Tuesday, March 18, 2025

Gumshuda Rishte

ملک میں اکثر و بیشتر سیلاب آتے رہتے ہیں، لیکن اس بار کا سیلاب تو سیلاب بلا ، جو اپنے پیچھے تباہی و بربادی پھیلانے کے بعد بھیانک یادیں چھوڑ گیا۔

مجھے یاد ہے ، وہ سات جولائی کی شام تھی۔ صبح سے ہی بادل گھرے ہوئے تھے ، ماحول میں عجیب طرح کی گھٹن اور حبس تھا۔ درخت اپنی جگہ ساکت کھڑے تھے۔ گرمی سے جسم  جھلس رہا تھا، مگر مغرب تک ماحول بدل گیا اور بوندا باندی کے بعد بارش اور تیز ہوا نے زور پکڑ لیا۔ جب بونداباندی شروع ہوئی تو مجھے خوشگوار سا احساس ہوا اور میں گھر کے صحن میں بنی چھوٹی سی کیاری کے پاس جا بیٹھی۔ اس میں ہری مرچ اور دھنیا پودینہ اگا ہوا تھا، جو وقت ضرورت استعمال ہوتا تھا۔ صحن کے کونے میں بیری اور جامن کے درخت تھے۔ کچھ دیر پہلے تو وہ اس قدر ساکت تھے ، جیسے ان کو اپنے گرنے کا خطرہ ہو اور اب مست ہاتھیوں کی مانند جھومتے ہوئے شائیں شائیں کر رہے تھے۔ رات کی تاریکی اور مہیب سناٹا، پھر موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ تند ہوا کے تھپیڑوں سے بھری اندھیری رات میں خوف نے جسم کو بے جان کر دیا تھا۔ سب گھر والوں کے حواس جاتے رہے تھے کیونکہ بستی کے کچھ کچے مکانوں میں ، ہمارا بوسیده سا گھر بھی تھا جو بارش کے غصے کی زد میں تھا۔ ہمارا گھر دریا کنارے تھا۔ ارد گرد کے مکانوں میں کہیں روشنی نظر نہیں آرہی تھی۔ اماں ابا صبح کے تھیلے بیچنے گئے تھے اور ابھی تک نہیں لوٹے تھے۔ میں اور میر ابھائی غفور ، دادا دادی کے پاس ایک جھلنگی سی چار پائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ غفور چوتھی جماعت کا طالب علم تھا۔ جب بارش تیز ہونے لگی دادی نے کہا کہ تم دونوں اندر کمرے میں چلے جاؤ اور روٹی کھا کر سو جاؤ۔ لگتا ہے آج تمہاری اماں اور ابا نہیں لوٹیں گے کیونکہ بارش تیز ہو گئی ہے۔ وہ پیر بخش کے گھر رک جائیں گے۔ دادی نے ٹھیک کہا تھا۔ پہلے بھی اگر رات زیادہ ہو جاتی یا موسم کے تیور بکڑ جاتے تو اماں ابا دونوں چاچا پیر کے گھر رک جاتے تھے، جن کے ٹھیکے پر تھیلے بناتے تھے۔ ہمارے گھرے چاچا پیر کا گھر چھ میل کے فاصلے پر تھا، جو میرے والدین کو پیدل طے کرنا پڑتا تھا۔ کھانا کھا کر ہم بارش کی وجہ سے گھر کے اندر ہی سو گئے۔ آدھی رات کے وقت اچانک ایک دھماکے کی آواز سے آنکھ کھل گئی ، شاید ہمارے پڑوسی کی چھت گر گئی تھی کیونکہ اس کا مکان ہمارے گھر سے زیادہ بوسیدہ تھا۔ پھر چاروں طرف پانی کے شور کی آواز سنائی دینے لگی۔ دادی دادا نے ہمیں جلدی سے اٹھایا اور باہر آ گئے۔ کہنے لگے کہ چھت تلے دب کر مر جانے سے بھیگنا بہتر ہے۔ بارش ایسے ہی برستی رہے گی، تو ہماری چھت بھی سر پہ آ رہے گی۔ ذرا دیر بعد احساس ہوا کہ صحن میں پانی بڑھ رہا ہے۔ جس چار پائی پر ہم بیٹھے تھے ، وہ ذرا دیر بعد غوطے کھانے لگی۔ شاید پانی دریا کا بند توڑ کر گاؤں میں  آیا تھا۔ اب پانی کی لہریں چار پائی کو آگے پیچھے دھکیل رہی تھی۔ غفور اس صورتحال سے بہت خوفزدہ تھا۔ وہ رونے لگا۔ دادا نے تسلی دی کہ ہم لکڑی کے بڑے سے پلنگ پر بیٹھے ہیں جو زمین سے کافی اونچا ہے، ہمیں کچھ نہیں ہو گا۔ دادا کو فکر تھی بکری، مرغی اور بھینس کی۔ مرغیاں ڈربے میں تھیں، بکری اور بھینس کھونٹے سے بندھی تھیں۔ ذرا دیر میں ہی پانی کے شور میں بکری، مرغیوں، بھینسوں اور کتوں کے ساتھ ساتھ انسانی آوازوں کا شور بھی شامل ہو گیا اور ان سب آوازوں نے قیامت برپا کر دی۔ دادا کو اندازہ ہو گیا تھا کہ بند ٹوٹ گیا ہے ، پانی بستی میں داخل ہو چکا ہے اور زندگی کی خوشیاں بستی کے مکینوں کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ میں نے اور بھائی غفور نے ایسی صور تحال پہلے نہیں دیکھی تھی۔ ہمارے ہاتھ پاؤں خوف سے ٹھنڈے پڑتے جارہے تھے ، جن کو دادی دادا دبا رہے تھے۔ وہ ہمیں زیادہ سے زیادہ محبت کی گرمی پہنچانے لگے تھے تا کہ ہمارا خوف کم ہو۔

