Friday, April 19, 2024

Haar Jeet | Episode 1

Haar Jeet | Episode 1
بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا… کرایے داروں نے کبھی خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا تھا وہ کل ان مکانوں کے مالک بن جائیں گے جن میں رہ رہے ہیں۔ نصیب جاگتے دیر کہاں لگتی ہے۔
بات صرف اتنی سی تھی کہ جائداد کی خرید و فروخت کی ایجنسی عرصے سے بند تھی۔ اس کی وجہ اس محلے کا ہر شخص جانتا تھا کہ قربان اسٹیٹ ایجنسی کے مالک سخاوت بیگ کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے اور اب اس کی رحم کی اپیل ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہے۔ اس درخواست کا فیصلہ ہونے میں برسوں لگیں گے کیونکہ عدالت میں ہزاروں کیس تھے۔
قصہ موجودہ صورتحال کا یہ تھا کہ سخاوت بیگ نے اپنے بزنس پارٹنر کو منافع کے تنازع پر مشتعل ہوکر قتل کردیا تھا۔ اس نے یہ دکان ایک بیوہ عورت سے شادی کا سبز باغ دکھا کر کرائے پر لی تھی جو دو برس بعد شادی سے ایک ماہ قبل بس کے حادثے میں اللہ کو پیاری ہوگئی تھی۔
اس کا اکلوتا بیٹا غیر قانونی طور پر امریکا میں بس گیا تھا۔ وہ ترکے میں ملنے والے مکان اور دو دکانوں کا حق ملکیت حاصل کرنے کیلئے واپس آکر قانونی کارروائی کے چکر میں پڑنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ ہر ہفتے سیکڑوں ڈالر کما رہا تھا اور اس کا بینک بیلنس اتنا تھا کہ یہ جائداد کوڑیوں کے برابر بھی نہیں رہی تھی۔ اب عملاً مکانوں اور دکانوں پر کرائے دار کسی مافیا کی طرح قابض تھے اور انہیں بے دخل کرنے والا کوئی مائی کا لال دور دور تک نظر نہیں آتا تھا اس کے باوجود وہ صدق دل سے دعا مانگتے رہتے تھے کہ قاتل کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔
دوسری دکان میں ایک چلتی ہوئی بیکری تھی جس کی آمدنی محلے کی دوسری بیکریوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھی۔ اس کا مالک چاہتا تھا کہ اسے اپنا کاروبار بڑھانے کیلئے اتنی ہی جگہ اور مل جائے۔ اگر مکان کی کرایےدارنی مطلقہ یا بیوہ بھلے کئی بچوں کی ماں ہوتی اور وہ بھی تجرد کی زندگی گزار رہا ہوتا تو شرعی بندھن کا معاہدہ کرلیتا البتہ اس نے مکان کے مکین سے ایک شریفانہ معاہدہ کررکھا تھا کہ جب وہ بند دکان پر کسی مافیا کی طرح قبضہ کرے تو وہ قیمت کا نصف اسے بھی دے گا تاکہ وہ مکان کی دوسری منزل کی تعمیر مکمل کرکے اس کے ہاں جو ڈیڑھ دو برس میں آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، ان کے مستقبل کے پروگرام پر عمل کرسکے۔
یہی وجہ تھی کہ جب ایک دن لب شیریں بیکری کے مالک شیر بہادر نے کچھ لوگوں کو دکان کا زنگ آلود تالا توڑتے دیکھا تو وہ متفکر اور پریشان ہوکر باہر آیا۔ قربان اسٹیٹ ایجنسی کا بورڈ اس وقت تک اتارا جا چکا تھا اور دو گینڈے نما لوگ اس کی جگہ شاندار پراپرٹی کا نیا اور خوبصورت بورڈ اس طرح نصب کررہے تھے جیسے وہ کسی دوشیزہ کا مجسمہ ہو۔دو زیادہ خوفناک قسم کے گینڈے دکان کے اندر قبضہ جمانے کی کارروائی میں مصروف تھے جیسے اپنے باپ کا مال ہو۔
شیر بہادر کسی شیر کی طرح بے خوفی سے اندر داخل ہوکر شیر کی طرح دھاڑا۔ ’’کون ہو تم لوگ…؟ اس دکان میں تالا توڑ کے کیسے گھس گئے؟‘‘
اس سے دگنی جسامت کے شخص نے غرا کے جواب دیا۔ ’’چھت توڑ کے نہیں، دکان کا تالا توڑ کر اندر داخل ہوئے ہیں۔‘‘
دوسرا شخص جو قدرے زمانہ شناس تھا، اس نے مہذبانہ لہجے میں کہا۔ ’’شیر بہادر صاحب…! ہم نے یہ دکان سخاوت بیگ سے خرید لی ہے۔‘‘
’’مگر وہ تو جیل میں ہے، سبھی جانتے ہیں!‘‘
’’ہاں…! چونکہ اسے سپریم کورٹ میں رحم کی درخواست دائر کرنا تھی اور وکیل کی فیس کیلئے اسے رقم کی ضرورت تھی، اس نے یہ دکان ہمیں بیچ دی ۔‘‘
’’دو لاکھ میں سمجھے!‘‘ پہلا شخص غرا کر بولا۔ ’’مفت میں نہیں … سمجھے!‘‘
’’لیکن وہ مالک تو نہیں تھا اس دکان کا…؟‘‘ شیر بہادر نے ایک قانونی نکتہ اٹھایا۔
’’ہاں…! مگر اس نے ہمیں قبضہ دے دیا۔ اب یہ دکان ہماری ملکیت ہے۔‘‘ دوسرے نے کہا۔
’’تمہیں اپنی ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں۔ جائو گھر جاکر ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھو۔‘‘ پہلے شخص نے کہا۔ ’’اگر تمہارے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہا ہے تو تھانے جائو… داروغہ جی تمہیں چورن دے دیں گے۔‘‘
شیر بہادر کو تکلیف ضرور تھی، اس سے زیادہ تکلیف تو پیچھے والے مکان میں رہنے والے شاہ جی کو تھی جسے اپنا منصوبہ خاک میں ملتا نظر آیا تھا جو جانے کب سے اس کے دماغ میں پک رہا تھا۔
پھر وہ اتفاق رائے سے حق اور انصاف کے حصول کی خاطر تھانے گئے جہاں رات بھر ان کی روایتی خاطرمدارات ہوئی۔ وہ نہ صرف رقم بلکہ دستی گھڑی اور موبائل سے بھی محروم کردیئے گئے۔ انہوں نے کچھ بولنا چاہا تو چہرے کا جغرافیہ ایسا بگاڑاکہ گھر والوں نے پہلے تو پہچاننے سے انکار کردیا پھر آواز سے شناخت کرلیا۔
