوشش کریں گے… اس کے بعد دیکھا جائے گا۔‘‘
’’تمہارا مطلب یہ ہے کہ کیا تم اسے بھی حصے دار بنائو گے جگدیش!‘‘ کرن نے حیرت سے کہا۔
’’پورا حصے دار نہیں۔‘‘ جگدیش نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’اسے صرف چند ہزار روپے دیں گے تاکہ یہ لوگ اپنی زبان بند رکھیں۔‘‘
راہ داری میں انہیں کسی نے نہیں دیکھا۔ منیجر رندھیر نے کمرے کا دروازہ اپنی چابی سے کھولا۔ وہ سب اندر داخل ہوگئے۔
انیل داس ٹی وی دیکھتے ہوئے مزے سے پائپ کے کش لے رہے تھے۔ انہیں کمرے میں شاید ماچس مل گئی تھی۔ انہوں نے گردن موڑ کر حیرت بھری نظروں سے اپنی بیوی شانتی کے ساتھ منیجر اور اس کی بیوی کو دیکھا۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ جگدیش نے دروازہ بند کیا اور شانتی نے آگے بڑھ کر ٹی وی آف کردیا۔
’’خوش آمدید… مسٹر رندھیر!‘‘ انیل داس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
پھر ان کی نظریں جگدیش کے چہرے پر پڑیں تو ان کی مسکراہٹ ایک دم رخصت ہوگئی۔ اپنی بیوی کی طرح وہ بھی جگدیش کو دیکھتے ہی پہچان گئے تھے۔ پھر فوراً انہیں اپنی بیوی کے غیر معمولی طرز عمل کا بھی احساس ہوا۔ انہوں نے سوالیہ نظروں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔
’’تم نے ٹھیک پہچانا جان!‘‘ شانتی نے اپنے شوہر سے کہا۔ ’’مسٹر اور مسز رندھیر وہی مجرم ہیں جن کے اسکیچ اخباروں میں چھپے تھے…‘‘
’’آپ مسٹر رندھیر…؟‘‘ انیل داس نے شدید حیرت سے منیجر کو دیکھا۔ منیجر کا چہرہ ندامت سے سرخ ہوگیا۔
’’جہاں تک آپ کی بیوی کا تعلق ہے میں سمجھ سکتا ہوں کہ وہ آخر کیوں جرم کی طرف راغب ہوئی۔‘‘ انیل داس بولے۔ ’’میں بڑی صاف گوئی سے یہ کہوں گا کہ جب پہلی مرتبہ میں نے آپ کی بیوی کو دیکھا تھا تو ان کے متعلق میرا تاثر یہی تھا کہ یہ عورت دولت کی بھوکی ہے اور دولت کے حصول کے لئے کوئی بھی کام کرسکتی ہے، لیکن آپ مسٹر رندھیر…! آخر آپ ایسے جرم کی جانب مائل کیوں ہوگئے؟‘‘
منیجر رندھیر نے سر ہلاتے ہوئے جگدیش کی طرف دیکھا اور وضاحت کے انداز میں بولا۔ ’’جگدیش… میری بیوی کا کزن ہے۔‘‘
’’اوہ…!‘‘ انیل داس نے کہا۔ ’’تو آپ کو خراب صحبت نے تباہ کیا۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے مڑکر جگدیش کی طرف دیکھا اور بولے۔ ’’آپ کو شرم آنی چاہئے۔‘‘
جگدیش نے چند لمحوں تک انیل داس کو خاموشی سے گھورتے ہوئے ان کی بیوی کو مخاطب کیا۔ ’’آپ کے شوہر تو اچھے خاصے کامیڈین ہیں۔ شریمتی… میرا خیال تھا کہ یہ خیالات پڑھنے کے ماہر ہیں۔‘‘
’’ہاں… لیکن اس میں شعبدے بازی کا زیادہ دخل ہوتا ہے، جس انداز میں ہم اپنا شو پیش کرتے ہیں اسے دیکھنے والے بہت پسند کرتے ہیں۔‘‘ شانتی نے آگے بڑھ کر اپنے شوہر کی جیب میں لائٹر ڈالتے ہوئے جواب دیا۔
’’تم ان لوگوں میں کیسے پھنس گئیں شانتی…؟‘‘ انیل داس نے اپنی بیوی سے پوچھا۔
’’بدقسمتی سے میں اس وقت ان کے پاس ملنے گئی، جب یہ لوگ آپس میں رقم تقسیم کر رہے تھے۔ اتفاق سے جگدیش کے پاس ریوالور بھی ہے۔‘‘ شانتی نے جگدیش کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے شوہر کو متنبہ کیا۔
’’خیر… اگر اس کے پاس ریوالور نہ بھی ہو تب بھی یہ تنہا ہم دونوں سے آسانی سے نمٹ سکتا ہے۔‘‘ انیل داس نے پرسکون لہجے میں کہا۔ ’’ویسے ان کے کیا ارادے ہیں…؟ کیا یہ ہمیں قتل کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’نہیں… بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہماری خاموشی دولت کے عوض خریدنا چاہتے ہیں۔‘‘
انیل داس نے بغور اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ ان دونوں کی نظریں چند لمحوں کے لئے ملیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان دونوں میں نظروں کے ملاپ کے ذریعے خیالات کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ پھر انیل داس نے جگدیش کی طرف دیکھا اور بولا۔ ’’تمہارے خیال میں ہماری خاموشی کی مناسب قیمت کیا ہوسکتی ہے مسٹر جگدیش!‘‘
’’ابھی میں نے اس مسئلے پر غور نہیں کیا۔‘‘ جگدیش نے جواب دیا۔ ’’اس کا انحصار تمہاری معاشی حالت پر ہے، تم اپنی شعبدے بازی سے کتنا کما لیتے ہو؟‘‘