کچھ دن پہلے کی بات ہے ، دریا سے ادھر گاؤں کا ایک دل فریب منظر ہر وقت بستی والوں کی نگاہوں کے سامنے پھیلا رہتا تھا اور دریا کا مٹیالا پانی آنکھوں کو تراوٹ دیتا رہتا تھا۔ پانی کے اوپر سفید رنگ کے پرندے اڑتے ہوئے بہت بھلے لگتے تھے ، تب کچے مکان بھی مضبوط لگتے اور مٹی کے بنے ان گھروندوں کے گرنے کا خطرہ کسی کو بے چین نہیں کرتا تھا، لیکن آج یہ کچی مٹی کے گھر گرنے کو کس قدر بے چین تھے۔ ہر گھر کے صحن میں پانی آیا تھا۔ میں اور میر ابھائی اللہ تعالی کو یاد کرنے کی بجائے ماں باپ کو یاد کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ میں اماں اماں پکار رہی تھی اور میر ابھائی ابا ابا کی رٹ لگائے جا رہا تھا۔ مجھے اپنی ماں اور غفور کو بابا سے زیادہ لگاؤ تھا کیونکہ میں ماں کے ساتھ لگی رہتی تھی اور بھائی ابا کے ساتھ ۔ ابا اکثر دریا کے کنارے بچھی مٹی پر موٹی موٹی بوریاں لیتا رہتا تھا اور ماں دادی کے ساتھ گھر کا کام کرتی۔ کبھی کبھی جب ابا مچھلی شکار کے لئے جاتا تو غفور ضرور ساتھ جانے کی ضد کرتا۔ کبھی ابا اسے لے جاتا اور بھی پھٹکار کر چھوڑ جاتا۔ اس کے رونے چلانے اور تنگ کرنے کی وجہ سے اماں اور دادی اسے گھر سے نکال دیتیں اور وہ ساری بستی میں گھومتا پھرتا۔ گھر میں رہنا اس کی فطرت میں شامل نہیں تھا۔ موسم بدلتے ہی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کے ساتھ نزدیکی علاقے کے لوگ ادھر کو آجاتے اور ساری بستی میں رونق سی پھیل جاتی۔ بچے اپنی کھلونا بندوقوں سے دریا پر اڑنے والے پرندوں کے نشانے لیتے تو میرا بھائی اس کام میں ان کی مدد کرتا، کیونکہ وہ غلیل سے تیتر گرانے کا ماہر تھا۔ یہ کام بستی کے اور لڑکے بھی کر لیتے تھے ، وہ مل کر غلیلوں سے پرندے گراتے اور پھر ان کو آگ پر بھون نمک مرچ لگا کر کھاتے تھے۔ بھائی غفور سیاحوں سے بڑا مرعوب رہتا تھا۔ وہ ان کے بچوں جیسا بننے کی کوشش کرتا اور کبھی کبھی تو ان کے کھلونے بھی  چرا لیتا  لیکن جب پکڑا جاتا تو لوگ ابا سے شکایت کرنے آجاتے ، تب ابا اسے تھپڑ مارتے ہوئے گھر لاتا اور دادی کی گود میں پھینک دیتا