صبح لب شیریں بیکری کے مالک شیر بہادر کی بیوی آنکھوں میں آنسو بھرے اور ہونٹوں پر کڑواہٹ لئے شاندار پراپرٹی کے دفتر میں نقش فریادی بن کے حاضر ہوئی تو اس کے ناجائز قابضین گلاس ٹاپ میزوں کے پیچھے گھومنے والی کرسیوں پر فرعونوں کے انداز میں اکڑ کے بیٹھے تھے۔ ان کی رعونت اور فرعونیت کا دبدبہ گاہک پر اثرانداز ہوتا تھا۔
ایک ہفتے میں انہوں نے دکان میں رنگ و روغن کرکے اسے کسی نئی نویلی دلہن کی طرح بنا دیا۔ دکان میں بجلی اور ٹیلیفون کنکشن بھی بحال ہوچکا تھا۔ اے سی کنڈا ڈال کے چلایا جارہا تھا۔ اس کے بڑے بڑے شفاف شیشوں کو گرے کلر کی پلاسٹک شیٹ لگا کر ڈارک بنا دیا گیا تھا۔ اب اندر سے باہر کا منظر ایسے نظر آتا جیسے کوئی دھوپ کا چشمہ لگا کے دیکھے تو تیز چمکیلی دھوپ کسی ابر آلود آسمان کی طرح نظر آتی ہے۔ باہر سے کوئی بھی دکان کے اندر دیکھ نہیں سکتا تھا۔
اندر بیٹھے ہوئے دونوں افراد بظاہر نوجوان دکھائی دیتے تھے لیکن نوجوان نہ تھے، جوان تھے۔ ان کی عمریں تیس اور پینتیس برس کے درمیان تھیں۔ وہ جسمانی طور پر صحت مند، مضبوط اور توانا تھے۔ ایک نے چست رنگین تصویر والی ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔ وہ چیونگم چبائے جارہا تھا۔ دوسرے کی بلیک شرٹ تھی اور وہ سگریٹ پی رہا تھا۔
ان میں سے چیونگم چبانے والا شخص زیادہ رقیق القلب ہوگیا۔ اس نے خاتون کو عزت سے بٹھایا اور فریج سے کولڈڈرنک نکال کے اس کے سامنے رکھی۔
بلیک شرٹ والے نے بے زاری سے کہا۔ ’’بی بی…! تھانے میں تو یہی ہوتا آیا ہے، شیر بہادر وہاں کیا سوچ کر گیا تھا…؟‘‘
چیونگم چبانے والے نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’یار رمیز! ہم خاتون کی مدد کرسکتےہیں۔ کتنی زیادتی کی بات ہے کہ وہ دس ہزار مانگ رہے ہیں۔‘‘
بلیک شرٹ والے نے سگریٹ کا کش لے کر اپنے ساتھی کو ناگواری سے دیکھا اور بولا۔ ’’زبیر صاحب…! اگر آپ کو بہت ہمدردی ہے تو تھانے والوں کا مطالبہ آنکھیں بند کرکے پورا کردیں۔‘‘
زبیر نے ہاتھ بڑھا کر کریڈل سے ریسیور اٹھا لیا اور کہا۔ ’’میں بات کرتا ہوں ایس پی صاحب سے کہ وہ تھانے میں فون کردیں۔ آخر یہ لوگ ہمارے پڑوسی ہیں، ان کی خدمت ہمارا فرض ہے۔‘‘
رمیز ایک دوربین سے باہر دیکھنے لگا۔ شیر بہادر کی بیوی کو یہ بات بڑی عجیب لگی۔ باہر کا منظر تو دوربین کے بغیر بھی صاف نظر آرہا تھا۔دو لڑکیاں جو شرٹ، جینز میں تھیں، سبک خرامی سے گزر رہی تھیں۔ ان کی بے حجابی سے مرد محظوظ ہورہے تھے۔ کیا رمیز کی نظر اتنی کمزور ہے کہ اسے چشمے کی بجائے دوربین سے باہر دیکھنا پڑ رہا ہے؟ کیا وہ یہ منظر بالکل قریب سے دیکھنا چاہتا ہے؟
زبیر نے فون رکھ کر فاتحانہ انداز میں بیگم شیر بہادر کو دیکھا اور بولا۔ ’’لو جی آپ کا کام ہوگیا۔ ابھی آجاتا ہے آپ کا شوہر… اور کوئی خدمت ہمارے لائق؟ اور ہاں! اس سے کہیں کہ تھانے جانے سے بہتر ہے کہ اپنے پیروں پر
کلہاڑی مار لے۔‘‘
اس کے لب شیریں پر تبسم کی پتیاں بکھر گئیں اور عارض گلاب ہوگئے۔ وہ مترنم آواز میں بولی۔ ’’آپ کی بڑی مہربانی… کس منہ سے شکریہ ادا کروں…؟‘‘
’’ویسے آپ برا نہ مانیں تو ایک بات عرض کروں؟ آپ کا شوہر بیوی کے معاملے میں بڑا خوش قسمت ہے کہ اسے آپ جیسی بیوی ملی۔ اس کا آپ کا کوئی میل نہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے بے جوڑ جوڑے بہت نظر آتے ہیں۔ گستاخی معاف! پہلوؤِ حور میں لنگور… خدا کی قدرت!‘‘
رمیز نے کھنکار کے گلا صاف کیا۔ زبیر شاعری پر اتر آیا تھا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس کے سراپے کی تعریف کرنے لگے۔ اس نے کہا۔ ’’زبیر یار…! اپنی باجی کو جانے دو، انہیں اور بھی کام ہیں۔‘‘
وہ شعلہ مجسم اپنی خوشبو چھوڑ گئی۔ زبیر نے ایک سانس لی تو اس کے سینے میں سرد آہوں کا غبار بھر گیا۔ ’’واہ کیا پرکشش عورت ہے۔ نوجوان دوشیزائوں کا حسن بھی اس کے سامنے ماند پڑ جائے۔ لب شیریں بیکری کی شیریں!‘‘
رمیز نے اسے دوربین تھمائی۔ ’’وہ ابھی ابھی گاڑی میں کہیں سے آیا ہے۔ گاڑی دھو رہا ہے، دھول مٹی سے اٹی ہوئی ہے۔‘‘
زبیر نے دوربین لے کر سامنے دیکھا۔ چند لمحوں تک دیکھتا رہا۔ پھر بولا۔ ’’یار! مجھے تو کچھ اور ہی نظر آرہا ہے۔ اس نے سرخ بغیر آستینوں کی شرٹ پہن رکھی ہے۔ اس کی سڈول مرمریں بانہیں خنجروں کی طرح چمک رہی ہیں۔‘‘
رمیز نے فوراً ہاتھ مار کے دوربین کو نیچے کیا اور غصے سے بولا۔ ’’گدھے کے بچے…! کہاں جاتی ہے تیری نظر…! اب ذرا غور سے دیکھ۔‘‘
’’چلو دیکھ لیا غور سے…!‘‘
’’شک کی کوئی گنجائش ہے؟‘‘
زبیر نے سر ہلایا۔ ’’میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ یہ سہیل چوہدری نہیں ہے، اس سے ملتا جلتا کوئی شخص ہے۔‘‘
