گاڑی ایک پرشکوہ کوٹھی کے پورچ میں رک گئی۔
غیور شاہ بہت اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ کوٹھی کس کی ہے۔ کوٹھی کے باہر سہگل رضوی ایسوسی ایٹس انٹرنیشنل کا سائن بورڈ لگا ہوا ہے، اس کا مطلب کیا ہے…؟
اوپر والی منزل پر ایک کانفرنس روم تھا۔ اٹھارہ فٹ لمبی میز کے گرد بائیس کرسیاں بڑے قرینے سے لگی ہوئی تھیں۔ ضرورت پڑنے پر یہ ڈائننگ روم اور بینکوئٹ ہال کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا۔ میز کے آخری کنارے پر چھ افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں ایک پولیس کے محکمے کا آپریشنل چیف تھا اور دوسرا ایف آئی اے کا ڈائریکٹر تھا باقی دو افراد ان کے مددگار اور معاون تھے جو اپنے سامنے الیکٹرونک آلات رکھے مستعد بیٹھے تھے۔
غیور شاہ کو اس کرسی پر بٹھایا گیا جو عام طور پر میزبان یا چیف گیسٹ کیلئے مخصوص تھی۔ غیور شاہ مطمئن اور پرسکون رہنے کی کوشش کرنے لگا۔ پہلا سوال پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے کیا۔ ’’غیور شاہ…! تمہاری فرم کیا کرتی ہے؟‘‘
غیور شاہ نے پرسکون لہجے میں جواب دیا۔ ’’آپ کے علم میں تو ہے۔‘‘
’’ہاں…! مگر ہم تمہاری زبان سے سننا چاہتے ہیں۔‘‘ اعلیٰ افسر نے اس کے جواب کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔
’’بہت کچھ کرتی ہے میری فرم…! امپورٹ ایکسپورٹ، کنسٹرکشن اور سپلائی…!‘‘
’’یہ اشتہاری مجرموں کا تعاقب اور جرائم کی تفتیش کا کام تم نے کب سے شروع کیا؟‘‘ سیکرٹری کی سطح کے ایک افسر نے پوچھا۔
ڈائریکٹر نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ کام قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہے۔‘‘
غیور شاہ نے بڑی صاف گوئی سے جواب دیا۔ ’’کیا تیر مار لیا آپ کے سارے قانون نافذ کرنے والے ان اداروں نے چار برس میں سر…! آخر پکڑا میں نے ہی… اب یہ میرا جرم بن گیا سر…!‘‘ وہ یہ بات زبان پر لا کر خود کو بڑا ہلکا محسوس کرنے لگا۔
’’ہاں… جرم کیا ہے تم…!‘‘ ڈی آئی جی نے غصے بھری آواز میں کہا۔ ’’تم نے سرکاری اہلکاروں کے کام میں مداخلت کی، قانون اپنے ہاتھ میں لیا… اغوا کیا۔‘‘
’’ایک منٹ سر…! آپ اس قدر طیش میں نہ آئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں قانونی طور پر ہمارے ملک میں کسی کو سراغرسانی کی اجازت نہیں۔ میں بھی کوئی سراغرساں نہیں ہوں۔ میرے پاس کچھ تجربہ تھا، مجرموں کا سراغ لگا کے انہیں گرفتار کرنے کا! میں نے پولیس کی طرح اپنے مخبر پورے ملک میں پھیلا دیئے۔ علاوہ دیگر کاموں کے ایک کام میں نے یہ بھی کیا کہ لاپتا ہوجانے والوں کا سراغ لگایا جن کی پولیس نے ایف آئی آر تک درج نہیں کی تھی۔ میں نے ایک سو سے زائد پاکستانیوں کا مڈل ایسٹ میں پتا لگایا جن کو دھوکے باز اور لٹیرے قسم کے ٹریول ایجنٹ نوکری دلانے کے بہانے باہر لے گئے تھے۔ میں نے اغوا ہونے والے بچوں، نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کو بازیاب کرایا۔ اغوا برائے تاوان کے بہت سے کیس نمٹائے اور ان ڈاکوئوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جو مسافر بسوں، کوچز اور اناج سے بھرے ٹرکوں کو لوٹ کے گدھے کے سر کی سینگ کی طرح غائب ہوجاتے تھے۔ ایسا دراصل پولیس کی ملی بھگت سے ہوتا تھا۔ پولیس یا قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے نے میری کوئی مدد نہیں کی۔ سات افراد قتل کئے جا چکے تھے، پولیس کےپاس ان کے لاپتا ہونے کی رپورٹ تھی جو داخل دفتر ہوگئی تھی۔ دو شوہروں نے اپنی بیویوں کو ان کی بدچلنی کے شبے میں ٹھکانے لگایا حالانکہ ان کی بیویاں بڑی وفا شعار تھیں۔ ان کا جرم یہ تھا کہ ان کے شوہر پڑوسنوں کے ساتھ آشنائی کے مرتکب تھے اور ان کی بیویاں احتجاج، شکایت اور باز رکھنے کی کوشش کرتی تھیں۔ دو جگہ خود بیٹوں نے زمین کے تنازعات میں سگے باپ کو عدم آباد رخصت کیا۔ ان کے باپ کا جرم یہ تھا کہ وہ اپنی جائداد اس لئے اپنی زندگی میں ان کے نام کرنے کو تیار نہ تھے کہ وہ بدکار، جواری اور شرابی تھے۔‘‘
’’اور تم نے سب سے سراغ لگانے کا معاوضہ لیا اور پھر زبان بندی کا اختیار…!‘‘ ایک سرکاری افسر نے تبصرہ کیا۔
’’کیا پولیس ایسا نہیں کرتی؟‘‘ غیور شاہ نے تکرار کے انداز میں کہا۔
’’میرا خیال ہے کہ یہ بحث بے مقصد ہے۔‘‘ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر نے کہا۔ ’’سہیل چوہدری کے کیس کی نوعیت ذرا مختلف تھی۔ تم سے کس نے کہا تھا کہ اس کا پتا چلائو؟‘‘
