ہم اس وقت ٹی وی کے آگے بیٹھے رمضان کے چاند کے منتظر تھے۔اوه… ہمارا مطلب ہے کہ رمضان کے چاند کے متعلق خبر کی بڑی بے چینی سے منتظر تھے۔ اس بے چینی کی وجہ ہم آگے چل کر آپ کو بتائیں گے۔ ہمیں یقین تھا کہ جلد ہی مفتی صاحب چاند کے نظر آنے یا نہ آنے کے متعلق ہمیں مطلع فرمادیں گے۔ اسی امید میں ہم ٹی وی کے آگے بیٹھے اپنے موبائل کے ساتھ لگے تھے۔ کبھی ہم فیس بک پر شغل فرماتے تو کبھی واٹس ایپ کھول لیتے۔ ادھر سے بوریت ہوتی تو کوئی گیم ہی نکال کے کھیلنے لگ جاتے۔ دراصل ہمیں فارغ بیٹھنے کی عادت بالکل نہیں ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہر وقت ہی کوئی نہ کوئی شغل جاری رہے۔ اپنی اس عادت کے باوجود جن الفاظ میں ہماری سب سے زیادہ تعریف ہوتی ہے، وہ الفاظ یہی ہیں: نہ کام کے، نہ کاج کے، دشمن اناج کے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ اتنے مصروف شخص کے لیے یہ جملہ مناسب ہے کیا؟ خیر چھوڑیں، ہم جانتے ہیں کہ آپ نے بھی ہماری طرف داری نہیں کرنی۔ ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ آپ شاید ہماری ہم کی تکرار سے ہمیں کوئی پورا گروہ سمجھ رہے ہیں، لیکن اگر آپ ایسا سوچ رہے ہیں تو بخدا اپنے خیالات درست کرلیں۔ ہماری ہم کہنے سے مراد ہم خود ہی ہیں، مطلب بنفس نفیس خود، یعنی قبلہ نواب فیاض علی عرف فیضی صاحب، عرف چھوٹے نواب۔ برا ہو انگریز سرکار کا، جس نے ہم سے جائیدادیں چھین کر اپنے پیاروں کو نواز دیں۔ نتیجے میں ہمارے خاندان نے نوابی لائن چھوڑ کر فقیری لائن اختیار کرلی، لیکن عادت سے مجبور ہم خود کو ہم کہنا نہیں چھوڑ سکے۔ فقیری لائن میں رہتے ہوئے بھی ہم نے اس پیشے کو جدید خطوط پر استوار کیا، یوں ہماری آمدنی میں اضافہ ہو گیا تھا، مگر برا ہو مہنگائی کا کہ اس میں اضافہ ہماری آمدنی سے زیادہ تیزی سے ہوا تھا۔ دوسری طرف، ہمارے پیشے میں بھی اسکوپ کم ہوتا جا رہا تھا۔ ہماری دیکھا دیکھی، دیگر بھی بہت سے لوگوں نے ہمارا پیشہ اختیار کرنا شروع کر دیا تھا۔ اب ہفتوں تلاش بسیار کے باوجود ہمیں کوئی مناسب کلائنٹ نہیں ملتا۔ گو کہ ہمارے کلائنٹ جس طرح کے ہوتے تھے، ان کے لیے کلائنٹ سے زیادہ شکار کا لفظ موزوں ہے، مگر ہم ٹھہرے مہذب شخص۔ خیر! ہم آپ کو اپنے پیشے میں درپیش مسائل کے بارے میں آگاہ کر رہے تھے۔ ان مسائل کی وجہ سے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو چکے تھے کہ ہمیں جلد از جلد اس پیشے سے جان چھڑا کر کسی کاروبار کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ والدہ ماجدہ، اور ہم خود۔ ہمارے والد بزرگوار نے اپنی نوابی طبیعت کے باعث کبھی کسی کام کو اپنے قابل سمجھا ہی نہیں۔ ہر ماہ وہ چند دن کے لیے گھر سے غائب رہتے اور جب واپس آتے تو سامان سے لدے پھندے ہوتے۔ وہ اسے کاروباری دورہ قرار دیتے تھے، مگر جاننے والوں کی طرح ہم بھی جانتے ہیں کہ وہ اپنے اعزا و اقربا کو نوابی دور کے واسطے دے کر ادھار کے نام پر امداد لے کر آتے رہے ہیں۔ اپنے والد گرامی کی طرف سے ہمیں جو عادت ورثے میں ملی، وہ بس یہی نوابی طبیعت ہے۔ اس طبیعت کے باعث ہم بھی زندگی بھر کوئی ڈھنگ کا کام نہ کر سکے۔ جب ہم نے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کوئی کام کرنے کا سوچا، تو اپنے والد صاحب کے نقش قدم ہی ہمارے رہنما ٹھہرے، مگر ذرا مختلف انداز میں۔ ہمارے ابا حضور نے تو ہمیں ان عزیزوں کے متعلق کبھی ہوا تک نہ لگنے دی تھی جن سے وہ امداد لیتے رہے تھے۔ اس لیے ہمیں اپنی مارکیٹ خود بنانی پڑ رہی تھی۔ ہمارے کام پر لگتے ہی ہمارے والد صاحب کے کاروباری دورے ماند پڑ گئے۔ اب وہ اپنے ذاتی اخراجات کے لیے ہمارے آگے ہی ہاتھ پھیلانے لگے تھے۔
ہمیں کام میں لگے چودہ پندرہ برس گزر چکے تھے، مگر اب حالات ایسے ہوگئے تھے کہ ہم یہ کام چھوڑ کر کوئی ڈھنگ کا کام کرنے کے لیے خود کو مجبور سمجھنے لگے تھے۔ گزشتہ پانچ برسوں سے ہم اپنے گھرانے کے افراد کی تعداد میں اضافہ کرنے کی کوشش میں مصروف تھے، مگر ہمارا پیشہ اس نیک کام میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ مجبوراً ہم نے اپنا پیشہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے پیچھے ہمارے دور کے رشتہ دار، آنسہ روشن آرا کے روشن چہرے کا بھی اہم کردار تھا۔ روشن آرا بھی ہماری طرح ایک نواب خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، مگر بدقسمتی سے حالات کے ہیر پھیر انہیں بھی ایسے حال میں لے آئے تھے کہ وہ اب سلائی کڑھائی کر کے گزارہ کر رہی تھیں۔ ہم ایک دن اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ ان کے گھر تشریف لے گئے تھے۔ ہماری والدہ ان سے اپنا ایک سوٹ سلوانے کے لیے ہی یہاں آئی تھیں۔ ہم خاتون خانہ سے ملنے کے بعد بیزار سے انداز میں ایک طرف بیٹھ گئے۔ بوریت سے بچنے کے لیے ہم نے حسب عادت اپنا موبائل فون نکال لیا۔ ہم نے فیس بک کھولی ہی تھی کہ ہمارے کانوں میں ایک مدھر سی آواز پڑی۔ ایسا لگا جیسے کسی مندر میں گھنٹیاں بج رہی ہوں۔ ہم نے دھیرے سے نظریں اٹھائیں تو ہماری آنکھیں جیسے چندھیا گئیں۔ ہمارے سامنے ایک مغلیہ شہزادی بڑی ادا سے ہمیں آداب کہہ رہی تھی۔ ہماری اس وقت جو حالت تھی، اس کے پیش نظر ہم بمشکل سر کو خم ہی دے سکے۔ وہ ہمارا شاہی انداز دیکھ کر مسکراتے ہوئے ہمارے سامنے ہی بیٹھ گئیں۔ ہماری والدہ نے روشن آرا سے ہمارا تعارف کرایا۔ ان کے والد گرامی دنیا سے پردہ فرما چکے تھے۔ اب وہ اپنی والدہ کے ساتھ تنہا ہی زندگی کا سفر کاٹ رہی تھیں۔ یوں تو روشن آرا کی پہلی جھلک نے ہی ہمارے دل میں گھر کر لیا تھا، مگر جب انہوں نے چائے کے ساتھ ہمارے آگے مغلئی تکے رکھے اور ہم نے ان کا ذائقہ چکھا تو اسی وقت ہم نے روشن آرا کے وجود سے اپنے گھر کو روشن کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ہم کباب کھاتے ہوئے ان کے سپید ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوئے، کباب انتہائی مزیدار ہیں، ماشاء اللہ! آپ کے ہاتھوں میں بڑا ذائقہ ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ وہ ہماری تعریف سن کر شرما جائیں گی، مگر وہ سادگی سے بولیں، ذائقہ ہمارے ہاتھوں میں نہیں، بلکہ ہماری حلال کمائی میں ہے۔ ہم گڑبڑ گئے۔ ہمیں ایسا لگا جیسے انہوں نے ہم پر طنز کیا ہے۔ مغلئی کھانوں کا کورس تو ہماری والدہ ماجدہ نے بھی کیا ہوا تھا، مگر ایسا ذائقہ ہمیں کبھی ان کے ہاتھوں میں محسوس نہیں ہوا تھا۔ کیا واقعی ذائقہ دراصل حلال کمائی میں ہوتا ہے؟ آج زندگی میں پہلی بار ہم اس نہج پر سوچ رہے تھے اور جوں جوں سوچتے جا رہے تھے، متفق ہوتے جا رہے تھے۔ یہ تھیں وہ چند وجوہات جن کی وجہ سے ہم اپنا برسوں پرانا پیشہ ترک کرنے کا ارادہ کر کے کوئی کاروبار کرنے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئے تھے، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کاروبار کے لیے سرمائے کی ضرورت تھی، اور سرمائے کو ہمیشہ سے ہم سے ایسے بیر رہا تھا جیسے کتے کو بلی سے۔ کم بخت کبھی ہمارے قریب آتا ہی نہ تھا، اور آ جاتا تو ٹکتا نہ تھا۔ ہماری ایک عادت ہے: جب ہم کسی کام کی ٹھان لیتے ہیں تو اسے کر کے ہی چھوڑتے ہیں۔ اس بار بھی ہم نے اپنا ٹارگٹ سرمایہ اکٹھا کرنے کا رکھا تو کامیابی نے ہمارے قدم چوم ہی لیے۔ اب ہمارے پاس تھوڑا بہت سرمایہ آ گیا تھا۔
ہم آج کل اس سوچ بچار میں مصروف تھے کہ اس سرمائے سے کون سا کاروبار شروع کیا جائے۔ ہم نے اپنے دوست نعمان سے مشورہ کرنے کی ٹھان لی۔ نعمان کے بارے میں بتا دیں کہ موصوف کا ہم سے بچپن سے یارانہ تھا۔ کچھ عرصہ ہم نے اکٹھے کام بھی کیا، مگر پھر اسے کسی سرکاری ادارے میں معمولی سی ملازمت مل گئی، تو وہ پرانے کام سے تائب ہو گیا تھا۔ ہم نے اس بابت نعمان، عرف نومی، سے مشورہ کیا تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ یار، تم نے تو میرا مسئلہ ہی حل کر دیا! وہ جوش سے بولا۔ ہم نے اسے مشکوک نظروں سے گھورا اور الفاظ کو چبا چبا کے بولے، ہمارے خیال میں ہم نے اپنا مسئلہ تمہارے سامنے رکھا تھا۔ وہ بڑا ہی تیز تھا۔ ہمارا شکوہ سن کر شاطرانہ انداز میں بولا، یار، ہم نے کوئی مسئلے بانٹ رکھے ہیں؟ تمہارا مسئلہ میرا مسئلہ ہی ہے۔ ہم نے اسے بے یقینی سے دیکھا اور بولے، ہمیں تفصیل بتاؤ کہ ہمارا مسئلہ تمہارے مسئلہ کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ کیا ہے کہ ہر رمضان میں میں سبزی اور فروٹ کا اسٹال لگاتا ہوں اور اتنا کما لیتا ہوں کہ جتنا پورے سال تنخواہ سے نہیں کما پاتا۔ تو تم کیا چاہتے ہو… ہم بھی تمہاری طرح آلو ٹینڈے بیچنا شروع کر دیں؟ تم جانتے نہیں کہ ہم نواب خاندان کے آخری چشم و چراغ ہیں۔ ہم خفگی سے بولے۔ وہ ہماری خفگی کو یکسر نظر انداز کر کے بولا، تم میرا یقین کرو، اس کام میں بڑا پیسہ ہے۔ میں دو بجے اپنے دفتر سے چھٹی کر کے اسٹال کھولتا تھا، اور مغرب تک تیس ہزار سے زائد کی سیل تو یقینی ہوتی تھی۔ تیس ہزار سے زیادہ کی سیل؟ ہمارا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا، آنکھیں پھٹ پڑیں، ہم ہونق بنے اس کی طرف دیکھنے لگے۔ وہ ہمارے چہرے میں ہونے والی تبدیلیاں دیکھ کر بے اختیار ہنسنے لگا۔ نہیں، یقین تو آزما لو! وہ چیلنج کرنے والے انداز میں بولا۔ ہمارے پاس اتنا تجربہ کہاں؟ ہم تو گھر کے لیے آدھا کلو ٹماٹر خریدیں تو آدھے سے زیادہ خراب ہی نکلتے ہیں! ہم گہرے دکھ سے بولے۔ تم کیوں فکر کرتے ہو؟ تجربہ میرے پاس ہے ناں! وہ مسکرایا۔ لیکن جو بھی ہے، ہم آلو ٹینڈے نہیں بیچیں گے۔ تم ہمیں کوئی ڈھنگ کا کاروبار بتاؤ۔ اب ایک تو ہم نواب، دوسرا ماہ رمضان، روزے کی حالت میں خود کو آلو ٹینڈے بیچتے دیکھنے کا تصور ہی اتنا ہولناک تھا کہ جھرجھری لے کر رہ گئے۔ یار، تم سے کس نے کہا ہے کہ خود کچھ بیچو! تم میرے ساتھ شراکت کر لو۔ پیسہ تمہارا، محنت میری، منافع آدھا آدھا۔ ہم سوچ میں پڑ گئے، لیکن جانے کیوں ہمارا دل آمادہ نہیں ہو رہا تھا۔ ہم اس کی پیشکش رد کرنا چاہتے تھے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد ہمیں ایک بہانہ سوجھ ہی گیا۔ یار، وہ تو ٹھیک ہے، مگر… یہ کام حرام نہیں؟ وہ اپنی جگہ سے اچھل پڑا۔ یہ کام حرام ہے تو کیا لوگوں کو لوٹنا حلال ہے؟ وہ طنزیہ انداز میں بولا۔ وہ تو جان بوجھ کر لٹتے ہیں، تم لوگ تو انہیں دھوکے سے لوٹتے ہو! ہم نے طنز کا جواب طنز سے دیا۔ مثلاً کیسے؟ تفصیل بتانا پسند کریں گے آپ؟ وہ سرخ چہرے کے ساتھ بولا۔ دیکھو ناں رمضان میں تم لوگ ریٹ بھی اتنا زیادہ بڑھا لیتے ہو، دوسری طرف ناقص پھل اور سبزیاں بھی اسی ریت کے ساتھ فروخت کر دیتے ہو۔ کیا اس طرح کی کمائی حلال ہے ؟ اس کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا اور ایک جا رہا تھا۔ وہ خود پر قابو پاتے ہوئے بولا، ایسا نہیں ہے، ہمیں منڈی میں جن نرخوں پر مال ملتا ہے اور جیسا ملتا ہے، ہم ویسا ہی آگے بیچتے ہیں۔ نہ ہم زیادہ منافع لیتے ہیں اور نہ جان بوجھ کر گھٹیا مال فروخت کرتے ہیں۔ ہم نیم رضامند نظر آنے لگے۔ وہ ہمارے تاثرات دیکھ کر بولا، بتاؤ، مجھ سے پارٹنرشپ کرو گے یا نہیں؟ ویسے تو میں اکیلا یہ کام کرسکتا ہوں، مگر تم جانتے ہو کہ اس سال اپنی شادی میں میں ساری رقم خرچ کر بیٹھا ہوں۔ اب مجھے سرمائے کی ضرورت ہے اور تمہیں تجربے کی۔ میرے خیال میں ہم دونوں کی پارٹنرشپ اچھی چل سکتی ہے۔ اور رہی بات حرام حلال کی تو اس کی فکر تم مت کرو، تم تو ویسے بھی سلیپنگ پارٹنر ہوگے۔ سلیپنگ پارٹنر؟ ہم نے زیر لب دہرایا۔ اس نام میں ہمیں بڑی کشش محسوس ہوئی۔ سلیپنگ یعنی سونے والا پارٹنر، مطلب ہم رمضان میں کھل کر اپنی نیند پوری کر سکتے تھے اور اس کے بدلے ہمیں پیسے بھی ملنے تھے۔ یہ خیال اتنا پُرکشش تھا کہ ہم ہامی بھرنے پر مجبور ہو گئے۔
اب بس فکر کی ایک ہی بات تھی کہ نومی ہمارے نزدیک قابل اعتبار نہیں تھا، مگر اعتبار انسان کی مجبوری ہے۔ ہم بھی انسان تھے، سو اس پر اعتبار کر لیا تھا۔ اب اس اعتبار نے کیا رنگ لانا تھا، یہ وقت ہی بتا سکتا تھا۔ ہم نے ادھر ہی بیٹھے بیٹھے کاروبار کی شرائط طے کر لیں۔ خیر، طے کیا کیں، وہ شرائط بتاتا گیا اور ہم مانتے گئے۔ اس کے مطابق، ہمیں اسٹال کے لیے منتخب کردہ جگہ کے پیسے کمیٹی والوں کو دینے تھے۔ وہ ہمیں ساتھ لے کر کمیٹی کے دفتر گیا اور ایک شخص کو ایک ہفتے کا پانچ ہزار کرایہ ہم سے لے کر اسے پکڑا دیا۔ باہر نکلتے ہوئے ہم نے پوچھا، یار، اس نے کرایے کی رسید نہیں دی؟ اس نے حیرت سے ہمیں دیکھا اور یکدم ہنسنے لگا۔ میرے بھولے بادشاہ! یہ کرایہ نہیں، رشوت تھی جو اس نے ہماری طرف سے آنکھیں بند کرنے کے لیے لی ہے۔ یہ بادشاہ کے ساتھ ‘بھولا’ لگانا ضروری تھا کیا؟ ہم خفگی سے بولے تو اس نے ایک اور قہقہہ بلند کیا۔ خیر، قصہ مختصر، اب ہم چاند نظر آنے کی دعا کر رہے تھے تاکہ صبح سحری کے بعد منڈی سے سبزی اور فروٹ خرید کر کاروبار کا آغاز کر سکیں۔ ویسے تو ہم نومی کے سلیپنگ پارٹنر ہی تھے، مگر اس کی ضد تھی کہ کم از کم پہلی بار ہم اس کے ساتھ سامان لینے ضرور چلیں، تاکہ ہمیں بہتر اندازہ ہو سکے کہ اس کاروبار میں اصل دھوکا شروع کہاں سے ہوتا ہے۔ ہمیں بھی اس پر اعتبار نہ تھا، اس لیے اس کے ساتھ چلنے کو تیار ہو گئے تھے۔ کچھ ہی دیر میں مفتی صاحب نے چاند نظر آنے کی خبر سنائی تو ہم خوشی سے چلائے، چاند نظر آ گیا! ہمارا نعرہ نما جملہ سن کر ہمارے والد گرامی بھاگتے ہوئے اندر تشریف لائے۔ تو تم کیوں اتنا خوش ہو رہے ہو؟ انہوں نے حیرت سے پوچھا۔ ابا جی! خوشی کی خبر تو ہے ناں۔ رمضان جیسے برکتوں اور رحمتوں سے بھرپور مہینے کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ یہ سب مسلمانوں کے لیے خوشی کا مقام نہیں؟چلو پھر اٹھو ، نماز تراویح کی تیاری کرو۔ وہ طنزیہ انداز میں بولے۔ ان کے جملے بلکہ یوں کہیں کہ حملے سے ہمیں یقین ہو گیا کہ وہ واقعی ہمارے باپ ہی ہیں۔ آپ چلیں، ہم بھی وضو کر کے آتے ہیں۔ ہم مرے مرے لہجے میں بولے۔ پہلے تو ان سے توقع ہی نہ تھی کہ وہ خود بھی تراویح کے لئے جاتے مگر ہمارے جوش کے زیر اثر وہ بھی تراویح کے لئے جا رہے تھے۔ فجر کی نماز کے بعد ہم سبزی منڈی کی طرف چل پڑے۔ ہم بہت خوش تھے کہ زندگی میں پہلی بار ہم بھی کوئی جائز کام کرنے لگے ہیں۔ یہ شاید پہلا رمضان تھا جس میں نہ صرف ہم نے رات کو نمازِ تراویح بھی پڑھ لی تھی بلکہ صبح کی نماز بھی باجماعت ادا کی تھی۔ یہی نہیں، بلکہ رمضان کی برکت سے ہم زندگی میں پہلی بار کسی جائز ذریعے سے رزق حاصل کرنے نکلے تھے۔ ہم نے اپنی جمع پونجی اپنی قمیص کی جیب میں ڈال رکھی تھی اور اس جیب کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ منڈی میں بے پناہ رش تھا اور ایسا رش جیب کتروں کے لیے بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔ ہمارے گرو جی نے ہمیں یہ فن سکھانے کے لیے بڑی محنت کی تھی، مگر ہم ہی نالائق ثابت ہوئے، تب گرو جی نے ہمیں دوسرے شعبے میں بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیلڈ ہمارے من کو بھا گئی۔ اس فیلڈ کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ اس میں ہمیں کلائنٹ سے فیس ٹو فیس ملاقات نہیں کرنی پڑتی تھی بلکہ کلائنٹ کی غیر موجودگی میں ہی اس کے مال پر صفایا کرنا پڑتا تھا۔ اس کام میں ہم جلد ہی طاق ہو گئے، مگر مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے چھوٹے سے شہر میں غربت اتنی زیادہ تھی کہ گاہک کی تلاش بھی اکثر مسئلہ ہی بنا رہتا۔ گاہک مل جاتا تو مناسب موقع نہ ملتا۔ ان مسائل کو دیکھتے ہوئے ہم نے ترقی کی اگلی سیڑھی پر قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے گرو جی نے ہمارا فیصلہ سن کر ہماری کمر تھپکی اور بولے:شاباش بیٹا، ہم جانتے تھے کہ تم بہت آگے جاؤ گے۔ ان کی تعریف سن کر ہم شرما گئے۔ خیر، تھوڑے عرصے کی تربیت کے بعد گرو جی نے ایک کھلونا پستول ہمارے ہاتھ میں پکڑایا اور ہمیں ڈیمو پیش کرنے کا کہا۔ ہم پستول لے کر ایک راہ گیر کے سر پر پہنچ گئے اور اس کے پہلو میں کھلونا پستول کی نال رکھ دی۔ تم ہمارے نشانے پر ہو، جو کچھ جیب میں ہے، ہمارے حوالے کر دو ورنہ… ہم نے پوری کوشش کی تھی کہ ہماری آواز میں سفاکی ظاہر ہو۔ اس نے عقب میں مڑ کر دیکھا اور حیرت سے بولا، بھائی جان! مجھے تو آپ اکیلے نظر آ رہے ہو؟ ہم سٹپٹا گئے۔ کسی کلائنٹ کا اس طرح کا ردعمل تو ہمارے لیے بالکل متوقع نہیں تھا۔ خیر، ہم نے خود کو سنبھالا اور گن لہراتے ہوئے بولے، تمہاری جیب میں جو کچھ ہے، نکال کر ہمارے ہاتھ میں رکھو۔ وہ پرسوچ انداز میں ہماری طرف دیکھتے ہوئے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالنے لگا تو ہمارا دل بلیوں اچھل پڑا۔ اس نے جیب میں سے ہاتھ نکالا تو ہمیں اس کے ہاتھ میں پرس کی سی جھلک نظر آئی۔ ہماری آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔ اس نے ہمارے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور بولا، یہ لو! میری جیب میں تو بس یہی ہے۔ ہم نے ہاتھ کھول کر دیکھا اور حیرت سے بولے، یہ کیا ہے؟ وہ کمبخت ہمیں اپنے ہاتھ کی طرف متوجہ دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ ہم نے گن لہرائی اور اسے رکنے کی دھمکیاں دیں، مگر یا تو اسے اپنی جان عزیز نہیں تھی یا ہماری بات کا اعتبار نہیں تھا، جو وہ رکا ہی نہیں۔ ہم لوٹ کا مال لے کر گرو جی کے پاس پہنچے، جو دور کھڑے ہماری کارکردگی کا عملی نمونہ براہ راست ملاحظہ فرما رہے تھے۔ انہوں نے پُر اشتیاق انداز میں پوچھنے پر ہم نے اپنا ہاتھ ان کے سامنے پھیلا دیا۔ ہماری ہتھیلی پر رکھی چیز دیکھ کر وہ آنکھیں پھاڑ کر بولے، نسوار! بہرحال، کام کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے ہم کبھی کوئی بہت بڑا ہاتھ نہ مار سکے، مگر جیسے تیسے گزارہ چل رہا تھا۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ہمارا ضمیر ہمیں تنگ کرنے لگا تھا۔ اس کی روز روز کی چخ چخ سن کر ہم نے اپنی فیلڈ تبدیل کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ رات کو مفتی صاحب نے چاند دیکھا تھا اور اس وقت ہمیں تارے نظر آ رہے تھے۔ حقیقی تارے نہیں بلکہ محاوراتی تارے، جو سبزی اور فروٹ کے ریٹس سن کر ہمیں نظر آئے تھے۔ مگر نومی مطمئن تھا؛ وہ گھوم پھر کر کوالٹی اور ریٹس چیک کر رہا تھا۔ اس کا ماہرانہ انداز دیکھ کر ہمارے دل کو ڈھارس ہوئی۔ خدا خدا کر کے اس نے فروٹ کا پہلا سودا طے کیا۔ سودا فائنل کرنے کے بعد اس نے ہماری طرف دیکھا۔ ہم نے اس کا مطمح نظر سمجھتے ہوئے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو ہماری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ تمام تر احتیاط کے باوجود کوئی جیب کترا ہمارے ساتھ ہاتھ کر گیا تھا۔ نومی حیرانی سے ہمارے تاثرات دیکھ رہا تھا، کیا ہوا…؟ اس کے لہجے میں اندیشے لرز رہے تھے۔ ہم اسے خالی خالی آنکھوں سے دیکھنے لگے۔ کیا ہوا… تم بولتے کیوں نہیں؟ وہ ہمیں جھنجھوڑتے ہوئے چلایا۔ اس کے جھنجھوڑنے سے ہمارا سکتہ ٹوٹ گیا۔ ہم اس کے گلے لگ کر بچوں کی طرح روتے ہوئے کہنے لگے، ہم لٹ گئے، برباد ہو گئے۔ کوئی کمینہ ہماری جیب کاٹ گیا ہے۔ وہ ہمیں روتے دیکھ کر تسلیاں دینے لگا، کوئی بات نہیں، حرام کی کمائی تھی، حرام راہ چلی گئی۔ اس کا جملہ ہم پر ہتھوڑے کی طرح گرا، ہم چونک کر اس سے علیحدہ ہو گئے۔ اب ہم آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھ رہے تھے۔ ہم تو حلال کی طرف لوٹ رہے تھے۔ پھر کیوں ایسا ہوا ہمارے ساتھ؟ ہماری آواز غصے سے لرز رہی تھی۔ وہ ہمارے غصے سے ڈر گیا، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ جو ہونا تھا، ہو گیا، اب ہم کیا کر سکتے ہیں؟ چلیں واپس چلتے ہیں۔ وہ تھکے ہوئے انداز میں بولا تو ہم بھی اس کے ساتھ چل پڑے۔ ہمیں ایسا لگ رہا تھا کہ ہم گھر کی طرف نہیں بلکہ حلال سے حرام کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
