’کون فاخر…؟‘‘ سوال کیا گیا۔
’’سیٹھ ہارون کا لڑکا!‘‘ جواب ملا۔
’’دیکھئے مسٹر…!‘‘ عمران غصے سے بولا۔ ’’بے مقصد اور بے تکے سوالات کرکے ہمارا اور اپنا وقت ضائع مت کیجئے۔ ہم کسی سیٹھ ہارون سے واقف نہیں ہیں اور نہ ہی اس کے بیٹے سے…!‘‘
’’آپ کی بیگم تو واقف ہوں گی؟‘‘ اس بار طفیل نے پوچھا۔
’’انسپکٹر! آپ ایک شریف خاتون پر الزام تراشی کررہے ہیں۔‘‘ عمران واقعی غصے میں آگیا۔ ’’آپ کو تہذیب کے دائرے میں رہنا چاہئے۔‘‘
’’خاموش رہئے آپ…!‘‘ طفیل نے اسے جھڑکا اور شائستہ سے مخاطب ہوا۔ ’’آپ فاخر کے اپارٹمنٹ میں آخری بار کب گئی تھیں؟‘‘
’’کبھی نہیں گئی۔‘‘ شائستہ نے جواب دیا۔
’’آپ کو معلوم ہوگا کہ سٹی اسکوائر کہاں ہے؟‘‘
’’محکمۂ تعمیرات سے پوچھئے۔‘‘ وہ جل کر بولی۔
’’پلیز! الٹے سیدھے سوالات کرکے ہمیں ذہنی کوفت میں مبتلا مت کیجئے۔‘‘ عمران تلخ لہجے میں بولا۔ ’’ہم والدہ کی بیماری کی وجہ سے پہلے ہی پریشان ہیں۔‘‘
شعیب نے جیب سے تصویر نکال کر سامنے ڈال دی۔ ’’ذرا پہچانئے یہ کس کی تصویر ہے؟‘‘
وہ دونوں تصویر کو دیکھ کر اچھل پڑے۔ آنکھوں میں حیرت عود کر آئی اور دم بخود سے ہوگئے۔
’’حیرت انگیز مماثلت ہے۔‘‘ بالآخر شائستہ کے منہ سے نکلا۔ ’’مگر ایک نمایاں فرق ہے کہ اس کے بال ڈارک برائون ہیں۔‘‘
’’بال برائون نہیں ہیں خاتون! بلکہ برائون رنگ کی وگ استعمال کی گئی ہے۔‘‘
’’ہوگی۔‘‘ عمران نے یہ کہتے ہوئے تصویر ایک جانب کھسکا دی۔ ’’ہمیں اس معاملے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘‘
’’آپ کی تصویر نہیں ہے یہ…؟‘‘ سوال کرتے ہوئے طفیل نے شائستہ کے چہرے پر اپنی نظریں مرکوز کردیں۔
’’سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کو کیسے یقین دلائوں؟‘‘ شائستہ پریشان ہوکر بولی۔ ’’یہ ضرور ہے کہ تصویر مجھ سے بے حد مطابقت رکھتی ہے لیکن دنیا میں ایک سی شکل و صورت کے بہت سے لوگ ہوتے ہیں۔‘‘
’’زیادہ چکر چلانے کی کوشش نہ کریں خاتون!‘‘ انسپکٹر طفیل کو غصہ آگیا۔ ’’ہمیں یقین ہے کہ یہ تصویر تمہاری ہے۔ بتائو ہمیں کہ قتل کا کیا چکر ہے؟‘‘
’’تمیز سے بات کیجئے انسپکٹر!‘‘ شائستہ طیش میں آگئی۔ ’’وہ کوئی اور ہوگی جو قتل ہوئی ہے۔ مردے زندہ نہیں ہوا کرتے۔ عجیب بات ہے کہ آپ ہم پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور بضد ہیں کہ میں شیلا یا روزی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے غصے کے عالم میں اپنا پرس کھولا اور کوئی چیز نکال کر طفیل کی جانب اچھال دی۔ ’’دیکھ لیجئے میں کون ہوں۔‘‘
وہ شناختی کارڈ تھا۔ اسے دیکھ کر طفیل اور شعیب دونوں ہی لاجواب ہوگئے۔ نام کے خانے میں شائستہ عمران لکھا ہوا تھا۔ تصویر بھی تھی اور اس میں بال سیاہ تھے۔ شعیب نے دونوں تصویروں کا موازنہ کیا۔ بس بالوں کا فرق تھا، ورنہ دونوں ایک شخصیت معلوم ہوتی تھیں۔
شائستہ چبھتے ہوئے لہجے میں بولی۔ ’’اب یقین آگیا ہوگا کہ میں شائستہ عمران ہوں۔ آپ کی تصویر سے قطعی علیحدہ شخصیت اور یہ مماثلت محض اتفاقیہ ہے۔‘‘
’’بے شک!‘‘ شعیب کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔ ’’تاہم چند سوالات کرنے کی اجازت چاہوں گا۔‘‘
’’اب سوالات کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟‘‘ عمران ناگواری سے بولا۔ ’’میری بیوی نے اپنی شناخت کا ناقابل تردید ثبوت پیش کردیا ہے۔‘‘
شعیب اور طفیل کچھ نروس سے ہوکر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر شعیب نے کہا۔ ’’میں ایک فون کرنا چاہوں گا۔‘‘
’’کیوں نہیں۔‘‘ عمران نے ایک گوشے میں رکھے ہوئے ٹیلیفون کی طرف اشارہ کیا۔
شعیب نے نمبر ڈائل کئے۔ وہ ایک خاص مقصد کے تحت سیٹھ ہارون سے بات کرنا چاہتا تھا، مگر فون انگیج تھا۔ ریسیور رکھ کے وہ انتظار کرتا رہا۔ قریب ہی ٹیلیفون ڈائریکٹری رکھی ہوئی تھی اور اس کے اوپر ایک کتاب موجود تھی۔ شعیب نے یونہی وقت گزاری کے لئے کتاب کھول لی اور دوسرے ہی لمحے وہ چونک پڑا۔ وہ ایک مجموعۂ کلام تھا جسے ’’رودِخزاں‘‘ کے نام سے پیش کیا گیا تھا۔ شاعر کوئی غیر معروف یا غیر شناسا شخص نہیں تھا۔ وہ دیوان عابد نومی کا تھا اور پہلے صفحے پر اس کی تصویر بھی موجود تھی۔ اگرچہ کسی پڑھے لکھے گھر میں ایک شاعر کے مجموعۂ کلام کا موجود ہونا کوئی حیران کن بات نہیں تھی لیکن جانے کیوں شعیب کو لاشعوری طور پر کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ اس نے عمران ملک کی جانب دیکھا جو کچھ مضطرب سا نظر آرہا تھا۔
شعیب نے اس سے پوچھا۔ ’’آپ کو شاعری سے خاصا لگائو ہے؟‘‘
’’جی ہاں! ٹوٹے پھوٹے اشعار کہہ لیتا ہوں۔‘‘
’’اوہ…! تو گویا آپ بھی شاعر ہیں۔‘‘
’’یونہی سا…!‘‘
’’گڈ…! میں سمجھا تھا محض پڑھنے پڑھانے کا شوق ہے۔ آپ تو چھپے رستم نکلے۔ عابد نومی غالباً آپ کا پسندیدہ شاعر ہے؟‘‘
’’وہ اچھے شعر کہتا ہے، اس کی شاعری میں ایک رچائو ہے۔‘‘