رمیز نے دوربین واپس لے لی اور چند ساعتوں تک اسے گھورتا رہا۔ ’’مگر یار! یہ مشابہت غیر معمولی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے جڑواں بھائی ہے۔‘‘
زبیر پنسل اٹھا کے کاغذ پر لکیریں کھینچنے لگا تو ایک عورت کا خاکہ سا بن گیا۔ اس کا چہرہ بناتے ہوئے بولا۔ ’’تم فرق کو نظرانداز کررہے ہو یار…! سہیل چوہدری کا وزن اس سے دگنا تھا۔ اس کی توند پر مٹکے کا دھوکا ہوتا تھا۔ کمر بہت زیادہ موٹی تھی اور وہ دو قدم چلتا تو اس کی سانس پھول جاتی تھی۔‘‘
’’اتنے عرصے میں کوئی بھی اپنا وزن بآسانی آدھا کرسکتا ہے۔ ورزش اور غذا میں احتیاط کرکے! جیسا کہ میرے علم میں ہے کہ یہ بلاناغہ ساحل سمندر پر جاگنگ کیلئے جاتا ہے۔ ریت پر دوڑنے میں بڑی مشقت ہوتی ہے… خاصی چربی کم ہوجاتی ہے۔‘‘
’’سہیل چوہدری ایک فرلانگ دوڑتا تو بری طرح ہانپ جاتا تھا جیسے ایک میل دوڑتا ہوا آرہا ہو۔‘‘ رمیز بولا۔ ’’اس نے متناسب بدن کیلئے بڑی محنت اور جدوجہد کی ہے۔ اس نے ایک پرآسائش زندگی گزاری تھی۔ وہ ایئرکنڈیشنڈ آفس میں بیٹھتا تھا۔ کار کے بغیر ایک قدم چلنا بھی اس کیلئے دوبھر ہوجاتا تھا اور وہ بڑا خوش خوراک تھا۔ کوئی شام ایسی نہیں جاتی تھی جو کسی ریسٹورنٹ کی نذر نہ ہوتی ہو۔ اس نے یقیناً ضرورت کے تحت وزن کم کیا ہوگا۔ اس بات کا امکان ہے کہ کسی سلمنگ کلب میں گیا ہو اور اب وہ یقیناً سپرفٹ ہے۔ اس نے مسلسل چار برس انتھک جتن کرکے اپنی شخصیت تبدیل کی ہے۔‘‘
زبیر نے پھر اپنی دوربین اٹھا لی۔ پہلے اس نے اس مکان کی چھت کی طرف دیکھا جہاں ایک عورت کپڑے سکھانے کیلئے انہیں جھٹک کے رسی پر پھیلا رہی تھی۔ اجلی، گداز اور سڈول بانہیں جو دل پر قیامت ڈھا رہی تھیں۔ وہ اب بھی وہاں موجود تھی۔ لیکن وہ زیادہ دیر تک یہ نظارہ دیکھنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ رمیز بھی ادھر متوجہ ہوجاتا۔ اس نے کہا۔ ’’دوسرا فرق رنگ کا ہے۔ سہیل چوہدری کا رنگ بہت صاف شفاف تھا۔‘‘
’’ہاں…! ایسے لوشن عام ملتے ہیں جن سے رنگ برائون اور سانولا ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ رنگ گورا کرنے والی کریمیں بھی موجود ہیں۔ اپنی شناخت بدلنے کیلئے رنگ بدلنا بھی ضروری تھا۔ اب رہی ہیئر اسٹائل کی بات…!‘‘
’’سہیل چوہدری کا سر سامنے سے صاف ہونے لگا تھا اور اس کی چندیا بھی طلوع ہوگئی تھی۔‘‘
’’دنیا بہت تیزی سے آگے جارہی ہے۔‘‘ زبیر بولا۔ ’’مصنوعی طریقے سے بال لگوائے جاسکتے ہیں جو پیدائشی اور بالکل اصل نظر آتے ہیں۔ اب کوئی بالوں کی وگ استعمال نہیں کرتا۔ سہیل چوہدری کے بال گولڈن برائون کبھی نہیں تھے۔ گہرے کالے ، چمکدار اور گھنے تھے، یہ رنگ مصنوعی ہے۔‘‘
’’ہیئر کلر تو کئی طرح کے ہوتے ہیں۔‘‘ رمیز نے کہا۔ ’’سہیل چوہدری کی گھنی داڑھی، لمبی نوک دار مونچھیں بھی تھیں۔ اب تو ان کا وجود ہی نہیں رہا۔ ظاہر ہے ہل چلا دیا ہوگا۔ اس نے آنکھوں میں برائون لینسز لگا رکھے ہیں۔ عینک بھی دھوکا ہے، اس کے شیشوں کا کوئی نمبر نہیں ہوگا۔ اس نے اپنی موٹی، بھدی اور لمبی ناک پلاسٹک سرجری سے بدل لی ہے۔‘‘
شناختی کارڈ کی رو سے بابر اعوان ولد عرفان اعوان، ساکن روشن باغ! عرفان اعوان کا 1985ء میں انتقال ہوا تھا جس کی ہم تصدیق کرچکے ہیں۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا بابر اعوان جو چار پانچ برس پہلے مکان فروخت کرگیا تھا۔ کسی کو معلوم نہیں کہ وہ اب کہاں ہے اس کے دور کا یا قریبی کوئی رشتہ دار نہیں مگر اس محلے کے کچھ پرانے لوگوں نے ہمیں جو اس کا حلیہ بتایا تھا، وہ ایسا ہی تھا۔‘‘
’’سہیل چوہدری بلاشک و شبہ ذہین آدمی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے شناختی کارڈ بنوایا تو حوالے درست رکھے۔ کل کوئی اس پر ایمپائر کی طرح انگلی نہ اٹھائے۔ بابر اعوان کوئی خیالی شخصیت نہیں تھی۔ اگر آج وہ اپنے سابق محلے میں جائے تو خود کو بڑی آسانی اور اعتماد سے بابر اعوان ثابت کرسکے۔‘‘
’’اچھا تو اب کیا ارادہ ہے؟‘‘
’’ارادہ سوفیصد ملاوٹ سے پاک ہے، جعلی نہیں ہے اس لئے کہ سہیل چوہدری سے سے نو کروڑ مع جرمانہ وصول کرنے کا مرحلہ آخرکار آپہنچا ہے۔‘‘ رمیز کے چہرے پر ایک خطرناک اور زہریلی مسکراہٹ ابھر آئی۔ ’’کل ہم اسے اٹھا لیں گے۔‘‘
’’بڑے بھائی…! عجلت اور جلد بازی میں کوئی جذباتی فیصلہ نہ کرو… بزرگ فرما گئے ہیں کہ جلد بازی کا کام شیطان مردود کا ہوتا ہے۔ ہم نے کتنا اذیت ناک اور صبر آزما موقع اس کے تعاقب میں گزارہ ہے۔ جہاں اتنے دن کاٹے، اب کچھ اور دن انتظار کرلو۔ اب یہ ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کر فرار نہیں ہوسکتا۔ اس کی بدقسمتی اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ اسے یہاں ہمارے ہونے کا ذرّہ برابر علم نہیں ہے۔‘‘