غیور شاہ نے اس کے چہرے پر نگاہیں مرکوز کرکے کہا۔ ’’کیا میں اس بات کا یقین کرلوں کہ ہماری ہونے والی گفتگو آف دی ریکارڈ ہے؟‘‘
’’یقیناً…!‘‘ ڈائریکٹر نے کہا۔ ’’لہٰذا کھل کے گفتگو کی جائے۔‘‘
’’یہ ذمہ داری مجھے اس شخص نے سونپی تھی جس کی نو کروڑ کی رقم گئی تھی۔ عارف گیلانی جو ترقیاتی کمپنی کا چیئرمین ہے۔ سہیل چوہدری اسی کمپنی میں چیف اکائونٹینٹ تھا۔‘‘
’’یہ سب ہمارے علم میں ہے۔‘‘ ڈی آئی جی نے درمیان میں بات کاٹی۔ ’’ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دو کہ اس نے تمہیں کتنا پیسہ دیا تھا؟‘‘
’’ایک کروڑ…!‘‘ غیور شاہ نے بغیر کسی جھجک کے بتایا۔ ’’اگر وہ دو تین کروڑ بھی دیتا تو نقصان میں نہ رہتا کیونکہ سہیل چوہدری ہاتھ نہ آتا یا اس سے نو کروڑ برآمدنہ ہوتے تو اس کا خسارہ دس کروڑ ہوجاتا۔‘‘
ڈائریکٹر نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔ ’’تین کروڑ روپے تو اسے ایک انشورنس کمپنی سے مل گئے تھے، دو کروڑ دوسری سے…! کیونکہ اس نے نقصان کا بیمہ کرا رکھا تھا۔ وہ نہ صرف ذہین بلکہ دوراندیش بھی تھا۔‘‘
’’چوری، ڈکیتی اور آتش زنی سے ہونے والے نقصان کا تین کروڑ…! غبن کا دو کروڑ…!‘‘ غیور شاہ نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’اس نے مجھ سے کہا کہ میں انشورنس کمپنی سے بھی بات کروں۔ ایک کمپنی نے مجھے پچھتر لاکھ دیئے، دوسری نے صرف پچیس لاکھ…! اگر سہیل چوہدری سے نو کروڑ واپس مل جاتے تو انشورنس کمپنی کو پیسے واپس مل جاتے۔ یہ نقصان کا سودا کسی کیلئے نہیں تھا۔‘‘
’’مگر تم نے انہیں چکر دیا… تم نے سہیل چوہدری کو اغوا کرکے معلوم کرلیا کہ نو کروڑ کہاں ہیں؟‘‘
’’اس نے مجھے ہوا تک نہیں لگنے دی۔ وہ کس قدر ہوشیار ہے، یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔‘‘
’’جھوٹ مت بولو غیور شاہ…! تمہارے دو بندوں نے اس کا جو حال کیا ہے؟‘‘ ڈی آئی جی نے درمیان میں تیزی سے کہا۔ ’’اگر ہم بروقت نہ پہنچتے تو تم اس کا نام و نشان تک نہ چھوڑتے… وہ نو کروڑ ڈکار لئے بغیر ہضم کرجاتے… مگر اب ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘
’’آپ یقین کریں کہ میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔ میں جھوٹ بولنے کا عادی نہیں۔ اتنا تشدد برداشت کرنے کے باوجود اس نے کچھ نہیں اگلا… وہ اپنی بات پر ڈٹا رہا کہ وہ نو کروڑ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور یہ بات غلط نہ تھی۔ وہ ساری رقم ایک عورت کی تحویل میں ہے۔ اس نے عورت کا اصل نام نادیہ بتایا مگر یہ کہا کہ وہ عورت کراچی کی ایک فرم میں لیگل اسسٹنٹ تھی۔ اس نے نادیہ کے باپ کا نام، پتا بھی بتا دیا مگر اس کا موجودہ نام کیا ہے، کوئی نہیں جانتا ۔پھر خود سہیل چوہدری کے پاس چار شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس ہیں۔ اس عورت کے پاس زیادہ بھی ہوسکتے ہیں مگر سہیل چوہدری کچھ نہیں جانتا کیونکہ وہ عورت یہ سارا حساب کتاب رکھتی ہے۔‘‘
’’کون ہے وہ عورت…؟ سہیل چوہدری سے کیا رشتہ ہے اس کا…؟‘‘
’’رشتہ…؟ وہ کہتا ہے کہ اس نے نادیہ سے باقاعدہ شادی کی تھی مگر وہ کسی وجہ سے ساتھ نہیں رہتا۔ وہ اپنی زندگی الگ الگ گزارتے ہیں۔ اسے کچھ پتا نہیں ہوتا کہ نادیہ کہاں ہے۔ وہ ہر روز صبح نو اور دس کے درمیان اسے فون کرتی تھی صرف خیریت معلوم کرنے کیلئے… دو مہینے میں ایک بار ویک اینڈ ساتھ گزارتے تھے۔ مری میں اس کا
ایک نہایت آراستہ کاٹیج ہے، ایک آبائی گھر سمن آباد میں بھی ہے لیکن وہاں سے بھی کچھ نہیں ملا۔‘‘
’’میرے خدایا! یہ میں کیا سن رہا ہوں غیور شاہ…! تم نے اکیلے سب کچھ کیا۔ ہم کیسے اعتبار کرلیں کہ تمہیں کچھ نہیں ملا؟‘‘ ڈائریکٹر سخت مشتعل ہوگیا تھا۔
’’جب تک وہ عورت نہیں ملتی…!‘‘ اس نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’شٹ اَپ! کیا تم ہمیں بے وقوف سمجھتے ہو؟ ہمیں معلوم نہیں کہ تم نے اپنا الو سیدھا کرنے کیلئے ایک عورت کی جھوٹی کہانی گھڑی جبکہ ایسی کسی عورت کا وجود ہی نہیں ہے۔‘‘
’’ایکسکیوز می سر…!‘‘ مہروز شاہ خان نے درمیان میں کہا۔ ’’مجھے فون پر بتانے والی ایک عورت ہی تھی۔‘‘
ہال میں اک دم سناٹا چھا گیا جو چند لمحوں تک طاری رہا پھر ڈی آئی جی نے سب کی نظریں بچا کے غیور شاہ کو آنکھ ماری۔ ’’غیور شاہ…! جھوٹ کیا ہے، سچ کیا ہے، اس کا پتا بالآخر چل جائے گا۔ ہم تمہاری اور تم سے ملنے والے ہر فرد کی کڑی نگرانی کررہے ہیں۔ تمہارے فون ٹیپ ہورہے ہیں۔ گھر اور دفتر دونوں کے…! ضروری ہوا تو مزید تفتیش کیلئے تمہیں حراست میں لے لیا جائے گا لیکن تم فی الحال یہ بتائو کہ سہیل چوہدری کا سراغ تمہیں کیسے ملا؟‘‘