’’آپ اس سے ذاتی طور پر تو واقف ہوں گے؟‘‘
’’تھوڑا بہت…!‘‘ عمران نے جواب دیا۔ ’’کبھی مشاعرے میں ملاقات ہوجاتی ہے۔ تعلقات وسیع نہیں ہیں۔‘‘
شعیب نے صفحہ پلٹا اور اس کی نظریں وہیں جم کر رہ گئیں۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا تجسس تھا اور ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ جس چیز نے اسے چونکنے پر مجبور کیا تھا، وہ انتساب تھا۔
ایک خوبصورت حاشیے کے درمیان نمایاں الفاظ میں درج تھا۔ ’’شائستہ کے نام جو وفا شعار ثابت نہ ہوسکی۔‘‘
شعیب نے شائستہ کی طرف دیکھا۔ وہ گھبرائی ہوئی اور چور نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
’’عابد نومی سے آپ کا گہرا تعلق معلوم ہوتا ہے؟‘‘ شعیب کے لہجے میں نشتر کی سی کاٹ تھی۔
’’میں اس سے زیادہ واقف نہیں ہوں۔‘‘ وہ خاصی پریشان ہوگئی تھی۔
’’مگر خاتون! کوئی شاعر یا ادیب اپنی کتاب کو کسی ایسی ہستی سے منسوب کرتا ہے جو اس کے قریب رہی ہو یا کسی قسم کا لگائو ہو۔‘‘
’’آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟‘‘ وہ فوراً ہی سنبھل کر تیز لہجے میں بولی۔
’’میرا مطلب ہے وہ آپ کا رشتہ دار ہے؟‘‘
’’نہیں! میں اپنے شوہر کے ساتھ ایک مشاعرے میں موجود تھی، وہاں عابد نومی سے ملاقات ہوئی۔ اس نے مجھے دیکھا اور نہ جانے کیوں یہ درخواست کی کہ اپنے زیرطبع مجموعۂ کلام کا انتساب میرے نام کرنا چاہتا ہے۔ میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔‘‘
’’درست…!‘‘ شعیب نے کہا۔ ’’لیکن مسٹر عمران! اس انتساب میں وفا اور جفا کا تذکرہ بڑے تیکھے انداز میں کیا گیا ہے جو اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ تعلقات خاص نوعیت کے اور دیرینہ ہیں۔‘‘
’’آپ نے پھر غیر شائستہ گفتگو شروع کردی۔‘‘ عمران خفگی کا اظہار کرتا ہوا بولا۔ ’’آپ میری بیوی پر تہمت عائد کررہے ہیں۔ یہ انتہائی غیر شریفانہ فعل ہے۔‘‘
طفیل، شعیب کا بازو تھام کر ایک گوشے میں لے گیا۔ وہ کچھ دیر باہم سرگوشی کرتے رہے، پھر طفیل، عمران کو مخاطب کرکے بولا۔ ’’ہمیں اس بات کا مکمل یقین ہوگیا ہے کہ آپ کی بیگم ہماری مطلوبہ شخصیت نہیں ہیں لیکن مماثلت چونکہ حیرت انگیز ہے، اس لئے آپ حضرات کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ چنانچہ ہماری تجویز ہے کہ آپ فی الحال سفر ملتوی کردیں۔‘‘
’’ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘ شائستہ تقریباً چیخ کر بولی۔ ’’آخر آپ کا مقصد کیا ہے؟‘‘
’’ہم آپ کی سلامتی کے خواہاں ہیں۔‘‘ شعیب نے کہا۔
’’ہمیں کسی تحفظ کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’لیکن ہمیں ہے۔‘‘ طفیل نے جواب دیا۔ ’’ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ معززین کی جان و مال کی حفاظت کریں۔ صورتحال کچھ ایسی ہے کہ آپ کا گھر سے نکلنا کسی طور مناسب نہیں۔‘‘
’’آپ اختیارات کا ناجائز استعمال کررہے ہیں انسپکٹر!‘‘ عمران نے گویا وارننگ دینے والے انداز میں کہا۔
’’جی نہیں، بلکہ سمجھتا ہوں کہ یہ ضروری ہوگیا ہے کہ یہاں مسلح سپاہیوں کی ڈیوٹی لگا دی جائے۔ مبادا دشمن گھر میں داخل ہوکر حملہ کرنے کی کوشش کرے۔‘‘
’’آپ ہمیں قید کردینا چاہتے ہیں؟‘‘ عمران کا پارہ چڑھ گیا۔ ’’میں کمشنر سے آپ کی شکایت کروں گا۔‘‘
’’تحمل سے کام لیجئے۔‘‘ شعیب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ’’ہم جو اقدام کررہے ہیں، وہ سراسر آپ کے مفاد میں ہے۔ یہ پیریڈ زیادہ طویل نہ ہوگا۔ ہم بڑی سرگرمی کے ساتھ مجرموں کو تلاش کریں گے۔‘‘
طفیل اتنی دیر میں ٹیلیفون کے پاس پہنچ چکا تھا۔ اس نے پولیس اسٹیشن فون کیا اور کوئی پندرہ منٹ بعد دو مسلح سپاہی وہاں پہنچ گئے۔ طفیل انہیں ہدایت دیتے ہوئے کہنے لگا۔ ’’صاحب اور بیگم صاحبہ خطرے میں ہیں، ان کا گھر میں رہنا بہت ضروری ہے اور یہ اٹیچی کیس بھی تمہاری تحویل میں ہے۔ ہماری واپسی تک اسے جوں کا توں رکھا رہنا چاہئے۔‘‘
٭…٭…٭
مین روڈ پر پہنچ کر طفیل، عابد نومی کے اپارٹمنٹ کی جانب جیپ کا رخ موڑنے لگا تو شعیب نے اسے روک دیا۔ ’’پہلے پولیس اسٹیشن چلو۔‘‘
’’وہ کس لئے…؟‘‘
’’میں چاہتا ہوں جب ہم شاعر کے یہاں پہنچیں تو ہتھکڑیاں ہمارے ساتھ ہوں۔‘‘
’’تمہارے خیال میں عابد نومی ہی قاتل ہے؟‘‘
’’کس کا قتل…؟‘‘ شعیب معنی خیز انداز میں مسکرایا۔ ’’روزی کا، شیلا کا یا شائستہ عمران کا…؟‘‘
دونوں ہنس دیئے۔
’’ٹھیک کہتے ہو۔‘‘ طفیل بولا۔ ’’کوئی سرا ملنے کی بجائے کیس لمحہ بہ لمحہ الجھتا جارہا ہے۔ اب شائستہ اور عابد نومی کے درمیان حیرت انگیز تعلق ظاہر ہوا ہے۔‘‘
’’یہ بہت اہم پوائنٹ تھا۔‘‘ شعیب پرجوش لہجے میں بولا۔ ’’یہ بات ذہن سے نکال کر ہماری تفتیش اسی نقطے پر مرکوز ہوجانی چاہئے کہ کیس کی کوئی کڑی یہیں سے ہاتھ آئے گی۔ رودخزاں‘‘ کا شائستہ کے نام انتساب، کوئی معمولی بات نہیں ہے۔‘‘