’’یہ بات تم بھی بہت اچھی طرح جانتے ہو کہ وہ انتہائی عیار اور مکار شخص ہے۔ اس کے باپ کو کیا بلکہ فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ میں نے کس ہوشیاری سے گاڑی کے اسٹیئرنگ سے اس کے فنگر پرنٹس حاصل کرلئے تھے۔ کیا میں شرلاک ہومز کا بھی چچا نہیں…؟‘‘
’’پھر…!‘‘ رمیز نے ایک چیونگم دراز سے نکال کے منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔
’’کل پرسوں تک تصدیق ہوجائے گی کہ سہیل چوہدری کے فنگر پرنٹس ایف آئی اے والوں کے پاس بھی ہیں۔‘‘
’’تو پھر جلدی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ فنگر پرنٹس کی رپورٹ ملنے کے بعد شک کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔‘‘ زبیر نے کہا۔ ’’میرا خیال ہے کہ چائے پینی چاہئے۔‘‘
زبیر مسکرا دیا۔
’’یار! حق ہمسائیگی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ میں اگر اس لب شیریں سے کہوں تو کیا وہ چائے نہیں پلائے گی … آخر اسے شکریہ ادا کرنے کا موقع دینے میں کیا حرج ہے۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ پولیس میں اکثریت کالی بھیڑوں کی ہے۔ وہ اگر وہاں جاتی تو نہ صرف اسے دس ہزار روپے اور شیرینی بھی تقسیم کرنی پڑتی، پھر بھی اس کے شوہر کی جوتا کاری ہوتی… میں نے ان سب سے اسے صاف بچا لیا۔‘‘
’’تو گویا تم احسان کی قیمت وصول کرنا چاہتے ہو؟‘‘
’’احسان…! احسان کیسا یار! یہ


نقد سودا کرنے والوں کی دنیا ہے۔ اس ہاتھ لے، اس ہاتھ دے۔ وہاں پر ہر بات ماننے کیلئے مجبور ہوجاتی۔ میں صرف چائے کی فرمائش کرنے جارہا ہوں۔ میں حد سے تجاوز کروں تو ہم میں اور ان کالی بھیڑوں میں کیا فرق رہ جائے گا۔ اچھا تم اب نظر رکھو سہیل چوہدری پر… میں گیا اور آیا۔‘‘ زبیر چٹکی بجا کے بولا۔
رمیز نے دوربین کو پھر فوکس کیا۔ ایک لمحے کیلئے اسے اپنی بینائی پر شک ہوا لیکن شک و شبے کا سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وہ سہیل چوہدری تھا یا بابر اعوان…! اس وقت وہ اپنے گھر میں دیوار کی طرف منہ کئے کھڑا تھا۔ کمرے میں اندھیرا تھا لیکن کھلی کھڑکی سے اندر کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں جدید قسم کی کلاشنکوف تھی، وہ اس کا معائنہ کررہا تھا۔
رمیز اس کا عکس سامنے لگی سنگھار میز کے آئینے میں دیکھ سکتا تھا۔ اس کی ایک ایک حرکت اس عکس سے واضح تھی۔ گزشتہ رات رمیز نے اسے سائلنسر والے ایک ریوالور سے نشانے کی مشق کرتے دیکھا تھا۔ رمیز کے پاس اندھیرے میں دیکھنے والی بڑی حساس دوربین تھی۔ بابر اعوان نے ایک قدآدم گڑیا کے سر اور سینے پر پے درپے کئی فائر کئے تھے۔ وہ روئی کی بنی ہوئی گڑیا تھی، اس کا حلیہ بگڑ گیا تھا۔ جب اس نے روشنی کی تو کمرے میں کچھ نہیں تھا۔
بظاہر وہ ایک پرسکون زندگی گزار رہا تھا۔ لوگ اسے عام طور پر ایک اچھا شریف النفس اور بے ضرر شخص کہتے تھے۔ اگر اسے کوئی خطرہ نہیں تھا تو پھر وہ یہ سب کیوں کررہا تھا۔ وہ یقیناً سہیل چوہدری تھا۔
لیکن جس شخص کے پاس نو کروڑ کی رقم ہو، کیا وہ ایسے معمولی سے گھر میں ایسی عامیانہ اور پست زندگی گزارے گا؟ اس کے پاس ایسی کھٹارہ سی کار ہوگی اور سب سے بڑی بات یہ کہ اسے خاصی مہلت ملی تھی۔ وہ ملک سے فرار کیوں نہیں ہوا۔ وہ کہیں بھی جاسکتا تھا اور پرتعیش زندگی گزار سکتا تھا۔
رمیز کا یقین پھر ڈانواں ڈول ہونے لگا۔ کیا پتا یہ واقعی بابر اعوان ہی ہو اور سہیل چوہدری کسی ساحلی عشرت کدے میں رنگینیوں میں ڈوبا ہوا ہو۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔
ایک گھنٹے کے بعد اسے زبیر کا خیال آیا جو چائے پینے گیا تھا۔ اسی وقت زبیر جھنجھلاہٹ میں پیر پٹختا اندر آیا اور کرسی پر اس طرح سے گر گیا جیسے کسی نے دھکا دے کر بٹھایا ہو۔ اس کی صورت پر خوشی کی جگہ خفت آمیز برہمی تھی۔
’’کیوں…! کیا اس کا شوہر پہنچ گیا غلط وقت پر…؟‘‘
زبیر نے بگڑ کے برہمی سے کہا۔ ’’یار…! اس نے ہزار روپے مانگ لئے۔ کہنے لگی کہ اگلی مرتبہ ریٹ آدھے ہوجائیں گے تمہارے لئے…‘‘
رمیز کو بڑے زور کی ہنسی آئی۔ اس نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا۔
٭…٭…٭
پسینہ سہیل چوہدری کے جسم پر اس طرح بہہ رہا تھا جیسے کسی نے پانی سے بھری بالٹی اس پر انڈیل دی ہو۔
ساحل کی ہوا میں نمی اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ گیلے کپڑے بھی جلد خشک نہیں ہوتے تھے۔ گھر سے نصف کلومیٹر کے فاصلے پر وہ دوڑ نہیں رہا تھا۔ سانس کو معمول پر لانے کیلئے تیز تیز قدم اٹھاتا چل رہا تھا اور اپنی رفتار ساتھ ساتھ کم کرنے لگا تھا۔
گھر پہنچ کر وہ قالین پر چت پڑ جاتا تھا پھر دو گلاس لیمن جوس اور دو گلاس پانی بھی پیتا تھا تاکہ جسم سے پسینے کی صورت میں خارج ہونے والے پانی کی کمی پوری ہوجائے۔ غسل کے بعد وہ ایک بھرپور ناشتہ کرتا تھا۔ ناشتہ وہ خود بناتا تھا۔