یکم رمضان کا پورا دن ہمارا سوچ بچار میں ہی مشغول گزرا تھا۔ جب تک ہم ناجائز ذرائع سے رزق حاصل کرتے رہے، تب تک ہمیں کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوا تھا، نہ ہی ہم کبھی پکڑے گئے تھے۔ مگر حلال کی طرف لوٹتے ہی ہماری ساری جمع پونجی لٹ گئی تھی، یہ دکھ ہم سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ ہم تہی داماں رہ گئے تھے۔ اب نہ ہم کوئی حلال کاروبار کر سکتے تھے اور نہ ہی کم از کم ایک ماہ تک اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کر سکتے تھے، کیونکہ ہم جیسے بھی سہی، کم از کم رمضان جیسے مقدس مہینے میں اپنے دھندے کو بند ہی رکھتے تھے۔ اچانک ہمیں خیال آیا کہ ہم بھی تو ساری زندگی لوگوں کو لوٹ کر ہی اپنا نظام چلاتے رہے تھے۔ جن لوگوں کو ہم لوٹتے تھے، انہوں نے بھی جانے کتنی تگ و دو سے رقم کمائی ہوتی تھی۔ آج ہمیں اس تگ و دو کا خیال آ رہا تھا جس سے ہم نے وہ ساری رقم حاصل کی تھی، اور اب ہمیں کتنی تکلیف ہو رہی تھی۔ ظہر کا وقت ہوا تو ہم نہ چاہتے ہوئے بھی نماز پڑھنے چلے گئے۔ نماز کے بعد ہم نے رو رو کر اللہ سے فریاد کی۔ کوئی آدھے گھنٹے کی آہ و زاری کے بعد ہمارے دل کو جیسے قرار سا آ گیا۔ ہم نے سنا تھا کہ ایسی کیفیت قبولیت کے وقت طاری ہوتی ہے۔ ہمیں بھی یقین ہو گیا کہ خدا نے ہماری دعا سن لی ہے اور جلد ہی ہمیں ہماری رقم واپس ملنے والی ہے۔ ہم گھر لوٹ آئے۔ چارپائی پر لیٹ کر ہم نے آنکھیں موند لیں۔ دفعتاً دروازے پر دستک ہوئی تو ہم چونک کر اٹھے۔ دروازہ کھولا تو نومی کھڑا مسکرا رہا تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی بولا، جیب کترا پکڑا گیا ہے، اس کے پاس سے تمہاری رقم بھی برآمد ہو گئی ہے۔ ہم اسے بے یقینی سے دیکھنے لگے۔ اپنی جاگتی آنکھوں میں سجے سپنے کو جھٹک کر ہم نے پھر آنکھیں موند لیں۔ اس بار دروازہ کھلا تو باہر ایک پولیس والا کھڑا تھا۔ وہ ہمیں دیکھتے ہی بولا، فیاض علی آپ ہی ہیں ناں؟ اس کے ہاتھ میں ہمارا شناختی کارڈ تھا، جس پر بنی تصویر سے وہ ہمارا موازنہ کر رہا تھا۔ اس کے چہرے پر معذرت خواہانہ تاثر ابھرا، آج ہم نے ایک جیب کترا پکڑا ہے۔ اس کے پاس سے دیگر چیزوں کے علاوہ ایک چھوٹا سا شاپر پکڑا گیا ہے۔ اس شاپر میں سے یہ شناختی کارڈ اور یہ رقم ملی ہے۔ وہ رقم کا شاپر ہماری طرف بڑھاتے ہوئے بولا، تو ہم بے یقینی سے اسے دیکھنے لگے۔ اسی طرح کے سپنے دیکھتے ہوئے عصر کا وقت ہو گیا، مگر یہ سپنے، سپنے ہی رہے، حقیقت کا روپ نہ دھار سکے۔ نماز کے بعد ہم نے پھر رو رو کر اللہ سے اپنی رقم واپس مانگی اور گھر پہنچے ہی تھے کہ والدہ محترمہ بولیں، بیٹا، صبح سے پڑا چارپائی توڑ رہا ہے، جا افطاری کے لیے کچھ سامان لے آ۔ ان کا طنز تیر کی طرح ہمارے دل پر ترازو ہو گیا۔ ہم خود کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے آئے۔ بازار میں گھومتے ہوئے کمزوری کے باعث ہمارا دماغ چکرانے لگا۔ ہمیں کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی جس کے ذریعے ہم اپنے گھر افطاری کا سامان لے جا سکتے تھے۔ اچانک ہماری نظر ایک بھکاری پر پڑی۔ وہ بظاہر صحت مند آدمی تھا مگر چہرے پر کمزوری کے تاثرات سجائے لوگوں سے مانگ رہا تھا۔ اس نے ایک شخص کی طرف ہاتھ پھیلایا تو وہ بولا، بڑے کتنے ہو، مانگنے سے تو بہتر ہے کہیں ڈاکہ مار لو، کچھ تو ہاتھ پاؤں ہلاؤ۔ اس کے جملے نے ہمارے دماغ کی کھڑکی کھول دی۔ ہم سمجھ چکے تھے کہ کوشش کے بغیر ہماری رقم واپس نہیں مل سکتی تھی۔ ہمیں کچھ ہاتھ پیر ہلانے ہی تھے۔ اب ہم بس مناسب موقعے کی تلاش میں تھے۔ مغرب کا وقت ہوتے ہی بازار تیزی سے ویران ہونے لگا۔ ہمارے حرکت میں آنے کا وقت قریب آتا جا رہا تھا۔ ہماری نظر ایک سبزی فروٹ کی دکان پر جمی تھی جس پر اکا دکا گاہک موجود تھے۔ آخری گاہک کے ہٹتے ہی ہم نے اپنا چہرہ رومال سے چھپایا اور تیزی سے دکاندار کی طرف بڑھے۔ یہ دکاندار ہمارا واقف کار تھا۔ نعیم نام تھا اس کا، بڑا نیک اور خدا ترس نوجوان تھا، مگر اس وقت مجبوری تھی۔ اس سے بہتر شکار ہمیں کوئی اور نہیں مل سکا تھا۔ نعیم غلے میں رکھی رقم گننے میں مصروف تھا۔ ہم نے پستول اس کی گردن کے ساتھ لگایا اور غرائے، شرافت سے یہ رقم ہمارے حوالے کر دو ورنہ…
