لوگ دل کی تسکین کے لیے ’’اس بازار‘‘ جاتے ہیں لیکن یہ کبھی نہیں سوچتے کہ یہاں دل لبھانے اور رقص و سرود کی محفلیں سجانے والی یہ لڑکیاں کہاں سے آتی ہیں۔
کوئی بتائے یا نہ بتائے لیکن میں آپ کو بتاتی ہوں کہ میں اس حسن کے بازار میں کہاں سے آئی تھی اور کس کی بیٹی تھی۔
یہ قصہ میری والدہ کی بدنصیبی کے اس دن سے شروع ہوا ہے جب شادی کے چھ ماہ بعد ایک رات ان کے شوہر یعنی میرے والد دیر سے گھر آئے تو ان کے بالوں میں گلاب کے پھولوں کی چند مرجھائی ہوئی پتیاں چپکی تھیں۔ والدہ نے ان مرجھائی پتیوں کو اپنی حنائی انگلیوں سے جدا کرکے کہا۔ کیا پوچھ سکتی ہوں یہ کہاں سے آئیں، کیا آپ کسی پھولوں بھرے بستر پر لیٹ کر آئے ہیں۔
والد صاحب کو بیوی کا یہ سوال برا لگا اور انہوں نے دھکا دے کر انہیں پرے کردیا اور خود بستر پر کروٹ بدل کر سوگئے۔
والدہ رات بھر روتی رہیں صبح ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ والد نے کلام نہ کیا، تیار ہو کر دفتر چلے گئے۔ وہ سمجھیں وقتی ناراضی ہے۔ بات کوئی ایسی نہ تھی کہ وہ ہمیشہ کے لیے بیوی کو چھوڑ دیتے۔ تاہم امی بہت دکھی تھیں جب ان کا دیور کمرے میں اپنے بھائی کے بارے میں پوچھنے آیا۔ امی کی سرخ آنکھوں کو دیکھا تو پوچھا۔ بھابی کیا آپ روئی ہیں؟
امی کو جیسے کسی غمگسار کی ضرورت تھی، دیور کو چھوٹا بھائی سمجھ کر تمام بات بتادی۔ اس نے کہا روئیے نہیں، بھابی میں بھائی کے اس معاملے کا کھوج لگا کر آپ کو آگاہ کروں گا کہ کہاں جاتے ہیں اور قصہ کیا ہے؟
دیور نے بھابی سے کیا وعدہ پورا کیا اور اپنے بھائی کا کسی طور پیچھا کرکے معلوم کرلیا کہ وہ کہاں جاتے ہیں۔ معاملہ یہ تھا کہ میرے والد اس بازار کی ایک عورت کے عشق میں گرفتار تھے جو بہت خوبصورت تھی۔ والد امیر آدمی تھے اور امی جان غریب گھر سے تھیں لیکن میری دادی کو پسند تھیں۔ وہ ان کے کزن کی بیٹی تھیں۔ دادی نے تبھی ابو کی نہ چلنے دی اور اس بازاری عورت کو بہو بنانے پر راضی نہ ہوئیں۔ ضد کرکے امی کو بہو بنا کر لے آئیں۔
دادی خوش تھیں کہ من پسند لڑکی کو بہو بنا لائی ہیں لیکن والد خوش نہ تھے۔ وہ کسی طور امی سے جان چھڑانے کا بہانہ تلاش کررہے تھے۔ دیور جی نے جب امی کو رپورٹ دی اور اس عورت کا نام بتا دیا تو والدہ نے شوہر سے بات کی۔
آپ کسی بازاری عورت نیلم کے عشق میں گرفتار ہیں، اگر ایسا ہے تو آپ کو مجھ سے شادی نہ کرنی چاہیے تھی۔ اب میں امید سے ہوں اور امید کرتی ہوں کہ آپ اپنے قدموں کو اس گند خانے کی طرف جانے سے روک لیں گے۔ شریف زادی اور اس بازار کی عورت میں کوئی مقابلہ نہیں۔ بیوی ہی اب آپ کے پیار کی حق دار ہے۔
والد خاموش سناکیے۔ امی نے بات ختم کی تو کہا، میں کب تم سے شادی کرنا چاہتا تھا، اماں نے یہ ڈھول گلے میں ڈالا ہے۔ عہد کیا تھا کہ مجھ کو میری برائیوں کے ساتھ قبول کرلوگی تو رکھوں گا ورنہ نکال دوں گا۔