غیور شاہ نے سکون کا سانس لیا۔ اس کی پیشانی عرق آلود ہوگئی تھی۔ اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’میری گزارش ہے کہ میرا بیان ریکارڈ کرلیا جائے۔ میں اس پر دستخط کرنے کو بھی تیار ہوں کیونکہ عدالت میں جو بیان دوں گا، اس میں کوئی تضاد نہ ہو۔‘‘
غیور شاہ نے جو کچھ کہا، اس بیان نے جیسے سب کی بولتی بند کردی تھی۔ وہ سب پہلے آدھے گھنٹے تک خاموشی سے سنتے اور چائے پیتے رہے۔ چہرے کے تاثرات کو بھی محسوس کررہے تھے جو بہت کچھ کہہ رہے تھے، وہ جو زبان بھی کہنے سے قاصر تھی۔
٭…٭…٭
پانڈا کارپوریشن کا مالک عارف گیلانی تھا جو پہلے چھوٹے چھوٹے ٹھیکے لیتا تھا مگر ہیرا پھیری اور اپنی عیارانہ کوششوں سے دیکھتے ہی دیکھتے اربوں کا مالک بن گیا تھا۔ اس کے اعلیٰ سرکاری حکام سے رابطے تھے اور وہ ان کی کمزوریوں، ذوق اور شوق سے اچھی طرح واقف تھا۔ اگر وہ کسی ٹھیکے میں دو کروڑ کماتا تو ایک کروڑ رشوت کے بھی نکالتا تھا۔ اپنی کمپنی میں اس نے اکائونٹس، انجینئرنگ اور ایڈمنسٹریشن کے شعبوں میں اعلیٰ ترین پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے تین افراد کا تقرر کیا تھا۔
سہیل چوہدری کی حیثیت ڈائریکٹر اکائونٹس کی تھی۔ بعد میں اسے ڈائریکٹر فنانس کے عہدے پر فائز کردیا گیا تھا۔چوتھا شعبہ یعنی پبلک ریلیشنز خود عارف گیلانی کے پاس تھا۔
تمام مالیاتی امور، سہیل چوہدری کی نگرانی میں تھے۔ وہ بینکوں سے لین دین، آمدنی اور خرچ کے تمام معاملات میں خودمختار تھا اور عارف گیلانی کے علاوہ کسی کو جواب دہ نہیں تھا۔ وہ انتہائی ذہین اور مالیاتی امور کا ماہر ہونے کے علاوہ مردم شناس اور گفتگو کے فن کا ماہر بھی تھا۔ وہ انسانی خوبیوں اور خامیوں سے فائدہ اٹھانے کا فن جانتا تھا چنانچہ اس نے عارف گیلانی کا اس حد تک اعتماد حاصل کرلیا کہ اس نے تمام معاملات میں سہیل چوہدری کو مختار کل بنا دیا۔ باقی دو ڈائریکٹر عارف گیلانی کی بجائے سہیل چوہدری کو جواب دہ ہوگئے۔ قدرتی طور پر وہ اس سے جلنے لگے۔
دو برس بعد گیلانی گروپ کے دو ڈائریکٹروں نے علیحدگی اختیار کرلی اور اپنا متوازی گروپ قائم کرلیا۔ اس نے سہیل چوہدری کو کچھ اہم معلومات فراہم کیں۔ ان سے پتا چلتا تھا کہ گیلانی گروپ کی طرف سے پاکستان کے جن ٹھیکیداروں کو مختلف مالیت کے ٹھیکے دیئے گئے تھے، وہ بدعنوان افسروں کے ساتھ مل کر پروجیکٹ کو کیا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان میں پانڈے والے بھی شریک تھے جو تعمیر میں غیر معیاری سامان بڑے دھڑلے سے استعمال کررہے تھے اور کروڑوں کی خوردبرد کرچکے تھے۔ گیلانی گروپ کے حریف نے اسے پیشکش کی کہ وہ اس کی مفصل رپورٹ اسٹینڈنگ کمیٹی کو ارسال کردے جو ان دنوں ایسے ہی ایک معاملے کی تحقیقات کررہی تھی۔ یہ بات یقینی تھی کہ اس خوردبرد کے منظرعام پر آتے ہی پانڈے والے بلیک لسٹ ہوجائیں گے اور شاید خود گیلانی گروپ کا بھی ایک بلین ڈالر کا کنٹریکٹ ختم ہوجائے۔ اگر ایسا ہوگیا تو یہ کنٹریکٹ باغی گروپ کو مل جائے گا۔
انہوں نے سہیل چوہدری سے وعدہ کیا اور ہر طرح سے یقین دلایا کہ اس کی خدمات پانچ گنا معاوضے پر حاصل کرلی جائیں گی اور اسے پانڈا کے مقابلے پر اپنی کمپنی قائم کرنے میں ہر قسم کا تعاون فراہم کیا جائے گا۔
سہیل چوہدری نے ہر پہلو پر غور کیا اور ہر طرح ناقدانہ انداز سے جائزہ لیا اور خوردبرد کے بارے میں ایک مفصل رپورٹ اکائونٹس کمیٹی کو ارسال کردی۔ جب اس رپورٹ پر تحقیقات کا مطالبہ سامنے آیا تو حسب معمول ایک سرکاری کمیشن بنا دیا گیا۔ ایک کمیٹی پہلے ہی سے ان معاملات کا جائزہ لے رہی تھی۔ متعلقہ محکموں کے اعلیٰ افسران اور عوامی نمائندوں نے الگ الگ مشترکہ طور پر عارف سے پوچھ گچھ کی۔
سہیل چوہدری بھس میں چنگاری ڈال کر بیٹھ گیا تھا اور آگ لگنے کا تماشا دیکھ رہا تھا لیکن اس کے چلائے تیر کا نشانہ بننے والے دونوں ڈائریکٹر اتنے بے خبر اور بے وقوف نہیں تھے۔ وہ پہلے ہی سہیل چوہدری کے دشمن تھے، اب انہوں نے مل کر صورتحال کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور عارف گیلانی کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگئے کہ اس رپورٹ کا کرتا دھرتا صرف اور صرف سہیل چوہدری ہی ہے۔ ان کے دلائل اس قدر ٹھوس اور ناقابل تردید تھے کہ عارف گیلانی پر ساری صورتحال واضح ہوگئی کہ سہیل چوہدری اسے تباہ کرکے اپنی کمپنی بنانے اور یہ ٹھیکہ خود حاصل کرنے کے چکر میں ہے۔