ابھی سورج نے افق تک پھیلے ہوئے سمندر کے آخری کنارے سے سر نکالا ہی تھا۔ اس کی زرنگار کرنوں نے پانی کی چادر پر سنہرا اجالا پھیلا دیا تھا۔ ساحل کی دیوار کے پیچھے بہت سے لوگ ابھی تک جوگنگ میں مصروف تھے۔ ان میں کچھ بوڑھے ہوتے تھے جو چھڑی کے سہارے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے نوجوانوں کو بھاگتے دوڑتے دیکھ کر شاید اپنی جوانی کی یادوں میں گم ہوجاتے تھے۔ صبح اپنا وزن کم کرنے اور سلم ہونے کے خبط میں مبتلا لڑکیاں اور شادی شدہ عورتیں بھی آتی تھیں۔ انہیں اپنا جسم بھدا اور فربہی ہونے کی فکر کھائے جاتی تھی۔ دوچار لوگ گھوڑوں پر بھی سواری کرتے تھے۔
اپنی گلی کی طرف مڑتے ہی اس نے ایک گاڑی دیکھی جو تقریباً سڑک کے وسط میں کھڑی تھی۔ ایک دبلا پتلا عمر رسیدہ شخص اس کا وہیل کھولنے کی کوشش میں مصروف تھا۔
سہیل چوہدری اس سفید رنگ کی گاڑی کو گزشتہ ایک ہفتے سے دیکھ رہا تھا۔ سڑک کے پار ایک اسٹیٹ ایجنسی مدت سے بند پڑی تھی۔ اب کسی نے ایک نئے نام سے یہاں بزنس شروع کیا تھا۔
بوڑھے نے بے بسی اور امداد طلب نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور التجا آمیز لہجے میں کہا۔ ’’بیٹا! ذرا یہ نٹ کھول دو… جام ہوگیا ہے۔‘‘
سہیل چوہدری نے کراس کی شکل کا اسپنر پکڑنے کے بعد یہ دیکھ لیا تھا کہ ٹائر پنکچر نہیں ہوا تھا۔ ابھی اس کے نیچے جیک بھی نہیں لگا تھا مگر وہ اس وقت تک ایک گھٹنا موڑ کے زمین پر ٹکا چکا تھا اس لئے وہ سائیڈ سے نکل کے حملہ کرنے والوں کو دیکھ نہ سکا۔
اس کی کھوپڑی پر پڑنے والی ضرب بڑی بھرپور اور نپی تلی تھی۔ اس بات کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ کھوپڑی نہ چٹخے اور نہ خون بہے مگر صدمہ اتنا شدید ہو کہ وہ برداشت نہ کرسکے۔ غالباً وہ کوئی لوہے کا پائپ تھا جس پر ربر لپیٹ دیا گیا تھا۔ بے ہوش ہونے سے پہلے ایک سیکنڈ کے سویں حصے میں سہیل چوہدری کے کمپیوٹر کی طرح کام کرنے والے دماغ نے ایک بالکل صحیح نتیجہ اخذ کرلیا تھا۔ بالآخر وہ گرفتار ہوگیا تھا اور وہ چاہتا بھی یہی تھا۔
جب اسے ہوش آیا تو اس کی کھوپڑی چل پڑی۔ اسے معلوم ہوگیا کہ اغوا کرنے والے وہی دونوں ہیں جو ہائی کلاس قسم کی قربان پراپرٹی کے آفس میں آتے جاتے دکھائی دیتے تھے۔ وہ بڑے پیشہ ور قسم کے لوگ تھے۔ انہوں نے سہیل چوہدری کا بنڈل بڑی مہارت سے بنایا تھا۔ اسے یوں باندھا گیا تھا کہ اس کا جسم صرف سانس لینے کیلئے حرکت کرسکتا تھا۔ اس کے منہ پر ٹیپ تھا۔ اس کا ریوالور اور گھڑی شاید سب سے پہلے قبضے میں کرکے اسے نہتا کردیا گیا تھا۔ اس کی آنکھوں پر پٹی نہیں تھی مگر وہ کھڑکی سے باہر جھانکنے کیلئے اٹھ نہیں سکتا تھا۔
’’اسے دیکھو !یہ ہوش میں آگیا ہے۔‘‘ پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے شخص نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
’’اسے انجکشن لگا دو۔‘‘ ڈرائیور نے بھی اتنے ہی سپاٹ لہجے میں کہا۔
سہیل چوہدری اس قدر بے بس اور مجبور تھا کہ وہ کچھ نہ کرسکا۔
اسے معلوم تھا کہ جب برا وقت آئے گا تو اس کی ساری ہوشیاری دھری رہ جائے گی۔ اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ آنے والے چند گھنٹوں میں اس سے کیا پوچھا جائے گا اور کس طرح سے پوچھا جائے گا۔ یہ وقت اس کے حساب کتاب کے مطابق چار برس بعد آیا تھا۔
آہستہ آہستہ اسے نیند کی دیوی آغوش میں لینے لگی۔ انجکشن کا اثر چھ سات گھنٹے تو رہتا ہے۔ اب یہ ان کی مرضی کہ اور کتنے انجکشن لگاتے ہیں اور کب تک اسے نیند کی دیوی کی آغوش میں سلا کر رکھتے ہیں۔
رشید بٹ یعنی جس بوڑھے نے سہیل چوہدری کو روک کر ٹائر بدلنے کی درخواست کی تھی، وہ اس وقت سہیل چوہدری کے گھر میں داخل ہوکے تمام میزوں کی درازوں اور الماریوں کی تلاشی کسٹم آفیسر کی طرح لے چکا تھا۔ اسے کچھ فائلیں ملی تھیں جن میں پرانے بل لگے ہوئے تھے۔ ایک فیکس مشین ناکارہ حالت میں پڑی تھی۔ اس نے بڑی مہارت سے چند منٹ میں کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک نکال لی تھی اور تمام نئی اور استعمال شدہ فلاپی ڈسک کے ساتھ اپنے بیگ میں ڈال لی تھی ۔گھرمیں کسی ڈاکو کے انداز میں گھسنے سے پہلے رشید بٹ نے سیکورٹی سسٹم ناکارہ کردیا تھا۔ وہ اس کام میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔ خفیہ کیمرے، الارم، الیکٹرونک آلات اور ریموٹ فنکشن، مائیکروفون کی نشاندہی آسانی سے ہوگئی تھی مگر اسے ایک ننھے سے سگنل ٹرانسمیٹر کا پتا نہ چل سکا جو کمپیوٹر کے پروسیسر سے
منسلک تھا۔ جیسے ہی اس نے کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک کو الگ کیا، بہت دور ایک فلیٹ میں نصب فلیٹر جلنے بجھنے لگا۔