آپ اس غلط جگہ جانا چھوڑ دیں باقی آپ کی سب اچھائیاں برائیاں قبول ہیں۔
تم کو چھوڑ سکتا ہوں، اس جگہ جانا نہیں چھوڑ سکتا۔ لیکن مجھے یہ بتائو کہ تم اس جگہ اور اس عورت کے بارے میں کیسے جانتی ہو؟ اس بازار کی معلومات اتنی تفصیل کے ساتھ تم جیسی شریف زادی کو کیسے حاصل ہوئیں؟
والدہ خاموش ہوگئیں۔ لب سی لیے کیونکہ دیور نے قسم دی تھی کہ بھابی آپ کے شوہر کے بارے میں تمام معلومات حاصل کرکے دوں گا لیکن خدارا میرا نام نہ لیجیے گا ورنہ بھائی بڑے ظالم ہیں مجھے زندہ نہ چھوڑیں گے۔
دیور نے امی سے سچ کہا تھا اس کا ثبوت ان کو اس وقت مل گیا جب اس فرعون صفت شخص نے میری ماں کے سر پر برقع ڈالا اور اپنے چھوٹے بھائی سے کہا جائو اس کو اس کے باپ کے گھر چھوڑ آئو۔ امی ہی نہیں ان کی ساس اور دیور سبھی یہ سمجھے کہ حفیظ اس وقت غصے میں ہے چند روز بعد غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا تو ہم جاکر عفت کو لے آئیں گے لیکن ایسا نہ تھا۔ والد تو امی سے جان چھڑانے کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے، وہ امی کو لینے نہ گئے، گھر والوں کو بھی منع کردیا کہ ہرگز مت لانا، ورنہ کھڑے کھڑے نکال دوں گا۔ بڑھاپے میں بچارے نانا ابو پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔ وہ داماد کے پاس گئے اور سبب دریافت کیا تو انہوں نے سسر کو یہ کہہ کر دھتکار دیا کہ تمہاری بیٹی کا اس بازار سے کیا تعلق ہے جو وہاں کے بارے میں اتنی معلومات رکھتی ہے، یہاں تک کہ وہاں کی عورتوں کے نام تک جانتی ہے۔ ایسی عورت کو میں نہیں رکھ سکتا جس کو اس بازار سے اتنی آگاہی ہو۔
بچارے نانا ہکا بکا منہ تکتے رہ گئے اور والد نے امی کو طلاق دے دی۔ اور کہا کہ اب وہ بھولے سے بھی میرے گھر میں قدم نہ دھرے ورنہ بری طرح پیش آئوں گا۔ امی نے پھر بھی دیور کا نام نہ لیا کیونکہ وہ بچارا ایف ایس سی کا طالب علم تھا اور میرے والد کے ٹکڑوں پر پل رہا تھا، اس کا مستقبل تباہ ہوجاتا۔ اس نے بھی نہ بتایا کہ میں نے بھابی کو آپ کے کرتوتوں کے بارے میں معلومات فراہم کی تھیں۔
میرا جنم نانا کے گھر ہوا۔ باپ نے میری شکل دیکھی اور نہ میں نے ان کی… بعد میں جب دادی وفات پاگئیں، انہوں نے اپنے من کی مراد پوری کی اور اپنی من چاہی عورت سے شادی کرلی۔
دو سال میں اور امی نانا کے گھر رہے۔ اس کے بعد انہوں نے ایک شریف انسان سے والدہ کی دوسری شادی کرادی۔ میرے سوتیلے والد غریب ضرور تھے لیکن بہت اچھے اخلاق کے مالک تھے، دین دار تھے اور حقوق العباد کو مانتے تھے۔ انہوں نے ہم ماں بیٹی کو دل سے قبول کیا اور میری پرورش ایک حقیقی باپ کی طرح کی۔ کبھی مجھے یہ احساس نہ ہونے دیا کہ میں ان کی اولاد نہیں ہوں۔ وہ مجھے اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتے تھے مگر غربت آڑے آگئی اور میں صرف پرائمری تک تعلیم حاصل کرسکی۔ سولہ برس کی تھی جب انہوں نے میری شادی اپنے بھانجے سے کردی اور ایک سال بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ میری ساس اپنی بھابی یعنی میری والدہ سے جلتی تھی۔ وہ بالکل اپنے بھائی سے مختلف عورت تھی۔ والد کے انتقال تک تو صحیح رہیں مگر ان کی وفات کے بعد پنجے نکال لیے۔
