Friday, October 11, 2024

Gul Ki Azadi

میں اپنے من پسند محکمہ میں ملازمت پا کر بہت خوش تھی۔ مجھے بچپن سے ہی پولیس آفیسر بننے کا شوق تھا۔ ایف اے کے بعد ماموں نے بتایا کہ محکمہ میں خواتین سب انسپکٹر کی آسامیاں نکلی ہوئی ہیں، تم چاہو تو اپلائی کر دو۔ بڑے صاحب سے میں تمہارے لئے سفارش کی کوشش کر دوں گا۔ پولیس آفیسر بننا تو میرا خواب تھا، مجھے خود پراعتماد بھی تھا۔ میں ایک محنتی لڑکی تھی اور درد مند دل رکھتی تھی۔ خواتین کی زندگی کے بارے میں دردناک واقعات پڑھتی تو دکھی ہو جاتی۔ سوچتی تھی کہ آخر کب ہمارے وطن کی خواتین کو انصاف ملے گا، ان کو ظلم سے نجات ملے گی؟ عہد کیا کہ اگر مجھے پولیس کے محکمے میں نوکری مل گئی تو ضرور اپنے ہم وطنوں کے لئے حق اور انصاف کی آواز بنوں گی۔ میری لگن سچی تھی تبھی مراد مل گئی۔ انٹرویو میں ، میں سب انسپکٹر کے طور پر سلیکٹ کرلی گئی۔ تربیتی کورس کے بعد مجھے اپنے شہر کے ایک ایسے پولیس اسٹیشن میں تعیناتی ملی جہاں خواتین ہی آفیسرماتحت تھیں۔ بتاتی چلوں ان دنوں خواتین کے پولیس میں بھرتی ہونے کا سلسلہ نیا نیا چلا تھا۔ ایک روز اپنے گھر کے لان میں بیٹھی چائے پی رہی تھی کہ پڑوس کی کوٹھی سے ان کا مالی دین بابا مجھ سے ملنے- اس کو اچھی طرح جانتی تھی کبھی یہ ہمارا مالی بھی ہوا کرتا تھا تب میں پانچویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ رقیہ بی بی ! آپ سے ضروری کام ہے۔ ہاں ہاں کہو۔ میں رسان سے بولی۔ وہ رو کر بولا۔ بی بی آپ محکمہ پولیس میں انسپکٹر لگ گئی ہو ۔ سوچا آپ سے مدد کے لئے درخواست کروں۔ اپنی سی کوشش تو کر کے دیکھ لی کسی صورت شنوائی نہیں ہوئی رقیہ بی بی۔ یہاں بھلا ہمارے جیسے غریب کی کون سنتا ہے۔ ہاں بابا کہو تو کام کیا ہے ؟ میں تمہارا مسئلہ حل کرنے کی پوری کوشش کروں گی۔ میر امسئلہ بڑا گمبھیر ہے۔ میری لڑکی صاحباں چار سال پہلے گھر سے غائب ہو گئی تھی۔ بہت تلاش پر بھی اس کا پتا نہ چلا تھا۔ اب کسی ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ جس بدمعاش نے اس کو اغوا کیا تھا ، اس نے اسے لاہور کی ہیرا منڈی میں فروخت کر دیا ہے۔ میں وہاں پوچھتے پاچھتے پہنچا، اپنے طور کھوجنے کی کوشش کی مگر مجھ کو لڑکی کی کوئی جھلک دیکھنے کو نہ ملی اور نہ کسی نے بتایا۔ ضرور انہوں نے اس کا نام تبدیل کر دیا ہو گا۔ بیٹی تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں خدا کے لئے میری مدد کرو اور میری بچی کو وہاں سے نکلوا د و۔ دین بابا زار و قطار رونے لگا۔ مجھ کو بہت افسوس ہوا۔ گرچہ یہ بات میرے بس کی نہ تھی مگر اس کی ضعیفی پر ترس آرہا تھا۔ میں نے وعدہ کر لیا کہ ہر ممکن کوشش کروں گی۔ میری نئی نئی ملازمت تھی، ابھی اتنی جرات نہ تھی کہ اس بازار میں قدم رکھوں، جہاں گندگی حسن کے لبادے میں بکتی تھی۔ مجھ کو اس جگہ کی کچھ معلومات بھی نہ تھیں، بس یہی سن رکھا تھا کہ یہ وہ بازار ہے جہاں حسن بکتا ہے اور جوان لڑکیوں کے دام لگتے ہیں۔ میں اس جگہ جانا نہ چاہتی تھی مگر ایک دن سوچنے کے بعد میں نے اپنے اسٹیشن کی خاتون ڈی ایس پی سے مدد کی درخواست کی۔ وہ کہنے لگیں۔ میں جانتی ہوں رپورٹ ہونے کے باوجود ہمارا محکمہ کچھ نہ کرے گا کیونکہ فریادی ایک غریب بوڑھا ہے۔ ایسوں کی التجاؤں پر کب کان دھرے جاتے ہیں۔ ہم مگر اب اس بد نام زمانہ محکمے کا ایک حصہ ہیں جس پر رشوت خوری کا لیبل لگا ہوا ہے۔ لہذا ہمیں اپنے طور پر اس کیس کے لئے تگ و دو کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے میڈم سے کہا۔ بے شک ہم کو خواتین کی مدد کے لئے ہی ملازمتیں دی گئی ہیں پھر بھی کیا یہ بہتر نہیں کہ اپنے ساتھ کسی مرد آفیسر کو شامل تفتیش کر لیں۔ ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔ ایس پی صاحب بہت مخلص اور دیانت دار پولیس آفیسر ہیں۔ میں ان سے مشورہ کرتی ہوں۔ ہماری میڈم نے صاحب کا نمبر ملایا اور ان کو اس معاملہ سے آگاہ کیا۔ وہ بولے۔ پہلے مجھے وہاں جا کر معاملے کی جانچ کر لینے دیں اور کیس بنا کر فائل بھجوا دیں۔ لڑکی کی فوٹوز وغیرہ ہوں تو وہ بھی اس کے والد سے لے کر فائل کر دیں، تا کہ صاحباں کی کھوج میں آسانی ہو۔ میں نے دین بابا کو بلا کر فائل کا پوچھا۔ اس نے بتایا جب صاحباں اغوا ہوئی تھی، تب میں نے پولیس میں رپورٹ لکھوائی تھی وہ فائل میرے پاس ہے۔ تمام نقول موجود ہیں فوٹو بھی ہے۔ دین بابا جو زبانی جانتا تھا، بتا دیا۔ میں نے اس کا بیان لکھ لیا اور متعلقہ معاملے سے وابستہ کاغذات معہ نقول لے لیں اور فائل میڈم کو دے دی انہوں نے فائل ایس پی کو بھجوادی۔ فائل کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمارے آفیسر صاحب نے بوڑھے دین بابا کو اپنے آفس طلب کر لیا اور زبانی ان کے ساتھ بات چیت میں مزید جو معلومات وہ لینا چاہتے تھے لے لیں۔ وہ دن بھی آگیا جب ایس پی صاحب کے ساتھ میں اور دین بابا ان کی بیٹی کی کھوج میں اس بازار گئے۔ میری آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ واقعی کتنے ہیرے اور نگینے آنکھوں کو خیرہ کر رہے تھے اور میرا دل ان کی بدنصیبی پر خون کے آنسو رو رہا تھا کاش ! یہ کسی شریف گھرانے کی دلہنیں بن کر سہاگنیں کہلاتیں، کجا کہ اب ان کی زندگی تباہی اور بربادی سے ہمکنار ہو رہی تھی۔ نجانے کتنی، اپنے بچپن میں اپنے گھروں کے سامنے کھیلتے ہوئے اغوا کر لی گئی ہوں گی۔ آج یہ شریف گھرانوں کی بہو بیٹیاں بھی انسانی درندوں کا دل بہلانے پر مجبور تھیں۔ ان کا ایک دلال بھی ہمارے ہمراہ تھا۔ ہم نے کافی پیسہ خرچ کیا تھا۔ اس شخص نے بہت مدد کی تاہم ہم دین بابا کی لڑکی کا سراغ نہ لگا سکے۔ بس اتنا معلوم ہو سکا کہ اس کو یہاں سے سندھ کے ریڈ لائٹ ایریا میں پہنچایا جا چکا ہے۔ دین بابا کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ رورو کر اس بے چارے کا برا حال تھا لیکن رونے سے تو ایسے مسئلے حل نہیں ہوتے۔ میں بھی کیا کرتی، مجبور تھی۔ ہمارے جتنی بساط تھی کوشش کر دیکھی مگر بابا کی بیٹی نہ ملی۔ اپنے مشن کے آخری دن میں چند لڑکیاں ایک گھر میں دیکھیں۔ تقریباً اٹھارہ انیس ہوں گی۔ ان میں سے ایک لڑکی بہت خوبصورت اور خاموش طبع تھی۔ اس کے چہرے پر حزن و ملال اور افسردگی کا پہرہ تھا۔ اس کی غیر معمولی اداسی نے مجھ کو ہی نہیں ہمارے آفیسر صاحب کو بھی اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ اگلے دن ایس پی صاحب نے کچھ وقت کے لئے اس اداس لڑکی کو حاصل کیا اور تنہائی میں اس سے افسردگی کا سبب پوچھا۔ ان کی ہمدردی پا کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ بتایا کہ اس کے شوہر نے اسے یہاں تین ہزار کے عوض فروخت کر دیا تھا۔ لڑکی نے اپنا نام گل جان بتایا۔ وہ ہاتھ جوڑنے لگی کہ صاحب خدا کے لئے مجھ کو اس دوزخ سے نکالیے۔ تمام عمر آپ کی اور آپ کے گھر والوں کی غلامی کروں گی۔ اس کی آہ وزاری ہمارے صاحب کے دل پر اثر کر گئی، انہوں نے سوچا شاید اللہ تعالیٰ کو ان سے نیکی کا کام لینا مقصود ہے دین بابا کی لڑکی نہ سہی، یہ لڑکی بھی تو کسی کی بیٹی ہے۔ کوئی باپ کوئی ماں اس کے لئے بھی تڑپ رہے ہوں گے۔ انہوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ اس مظلوم لڑکی کو یہاں سے نکال کرلے جائیں گے کیونکہ وہ اس ماحول سے نفرت کرتی ہے۔ اب ان کا گاہے بگاہے اس لڑکی کی خاطر ادھر آنا جانا ہونے لگا۔ انہوں نے اپنے سے اوپر افسران سے بھی بات کر لی۔ انہوں نے بھی تعاون کا یقین دلایا۔ خیر کچھ کوشش کے بعد لڑکی کو وہاں سے راز داری سے نکال لیا گیا- اب اس کو کہاں رکھنا تھا؟ یہ ایک سوال تھا۔ گل جان سے اس کے والد کا پتا پوچھ کر ان سے رابطہ کیا گیا۔ خود ایس پی صاحب ان کے پاس گئے، انہیں بتایا کہ آپ کی لڑکی فلاں جگہ سے بہ حفاظت نکال لی گئی ہے ، اب دار الامان میں ہے اور گھر آنا چاہتی ہے۔ یہ سن کر وہ برہم ہو گئے۔ کہا کہ اس کا ہم سے کوئی واسطہ نہیں اور نہ ہم اس کو اپنا سکتے ہیں۔ سگے باپ کا بیٹی کے بارے میں ایسا رویہ دیکھ کر ایس پی صاحب ششدر رہ گئے۔ جب لڑکی کو معلوم ہوا کہ باپ اس کو اپنانے پر راضی نہیں تو اس کا دل ٹوٹ گیا۔ اس نے کہا کہ بے شک آپ مجھے کسی کنویں میں پھینک دیں۔ میں بھی ایسے باپ کے گھر اب لوٹ کر جانا نہیں چاہتی جو اپنی بیٹی کو اپنانا نہیں چاہتا۔ وہ ایس پی صاحب کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر روئی تو ان کا دل پسیج گیا۔ لڑکی سے پوچھا۔ کیا تم کسی شریف آدمی سے شادی کر لو گی اگر ہم تمہارے لئے اس امر کا بندوبست کر لیں۔ مجھے کسی پر اعتبار نہیں۔ ہاں اگر آپ مجھ سے شادی کر لیں تو میں وعدہ کرتی ہوں کہ عمر بھر آپ کو کبھی شکایت کا موقعہ نہ دوں گی۔ وہ سوچ میں پڑ گئے۔ کہا کہ میں شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ ہوں۔ میری زندگی میں تو تمہاری گنجائش نہیں ہے۔ تو پھر مجھے اپنے ہاتھ سے گولی مار دیں یا پھر اسی گندگی بھرے دوزخ میں پھینک آئیں جہاں سے نجات کی میں نے دعائیں کی تھیں۔ اب ہمارے صاحب کا امتحان تھا۔ خدا کی طرف سے گل جان ان کے لئے ایک آزمائش تھی۔ وہ عین دوراہے پر کھڑی ان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اس لڑکی نے ان کا سہارا لیا اور شاید ان کو دل میں بسا بھی لیا لیکن اس مرگ سے نکلنے کے بعد بھی سکون نہ ملا۔ ایس پی صاحب ایک بار پھر سے لڑکی کے والد کے پاس گئے اور ان کو سوچنے پر مجبور کیا۔ بالآ خر اس شخص نے کہا کہ اس کی بیٹی کو اس کے حوالے کر دیا جائے۔ ایس پی صاحب نے سمجھا بجھا کر بیٹی کو باپ کو باپ کے حوالے کیا اور کہا کہ آپ اپنے کسی عزیز سے اس کا رشتہ کرا دیں تاکہ یہ اپنے گھر میں آباد ہو جائے۔ گل جان کے باپ نے اپنے بھتیجے کو اس امر کے لئے راضی کر لیا اور ایس پی صاحب کو فون کیا کہ آپ آجائے تا کہ اس نیک امر میں آپ بھی شریک ہو کر گواہ بن جائیں۔ ان کو نکاح میں شریک دیکھ کر لڑکی کا دولہا آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے اپنے چاچا سے کہا کہ یہ شخص کیونکر تمہاری بیٹی کا رکھوالا بن گیا ہے ؟ اب نکاح میں بھی آپہنچا ہے مجھے اس کا یہاں آنا اور تقریب میں شامل ہو نا گوارہ نہیں۔ آخر اس کو تمہاری لڑکی کا اتنا خیال کیوں ہے۔ مجھے دال میں کچھ کالا نظر آتا ہے۔ بہتر ہے کہ آپ اس شخص سے ہی گل کی شادی کروا دیجئے۔ ایس پی صاحب نے اس کو سمجھانے کی کوشش کہ کہ میرا گل سے کوئی تعلق نہیں، میں تو محض انسانی ہمدردی کے تحت اس کی مدد کرتا رہا ہوں۔ اس وقت گل کی حالت دید کے قابل تھی۔ وہ جیتی تھی نہ مرتی تھی۔ بہر حال عین وقت پر وہ سپوت جو دلہا بننے جارہا تھا اس نے شادی سے انکار کر دیا۔ تب ایس پی صاحب کی غیرت نے جوش کھایا اور انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ شریف لوگ ہیں۔ آپ کی عزت کو مزید بٹہ نہ لگنے دوں گا۔ انہوں نے گل سے نکاح کر کے اس کو اپنی عزت بنالیا۔ عرصہ تک کسی کو علم نہ ہو سکا کہ انہوں نے دوسری شادی کی ہے اور وہ بھی ایسی لڑکی سے جس کو انہوں نے خود بازار حسن سے برآمد کرایا تھا۔ جب تک بات چھپی رہی خیریت رہی۔ بالآخر ایک روزان کی بیگم کو ان کی دوسری شادی کا علم ہو گیا۔ گرچہ یہ ایک حادثاتی شادی تھی مگر بیوی نے بہت واویلا کیا، روٹھ کر میکے چلی گئی۔ لیکن بچوں کا ساتھ تھا، بالآخر رفتہ رفتہ حالات معمول پر آگئے۔ اب دونوں بیگمات ایک ہی گھر میں رہتی ہیں۔ حکم بڑی بیگم کا چلتا ہے۔ وہ گل کو بازاری سمجھتی ہیں مگر گل تو باندی بن کر بھی خوش ہے۔

Latest Posts

Related POSTS