’’بس گزر اوقات ہوجاتی ہے۔‘‘
’’یقیناً… اگر تمہارے پاس معقول رقم ہوتی تو تم کبھی اس ہوٹل میں قیام نہ کرتے۔‘‘ جگدیش نے کمرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’اگر بالفرض تمہیں چند ماہ تک کوئی کام نہ ملے تو تمہاری مالی حالت کیا ہوگی؟‘‘
’’اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے۔ میں اس صورت میں معذوروں کی مدد کرنے والے ادارے سے الائونس لے کر گزارہ کرتا ہوں۔‘‘ انیل داس نے خشک لہجے میں جواب دیا۔
’’اس سے یہ ثابت ہوا کہ تمہاری معاشی حالت بہت نازک ہے… میرے نزدیک ہر شخص کی ایک قیمت ہوتی ہے۔‘‘
’’تمہارا خیال درست بھی ہے اور غلط بھی…‘‘ انیل داس کہنے لگا۔ ’’اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جس بچی کو اغوا کیا گیا تھا وہ زندہ سلامت اپنے والدین کے پاس موجود ہے۔ بچی کا باپ کروڑپتی ہے، اس لئے اس نے آسانی سے دو لاکھ کی رقم ادا کردی۔ دو لاکھ روپے اس کے لئے حقیقت نہیں رکھتے۔ ہاں اگر صورت حال اس کے برعکس ہوتی اور بچی کو قتل کردیا جاتا تو میں ایک لمحے کے لئے تم لوگوں سے کسی قسم کی مفاہمت کے بارے میں غور نہ کرتا۔‘‘
’’خیر مجھے خوشی ہے کہ تم ہم سے سمجھوتا کرکے اپنے ضمیر کے ہاتھوں تکلیف نہیں اٹھائو گے۔ اس لئے میں تمہاری قیمت جاننا چاہتا ہوں۔‘‘ جگدیش نے لمبا سانس لے کرکہا۔ ’’لیکن اس سے پہلے میں ایک بات واضح کردوں۔ میرے نزدیک اس مسئلے کا آسان حل یہ ہے کہ تم دونوں کو قتل کردیا جائے۔ مگر اس میں ذرا سی قباحت ہے۔ قتل کے بعد دو لاشیں ٹھکانے لگانا آسان کام نہیں ہوگا اور اس کے بعد ممکن ہے پولیس تمہاری تلاش میں یہاں بھی آئے۔ اس سے بھی نمٹنا پڑے گا۔ لہٰذا میں سوچ رہا ہوں کہ اگر تین چار ہزار کی رقم سے تمہارا منہ بند ہوسکتا ہے تو ان مصیبتوں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
انیل داس بڑی سجیدگی سے کچھ دیر غور کرتے رہے۔ پھر بولے۔ ’’تمہارا نقطۂ نظر بہت معقول ہے جگدیش… جس خوبصورتی سے تم نے حالات کا تجزیہ کیا ہے، اس کے پیش نظر میں مجبور ہوگیا ہوں کہ میں مباحثے سے کام نہ لوں۔ میری ٹانگیں دیکھ رہے ہو؟ یہ ایک حادثے کا نتیجہ ہیں۔ آٹھ برس پہلے میں ایک سرکس میں ملازم تھا۔ تب یہ حادثہ پیش آیا تھا۔ میری ٹانگیں اب بھی درست ہوسکتی ہیں لیکن اس کے لئے آٹھ ہزار روپے درکار ہیں، دو ہزار اور شامل کرلو۔ کیونکہ میں آپریشن کے کچھ عرصے تک کوئی کام نہیں کرسکوں گا۔ یہ رقم دس ہزار ہوئی۔ میرا خیال ہے کہ ہماری خاموشی کی یہ قیمت زیادہ نہیں ہے۔‘‘
’’دس ہزار روپے؟‘‘ جگدیش نے منیجر کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’قتل جیسا جرم کرنے سے بہتر ہے کہ دس ہزار کی رقم ادا کردی جائے؟‘‘ منیجر نے اس کی نظروں کا مطلب سمجھتے ہوئے جواب دیا۔ ’’یہ میرا ذاتی خیال ہے… کرن سے بھی پوچھ لو… وہ کیا کہتی ہے؟‘‘
’’کرن کو مارو گولی۔‘‘ جگدیش نے کہا۔ ’’اگر وہ کوئی گڑبڑ کرے تو اس کے دو چار دانت توڑ دینا، بلکہ یہ حرکت تو تمہیں برسوں پہلے کردینی چاہئے تھی… ہاں شریمتی شانتی…! آپ کا کیا خیال ہے اس سودے کے بارے میں۔‘‘
’’ہمارے سارے فیصلے میرے شوہر کرتے ہیں۔‘‘ شانتی نے جواب دیا۔
’’خوب۔‘‘ جگدیش نے کہا۔ ’’رندھیر تم اور کرن نیچے جائو اور سوٹ کیس سے دس ہزار روپے نکال لائو۔ اگر کرن بکواس کرے تو ایک گھونسا میری طرف فوراً مار دیتا۔‘‘
کرن نے خونخوار نظروں سے جگدیش کی طرف دیکھا اور پیر پٹختی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔ اس کے پیچھے منیجر بھی تھا۔
کمرے میں جگدیش، شانتی اور انیل داس رہ گئے۔ تینوں خاموشی سے منیجر کی واپسی کا انتظار کرنے لگے۔ دس منٹ گزر گئے جگدیش بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگا۔
’’میرا خیال ہے کہ کرن ضرور کوئی بکواس کر رہی ہے، ورنہ رندھیر کو اتنی دیر نہیں لگ سکتی تھی۔‘‘ جگدیش نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ ’’اگر رندھیر مزید پانچ منٹ تک نہ آیا تو مجھے نیچے جانا پڑے گا۔‘‘
’’تمہاری کزن کرن بے حد لالچی عورت ہے۔‘‘ انیل داس نے کہا۔