وہ مجھے ماں سے ملنے نہ دیتی، ان کو آنے کی اجازت تھی اور نہ مجھے ان کے پاس جانے کی۔ وہ بیمار تھیں مگر میں ان کی عیادت کو نہ جاسکتی تھی۔ صرف اس دن اجازت ملی جس روز امی کا انتقال ہوگیا۔
اب میرا اس دنیا میں شوہر کے سوا کوئی نہ تھا اور وہ بے شک بہت اچھے انسان تھے لیکن اپنی ماں سے بہت ڈرتے تھے۔ میری ایک نند تھی وہ غلط چال چلن رکھتی تھی۔ ساس سارا دن پاس پڑوس میں پھرتیں۔ اور جب میرے شوہر اور سسر گھر پر نہ ہوتے، نند پڑوسی لڑکے کو بیٹھک میں بلاکر باتیں کرتی۔ مرد شام کو آتے ان کو کچھ خبر نہ ہوتی۔ گھر میں کیا ہوتا ہے۔
ساس کے ڈر سے میں زبان نہ کھولتی تھی۔ شوہر کو بتاتی تو ان کی ماں میرا جینا دوبھر کر ڈالتی۔خاموشی میں ہی میں نے اپنی عافیت جانی۔ یہ سوچ کر کہ جو جیسا کرتا ہے ویسا بھرتا ہے۔ میں نند کی چغلی کرکے بری بنوں گی تو کہاں جائوں گی۔ سچ ہے برائی کو چھپانا کبھی بہت مہنگا پڑ جاتا ہے ۔ اے کاش اپنے خاوند کو آگاہ کردیتی، آخر کو ان کی بہن ہمارے گھر کی لاج تھی، ان کی عزت تھی۔
ایک روز دوپہر کا وقت تھا۔ میں کچن میں کھانا بنارہی تھی کہ وینا بھاگی بھاگی آئی، بولی… بھابی مجھے چھپادو… ابا اور بھائی آگئے ہیں، میں کچھ نہ سمجھی وہ بوکھلائی ہوئی تھی، میں نے اس کی حالت دیکھ کر اسے اپنے بیڈ روم میں چھپادیا۔ تبھی سسر اور شوہر کے کسی کو گالیاں دینے کی آوازیں آنے لگیں۔ دوڑی بیٹھک میں گئی، وہ پڑوسی لڑکے کو دونوں مل کر مار رہے تھے۔ نظارہ دیکھ کر خوف سے کانپ گئی اور میں نے ان کو روکنا چاہا کہ کہیں مار ہی نہ ڈالیں۔
میرے بیچ میں آنے سے لڑکے کو بھاگ نکلنے کا موقع مل گیا۔ اس کی جان بچ گئی۔
اب سارا غصہ سسر صاحب اور شوہر نے مجھ پر نکالا کہ وینا اگر بیٹھک میں لڑکے کے ساتھ تھی تو تم کہاں تھیں… تم تو گھر میں تھیں اور اب وہ کہاں ہے۔ انہوں نے گھر میں اسے ڈھونڈا، کیسے بتاتی کہ وہ کمرے میں میری الماری کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ بالآخر انہوں نے اسے ڈھونڈ نکالا۔ اور گھسیٹ کر باہر لائے، کس نے تمہیں یہاں چھپایا ہے۔
وہ بولی… کچھ نہیں مگر ہاتھ سے میری جانب اشارہ کردیا۔ وہ تو پہلے ہی غصے میں آپے سے باہر ہورہے تھے سارا الزام مجھ پر دھر دیا کہ میں اپنی نند کو اس لڑکے سے ملاتی ہوں۔
