آج یہ لکھتے ہوئے شرم محسوس کر رہی ہوں کہ میری والدہ چودہ پندرہ برس کی عمر میں غلط روش کا شکار ہو گئیں۔ بے شک ماں کے بارے میں بیٹی کو ایسی باتیں لکھنا زیب نہیں دیتا لیکن میری زندگی کی داستان انہی الفاظ سے شروع ہوتی ہے۔ جب وہ غلط خیالات کا شکار ہوئیں، نانا اور نانی بہت پریشان ہوئے۔ تبھی حالات زمانہ سے ڈر کر انہوں نے ان کی شادی میرے والد صاحب سے کر دی – میرے والد میٹرک پاس اور نہایت سیدھے سادھے دیانت دار تھے۔ وہ میرے نانا کے منشی تھے۔ کوئی رشتہ جلدی نہ جڑ سکتا تھا تبھی نانا کی نظر اپنے نو عمر اور جواں سال منشی پر ٹک گئی۔ انہوں نے غور کیا تو یہ نتیجہ نکالا کہ اس سے بہتر شریف اور سعادت مند آدمی بطور داماد فوری طور پر کوئی دوسرا ہوہی نہیں سکتا۔ نانا ابو نے اپنے اس منشی صغیر احمد کے والدین سے بات کی تو انہوں نے کہا۔ سعادت صاحب یہ آپ کا بیٹا ہے اس کی قسمت کا فیصلہ جیسا چاہیں آپ کر دیں۔ آپ سے بہتر خیر خواہ ہمارے لئے اور کون ہو سکتا ہے۔ ہمارے لئے تو یہ فخر کی بات ہے کہ آپ ہم سے رشتہ ناتا جوڑ رہے ہیں۔ جبکہ ہم اس قابل کہاں ہیں۔ اپنے ایک ادنی ملازم کو بیٹی کا رشتہ دینا معنی رکھتا تھا۔ میرے ددھیال والے غریب لوگ تھے، وہ تو بہت خوش تھے کہ ان کے بیٹے کو سہارا مل رہا ہے۔ انہوں نے ہر بات پر سر تسلیم خم کر دیا اور نانا کی ہر شرط مان لی۔ یوں منشی صغیر احمد یعنی میرے ابو سے نو عمری میں میری والدہ کی شادی ہو گئی۔ شادی کے سات ماہ بعد میں نے بطور پہلوٹی اولاد کے جنم لیا۔ اور والدہ سولہ برس کی عمر میں میری ماں بن گئی۔ میں ست ماہی کہلائی ، جس کے بچنے کی امید کم تھی، پھر بھی نانی اور خالہ نے بہت دھیان محنت اور وقت سے پالا۔ خالہ گرچہ امی سے سات برس چھوٹی تھیں، مگر بہت باشعور تھیں۔ امی نے تو مجھے بس جنم دیا تھا۔ پھر ہاتھ نہ لگایا، جبکہ نانی نے پالا اور خالہ نے سنبھالا۔ یوں وقت کے ساتھ ساتھ بڑی ہوتی گئی۔ کہتے ہیں جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ میں بہت کمزور پیدا ہوئی تھی لیکن نانی کی دیکھ بھال نے مجھے نہ صرف نئی زندگی دی بلکہ تندرست و توانا بھی ہوگئی۔ اور ایک صحت مند خوبصورت بچی کی صورت میں نانا کے آنگن میں چہکتی پھرتی تھی۔ والدہ تو ایک کم سن ماں تھیں بلکہ لڑکی جو خود بچپنے کی حدود سے نکلنے نہ پائی تھیں، وہ ماں کے فرائض سے ناواقف تھیں۔ مجھ کو کیونکر سنبھال لیتیں۔ اس زمانے میں گھر گھر وی سی آر پر انڈین فلمیں چلا کرتی تھیں۔ ہمارے نانا کے گھر بھی رات کو وی سی آر کی نعمت سے فائدہ اٹھایا جاتا تھا۔ اسی شوق کا خمیازہ ان کو کم سن اور نادان بیٹی کی نادانیوں کی صورت میں بھگتنا پڑا تھا اور منشی کوگھر داماد بنانا پڑا تھا۔ امی جان بعد میں بھی نہ سدھریں اور اپنی من مانیوں کے باعث مسائل کا شکار ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے ان کے بزرگ عمر بھر پریشان رہے اور ان کو سنبھالتے اور سمجھاتے ہی رہے مگر والدہ صاحبہ جانے کس مٹی کی بنی تھیں کہ ان پر بزرگوں کی باتوں کا کچھ اثر نہ ہوتا تھا۔ بڑوں کی ڈانٹ ڈپٹ اور نصیحت ان کو مزید باغی بناتی تھی۔ جب میں باشعور ہوگئی تو امی کے بارے میں رائے یہ تھی کہ وہ آزاد خیال ہی نہیں بلکہ کچھ عجیب نفسیات کی مالک تھیں۔ شاید یہ چھوٹی عمر میں رومانوی فلمیں دیکھ دیکھ کر غلط سوچوں کا شکار ہو جانے کا نتیجہ تھا کہ شادی شدہ ہو جانے کے باوجود غیر مردوں سے دوستی کر لیتی تھیں اور اسی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے تھے۔ شروع میں تو ابو نانا کے گھر میں دبے دبے رہے لیکن ان کے انتقال کے بعد انہوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ اب ان کو یہاں نہیں رہنا چاہئے۔ جو شفقت اپنے داماد سے نانا کو تھی، وہ ماموؤں کو نہ تھی، بلکہ وہ ان کو اپنے کاروبار کے لئے خطرہ سمجھتے تھے۔ جب بڑے ماموں کا سلوک میرے والد سے نوکروں کا سا ہو گیا تو ابو نے علیحدہ گھر لے کر رہنے کا عندیہ دے دیا۔ نانی بھی بہو سے ڈرتی تھیں، انہوں نے کہا۔ بیٹے جیسی تمہاری مرضی کسی اور جگہ ملازمت ڈھونڈ لی ہے تو بے شک اپنی بیوی بچوں کو لے جاؤ۔ ہم کو کوئی اعتراض نہیں اپنے بچوں کی بشرطیکہ کفالت کر سکو۔ والد صاحب نے کہا کہ خالہ جان میں محنت مزدوری کر لوں گا۔ اپنے بچوں کو رزق حلال کھلاؤں گا اور ان کو سکھی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا، بس ! آپ کی اجازت درکار ہے ۔ یوں ابو اپنے کنبے کو لے کر علیحدہ گھر میں رہنے لگے ۔ مکان متوسط درجہ کی آبادی میں تھا۔ کم کرایہ تھامگر یہاں انہوں نے آزادی کا سانس لیا۔ جلد ہی اللہ نے مدد کی اور معقول تنخواہ پر ایک سیٹھ صاحب کے منشی ہو گئے۔ مکان کا کرایہ بھی سیٹھ نے دینا منظور کر لیا، جو کہ تنخواہ کے علاوہ تھا۔ اچھی گزر بسر ہونے لگی۔ ابو تو صبح کے نکلے اور شام کولوٹتے، والدہ نے نانی سے کہہ کر شاہانہ کو ساتھ رکھ لیا کہ ا کیلی گھر اور بچے نہیں دیکھ سکتی۔ ان دنوں ہم دونوں بہنیں تھیں اور ایک بھائی جو ابھی صرف چھ ماہ کا تھا۔ خالہ شاہانہ میرے ننھے منے بھائی جواد سے بہت پیار کرتی تھیں، خوشی خوشی امی کے ساتھ رہنے کو آگئیں۔ نئے گھر میں آئے کچھ ہی دن گزرے تھے کہ امی گھر سے غیر حاضر رہنے لگیں اور ہم تینوں بچوں کو خالہ کے سپرد کر جاتیں جو سارادن ہم کو دیکھتیں اور کھانا بھی پکا کر کھلاتی تھیں۔ چھوٹی بہن ہونے کے ناتے سارے کام اپنا فرض سمجھ کر کرتی تھیں۔ ایک روز ابو کو محلے کے ایک شخص نےکہا کہ میاں تم تو دن بھر بچوں کا پیٹ بھرنے کومحنت مشقت کے لئے نکلتے ہو گے لیکن یہ تمہاری بیوی صبح سویرے تمہارے جانے کے بعد بن ٹھن کر کہاں جاتی ہے؟ اور شام کو تمہارے آنے سے قبل لوٹ کر آجاتی ہے کیا یہ بھی کہیں نوکری کرنے جاتی ہے؟ والد صاحب اس آدمی کی بات سن کر حیران ہو گئے۔ بات بنادی کہ ہاں نوکری پر جاتی ہے مگر شک وشبہ کا الاؤ خود ان کے دل میں بھڑک گیا۔ اب وہ بے سکون ہو گئے تھے، اچانک گھر آجاتے امی کو غیر حاضر پاتے تو مجھ سے اور خالہ سے پوچھتے کہ مرجانہ کدھر گئی ہے؟ ہم کیا جواب دیتے؟ وہ مجھ کو بتا کر تو نہ جاتی تھیں۔ امی اور ابو میں چپقلش رہنے لگی اور اختلافات بڑھنے لگے۔ اب اس بات پر جھگڑا رہتا۔ جس سے گھر کا ماحول پراگندہ اور خراب ہوتا چلا گیا لیکن فی الحال محلے میں کسی کو اندرونی اختلافات کا علم نہیں تھا تا ہم ابو عذاب میں مبتلا تھے۔ رفتہ رفتہ ان کا یہ حال ہوا کہ وہ ہر دم اپنی بیوی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ محلے والوں سے بھی کب تک یہ بات چھپتی ۔ جب وہ ابو کی غیر موجودگی میں امی کو نت نئی گاڑیوں سے اترتے دیکھتے تو انہوں نے ابو کے کان کھانے شروع کر دیئے کہ شریفوں کا محلہ ہے اور یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ آپ کی غیر موجودگی میں غیر آدمی آپ کی زوجہ محترمہ کو لینے یا چھوڑنے آئیں۔ یہ کیسا آفس ہے اور کیسی ملازمت ہے، جبکہ خاتون پڑھی لکھی بھی نہیں ہیں۔ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں ، آپ اپنے گھر کے معاملات کو چیک کریں۔ ابو کیا چیک کرتے ، وہ تو پہلے ہی اس امر پر پریشان تھے۔ ایک روز ابو اپنے کام سے اچانک جلد گھر آگئے۔ اس قت تک امی گھر نہیں آئی تھیں۔ وہ دروازے میں کھڑے ہو گئے کہ دیکھوں کدھر سے اور کس طرح آتی ہے۔ اسی وقت وہ ایک لمبی کار سے اتریں اور سامنے والی گلی سے پیدل چل کر گھر کی طرف آ رہی تھیں کہ والد صاحب نے اس نظارے کو گھر کے دروازے پر سے کھڑے ہوئے دیکھ لیا۔ جب وہ گھر میں آئیں، انہوں نے ان کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا اورگھر کے دروازے سے دھکا دے کر گلی میں نکال دیا۔ والدہ اب کیا تاویل دیتیںیا لڑتی جھگڑتیں۔ وہ اپنے بھائی کے گھر، نانی امی کے پاس چلی گئیں۔ تب خالہ کو بھی نانی آ کر لے گئیں ۔ امی کافی عرصہ اپنی ماں کے گھر رہیں۔ ابو ہماری پھوپھی کو لے آئے جو ہمارے ساتھ رہنے لگیں۔ مگر پھپھو کتنے عرصہ اپنا گھر چھوڑ کر ہمارے ساتھ رہتیں۔ وہ روز اپنے بھائی کو سمجھاتی تھیں کہ صغیر بیوی کو معاف کر دو اور اس سے وعدہ لے لو کہ آئندہ ایسا نہ کرے گی۔ تمہارا بیٹا بہت چھوٹا ہے اور یہ دودھ پیتا بچہ ہے۔ ماں کے بغیر نہیں جی پائے گا ، اوپر کے دودھ سے بچہ کمزور اور بیمار رہنے لگا ہے۔ بہن کے سمجھانے سے ابو ہماری نانی کے گھر گئے۔ نانی خود چاہتی تھیں کہ بیٹی کی شوہر سے صلح ہو جائے تا کہ چھوٹے بچوں کو ان کی ماں کی جدائی نہ سہنی پڑے۔ والدہ سے وعدہ لیا گیا کہ آئندہ ایسی غلطی نہ کریں گی اور بغیر شوہر کی اجازت گھر سے نہیں نکلیں گی۔ وہ بھی شاید ہمارے لئے اداس تھیں، وعدہ کیا کہ اب ایسا کوئی قدم نہ اٹھاؤں گی، جس سے گھر کی عزت پر حرف آتا ہو۔ امی گھر لوٹ آئیں، ہم بچے تو خوشی سے دیوانے ہو رہے تھے ۔ وہ بھی کچھ عرصہ تک ابو سے کئے وعدہ پر قائم رہیں۔لیکن شاید وہ اپنی فطرت سے مجبور تھیں کہ پھر سے وہی حال ہو گیا اور ان کی ایسی حرکتوں سے ہماری عزت جاتی رہی۔ جب والد صاحب محلے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے تو انہوں نے ملازمت سے چھٹی لے لی اور امی کی نگرانی کو گھر بیٹھ گئے۔ اب جہاں وہ بیوی سے برافروختہ تھے، امی بھی خاوند کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں اور جھگڑا حد سے بڑھا تو ابو گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ کافی دن نہ لوٹے جب محلے والوں نے ایسی باتیں کرنی شروع کر دیں کہ اس عورت نے شاید کچھ غلط آدمیوں کی مدد سے اپنے خاوند کو مروا دیا ہے۔ان باتوں سے رہی سہی عزت جاتی رہی اور ہمارا محلے میں رہنا دشوار ہو گیا۔ محلے والے الگ پریشان کرتے ۔ امی نے سوچا کہ اس سے پہلے بات پولیس تک جائے یہاں سے نقل مکانی کر لینی چاہئے ۔ سامان اٹھا کر ہماری والدہ نزدیکی شہر چلی آئیں۔ نیا شہر، نیا محلہ اور نئے لوگ تھے جو ہم کو جانتے نہ تھے۔ انہوں نے خوش دلی سے خوش آمدید کہا اور یہاں ہم سکون بھری زندگی گزارنے لگے۔ یہاں آئے چھ ماہ گزر گئے ۔ میں والد کو یاد کرتی تو چھپ چھپ کر روتی۔ والدہ نے اتنا پیسہ اکٹھا کر لیا کہ اپنا گھر خرید لیا۔ اسی اثناء میں نانی وفات پا گئیں ۔ خالہ کو بھابیوں نے تنگ کیا تو وہ مستقل ہمارے گھر آکر رہنے لگیں۔ امی نے اب ان کے ذہن بھی بگاڑ پیدا کرنا شروع کر دیا اور وہ بھی ویسی ہی ہو گئیں جیسی امی تھیں۔ اب میں پندہ برس کی ہوگئی تھی۔ باشعور ہو چکی تھی۔ کافی باتیں سمجھے لگی تھی ، حساس تھی، جب والد کے بارے میں سوچتی تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا تھا۔ خالہ سے بہت لگاؤ تھا، جب ان کو بھی ماں کی روش پر چلتے پایا اور زیادہ صدمہ ہوا۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ وہ بھی ماں جیسی ہو جائیں گی۔ اب میں اتنی بڑی ہو چکی تھی کہ چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھال سکتی تھی۔ ماں اور خالہ بچوں کو مجھ پر چھوڑ کر گھر سے چلی جاتیں۔ میں آٹھویں میں تھی، مجھے پڑھائی چھوڑنی پڑی۔لوگ یہاں بھی چہ میگوئیاں کرنے لگے، وہ ہم کو غلط سمجھنے لگے۔ امی سے سلام دعا ترک کر دی۔ ان دنوں میں اتنی پریشان تھی کہ کیا بتاؤں۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں۔ پڑھائی چھٹ جانے کا بے حد صدمہ تھا۔ آخر ایک ترکیب سمجھ میں آئی۔ میرے پاس پھپھو کا فون نمبر تھا۔ ایک دن جبکہ امی اور خال گھر پر نہ تھیں، میں پڑوس میں گئی اور پڑوسن سے استدعا کی کہ خالہ جی مجھے میری پھپھو سے بات کرتی ہے۔ یہ نمبر ملادیں کیونکہ امی گھر پر نہیں ہیں اور میرے بھائی کی طبیعت خراب ہے۔ اس اللہ کی بندی کو ترس آگیا اور نمبر مجھ سے لے کر ملایا۔ اتفاق کہ پھوپھی جان نے اٹھالیا۔ پہلے پڑوسن نے بات کی کہ آپ کی بھتیجی ماریہ بات کرنا چاہتی ہے۔ پھر مجھے ریسیور دیا تو میں نے پھپھو سے کہا۔ خدا کے لئے یا تو آپ ہمارے پاس آجائیے یا ابو کو کہیں سے بھی ڈھونڈ کر گھر بھجوائیے ۔ کیونکہ وہ نہیں آئے تو میں پڑھ نہ سکوں گی ۔ اسکول چھوڑنا پڑے گا۔ پھپھونے تسلی دی کہ تمہارے ابو جہاں بھی ہیں دو چار دنوں میں تمہارے پاس آجا ئیں گے۔ میں نے گھر کا پتہ بھی ان کو بتا دیا۔ابو غالبا اپنے بھائیوں کے گھر تھے۔ پھپھو نے جب میرا پیغام دیا تو وہ خود پر قابو نہ رکھ سکے۔ شفقت پدری نے جوش مارا اور وہ آ گئے۔ میں نے کہا ابو میری خاطر گھر رہیے، تا کہ حالات اور خراب نہ ہوں۔ والدہ جیسی بھی ہیں کم از کم ہم دونوں بیٹیوں کے مستقبل کے بارے میں سوچیے۔ اگر آپ ایسے ہی روٹھے رہے تو پھر ہمارا کیا بنے گا۔بات ابو کی سمجھ میں آگئی اور جب والدہ آئیں انہوں نے جھگڑا نہ کیا، مگر پیار سے سمجھایا کہ سدھر جاؤ۔ اپنی روش بدلو اپنے بچوں کی خاطر گھر پر رہو۔ میں کما کر تم کو اور بچوں کو پالوں گا۔ زیادہ کی حرص میں عزت کو داؤ پر نہ لگاؤ۔ گھر سے تو عزت گئی باہر سے نہ جائے تو بہتر ہے اسی وجہ سے واپس آ گیا ہوں ۔ والد صاحب کو بیوی کو سمجھانے کے سوا چارہ نہ تھا۔ وہ بیوی کی غلط روش سے مردہ ہو گئے تھے۔ پھر بھی ہماری خاطر زندہ رہنا چاہتے تھے۔ نہیں چاہتے تھے کہ اب اس جگہ سے بھی بے عزت ہو کر نکلیں۔ ان کے آنے سے لوگوں کی چہ میگوئیاں بند تو ہو گئیں لیکن میری ماں نے اپنا چلن نہ بدلا۔ ہمارا گھر بے سکون ہی رہا۔ والد شک و شبہ کی آگ میں جل جل کر بھسم ہورہے تھے مگر بچوں کے سر پر چھپر بن کر ساتھ رہنا چاہتے تھے۔ امی کا بھی اس میں فائدہ تھا کہ اب محلے والے باتیں نہیں بناتے تھے اور تنگ کرنے کی نوبت نہیں آئی کہ شوہر ساتھ رہتا ہے۔ میرا مسئلہ حل ہو گیا۔ میرے پیارے ابو کے آجانے سے میں پھر سے اسکول جانے لگی، کیونکہ اب امی اور خالہ آسانی سے سارا دن گھر سے غائب نہیں رہ سکتی تھیں۔ ان کی جو بھی سرگرمیاں تھیں وہ مانند پڑ گئی تھیں۔ اتنا بہر حال میں جان گئی تھی کہ ماں غیر مردوں سے اس لئے دوستیاں پالتی ہیں کہ ان سے مالی فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ ایک دن تو حد ہوگئی۔ امی نے گھر سے قدم نکالا اور ابو گئے وہ ان کو دہلیز پر سے دھکیل کر گھر کے اندر لائے۔ پوچھا کدھر جارہی تھیں۔ امی نے بہانہ کیا۔ بچوں کے کپڑے دھونے تھے۔ صابن نہیں تھا۔ سامنے اسٹور تک جارہی تھی گھبراہٹ میں ان سے معقول بہانہ بن نہیں پڑا۔ در اصل ایک روز قبل ہی ابو راشن لائے تھے اور صابن بھی لائے تھے۔ انہوں نے کہا، کل تم نے صابن منگوایا اور آج ختم ہو گیا۔ وہ کیسے ہوا؟ جبکہ تم نے کپڑے بھی نہیں دھوئے۔ میں نے دراصل راشن کھولا ہی نہیں ہے۔والد کو اس جھوٹ پر غصّہ آ گیا انہوں نے امی کو چاقو سے مارنا چاہا محلے والے بابا کو ٹھنڈا کرنے باہر لے گئے -وہ قیامت کا دن تھا ہمارے محلے میں پہلا شور شرابا تھا۔ والد صاحب شدید خلفشار کا شکار تھے۔ اپنی اولاد کی خاطر بیوی کو طلاق بھی نہ دیتے تھے کہ بیٹیاں کدھر جائیں گی۔ والد صاحب ماموں کے پاس گئے۔ سارا احوال کہا۔ اندازہ تو ان کو بھی تھا۔ اس وجہ سے کوئی ماموں، امی کومنہ نہ لگاتا تھا۔ بہر حال بڑے ماموں نے ابو کو دلاسا دیا کہ تم صبر سے کام لو باقی میں خود دیکھ لوں گا۔ وہ ہمارے گھر آکر رہنے لگے۔ ماموں بھی کب تک پہرہ دیتے۔ دو چلتے پیروں کا کوئی بھی پہرہ نہیں دے سکتا۔ ابو اپنے بھائیوں کے پاس چلے گئے۔ کچھ دن ماموں ساتھ رہے، پھر ان کی بیوی نے شور مچایا تو اپنے گھر چلے گئے۔ خرچہ دینا بھی بند کر دیا۔ امی نے پھر وہی وطیرہ اختیار کر لیا، جس میں عزت کا تو گھاٹا تھا مگر کھل خرچہ اور اچھا کھانا پینا تھا۔ وہ حرام کے خرچے پر ہم کو پال رہی میں مجود تھی مگر دل میں ٹھان لی کسی طرح بھی تعلیم مکمل کرلوں تو پھر عزت والی نوکری کر کے بہن بھائی کو خود سنبھال لوں گی اور ہم امی سے علیحدہ ہوکر ابو کے پاس چلے جائیں گے۔ ایسے حالات میں بھی محنت سے پڑھ رہی تھی۔ میری انگریزی کمزور تھی ، سالانہ امتحان سر پر تھے۔ ابو میری خاطر پھر کام پر جانے لگے۔ صبح جاتے رات کو آتے ، ساری کمائی میری ماں کے ہاتھ پر رکھتے ہمگر ان کی شریک حیات کو شو ہر کی کمائی اچھی نہ لگتی کہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر تھی۔ ابو کے کام پر جاتے ہی وہ پھر پرانی ڈگر پر چل پڑیں۔ ایسی باتیں نہیں چھپتیں، اب تو محلے والے ٹوہ میں تھے۔ کسی نے والد کے کان میں بھنگ ڈال دی۔ اس کے بعد ایک بار پھر والد صاحب غائب ہو گئے ۔امی کو مکمل آزادی نصیب ہو گئی۔ ایک روز چچا اور پھوپھی والد صاحب کا پتہ کرنے آئے کہ کافی دن سے ملنے نہیں آئے کدھر ہیں؟ امی نے بتایا کہ وہ تو کب سے گھر سے چلے گئے ہیں۔ نجانے کہاں، معلوم نہیں، ہم تو خود پریشان ہیں۔ چچا کو یقین نہ آیا، کہا کہ تم نے خود غائب کروایا ہے۔ ہم کو یقین ہے بتاؤ ہمارا بھائی کہاں ہے، ورنہ پولیس میں رپورٹ کرتے ہیں۔ امی ڈر گئیں، ادھر میں ادھر پھوپھیاں اور چچا و غیرہ سخت پریشان تھے اور میرے سالانہ امتحان میں پندرہ روز باقی تھے۔ گھر میں ایسے عالم میں پریشانی کی وجہ سے پر چوں کی تیاری ناممکن تھی۔ میری ایک کلاس فیلوا کیڈمی پڑھنے جایا کرتی تھی۔ میں نے جب اپنی پریشانی کا ذکر کیا، اس نے اکیڈمی کے سر سے بات کی اور مجھ سے کہا کہ کل سے تم اکیڈمی میرے ساتھ چلا کرو، سر بہت اچھا پڑھاتے ہیں اور پر چوں کی تیاری کراتے ہیں۔ میں فوزیہ کے ساتھ اکیڈمی جانے لگی۔ سر نے مجھے پریشان دیکھا تو کہا کہ تم کیوں پریشان ہو، میں نے علیحدگی میں ان کو سارا قصہ سنایا تو ان کو میری والدہ کے کردار کاعلم ہو گیا۔ انہوں نے کہا میں تمہاری تیاری خصوصی طور پر علیحدہ ٹیچر سے کرا دیتا ہوں۔ انہوں نے ایک شخص کے ذمے لگا دیا – دو تین روز توان صاحب نے بہت خلوص اور توجہ سے پڑھایا لیکن پھر اس کی نیت خراب ہوگئی اور ایک روز جبکہ تمام طالب علم چلے گئے، اس نے کلاس روم کا دروازہ لاک کردیا اور مجھ کو بے آبرو کرنا چاہا مگر میں نے فراست سے کام لیا اور کہا۔ سرجیسی میری ماں ہیں میں ویسی نہیں ہوں۔ میں ایک اچھے خیالات کی پاکیزہ مگر مجبور لڑکی ہوں۔ خدارا مجھ پر دست درازی کر کے میری عزت کو خاک میں نہ ملائیں اگر میںآپ کو اتنی ہی پسند آگئی ہوں بے شک مجھ سے نکاح کرلیں۔ میں آپ کے ساتھ کورٹ میرج کرنے پر بھی تیار ہوں۔ کم از کم جائز طریقہ سے تو آپ کی کہلاؤں گی۔ شاید میری معصومیت اور بے بسی نے اس کے دل پر اثر کیا۔ بولے مگر میں تو عمر رسیدہ اور شادی شدہ ہوں۔ میرے چار بچے ہیں۔ کیا ایسی صورت میں تم مجھ سے نکاح کر لو گی۔ ہاں ۔۔ میں کرلوں گی آپ عمر رسیدہ ہیں یا بال بچوں والے مگر آپ مجھے عزت تو دے سکتے ہیں۔ عزت کی زندگی کے ساتھ شوہر کی حلال کی کمائی ہی عورت کا فخر ہوتی ہے۔ ماں عمر رسیدگی کی طرف جارہی ہے۔ ایسے میں ان کی حرص بھری طبیعت کا پہلا نشانہ میں ہر گز نہیں بننا چاہتی۔ اس سے تو بہتر ہے کہ میری شادی کسی ایسے فقیر سے ہو جائے جس کے گھر میں غربت سے فاقے پڑتے ہوں مگر وہ میری عزت کا محافظ بن جائے۔ سر میں بے بس و مجبور مگر اچھی سوچوں کی مالک اور ایک باعصمت لڑکی ہوں۔ میں یہ کہتے ہوئے رورہی تھی اور میری ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ اس شخص کے اندر کا شیطان اس دم مر گیا اور ضمیر جاگ گیا۔ اس نے کہا۔ بے شک تم ایک ایسی لڑکی ہوں کہ کوئی بھی مرد تم سے شادی کر کے فخر محسوس کر سکتا ہے، خواہ وہ او باش ہی کیوں نہ ہو . میں تم سے شادی نہیں کر سکتا کیونکہ میری بیوی میری اور تمہاری زندگی کو دوزخ بنا دے گی۔ اس کے بھائی رسوخ والے ہیں، ہاں ہم اپنے چھوٹے بھائی کے لئے لڑکی تلاش کر رہے ہیں، اس نے انہی دنوں وکالت کا امتحان پاس کیا ہے۔ اگر تم راضی ہوتو میں اپنے چھوٹے بھائی سے تمہارا نکاح کرادوں گا۔ بہر حال میں اپنے غلط ارادے پر شرمندہ ہوں، دراصل میں نے جب تمہاری والدہ کے بارے میں سنا تو یہی سمجھ لیا کہ تم کو بھی وہ اس روش پر چل رہی ہوگی ۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں کیا ہرج ہے۔ پھر اس نے مجھ سے معافی مانگی۔ میں نے ان کے چھوٹے بھائی سے نکاح پر رضامندی دی تو انہوں نے یہ شرط رکھی کہ کبھی اس واقعہ کا تذکرہ میرے بھائی سے مت کرنا۔ میں نے وعدہ کیا۔ ظاہر ہے کہ ایسی غلطی کر کے میں اپنا دامن انگاروں سے کیونکر بھر لیتی۔ سرنے میری شادی اپنے چھوٹے بھائی سے کروا دی۔ ماں تو کیا ماموں بھی شریک نہ ہوئے مگر میں نے کسی کی پروا نہ کی عزت بھری زندگی کی آرزو میں سب رشتوں کو ٹھکرا کر چلی آئی۔ میرے شوہر کا نام ظفر ہے اور کردار میں ہیرا ہیں۔ جنہوں نے مجھے عزت اور زندگی کا سب سکھ دیا ہے۔ کبھی میری ماں کا طعنہ نہ دیا۔ اس لئے میں نے بھی پیچھے مڑکر نہ دیکھا۔ پھوپھو نے میری چھوٹی بہن کو ماں سے لے لیا، کیونکہ والد صاحب کا کوئی سراغ نہ ملا۔ چھوٹا بھائی ماں کے ساتھ رہا مگر جب باشعور ہوا وہ خود بخود میرے پاس آ گیا، جس کو میرے خاوند نے پڑھایا لکھایا اور پھر اپنے ساتھ وکالت میں لگا لیا۔ آج اس کی زندگی سدھر گئی ہے اور چھوٹی بہن کی شادی پھپھو نے اپنے بیٹے سے کر دی ہے۔ وہ بھی اپنے گھر میں خوش ہے مگر ماں اب اکیلی رہ گئی ہے جس کا بڑھاپا خوار ہے۔ ان کے لئے ہر نماز کے بعد اپنے رب سے رحمت کی دعا کیا کرتی ہوں۔ اس کے سوا اور کیا کرسکتی ہوں۔ والد بہت یاد آتے ہیں۔ ان کے بھائی بہنوں نے ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ سوچتی ہوں مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ شاید اب اس دنیا میں نہیں رہے، ورنہ کبھی تو ہم سے ملتے۔