’’ہاں… لیکن اگر اس وقت کرن کی رائے کی کوئی اہمیت ہوتی تو تم دونوں اس وقت مردہ ہوتے۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ وہ اس بچی کو بھی قتل کرنے کے حق میں تھی؟‘‘ شانتی نے کہا۔
’’بے شک۔‘‘ جگدیش نے جواب دیا۔ ’’کرن غلط مقام اور غلط وقت پر پیدا ہوئی ہے… اسے تو جرمنی میں ہٹلر کے دور حکومت میں پیدا ہونا چاہئے تھا۔ میں خود بھی کوئی اچھا آدمی نہیں ہوں لیکن قتل و غارت گری سے ہمیشہ احتراز کرتا ہوں۔ اگر مجھے یقین ہو جاتا کہ تم دونوں کی آزادی میرے لئے خطرناک ہوگی تو میں کسی تکلف کے بغیر تم دونوں کو ہلاک کر دیتا۔ اس صورت میں یہ اقدام قتل نہ کہلاتا۔ میں اپنے دفاع کے لئے سب کچھ کرسکتا ہوں۔‘‘
ظاہر تھا کہ جگدیش اس جملے سے ان دونوں پر یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ ڈرپوک قسم کا آدمی نہیں ہے اور مستقبل میں کبھی انہوں نے غداری کی کوشش کی تو وہ انہیں بے تکلف قتل کردے گا۔
’’بے شک خود حفاظتی اقدام کی نوعیت دوسری ہوتی ہے۔‘‘ انیل داس نے کہا۔
’’اس کے علاوہ تم لوگوں کو دس ہزار روپے دینے میں میرا حصہ صرف تین ہزار، تین سو اور تینتیس روپے ہوگا۔ میں یہ معمولی سی رقم بچانے کے لئے آخر قتل جیسے جرم کا ارتکاب کیوں کروں…؟ جب کہ میرے پاس چھیاسٹھ ہزار سے زیادہ رقم موجود ہے۔ کیوں نہ میں سوا تین ہزار دے کر اطمینان سے آزادی کی زندگی بسر کروں اور جو دولت میرے حصے میں آئی ہے اس سے لطف اٹھائوں۔‘‘
’’جگدیش…! تمہاری سوچ بے حد منطقی ہے۔‘‘ انیل داس نے کہا۔ ’’یہ فیصلہ سب کے لئے بہتر ہوگا۔ اس کے علاوہ ہمیں قتل کرنا تمہارے لئے بے حد نقصان دہ ثابت ہوگا۔ کیونکہ پولیس قتل کا سراغ لگا کر تم لوگوں تک پہنچ سکتی ہے۔
’’ہاں ایسا ہوسکتا ہے اور میں اس نکتے پر بھی غور کرچکا ہوں۔‘‘
اس وقت منیجر رندھیر کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں کاغذ کی ایک تھیلی تھی اور چہرے پر تازہ خراشوں کے نشانات تھے۔
’’مجھے کرن کو سبق دینا پڑا جگدیش…! وہ مان نہیں رہی تھی۔‘‘ منیجر نے فخریہ لہجے میں کہا اور کاغذ کا تھیلا
کے حوالے کردیا۔
’’شادی کی پہلی ہی رات تمہیں کرن کو ایسا سبق دے دینا چاہئے تھا، وہ اسی سلوک کی مستحق ہے۔‘‘ جگدیش نے تیزی سے کہا۔
پھر اس نے لفافہ کھول کر نوٹوں کی گڈیاں نکالتے ہوئے ان کی گنتی کی۔ اس میں چھوٹے بڑے نوٹوں کی گڈیاں تھیں لیکن بڑے نوٹوں کی گڈیاں زیادہ تھیں۔ اس نے نوٹوں کی گڈیوں کو بغور معائنہ کرنے کے بعد دوبارہ تھیلی میں ڈال دیا۔ اس تھیلی میں ایک اور تھیلی تھی، جس میں دس ہزار روپے رکھ کے وہ تھیلی اس نے انیل داس کی گود میں پھینک دی۔
’’نوٹ نئے اور اصلی ہیں۔ پھر بھی احتیاطاً آپ لوگ انہیں استعمال کرنے سے پہلے دو چار مہینے انتظار کرلیں۔ شاید بینک والوں نے ان کے نمبر اخبار میں شائع کروا دیئے ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے، جہاں آٹھ برس انتظار کیا ہے وہاں دو چار مہینے اور سہی۔‘‘ انیل داس بولے۔
کچھ دیر کمرے میں خاموشی طاری رہی۔ پھر منیجر نے جگدیش سے پوچھا۔ ’’جگدیش اب تمہارا کیا ارادہ ہے؟ کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
’’میں کل صبح ہی اس شہر سے چلا جائوں گا۔‘‘ جگدیش نے جواب دیا۔ ’’کیوں کہ اس تصویر کی اشاعت نے اس شہر میں میرا رہنا دوبھر کردیا ہے۔‘‘
چند لمحوں کے بعد وہ دونوں انیل داس سے مصافحہ کرکے رخصت ہوگئے۔ شانتی نے دروازہ بند کردیا اور اپنے شوہر کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ دونوں کی نظریں ملیں۔
’’کیا تمہارے پاس ریزگاری ہے…؟‘‘ انیل داس نے چند لمحوں کے بعد سرگوشی میں پوچھا۔
شانتی نے اپنا پرس اٹھا کر ایک سکہ نکالا جو پانچ روپے کا تھا۔
’’ابھی ٹھہر جائو۔ ممکن ہے۔ وہ دونوں باہر کھڑے ہوئے لفٹ کا انتظار کر رہے ہوں۔‘‘ انیل داس نے دھیمے لہجے میں کہا۔
’’وہ جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے وہاں ہر کمرے میں ٹیلی فون کی سہولت موجود نہیں تھی۔ البتہ ہر منزل پر دیوار کے ساتھ ایک ٹیلی فون لگا ہوا تھا۔ اس میں پانچ روپے کا سکہ ڈال کر ٹیلی فون کیا جاسکتا تھا۔ شانتی نے دس منٹ تک انتظار کیا، پھر بڑی احتیاط کے ساتھ تھوڑا سا دروازہ کھول کر راہداری میں نظر ڈالی۔ راہداری سنسان پڑی تھی۔