فلیٹ کے باہر لگی ہوئی نیم پلیٹ پر نادیہ سہیل لکھا ہوا تھا۔
٭…٭…٭
چوتھی بار فون ملانے کے بعد نادیہ ریسیور کانوں سے لگائے کھڑی تھی۔ دوسری طرف یقیناً گھنٹی بج رہی تھی مگر کوئی ریسیور نہیں اٹھا رہا تھا۔ اس نے دس دس منٹ کے وقفے سے نمبر ملایا تھا۔ اگر وہ پہلی بار غسل خانے میں تھا تب بھی وہ آدھے گھنٹے بعد باہر آجاتا۔
صبح کے نو بجے تھے۔ سہیل چوہدری اپنے معمولات میں کسی روبوٹ کی طرح کام کرتا تھا۔ ٹھیک ساڑھے چھ بجے جاگنگ کیلئے نکل جاتا تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ پانچ منٹ قبل یا بعد میں نکلا ہو پھر ساڑھے سات بجے واپس پہنچ جاتا تھا۔ آٹھ بجے تک آرام کرنے کے بعد نو بجے تک غسل اور ناشتے سے فارغ ہوجاتا تھا۔
نادیہ جانتی تھی کہ کسی فون کی لائن باہر سے کاٹ دی جائے تو کال کرنے والے کو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جیسے بیل جارہی ہو۔ اب کسی فنی خرابی کے باعث بھی ممکن تھا خواہ خرابی فون کی ہو یا سسٹم کی…! اس نے دوسرا فون ملایا۔ وہ ایک بیوہ عورت تھی جو ساتھ والے فلیٹ میں اکیلی رہتی تھی اور سہیل چوہدری کی عدم موجودگی میں گھر کی صفائی کرتی تھی۔ اس نے نادیہ کے کہنے پر دیکھ کر بتایا کہ سہیل گھر پر نہیں ہے مگر اس کی گاڑی کھڑی ہے۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد نادیہ نے دو نمبر ملائے۔ ان میں ایک لاہور کے ایک گھر کا تھا۔ یہ سہیل چوہدری کا آبائی گھر تھا۔ دوسرا نمبر مری کے ایک کاٹیج کا تھا جہاں وہ مہینے میں دو بار سنیچر اور اتوار کے دن ساتھ گزارتے تھے۔ اپنے آبائی گھر کا وہ سال چھ مہینے میں ایک بار اکیلا چکر لگا لیتا تھا مگر مری کے کاٹیج میں اس کے اکیلے جانےکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
ایسا خیال کبھی نادیہ کے ذہن میں نہیں آیا تھا کہ وہ کسی دوسری عورت کے ساتھ بھی جاسکتا ہے۔ جب اس نے یہاں جوان ملازمہ کے ساتھ وقت نہیں گزارہ تھا تو وہاں کیسے گزار سکتا تھا۔ ایسا ناممکن تھا۔ غلطی یا گناہ انسان کرسکتے ہیں لیکن سہیل چوہدری ایک روبوٹ تھا اور نادیہ اس کے دل و دماغ کا ایک حصہ تھی۔
وہ تیس برس کی ہوچکی تھی لیکن اپنے حسن کی شادابی کے باعث آج بھی بیس بائیس سال کی لڑکی نظر آتی تھی۔ وہ ایک کامرس گریجویٹ تھی۔ اس نے قانون بھی پڑھا تھا مگر کوئی امتحان نہیں دیا تھا کیونکہ اسے بہرحال وکیل نہیں بننا تھا۔ وہ بینکنگ اور مالیاتی امور کی ماہر تھی اور جدید الیکٹرونک آلات کے بارے میں مکمل معلومات رکھتی تھی۔
چھ برس قبل جب وہ سہیل چوہدری سے ملی تھی تو اس کی عمر بتیس برس اور اس کی عمر چوبیس برس تھی۔ دو برس کے بعد انہوں نے خفیہ طور پر شادی کرلی تھی جس کا علم کسی کو نہیں تھا۔ نادیہ کا باپ کسی سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوا تھا۔ اسے بڑی قلیل پنشن ملتی تھی جو اس کے گزارے کیلئے ناکافی تھی۔
اس کے پاس تھوڑی سی زمین تھی ایک چھوٹے سے غیرمعروف قصبے میں اس کا بڑا بھائی رہتا تھا۔ اس آبائی گھر میں قانونی طور پر نصف حصہ اس کا بھی تھا مگر ملکیت کا تنازع ان کے درمیان کبھی نہیں اٹھا۔ بڑے بھائی نے اسے اپنے ساتھ ہی رکھا۔ کوئی ایک برس کے بعد اس کا بڑا بھائی دنیا سے رخصت ہوگیا۔ چھوٹے بھائی نے اپنی بیوہ بھابھی سے شادی کرلی۔ اس لئے نہیں کہ وہ ایک نہایت حسین اور دلکش عورت تھی۔ دس برسوں کے بعد بیوہ ہونے کے باوجود اس کی خوبصورتی متاثر نہ ہوئی تھی۔ وہ عدت کے دن گزار رہی تھی تو ایک پڑوسی زمیندار کا رشتہ آیا تھا جس کی پہلے سے تین تین بیویاں موجود تھیں۔ اس بیوہ نے اس کے آسودہ حال ہونے کے باوجود انکار کردیا اور اپنے دیور سے شادی کرلی۔ اس میں کوئی معیوب بات نہ تھی۔ یہ ایک طرح سے دستور تھا۔ وہ اپنے دیور کی شرافت اور حسن اخلاق سے بے حد متاثر تھی۔ وہ اس سے پانچ برس بڑا تھا۔ نادیہ کی پرورش شہر میں ایک رشتے کی پھپھو نے کی تھی۔
پھپھو اسے اپنی بہو بنانے کی بڑی خواہش رکھتی تھی اور اس کا بیٹا نادیہ پر ریشہ خطمی تھا مگر اسے زندگی بھر کیلئے شریک زندگی قبول کرنا نادیہ کے بس کی بات نہ تھی۔ وہ کسی بھی اعتبار سے اس کا جوڑ نہیں تھا۔ وہ ماں، بیٹے کو بڑی خوبصورتی سے ٹالتی رہی تھی اور اس فریب میں مبتلا رکھا تھا کہ پہلے تعلیم مکمل ہوجائے پھر کچھ سوچے گی۔ میٹرک کرتے ہی اسے ٹیلیفون آپریٹر کی ملازمت مل گئی۔ اس کی دلکش اور مترنم آواز نے جو کانوں میں رس گھولتی تھی، آپریٹر بنا دیا تھا۔ وہ خاموشی سے ملازمت پیشہ خواتین کے ہاسٹل میں اٹھ آئی۔