لیکن آج کی صبح ہمارے لئے بہت منحوس تھی۔ جب وہ ماں باپ کے جانے کے بعد ننگے پاؤں دوڑتا رہا پھر تھک کر نیم کے درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ اس کے چہرے پر اداسی نے ڈیرہ جما لیا تھت اور دریا کی لہریں اسے دور سے نظر آرہی تھیں۔ کل شام ہی ابا نے سارے بورے سی لئے تھے ، پھر اماں نے آخری بورے میں سارے بورے رکھ کر اوپر سے اس کا منہ بند کر دیا تھا۔ آج انہیں ٹھیکے داروں کو واپس کرنے جانا تھا، اس کے عیوض وہ ان کے ہاتھوں پر معمولی سی رقم رکھ دیتے تھے۔ اماں نے آج صبح کونڈی میں ثابت مرچوں کی چٹنی پیسی تھی اور اسے گھی سے بگھار دیا تھا، پھر سب نے مل کر روٹی پر چٹنی رکھ کر کھائی تھی۔ شاید اس وقت غفور کو بھنے ہوئے تیتر یاد آرہے تھے۔ مکئی کی روٹی اور چٹنی تو بہت مشکل سے اس کے حلق سے اترتی تھی۔ جب دادی نے سارے برتن سمیٹ کر باروچی خانے کی کو ٹھری میں رکھ دیئے ، تو ابا اماں بورے سر پر لاد کر چلے گئے ۔ آج دھوپ نہیں نکلی تھی لیکن گرمی بہت تھی۔ ڈیوڑھی پر بیٹھا غفور بہت دیر تک انہیں جاتے دیکھتا رہا، یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ اپنے والدین کو آخری بار دیکھ رہا ہے۔ آنے والے واقعات کا کس کو پتا ہوتا ہے ورنہ میں ان کو روک نہ لیتی۔ دادی اپنی چارپائی کی ادوائن کسےجارہی تھی اور بار بار اپنی کمر پر ہاتھ مارتی جارہی تھی۔ کمر جو درد سے بھری ہو وہ کب اس طرح ٹھیک ہو سکتی ہے۔ میں نے دادی کی مدد کی اتنے میں ایک مینا اڑتے ہوئے گھر کی دیوار پر آکر بیٹھ گئی۔ غفور کی توجہ فوراً اس کی طرف گئی۔ وہ دوڑ کر غلیل نکال لایا۔ دادی کی نظر بچا کر اس نے تاک کر مینا کا نشانہ لگایا پتھر غلیل سے نکل کر مینا کو لگا، وہ اڑنے کی کوشش میں زمین پر گر گئی اور تڑپنے لگی۔ مجھے بہت دکھ ہوا۔ میں نے دادی کو اشارہ کیا۔ انہوں نے زخمی مینا کو دیکھا تو پوتے کو ڈانٹا۔ تو ان معصوم جانوں کو تڑپاتا ہے، کہیں خدا تجھے ایسے نہ تڑپائے۔ تبھی وہ سوٹی لے کر اس کے پیچھے دوڑی اور وہ باہر کو نکل بھاگا۔