وہ کمرے سے باہر نکلی اور پھرتی سے راہداری عبور کرکے ہال کی جانب بڑھی۔ وہاں ٹیلی فون لگا ہوا تھا۔ ٹیلیفون کے قریب آگ بجھانے والا آلہ رکھا تھا اور آگ لگنے کی صورت میں جان بچانے کے لئے شیشے کے بکس میں ایک کلہاڑی لٹکی ہوئی تھی۔
شانتی نے سکہ سوراخ میں ڈال دیا اور زیرو ڈائل کیا۔
’’ہیلو آپریٹر…‘‘ شانتی نے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’کسی قریبی پولیس اسٹیشن سے رابطہ قائم کرا دو۔‘‘
آپریٹر نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔ دوسری جانب تین مرتبہ گھنٹی بجنے کے بعد کسی نے ریسیور اٹھایا۔ ’’ہیلو… پولیس ہیڈ کوارٹر… میں سب انسپکٹر پرکاش آنند بول رہا ہوں۔‘‘ ایک مردانہ آواز ابھری۔
’’سب انسپکٹر!‘‘ شانتی نے جلدی سے کہا۔ ’’میں کلینک اغوا کیس کے مجرموں کا نام اور پتا جانتی ہوں۔ آپ فوراً نوٹ کرلیں۔‘‘
’’آپ کون ہیں شریمتی جی؟‘‘ سب انسپکٹر نے تیز لہجے میں دریافت کیا۔
اس سے پہلے کہ شانتی کوئی جواب دیتی ایک ہاتھ نے پیچھے سے ٹیلی فون کا ہک دبا کر سلسلہ منقطع کردیا اور دوسرے ہاتھ نے شانتی سے ریسیور چھین لیا۔
دوسرے ہی لمحے شانتی اور منیجر کی بیوی کرن آپس میں بلیوں کی طرح گتھم گتھا ہوگئیں۔ وہ بری طرح ایک دوسرے کو نوچ کھسوٹ رہی تھیں اور لاتیں مار رہی تھیں۔ تھپڑوں نے ان کے چہرے سرخ کردیئے تھے۔
موقع پاتے ہی شانتی نے ایک مرتبہ خود کو کرن کی گرفت سے آزاد کر لیا اور تیزی کے ساتھ الٹے قدموں اپنے کمرے کی جانب بھاگنے لگی۔ پھر ایک جگہ وہ کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر بری طرح فرش پر گر پڑی۔ کرن نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ وہ بھاگتی ہوئی ٹیلیفون کے پاس گئی۔ اس نے شیشے کا بکس کھول کر اندر کلہاڑی نکالی اور اسے دونوں ہاتھوں سے سر سے بلند کرکے شانتی کی طرف لپکی۔
شانتی چند لمحے دہشت زدہ نظروں سے کرن کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھتی رہی۔ پھر وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔ خوف اور دہشت کی وجہ سے اس کی ٹانگوں میں بلا کی پھرتی آگئی تھی۔ وہ اتنا تیز بھاگنے کے بارے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ جب وہ اپنے کمرے کے دروازے پر پہنچی تو کرن سے چھ فٹ کے فاصلے پر تھی۔ ان چند لمحوں میں شانتی پھرتی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی، پلٹی اور دروازہ بند کرلیا۔
اس کی سانس بری طرح پھولی ہوئی تھی۔ وہ دروازے سے ٹیک لگا کر اپنا تنفس درست کرنے لگی۔ پھر اچانک اس نے دروازے میں چابی گھومنے کی آواز سنی۔ کرن ماسٹر چابی کی مدد سے دروازے کا قفل کھول رہی تھی۔ شانتی نے دہشت بھری نظروں سے دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازے میں چٹخنی نہیں تھی، البتہ اندر کی طرف ایک کنڈی جھول رہی تھی۔ شانتی نے پھرتی سے کنڈی لگا دی۔ ایک لمحے کے بعد دروازہ کھلا لیکن کنڈی لگنے کے باعث دروازہ چند انچ سے زیادہ نہ کھل سکا۔ کرن دروازے سے منہ لگائے خونخوار نظروں سے شانتی کو دیکھ کر دانت پیس رہی تھی۔ شانتی دروازے سے دور ہٹ گئی۔ اچانک کرن نے دروازہ بند کردیا۔ خودکار قفل بند ہوگیا۔
’’کیا ہو رہا ہے؟‘‘ انیل داس وہیل چیئر گھماتے ہوئے دروازے کے پاس آگئے۔
’’جب میں فون کر رہی تھی تو کرن نے مجھے جکڑ لیا۔‘‘ شانتی نے جواب دیا۔ ’’مجھے اس کی آمد کا پتا نہیں چل سکا۔ اس نے میرے ہاتھ سے ریسیور چھین کر سلسلہ منقطع کردیا اور پھر مجھے ہلاک کرنے کے لئے کلہاڑی لے کر میرے پیچھے بھاگی۔‘‘
’’کیا تم نے پولیس کو پیغام دے دیا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ شانتی نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’اس کا موقع نہیں مل سکا۔ مجھے یقین ہے کہ کرن نے میری گفتگو سن لی تھی۔ اس لئے ہمیں فوراً کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔‘‘ شانتی بڑھ کر دروازہ کھولنے لگی۔
’’ابھی نہیں…‘‘ انیل داس نے تنبیہ کی۔ ’’ممکن ہے وہ باہر انتظار کر رہی ہوگی۔‘‘