’’تم خواہ مخواہ خلوص و انکساری کا مجسمہ بنے رہے۔‘‘ طفیل نے کہا۔ ’’میں شائستہ اور عمران کے دو دو ہاتھ مار کے ذرا سی دیر میں سب کچھ اگلوا لیتا۔‘‘
’’نری جاہلیت ہوتی یہ…!‘‘ شعیب منہ بنا کر بولا۔ ’’عقل استعمال کرنے کی بجائے تشدد کی راہ اختیار کرنا تفتیشی عمل کا انتہائی گھٹیا پہلو ہے۔ یہ ہتھکڑیاں بھی عابد نومی کے ہاتھ میں ڈالنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ اس پر دہشت طاری کرکے سچ اگلوانے کی کوشش کی جائے گی۔ اسے ایک نفسیاتی حربہ سمجھ لو اور یہ کام تم کرو گے۔‘‘
’’سمجھا…!‘‘
طفیل نے سر ہلا کر کہا۔ ’’لیکن اس پہلو پر بھی غور کرو کہ شہر کے کسی پولیس اسٹیشن میں قتل یا گمشدگی کی کوئی رپورٹ تو درج نہیں کرائی گئی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہوں؟‘‘
’’جواد مرزا کے بیان کو کس خانے میں فٹ کرو گے؟‘‘ شعیب نے کہا۔ ’’اس نے خود لاش دیکھی ہے۔‘‘
’’جواد مرزا کے بیان کی کسی دوسرے شخص سے تصدیق نہیں ہوسکی۔‘‘ طفیل نے جواب دیا۔ ’’وہ ایک بزدل کاروباری آدمی ہے، خون دیکھ کر خوف زدہ ہوگیا ہوگا اور چشم تصور سے ایک لڑکی کی لاش دیکھ لی۔‘‘
’’چلو مان لیا۔‘‘ شعیب نے کہا۔ ’’لیکن اپارٹمنٹ میں خون کہاں سے آیا؟‘‘
’’یہ مسئلہ ٹیڑھا ہے۔‘‘ طفیل فکرمند لہجے میں بولا۔ ’’مگر ایک بات سمجھ میں آتی ہے خون کی بوتلیں بلڈ بینک سے حاصل کی گئی ہوں گی لہٰذا کمرے میں خون پھیلا کر قتل کے تاثرات پیدا کئے گئے۔ ہوسکتا ہے مجرم اس طرح کسی واقعہ کو کسی خاص مقصد کے تحت غلط رنگ دینے کی کوشش کررہا ہو۔‘‘
’’ویری گڈ…! تم خودبخود لائن پر آگئے۔‘‘ شعیب نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ ’’گویا کسی واقعے اور اس میں ملوث کسی مجرم کے وجود کو تم تسلیم کرتے ہو؟‘‘
’’میرا مطلب کچھ اور…!‘‘
’’خاموش ہوجائو یار…!‘‘ شعیب نے اسے پیار سے جھڑک دیا۔ ’’اگر تم اس موڈ میں ہو کہ کیس کو داخل دفتر کردو تو اس کی اجازت میں ہرگز نہیں دوں گا۔ کچھ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، مجھے بہرحال اپنے کلائنٹ کے لئے کام کرنا ہے اور مسروقہ موتیوں کے ہار کا سراغ لگانا ہے۔‘‘
جیپ اتنی دیر میں پولیس اسٹیشن پہنچ چکی تھی۔ طفیل نے ایک سپاہی کو ہتھکڑیوں کی جوڑی لانے کی ہدایت کی اور اس کے بعد وہ سٹی اسکوائر کی جانب روانہ ہوگئے۔
٭…٭…٭
عابد نومی کے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ طفیل اور شعیب مشترکہ طور پر پہلے ہی ایک لائحہ عمل ترتیب دے چکے تھے۔ چونکہ گھر میں عورتیں موجود نہیں تھیں، اسی لئے وہ دونوں آہستگی سے اندر داخل ہوگئے۔
عابد نومی اس وقت کچھ لکھنے میں مصروف تھا اور دروازے کی جانب اس کی پشت تھی۔ وہ کام میں منہمک تھا۔ شعیب دروازے پر رک گیا اور طفیل ہتھکڑیاں اٹھائے ہوئے خاموشی سے عابد کی پشت پر پہنچ گیا۔ اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر ہتھکڑیاں عابد نومی کے سامنے لہرائیں۔
عابد اچھل پڑا۔ اس نے تیزی سے گھوم کر دیکھا۔ چہرے پر دہشت کے آثار نمایاں ہوگئے۔ وہ خوف زدہ نظروں سے ہتھکڑیوں کو دیکھ رہا تھا۔ پھر سہمی ہوئی آواز میں بولا۔ ’’یہ کیا ہے… میں سمجھا نہیں؟‘‘
’’کوئی سمجھ میں نہ آنے والی بات ہی نہیں یہ…!‘‘ طفیل نے معنی خیز انداز میں کہا۔ ’’یہ آہنی زیور مجرموں کو پہنایا جاتا ہے۔ تم ان پر ایک نظم کہہ سکتے ہو مگر ذرا انقلابی قسم کی ہو۔‘‘
’’آپ واقعی ہتھکڑیوں پر نظم لکھوانا چاہتے ہیں؟‘‘ عابد نومی نے پوچھا۔
’’سردست ہم تمہارے ہاتھوں میں پہنانا چاہتے ہیں۔‘‘
’’کک… کیا؟‘‘ عابد کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ’’شش… شاید آپ حضرات مذاق کے موڈ میں ہیں۔‘‘
’’بے وقوف بنانے کی کوشش مت کرو۔‘‘ انسپکٹر طفیل نے سخت لہجے میں کہا۔ ’’تم نے ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے اور اب تک جھوٹ بولنے کے سوا کچھ اور نہیں کیا۔‘‘
’’شاید کسی نے میرے خلاف آپ کو بھڑکا دیا ہے۔‘‘ وہ نظریں نیچی کرتے ہوئے معصومیت سے بولا۔ ’’میں سچ کہتا ہوں کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔‘‘
شعیب دروازے سے ہٹ کر اس کے قریب پہنچ گیا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔ ’’مسٹر عابد! مجھے ایک بات کا جواب دو، شائستہ سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟‘‘
’’کون شائستہ…؟‘‘
’’میں شائستہ عمران کی بات کررہا ہوں۔‘‘
عابد نومی چابی بھری ڈول کی طرح پلکیں جھپکانے لگا۔ پھر جلدی سے بولا۔ ’’میرے مداحوں میں بہت سے لوگ ہیں، ہوسکتا ہے کوئی شائستہ نامی عورت بھی ہو۔‘‘
طفیل کوطیش آگیا۔ اس نے آگے بڑھ کر عابد نومی کا گریبان پکڑ لیا اور جلادی لہجے میں بولا۔ ’’میں تمہیں پھانسی کی سزا دلوائوں گا۔ تم قاتل ہو، تم نے فاخر کے اپارٹمنٹ میں ایک لڑکی کو ہلاک کیا ہے۔ ہمارے پاس اس واقعے کے چشم دید گواہ موجود ہیں۔ تم موت کی سزا سے بچ نہیں سکو گے۔‘‘