بھائی، کچھ خدا کا خوف کرو، رمضان میں تو خدا شیطان کو بھی بند کر دیتا ہے۔ تم یہ کام نہیں بند کر سکتے؟ وہ برہمی سے بولا۔ ہم تو رمضان میں یہ دھندہ بند ہی کر دیتے تھے، مگر سب لوگ بند نہیں کرتے۔ ایسے ہی ایک عاقبت نا اندیش نے صبح سویرے ہماری جیب خالی کر دی۔ اب مجبوری میں دھندہ واپس شروع کیا ہے۔ اس کی بات ہمیں سخت ناگوار گزری تھی، اس لیے مکمل تفصیل اس کے گوش گزار کر دی۔ ہمارا خیال تھا کہ اب وہ رقم ہمارے حوالے کر ہی دے گا، مگر اس کا ردِ عمل ہمیں حیران کر گیا۔ وہ تیزی سے ہماری طرف گھومتے ہوئے بولا، ارے فیضی بھائی، آپ مذاق بہت اچھا کرتے ہو۔ ہم اس کا جملہ سن کر گڑبڑا گئے۔ کم بخت ہمیں پہچان گیا تھا، لیکن اچھا یہ تھا کہ وہ ہمارے عمل کو مذاق سمجھ رہا تھا۔ ہم نے بھی اپنے عمل پر مذاق کا پردہ ڈالنا ہی مناسب سمجھا اور زبردستی کی ہنسی چہرے پر سجا کر بولے، بڑے بہادر ہو یار، میرا تو خیال تھا کہ پستول کی نال گردن پر محسوس کرتے ہی تم رقم میرے حوالے کر دو گے۔ میری حق حلال کی کمائی تھی، روزے کی حالت میں پورا دن محنت کر کے کمائی تھی۔ کیسے میں اتنی آسانی سے یہ کسی کے حوالے کر دیتا؟” وہ سکون سے بولا۔ ہم اسے بغور دیکھنے لگے۔ اچھا، روزہ کھلنے والا ہے، آپ بھی میرے ساتھ ہی افطار کریں۔ وہ یہ کہتے ہی ایک پلیٹ میں تیزی سے فروٹ کاٹنے لگا۔ ہم اس کے پاس بیٹھ کر اسے دیکھنے لگے۔ روزے کی حالت میں اتنی محنت کے باوجود اس کے باریش چہرے پر عجیب سا سکون چھایا ہوا تھا۔ ہم بھی حق حلال کمانا چاہتے تھے، مگر خدا کو شاید یہ منظور نہ تھا۔ کچھ دیر کے توقف کے بعد ہم منہ لٹکا کر بولے، ہاں، سنا تھا کہ صبح سبزی منڈی میں آپ کی جیب کٹ گئی؟ وہ اداسی سے بولا، لیکن میرے خیال میں ایک طرح سے آپ کے ساتھ اچھا ہی ہوا۔ اگلے ہی لمحے وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا تو ہم اچھل ہی پڑے۔ ارے بھائی، ہماری عمر بھر کی کمائی لٹ گئی اور تم کہہ رہے ہو، اچھا ہوا؟ ہم بھڑک کر بولے۔ دیکھیں ناں فیضی بھائی، آپ حق حلال کمانا چاہ رہے تھے، مگر حرام کی کمائی سے حلال تو نہیں کمایا جا سکتا ناں۔ میرے خیال میں خدا نے آپ کے حق حلال کمانے کے فیصلے کو پسند کیا، تبھی آپ کی حرام کی کمائی کھو گئی۔ وہ ایک لفافے میں سے پکوڑے نکال کر پلیٹ میں رکھتے ہوئے بولا۔ ہم اچنبھے سے اسے دیکھنے لگے۔ عجیب فلسفہ جھاڑ رہا تھا وہ۔ خدا نے اگر ہمارا فیصلہ پسند کیا تھا تو بجائے ہماری مدد کے ہماری رقم ہی چھین لی تھی۔ ہم نے اپنے خیالات کا اظہار اس سے کیا تو وہ بولا، فیضی بھائی، حرام کی کمائی سے جو کاروبار آپ شروع کرتے وہ بھی حرام ہی ہوتا۔ آپ کیا یہ پسند کر سکتے ہیں کہ سارا دن روزے اور گرمی کی حالت میں شدید محنت کے بعد
بھی انسان کو جو رزق ملے، اس سے حلال کی خوشبو نہ آئے؟ بات اس نے پتے کی کی تھی، مگر اب ہم حلال کمائی کہاں سے لاتے جس سے کاروبار شروع کرتے؟ ہم نے اس سے استفسار کیا تو وہ مسکرا کر بولا، محنت سے۔۔۔ ہم نے اسے خفگی سے دیکھا، یار، تم جانتے تو ہو کہ ہم میں نوابی خون دور دورہ ہے۔ اب یہ چھوٹے موٹے محنت کے کام کر کے ہم اپنے آباؤ اجداد کی روح کو تکلیف تو نہیں پہنچا سکتے۔ وہ سکون سے ہمیں دیکھتا رہا۔ چند لمحوں بعد وہ رسان سے بولا، فیضی بھائی، ہمارے نبی جو بادشاہوں کے بادشاہ تھے، وہ اگر محنت کو عار نہیں سمجھتے تھے تو ہم کس باغ کی مولی ہیں؟ نیک بخت نے محاورہ تو غلط بولا تھا، مگر نکتہ بڑا سخت مارا تھا۔ یار، ہم محنت کرنا چاہتے ہیں مگر آپ جانتے ہیں کہ ہماری شہرت اچھی نہیں۔ اس شہر میں کوئی بھی شخص ہم پر اعتبار نہیں کرتا۔ ایسے میں ہمارے پاس اپنے کام کے علاوہ دوسری کوئی راہ ہے بھی تو نہیں؟” ہم دکھی دل کے ساتھ بولے۔ افطاری میں چند لمحے ہی باقی ہیں، آپ دل سے دعا کریں۔ افطاری کے وقت کی گئی دعا کو خدا کبھی رد نہیں کرتا۔ ان شاء اللہ آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔” اس نے یہ کہتے ہی ہاتھ دعا کے لئے اٹھا لیے۔ وہ بلند آواز میں دعا کرنے لگا اور ہم آمین کی صدا بلند کرنے لگے۔ اس نے ہماری پریشانیوں کے حل کی دعا کی تو آمین کہتے ہوئے ہماری آواز بھرّا گئی۔ اذان کی آواز بلند ہوئی تو اس نے ہاتھ چہرے پر پھیر لیے۔ اس کے چہرے پر چھایا سکون دیکھ کر ہمیں اس پر رشک آیا۔ ہم نے کھجور سے روزہ افطار کیا۔ اس کے چہرے پر چھایا سکون دیکھ کر ہمیں احساس ہو رہا تھا کہ یہ سکون بس حلال کمانے والے شخص کے چہرے پر ہی ہو سکتا ہے۔ ہم بھی اپنے چہرے پر یہ سکون دیکھنے کے متمنی تھے۔ ہم نے دل میں پختہ عہد کیا کہ کچھ بھی ہو، اب ہم نے حلال ذرائع سے ہی کمانا ہے۔ چاہے راستے میں جتنی بھی مشکلات آئیں، ہم نے اپنے اس وعدے سے نہیں پلٹنا تھا۔ اگلی صبح، ہم پھر منڈی میں سبزی اور پھلوں کے بھاؤ پوچھ رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں سامان کی خریداری کے بعد ہم لوٹ رہے تھے۔ دکان پر پہنچ کر ہم نے سامان لگانا شروع کیا۔ اچھا خاصا مشقت والا کام تھا۔ سامان لگانے کے بعد ہم گھر آ کر سونے کے لئے لیٹ گئے۔ ہمارے جسم کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔ پیاس سے ہمارے گلے میں کانٹے سے پڑ رہے تھے۔ آج کا روزہ بہت مشکل ہوگا۔ یہی سوچتے ہوئے ہماری آنکھ لگ گئی۔ ظہر کی اذانیں سن کر ہی ہماری آنکھ کھلی۔ ہم فوراً اٹھ گئے۔ وضو کے دوران ہمیں احساس ہوا کہ سونے سے قبل ہم خاصی تھکن اور کمزوری محسوس کر رہے تھے، مگر اس وقت خلاف توقع خود کو اتنا تروتازہ محسوس کر رہے تھے کہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ ہم روزے سے ہیں۔ نماز کے بعد ہم اپنی دکان پر آ گئے۔ مغرب تک گاہکوں کو سودا دیتے، وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔ آج جب ہم افطاری کے لئے بیٹھے تو ہمارے چہرے پر ویسا ہی سکون چھایا ہوا تھا جیسے سکون کی دعا ہم نے کل خدا سے مانگی تھی۔ اس سکون کو پانے کے بعد ہمیں احساس ہوا کہ دنیا کی سب سے بڑی دولت تو یہی سکون ہے۔ یہ سکون ہمیں حق حلال کی کمائی سے ملا تھا، جبکہ ہم ایک عرصے تک اس کی تلاش میں دوسری چیزوں کے پیچھے بھاگتے رہے تھے۔ رمضان برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے۔ یہ جملہ ہم اکثر سنتے رہتے تھے، مگر اس کی معنویت کا ادراک ہمیں پہلی بار ہوا ہے۔ اس بار ہمارا رمضان کا مہینہ چارپائی پر پڑے رہنے کے بجائے سخت محنت و مشقت میں گزرا، لیکن اس کے باوجود یہ ہماری زندگی کا بہترین رمضان تھا، نہ صرف روحانی و جسمانی لحاظ سے بلکہ معاشی لحاظ سے بھی۔ نعیم بھی ہمارے کام سے بہت خوش تھا۔ اس کے بقول، اس نے ہمیں ڈرتے ڈرتے اپنے کاروبار میں شامل کیا تھا، لیکن ہم نے اپنی محنت و مشقت سے اس کے تمام خدشات کو غلط ثابت کیا۔ ہمارے حالات دیکھتے ہوئے، نعیم نے ہمیں اپنی ہی دکان پر بطور سیلز مین ملازمت دے دی تھی۔ ہم نے اس کی پیشکش قبول تو کر لی تھی، لیکن ہمیں یقین نہیں تھا کہ ہم روزے کی حالت میں اتنا سخت کام کر سکیں گے۔ لیکن اب ہم اس کے شکر گزار تھے کہ اس کی بدولت ہمیں سیدھے راستے پر چلنے کا موقع ملا تھا۔ خلاف توقع، محنت و مشقت سے نہ ہمارا روزہ خراب ہوا اور نہ ہی یہ کام ہماری نوابی طبیعت پر گراں گزرا۔
ایک دن ہم گاہکوں کو آلو اور ٹینڈے تول کر دے رہے تھے کہ اچانک دکان میں جیسے روشنی سی پھیل گئی۔ ہم نے نظریں اٹھائیں تو دل کی دنیا اتھل پتھل ہو گئی۔ دکان پر روشن آرا کھڑی مسکراتے ہوئے ہمیں دیکھ رہی تھیں۔ آداب! انہوں نے ایک ادا سے اپنا ہاتھ پیشانی تک لے جا کر ہمیں سلام کیا۔ ہم، گزشتہ بار کی طرح، اس بار بھی بمشکل سر کو خم دے پائے۔ بہت اچھا لگا آپ کو یہاں دیکھ کر۔ وہ مسکراتے ہوئے بولیں۔ ہم سمجھ نہیں پائے کہ وہ ہمیں دیکھ کر خوش ہوئیں یا ہمیں کام کرتے دیکھ کر۔بس جی، محنت مشقت سے پیٹ بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم عاجزی سے بولے۔ بہت اچھا کر رہے ہیں، وہ حسب معمول اپنی روشن مسکراہٹ کے ساتھ بولیں۔ ان کی بات سن کر ہمیں سکون ملا، گویا انہیں ہمارے آلو اور ٹینڈے بیچنے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ آپ اس کے بعد ہمارے غریب خانے پر تشریف نہیں لائے…؟ وہ مصنوعی خفگی کا ہلکا سا پردہ چہرے پر ڈال کر بولیں تو ہمارا دل ڈھول کی طرح دھڑکنے لگا۔ ہم چاند رات پر اپنے والدین سمیت آپ کے گھر تشریف لائیں گے، آپ کو عید کی مبارک دینے اور… ہم معنی خیز انداز میں جملہ ادھورا چھوڑ کر انہیں دیکھنے لگے۔ ان کے چہرے پر لالی دیکھ کر ہمیں ان کی رضامندی کا اندازہ ہو گیا، اور ہمارا دل خوشی سے ناچنے لگا۔ ہم جھومتے ہوئے گنگنانے لگے، تو نے ماری انٹریاں، رے دل میں بجی گھنٹیاں، ٹرن ٹرن ترن… کل تک یہ گانا ہمیں دیگر نئے گانوں کی طرح فضول لگتا تھا، مگر آج اسے گنگناتے ہوئے ہمیں محسوس ہو رہا تھا کہ یہ کتنا کلاسک گانا ہے۔ چاند رات پر ہم تحائف اور مٹھائی کے ٹوکروں سے لدے پھندے، والدین کے ہمراہ روشن آرا کے گھر پہنچے۔ ہماری والدہ محترمہ پچھلے دنوں چپکے چپکے ان کے کان میں ہمارے رشتے کی بات ڈال چکی تھیں۔ آج ہم اس سلسلے کو مکمل کرنے کی غرض سے وہاں موجود تھے۔ ہماری بے قرار نظریں روشن آرا کی دیدار میں اردگرد گھوم رہی تھیں، لیکن وہ نیک بخت شرم کے مارے باہر نہیں نکلی تھیں۔ جب بھی ہم اٹھنے کی کوشش کرتے، ان کی والدہ ہمیں بٹھا لیتیں۔ ہم افطاری گھر سے کر کے آئے تھے، مگر کھانا یہیں کھانا تھا۔ روشن آرا کے ہاتھوں سے بنے کھانے کا ذائقہ یاد آتے ہی ہمارا منہ پانی سے بھر جاتا۔ آخرکار، انتظار رنگ لایا اور کمرے کا دروازہ کھلا۔ ہم نے اشتیاق سے نظریں اٹھائیں، مگر ہمارے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ یہ تو کوئی اور باندی تھیں۔ روشن آرا کی والدہ نے اس باندی کا اپنی بھانجی کہہ کر تعارف کرایا۔ کھانا ان کی بھانجی نے ہی لگایا۔ ہمیں امید تھی کہ روشن آرا کھانے کی میز پر ہمارے ساتھ موجود ہوں گی، لیکن ہماری حسرت حسرت ہی رہی۔ نہ صرف اس وقت بلکہ بعد میں منگنی کی انگوٹھی بھی ہماری والدہ دوسرے کمرے میں جا کر انہیں پہنا آئیں۔ ہمیں ان کا دیدار نصیب نہ ہوا۔ واپسی پر ہم مایوس تھے۔ گلی کی نکڑ سے گزرتے ہوئے ہم نے ایک آخری نظر روشن آرا کے گھر کی طرف ڈالی۔ دوسری منزل کی کھڑکی پر روشن آرا کا چہرہ روشن چاند کی طرح جگمگا رہا تھا۔ ہمیں ایسا لگا جیسے عید کا چاند نظر آ گیا ہو۔عید والے دن ہم نے نئے کپڑے پہنے اور عیدگاہ کی طرف چل پڑے۔ آج پہلی بار عید پر نئے کپڑوں نے بھی ہمیں خوشی دی تھی، اور لوگوں سے عید مبارک سننا بھی اچھا لگ رہا تھا۔ نماز کے بعد ہماری نظر نومی پر پڑی۔ اس نے ہم سے معانقہ کیا اور وہ دیر تک ہم سے لپٹا رہا۔ معانقے کے بعد ہم نے اس سے اس کا حال احوال دریافت کیا تو وہ غم زدہ انداز میں بولا، بس فیضی، کیا بتاؤں۔ یہ مہینہ میری زندگی کا سب سے مشکل مہینہ تھا۔ تم جانتے تو ہو کہ میری بیوی بیمار تھی۔ اس ماہ جتنا کچھ بھی کمایا، سب اسی پر خرچ ہوگیا۔ بھابھی کی طبیعت اب کیسی ہے؟ ہم نے فکرمندی سے پوچھا۔ وہ کل ہی ٹھیک ہوئی ہے۔ اللہ نے ہمیں بیٹے کی نعمت سے نوازا ہے۔ وہ شرماتے ہوئے بولا۔ واہ! پھر تو عید کے ساتھ ساتھ تمہیں بیٹے کی بھی بہت مبارک ہو! ہم خوش دلی سے بولے۔ خیربات، مگر بچہ ٹھیک نہیں ہے۔ ڈاکٹرز نے اسے ایمرجنسی میں رکھا ہوا ہے۔ پلیز اس کے لیے دعا کرنا، وہ پریشانی سے بولا۔ اوہ… اللہ پاک اسے مکمل صحت دے، ہم تشویش سے بولے۔ وہ آمین کہنے کے بعد رخصت ہوگیا۔ ہم دن بھر لوگوں سے عید ملتے ملاتے رہے۔ شام کو ہمیں نومی کا خیال آیا تو ہم اس کی طرف چل پڑے۔ وہ ٹیکسی سے اپنے گھر کے دروازے پر اتر رہا تھا، اس کی بیوی بھی اس کے ساتھ تھی۔ اس نے اپنے بچے کو گود میں اٹھایا ہوا تھا، اور دونوں کے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی نومی ہماری طرف لپکا۔ اس نے ہمیں گلے سے لگا کر اتنے زور سے بھینچا کہ ہمارا سانس رکنے لگا۔ وہ بے حد خوش نظر آ رہا تھا۔ عید مبارک! یہ دو لفظ آج ہم نے بے شمار بار سنے تھے، مگر نومی نے جس انداز میں عید مبارک کہا تھا، اس سے ہمیں یقین ہوگیا تھا کہ ہماری عید واقعی ہمارے لیے مبارک ہو گئی ہے۔ وہ ہمیں اپنے گھر لے آیا اور بتایا کہ عید کی نماز کے بعد جب وہ اسپتال پہنچا تو اس کے بیٹے کی طبیعت ٹھیک ہو چکی تھی، اور شام تک ڈاکٹرز نے انہیں فارغ کر دیا تھا۔ ہم نے بھی اس کے بیٹے کی صحت یابی پر خدا کا شکر ادا کیا۔ باتوں کے دوران وہ ہمیں ٹٹولتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ہم نے اندازہ لگایا کہ وہ اس ماہ میں ہم میں ہونے والی تبدیلیوں کو نوٹ کر رہا ہے، لیکن ہمارا اندازہ غلط نکلا۔ ہمیں اس کی نظروں کا درست مطلب تبھی سمجھ آیا جب رات کو سونے کے لیے لیٹنے لگے۔ سونے سے پہلے جب ہم نے اپنی قمیص اتاری تو جیب میں کھڑکھڑاہٹ سی محسوس ہوئی۔ ہم نے جیب میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالا اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی ہتھیلی پر رکھے نوٹوں کو دیکھنے لگے۔ بخدا، اس وقت اگر ہمارے مرحوم دادا اپنا عصا ٹیکتے بھی تشریف لے آتے تو ہمیں اتنا بڑا جھٹکا نہ لگتا، جتنا اپنی ہتھیلی پر رکھی شے کو دیکھ کر لگا تھا۔ ہم لرزتے ہاتھوں اور دھڑکتے دل سے رقم کی گنتی کرنے لگے۔ یہ اتنے ہی پیسے تھے جتنے ہم نے یکم رمضان کو کھوئے تھے۔ گویا یکم رمضان کو کھونے والی رقم ہمیں یکم شوال کو دوبارہ مل گئی تھی۔ اس رقم کے ساتھ ایک کاغذ بھی موجود تھا۔ ہم نے کاغذ کھولا اور تحریر پڑھنے لگے:
**
ڈیئر فیضی، میں تم سے بہت شرمندہ ہوں کہ میں نے تمہارا دوست ہوتے ہوئے بھی تمہیں دھوکہ دیا۔ میں لالچ میں آ گیا تھا، مگر قدرت نے مجھے اس لالچ کی سزا دی۔ پلیز! تم مجھے معاف کر دینا۔ یکم رمضان کو تمہاری جیب سے پیسے نکالنے والا کوئی اور نہیں، میں خود تھا۔ میں اسی نیت سے تمہیں ساتھ لے کر گیا تھا۔ تم نے یہ رقم دوسروں سے چھین کر حاصل کی تھی، اس لیے تم سے یہ رقم چرانے کے بعد میں مطمئن تھا کہ میں نے نیک کام کیا ہے، مگر میں غلطی پر تھا۔ اس رقم سے جب میں نے کاروبار شروع کیا تو ہر روز ایک نئی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے پہلے جب میں حق حلال کماتا تھا تو کبھی مجھے ایسے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ اس ماہ میں نے جو کچھ کمایا، سب بیوی کی بیماری پر خرچ ہوگیا۔ میں جان گیا کہ خدا مجھے بھی پسند کرتا ہے، اسی لیے ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی رقم مجھے راس نہیں آئی۔ میں سمجھ گیا ہوں کہ جب تک یہ رقم میرے پاس رہے گی، خدا مجھے اس کی سزا دیتا رہے گا، اس لیے سوچ سمجھ کر میں نے یہ رقم تمہارے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امید ہے کہ تم مجھے معاف کر دو گے۔ میرا نوزائیدہ بیٹا زندگی اور موت کی کشمکش میں اسپتال میں داخل ہے، خدا را! اس کی صحت یابی کے لیے دل سے دعا کرنا۔ اگر تم نے مجھے معاف کر دیا تو مجھے رب تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ بھی میری خطا معاف کر کے مجھے مزید پریشانیوں سے محفوظ رکھے گا۔
فقط
تمہارا دوست،
نعمان
**
خط پڑھ کر ہم سکتے میں رہ گئے۔ ہمیں اس رقم سے خوف آنے لگا۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ خط اس نے صبح ہماری جیب میں ڈالا تھا۔ ہم اسی وقت اٹھے اور ایک خیراتی اسپتال کی طرف روانہ ہوگئے۔ ایک ماہ پہلے، ہم اس رقم سے محرومی پر اللہ سے شکوہ کر رہے تھے اور آج، ایک ماہ بعد، یہ رقم ہمیں کانٹوں کی طرح چبھ رہی تھی، اور ہم جلد از جلد اس سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔شاید اب ہم بھی اللہ کو پسند آ گئے تھے۔