وہ ایک گھریلو شرمیلی سی لڑکی تھی۔ کبھی اداکارہ بننے کے بارے میں سوچا بھی نہ تھا لیکن تقدیر میں جو لکھا ہو ، ہو کر رہتا ہے۔ شاعرہ کی تقدیر میں بھی، سلور اسکرین پر ایک بڑی اداکارہ کے طور پر شہرت پانا لکھا گیا تھا۔ سو وہ صف اوّل کی اداکارہ بن گئی۔ شاعرہ اس کا اصل نام نہیں ہے ، وہ فرضی نام سے اپنی کہانی شائع کرانا چاہتی تھی، نام ظاہر نہ کرنا چاہتی تھی۔ شاعرہ نے پنجاب کے ایک متوسط گھرانے میں جنم لیا۔ اس کے والد ایک دیانت دار سرکاری ملازم تھے۔ ان پر کنبے کا تمام بوجھ تھا۔ یہ نو افراد پر مشتمل تھا، شاعرہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی، اسی شرف نے اس کو ذمہ داری کا احساس بھی دلا دیا۔ تعلیم مکمل کرتے ہی اپنے حساس دل سے مجبور ہو کر وہ اپنے والد کا سہارا بننے بارے سوچنے لگی۔ اس کی ایک سہیلی دیکھتے دیکھتے ایئر لائن جوائن کرتے ہی اپنے گھرانے کی خوشحال سرپرست ہو گئی ، اس کا نام شبانہ تھا۔ شبانہ اسے کہتی کہ کب تک معمولی ملازمت کے حصول کی خاطر دھکے کھاتی رہو گی۔ میرے ایک رشتہ دار ایئر لائن میں اچھے عہدے پر ہیں، تم خوبصورت ہو ، دراز قد بھی ہو ، تمہاری پرسنیلٹی تو نمبر ون ہے۔ میری مانو ! ہماری فیلڈ میں آجائو۔ ایئر ہوسٹس بن جائو گی تو خوشحال ہو جائو گی، یہاں بہت اچھا معاوضہ ملتا ہے جبکہ بچارے اساتذہ کو بہت کم اُجرت پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ وہ تو ٹھیک ہے شبانہ، مگر میرے گھر والے مجھ کو ایئر ہوسٹس بننے کی اجازت نہ دیں گے کیونکہ اس ملازمت میں رات کی ڈیوٹی بھی کرنا پڑتی ہے۔ تم کوشش تو کرو ان کو سمجھانے کی۔ شروع میں ملکی پروازوں پر جانا ہوتا ہے ، زیادہ تر دن کی ڈیوٹی ہوتی ہے، ایک بار اس فیلڈ میں آجائو گی تو والدین بعد میں سمجھوتہ کرلیں گے۔ شاعرہ نے کسی نہ کسی طرح اپنے والدین کو منالیا اور شبانہ کے توسط سے ایئر ہوسٹس بن گئی۔ اچھا معاوضہ ملتا تھا۔ گھر کے حالات سنبھل گئے۔ والد ریٹائرڈ ہو گئے تو کنبے کی ذمہ داری شاعرہ کے کندھوں نے سنبھال لیں۔ بے سکون گھر میں مالی سکون آگیا اور سب اپنے اپنے کاموں میں مشغول ایک بے فکری میں مگن زندگی گزارنے لگے۔ پھر یہ بھولی بھالی لڑکی نیویارک سے چین تک پرواز کرتی ہوئی ایک کولیگ سے دل لگا بیٹھی ، جس کا علم گھر والوں کو نہ تھا۔ شاعرہ اپنے کولیگ سے ناتا جوڑ کر دیوانگی کی حدوں تک جا پہنچی تھی۔ ملازمت کی خاطر اس کو کراچی کے ہوسٹل میں رہنا پڑتا تھا۔ یہیں اس کی ملاقات فلائٹ کے دوران ایک اسٹیورڈ سے ہوئی۔ یوں دونوں پسندیدگی کے رشتے میں بندھ گئے لیکن یہ رشتہ دونوں جانب سے شفاف نہ تھا۔ فواد نے محض تفنن طبع کے طور پر اس کو اپنایا تھا اور اپنی جھوٹی محبت کا یقین دلایا تھا۔ ان دونوں کے تعلق سے فواد کا ایک دوست سیف روز اول سے ہی واقف تھا جس کو شاعرہ سیف بھائی کہا کرتی تھی۔ وہ بھی اس سیدھی سادی لڑکی کو بہن کے روپ میں پسند کرتا تھا۔ فواد اپنے دوست سیف سے بہت قریب تھا اور اسے اپنی ہر بات بتاتا تھا۔ یوں سیف اس کے ارادوں سے آگاہ تھا۔ اس حقیقت سے آگاہی کے بعد سیف کو ملال رہنے لگا کہ جس لڑکی کو اس نے دل سے بہن کہا ہے ، اسے محبت کے باب میں دھوکا ملنے والا ہے اور محض بربادی ہی اس کے حصے میں آنے والی ہے، تبھی وہ شاعرہ کے بارے متفکر رہنے لگا۔ چاہتا تھا کسی طور وہ اس معصوم لڑکی کو اپنے دوست کے ارادے سے آگاہ کر کے برباد ہونے سے بچالے۔ تاہم دوست کی پاس داری آڑے آتی تھی لہذا خاموشی اختیار کی ہوئی تھی۔ یوں بھی جب تک ٹھوکر نہ لگ جائے، لڑکیاں ایسے جذباتی معاملات میں کب کسی کی بات سنتی ہیں۔ الٹا سمجھانے والے کو اپنا دشمن سمجھ لیتی ہیں۔ شاعرہ میں اور کوئی برائی نہ تھی، سوائے اس کے کہ وہ فواد پر بھروسا کر کے اس کو اپنا سب کچھ سمجھ بیٹھی تھی۔سیف نے نہ تو فواد کو سرزنش کی اور نہ شاعرہ کو کبھی یہ جتلایا۔ وہ مناسب وقت کے انتظار میں رہنے لگا، بالآخر وہ وقت آہی گیا، جب وہ ان کے معاملے میں مداخلت کر سکتا تھا۔ جب فواد نے شاعرہ کے ساتھ بے رخی بر تناشروع کر دی اور یہ لڑکی ملول اور شدید احساس اہانت کا شکار رہنے لگی تو ایک روز سیف کے سامنے اس نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ خوب روئی اور فواد کی بے رخی کا شکوہ کر بیٹھی۔ سیف اسی لمحے کا منتظر تھا۔ اس نے شاعرہ کو تسلی دی اور وعدہ کیا کہ وہ فواد کو راہ راست پر لے آئے گا۔ اس نے دوست سے بات کی اور اس کو شاعرہ کے ساتھ شادی کرنے کو کہا۔ اسی بات سے تو فواد بد کتا تھا۔ وہ صرف اچھا وقت گزار کر اپنی دوست لڑکیوں کو بیچ منجدھار میں چھوڑ دیا کرتا تھا اور جو لڑکی شادی کے لئے اصرار کرتی ،اس سے کنارہ کش ہو جاتا تھا۔ سیف اس کی عادت سے واقف تھا، اس نے پھر بھی اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی۔ فواد نے اس کی نصیحتیں ایک کان سے سنیں اور دوسرے سے اڑادیں۔ اس سے مایوس ہو کر سیف اس کے گھر چلا گیا۔ فواد کی والدہ اس کو اپنے بیٹے کی طرح چاہتی تھی، لہذا اس نے خالہ جی سے بات کی اور پھر ایک روز وہ شاعرہ کو لے کر خالہ جی کے حضور پہنچا۔ فواد کا کچا چھٹا سنانے کے بعد اس نے بتایا کہ شاعرہ اس کی بہن ہے اور فواد نے اس کو دھوکا دیا ہے جبکہ اب وہ رسوائی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ فواد کی ماں غور سے شاعرہ کو دیکھ پر کھ رہی تھی۔ سمجھ گئی کہ لڑکی بہت اچھی فطرت کی اور شریف گھرانے کی ہے۔ نادانی کے باعث اس کے بیٹے کے مکر و فریب میں پھنس کر اب زندگی کی دولت لٹا بیٹھی ہے اور موت کے دوراہے پر کھڑی ہے۔ وہ سراپا ممتا تھی۔ اس نے روتی ہوئی شاعرہ کو گلے سے لگا لیا اور اس کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔ فکر مت کرو بیٹی، تمہارے سوا میں کسی دوسری لڑکی کو اس گھر کی بہو نہ بننے دوں گی۔ فواد سے میں خود نمٹ لوں گی، تم بے فکر ہو کر گھر جائو ، ایک ماہ کے اندر اندر تم کو بہو بنا کر اس گھر میں لے آئوں گی ۔ تم کو رسوائی کے ڈر سے اس دنیا سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ خالہ کے ان الفاظ سے شاعرہ کو گویا نئی زندگی مل گئی۔ وہ روتی ہوئی مگر پر امید ہو کر گھر آگئی۔ فواد کی ماں نے بہت جلد اپنا وعدہ نباہ دیا۔ یوں سیف کی کوششوں سے اس کی منہ بولی بہن فواد کی دلہن بن کر اس کے گھر چلی گئی۔ اب سیف کو سکون کی نیند آئی کہ جس لڑکی کو دل سے بہن بنایا تھا، اس کا انجام بخیر ہو گیا۔ اب وہ خود کو ایسا محسوس کر رہا تھا جیسے اپنی سگی بہن کی ڈولی کو رخصت کر دیا ہو ۔ فواد سے شادی پر شاعرہ کے ماں باپ راضی نہ تھے۔ انہوں نے بادل ناخواستہ اپنی دختر کورخصت کیا تھا۔ اس کے بعد اس سے ناتا نہ رکھا، تاہم شاعرہ نے اپنی بہن کو ایئر لائن میں آفس جاب کروا دی تھی تبھی اس کو اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے مالی وسائل بارے میں فکر نہ رہی تھی۔ ان دنوں مشرقی پاکستان بنگلا دیش نہ بنا تھا لہذ افواد کا تبادلہ ڈھاکہ ہو گیا۔ اس کے کہنے پر شاعرہ نے ملازمت چھوڑ دی تھی اور اب مالی طور پر شوہر کے رحم و کرم پر تھی۔ ڈھاکہ میں فواد کارویہ شاعرہ سے تبدیل ہونے لگا۔ اس نے بیوی سے دوبارہ بے رخی اختیار کر لی اور اپنا ایک ایسا حلقہ احباب بنالیا جو اوباش قسم کے دوستوں پر مشتمل تھا۔ شاعرہ رات دن گھر پر پڑی اس کا انتظار کرتی رہتی اور وہ ڈیوٹی کا بہانہ بنا کر ہفتوں اس کی شکل نہ دیکھتا۔ جب گھر آنا شراب کے نشے میں ہو تا۔ تب وہ شاعرہ کو زدو کوب کرنے لگتا۔ اس ماحول سے ان کا چھوٹاسا معصوم بیٹا بھی متاثر ہونے لگا۔ ان حالات سے گھبراکر شاعرہ نے سیف کو خط لکھا اور تمام حالات درج کر دیئے۔ سیف نے اعلیٰ افسران سے مل کر فواد کا تبادلہ ڈھاکہ سے لاہور کروا دیا۔ یہاں آکر اپنی ماں کے لحاظ سے فواد چند دنوں تک تو ٹھیک رہا لیکن جس مرد کو باہر کی رنگینیوں کا چسکا پڑ چکا ہو، اس کا دل گھر میں اپنی شریف بیوی سے نہیں لگتا، خواہ وہ کتنی ہی خوبصورت اور وفادار کیوں نہ ہو۔ شاعرہ اس کے لئے راہ کے کانٹے کے سوا کچھ نہ تھی، پھر وہ زبر دستی اس کی بیوی بنی تھی۔ اس کے دماغ میں یہ بات پھانس کی طرح چھتی تھی کہ ماں کی مداخلت کی وجہ سے وہ اس طوق کو گلے میں ڈالنے پر مجبور ہوا تھا، ورینہ آج وہ آزاد ہوتا۔ لاہور شہر جو خوبصورتی کا مرکز تھا۔ یہاں فلم انڈسٹری کی رنگین دنیا شباب پر تھی۔ فواد کے کچھ دوست فلم انڈسٹری سے وابستہ تھے۔ ان کے طفیل وہ اکثر وہاں مختلف فلموں کی شوٹنگ دیکھنے جایا کرتا تھا۔ اسی دوران کچھ ایکسٹرا لڑکیوں کے چکر میں پڑ کر اپنی بیوی کو بالکل ہی بھول بیٹھا۔ تنگ آکر ایک روز شاعرہ نے احتجاج کیا۔ اس احتجاج کا یہ نتیجہ نکلا کہ اس نے بیوی کو مار پیٹ کر بیٹے سمیت گھر سے نکال دیا۔ دل شکستہ شاعرہ چند دن ایک سہیلی کے گھر رہی اور پھر فواد کے ماموں کے گھر چلی گئی تاکہ ان کو اپنی بپتا سنا کر فواد کو راہ راست پر لانے کا کہے۔ ماموں نے فواد کو لاہور سے بلا بھیجا۔ وہ آیا اور ماموں کی موجودگی میں بیوی کو طلاق دے کر چلا گیا۔ شاعرہ نے سیف کو خط لکھ کر حالات سے آگاہ کر دیا تھا۔ اب شاعرہ کے دل میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ وہ فواد کو کسی طور سبق دینا چاہتی تھی۔ سیف نے سمجھایا۔ یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے ، کورٹ جا کر بھی کیا کرو گی ، تم کو انصاف نہیں ملے گا، پھر اس نے تم کو طلاق بھی دے دی ہے، الٹاوہ بیٹے کے حصول کا کیس کر دے گا۔ فیصلہ تمہارے حق میں ہو بھی گیا تو کیس کی خواری اور اخراجات کہاں تک بھگتو گی۔ وہ نہ مانی ، دھمکی دی کہ اگر تم نے میری مدد نہ کی تو میں خود جاکر وکیل کرلوں گی یا پھر اس کے گھر میں گھس کر فواد کی جان لے لوں گی۔ تب سیف اس کو بچے سمیت لاہور لے آیا اور شاعرہ کو ہوٹل کے کمرے میں بٹھا کر فواد کی طرف چلا گیا، حالانکہ اب فواد سے رابطہ بھی لاحاصل تھا۔ جب وہ فواد سے ملا تو اس نے صاف کہہ دیا کہ وہ طلاق دے چکا ہے۔ اب اس کا شاعرہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سیف نے دیکھا کہ وہ گھر میں تنہا نہیں ہے، ایک ایکسٹرا کو اس نے ساتھ میں رکھا ہوا ہے۔ اس نے واپس ہوٹل آکر شاعرہ کو تمام ماجرا سنایا اور کہا کہ بحیثیت بھائی تم سے گزارش کرتا ہوں کہ ادھر ادھر بھٹکنے کی بجائے یا تو اپنے والدین کو منا کر ان کے پاس چلی جائو یا پھر میرے گھر چلو۔ میری والدہ اور بہنوں کے درمیان رہو ، وہاں تم کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ شاعرہ نے کہا کہ میں لاہور سے دور نہیں رہنا چاہتی۔ فواد اس شہر میں ہے تو میں بھی اسی شہر میں رہ کر اس سے انتقام لوں گی۔ جب وہ لاہور چھوڑنے پر راضی نہ ہوئی تو سیف اس کو کچھ رقم دے کر اور دوبارہ آنے کا کہہ کر چلا گیا۔ یہ بھی کہہ گیا کہ جب جی چاہے میرے گھر آسکتی ہو، میرے گھر کے دروازے تمہارے لئے ہمیشہ کھلے رہیں گے ۔ اس کا خیال تھا کہ کوئی ٹھکانہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ جلد ہی اس کے گھر واپس آجائے گی، لیکن شاعرہ نے ایسا نہیں کیا۔ وہ ہوٹل سے اپنی سہیلی کے گھر چلی گئی جس کے گھر پہلے بھی کچھ دن رہ چکی تھی۔ یہ لڑکی رافی پہلے ایئر ہوسٹس تھی اور اب ماڈلنگ پیشہ اختیار کر لیا تھا۔ کا حالات اور فواد کی بد سلوکیوں نے اگر چہ شاعرہ کا رنگ روپ ماند کر دیا تھا لیکن وہ اب بھی لاکھوں میں ایک تھی۔ رافی نے بھی اس کو ڈھارس دی، جینے کے رستے دکھائے۔ اس نے سمجھایا کہ فواد کے پیچھے بھاگنے یا اس کی جان لینے سے بہتر ہے کہ اس کو کسی دوسرے طریقے سے شکست دو۔ تم ماڈلنگ کی طرف آجائو، روپیہ کمائو اور فواد کو بھی حسد کی آگ میں جلائو۔ یوں وہ دل شکستہ شاعرہ کو ایک پر رونق دنیا میں کھینچ لائی۔ پہلے ماڈلنگ اور پھر فلم لائن کو اپنالیا۔ جلد ہی وہ دو ایک مخلص ڈائریکٹرز کی بدولت فلمسازوں کی نظر میں آگئی۔ انہی کے کہنے پر اس نے رقص اور موسیقی سے واقفیت کے لئے دونوں فنون کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی اور ایک سال کے اندر اندر اس میدان میں چھا گئی۔ شروع میں اداکاری میں دشواری محسوس ہوئی مگر بعد میں جب اس نے روز و شب محنت کی تو ایک نامور اداکارہ کے طور پر پہچانی جانے لگی۔ ایک دن آیا کہ وہ ملک کی نامور اور بڑی ہیروئنوں میں شمار ہونے لگی۔ جب اس کی شہرت نے فواد کی نیندیں حرام کر دیں تو وہ اپنا بیٹا اس سے لے گیا اور بچے کو اپنی ماں کی گود میں دے دیا مگر اب وہ بے بسی سے ہاتھ ملتا کہ یہ میں نے کیا ستم کر دیا۔ وہ اب اس کا حسن دیکھ کر تڑپ جاتا کہ یہ حسن جو میری ملکیت تھا، اس کے جلوے سر عام لوگوں کی تفریح کے لئے ہو گئے ہیں۔ وہ جو میرے کہنے سے ملازمت چھوڑ کر برقع بھی لینے لگی تھی، اس کو سر عام رقص کے لئے مجبور کر دیا۔ وہ ہر ایک سے کہتا تھا۔ شاعرہ نے مجھ سے کیسا انتقام لیا ہے۔ اس نے سیف سے رابطہ کیا اور کہا کہ اپنی منہ بولی بہن کو سمجھائو، ایک بار مجھ سے بات کرلے ، میں اس سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ میں عمر بھر اس کو معاف نہیں کر سکتی۔ سیف کو اس نے یہی جواب دیا تھا۔ وہ مرد جو غلط قسم کی لڑکیوں کے پیچھے دیوانہ ہو اور اپنی باوفا بیوی کی قدر نہ جانے ، وہ میرے نزدیک اس لائق نہیں کہ اس سے بات کی جائے۔ یہ سچ ہے کہ جھوٹ ، خدا جانے… اب فواد کس حال میں ہے۔ ابھی تک وہ اپنی سابقہ بیوی کو یاد کر کے روتا ہے یا نہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ شاعرہ کے دل میں اب تک اس کا پیار باقی ہے۔ جب بھی وہ اپنی شادی کی تصویر نکال کر دیکھتی ہے تو دل سے لگا کر رو پڑتی ہے اور کہتی ہے کہ اس سے اچھا کوئی ماضی نہیں جیسا میراماضی تھا۔ عورت بھی کتنی بڑی پہیلی ہے کہ جس کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