شعیب نے طفیل کو ایک جانب ہٹا دیا۔ عابد نومی کی بری حالت ہورہی تھی۔ اس کا چہرہ دہشت سے سفید پڑگیا تھا اور آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ کانپتی ہوئی آواز میں بولا۔ ’’میں… میں بے قصور ہوں، خدا کی قسم میں نے کسی کو قتل نہیں کیا۔‘‘
’’تم آسانی سے اقبال جرم نہیں کرو گے۔‘‘ طفیل غضبناک انداز میں آگے بڑھا۔ ’’میں تمہیں ہتھکڑیاں پہناتا ہوں، پولیس اسٹیشن پہنچ کر تم ریڈیو کی طرح فرفر بولنے لگو گے۔‘‘
سوچی سمجھی اسکیم کے مطابق شعیب پھر درمیان میں آگیا۔ ’’ٹھہرو…! ہتھکڑیاں ڈالنے سے پہلے عابد نومی کو ایک موقع اور دیتے ہیں۔‘‘ پھر وہ اس سے مخاطب ہوکر بولا۔ ’’جناب عابد نومی صاحب! آپ کے مؤقف میں کسی تبدیلی کا امکان ہے کہ آپ شائستہ عمران کو نہیں جانتے؟ میں اس شائستہ کی بات کررہا ہوں جس کے نام آپ نے اپنے شعری مجموعے ’’رود خزاں‘‘ کا انتساب کیا ہے۔‘‘
یہ سن کر عابد نومی کا منہ لٹک گیا۔ وہ چند لمحے خاموشی سے فرش کو گھورتا رہا۔ پھر شکست خوردہ لہجے میں بولا۔ ’’میرا خیال ہے کہ مجھے تمام واقعات بیان کرنا ہوں گے۔ دراصل یہ چار سال پہلے کی بات ہے جب میری ایک تقریب میں شائستہ صفدر سے ملاقات ہوئی تھی۔‘‘
’’شائستہ عمران ملک…!‘‘ شعیب نے تصحیح کی۔
’’نہیں! وہ اس وقت غیر شادی شدہ تھی۔‘‘ وہ بولا۔ ’’اور اتنی خوبصورت تھی کہ اشعار میں اس کا ذکر بلامبالغہ کیا جائے۔ ایک شاعر حسن کا شیدائی ہوتا ہے۔ وہ مجھے بہت اچھی لگی۔ اس نے میرے دل کے شہر میں ہلچل پیدا کردی۔ یہ حادثہ یکطرفہ نہیں تھا، دوسری جانب شائستہ بھی مجھ سے اور خصوصاً میری شاعری سے متاثر تھی۔ میرے خوبصورت اشعار اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر جاتے۔ میں شہزادہ گلفام تو نہیں، مگر اچھی صورت ضرور رکھتا تھا۔ نوجوان تھا، چنانچہ ملاقاتیں بڑھیں اور ہم نے شادی کرلی۔ شادی کے بعد میں نے محسوس کیاکہ اس میں وہ تمام صفات موجود نہیں ہیں جو ایک کنواری لڑکی میں ہونی چاہئیں۔ میں ایک وسیع النظر انسان ہوں۔ جوانی میں اکثر لغزش ہوجاتی ہے لہٰذا میں نے اسے معاف کردیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ راز افشا ہو اور اس کی زندگی تباہ ہوجائے۔ میں اس سے محبت کرتا تھا مگر شائستہ نے میرے ایثار کی کوئی قدر نہیں کی۔
کچھ دن سکون سے گزرے۔ پھر وہ جلد ہی میری مفلسی اور قلیل آمدنی سے گھبرا گئی۔ اسے عیش و عشرت اور جدید طرززندگی درکار تھی اور میں اس کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ مجھ سے شادی کرکے وہ پچھتا رہی ہے۔ اس کا مزاج دن بہ دن چڑچڑا ہوتا جارہا تھا جس کے سبب ہمارے درمیان اکثر ناچاقی رہنے لگی۔ میں نے سمجھایا کہ میں فنکار ہوں، سرمایہ دار نہیں ہوں اور یہ بات تمہیں پہلے سے معلوم تھی لیکن اس کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آئی۔ وہ عیش و عشرت کی دلدادہ تھی اور میں اس کی خواہشات کی تکمیل سے معذور تھا۔
اسی دوران میری ملاقات عمران سے ہوئی۔ وہ میرا مداح تھا اور خود بھی شاعری کا ذوق رکھتا تھا۔ وہ خاصا امیر آدمی تھا۔ اس کے پاس نئے ماڈل کی کار تھی اور ایک خوبصورت بنگلے میں اس کی رہائش تھی۔ معلوم ہوا کہ وہ امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس کرتا تھا۔ شعر و شاعری سے انتہائی رغبت رکھتا تھا۔ بڑے شاعروں میں پڑھنے کی بے حد تمنا رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں اس نے مجھ سے مدد کی درخواست کی۔ میں نے وضاحت چاہی تو اس نے خواہش ظاہر کی کہ میں اسے تازہ کلام لکھ کر دے دیا کروں جسے وہ اپنے نام سے مشاعروں میں پڑھ سکے۔ مجھے یہ بات کچھ اچھی معلوم نہیں ہوئی لیکن اس کے بے حد اصرار پر رضامند ہونا پڑا۔‘‘ عابد نومی یہاں تک بتا کر چند ثانیوں کے لئے رکا اور پھر کہنا شروع کیا۔ ’’جب کسی سے تعلقات استوار ہوتے ہیں تو اس کی شخصیت کے مختلف پہلو اور دیگر حالات کا علم رفتہ رفتہ ہونے لگتا ہے لہٰذا عمران کے بارے میں حیرت انگیز تفصیلات سامنے آئیں، معلوم ہوا کہ وہ اسمگلر ہے اور بڑی خوبصورتی سے خود کو پس منظر میں رکھتے ہوئے کاروبار جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ اسے شاعری سے لگائو کیوں ہے۔ درحقیقت وہ اپنا سوشل اسٹیٹس بنانا چاہتا تھا اور اپنی اصلیت کو مخفی رکھنے کے لئے قابل احترام شخصیت کے روپ میں خود کو اعلیٰ سوسائٹی سے متعارف کرانے کا خواہشمند تھا۔
چنانچہ وہ تیزی کے ساتھ اہم افراد سے تعلقات بڑھانے لگا۔ بڑے مشاعروں کے روح ورواں عموماً اعلیٰ افسران اور اہم شخصیتیں ہوتی ہیں لہٰذا اپنے مطلب کے افراد کو اس نے شیشے میں اتارنا شروع کردیا اور اپنی حیرت انگیز صلاحیتوں کے باعث ان سے خاطرخواہ فائدہ اٹھانے لگا۔