عارف گیلانی اس میدان کا پرانا کھلاڑی تھا اور جوڑتوڑ کا ماہر تھا۔ اس نے فوری طور پر سہیل چوہدری کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ اسے عجلت پسندی کی عادت نہیں تھی۔ اس نے اعلیٰ اختیارات رکھنے والے تین افراد کا انتخاب کیا۔ اس نے تین تین کروڑ مختص کئے۔ ان سے تمام معاملات گیلانی کے دفتر میں طے پائے۔ تین افراد صورتحال کو کیسے سنبھالتے ہیں، اپنے حصے کے تین کروڑ میں سے خود کتنا رکھتے ہیں، دوسروں کا منہ بند رکھنے کیلئے کتنا دیتے ہیں، اس سے عارف گیلانی کو سروکار نہ تھا۔ وہ بس یہ چاہتا تھا کہ فائنل رپورٹ اس کے حق میں ہونا چاہئے اور تمام الزامات ختم ہونا چاہئیں۔
اس دوران جب رشوت دینے اور لینے والوں کے درمیان مذاکرات کامیابی سے جاری تھے اور پانڈا والوں کے خلاف رپورٹ کو کاروباری رقابت کا نتیجہ قرار دے کر بے بنیاد ثابت کرنے کیلئے سفارشات مرتب کی جارہی تھیں، یہ فیصلہ بھی کرلیا گیا تھا کہ تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوجانے کے بعد سہیل چوہدری کو باعزت طور پر رخصت کردیا جائے گا مگر فروری کے وسط میں سہیل چوہدری اچانک ایک حادثے میں چل بسا۔
مری سے واپس آتے ہوئے اس کی مرسیڈیز بینز قابو سے باہر ہوگئی اور سڑک سے نیچے کھائی میں اتر گئی۔ جیسا اس قسم کے حادثات میں ہوتا ہے، گاڑی میں آگ لگ گئی اور سہیل چوہدری اس میں جل کر راکھ ہوگیا۔
یہ خبر اخبارات کو جاری کردی گئی کہ پانڈا کارپوریشن کے ڈائریکٹر مسٹر سہیل چوہدری ایک حادثے میں چل بسے۔ خبر کے ساتھ سہیل چوہدری کی تصویر بھی چھپی تھی۔ وہ ایک بھاری بدن اور چوڑے چہرے والا شخص تھا۔ گھنی داڑھی اور مونچھیں تھیں اور چشمہ پہنتا تھا۔
پانڈا کارپوریشن کے مالک عارف گیلانی کا سب پر شک گیا۔ اس کے دونوں ڈائریکٹروں نے بھی یہی سمجھا کہ سہیل چوہدری کو عارف گیلانی نے مروا دیا ہے۔ عارف گیلانی کا شک دونوں ڈائریکٹروں پر تھا۔ انہوں نے سہیل چوہدری
خلاف جوابی کارروائی کی اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔ وہ سہیل چوہدری کا حال اور مستقبل تباہ کرنا چاہتا تھا۔ انہوں نے سہیل چوہدری کا خطرہ ہمیشہ کے لئے دور کردیا۔ سانپ کو زندہ کون چھوڑتا ہے۔ تحقیقات کرنے والوں نے سہیل چوہدری کی موت کو حادثاتی قبول نہیں کیا تھا مگر انہیں پانڈا کارپوریشن کے اندرونی معاملات سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ انہیں اپنے مفادات سے غرض تھی۔ مفاد جو تھا وہ نو کروڑ کے معاملات تھے جن سے ان کی دلچسپی حد سے زیادہ تھی۔
کلیئرنس رپورٹ کا مسودہ عارف گیلانی کے سامنے رکھ دیا گیا۔ اس میں سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا عارف گیلانی چاہتا تھا۔ تینوں بااختیار افراد ایک طریق کار پر کلی طور پر متفق ہوچکے تھے کہ مارچ کے آخری ہفتے میں اپنے دستخط ثبت کریں گے۔ اس وقت انہیں تین تین کروڑ ادا کردیئے جائیں گے۔
آخری ہفتے کی رات دو بجے پانڈا کارپوریشن کے ایم ڈی عارف گیلانی کے کمرے میں پانچ افراد جمع تھے۔ اپنے وسیع و عریض شاندار آفس میں عارف گیلانی اپنی میز کے پیچھے موجود تھا۔ اس کے سامنے تین کرسیوں پر تحقیقاتی کمیشن کے اعلیٰ عہدیدار براجمان تھے۔ پانچواں شخص ایک کرنسی ڈیلر تھا۔ وہ مڈل ایسٹ سے ہنڈی پر رقم کی ترسیل کرتا تھا اور باہر کے بینکوں میں کالے دھن کے خفیہ اکائونٹس کا ماہر تھا۔ وہ اکائونٹ کھلواتا بھی تھا اور آپریٹ بھی کرتا تھا۔ زیرزمین دنیا میں اس کی اچھی ساکھ اور قدردانی تھی۔ اس نے یہ انتظام کیا تھا کہ وہ نو کروڑ پاکستانی کرنسی میں وصول کرے گا، تینوں معزز کلائنٹس کو تین تین کروڑ کا زرمبادلہ فراہم کرے گا ۔کسی بین الاقوامی بینک کی شاخ میں ان کے خفیہ اکائونٹس میں ان کی ساری رقم جمع کرائے گا اور مزید یہ کہ آئندہ کےلئے محفوظ انتظام بھی کرے گا تاکہ وہ اپنی مرضی سے اس رقم کو استعمال کرسکیں۔ چونکہ یہ اس کا روزمرہ کا معمول تھا، اس لئے سبھی اپنی جگہ مطمئن تھے۔ اس کے بارے میں جو کچھ سنا تھا، اس پر اندھا اعتماد ہوگیا تھا۔