اسی دن کچھ آفیسر نظر آئے۔ مردوں اور عورتوں نے دھوپ کی عینکیں لگائی ہوئی تھیں، حالانکہ دھوپ کم تھی۔ ان کے ہمراہ دو بچے تھے ، جو کافی دیر تک میلے  کچیلے غفور کو دیکھتے رہے، پھر آپس میں بیٹ بال کھیلنے لگے۔ جب بال دور چلی جاتی، غفور دوڑ کر اس کو اٹھاتا اور ان گورے بچوں کو تھما دیتا۔ دیر تک میر ا بھائی ایسے ہی دوڑ لگاتا رہا اور میں دروازے پر کھڑی دکھ سے اسے دیکھتی رہی۔ ان لوگوں کے اجلے لباس کے سامنے میلا چیکٹ میرا بھائی مخمل میں ٹاٹ کا پیوند نظر آرہا تھا۔ اس کو عرض نہ تھی کہ اس کے جسم سے اٹھنے والی ناگوار بو پورے ماحول کو خراب کر رہی ہے۔ میں نے دادی کے کہنے پر اسے آواز دی تا کہ وہ دو پہر کی روٹی کھائے۔ شام تک جبس بڑھ گیا۔ دریا کے پاس آئے لوگوں کی ٹیم واپس جا چکی تھی۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ ہوا کے تیز جھکڑ چلے تو آندھی جیسی کیفیت پیدا ہو گئی۔ ان جھگڑوں سے بچنے کے لئے راہ گیر خود کو سمیٹ لیتے تھے کہ کہیں آندھی ان کو اڑا کر نہ لے جائے۔ اچانک جب بارش بڑھنے لگی، تو دلوں میں خوف بھی بڑھنے لگا۔ تاریکی نے بستی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس تاریک رات کا منظر میں کبھی نہ بھلا سکوں گی، جو بہت ڈراؤنا تھا۔ سیلابی پانی ، تیز بارش کی وجہ سے امڈ آنے کو بے تاب تھا۔ دادی بکری کو کھول کر چھپڑ تلے باندھ رہی تھی اور بار بار اپنی اوڑھنی سے جس کے کنارے بوسیدہ ہو کر پھٹ چکے تھے ، اپنا چہرہ پو چھتی جارہی تھی۔ میں اور غفور بڑی چار پائی پر تھے۔ دادا ہمیں بہلانے کو ادھر ادھر کی باتیں کر رہا تھا۔ جب بہت سا پانی صحن میں بھر گیا تو دادا کو منکر ہو گئی کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ پانی بڑھتا ہی جارہا تھا۔ کچے مکان کے اوپر چھت پر بیٹھنا بھی اتنا ہی خطرناک تھا، جتنا اس کے اندر جا کر بیٹھنا۔ جب پانی نے دیو قامت چار پائی کے قدم بھی اکھاڑ دیئے ، تو دادا نے چار پائی کو درخت کے تنے کے ساتھ باندھ دیا۔ اب درخت کی مرضی کہ ہمیں پناہ دے یا خود ہم پر گر جائے۔ خدا کا شکر کہ درخت ہم پر نہیں گرا، بلکہ دادا نے مجھے اور غفور کو درخت پر چڑھا دیا کہ تم لوگ مضبوطی سے شاخ کو پکڑ کر بیٹھ جاؤ۔ اللہ نے چاہا تو کوئی مدد آجائے گی۔ بس دعا کرو کہ تمہارے اماں ابا کسی محفوظ مقام پر ہوں۔

بارہ بجے رات تک ہم مضبوطی سے جمے رہے پھر نیند کے جھونکے آنے لگے اور سیلاب کا پانی بھی بڑھنے لگا۔ جب پڑوسی کی چھت کا دھما کا سنا، تو دادا نے بے اختیار کہا کہ اب ہماری خیر نہیں۔ اسی وقت بھینس نے ڈکرانا شروع کر دیا۔ مرغیوں کا تو کچھ پتا ہی نہ تھا کہ کدھر گئیں۔ دادی بھینس کی رسی کو کھولنے پانی میں اتری ، دادا نے منع بھی کیا کہ مت جاؤ، جو نصیب میں ہو گا ہو جائے گا، بھینس نہیں ڈوبتی ، لیکن دادی کا کہنا تھا کہ اگر بندھی رہی تو ضرور ڈوب جائے گی یا پھر اس پر چھپڑ کے شہتیر گر پڑیں گے۔ اسے کھول دو لیکن کھولنے پر بھی اس نے کہاں جانا تھا۔ تبھی دادی کا پاؤں  پھسلا ٹاپ کی آواز آئی۔ اس آواز کے آتے ہی اندھیرے میں دادا پانی میں کود گیا میں نے آواز سنی تو چلائی۔ دادا ! غفور کو تھامو ، وہ درخت پر جھکولے لے رہا تھا ۔ نہ جانے نیند کا غلبہ تھا کہ کسی سانپ نے ڈس لیا تھا۔ وہ بھی غنودگی سے سیلاب کے پانی میں گرا تو بس پھر میں اسے دیکھ نہ سکی۔ تھوڑی دیر بعد ٹارچوں کی روشنی ہوئی، پھر زیادہ روشنی قریب آتی گئی اور کچھ فوجی وردیوں والے نوجوان آ گئے۔ جب ان کی آواز سنی تو میرے منہ سے سسکیاں نکلنے لگیں۔ انہوں نے روشنی او پر ڈالی اور دو جوانوں نے مجھے درخت سے اتار کر کچھ دور تک اٹھایا پھر ایک جگہ جو محفوظ تھی ، وہاں گاڑی میں بٹھا دیا۔ میں نے ان کو بتایا کہ میرا بھائی درخت سے گر گیا ہے اور دادا دادی بھی پانی میں ڈوب گئے ہیں۔ جہاں وہ مجھے بٹھا گئے تھے ، وہاں اور بھی بستی والے موجود تھے ، جن کو سیلابی پانی سے جوانوں نے نکالا تھا۔ وہ اپنا مشن پورا کرنے میں مصروف تھے اور میں اسی سوچ میں تھی کہ امی ابو کہاں ہوں گے ؟ دادا دادی کہاں ہوں گے ؟ اور میرا پیارا بھائی تو یقینا ڈوب گیا ہو گا۔ اگر زندہ ہوتا، تو یقینا اس کو بھی نکال لاتے۔

وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ ظالم سیلاب کا ریلا دادی، دادا کے ساتھ میرے بھائی کو بھی بہا کر لے گیا۔ وہ معصوم سا دیہاتی لڑکا ، جو سارا دن دریا کنارے مچھلی پکڑنے میں خوشی محسوس کرتا تھا اور پرندوں کو غلیل سے صرف اس لئے زخمی کرتا بھت تا کہ غربت میں گوشت کا مزہ چکھ سکے۔ ہمیشہ کے لئے نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ جب سیلاب اترا اور ہم وہاں گئے جہاں ہمارا گھر تھا، اس جگہ کیچڑ کے سوا کچھ نہ تھا۔ مکان اور سامان سب کچھ بہہ گیا تھا۔ امی ابو اس رات چاچا پیرو کے گھر رک گئے تھے ، اسی لئے زندہ سلامت مجھے واپس مل گئے ، ورنہ جانے میرا کیا حشر ہوتا۔ میرے پیارے دادا دادی تو اب کبھی واپس نہیں آئیں گے ، لیکن ان کا پیار ، ان کی یاد بہت ہمیں تڑپاتی ہے۔ خاص طور پر اپنے پیارے بھائی کو یاد کر کے رو دیتی ہوں۔ اماں ابا اب بھی بورے سیتے ہیں، تھیلے بناتے ہیں اور ان کو بیچ کر کھانے پینے کا سامان لاتے ہیں ۔ ابا نے ادھار لے کر دوبارہ بھینس خرید لی اور میں نے بھی مرغیاں پال لی ہیں۔ ماں نے اپنی کانوں کی بالیاں بیچ دیں اور بکری لے لی ہے۔ ہر شے تھوڑی تھوڑی محنت سے بن جاتی ہے۔ وقت کے ساتھ ضرورت کی چیزیں بن جاتی ہیں، اگر نہیں ملتا تو وہ شخص جو اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ اس دنیا سے جانے والے کبھی لوٹ کر نہیں آتے چاہے ، انہیں لاکھ آوازیں دیتے رہو۔ ابا نے اپنا کچا مکان دوبارہ بنا لیا۔ پہلے دو کمرے پھر چار دیواری اور جانوروں کا چھپر، ایک کونے میں کیاری ، نیم کا درخت ، بیری اور جامن کا درخت سب کچھ وہی ہے، بستی بھی وہی ، کچھ نہیں بدلا ہے لیکن میری ماں کہتی ہے۔ گھر اور جگ تو وہی ہے لیکن سیما دیکھو تو، پھر بھی سب کچھ بدل گیا ہے۔ میں دعا کرتی ہوں کہ خدا بارش دے کہ باران رحمت ہو، بادل بھی آئیں لیکن خدا کرے کبھی سیلاب نہ آئے۔ وہ سب کچھ بہا لے جاتا ہے ، خوشیاں بھی اور خوشحالی بھی بس اپنے پیچھے کھنڈرات چھوڑ جاتا ہے مکانوں کے اور یادوں کے، پھر کئی برس تک خوشحالی نہیں آتی۔ غریب کو زندگی گزارنے کے لیے تنکا تنکا جمع کرنے کے لئے کئی برس لگ جاتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ خدا سب کے ماں باپ، دادا، دادی اور بہن بھائیوں کو سلامت رکھے۔ سیلاب کسی کو بہا کرنے لے جائے کیونکہ چیزیں واپس مل جاتی ہیں مگر رشتے واپس نہیں ملتے۔ یہ کسی ایک انسان کی نہیں، میرے ہزاروں لاکھوں ہم وطنوں کی کہانی ہے کہ جن کو سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کبھی  ہر سال کبھی کچھ سالوں بعد ۔ اکثر وہ یہ قدرتی آفت جھیلتے ہیں لیکن آج بھی ان کو سیلابی مشکلات سے بچانے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات اور منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ خدا نے ہم غریبوں کو پیدا کیا اور صد شکر کہ سر چھپانے کو کچے گھر دیئے۔ بس خدا سے امید ہے کہ وہ ہی ہم کو آئندہ بھی بچائے گا اور غربت میں دو وقت کا اناج بھی دے گا، کیونکہ ہمار ا سب سے بڑا پالن ہار ہمارا رب ہی ہے۔

Latest Posts

Related POSTS