بھائی صاحب ! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ ہم نے ماریہ سے ایسا کوئی تقاضا نہیں کیا۔ طیبہ خاتون حیرت اور صدمے کی زیادتی سے سامنے بیٹھے بیٹے اور اس کے سر اعجاز صاحب کو دیکھ رہی تھیں ۔ دیکھیں بہن! ماریہ نے خود ہمیں فون کر کے کہا ہے۔ وہ بری طرح رو بھی رہی تھی۔ کہہ رہی تھی کہ اگر ہم نے اس کی عیدی نہ بھیجی تو سسرال میں اس کی سبکی ہوگی۔ ساس اور جٹھانیاں طعنے دیں گی کہ اس کے میکے سے کچھ نہیں آیا۔ تو بہن! میں نے یہ مناسب سمجھا کہ آپ سے براہ راست بات کرلوں کہ میں اپنی سبزی کی دکان سے بمشکل اتنا کما پاتا ہوں کہ گھر کی دال روٹی پوری کر سکوں۔ پانچ بیٹیوں کا باپ ہوں۔ دو کی شادی بڑی مشکل سے کی ہے، محلے کے مخیر حضرات مدد نہ کرتے تو یہ بھی میرے لیے ممکن نہ تھا۔ باقی تین بھی شادی کی عمر کو پہنچ رہی ہیں۔ اس بڑھاپے میں اپنا فرض بھی پورا کر سکوں تو بڑی بات ہے۔ میں اس غربت میں شادی شدہ بیٹیوں کے سسرال کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا۔ آپ بھلے مانس لوگ ہیں۔ امید ہے آپ میری مجبوری سمجھیں گے اور میکے سے عیدی نہ آنے پر میری بیٹی کو باتیں نہیں سنائیں گے۔” آخر میں ان کی آواز بھرآ گئی اور سر پر رکھے رومال سے آنکھیں صاف کرنے لگے اور طیبہ خاتون صدمے سے گنگ ان کی تسلی کے لیے ایک لفظ بھی نہیں بول پا رہی تھیں۔ لیکن عثمان غصے سے اٹھا، ماریہ کو آواز دیتا ہوا باہر نکلا اور پھر اسے بازو سے پکڑ کر اندر لے آیا۔ ماریہ ! اب اپنے بابا کے سامنے ذرا سچ بولو کہ کب ہم نے تم سے عیدی وغیرہ کا تقاضا کیا ہے اور کب بھابھی اور امی نے تمہیں طعنے دیئے ہیں۔” اس نے اعجاز صاحب کی وجہ سے بڑی مشکل سے اپنے غصے کو کنٹرول کیا ہوا تھا تو دوسری طرف ماریہ شرمندگی سے نظر ہی نہیں اٹھا پا رہی تھی۔ ماریہ میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں ۔ ” عثمان نے بڑی سختی سے اسے کندھے سے پکڑ کر جھنجوڑا تھا۔ جو کہ اس کا خاصا نہ تھا۔ بابا ! میں نے جھوٹ بولا تھا۔ اصل میں امی بھی ثناء (نند) کی عیدی کی تیاری کر رہی تھیں اور بھابھیوں کے گھر سے بھی عیدی آئی تو میرا دل بھی چاہا کہ میرے گھر سے بھی عیدی آئے ، اس لیے میں نے فون کیا ۔ وہ نظریں ملائے بغیر بول رہی تھی- لیکں ماریہ! تم رو رہی تھیں کہ سسرال والے تمہیں طعنے دیتے ہیں؟ سادہ سے بابا نے اس کا بالکل بھی بھرم نہ رکھا۔ وہ اس لیے کہا تا کہ آپ لوگ ہر حال میں میری بات مانیں ۔ ڈرتے ڈرتے عثمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولی تھی۔ بیٹا ! یہ لوگ تو پرائے تھے، کچھ کہتے بھی تو اتنا دکھ نہ ہوتا لیکن تم تو میری اپنی بیٹی ہو گھر کے حالات سے واقف ہو۔ تمہیں اپنے اپاہج باپ کا خیال نہ آیا۔ انہوں نے اپنی بیساکھی اور ٹانگ کی طرف اشارہ کیا۔ جو ایک روڈ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے کٹ گئی تھی اور ان کی اچھی بھلی نوکری ختم ہو گئی ، جس کی وجہ سے انہوں نے گھر کا نظام چلانے کے لیے محلے میں ہی سبزی کی دکان بنالی۔ وہ بڑے دکھ سے اپنی خود غرض بیٹی کو دیکھ رہے تھے جس سے کچھ بن نہ پڑا تو بھاگتے ہوئے باہر چلی گئی۔ اعجاز صاحب تو بیٹی کی طرف سے معافی مانگتے ہوئے گھر چلے گئے لیکن طیبہ خاتون کی چپ نہ ٹوٹی۔ ہنستے بستے گھر میں ایک فرد کی وجہ سے گھر کی فضا ہوجھل اور بےسکون ہو گئی۔ طیبہ خاتون نے یہ کہہ کر اپنے کمرے کا دروازہ بند کر لیا کہ “مجھے کوئی تنگ نہ کرے” عثمان نے آگے بڑھ کر کچھ کہنا چاہا لیکن انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ عثمان بے بسی سے اپنا سر تھام کرو ہیں بیٹھ گیا۔ وہ ماریہ کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا جو سب کی نفرت بھری نظروں سے ڈر کر ایک کونے میں مجرم کی طرح کھڑی تھی۔ اسے اندازہ نہ تھا کہ اس کی بات کا یوں بتنگڑ بن جائے گا لیکن عثمان کو امی کی بہت فکر ہو رہی تھی ۔ چھوٹا ہونے کی وجہ سے وہ اپنی ہاں کے بہت قریب تھا۔ بڑے دو تو آرمی میں تھے لیکن وہ اپنے ہی شہر میں ایک پرائیوٹ کمپنی میں نوکری کرتا تھا اور گھر میں ہی ہوتا تھا۔ بھابھی! آپ امی سے بات کریں کہ وہ دروازہ کھول دیں۔ ہم سب میں آکر بیٹھیں ، مجھے ان کی بہت فکر ہو رہی ہے۔ کہیں ان کا بی پی نہ شوٹ کر جائے ۔ ایسا لگ رہا تھا، وہ ابھی رو دے گا۔ تم فکر نہ کرو، میں کوشش کرتی ہوں۔ صبا بھابھی اسے تسلی دیتی کمرے کی طرف بڑھیں۔ عثمان نے بچوں کو دیکھا جو اپنے چاچو کو خوب تنگ کرتے تھے اور گھر میں اودھم مچائے رکھتے تھے، اب سہمے ہوئے دروازے پر نظریں جمائے بیٹھے تھے کہ کب ان کی شفیق دادو باہر آئیں گی- اور پھر طیبہ خاتون باہر آئیں لیکن انہوں نے جو کچھ کہا اس سے عثمان ہل کر رہ گیا۔ وہ سب اس وقت لاؤنج میں بیٹھے تھے اور ان کے فیصلے سے سب ہی شاک تھے۔ ہاں عثمان ! ہم سب کے لیے یہی بہتر ہے کہ تم ماریہ کو لے کر علیحدہ ہو جاؤ ۔ حد سے زیادہ سرخ ہوتی آنکھوں کے ساتھ وہ بڑے بے تاثر لہجے میں بولی تھیں۔ امی! آپ ماریہ کی غلطی کی سزا مجھے کیوں دے رہی ہیں۔ مجھے خود سے جدا کیوں کر رہی ہیں۔ آپ جانتی ہیں میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ چھوٹے بچوں کی طرح بات کرتا ان کے قدموں میں بیٹھا تھا۔ نہیں بیٹا! میں کون ہوتی ہوں سزا دینے والی۔ یہ بس اپنے بچوں کی بھلائی کے لیے ایک ماں کا فیصلہ ہے۔” انہوں نے پیار سے اس کے بال سنوارے تھے۔ عیدی دینے کی رسم خدانخواستہ فرض نہیں۔ بس خوشی منانے کا ایک طریقہ ہے۔ لیکن اس نے دوسروں کی دیکھا دیکھی عیدی کے لیے اپنے ماں باپ کو کتنا مجبور کیا کہ وہ ہمارے پاس آ کر اپنا دکھ بیان کر رہے ہیں۔ کسی چیز کی خواہش ہونا بڑی بات نہیں لیکن اس کی تعمیل کے لیے دوسروں کو اذیت دینا بری بات ہے۔ اپنوں کی آسانی کے لیے دل کو مارنا پڑتا ہے، اس کو اپنی خود غرضی میں باپ کی غربت نظر نہیں آئی۔ اسے ان کے دکھوں کا احساس نہیں جن کے ساتھ یہ چوبیس سال گزار کے آئی ہے تو ہماری کیا بنے گی جن کے ساتھ رہتے اسے چند مہینے ہوئے ہیں اور اسے یہ بھی اندازہ نہیں کہ اس نے ایک چھوٹی سی خواہش کی تکمیل کے لیے کتنا بڑا جھوٹ بول کر ہماری عزت خاک میں ملا دی تمہارے ابا مرحوم کہتے تھے کہ عزت سے بڑی کوئی دولت نہیں ہوتی اور اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں جھولی بھر کر اس دولت سے نوازا ہے لیکن کیا ہم اس کے میکے اور جاننے والوں میں عزت دار کہلائیں گے ؟ نہیں نا ۔” وہ ماریہ کی طرف دیکھے بغیر بات کر رہی تھیں۔ جو کاٹو تو بدن میں لہو نہیں کی تفسیر بنے کونے میں دبکی ہوئی تھی۔ اور بیٹا سب سے بڑی بات یہ لوگ اپنے رب کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتے۔ نصیب سے لڑتے ہیں، اپنی نظر بد اور عمل بد سے دوسروں کی خوشیوں کو کھا جاتے ہیں، اس کی مثال تمہارے سامنے ہے۔” انہوں نے عثمان کو دیکھتے ہوئے سب گھر والوں کو اشارہ کیا تھا، جن کے چہروں پر اداسی رقم تھی۔ لیکن امی ! اس دفعہ ماریہ کو معاف کر دیں۔ آئندہ ایسا نہیں کرے گی، میں اس کی ضمانت دیتا ہوں ۔ وہ بہت مضطرب لگ رہا تھا۔ بیٹا! اگر یہ یہاں رہی تو میکے والوں اور تمہارے لیے مشکلات پیدا کرے گی۔ اس کے اس ایک عمل سے میں نے اس کی فطرت کو پالیا ہے اور فطرت نہیں بدلتی۔ یہاں رہتے ہوئے اس نے صبا اور سائرہ سے مقابلہ کرنا ہے ۔ ” انہوں نے اپنی بیٹی اور بہوؤں کا نام لیا اس نے ہر معاملے میں اپنا اور ان کا موزانہ کرنا ہے جو کہ ممکن نہیں۔ میں تمہیں ایک چھوٹی سی مثال دیتی ہوں، جیسے تمہاری ہانیہ پیدا ہوئی، تو اس کے ننھیال والوں نے اسے سونے کا سیٹ دیا ہے کیونکہ صبا ( بہو) ان کی اکلوتی بیٹی ہے تو انہوں نے اپنی خوشی سے ایک قیمتی تحفہ دیا ہے اور اگر ماریہ ان سے مقابلہ کرتے میکے والوں سے عیدی مانگ سکتی ہے تو کل بچے کی پیدائش پر اپنے میکے والوں سے ایسے ہی قیمتی تحفے کی ڈیمانڈ بھی کر سکتی ان کی بات پر ماریہ کا سر مزید چھک گیا تھا کیونکہ حقیقتا اس کے دل نے یہ خواہش کی تھی ، یہ اس کی عادت تھی کہ جو چیز دوسرے کے پاس ہوتی وہی اسے پسند آئی تھی۔ اسی طرح یہ تم سے بھی ایسی ہی تو قعات کی امید رکھ سکتی ہی جو تمہاری اوقات سے بڑھ کر ہوں ۔” عثمان نے بڑی تیکھی نظروں سے ماریہ کو دیکھا، جو کب سے اسے ہنی مون پر لے جانے کے لیے اکسا رہی تھی جو کہ چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے ممکن نہ تھا اور اخراجات کی وجہ سے بھی ممکن نہ تھا کیونکہ شادی پر اتنا خرچ ہو گیا تھا کہ اب وہ مزید کسی فضول خرچی کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا اور ماریہ جب بھی یہ فرمائش کرتی ثنا کی مثال ضرور دیتی جس کی شادی اس کے ساتھ ہوئی تھی تو بیٹا ! جب یہ علیحدہ رہے گی تو کم سے کم لوگوں سے اپنا موازنہ کرے گی۔ اپنا تجزیہ کرے گی ۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگا اور جب تمہارا دل گواہی دے کہ ماریہ بدل گئی ہے تو اس گھر کے دروازے تمہارے لیے ہمیشہ کھلے ہیں۔ یہ تمہارے بابا کا گھر ہے، یہاں تمہارا برابر کا حق ہے۔ اس بات کو ایک ماں کی تجویز سمجھ لو، جو تمہاری بھلائی کے لیے ہے۔ امی ! اس کے شر سے سب کو بچارہی ہیں تو سیدھا مجھے سے یہ کیوں نہیں کہتیں کہ میں اسے چھوڑ دوں، جو اپنے حسد سے ذلیل بھی کرتی ہے اور خوشیاں بھی پیتی ہے۔” اس نے بڑی شکوہ کناں نظروں سے ماں کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ طیبہ خاتون نے مسکراتے ہوئے اپنے اس سعادت مند بیٹے کو دیکھا تھا۔ میں ایسا کام کیوں کہوں جو اللہ تعالٰی کا نا پسندیدہ ہے۔ وہ تمہاری بیوی ہے، تمہاری ذمہ داری ہے اس کی اصلاح کا ذمہ بھی حقیقا تمہارا ہے۔ تمہارا اور اس کا رشتہ بہت مضبوط ہے۔ تم اس کی غلط بات کو بھی نظر انداز کر سکتے ہو لیکن یہاں رہنے والوں سے اس کا ایسا رشتہ نہیں کہ وہ اس کی غلطیوں کو برداشت کریں۔ اس کے ایک عمل نے سب کو بددل کر دیا ہے۔ اب گھر کی فضا پہلے جیسی نہیں رہ سکتی۔ اس کی نند اور جٹھانیاں حتی کہ میں بھی پہلے کی طرح اپنی خوشیاں اس سے شیئر نہیں کر سکتی ، جب دلوں میں کدورت ہو تو مل کر رہنے کا کیا فائدہ یہ کہہ کر وہ رکیں نہیں اور کمرے میں چلی گئیں اور ان کے پیچھے سب چل دیے، سوائے عثمان اور ماریہ کے۔ عثمان نے صرف ایک نظر ماریہ کو دیکھا لیکن وہاں ٹھہر انہیں اور مار یہ سوچ رہی تھی کہ کیا وہ ان نظروں میں گر کر دوبارہ سے اپنا مقام پاسکے گی؟ کیا وہ خود کو بدل سکے گی؟