رقم لانے والی گاڑی پروگرام کے مطابق رات دو بجے آگئی۔ عمارت کے بیرونی دروازے پر سیکورٹی گارڈز نے کیش اوپر جانے کی اجازت اپنا اطمینان کرنے کے بعد دے دی۔ اوپر ایک چپراسی نے معزز مہمانوں کو کافی پیش کی۔ عارف گیلانی کے سوا کسی نے اس کی صورت کو نظر اٹھا کے نہیں دیکھا۔ گیلانی نے ایک نیا چہرہ دیکھا تو پوچھا کہ وہ کون ہے اور اس کا ذاتی چپراسی کہاں ہے؟ باوردی ملازم نے مؤدبانہ انداز میں بتایا کہ وہ باورچی خانے میں لیٹا ہوا ہے کیونکہ اسے الٹیاں آرہی ہیں۔ وہ خود ایک ہفتہ قبل ہی ملازم ہوا تھا۔عارف نے کوئی شک کی بات محسوس نہیں کی۔ اتنے بڑے دفتر میں ملازم آتے جاتے رہتے ہیں، وہ ہر ایک کو ذاتی طور پر نہیں جانتا تھا۔
تینوں ذمہ داران ،پانڈا کارپوریشن کو تمام الزامات سے بری کرنے والی تحقیقاتی کمیشن کی مشترکہ اور متفقہ رپورٹ پر اپنے دستخط ثبت کرچکے تھے۔ کرنسی ڈیلر نے مختلف فارموں پر ان کے دستخط حاصل کئے اس کے بعد سب نے ایک دوسرے سے نہایت تپاک اور گرم جوشی سے ہاتھ ملائے اور رخصت ہوگئے۔
کرنسی ڈیلر نے ساری رقم ایک رات کیلئے گیلانی کے دفتر میں چھوڑ دی کہ وہ صبح رقم اپنی کیش لے جانے والی گاڑی میں منگوا لے گا۔ یہ ساری رقم غیر ملکی کرنسی میں تھی۔ ایک کرنسی ڈیلر ہونے کی وجہ سے وہ اپنے گھر یا دفتر میں بڑی رقم نہیں رکھتا تھا اور نہ اپنے ساتھ لے جاتا تھا تاہم وہ خالی ہاتھ بھی نہیں رہتا تھا۔ دو بار ڈاکو اسے لوٹنے میں کامیاب رہے۔ انہیں دو چار لاکھ مل گئے جو کرنسی ڈیلر کی زندگی کا صدقہ تھے۔ کچھ نہ ملتے تو ڈاکوئوں کے مشتعل ہوکے فائرنگ کرنے کا خطرہ لاحق رہتا تھا۔
عارف کے آفس میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ کرنسی ڈیلر کے رخصت ہونے کے بعد عارف کو متلی سی محسوس ہوئی پھر اس کا سر چکرانے لگا۔ اس نے کال بیل بجائی مگر اس کا کوئی ملازم اندر نہ آیا تو وہ آفس سے نکلا اور مشکل سے لفٹ تک پہنچ سکا۔
صبح اسے لفٹ میں بے ہوش پایا گیا۔ یہ اس کے آفس کیلئے خصوصی لفٹ تھی۔ گیلانی نے اس ڈیل کو فائنل کرتے ہوئے اپنے پرسنل اسٹاف کو لاعلم رکھا تھا۔ سیکورٹی پر مامور عملے کے تین افراد بھی بے ہوش پائے گئے بعد میں میڈیکل رپورٹ سے ثابت ہوا کہ گیلانی نے بھی زہر آلود کافی پی تھی۔ گیلانی کے آفس سے نو کروڑ کی رقم ایسے غائب ہوئی تھی جیسے گدھے کے سر سے سینگ…! میزوں کی درازوں سے بینک اکائونٹس کے وہ فارم بھی غائب ہوگئے تھے جن پر تین افراد کے دستخط تھے۔ ان کے دستخط تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پر بھی موجود تھے جس کی اوریجنل کاپی وہ اپنے ساتھ لے گئے تھے مگر وہ گیلانی کی تسلی کیلئے ایک فوٹو کاپی ساتھ لائے تھے۔ اس پر بھی انہوں نے دستخط ثبت کئے تھے۔ گیلانی کو یہ کاپی بھی نہیں ملی۔
٭…٭…٭
مرزا عباس ایڈووکیٹ سے اس کی حسین مگر بدمزاج اہلیہ نے رابطہ کرکے کہا۔ ’’کوئی برقع پوش محترمہ جو نہایت حسین و جمیل جواں سال ہیں، وہ تم سے مشورہ چاہتی ہیں۔‘‘
مرزا عباس نے حیرانی سے گھڑی کی طرف دیکھا جس میں رات کے گیارہ بجے تھے۔ بہت سی حسین لڑکیاں شادی کے ایک دو برس کے بعد خلع لینے کیلئے اس کے گھر قانونی مشوروں کیلئے آتی تھیں۔ ان سے خوش اخلاقی سے بات کرنا، اس کی بیوی کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لڑکیاں اس کی شخصیت سے خاصی متاثر ہوجاتی تھیں۔
’’جان من…! اس وقت تم اسے کسی طرح خوبصورتی سے ٹال دو۔‘‘
’’پھر تم کہتے ہو کہ بیوی بن کے رہو… پرائیویٹ سیکرٹری مت بنو۔ اب جائو خود بات کرو، میں نے اسے دفتر میں بٹھا دیا ہے۔‘‘
مرزا عباس ٹی وی پر ایک غیر ملکی چینل پر دلچسپ فلم دیکھ رہا تھا۔ اس نے دل پر جبر کرکے ٹی وی بند کیا اور نیچے گیا۔ وہ لڑکی گہرے سیاہ برقع میں ملبوس تھی۔ اس کے سڈول مرمریں اور گورے ہاتھ اور گورا مکھڑا چودہویں کے چاند کو شرما دینے والا تھا۔ اسے اپنی بیوی کا حاسدانہ رویہ برحق لگا۔
’’مرزا صاحب…!‘‘ اس نے سلام کرنے کے بعد کسی تمہید کے بغیر کہا۔ ’’میں سہیل چوہدری کی بیوی نادیہ ہوں۔‘‘
اس نے گورے گورے مکھڑے پر نگاہیں مرکوز کرکے پوچھا۔ ’’کون سہیل چوہدری…؟ وہی…؟‘‘
’’جی…! آپ اس کے دوست ہی نہیں بلکہ قانونی مشیر بھی ہیں۔ اس نے کہا تھا کہ میں آپ کی مدد پر بھروسہ کرسکتی ہوں۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے مگر محترمہ…! جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، اس کی پہلی بیوی وفات پا گئی تھی۔‘‘
’’جی ہاں…! جب اسےشک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو قتل کردیا ہے تو آپ نے اس کی پیروی کی تھی اور اسے بچا لیا تھا… پھر اس نے مجھ سے شادی کی۔ چار برس قبل…!‘‘
مرزا نے ایک گہری سانس لی اور بولا۔ ’’انتقال پرملال کے بعد…!‘‘