’’میں دروازہ نہیں کھول رہی۔ کنڈی تو لگی ہوئی ہے۔ میں ذرا سا دروازہ کھول کر دیکھ رہی ہوں کہ وہ کیا کر رہی ہے؟‘‘ شانتی نے ادھ کھلے دروازے سے باہر کی طرف دیکھا۔ منیجر کی بیوی ٹیلی فون استعمال کر رہی تھی۔
’’وہ ٹیلی فون کر رہی ہے۔‘‘ شانتی نے دروازہ بند کرتے ہوئے بتایا۔ ’’میرا خیال ہے کہ وہ جگدیش اور رندھیر کو نیچے سے اپنی مدد کے لئے بلا رہی ہے۔‘‘
’’افسوس…‘‘ انیل داس افسردگی سے بولے۔ ’’کاش! کرن کے پاس پانچ روپے کا سکہ نہ ہوتا اور اسے ان لوگوں کو بلانے کے لئے نیچے جانا پڑتا… ایسی صورت میں تم موقع سے فائدہ اٹھا کر پولیس کو فون کرسکتی تھیں یا کسی اور کو اپنی مدد کے لئے بلا سکتی تھیں۔‘‘
شانتی چند لمحوں تک غور کرتی رہی۔ ’’ممکن ہے کوئی مسافر ہمارے دروازے کے سامنے سے گزرے تو ہم اسے پکار کر مدد کے لئے بلا سکتے ہیں۔‘‘
’’ہمیں یہاں ٹھہرے ہوئے ایک ہفتہ ہوچکا ہے۔ اس عرصے میں تم نے یہاں کتنے مسافروں کو آتے جاتے دیکھا ہے؟‘‘
اس سوال نے شانتی کو مایوس کردیا۔ یہ حقیقت تھی کہ وہ ہوٹل چھوٹا اور قدیم ہونے کے باعث آدھے سے زیادہ خالی تھا۔ بعض بوڑھے وہاں مستقل مقیم تھے، مگر وہ رات کو بہت جلد سو جایا کرتے تھے۔
’’اب کیا کیا جائے؟‘‘ شانتی نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’میرا خیال ہے کہ ہمیں سب سے پہلے کھڑکی سے باہر دیکھنا چاہئے… ذرا اس کمرے کی کھڑکی تو کھولو۔‘‘
شانتی نے کھڑکی کھولی اور باہر جھانک کر دیکھا۔ کھڑکی ایک گلی میں کھلتی تھی۔ بالکل سنسان پڑی تھی۔ اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ وہ علاقہ اندھیرا ہوتے ہی سنسان ہو جاتا تھا۔ کیوں کہ اندھیرا ہوتے ہی وہاں لچوں لفنگوں کی حکمرانی شروع ہوجاتی تھی۔ اس کے علاوہ وہ پیر کی رات تھی، اس دن علاقے کے تمام گھٹیا شراب خانے بند ہوتے تھے۔ اس لئے وہاں اور بھی سناٹا تھا۔
شانتی نے کمرے کی کھڑکی بند کر کے خواب گاہ کی کھڑکی کھولی۔ خواب گاہ کی کھڑکی ایک بڑی شاہراہ پر کھلتی تھی۔ مگر نیچے اسے ایک بھی راہ گیر نظر نہیں آیا، البتہ موٹریں اور اسکوٹرز آتے جاتے نظر آ رہے تھے۔ باہر ہوا کافی تیز چل رہی تھی۔ اس لئے شانتی کسی گاڑی یا اسکوٹر والے کو چلا کر اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتی تو ناکام رہتی… تیز ہوا کی بنا پر اس کی آواز چوتھی منزل سے نیچے نہیں پہنچ سکتی تھی۔ اس نے سڑک کی طرف سے مایوس ہو کر نچلی منزل پر دائیں بائیں کھڑکیوں کی طرف دیکھا۔ سخت سردی کے باعث تمام کھڑکیاں بند تھیں۔ اگر وہ پوری آواز سے بھی چلاتی تو کسی کمرے میں آواز پہنچنے کی امید نہیں تھی، اس نے مایوس ہو کر کھڑکی بند کردی۔
’’کیا ہماری دونوں سمتوں میں کمرے ہیں؟‘‘ اس نے اپنے شوہر سے دریافت کیا۔
’’معلوم نہیں…‘‘ انیل داس نے جواب دیا۔ ’’اگر تم اس امکان پر غور کر رہی ہو کہ پڑوسیوں کو متوجہ کر لو گی تو یہ خیال ترک کردو۔ یہ ہوٹل پرانے زمانے کا بنا ہوا ہے۔ اس وقت بے حد ٹھوس اور موٹی دیواریں تعمیر کرنے کا رواج تھا… کیا تم نے کبھی برابر کے کمرے سے کسی قسم کی آواز آتی ہوئی محسوس کی ہے؟‘‘
’’نہیں…‘‘ شانتی نے یادداشت پر زور دینے کے بعد اقرار کیا۔
’’بس اب ایک ہی ترکیب ہے کہ کھڑکی کھول کر راہ گیر کا انتظار کیا جائے اور جب کوئی شخص گزرے تو چلا کر اپنی طرف متوجہ کیا جائے؟‘‘
شانتی کھڑکی کھول کر باہر جھانکنے لگی۔ اس نے اچانک کمرے کا داخلی دروازہ کھلنے کی آواز سنی۔ کنڈی ہلنے کی کھنکھناہٹ ہو رہی تھی۔ شانتی دوڑتی ہوئی خواب گاہ سے نکلی اور ڈرائنگ روم میں داخل ہوگئی۔ انیل داس اس کے پیچھے تھا۔ دروازہ چند انچ کھلا ہوا تھا، صرف لوہے کی کنڈی نے اسے پورا کھلنے سے روکے رکھا تھا۔ انیل داس نے ایک مضبوط ہاتھ دیکھا، جس میں نٹ بولٹ کاٹنے والا آلہ نظر آ رہا تھا۔
’’یہ لوگ کٹر سے کنڈی کاٹ رہے ہیں۔‘‘ شانتی نے تشویش سے اپنے شوہر سے کہا۔
پھر اس نے پلٹ کر اپنے شوہر کی وہیل چیئر زور سے دھکیلی۔ وہیل چیئر پھسلتی ہوئی خواب گاہ میں داخل ہوگئی۔ شانتی خود بھی دوڑ کر خواب گاہ میں آگئی۔ اس نے خواب گاہ کا دروازہ بند کردیا۔ خواب گاہ کے دروازے کا قفل بھی خودکار تھا، لیکن اس کا مقفل کرنے اور کھولنے کا نظام اندر کی طرف تھا۔ ایک چھوٹا سا بٹن اوپر نیچے کرکے تالا کھولا یا بند کیا جاسکتا تھا۔ اس دروازے کے خودکار قفل میں باہر یا اندر کی جانب چابی ڈالنے کا کوئی سوراخ نہیں