غزلوں کے حصول کے سلسلے میں وہ اکثر میرے گھر آتا رہتا تھا اور جب بھی آتا، وہ شائستہ کے لئے قیمتی تحائف لاتا۔ میں نے شروع میں تعرض نہیں کیا لیکن جب اس سلسلے میں باقاعدگی اور وسعت پیدا ہونے لگی تو میں چونکا اور شائستہ کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ بہت آگے نکل چکی تھی۔ عمران کی امارت کا رنگ اس پر بہت گہرا پڑ چکا تھا۔ وہ کار اور پھولے ہوئے بٹوے پر لٹو ہوگئی تھی۔ اگرچہ عمران عمر میں اس کے باپ کے برابر تھا، مگر شائستہ کو ایسی ہی اسامی کی تلاش تھی جو ضرورت سے زیادہ اس کی ناز برداری کرے اور قدموں میں دولت کا انبار لگا دے۔
دراصل دونوں ایک دوسرے کی ضرورت تھے۔ شائستہ کو دولت چاہئے تھی اور عمران کو شائستہ جیسی حسین عورت درکار تھی۔ چنانچہ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ خفیہ تعلقات قائم کرنا شروع کردیئے۔ یوں عمران میری عدم موجودگی میں بھی گھر آنے لگا۔ بالآخر نتیجہ یہ نکلا کہ شائستہ نے مجھ سے طلاق کا مطالبہ کردیا۔ عمران اسے ورغلانے میں کامیاب ہوگیا تھا یا پھر شائستہ نے اسے پھانس لیا تھا۔ بہرکیف میرا گھر تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا تھا اور جب حالات میرے کنٹرول سے باہر ہوگئے اور میں شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہوگیا تو نجات کی یہی راہ نظر آئی کہ طلاق دے دوں۔ اگرچہ میں اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا لیکن حالات کے تقاضوں سے مجبور ہوکر میں نے اسے فارغ کردیا۔‘‘
عابد نومی کچھ دیر کو خاموش ہوا۔ چند لمحوں بعد
متاسفانہ لہجے میں بولا۔ ’’آدمی خواہشات کا غلام ہے۔ ایک خواہش پایۂ تکمیل کو پہنچتی ہے تو دوسری سر ابھارتی ہے اور یہ سلسلہ سانس کی آخری ڈور تک جاری رہتا ہے۔ شائستہ، عمران سے شادی کرنے کے بعد دولت میں تو ضرور کھیلنے لگی تھی لیکن جلد ہی اسے ایک زبردست محرومی کا بھی احساس ہونے لگا۔ عمران ایک عمر رسیدہ شخص تھا۔ ایک بوڑھا اور ایک نوجوان لڑکی کا بھلا کیا میل! جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شائستہ ایک بار پھر بہکنے لگی، کیونکہ انہی دنوں اس کی ملاقات فاخر سے ہوگئی۔ فاخر ایک عیاش اور بگڑا ہوا نوجوان تھا۔ اسے دولت بھی ملی اور عورت بھی! وہ اس معاملے میں بڑی صلاحیتوں کا مالک تھا۔ شائستہ اس کی گرویدہ ہوگئی تھی۔‘‘
’’آپ کو ان تمام واقعات کا علم کیسے ہوا؟‘‘ شعیب نے دریافت کیا۔
’’جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ مجھے شائستہ سے جذباتی لگائو تھا۔ میں ایک شکست خوردہ شخص تھا اور ایک نامعلوم جذبے کی تسکین کے لئے اس کی ٹوہ میں لگا رہتا تھا۔ دراصل میں انتقام لینے کی فکر میں تھا لیکن آپ جانتے ہیں کہ میں ایک لکھنے پڑھنے والا آدمی ہوں۔ مجھے کشت و خون سے کوئی دلچسپی نہیں۔ قلم چلا سکتا ہوں، چاقو یا پستول نہیں…! مشاعروں میں لہک لہک کر غزل پڑھ سکتا ہوں، چیخ چیخ کر دشمن کو للکار نہیں سکتا۔ اس کے برعکس میرا پورا وجود انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔ میں شائستہ اور عمران دونوں سے انتقام لینے کے لئے بے چین تھا اور کوئی ایسا طریقہ سوچ رہا تھا جس پر عمل پیرا ہوکر انہیں شدید زک پہنچا سکوں اور خود قانون کی دسترس سے محفوظ بھی رہوں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ فاخر اور شائستہ کی ملاقات کب اور کہاں اور کن حالات میں ہوئی، تاہم میں فاخر کے اپارٹمنٹ میں اس کی آمدورفت سے واقف ہوچکا تھا۔ میں نے اپنی موجودگی کو ظاہر نہ کیا۔ میں دراصل کچھ عرصہ قبل ہی یہاں منتقل ہوا ہوں۔ شائستہ کو اس کا علم نہیں تھا کہ میں بھی یہاں رہائش پذیر ہوں۔ میں بہت دنوں تک ان کے تعلقات کی نوعیت پر غور کرتا رہا۔ اچانک میرے ذہن میں ایک منصوبہ آیا۔ منصوبہ اتنا مربوط اور بے داغ تھا کہ کسی کو مجھ پر شبہ نہیں ہوسکتا تھا۔ میں نے سوچا کہ مصلحت اسی میں ہے کہ موقع سے فائدہ اٹھایا جائے۔ چنانچہ گزشتہ شب جب شائستہ، فاخر کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوئی اور دروازہ بند ہوگیا تو میں نے عمران کو گمنام فون کیا اور تمام حالات سے آگاہ کردیا کہ اس کی بیوی ایک نوجوان سے ملاقاتیں کرتی پھر رہی ہے۔ میں جانتا تھا کہ عورت کے معاملے میں مرد کس قدر حساس واقع ہوا ہے، وہ فوراً لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔
بہرطور… میرے گمنام فون کرنے کے کوئی پندرہ بیس منٹ بعد ہی کمپائونڈ میں ایک کار کے رکنے کی آواز آئی اور میں چوکنا ہوگیا۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ میرا اپارٹمنٹ ایک ایسی جگہ پر واقع ہے کہ روشندان کے ذریعے زینہ اور راہداری میں ہونے والی سرگرمیاں بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھل گیا۔ دروازہ کس نے کھولا، یہ میں نہیں دیکھ سکا۔ چند سرگوشیوں کے بعد عمران اندر داخل ہوگیا۔ پھر فاخر کے اپارٹمنٹ سے تیز لہجے میں گفتگو کرنے کی آوازیں آنے لگیں۔ اس کے بعد اچانک نسوانی چیخ گونجی پھر ایک مردانہ کراہ سنائی دی اور اس کے بعد گہرا سکوت چھا گیا۔