نادیہ اقرار میں سر ہلا کر سپاٹ لہجے میں بولی۔ ’’اب وہ ایجنسی کی تحویل میں ہیں۔‘‘
’’آپ کو کس بات کی پریشانی ہے؟ سہیل چوہدری اہم ہے یا نو کروڑ…؟‘‘ مرزا عباس نے تلخی سے پوچھا۔
نادیہ کے حسین مکھڑے پر ایک ابر سا چھا گیا پھر اس کا چہرہ سفید پڑتا گیا۔ وہ بولی۔ ’’میں اس سے بے پناہ محبت کرتی ہوں۔اس وقت سے جب وہ کچھ نہیں تھا۔ ڈائریکٹر فنانس بھی بعد میں ہوا تھا۔‘‘
مرزا عباس ان آنسوئوں کو دیکھ رہا تھاجو سچے موتیوں کی طرح بڑی بڑی گہری سیاہ آنکھوں سے نکل کر اس کے گلاب سے رخساروں پر پھیلتے جارہے تھے۔ اس نے ہر سطح پر زندگی کا مشاہدہ بڑے قریب اور بڑی گہرائی سے کیا تھا۔ اس نے کلام پاک ہاتھ میں اٹھا کے جھوٹ بولنے والے سفید ریش صارفین کے آنسو بھی دیکھے تھے اور جبر کی طاقت کے سامنے بے بسی سے ناکردہ جرم کا اقرار کرنےوالوں کی
آنکھوں کے خونی آنسو بھی…! جونوبیاہتا لڑکیاں خلع کیلئے آتی تھیں،ان کا شوہروں پر الزام ہوتا تھا کہ وہ مزید دولت کیلئے ان پر جسمانی ظلم ڈھاتے اور قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں لیکن پس آئینہ معاملہ یہ تھا کہ ان کے شوہروں کو علم ہوگیا تھا کہ وہ آبرو سے محروم تھیں، داغ دار تھیں، ان کے آشنا بھی تھے جن سے میل جول قائم تھا۔ وہ زاروقطار روتی تھیں، اپنی بے گناہی کا یقین دلانے کیلئے…! وہ ایک ایسا جوہری تھا جو آنسوئوں کے موتیوں کی پرکھ رکھتا تھا۔ اسے کھرے کھوٹے کا تجربہ برسوں سے تھا۔
نادیہ نے اپنے موتیوں کو ٹشو میں جذب کرنے کے بعد کہا۔ ’’ایک بات بتائوں وکیل صاحب…! وہ نو کروڑ اب تیرہ کروڑ سے زیادہ ہیں۔ کیا آپ ایسا کوئی بندوبست کرسکتے ہیں کہ وہ رقم بچ جائے اور اس کی جان بھی…!‘‘
مرزا عباس بھونچکا رہ گیا۔ اسے اپنی سماعت پر فتور کا احساس ہوا۔ ’’کیا مطلب…! وہ ساری رقم اس کے پاس ہے؟ ابھی تک برآمد نہیں ہوئی…؟‘‘
نادیہ نے اپنا خوشنما سر ہلا دیا اور بولی۔ ’’اسے معلوم ہی نہیں کہ رقم کس کےپاس ہے، کہاں ہے…؟‘‘
’’پھر کسے معلوم ہے…؟‘‘ مرزا عباس کا چہرہ سوالیہ نشان بن گیا اور چہرے پر گہرا استعجاب چھا گیا۔
’’یہ تو خود میں بھی نہیں جانتی گو کہ میں اس کی بیوی ہوں۔ گزشتہ چار برسوں سے میں وہی کررہی ہوں جو وہ کہتا ہے۔ اس نے روپوشی کی زندگی گزاری ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کہاں رہتا تھا اور کیا کرتا تھا۔ کبھی اچانک وہ مجھ سے ملنے آجاتا تھا، کبھی مجھے بلا لیتا تھا۔ اب اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آپ سے رابطہ کروں۔‘‘ نادیہ نے توقف کرکے اپنے دستی بیگ سے ایک کاغذ کا پرزہ نکالا۔ ’’یہ دس لاکھ کا چیک ہے۔ آپ کی فیس ہے، ضمانت پر رہا کرانے کی۔‘‘
عباس نے چیک لے لیا۔ یہ ایک بیریئر چیک تھا۔
نادیہ نے کہا۔ ’’یہ دس لاکھ کا دوسرا چیک ہے۔ یہ وکیل استغاثہ کیلئے ہے کہ وہ مخالفت نہ کرے۔‘‘ مرزا عباس نے دوسرا چیک بھی لے لیا۔
پھر نادیہ نے تیسرا چیک نکالا۔ ’’یہ دس لاکھ کا چیک اسپتال کے ذمہ داروں کیلئے! پولیس یہ چاہے گی کہ اسے اسپتال سے لے جائے، اس کی اجازت نہ دیں۔‘‘
مرزا عباس نے سر ہلایا اور تیسرا چیک لے کر میز پر پیپر ویٹ کے نیچے دبا دیا۔
پھر نادیہ نے چوتھا چیک آگے بڑھایا۔ ’’یہ ایک لاکھ روپے کا چیک ہے۔ اسپتال کے کسی ملازم یا نرس کو ایک کیمرا دے دیں وہ سہیل چوہدری کی تصویریں بنا دے جن میں زخم پوری طرح واضح اور نمایاں نظر آئیں۔ اس پر سخت تشدد کیا گیا تھا کہ وہ نو کروڑ کے بارے میں بتا دے۔ وہ شدید زخمی حالت میں ہے۔ عدالت اسے دوبارہ پولیس ریمانڈ میں دینے سے انکار کردے گی۔‘‘
’’کیا اس پر پولیس نے تشدد کیا ہے؟‘‘ مرزا عباس نے سوال کیا۔
’’ظاہر ہے… فرشتے تو کرنے سے رہے۔‘‘ نادیہ نے جواب دیا۔ ’’وہ اسے مار ڈالتے مگر انہیں نو کروڑ برآمد کرنے تھے۔ اس کے علاوہ بھی سہیل چوہدری کی تحویل میں بہت کچھ ہے۔ جب آپ اس سے ملاقات کریں گے تو وہ بتائے گا کہ وہ بہت خطرناک مواد ہے۔ اس کی مدد سے سہیل چوہدری کی ضمانت پر رہائی بھی حاصل کی جاسکے گی اور اسے باعزت رہا کرانا بھی ممکن ہوگا۔‘‘
مرزا عباس اسے بے چینی سے دیکھتا رہا اور پھر اس نے پوچھا۔ ’’آپ کو اتنا یقین ہے؟‘‘
’’یہ یقین بے بنیاد نہیں ہے۔ بعد میں آپ کو پولیس کے خلاف ایک کروڑ روپے ہرجانے کا کیس بھی داخل کرنا ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک ادئے ناز سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ہرجانہ کس بات کا… میں سمجھا نہیں؟‘‘ مرزا عباس نے کہا۔