یہ ایک پرانے طرز کا مضبوط تالا تھا۔
شانتی نے خواب گاہ میں رکھی ہوئی میز کھسکا کر دروازے کے آگے لگا دی۔ اس نے دروازہ پہلے ہی اندر کی طرف سے بٹن اونچا کرکے مقفل کردیا تھا۔ پھر وہ حالات کی نئی کروٹ کا انتظار کرنے لگی۔
چند لمحوں کے بعد کنڈی ٹوٹنے کی آواز آئی۔ پھر قدموں کی آہٹیں خواب گاہ کے دروازے پر آ کے رک گئیں۔ کسی نے پوری قوت سے کندھے کا زور لگا کر دروازہ توڑنے کی کوشش کی لیکن دروازہ بہت مضبوط تھا۔ پھر شانتی دروازے سے کان لگا کر باہر ہونے والی گفتگو سننے لگی۔ کرن کہہ رہی تھی کہ دروازہ کلہاڑی سے توڑ دیا جائے۔ جگدیش نے اس تجویز کی مخالفت کی اور اس کا کہنا تھا کہ دروازے پر کلہاڑی آزمانے سے بہت زیادہ شور ہوگا۔ ممکن ہے دوسرے مسافر شور سن کر معاملے کی تحقیق کے لئے آجائیں۔
باہر چند لمحے خاموشی طاری رہی۔ پھر جگدیش نے اچانک منیجر کو یاد دلایا کہ اس کے گودام میں سوراخ کرنے کی ایک مشین اور بجلی سے چلنے والی ایک بہت باریک آری ہے۔ کیوں نہ مشین کے ذریعے پہلے دروازے میں سوراخ کیا جائے۔ پھر آری کے ذریعے تالے کے چاروں طرف کی لکڑی کاٹ دی جائے۔ تالا باہر نکلتے ہی دروازہ کھل جائے گا۔ کرن نے فوراً اس تجویز کی تائید کی۔ شانتی نے کسی کے واپس جانے کی چاپ سنی۔ منیجر مطلوبہ اوزار لینے گودام میں جا رہا تھا۔
شانتی نے اپنے شوہر کو ان کا منصوبہ بتانے کے بعد پوچھا۔ ’’اب کیا کیا جائے؟‘‘
انیل داس خاموشی سے کچھ سوچتے رہے۔ شانتی نے کھڑکی سے جھانک کر نیچے دیکھا۔ سڑک اب بھی خالی تھی۔ دور دور تک کوئی راہ گیر نظر نہیں آ رہا تھا، البتہ گاڑیوں کی آمد و رفت جاری تھی۔
’’کوئی راہ گیر نظر نہیں آیا؟‘‘ شانتی نے مایوسی سے پلٹ کر کہا۔ ’’تمہارے خیال میں ان لوگوں کو سوراخ کرتے اور تالا کاٹنے میں کتنی دیر لگے گی۔‘‘
’’رندھیر ابھی نیچے گیا ہے… اسے اوزار تلاش کرنے میں چند منٹ لگیں گے، پھر وہ اوپر آنے لگا۔ دروازے کی لکڑی بہت مضبوط اور موٹی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس پورے کام میں بیس منٹ ضرور لگیں گے؟‘‘ انیل داس نے حساب کرتے ہوئے جواب دیا۔
شانتی ایک مرتبہ پھر کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھنے لگی۔ انیل داس اپنی وہیل چیئر بالکل اس کے قریب لے آئے۔ شانتی نے پلٹ کر عجیب لہجے میں اپنے شوہر سے پوچھا۔ ’’آپ کے خیال میں اس کھڑکی اور سڑک کے درمیان کتنا فاصلہ ہوگا؟‘‘
انیل داس نے کرسی کھڑکی کے قریب کی اور باہر جھانک کر نیچے دیکھا۔
’’ہر کمرے کی چھت دس فٹ اونچی ہے۔‘‘ انیل داس حساب لگاتے ہوئے کہنے لگے۔ ’’اس طرح نچلی تین منزلوں کی اونچائی تیس فٹ ہوگئی۔ ان کے درمیان ایک ایک فٹ موٹی چھت بھی لگا لو۔ تینتیس فٹ، گرائونڈ فلور کا فرش سڑک سے کم از کم چار فٹ اونچا ہے۔ کل سینتیس فٹ ہوئے۔‘‘
’’اور یہ کھڑکی اس کمرے کے فرش سے تین فٹ اونچی ہے۔ لیلیٰ کل چالیس منٹ؟‘‘ شانتی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’آخر تمہارا کیا ارادہ ہے؟‘‘ انیل داس نے حیرت سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔
شانتی نے اپنے شوہر کا سوال نظرانداز کرتے ہوئے ایک بار پھر کھڑکی سے نیچے جھانک کر دیکھا۔
’’آپ وہ تار دیکھ رہے ہیں؟‘‘ شانتی نے نیچے کی طرف اشارہ کیا۔ ’’وہ سب سے نچلا تار جو بہت موٹا ہے۔ وہ اندازاً سڑک سے کتنا اوپر ہوگا؟‘‘
انیل داس نے کرسی کے ہتھوں پر کہنیوں کے بل جھک کر نیچے دیکھا۔ انہیں سڑک کے موڑ پر ایک کھمبا نظر آیا۔ کھمبے پر اوپر کی طرف دو باریک تار کھنچے ہوئے تھے۔ ان سے چند فٹ نیچے تین چار تار اور گزر رہے تھے اور ان تاروں سے تقریباً چھ فٹ نیچے ایک خاصا موٹا تار جا رہا تھا، جس کا قطر آدھے انچ سے کم نظر نہیں آتا تھا۔ وہ کچھ دیر موٹے تار اور سڑک کے درمیان کا فاصلہ دیکھتے رہے۔ میرا خیال ہے کہ سڑک کا درمیانی فاصلہ پندرہ فٹ سے کم نہیں ہے؟‘‘