میں نے لاکھ کہا کہ ایسا نہیں ہے مگر وہ نہ مانے۔ میرے خاوند نے کہا اگر تم میری بہن کے اس کھیل میں شریک نہیں ہو تو پہلے مجھے کیوں نہ بتایا کہ پڑوسی کا لڑکا گھر آتا ہے اور بیٹھک میں وینا سے ملتا ہے ۔ تم نے اسے اپنی الماری کے پیچھے کیوں چھپایا… اصل میں تم ہماری عزت کی دشمن ہو۔ ابھی یہ قصہ چل رہا تھا کہ ساس آگئیں، وہ بھی چلانے لگیں کہ اسی نے میری بچی کو خراب کیا ہے، یہ اگر ساتھ نہ دیتی، اس کی پردہ پوشی نہ کرتی، کم از کم مجھے ہی بتا دیتی تو آج یہ تماشا نہ ہوتا۔
بھلا میں کیسے بتاتی اس ڈائن کو جو مجھے کچا چبا جانے کے درپے رہتی تھی۔ ساس کو موقع ملا تھا تو اس نے مجھے اسی وقت گھر سے باہر نکلوادیا۔
میرا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ اس وقت کہاں جاتی۔ منت کی کہ مت نکالو، کہاں جائوں گی۔ بولی جہاں جی چاہے چلی جائو ورنہ میری لڑکی کو مروا کر دم لو گی۔
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے… والی بات ہوگئی۔ میرے ننھیال میں صرف ماموں تھے۔ بڑی مصیبت اٹھا کر ان کے پاس لاہور پہنچی لیکن جونہی ممانی نے میری بربادی کی داستان سنی، مجھے رکھنے سے انکار کردیا۔ بولیں دوچار دنوں کی اور بات ہوتی ہے، عمر بھر کون کسی کو رکھتا ہے بی بی… اپنا ٹھکانہ ڈھونڈو، نہیں تو اپنے باپ کے پاس چلی جائو۔ ممانی کا کہنا تھا، اچھی بھلی نیک سیرت بیوی کو یوں کوئی شوہر اپنے گھر سے نہیں نکالتا۔ ضرور کوئی عیب دیکھا ہوگا جو یوں کھڑے کھڑے نکال دیا۔
بیوی کی لن ترانیوں پر ماموں بھی خاموش تھے۔ مجھے اپنی ماں کے سگے بھائی سے ایسی امید نہ تھی۔ میں نے کہا ماموں آپ ہی ممانی کو سمجھائیے یا پھر کچھ دن بعد جاکر میرے سسر اور شوہر سے بات کیجیے۔ تب تک میں یہیں رہوں گی… ممانی نے دوبارہ کہا کہ تمہارا سگا باپ موجود ہے اس دنیا میں ان کے پاس کیوں نہیں جاتی ہو۔
مجھے اپنے سگے باپ کا پتا معلوم نہیںہے۔ ماموں بولے۔ آئو میں تمہیں اس کے پاس چھوڑ آتا ہوں، جب اسے اپنے حالات بتائو گی تو کوئی اچھی تدبیر نکل آئے
گی۔ ماموں مجھے میرے حقیقی والد کے دروازے پر چھوڑ کر چلے گئے، جیسے بس جان چھڑانا چاہتے ہوں۔
اس دنیا میں پہلی بار قدم باہر نکالا تھا۔ اب پتا چلا کہ دنیا کیسی بری جگہ ہے۔ تب سوچا تھا کہ باپ تو پھر باپ ہوتا ہے خواہ کتنا بھی سخت دل کیوں نہ ہو۔ مجھے دیکھ کر گلے لگالیں گے، میری بپتا پر دل پسیج جائے گا۔ آخر کو میں ان کا خون ہوں۔ ان کی اولاد ہوں۔
یہ گمان بھی خواب و خیال نکلا۔ سامنے سوتیلی ماں بیٹھی تھی۔ پوچھا کون ہو۔ کیوں آئی ہو۔ میں نے بتایا کہ سارہ ہوں اور حفیظ کی بیٹی ہوں۔ میری ماں کا نام عفت تھا جو ان کی پہلی بیوی تھیں۔ انہوں نے ان کو طلاق دی اور میں نے نانا کے گھر جنم لیا۔ تبھی والد سے کبھی نہ مل سکی۔ آج ماموں یہاں چھوڑ گئے ہیں۔ مختصر بپتا سنائی۔ وہ بولیں۔ کیا جائداد سے حصہ چاہیے جو اتنی مدت بعد تم کو باپ کی یاد آگئی ہے۔
اتنے میں والد اپنے کمرے سے نکلے، پوچھا کون ہے۔ میں نے کہا۔ آپ کی بیٹی ہوں۔ بولے کون بیٹی؟ میں نے نام بتایا، جواب ملا ،میں نہیں جانتا تمہیں۔