میں روشندان سے نیچے آگیا اور سوچنے لگا کسی کا کام تمام ہوگیا ہے۔ دفعتاً دروازہ کھلنے اور پھر راہداری میں بھاری قدموں کی آوازیں بھی سنائی دیں۔ میں پھر روشندان پر پہنچا اور دوسرے ہی لمحے حیرت کے سمندر میں غرق ہوگیا۔ حیرت مجھے اس بات پر نہیں تھی کہ عمران کے کندھے پر ایک لاش تھی، جسے وہ یقینا ٹھکانے لگانے کے لئے لے جارہا تھا، بلکہ تعجب خیز واقعہ یہ تھا کہ میری توقع کے مطابق اس کے کندھے پر شائستہ کی لاش نہیں تھی بلکہ فاخر کا بے جان جسم تھا۔‘‘
’’فاخر کا جسم…؟‘‘ شعیب اور طفیل دونوں ہی چونک پڑے۔ ’’تمہاری بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘
’’اس وقت یہ بات میری سمجھ میں بھی نہیں آئی تھی۔‘‘ عابد نے جواب دیا۔ ’’لیکن جب غور کیا تو معاملہ صاف ہوگیا۔ کسی مصلحت کے تحت عمران نے فاخر کو ہلاک کردیا تھا۔‘‘
’’مگر وہ نسوانی چیخ…؟‘‘ طفیل نے غیر یقینی لہجے میں پوچھا۔
’’میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘ عابد بولا۔ ’’ممکن ہے فاخر کو قتل ہوتا دیکھ کر شائستہ خوف زدہ ہوگئی ہو اور بے ساختہ اس کی چیخ نکل گئی ہو۔‘‘
’’بات تو سمجھ میں آتی ہے۔‘‘ شعیب پرسوچ لہجے میں بولا۔ ’’خیر…! پھر کیا ہوا؟‘‘
عابد نومی نے سگریٹ جلائی اور بولا۔ ’’عمران، فاخر کی لاش اٹھائے ہوئے تیزی سے زینہ عبور کررہا تھا لیکن دو تین منٹ بعد ہی وہ پھر واپس آیا۔ اس وقت وہ خالی ہاتھ تھا اور بہت عجلت میں معلوم ہوتا تھا، جیسے کچھ بھول گیا ہو یا شائستہ سے کوئی خاص بات کہنا چاہتا ہو جو اس وقت تک اپارٹمنٹ کے اندر ہی تھی۔ عمران جلد ہی باہر آگیا اور تیزی کے ساتھ سیڑھیاں اترنے لگا۔ یہی وہ وقت تھا جب میرے پڑوسی جواد مرزا اوپر آتے ہوئے نظر آئے۔ عمران ان سے ٹکرا گیا اور رکے بغیر تیزی سے نکل گیا۔ اس کے بعد کے واقعات غالباً جواد مرزا نے بیان کردیئے ہوں گے۔‘‘
’’ہاں…! مگر جواد مرزا کا بیان ہے کہ اس نے کمرے میں ایک نوجوان لڑکی کی لاش دیکھی تھی، مزید برآں اس نے کمپائونڈ میں کسی کار کا تذکرہ نہیں کیا۔‘‘ شعیب نے کہا۔
’’ممکن ہے عمران نے اپنی کار احتیاط کے طور پر کسی تاریک گوشے میں کھڑی کی ہو۔‘‘ عابد نومی نے جواب دیا۔ ’’رہا لاش کا مسئلہ تو یہ میں خود حیران ہوں کہ اس نے کمرے میں کس لڑکی کی لاش دیکھی، تاہم اس واردات کا ایک اہم پہلو ابھی باقی ہے۔ عمران بیس منٹ بعد پھر فاخر کے اپارٹمنٹ میں پہنچا اور کچھ دیر بعد باہر نکلا تو شائستہ اس کے ساتھ تھی۔ وہ دونوں زینہ عبور کرکے تاریکی میں غائب ہوگئے۔ اس تمام کارروائی میں زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ صرف ہوا، دو بجے کے بعد آپ خود یہاں پہنچ گئے تھے۔‘‘
’’عجیب کیس ہے۔ کوئی جناتی چکر معلوم ہوتا ہے۔ ہر لمحے حالات پلٹ رہے ہیں۔‘‘ طفیل نے کہا۔ پھر وہ عابد نومی سے مخاطب ہوا۔ ’’اچھا اگر تمہارا بیان درست تسلیم کرلیا جائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ تم جرم کا اعتراف کررہے ہو۔ سارا منصوبہ تمہارا تھا اور بالواسطہ طور پر تم اس واردات میں ملوث ہو۔ تمہارا پلان یہ تھا کہ عمران فون سننے کے بعد فاخر کے اپارٹمنٹ پہنچے اور بدچلن بیوی کو قتل کرکے خود سولی پر چڑھ جائے۔ اس طرح تم ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے تھے۔ بالکل ٹھیک کہا ہے نا میں نے…؟‘‘
عابد نومی کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ وہ نیم جاں لہجے میں بولا۔ ’’اس میں میرے ارادے کا کوئی دخل نہیں تھا۔ یہ جو کچھ ہوا، لاشعوری طور پر ہوا۔‘‘
’’لاشعوری طور پر ہرگز نہیں ہوا۔‘‘ طفیل نے سخت لہجے میں کہا۔ ’’تم نے جان بوجھ کر اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ایسے حالات پیدا کئے کہ قتل کی واردات رونما ہو۔ یہ دوسری بات ہے کہ تمہارے ہدف کے بجائے ایک دوسرا شخص قتل ہوگیا۔ تم یقیناً عدالت میں اس پوائنٹ سے فائدہ اٹھا سکتے ہو لیکن فی الحال یہ ہتھکڑیاں…!‘‘
’’ٹھہرو…!‘‘ شعیب نے اسے روک دیا۔ ’’یہ ایک معزز آدمی ہے۔ ابھی ہتھکڑیاں نہ پہنائو۔ میں ضمانت دیتا ہوں کہ یہ فرار نہیں ہوگا۔‘‘ پھر وہ سرگوشی میں بولا۔ ’’اس طرح ہم اس کا اعتماد کھو بیٹھیں گے۔ علاوہ ازیں اسے سلطانی گواہ بھی بنایا جاسکتا ہے اور تم اصل مجرموں کو آسانی سے سزا دلا سکو گے۔‘‘
’’اوکے!‘‘ طفیل نے اس کی تجویز سے اتفاق کیا۔ ’’اب کیا ارادہ ہے؟‘‘
’’ہم شائستہ عمران کے گھر چل رہے ہیں۔‘‘ شعیب نے کہا۔ ’’اور عابد نومی ہمارے ساتھ ہوگا۔‘‘
’’تم کچھ دیر یہیں ٹھہر کر میرا انتظار کرو۔‘‘ طفیل بولا۔ ’’میں سرچ وارنٹ حاصل کرلوں۔ وہ چالاک آدمی ہے، جھگڑا کھڑا کرسکتا ہے۔‘‘
طفیل رخصت ہونے لگا تو عابد نے اسے آواز دے کر روک لیا۔ ’’غالباً آپ مجھے سلطانی گواہ بنانے کی بات کررہے تھے؟‘‘
’’اپنا مطلب بیان کرو۔‘‘ طفیل نے خشک لہجے میں کہا۔
’’اگر ایسا ہے تو قانون سے تعاون کرتے ہوئے میں واردات کے ناقابل تردید ثبوت پیش کرسکتا ہوں۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے۔ آگے بولو…؟‘‘
عابد نے الماری کھولی اور ایک کیمرہ نکال لیا اور طفیل کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔ ’’اس آٹومیٹک کیمرے میں واردات کے تمام اہم پوز موجود ہیں۔‘‘
’’ویری گڈ!‘‘ طفیل نے پرجوش انداز میں کہا۔ ’’تم تو بہت کام کے آدمی نکلے۔‘‘ پھر وہ شعیب سے مخاطب ہوا۔ ’’میں واپسی میں ان کے پازیٹو بھی نکلواتا لائوں گا۔ ان تصاویر کی موجودگی میں مسٹر عابد نومی کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔‘‘
٭…٭…٭
اس بار شائستہ نے طفیل اور شعیب کا بڑی دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کیا تھا۔ اس نے خوب میک اَپ کیا ہوا تھا۔ یوں بھی وہ بلاکی حسین تھی اور اس پر طرہ یہ کہ لباس بھی دیدہ زیب پہن رکھا تھا۔
’’اندر تشریف لے آیئے۔‘‘ اس نے دلفریب مسکراہٹ سے کہا۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر اس کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آگئے۔ عمران موجود نہیں تھا۔ شعیب نے استفسار کیا تو وہ کہنے لگی۔ ’’ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے پلیز…! ان کو زحمت نہ دیں۔ میں آپ کو مطمئن کرسکتی ہوں۔‘‘
’’عمران صاحب کی موجودگی ضروری ہے خاتون! براہ کرم انہیں کچھ دیر کے لئے بلا لیجئے۔‘‘
وہ بادل نخواستہ اٹھی اور بیڈ روم میں چلی گئی۔ واپس آئی تو عمران اس کے ساتھ تھا۔ وہ واقعی پژمردہ اور تھکا تھکا سا نظر آرہا تھا۔ شعیب کی تجربہ کار نظروں نے تاڑ لیا کہ وہ بیمار نہیں خوف زدہ ہے۔ اس نے زبردستی مسکرانے کی کوشش کی اور صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔ ’’میں دراصل والدہ کی بیماری کے سلسلے میں بے حد پریشان ہوں۔ غالباً اب ہمیں سفر کرنے کی اجازت ہوگی؟ شاید مجرموں کو آپ نے پکڑ لیا ہوگا؟‘‘
’’ہم مجرموں کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔‘‘ شعیب نے کہا۔ ’’انسپکٹر طفیل اگر اکیلا ہوتا تو مجرموں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال چکا ہوتا، لیکن میں مجرم پر اس وقت ہاتھ ڈالتا ہوں جب اسے باور کرا دوں کہ وہ مجرم ہے۔‘‘
’’جی… جی…! ایسا ہی ہونا چاہئے۔‘‘ عمران کو اپنے لہجے پر قابو نہ رہا تھا۔
’’ایسا ہی ہوگا۔‘‘ شعیب نے معنی خیز انداز
’آپ میرے ایک سوال کا جواب دے دیجئے۔‘‘
’’ہاں… ہاں پوچھئے۔‘‘
’’مسٹر عمران!‘‘ شعیب اس کے اور قریب ہوگیا۔ ’’تم نے فاخر کو قتل کرکے اس کی لاش کہاں چھپائی ہے؟‘‘
اس سوال پر عمران پر چند لمحوں کے لئے سکتہ طاری ہوگیا، لیکن اگلے ہی لمحے وہ بوکھلا کر اٹھ کھڑا ہوا اور تیز لہجے میں بولا۔ ’’یہ کیا مذاق ہے۔ میں کسی فاخر کو نہیں جانتا۔ آج آپ لوگوں نے ایک اور شوشا چھوڑ دیا۔‘‘
’’غالباً میں اپنی بات واضح طور پر نہیں بیان کرسکا۔‘‘ شعیب معصومیت سے بولا۔ ’’میں سیٹھ ہارون کے بیٹے فاخر کی لاش کے بارے میں پوچھ رہا ہوں جو آپ کی بیوی کا دوست تھا اور جسے آپ دونوں نے مل کر قتل کردیا۔ مسٹر عمران! اس کے پاس موتیوں کا ہار بھی تھا اور اس قیمتی ہار کے بارے میں آپ یقیناً پوری واقفیت رکھتے ہوں گے؟‘‘
’’آپ لوگوں کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔‘‘ عمران غضب کی اداکاری کررہا تھا۔ ’’آپ پہلے میری بیوی کو روزی، شیلا اور پتا نہیں کیا کیا ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے اور آج مجھے قاتل گردان رہے ہیں۔‘‘
انسپکٹر طفیل، عمران کی ہٹ دھرمی برداشت نہ کرسکا۔ الٹے ہاتھ کا اس نے ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر مارا نتیجے میں عمران کا نچلا ہونٹ پھٹ گیا اور خون بہنے لگا۔
’’یہ… یہ ایک شریف انسان کے ساتھ انتہائی وحشت ناک حرکت ہے۔‘‘ شائستہ کہتی ہوئی طفیل کی طرف بڑھی۔ ’’آپ میرے شوہر پر قتل کا بے بنیاد الزام کیوں عائد کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ثبوت ہے آپ کے پاس…؟‘‘
انسپکٹر طفیل، شائستہ کے بھی ایک تھپڑ مارنا چاہتا تھا مگر شعیب نے روک دیا۔ ’’عمران کو ثبوت دکھائو۔‘‘
طفیل نے پوسٹ کارڈ سائز کی تصویر ان کے سامنے کردی۔ تصویر دیکھتے ہی چہرہ فق ہوگیا اور آنکھوں سے دہشت جھانکنے لگی۔
’’یہ… یہ… یہ تصویر!‘‘ شائستہ اس سے آگے نہ بول سکی۔