’’جسمانی و ذہنی اذیت پہنچا کے معذور کرنے کا… اس کی تصویروں سے ثابت ہوگا کہ اس پر کتنا تشدد کیا گیا اور ایذا رسانی کی گئی۔ ممکن ہے وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل بھی نہ رہا ہو۔ اسے جو الیکٹرک شاک دیئے گئے، ان سے کوئی بھی مرد بیکار ہوسکتا ہے۔ میڈیکل پورٹ سے ایسا ثابت بھی ہوسکتا ہے۔ اس کیس میں آپ کی فیس الگ ہوگی۔‘‘
مرزا عباس ہونقوں کی طرح اسے دیکھتا رہا اور بولا۔ ’’اپنی مرضی کی میڈیکل رپورٹ حاصل کرنے کیلئے آپ کوئی چیک نہیں لائیں؟‘‘
نادیہ نے اس کی بات کا جواب دیئے بغیر اپنی بات جاری رکھی۔ ’’ان تفتیش کرنے والے اداروں نے سہیل چوہدری پر جھوٹے کیس بنائے۔‘‘
’’جھوٹے کیس…! یعنی نو کروڑ اس نے نہیں چرائے تھے؟‘‘
’’کیا وہ دوسری دنیا سے آیا تھا نو کروڑ چرانے کیلئے…؟‘‘ نادیہ کے لہجے میں تمسخر تھا۔
’’مگر وہ تو اسی دنیا میں تھا؟‘‘ مرزا عباس نے تکرار کے انداز میں کہا۔
’’تو پھر اخبار والوں کو اس کی حادثاتی موت کی خبر کس نے جاری کی تھی…؟ کیا اس کی موت کا کوئی سرٹیفکیٹ ہے؟ کوئی پوسٹ مارٹم رپورٹ ہے…؟ اس کے کسی وارث نے کب دعویٰ کیا کہ وہ مر چکا ہے؟‘‘ یہ کہہ کر نادیہ دروازے کی طرف بڑھی تو اس کی چال میں کسی مہارانی کی سی تمکنت، دبدبہ اور وقار تھا۔ پھر وہ رات کی تاریکی میں کسی چھلاوے کی طرح غائب ہوگئی۔
مرزا عباس کو اس لمحے بے اختیار ایک لطیفہ یاد آگیا جو اس نے بچپن میں سنا تھا۔ ایک چالاک شخص نے کسی دکان سے لڈو خریدے پھر لڈو واپس کرکے برفی لی اور کھا کے جانے لگا تو دکاندار نے پیسے مانگے۔
اس نے کہا۔ ’’بھائی! کس چیز کے پیسے؟‘‘
دکاندار بولا۔ ’’کیا تم نے برفی نہیں کھائی؟‘‘
وہ بولا۔ ’’برفی تو میں نے لڈو کے بدلے میں لی تھی۔‘‘
دکاندار نے کہا۔ ’’اچھا چلو لڈو کے ہی پیسے دے دو۔‘‘
وہ بولا۔ ’’وہ تو میں نے واپس کردیئے تھے۔‘‘
آخر سہیل چوہدری خود کو کیا سمجھتا ہے؟ اتنی آسانی سے قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکتی ہے…؟ ایک کروڑ کے ہرجانے کا کیس کرنے سے کیا ہوگا؟ آئے دن سیاسی رہنمائوں اور لیڈروں کا ایک دوسرے کے خلاف کروڑوں کے ہرجانے کا کیس کیا جاتا ہے۔ نتیجہ ڈھاک کے تین پات…! ہرجانے کا کیس کرنے سے کیا تفتیش کرنے والے گھبرا کے اسے بخش دیں گے یا رہا کردیں گے؟
تاہم کیس دلچسپ اور سنسنی خیز ضرور ہے اور جب تک وہ خطرناک مواد نہ دیکھا جائے جس کا نادیہ نے حوالہ دیا تھا، کیا کہا جاسکتا ہے کہ عدالت میں کس کا پلہ بھاری رہے گا۔ سہیل چوہدری کسے بلیک میل کرکے باعزت رہائی کا سودا کرنا چاہتا ہے؟ اس میں شک کی کوئی بات نہیں کہ وہ ذہین آدمی ہے۔
اگلے لمحے اس نے سارے چیک اٹھا کے اچھی طرح سے دیکھے۔ ان سب پر دستخط الگ الگ تھے۔ وہ مختلف بینکوں کے چیک تھے مگر خود اس کے ذہن میں ایک لمحے کیلئے بھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ عورت جھوٹی تھی اور جعلی چیک دے گئی تھی۔
خلع کے کیس جو عورتیں لے کر آتی تھیں، ان میں اکثریت شوہر، نندوں، دیوروں، ساس اور سسر کے متعلق بھی بہت جھوٹ بولتی تھیں کہ ان کے ماں، باپ نے زیورات اور لاکھوں کا فرنیچر دیا جو سسرال والے ہڑپ کرگئے۔ جب وہ ان کی باتوں کا یقین نہیں کرتا اور اپنی فیس میں کمی کیلئے تیار نہیں ہوتا تو وہ خود کو پیش کرکے فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں۔ تب وہ یقین کرلیتا تھا کہ یہ جھوٹ بول رہی ہیں۔
اس نے سارے چیک اپنی میز کی دراز میں ڈال دیئے۔ اس کی بیوی سے رہا نہیں گیا۔ اس نے دبے پائوں آکر غیر محسوس انداز سے دروازے کا ہینڈل گھمایا۔ اس کے دل میں شک کا سانپ کنڈلی مار کے بیٹھ گیا تھا۔ اس حسین عورت نے اس کے شوہر کو کسی زہریلی ناگن کی طرح ڈس لیا ہوگا اور وہ دونوں انجانے راستے پر دوڑے جارہے ہوں گے لیکن اس کا اندیشہ غلط نکلا۔ وہ بت کافر کمرے میں نہ تھی، اس کا شوہر اکیلا تھا۔ وہ اپنے شوہر کا ہاتھ تھام کے اسے خواب گاہ میں لے آئی۔ مرزا عباس خاموشی سے بستر پر دراز ہوگیا۔ اسے بہت دیر تک نیند نہیں آئی۔ وہ نادیہ اور سہیل چوہدری کی پہلی بیوی کے بارے ہی میں سوچتا رہا۔
٭…٭…٭
یہ تفتیش کا دوسرا دن تھا۔ ایف
ڈائریکٹر نے کہا۔ ’’غیور شاہ! تم ایک وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہو۔ یہ کہہ سکتے ہو کہ تمہیں پانڈا کارپوریشن کے ایم ڈی نے سہیل چوہدری کا سراغ لگانے کے ایک کروڑ روپے دیئے تھے۔ ہم ان دونوں انشورنس کمپنی کے اعلیٰ افسروں کو بھی دھر لیں گے جنہوں نے تمہیں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر اکسایا تھا۔‘‘