’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ موٹے تار اور اس کھڑکی کا درمیانی فاصلہ پچیس فٹ ہے۔‘‘ شانتی نے کہا۔ ’’کیا اس تار میں کرنٹ ہوگا!‘‘
’’نہیں۔‘‘ انیل داس نے جواب دیا۔ ’’یہ بجلی کے تار نہیں ہیں۔ ٹیلی فون کے تار ہیں، مگر تمہارا ارادہ وہی ہے جو میں سمجھ رہا ہوں تو اس ارادے سے باز آ جائو۔ ایسی کوشش خودکشی کے مترادف ہوگی۔ اگر تم یہ سوچ رہی ہو کہ یہاں سے چھلانگ لگا کر وہ موٹا تار پکڑ لو گی تو ممکن ہے تم اس تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائو لیکن اتنے اوپر سے چھلانگ لگانے پر تم تار پکڑو گی تو تمہارے ہاتھوں کو زبردست جھٹکا لگے گا اور وہ جھٹکا تم برداشت نہیں کرسکو گی، تمہارے ہاتھوں سے تالا چھوٹ جائے گا اور تم سیدھی سڑک پر جا گرو گی۔‘‘
’’لیکن…! جب تم سرکس میں ملازم تھے اور اس قسم کی قلابازیاں کھایا کرتے تھے تو میں تمہیں بڑے غور سے دیکھتی تھی… تمہاری ایک ایک جنبش میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ میرا خیال ہے کہ میں بڑی کامیابی سے تمہاری نقل کرلوں گی اور پھر مجھے تیرنا بھی تو آتا ہے۔‘‘
’’مگر میں کبھی اتنے فاصلے سے قلابازی نہیں کھاتا تھا۔ یہ واقعہ آٹھ برس پہلے کا ہے۔ تم یقیناً بہت سی باتیں بھول چکی ہوگی، نہ وہ مہارت ہے نہ تمہارے بدن میں پھرتی اور نہ تمہارے اندازے اتنے درست ہیں کہ یہاں سے چھلانگ لگا کر اس تار تک پہنچ سکو۔ یہ خیال ذہن سے نکال دو۔ تم دیکھ رہی ہو ایک مرتبہ میرا اندازہ غلط نکلا اور میں آٹھ برس سے وہیل چیئر پر بیٹھا ہوں۔ اگر تمہارا اندازہ غلط ثابت ہوگیا تو تمہاری ایک ہڈی بھی سلامت نہیں رہے گی۔‘‘
’’کوشش کرنے میں کیا حرج ہے؟‘‘ شانتی نے کہا۔ ’’یہیں بیٹھے بیٹھے اپنے قتل کئے جانے کا انتظار کرنا کون سی دانش مندی ہے۔ کیوں نہ ایک کوشش کی جائے۔ اگر میں اس کوشش میں کامیاب ہوگئی تو ہم دونوں زندہ بچ جائیں گے۔ دوسری صورت میں زندہ بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔‘‘
شانتی نے لمحے بھر کی دیر نہیں کی۔ اس نے فوراً ہی الماری سے انیل داس کی جینز اور جرسی نکال کر پہنی۔ اتفاق سے یہ جوڑا سرکس کے زمانے کا تھا جو ابھی تک کسی وجہ سے رکھا ہوا تھا۔ وہ بولی۔ ’’شادی کے بعد سے عام غذا اور گھریلو کام کاج کے باعث میرا جسم ابھی تک متناسب اور چھریرا ہے، جس کے باعث یہ لباس قدرے ڈھیلا ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘
’’آج سے پہلے تم نے کبھی چھلانگ نہیں لگائی۔ البتہ سوئمنگ پول میں جا کر تیرتی رہی ہو۔ کودنے اور نہانے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ پاگل نہ بنو۔ اس طرح خودکشی کرنے سے کیا فائدہ؟‘‘
’’اس طرح قتل ہونے سے بھی کیا فائدہ؟‘‘ شانتی نے تکرار کے انداز میں کہا۔ ’’اگر میں اپنی کوشش میں کامیاب ہوگئی، جس کی پچاس فیصد سے زیادہ امید ہے تو ہم دونوں بچ جائیں گے، ورنہ دوسری صورت میں ہمارا زندہ رہنا ناممکنات میں سے ہے۔‘‘
آری چلنے کی آواز نے دونوں کو چونکا دیا۔ بجلی سے چلنے والی وہ باریک آری دروازے کو اس طرح کاٹ رہی تھی جس طرح چھری مکھن کی ٹکیہ کاٹتی ہے۔
شانتی فوراً جھک کر جذباتی لہجے میں بولی۔ ’’گڈبائی۔ میری جان! مجھے یاد رکھنا۔ میں نے ہمیشہ تم سے محبت کی ہے۔‘‘
انیل داس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ وہ اپنی بیوی کو کھڑکی کے دوسری طرف چھجے پر اترتا ہوا دیکھنے لگے۔ چند لمحوں کے بعد کسی نے ان کے عقب میں زور سے دھکا دے کر دروازہ کھول دیا۔ دروازے پر لگی ہوئی میز کھسک گئی۔ انیل داس نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ پرسکون انداز میں اپنی بیوی کو دیکھتے رہے جو چھجے پر کھڑی ہوئی تھی۔
خواب گاہ میں داخل ہونے والا پہلا شخص جگدیش تھا۔ وہ دوڑ کر اندر داخل ہوا تھا لیکن درمیان میں اچانک اس کے قدم رک گئے اور وہ منہ پھاڑ کے کھڑکی کی طرف دیکھنے لگا۔ دوسرے ہی لمحے منیجر اپنی بیوی کے ساتھ اندر داخل ہوا۔ وہ دونوں بھی دندناتے ہوئے اندر گھس آئے تھے لیکن جیسے ہی ان کی نظر کھڑکی پر پڑی ان کے قدم بھی رک گئے۔