’’یہ تصویر گزشتہ شب عابد نومی کے آٹومیٹک کیمرے سے اتاری گئی ہے۔‘‘ طفیل نے بالآخر وضاحت کردی۔ ’’کہہ دو کہ یہ تمہارے شوہر کی تصویر نہیں ہے اور یہ بھی اس کا کوئی ہم شکل ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار کردو کہ عابد نومی سے واقف نہیں ہو اور مزید یہ کہ وہ تمہارا سابقہ شوہر نہیں ہے؟‘‘
وہ دونوں میاں، بیوی ابھی تک تصویر کو حیرت و خوف سے دیکھ رہے تھے، جس میں عمران، فاخر کی لاش کو کاندھے پر اٹھائے ہوئے تھا۔ طفیل نے کچھ اور تصویریں نکالیں اور ان دونوں کے جسم پسینے میں ڈوب گئے، ہاتھ کانپنے لگے۔
’’مسٹر عمران! تمہاری بہتری اسی میں ہی ہے کہ سچ اگل دو۔‘‘ طفیل نے کرخت لہجے میں کہا۔ ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارا جسم تشدد برداشت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھو کہ عابد نومی کی زبانی بہت سی تفصیلات پہلے ہی ہمیں معلوم ہوچکی ہیں۔‘‘
عمران برسوں کا بیمار اور خوف زدہ نظر آنے لگا۔ شائستہ بھی ٹوٹ پھوٹ گئی۔ وہ دونوں بے جان ہوکر صوفے پر گرگئے۔
پھر عمران نے اسی میں عافیت سمجھی کہ طفیل کی ہدایت پر عمل کرے، لہٰذا اس نے بھرائی ہوئی سی آواز میں کہنا شروع کیا۔ ’’میرا منصوبہ جتنا سادہ تھا، اتنا ہی مربوط اور جاندار…! درحقیقت میں پہلے بزنس کی آڑ میں غیر قانونی دھندا کیا کرتا تھا اور جلد ہی اینٹی کرپشن والوں کی گرفت میں آگیا۔ کیس لڑتے لڑتے میں اپنا سب کچھ گنوا بیٹھا۔ شائستہ میرے ساتھ تھی۔ ہم جیل جانے سے تو بچ گئے، مگر کنگال ہوکر رہ گئے۔ انہی دنوں شائستہ نے سیٹھ ہارون کے ہاں نوکری کرلی لیکن تھوڑے ہی دنوں بعد شائستہ نے حالات بدلنے کا ایک موقع تلاش کرلیا۔ اس نے نوکری چھوڑ دی اور روزی بن کر ایک ڈارک برائون وگ لگا کر دوبارہ سیٹھ ہارون کے ہاں ملازمت کرلی۔ دراصل اس کی نگاہ اس کی بیوی کے قیمتی ہار پر تھی، وہ اسے اڑانا چاہتی تھی۔ میں بیمار رہنے لگا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ شائستہ کیا گل کھلاتی پھر رہی ہے۔ پھر میں بھی حادثاتی طور پر اس جرم میں شریک ہوگیا۔ ہوا یوں کہ مجھے کسی نے گمنام کال کی (عابد نومی نے) کہ میری بیوی سٹی اسکوائر کے ایک اپارٹمنٹ میں اجنبی مرد کے ساتھ موجود ہے۔ میں مجرمانہ ذہن کا ضرور ہوں مگر بے غیرت نہیں۔ غصے میں اٹھا اور اس اپارٹمنٹ میں پہنچا تو وہاں معاملہ کچھ اور تھا۔ وہاں میری بیوی شائستہ اور فاخر کے درمیان ہار پر ففٹی ففٹی پر سودے بازی چل رہی تھی۔ شائستہ اور فاخر نے مل کر یہ ہار اڑانے کی سازش تیار کی تھی جسے فاخر نے کالے دستانے پہن کر سیٹھ ہارون کی بیوی (یعنی اپنی سوتیلی ماں) کے گلے سے اتار لیا۔ فاخر کو اپنے باپ پر پہلے ہی غصہ تھا کہ اس نے اسے عاق کردیا تھا اور پیسے بھی نہیں دیتا تھا۔ میرے ذہن میں ایک منصوبہ آیا کہ کیوں نا فاخر کو ہی قتل کرکے ہار اڑا لیا جائے۔ میں نے فاخر کو قتل کردیا۔ شائستہ اس گھنائونے منصوبے میں میرے ساتھ شامل تھی۔ اسی دوران مجھے کسی کے قدموں کی چاپ زینے میں سنائی دی۔ لاش ٹھکانے لگانے سے پہلے میں نے دروازے کی جھری سے جھانکا تو ایک شخص (جواد مرزا) کسی کو یہ کہتے ہوئے نیچے اتر رہا تھا کہ ’’میں ابھی نیچے سے سگریٹ لے کر منٹوں میں آتا ہوں‘‘ تو میرے ذہن میں فوراً ہی پولیس کو بھٹکانے کا ایک اور منصوبہ آیا، مجھے پتا تھا کہ یہ شخص (جواد مرزا) دوبارہ ضرور اوپر آئے گا۔ سوئے اتفاق کسی کام سے مجھے بھی نیچے اترنا پڑا تھا تو میں اس سے ٹکرا گیا، مگر اس سے پہلے میں شائستہ سے یہ کہہ چکا تھا کہ یہ آدمی (جواد مرزا) دوبارہ اوپر آئے تو تم صوفے پر اس طرح لیٹنا کہ وہ تمہیں مقتول سمجھے اور دروازہ بھی تھوڑا کھلا رکھنا تاکہ لوگ یہی سمجھیں کہ فاخر، شائستہ کو قتل کرکے فرار ہوگیا ہے۔‘‘
’’منصوبہ تو تمہارا شاندار تھا۔‘‘ طفیل بولا۔ ’’اب یہ بتائو فاخر کی لاش کہاں ہے؟‘‘
’’بلاشرکت غیرے ہار حاصل کرنے کے بعد ہم دونوں نے ایک غیر ملکی ایئرلائن کے ذریعے ملک سے فرار ہونے کا پروگرام بنایا اور آپ سے والدہ کی بیماری کا جھوٹ بولا۔‘‘ عمران نے لاش کے بارے میں بتانے سے پہلے اپنی بات پوری کی اور آخر میں بتایا کہ ہار اس کے اٹیچی کیس اور فاخر کی لاش ایک قبرستان کی ٹوٹی شکستہ قبر میں موجود ہے۔
ساری کہانی سننے کے بعد طفیل اور شعیب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر اپنے سر کو جنبش دی تھی۔
٭…٭…٭
سیٹھ ہارون کو اپنے ناخلف بیٹے کی موت کا دکھ تھا۔ جب شعیب موتیوں کا قیمتی ہار اسے دینے پہنچا تو وہ بھرائی آواز میں بولا۔ ’’میں نے اپنے بیٹے کو اس لئے عاق کیا تھا کہ وہ سدھر جائے اور غلط سوسائٹی اور برے کاموں سے باز آجائے، مگر وہ تو جرم کی دلدل میں پھنستا ہی چلا گیا۔‘‘
اسی وقت مسز ہارون خوشی خوشی ان کے پاس آئی اور ہار برآمد ہونے پر وہ شعیب کا شکریہ ادا کرنے لگی۔ اسے اپنے شوہر سیٹھ ہارون کی بھیگی ہوئی آنکھوں اور اس کے دکھ سے کوئی غرض نہ تھی۔ (ختم شد)