تب ڈی آئی جی پولیس نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’شاید ان کے خلاف کوئی الزام ثابت کرنا ممکن نہ ہو۔‘‘
سیکرٹری کا عہدہ رکھنے والے بیوروکریٹ نے پرسکون انداز میں کہا۔ ’’غیور شاہ! آخر تم نے سہیل چوہدری کا سراغ کیسے لگایا؟‘‘
غیور شاہ نے بتانے میں تامل نہیں کیا۔ وہ کہنے لگا۔ ’’اس کی ابتدا میں نے پانڈا کارپوریشن کے آفس سے کی۔ میں نے سہیل چوہدری کے آفس کا سارا ریکارڈ دیکھا جو اس کی میزوں کی درازوں، فائلوں اور الماریوں میں دستیاب تھا یا کمپیوٹر میں محفوظ تھا لیکن وہاں سے کچھ معلوم نہ ہوا۔ وہ سب کا سب آفس ریکارڈ تھا۔ کارپوریشن کے مالیاتی معاملات اور لین دین کی تفصیلات… میں نے ایک ایک چیز چھان ماری مگر اس نے کوئی سراغ نہیں چھوڑا تھا۔ اس کی جان پہچان کے لوگ، دوست احباب اور رشتے دار سبھی یہ سمجھتے تھے کہ وہ مرچکا ہے۔‘‘
’’مگر یہ مرنے والا کون تھا؟‘‘ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر نے مداخلت کی۔
’’میں کیا بتا سکتا ہوں۔‘‘ غیور شاہ نے کندھے اچکائے۔ ’’اس کے دوست صرف کاروباری تھے جو اس کی نجی زندگی کے بارے میں بہت کم جانتے تھے۔ رشتے داروں میں صرف ایک ماں تھی۔ بہت ضعیف، فاترالعقل اور نیم پاگل…!‘‘
ڈی آئی جی نے بے یقینی سے سر ہلا کر کہا۔ ’’غیور شاہ…! ہماری معلومات کے مطابق وہ بالکل ٹھیک تھی۔ بیٹا اس کا بہت خیال رکھتا تھا۔ وہ الگ ضرور رہتی تھی مگر اس کی دیکھ بھال کیلئے ایک عورت مقرر تھی جو چوبیس گھنٹے اس کا خیال رکھتی تھی۔ وہ ایک غریب عورت تھی جسے سہیل چوہدری نے ماں کی ہمہ وقت خدمت پر مامور کیا تھا۔ اس کا شوہر باہر کے سارے کام کرتا تھا۔ وہ ضرورت پڑنے پر اس عورت کو ڈاکٹر کے پاس بھی لے جاتا تھا۔ میاں، بیوی کا سہیل چوہدری سے رابطہ تھا۔‘‘
’’جب تم نے تفتیش کی تو تمہارے آدمی اس بوڑھی عورت کو اٹھا کے لے گئے اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اگر وہ جواں سال اور خوبصورت ہوتی تو اس کی بے حرمتی کرنے سے بھی نہ چوکتے۔‘‘
’’کیا پولیس نے ایسا نہیں کیا تھا؟‘‘ غیور شاہ نے تکرار کی۔ اس کا لہجہ تلخ ہوگیا۔
’’پولیس کی بات مت کرو۔ تفتیش انہی کا کام تھا، تمہارا نہیں اور تفتیش سے وہ ہلاک نہیں ہوئی تھی۔‘‘ آئی جی نے برہمی سے کہا۔
’’اس کی خدمت پر مامور میاں، بیوی سے ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوا تھا۔‘‘ غیور شاہ نے جواب دینے میں چند لمحوں کی تاخیر کی۔ پھر بولا۔ ’’ہاں…! میں نے انہیں ایک لاکھ روپے کی پیشکش کی تھی پھر انہیں پانچ لاکھ کی رقم کا بھی لالچ دیا مگر وہ کچھ جانتے ہوتے تو بتاتے۔ سہیل چوہدری خود ان سے فون پر رابطہ کرتا تھا ۔وہ اس قدر محتاط تھا کہ پی سی او کا استعمال کرتا تھا اس لئے ہم کبھی اس تک نہ پہنچ سکے پھر میں نے اشتہار کا طریقہ اختیار کیا۔ میں نے لاکھوں پوسٹرز چھپوائے اور کراچی اور اندرون سندھ کے بڑے شہروں میں پھیلا دیئے۔ سہیل چوہدری کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے کیلئے دس لاکھ کا انعام رکھا تھا۔ میں نے چھ مہینے تک یہ مہم چلائی۔ مجھے یقین تھا کہ وہ کراچی میں کہیں نہ کہیں ضرور نظر آجائے گا۔ بالآخر وہ کراچی ہی سے پکڑا گیا۔ اس کی گمشدگی کے ایک برس بعد جب میں پچاس لاکھ خرچ کرچکا تھا اور مایوس ہوگیا تھا، اچانک کراچی کے ایک کرائم رپورٹر کا فون ملا۔ کوئی عورت سہیل چوہدری کے بارے میں کچھ اطلاع دینا چاہتی ہے مگر ایک تو وہ دس لاکھ مانگتی ہے، دوسرے سامنے آنے سے ڈرتی ہے۔ کرائم رپورٹر نے جو طریقہ تجویز کیا، اس پر مجھے شک ہوا کہ وہ مجھے بے وقوف بنا کے دس لاکھ ہضم کرنا چاہتا ہے مگر ایسا نہیں تھا۔ چھ ماہ بعد اس کرائم رپورٹر کو پھر فون موصول ہوا۔ اس عورت نے کہا تھا کہ وہ سہیل چوہدری کی تازہ ترین تصویر ارسال کرسکتی ہے۔ اس نے چھپ کر اس کی تصویر اتاری تھی وہ بالکل بدل چکا ہے۔ آپ پرانی تصویر سے قیامت تک اسے تلاش نہیں کرسکتے۔ اس ضمن میں، میں نے جوا کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اس کرائم رپورٹر کو دس لاکھ روپے دے دیئے لیکن میں نے اس کے پیچھے اپنے آدمی بھی لگا دیئے۔ ایک ہفتے بعد مجھے سہیل چوہدری کی تصویر مل گئی۔ معلوم نہیں کرائم رپورٹر نے تصویر کیسے فراہم کی لیکن اس نے میرے ساتھ دھوکا نہیں کیا تھا۔ ہم نے اس تصویر کو بڑا کرکے دیکھا مگر بیک گرائونڈ واضح نہیں تھا۔‘‘