شانتی کھڑکی کے باہر سفید چست لباس میں ملبوس کھڑی تھی۔ اس کا رخ سڑک کی طرف تھا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے کھڑکی کی اوپری چوکھٹ پکڑے ہوئے تھی، نیچے چھلانگ لگانے سے قبل شانتی نے پلٹ کر تینوں مجرموں کی طرف دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے فضا میں چھلانگ لگا دی۔
تینوں مجرموں نے بہ مشکل اپنی حیرت پر قابو پایا اور بجلی کی طرح کھڑکی کی طرف لپکے۔ شانتی کا بدن فضا میں کسی بگلے کی طرح ساکت نظر آیا۔ اس کی مرمریں کمر کمان کی طرح مڑی ہوئی تھی اور اس کے دونوں ہاتھ آگے کی طرف پھیلے ہوئے تھے، جیسے سوئمنگ پول میں چھلانگ لگا رہی ہو۔
موت سے پندرہ منٹ کے فاصلے پر شانتی کے ہاتھوں نے سب سے نچلا اور موٹا تار پکڑ لیا۔ نہایت تیزی سے نیچے کی طرف گرنے کی وجہ سے اس عمل میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ اس کا بدن ایک جھٹکا کھا کر آسمان کی طرف بلند ہونے لگا اور اس کی ٹانگیں نوے ڈگری کے زاویے سے بالکل سیدھی آسمان کی طرف اٹھ گئیں۔ چند لمحوں تک اس کا بدن اسی طرح فضا میں ساکت رہا۔ پھر اس نے بڑی پھرتی سے ٹانگیں نیچے کیں اور اس موٹے تار پر بیٹھ گئی۔ اس نے چوتھی منزل کی کھڑکی کی طرف منہ اٹھا کر ہاتھ ہلایا۔
’’یہ … یہ عورت…؟‘‘ جگدیش نے خوف زدہ آواز میں کہا۔
پھر وہ کوٹ کی اندرونی جیب سے ریوالور نکال کر شانتی کا نشانہ لینے لگا۔ انیل داس جگدیش کے بالکل پیچھے تھے۔ انہوں نے وہیل چیئر کی پشت سے ٹک کر پوری قوت سے پہیے آگے کی طرف گھمائے۔ وہیل چیئر آگے بڑھ کر جگدیش کی پشت سے ٹکرائی۔ جگدیش کے منہ سے بے ساختہ ایک چیخ نکل گئی۔
اس کے ہاتھ سے ریوالور چھوٹ کر کھڑکی سے باہر گرگیا۔ اگر وہ فوراً چوکھٹ نہ پکڑ لیتا تو سر کے بل کھڑکی سے باہر گرتا۔ منیجر اور کرن نے فوراً جگدیش کو سہارا دے کر پیچھے ہٹایا۔ جگدیش نے گھوم کر پوری قوت سے انیل داس کی طرف گھونسا گھمایا۔
انیل داس اس حملے کے لئے تیار تھے۔ پہیے انہوں نے بڑی تیزی سے پیچھے لگا دیئے تھے۔ ان کی کرسی پھسلتی ہوئی خواب گاہ کے باہر ڈرائنگ روم میں آگئی۔
’’دیکھو… دیکھو وہ کیا کر رہی ہے؟‘‘ منیجر رندھیر نے چلا کر کہا۔
جگدیش نے انیل داس کے تعاقب میں جانے کا ارادہ ملتوی کردیا اور کھڑکی کے قریب آ کر نیچے دیکھنے لگا۔
شانتی موٹا تار دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوئے تھی۔ اس کا بدن فضا میں جھول رہا تھا۔ وہ ہاتھوں کی مدد سے آہستہ آہستہ کھمبے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ کئی گاڑیاں چلتے چلتے سڑک پر کھڑی ہوگئیں اور لوگ گاڑیوں سے
باہر نکل کر آسمان کی طرف سر اٹھائے حیرت بھری نظروں سے وہ منظر دیکھ رہے تھے اور گاڑیاں بھی رک رہی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے شانتی کے نیچے اچھا خاصا ہجوم ہوگیا۔ شانتی آہستہ آہستہ کھمبے کے پاس پہنچ گئی۔ اس نے تار چھوڑ کر کھمبا پکڑ لیا اور کھمبے سے پھسلتی ہوئی سڑک پر کھڑی ہوگئی۔
ٹھیک اسی وقت مخالف سمت سے پولیس کی ایک جیپ پوری رفتار کے ساتھ چلتی ہوئی آئی اور شانتی کے بالکل قریب آ کر رک گئی۔ اندر سے دو پولیس والے چھلانگ لگا کے باہر نکلے۔ پولیس کو دیکھتے ہی شانتی ان کی طرف بڑھی۔ جلدی جلدی انہیں کچھ بتانے لگی۔
یہ منظر دیکھ کر وہاں سے بھاگنے والا پہلا شخص جگدیش تھا۔ اس کے پیچھے کرن تھی اور سب سے آخر میں ہوٹل کا منیجر رندھیر… انیل داس نے انہیں بھاگتے ہوئے دیکھ کر مجرموں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ انہیں بھاگتے ہوئے دیکھ کر پہلے ہی اپنی کرسی راستے سے ہٹا لی تھی۔ وہ تینوں کمان سے نکلے ہوئے تیروں کی طرح سنسناتے ہوئے ان کے قریب سے گزر گئے۔
ان لوگوں کا پکڑے جانا یقینی ہے۔ انیل داس نے سوچا۔ ممکن ہے یہ ہوٹل سے فرار ہو جائیں لیکن چوں کہ اب ان کی شناخت ہوچکی ہے اس لئے شہر سے فرار نہیں ہوسکیں گے۔ پھر ان کے ذہن میں ایک خیال اور بھی آیا۔ ظاہر ہے ان کی گرفتاری کے بعد پولیس کو دو لاکھ کی رقم دستیاب ہوجائے گی یا اس رقم میں سے بیشتر حصہ مل جائے گا۔ یہ رقم اغوا کی جانے والی بچی کے باپ کو واپس کردی جائے۔ اس طرح انیل داس کی رقم بھی اسے واپس ملنی چاہئے۔
(ختم شد)