اس کا کزن خوبصورت، وجیہ اور دراز قد تھا لیکن اس کا کردار ایسا نہ تھا کہ وہ اسے قبول کرلیتی۔ ایک دو مرتبہ اس نے ایسی ناشائستہ حرکتیں کی تھیں جس سے وہ اپنے اس پھوپھی زاد سے متنفر ہوگئی۔ وہ اس کے آگے پیچھے گھومتا رہا تھا کہ ایک بار تنہائی میں سامنا ہوجائے تو اسے داغدار کردے تاکہ وہ اس سے شادی کرنے پر مجبور ہوجائے لیکن اس کی یہ حسرت دل میں ہی رہ گئی۔ اس کا نادیہ کو بے آبرو کرنا درکنار، اس سے ملنا بھی ناممکن تھا۔ اس نے ملنے کی کوشش کی تو نادیہ کی شکایت پر ہاسٹل اور فرم کے سیکورٹی گارڈ نے اسے پولیس کے حوالے کرنے کی دھمکی دی تو وہ ڈر گیا اور پھر لوٹ کے نہیں آیا۔ پھوپھی نے اس احسان فراموش اور مکار لڑکی پر لعنت بھیج کے اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی کہیں اور کردی تو نادیہ نے سکون کا سانس لیا۔
ملازمت کے ساتھ ساتھ وہ اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے میں کوشاں رہی۔ اس نے پہلے میٹرک کا امتحان دیا اور اس عرصے میں کمپیوٹر کی صلاحیت بھی حاصل کرلی۔ کمپنی نے اس کی قابلیت سے متاثر ہوکر اسے مزید تربیت حاصل کرنے کے مواقع دیئے۔ کچھ عرصے بعد جنرل منیجر کی سیکرٹری نے شادی کے بعد نوکری کو خیرباد کہا تو اس کی جگہ نادیہ کو دے دی گئی۔
بی کام کرنے کے بعد اسے ایک اور موقع ملا۔ وہ انکم ٹیکس اور مالیاتی امور کے مشیروں کی ایک فرم میں اسسٹنٹ ہوگئی۔ ان کے کلائنٹس میں تاجر، صنعتکار اور اسمگلر…! سب ہی شامل تھے۔ وہ ان کو ٹیکس بچانے کے مشورے دیتے تھے۔ وہ کالے دھن کو سفید کرنے کے ماہر تھے۔ وہاں ملازمت کرکے کاروباری کورگھ دھندوں کو بھی سمجھا اور سرمائے کی نقل و حرکت کے ملکی اور بین الاقوامی اسرار و رموز کو بھی جانا۔ ایک مہربان سینئروکیل نے اسے قانون پڑھنے کا مشورہ دیا۔ اس نے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے وکالت کا امتحان پاس کرنے کی تیاری شروع کردی۔ اگر اس کی ملاقات سہیل چوہدری سے نہ ہوئی ہوتی تو اس کی زندگی مختلف ہوتی۔ وہ وکالت پاس ہی نہیں، اس سینئر وکیل سے شادی بھی کرلیتی اور اس فرم کی پارٹنر بن جاتی۔
سہیل چوہدری اس کی زندگی میں کسی سمندری طوفان کی طرح آیا۔ وہ ایک ایسا پرکشش اور وجیہ مرد تھا جو لڑکیوں کا تصوراتی محبوب ہوتا ہے۔ جب وہ نادیہ کی طرف ملتفت ہوا تو نادیہ کی مزاحمت کسی کام نہ آئی۔ اس کی جسمانی کشش سے زیادہ نادیہ اس کی غیر معمولی ذہانت سے متاثر ہوئی۔ وہ ایسا شخص تھا جو اپنے اعتماد کی وجہ سے سکندر اعظم کی طرح دنیا کی تسخیر کا عزم رکھتا تھا۔ وہ مقدر کا سکندر بنا تھا اور اس کے سامنے زندگی کے کچھ ایسے مقاصد تھے جن کے بارے میں اسے سوفیصد یقین تھا کہ انہیں وہ اس طرح حاصل کرسکتا ہے جس طرح اس نے نادیہ کو حاصل کرلیا تھا۔
طاقت اس کے نزدیک دو عناصر کا مجموعہ تھی پہلی ذہانت اور دوسری دولت…! ذہانت سے دولت حاصل ہوتی ہے اور دولت سے دنیا…! یہ دونوں حاصل ہوں تو پھر آپ کی دسترس میں سب کچھ آجاتا ہے خواہ وہ کسی کمپنی کی صدارت ہو یا ملک کی سیاسی قیادت! کسی ملکہ حسن سے ملاقات کی سعادت ہو
تاریخ ساز شہرت…!
وہ ایک شادی شدہ شخص تھا جس کی اپنی بیوی سے بالکل نہیں بنتی تھی۔ وہ حیران تھا کہ آخر ایسا کیوں ہے۔ وہ بیوی کو والہانہ محبت اور وارفتگی سے ایسےخوش کرتا تھا جیسے وہ اس کا زرخرید ہو۔ کوئی بھی فرمائش پوری کرنے میں پلک جھپکنے کی بھی دیر نہیں لگتی تھی۔ وہ ایک مثالی شوہر تھا۔ اس کے باوجود وہ خود کو کسی سرد لاش کی طرح حوالے کردیتی تھی۔ اس کی محبت کے جواب میں بے دلی ہوتی تھی۔ وہ کوئی عام قسم کا بدصورت شخص نہ تھا۔ اس نے ایک روز اپنی بیوی کا تعاقب کیا۔ وہ یہ کہہ کر گھر سے نکلا تھا کہ ایک ضروری کام سے دو دن کیلئے اسلام آباد جارہا ہے پھر اس نے رات کے گیارہ بجے ایک اجنبی کو دیکھا۔ اس نے چھت کے روشندان سے خواب گاہ میں جھانکا ۔اس کی بیوی کسی نئی نویلی دلہن کی طرح سجی ہوئی تھی۔ اس نے دیکھا کہ وہ اس شخص پر بڑی فیاضی سے مہربان ہورہی تھی۔ وہ چاہتا تو اپنے ریوالور سے ان دونوں کو بھون دیتا جب وہ غلاظت کی دلدل میں دھنسے تھے لیکن اس نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا۔ وہ تختۂ دار پر چڑھنا نہیں چاہتا تھا اور اپنی محبوب بیوی سے محروم ہونا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے اپنی بیوی کے آشنا کو راستے سے ہٹا دیا جسے اس کی بیوی بے انتہا چاہتی تھی۔ اس کے باوجود وہ اپنی بیوی کی محبت حاصل نہ کرسکا۔ ایک انتقامی ردعمل کے طور پر اس نے شوہر سے بے وفائی کو اپنا شعار بنا لیا اور اس کی عدم موجودگی میں راتیں باہر گزارنے لگی۔ بیوی کی بے راہ روی اس سے چھپی نہیں رہ سکتی تھی۔ یہ ناممکن تھا کہ وہ ہر نئے رقیب کو ٹھکانے لگاتا جائے۔ اس نے اعتراف کیا کہ اپنی بیوی کو سزا دینا، اس کی زندگی کا سب سے کٹھن فیصلہ تھا۔
