ندرت بڑی شوقین مزاج عورت تھی مگر اس کی بیٹی عظمی اس جیسی نہ تھی۔ وہ بہت سیدھی سادی لڑکی تھی۔ میرے ساتھ اس کی دوستی ہو گئی ، تبھی اس کی خاطر ، ندرت آنٹی کے گھر جایا کرتی کیونکہ ہم ایک کلاس میں تھے۔ عظمیٰ کے والد کا نام ولید تھا، ہم ان کو ولید انکل کہا کرتے۔ وہ بہت نیک طینت اور اچھے دل کے انسان تھے۔ ایک عرصہ سے ہمارے پڑوس میں آباد تھے۔ ابو کی انکل ولید سے اچھی دوستی تھی۔ جب فارغ وقت ملتا، وه دونوں ہماری بیٹھک میں شطرنج کی بازی لگاتے اور چائے کا لطف بھی اٹھاتے۔ آنٹی ندرت اپنے شوہر سے کچھ مختلف مزاج کی تھیں۔ وہ خود کو بنا سنوار کر رکھتیں اور گھومنے پھرنے کی شوقین تھیں۔ چار بچوں کی ماں تھیں پھر بھی غیر شادی شدہ لگتی تھیں، لڑکیوں میں مل بیٹھتیں تو لڑکیوں کے جیسی نظر آتیں۔ تاہم اپنے بچوں کا خیال بھی کرتیں، ان کو صاف ستھرارکھتیں۔ خاص طور پر عظمیٰ پر توجہ دیتی تھیں۔ عظمی ہنس مکھ لڑکی تھی۔ کچھ دنوں سے میں محسوس کر رہی تھی کہ وہ بھجی بھجی رہنے لگی ہے۔ کھیلنے اور پڑھنے میں بھی دلچسپی نہیں لیتی۔ ایک دن میں نے پوچھا۔ عظمی کیا بات ہے۔ گھر میں کوئی مسئلہ ہے ؟ آج کل امی ابو میں لڑائی ہوتی ہے، تبھی ہم بہن بھائی پریشان رہتے ہیں۔ اس نے کہا۔ ایک دن میں نے امی کو کہتے سنا۔ خدا جانے ندرت کے گھر کو کس کی نظر لگ گئی ہے، اچھا بھلا ہنستا بستا گھر تباہ ہو رہا ہے۔ کسی گھر میں بھی روز کی کل کل اچھی نہیں ہوتی، دیکھ لینا نتاشا! ضرور کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا۔ ہونی ہو کر رہتی ہے۔ ندرت آنٹی اور ولید انکل کا جھگڑار نگ لے آیا۔ ولید الکل اچھے خاندان سے تھے۔ ایک محکمے میں چھوٹے آفیسر تھے، تنخواہ بس مناسب تھی، دیانت دار تھے ، رشوت نہیں لیتے تھے ، رزق حلال پر گزار تھا لیکن ان کی بیگم شروع سے ہی تیز طرار خاتون تھیں ، وہ زیور بیچ کرنے فیشن کے کپڑے اور میک اپ کا سامان خرید لیتی تھیں۔ آمدنی سے زیادہ اخراجات کی وجہ سے گھر کا بجٹ تہہ بالا ہونے لگا۔ اس کے باوجود آئٹی ندرت کی فرمائشیں کم نہ ہو ئیں تو ان کے گھر میں جھگڑا ہونے لگا۔ ایک روز یہ بُری خبر سب نے سُن لی کہ ان کے درمیان طلاق ہو گئی ہے۔ لوگ کہتے تھے ندرت کی غلطی ہے۔ خُدا جانے کس کا قصور تھا۔ سزا تو ان کو ملی جن کا اس قصے میں بالکل قصور نہ تھا، ان کے چاروں بچے رشتے داروں میں بٹ بٹا کر دربدر ہو گئے۔ انکل ولید چونکہ رشوت کی آمدنی سے نفرت کرتے تھے، تبھی بیوی کی ناجائز فرمائشیں پوری نہ کر پاتے۔ ہمارے محلے میں نصیر نامی ایک شخص محکمہ مال میں کلرک تھا۔ یہ بھی ہمارا اپڑوسی تھا لیکن اوپر کی آمدنی سے اس کے گھر میں روپے پیسے کی ریل پیل رہتی تھی۔ اس کے بیوی بچے روپے اڑاتے اور نمائشی زندگی بسر کرتے۔ نصیر کی بیوی مدیحہ سے ندرت آنٹی کی دوستی ہو گئی۔ وہ اس عورت پر رشک کرنے لگیں اور اس کے رہن سہن کی بھی ۔ وہ بھی اپنے شوہر سے اسی طرح کی چیزوں کا مطالبہ کرنے لگیں جیسی مدیحہ کے پاس ہو تیں۔ کبھی کہتیں مجھے سونے کی چوڑیاں بنوا کر دو اور بھی کہتیں، ولایتی میک اپ اور فلاں مہنگا سینٹ لا کر دو، جیسا نصیر کی بیوی کے پاس ہے۔ انکل ان کو سمجھاتے خُدا کی بندی وہ آدمی رشوت لیتا ہے، میں نہیں لیتا، پھر میں تم کو کیونکر سونے کی چوڑیاں بنوا کر دے سکتا ہوں۔ میری تنخواہ ان عیاشیوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہ بات مگر ندرت کی سمجھ میں نہیں آسکتی تھی۔ وہ کہتی تھیں کہ نصیر تو تمہارے دفتر میں کلرک ہے اور اس کی آمدنی تم سے کئی گنازیادہ ہے۔ آخر ایسا کیوں ؟ تم ضرور اپنی آمدنی ہم سے چھپاتے ہو اور کنجوسی سے کام لے کر روپیہ جمع کر رہے ہو۔ آخر ایسی دولت کس کام کی کہ بیوی بچے بیچارے چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو ترسیں۔ بالآخر ندرت نے اپنی کا یا پلٹ لی۔ ان کے ہاتھوں میں سونے کی چوڑیاں اور کانوں میں طلائی بالیاں چمچانے لگیں۔ وہ قیمتی عطر خود پر چھڑک کر سیر کو نکلنے لگیں۔ اب جو شوہر دفتر کی راہ لیتے، یہ بن سنور کر اپنی راہ ہو لیتیں اور بچے بچارے کسمپرسی کے عالم میں پھرتے محلے والے ان تبدیلیوں پر انگشت بہ دنداں تھے۔ پہلے نصیر خاموشیرہے ، پھر اس خاموش سمندر میں طلاطم پیدا ہوا محلے والوں نے احتجاج کیا اور انکل کا جھگڑ ا شدت اختیار کر گیا۔ تبھی آنٹی نے طلاق دو کی رٹ لگادی۔ انکل بچوں کا خیال کر کے نظر انداز کرنے لگے لیکن ندرت آنٹی کو آرام نہ تھا۔ بالآخر وہ طلاق لے کر چلی گئیں۔ اس دن عظمیٰ بڑی پریشان تھی۔ وہ میرے کندھے پر سر رکھ کر بہت روئی تھی۔ انکل بھی کچھ کم پریشان نہ تھے۔ ملازمت بھی کرنی تھی، بچے بھی سنبھالنے تھے۔ کچھ دن عظمیٰ کی پھوپھیاں باری باریآئیں ان کے پاس رہیں، مگر کوئی کب تک اپنا گھر بار چھوڑتا ہے ؟ اب تو بچوں کو روٹی پکا کر دینے والا کوئی نہ تھا۔ مجبوراً انکل کو ایک انوکھا فیصلہ کرنا پڑا۔ انہوں نے بچے اپنی بہنوں اور بھائیوں میں بانٹ دیئے، بڑی بیٹی کو ایک بہن لے گئی، عظمی دوسری پھوپھی کے گھر پہنچادی گئی، تیسری لڑکی چچی کے پاس اور بیٹا تایا کے گھر ۔ انکل اب کھانا ہوٹل سے کھاتے تھے اور ان کے گھر میں تالا پڑار ہتا تھا۔ ایک دن پتا چلاندرت انٹی آئی ہیں۔ وہ محلے کے ایک معزز شخص کے گھر آئی تھیں۔ یہ صاحب پہلے بھی کئی بار ان کے جھگڑے نمٹا چکے تھے۔ انہوں نے بھی آنٹی سے بچوں کو ملوانے کا بندوبست کیا تھا۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے ہمارے گھر بھی آگئیں۔ میں ان کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ آج وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔ انہوں نے امی سے کہا۔ میں نے ارمغان صاحب سے شادی کر لی ہے۔ ان کا بنائو سنگھار دیکھنے کے قابل تھا۔ قد کا ٹھ تو ویسے ہی قابل دید تھاتا ہم جس شخص سے انہوں نے شادی کی ، وہ کوئی بہتر انسان نہ تھا، صورت شکل کا گیا گزرا اور خُدا جانے کیا، کاروبار کرتا تھا لیکن ندرت آنٹی کے بنائو سنگھار اور قیمتی لباس سے اندازہ ہوتا تھا کہ واقعی دولت مند ہو گا۔ وہ آئی کو بتارہی تھیں میں ولید کے مالی حالات سے تنگ تھی۔ نوکری کرنے کا سوچ کر ارمغان کے پاس گئی تھی۔ انہوں نے مجھ کو شادی کی آفر کردی۔ میں تو غربت سے نکلنے کی دیرینہ آرزو رکھتی تھی۔ وہ میری اس دیرینہ آرزو کو پورا کرنا چاہتے تھے۔ پہلے انہوں نے مجھ کو سونے کی چوڑیاں دلوائیں۔ کہا کہ رقم جب چاہو دے دینا۔ بے شک قسطوں میں سُنار کو ادا کر دینا۔ میں نے ولید کو یہ بات بتائی۔ ان کو پسند نہ آئی اور وہ مجھ سے بہت لڑے جھگڑے، کہنے لگے۔ جس سے زیورات لائی ہو، واپس کر آئو ورنہ ہم ان کی قسطیں ادانہ کر سکیں گے ، بس اس بات پر لڑائی بڑھتی گئی اور بات طلاق پر ختم ہو گئی۔ آنٹی کی بات سے بہر حال یہ اندازہ ہو گیا کہ وہ انکل سے طلاق لینے پر افسردہ نہ تھیں بلکہ بہت خوش تھیں۔ انہیں بچوں کی یاد ستاتی تو بھی لیکن وہ سمجھتی تھیں بچے، کچھ دنوں بعد خود بخود ان کے پاس آجائیں گے۔ امی نے کہا۔ تمہیں شادی کی ایسی کیا جلدی پڑی تھی کہ تم نے بچوں کا بھی خیال نہ کیا۔ کہنے لگیں۔ میں کیا کرتی، میرے بھائی اور بھابی مجھے بوجھ سمجھنے لگے تھے۔ کب تک ان پر بوجھ بنی رہتی۔ گھر سے کہیں ملنے ملانے جاتی، بھابی کو اعتراض ہوتا۔ بھائی سے شکایت لگا تیں کہ یہ خواہ مخواہ گھومتی پھرتی ہے۔ گھر میں ٹک کر نہیں بیٹھتی۔ اس پر بھائی میرے گھومنے پھرنے پر پابندیاں لگانے لگے۔ انہیں میرے گھر سے نکلنے، پہنے اوڑھنے پر بھی اعتراض تھا۔ ایک دن میں نے زیورات کا ایک سیٹ خریدا، بھائی کو پتا چلا۔ انہوں نے بھائی سے کہا کہ ندرت سے پوچھو یہ مہنگے مہنگے سیٹ کہاں سے لاتی ہے ؟ اس بات پر بھائی نے باز پرس کی۔ مجھے برا لگا۔ میں ارمغان کے پاس آئی تو انہوں نے مجھے کہا تم مجھے سے شادی کر لو ورنہ زمانہ تم کو چین سے جینے نہیں دے گا۔ سنا ہے کہ جس آدمی سے تم نے شادی کی ہے وہ پہلے سے شادی شدہ تھا؟ ہاں ، وہ شادی شدہ ہے اور اس کے تین بچے بھی ہیں۔ اس کی بیوی نے اعتراض نہیں کیا ؟ امی نے سوال کیا۔ جب مجھ سے شادی کی خبر اس کی بیوی تک پہنچی۔ وہ روٹھ کر میکے چلی گئی ، اب ان کے بچے بھی نانانانی کے پاس ہیں۔ آنٹی ایسی باتیں کر کے چلی گئیں۔ امی کو ان کی باتوں پر افسوس ہوا۔ کہنے لگیں۔ اپنے چار بچے بر باد گئے اور ارمغان کے تین بچے تباہ کئے۔ دو گھر اجاڑ کر پھر ایک گھر بسایا، اب دیکھو کہ یہ گھر بھی بسار ہتا ہے کہ نہیں۔ ارمغان کے بچے کسی اور شہر میں رہتے تھے۔ وہ بچوں سے ملنے جاتے ، یہ بھی ساتھ جاتیں۔ ہوٹل میں ٹھہرتیں، شاپنگ کرتیں، تب بھی ان کو اعتراض تھا کہ یہ اپنے بچوں سے ملنے کیوں جاتے ہیں ؟ اور ان کو خرچ وغیرہ بھی زیادہ دیتے ہیں۔ دو سال بعد ایک روز ہم نے سنا کہ ارمغان اور آنٹی ندرت کی بہت لڑائی ہوئی ہے۔ یہ بھی سنا کہ ارمغان کے پہلے سسر فوت ہو گئے ہیں اور انہوں نے وصیت کی ہے کہ میری بیٹی اور اس کے بچے اس وقت تک ارمغان کے پاس نہیں جائیں گے جب تک وہ اپنی دوسری بیوی ندرت کو طلاق نہیں دے دے گا۔ جب ارمغان اپنے بچوں سے ملنے گئے ، ان کے ماموں نے نہ ملنے دیا کہ والد کی وصیت یہی تھی۔ ارمغان بچوں سے پیار کرتا تھا۔ اس نے آخر کار اپنے بچوں کو حاصل کرنے کے لئے ندرت کو طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک دن سب نے دیکھا کہ ارمغان ٹرک لایا ہے اور اس پر سامان لوڈ کروارہا ہے۔ جب سامان لوڈ ہو چکا اور وہ گاڑی میں بیٹھنے لگا، اچانک ندرت آئیں جو شاپنگ کرنے گئی ہوئی تھیں۔ انہوں نے یہ نظارہ دیکھا تو شوہر سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے اور تم کہاں جارہے ہو مجھے بتائے بغیر سامان سمیت ؟ تبھی وہاں لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ لوگوں کے جمع ہو جانے کی وجہ سے ارمغان کو حالات سنبھالنا پڑے۔ اس وقت تو اس نے ندرت کو ساتھ بٹھا لیا اور کہا کہ چلو میرے ہمراہ، میں تمہارے ہی لئے تو شفٹنگ کر رہا ہوں ایک نئے بنگلے میں۔ تم کو اس وجہ سے نہ بتایا کہ سرپرائز دینا چاہتا تھا لیکن اپنے شہر لے جا کر اس کو طلاق دے دی اور خود پہلی بیوی کے گھر چلا گیا۔ اب ندرت آنٹی کی جرات نہ تھی کہ پہلی بیوی کے گھر جاتیں وہ یقینا ان کو بے عزت کر کے گھر سے نکال باہر کرتے ، کوئی چارہ نہ تھاوا پس اپنے بھائی کے گھر واپس آجانے کے۔ ایک روز والد صاحب ایک دوست کے توسط سے ارمغان کے پاس گئے۔ پوچھا۔ جب تم نے اس کو طلاق ہی دینی تھی تو شادی کیوں کی ؟ اس کے بچے در بدر ہوئے اور وہ بچاری بے گھر بھی ہو گئی ، تم کو اس کا آسرا نہیں توڑنا تھا۔ وہ ایسی عورت ہے جس کی خواہشات کے سمندر کا کوئی کنارا نہیں، اس کو روز ایک نیا جوڑا چاہیے اور زیورات سے اس کا دل نہیں بھرتا۔ ہفتے میں دو بار شاپنگ کرنے ضرور جاتی ہے، جب تک رات کا کھانا ہوٹل سے نہ کھائے ، اس کو جینے کا لطف نہیں آتا۔ میرا تو آدھا کاروبار اس کی نذر ہو چکا ہے، باقی آدھا رہ گیا ہے۔ اس کو بچانا ہے ورنہ میں بھی باقی نہ رہوں گا۔ اس عورت میں گھر یلو عورت جیسی کوئی صفت نہیں ہے۔ ارمغان نے یہ باتیں کہیں تو ابو کو اور بھی افسوس ہوا۔ امی کہنے لگیں۔ نتاشا کے ابو ! دیکھو تو سہی، ندرت کو اپنے جگر گوشوں کا بھی خیال نہیں آیا۔ کل جب اس کے بچے جوان ہوں گے اپنی ماں کے بارے کیا سوچیں گے۔ آپ کیوں ارمغان کے پاس گئے۔ بھاڑ میں جائیں یہ دونوں۔ امی بولیں ۔ ولید میر ا دوست ہے، مدت کا پڑوسی ہے ، مجھ سے اس کا دکھ دیکھا نہیں جاتا، غمزدہ رہتا ہے بچوں کے لئے۔ سوچا، ندرت کے حالات معلوم کروں، شاید ان کے بیچ دوبارہ صلح کی کوئی صورت نکل آئے۔ اب کہاں ہونے لگی صلح، طلاق ہو گئی، وہ بھی ندرت نے خود اپنی مرضی سے لی ہے۔ اب کیا دوبارہ شادی کرے گی ولید سے ؟ والد صاحب امی کی بات سُن کر چپکے ہو رہے۔ اس واقعے کو بہت دن گزر گئے ، پھر ایک روز ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ آنٹی آئی ہیں، بُری حالت میں کہ پہچانی نہ جاتی تھیں۔ معمولی لباس، بال بھی الجھے ہوئے، لگتا تھا بہت دُکھی ہیں۔ امی نے حیرت سے دیکھا۔ ندرت یہ تم ہو ؟ کیا ہو گیا ہے تمہیں ؟ ۔ نتاشا کی امی ، بس نہ پوچھو۔ کون سا دکھ نہیں ہے ؟ سچ کہوں تو دنیا میں کسی شے کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگر کوئی مسرت ہے تو عورت کو اپنے گھر اور بچوں کے درمیان رہ کر ملتی ہے۔ آج تجربے نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ دنیا کی دولت بھی میرے پاس ہو تو وہ مجھے خوشی نہیں دے سکتی جو ایک ماں کو اپنے بچوں کو گلے لگا کر ملتی ہے، بہ شرطیکہ شوہر نیک ہو۔ آج ندرت راہ راست پر آگئی ہے مگر دنیا کی ٹھوکریں کھا کر۔ امی نے خوش ہو کر ابو کو آواز دی۔ اب ان کے دُکھوں کا کچھ مداوا کرو۔ ہم پڑوسی ہیں ، آخر ہمارا بھی تو کچھ فرض ہے اور پڑوسیوں کا حق ہوتا ہے۔ تم ولید کو جا کر سمجھائو کہ وہ ندرت سے دوبارہ نکاح کرلے تاکہ اس کے بچے پھر سے محور پر آجائیں۔ والد صاحب امی کی بات سُن کر دنگ رہ گئے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد بولے۔ اچھا، ندرت سے کہو میں ولید سے بات کروں گا۔ شاید وہ مشکل سے مان جائے۔ والد صاحب نے انکل ولید سے بات کی۔ وہ کہنے لگے۔ اب یہ میرا معاملہ نہیں ہے۔ وہ کافی سیانے ہو گئے تھے۔ والد نے دوبارہ کوشش کی۔ وہ ٹال مٹول کر گئے۔ کچھ دنوں بعد عظمی مجھ سے ملنے آئی ، اب وہ کافی سمجھ دار ہو گئی تھی اور ساتویں کا امتحان دیا تھا۔ میں نے پوچھا۔ عظمیٰ کیا تمہارا دل نہیں چاہتا کہ تمہاری امی اور ابو پھر سے ایک ہو جائیں۔ تمہارا بھی ایک گھر ہو جہاں تم سب ساتھ رہو۔ وہ کہنے لگی۔ بہت جی چاہتا ہے، کیا بتائوں گھر کیا ہوتا ہے، اپنا گھر تو جنت ہوتا ہے لیکن ہم سے تو یہ جنت کب کی چھن گئی ہے۔ دوسروں کے گھروں میں رہنے سے جو ذ ہنی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے وہ صرف میں ہی جانتی ہوں لیکن کیا کریں، مجبوری ہے۔ تو پھر تم امی کو لے کر آئو اور تم سب ساتھ رہو۔ ایسا ہو تو سکتا ہے۔ ہاں ہو تو سکتا ہے لیکن چاچی اور پھوپھیاں نہیں مانتیں۔ وہ ابو کو اس طرف سوچنے ہی نہیں دے رہیں۔ ان کو امی کے خلاف بھڑکاتی رہتی ہیں۔ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ضرور دوبارہ اپنے ابو اور امی کو ملادیتی۔ ہم سب پھر ایک جگہ ہنستے کھیلتے۔ وہ دور خلائوں میں گھورتی ہوئی بولی۔ جیسے وہاں کسی گمشدہ جنت کو تلاش کر رہی ہو۔