میں تصویر حیرت بن گئی، واقعی وہ مجھے کب جانتے تھے، انہوں نے میرے جنم دن سے اب تک دیکھا کب تھا۔ آپ نے مجھے کس جرم کی سزا دی ہے بابا جان کہ میری صورت بھی نہ دیکھی آج تک۔ بولے۔ جب تمہاری ماں نے ہی مجھے صورت نہ دکھائی پھر کیسے دیکھتا۔ پتا نہیں تم میری بیٹی ہو بھی کہ نہیں۔
یہ الفاظ پگھلا ہوا سیسہ بن کر میرے کانوں میں گرے، بے بس ہو کر کہا۔ میرے شوہر نے گھر سے نکال دیا ہے اور ماموں نے بھی نہیں رکھا اب کدھر جائوں… سوتیلی ماں نے کہا۔ آج رہ لو، کل تک تمہارے رہنے کا بندوبست کردوں گی۔
وہ رات میں نے ایک اجنبی کی طرح اس گھر میں گزاری جس کے بارے میں گمان تھا یہ میرے باپ کا گھر ہے۔ صبح والد میرے اٹھنے سے پہلے چلے گئے، تھوڑی دیر بعد ایک بوڑھی عورت سوتیلی ماں کے پاس آگئی۔ ماں سے کہا۔ کدھر ہے وہ لڑکی جس کو تم رکھنے پر راضی نہیں ہو۔ بلائو اسے۔
حقیقی باپ کی بے رخی اور اجنبیت دیکھ چکی تھی، جب سوتیلی ماں نے کہا کہ ان کے ساتھ چلی جائو یہ تمہیں اچھی طرح رکھیں گی، یہ تمہارا خیال کریں گی اور تم اس بوڑھی کی خدمت کرنا۔ میں اور تمہارے ابا تمہاری خبر گیری کرتے رہیں گے۔ باپ کی بے حسی سے میرا حقیقی رشتے اور محبت سے ایمان اٹھ گیا تھا۔ بوڑھی نے دل سے لگایا ، پیار کیا تو میں روتی ہوئی اس کے ہمراہ اس کے گھر آگئی۔
اس نے مجھے کہا کہ تم عفت کی بیٹی ہونا، جانتی ہوں اس کو میری لڑکی کی خاطر تیرے باپ نے طلاق دی تھی اور میری بیٹی کو بھی مجھ سے چھین لیا ہے حفیظ نے۔ تم میرے پاس رہوگی تو ماں جیسا پیار دوں گی۔ اس عورت کی زبانی اپنی ماں کا ذکر سن کر ڈھارس ہوئی۔ میں اسے نانی ہی سمجھی۔ نانی ایک شاندار کوٹھی میں رہتی تھی اس کے ساتھ دو لڑکیاں اور بھی تھیں جو اس کی بیٹیاں نہ تھیں۔ میری طرح بے کس لاوارث، بھٹکی ہوئی لڑکیاں تھیں جن کو اس نے پناہ دی تھی۔
مجھے بھی پناہ مل گئی مگر آبرومندانہ چھت کے تلے نہیں ،گناہ کی دلدل میں بسنے والی یہ بوڑھی، نوجوان لڑکیوں کی کمائی ہوئی دولت پر عیش کرتی تھی، وہ بھی جوانی میں یونہی بھٹک کر اس بازار تک آگئی تو عمر بھر کے لیے گناہ کی قبر میں اتر گئی۔ اب جینے پر مجبور رہی۔ اب عفت و عصمت کا کوئی تصور اس کے پاس باقی نہ رہا تھا۔ اچھائی اور برائی کی اقدار مٹ چکی تھیں۔ میں اس سیاہ روح کو نانی کہتی اور کیا کرتی۔ جب اپنے برے وقت میں منہ پھیر لیتے ہیں تو برے بھی اپنے لگنے لگتے ہیں۔
آج اگر میں اس بازار کی زینت بنی تو کس وجہ سے… اور کہاں سے آئی ہوں میں… اور مجھ جیسی لڑکیاں یہاں کہاں سے آتی ہیں، کیا یہاں آنے والوں نے کبھی سوچا۔
مجھے گلہ اس بڑھیا یا اس جیسی پناہ دینے والی عورتوں سے نہیں ہے، گلہ ان لوگوں سے ہے جن کے دم قدم سے بازار آباد ہے۔ اس پاکیزہ معاشرے سے ہے جو لڑکیوں کو لاوارث اور بے سہارا کرتے ہیں اور بے سہارا عورتوں کو پناہ دینا معیوب سمجھتے ہیں۔ ( س۔ ر…لاہور)