درحقیقت اس کی زندگی کی واحد ناکامی ایک ایسا داغ بن گئی تھی جو اس کے دل میں آج بھی کسی زخم کی طرح کسک دے رہا تھا۔ اس نے بیوی کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی تو وہ بے وقوف عورت سرکشی پر اتر آئی اور اس نے طلاق کا مطالبہ کردیا۔ اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اس کے ساتھ اس کی بیوی بن کر تمام عمر گزارنے کی بجائے موت کو ترجیح دے گی۔ سہیل چوہدری نے مجبوراً اس کی خواہش پوری کردی۔
کسی خوف و جھجک یا احساس جرم کے بغیر اس نے نادیہ کے سامنے اعتراف کرلیا تھا کہ وہ دو قتل کرچکا ہے مگر نادیہ کو ایک لمحے کیلئے اس سے ڈر لگا نہ نفرت محسوس ہوئی اور نہ ہی اسے اس میں سہیل چوہدری کی کوئی غلطی محسوس ہوئی۔ اس کا ذہن پوری طرح سہیل چوہدری کے طلسم میں مسحور تھا۔ سہیل چوہدری کی بیوی بدبخت ہی نہیں بلکہ بے وقوف بھی تھی۔ بھلا جسے سہیل چوہدری جیسے سحر انگیز شخصیت کے مالک مرد کی چاہت اور قربت حاصل ہو، اسے ساری دنیا کے مردوں کی طرف دیکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے ہیروں کی کان چھوڑ کے کوئی کوئلوں کے ڈھیر میں گھس جائے۔
دو برس تک وہ سہیل چوہدری کی ہر خوشی اور خواہش کو حکم سمجھ کے بلاچوں و چرا تعمیل کرتی رہی اور اس کی کسی بات سے انکار نہیں کیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس پر سہیل چوہدری کی شخصیت کا جادو چڑھتا گیا۔ وہ کسی شہر طلسمات کی طرح تھا جس کے ان گنت دروازے اور ہر نئے در کے وا ہونے سے نادیہ کی نظروں میں ایک دلکش نظارہ ابھرتا تھا جو اسے نئے سرے سے مسحور کرلیتا تھا۔
یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ سہیل چوہدری نے نادیہ کی اس بے بسی اور دیوانگی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے ذہنی اور جسمانی استحصال کو اپنا مقصد نہیں بنایا۔ وہ بھی نادیہ سے محبت کرتا تھا مگر پوری ہوش مندی کے ساتھ…! وہ نادیہ کی طرح دیوانگی میں مبتلا نہیں تھا۔ وہ اتنا مطمئن اور آسودہ تھا کہ اسے کسی اور عورت کی طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی اور نہ خیال آتا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ حقیقت اس پر منکشف ہوئی تھی کہ وہ اپنی زندگی میں جس مکمل عورت کی خواہش کرسکتا تھا، وہ نادیہ ہی ہے اور وقت کے ساتھ اس کا یہ یقین کامل ہوتا گیا۔
نادیہ کو سب سے زیادہ سہیل چوہدری کی ذہنی استعداد نے متاثر کیا تھا۔ وہ خود کم ذہین نہ تھی اور اس نے مختلف ملازمتوں کے دوران انتہائی ذہین مرد دیکھے تھے جو پرکشش بھی تھے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ عزت، شہرت اور دولت کے سارے ہتھیاروں سے لیس تھے مگر وہ عورت کی درجہ بندی ایسے ہی کرتے تھے جیسے اپنی گاڑیوں کی…! چنانچہ بیوی، بچوں کی ماں، پرائیویٹ سیکرٹری اور محبوبہ…! سب کی کوالیفکیشن الگ الگ تھیں۔ نادیہ ہر عہدے پر تقرری کی صلاحیت رکھتی تھی مگر شریک حیات نہیں بن سکتی تھی کیونکہ وہ خطرناک حد تک ذہین تھی جس کے سامنے بعض اوقات وہ خود بھی احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے تھے۔ وہ ان مردوں میں سے تھے جو چاہتے تھے کہ عورت کا جسم سانچے میں ڈھلا ہوا ہونا چاہئے مگر عقل بس اتنی ہی ہونی چاہئے جتنی کسی بھی حیوان مادہ کے پاس ہوتی ہے۔ صرف سہیل چوہدری نے اسے ذہن کی برتری کے ساتھ قابل پرستش جاناتھا۔
اس کا ذہن ایک سپر کمپیوٹر تھا اور اسے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ایک ایسی عورت کی ضرورت تھی جو صرف اچھی شریک حیات ہی نہیں بلکہ بہترین بزنس پارٹنر بھی ثابت ہو۔ وہ اپنی زندگی اور بزنس کے سیکریٹ الگ الگ رکھنے کا قائل نہ تھا۔ نادیہ ایک خوبصورت عورت ہی نہیں بلکہ اس کا ذہن ایک بہترین کارکردگی رکھنے والا کمپیوٹر بھی تھا۔ جس کی پروگرامنگ حسب منشا کی جاسکتی تھی اور اس کی آئوٹ پٹ پر بھروسہ کیا جاسکتا تھا۔ نادیہ نے اسے کبھی مایوس نہیں کیا تھا۔ وہ اس کے اعتماد پر ہمیشہ پوری اتری تھی۔ وہ واقعی اس کی نصف بہتر تھی، شاید نصف بہترین…!
سہیل چوہدری کا ہر کام ایک کمپیوٹرائزڈ پروسیس سے ہوتا تھا۔ ترتیب وار، مرحلہ وار! وہ سوچتا تھا ،پلان کرتا تھا اور عملدرآمد سے پہلے مخالف اور موافق تمام امکانات کا تفصیلی جائزہ لیتا تھا۔ یہ ناممکن تھا کہ اس کا ذہن معمولی سے معمولی بات کو غیر اہم سمجھ کے نظرانداز کردے۔ ظاہر ہے نتیجہ ہمیشہ اس کی توقع کے عین مطابق برآمد ہوتا تھا جیسے ریاضی کے کسی سوال کا جواب…!
اس کا یہ منصوبہ پانچ برس پہلے شروع ہوا تھا اور طے شدہ پروگرام کے مطابق کامیابی کی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ اس میںکہیں کوئی خامی اور عیب موجود نہ تھا۔ بڑے بڑے شاطر ذہن رکھنے والوں کی اس کے خلاف ہر چال ناکام ہوتی تھی کیونکہ ان کے مقابل عقل کی بساط پر چلنے والا کوئی عام انسان نہیں تھا۔ وہ ایک سپر کمپیوٹر تھا اور سپر کمپیوٹر سے کوئی بازی کیسے جیت سکتا تھا۔ (جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS