Thursday, February 13, 2025

Hamdardi Ki Qeemat

 ہمارے محلے میں ایک گھر کافی عرصے سے خالی پڑا تھا، پھر اس میں نئے کرایہ دار آ گئے۔ یہ ایک مختصر سا کنبہ تھا، جس میں ایک مرد اور ایک عورت شامل تھے۔ انہوں نے تمام محلے والوں سے اپنا تعارف میاں بیوی کی حیثیت سے کرایا۔ مرد کا نام دلبر خان تھا، جبکہ عورت نے ہمیں اپنا نام صاحب جان بتایا۔

چند ہی دنوں میں عورت کا پاس پڑوس میں آنا جانا ہو گیا۔ مرد تو صبح کا گیا شام کو لوٹتا، جبکہ عورت سارا دن گھر میں اکیلی رہتی۔ اسے پردیسی جان کر اور اس کی تنہائی کا خیال کرتے ہوئے محلے کی سبھی عورتیں اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتی تھیں۔ ہماری اماں کو صاحب جان کی تنہائی کا بڑا احساس تھا۔ وہ کہتی تھیں کہ بے چاری کے گھر میں کوئی بچہ بھی نہیں کہ اس کا جی بہل جائے، جبکہ وہ خود بچوں سے بے حد پیار کرتی ہے۔ ہر کسی کا بچہ دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب بھی صاحب جان کسی بچے کو دیکھتی، تو اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک آ جاتی تھی۔

صاحب جان زیادہ باتونی نہیں تھی۔ وہ بظاہر بہت پرسکون اور متین دکھائی دیتی، لیکن اس کے چہرے سے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کے اندر کوئی طوفان چھپا ہو۔ جب بھی وہ بات کرتی، تو ضرور کہتی کہ مجھ کو تو ہمیشہ بھرے کنبے میں رہنے کی عادت تھی، اب اکیلا گھر کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ اگر آپ لوگوں کا آسرا نہ ہوتا، تو نہ جانے میرا کیا حال ہوتا۔میری اماں اور بھابھی کو صاحب جان سے بہت ہمدردی ہو گئی تھی۔ وہ اکثر اپنے گھر کے بچوں کو اس کے پاس بھیج دیا کرتی تھیں تاکہ اس بے چاری کا دل لگا رہے۔ صاحب جان کے گھر کی دیوار ہماری دیوار سے ملی ہوئی تھی، اس لیے اس کا سب سے زیادہ رابطہ ہم ہی سے رہتا تھا۔

اسے یہاں آئے دو ماہ ہو چکے تھے، مگر وہ ہم سے اتنی زیادہ گھل مل گئی تھی جیسے برسوں سے ہمارے ساتھ رہ رہی ہو۔ ایک عجیب بات یہ تھی کہ جتنی ملنسار اور محبت کرنے والی صاحب جان تھی، اس کا شوہر بالکل اس کے برعکس تھا۔ وہ بہت کم کسی سے ملتا اور بات چیت بھی کم کرتا تھا۔ صاحب جان کہتی کہ اپنی اپنی طبیعت ہوتی ہے۔ اس کی عادت ایسی ہی ہے۔ دلبر خان تنہائی پسند ہے، جبکہ میں ایسی نہیں۔ اگر کوئی بات کرنے والا نہ ہو، تو میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔

صاحب جان کو ہمارے محلے میں آئے تین ماہ ہو چکے تھے کہ ایک دن اس نے بتایا کہ اس کا شوہر کام کے سلسلے میں میرپور جا رہا ہے۔ اماں کہنے لگیں کہ تو پھر تم کیوں فکر کرتی ہو؟ ہم لوگ جو تمہارے پاس ہیں، وہ جاتا ہے تو جانے دو۔ مرد تو کام کاج کے سلسلے میں جاتے ہیں۔ کہو تو رات کو میں آ کر تمہارے پاس سو جایا کروں؟وہ کہنے لگی کہ نہیں اماں جی، ایسی بات نہیں ہے۔ میں ڈرتی تو بالکل نہیں ہوں، اپنے گھر میں ڈر کیسا؟ بس یہی فکر ہے کہ خان زیادہ دن نہ لگا دے۔

ہمارے ساتھ والے گھر میں اختر صاحب رہتے تھے۔ ان کی ایک ہی بیٹی تھی، جس کی عمر آٹھ سال ہوگی۔ بڑی پیاری اور لاڈلی تھی۔ اکلوتی ہونے کی وجہ سے گھر والے اس کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ صاحب جان نے اس بچی سے بہت پیار بڑھا لیا تھا، جس کی وجہ سے ثمرینہ ہر وقت یہی چاہتی تھی کہ وہ صاحب جان کے پاس رہے۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ان کے گھر جا گھستی اور بڑی مشکل سے واپس آتی تھی۔ صاحب جان اسے کھلاتی پلاتی، اس کے ساتھ بچوں کی طرح کھیلتی اور اس کا بڑا خیال رکھتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ثمرینہ زیادہ تر صاحب جان کے پاس رہنا پسند کرتی تھی۔

ثمرینہ اور میری بھتیجی صائمہ ہم عمر تھیں۔ وہ ایک ساتھ اسکول جاتی تھیں اور ایک ہی کلاس میں پڑھتی تھیں، دونوں آپس میں اچھی دوست بھی تھیں۔ جب بھی ثمرینہ صاحب جان کے گھر جاتی، تو صائمہ کو بھی بلا کر ساتھ لے جاتی۔ دونوں وہاں بیٹھ کر گھنٹوں گڑیا سے کھیلتی رہتیں۔ اگر کبھی بھابھی کچھ کہتیں، تو اماں انہیں سمجھا بجھا دیتیں کہ دلہن، رہنے دو، صاحب جان بے چاری بے اولاد ہے۔ ان بچیوں کے آنے سے اس کے گھر میں رونق ہو جاتی ہے، اس کا دل بہل جاتا ہے۔ وہ ان سے بہت پیار کرتی ہے، تم یوں بار بار صائمہ کو آواز نہ دیا کرو، اس کا دل برا ہو جائے گا۔

دلبر خان کو گئے ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔ وہ تین دن کے لیے گیا تھا، لیکن ابھی تک نہیں لوٹا تھا۔ صاحب جان بہت فکرمند ہو رہی تھی۔ پھر ایک اور ہفتہ گزر گیا، مگر نہ اس کا کوئی خط آیا اور نہ کوئی اطلاع۔ صاحب جان بے حد اداس اور پریشان نظر آتی تھی۔ اماں سے کہنے لگی کہ دو چار دن اور دیکھوں گی، اس کے بعد میں خود ہی میرپور چلی جاؤں گی۔ پتا تو کروں کہ کیا بات ہے۔

صاحب جان سے محلے کے سارے بچے مانوس تھے، مگر ثمرینہ اور صائمہ کے ساتھ اس کا خاص لگاؤ تھا۔ وہ ان پر جان چھڑکتی تھی۔ جس روز صاحب جان گئی، کسی کو پتا نہ چلا، کیونکہ اس کے گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اس روز اسکول میں چھٹی کا دن تھا۔ ناشتہ کرتے ہی ثمرینہ ہمارے گھر آئی اور صائمہ کو لے کر صاحب جان کے گھر چلی گئی۔ یہ روز کا معمول تھا، اس لیے کسی نے خاص دھیان نہیں دیا۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ ثمرینہ اور صائمہ کے ساتھ صاحب جان کو بھی کسی نے گھر سے نکلتے یا کہیں جاتے نہیں دیکھا تھا۔

دوپہر تک ہم نے دونوں بچیوں کی خبر نہ لی۔ جب دوپہر ڈھل گئی تو بھابھی نے میرے چھوٹے بھائی سے کہا کہ فیاض جاؤ، صائمہ کو جا کر لے آؤ۔ صبح سے گئی ہوئی ہے، ابھی تک نہیں لوٹی۔ صاحب جان سے کہنا کہ اب اسے گھر بھیج دے، اسے شام کو قاعدہ پڑھنا ہے۔فیاض نے آ کر بتایا کہ صاحب جان کا گھر کھلا ہوا ہے، لیکن اندر کوئی نہیں ہے۔بھابھی سمجھیں کہ وہ بچیوں کو ساتھ لے کر کسی پڑوسی کے گھر جا بیٹھی ہے، اس لیے انہوں نے زیادہ دھیان نہ دیا، کیونکہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ بچیوں کو لے کر کہیں غائب ہو چکی ہے۔شام ہو گئی تو بھابھی نے پھر کہا کہ ارے، اب تو جا کر اسے لے آؤ۔ بچی رات کے وقت پرائے گھر میں رہے، یہ تو کوئی اچھی بات نہیں ہے۔اماں نے بھی محسوس کیا کہ آج صائمہ غیر معمولی حد تک گھر سے باہر رہی ہے، چنانچہ وہ خود برقع پہن کر صاحب جان کے گھر چلی گئیں تاکہ جا کر پوتی کو لے آئیں۔ذرا دیر بعد اماں واپس لوٹیں تو ان کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا، کیونکہ صاحب جان کا خالی گھر بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ وہاں نہ وہ عورت تھی، نہ بچیاں۔

ثمرینہ کی ماں، بیگم اختر، بھی ہمارے گھر بیٹھی تھی، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ثمرینہ صبح سے صاحب جان کے پاس تھی، مگر اب وہاں کوئی نہیں تھا۔ بیگم اختر پریشان ہو کر ہمارے گھر آ گئیں۔ پورے محلے میں تلاش کر لیا، لیکن تینوں کا کچھ پتا نہ چلا۔یہ واقعی فکر کی بات تھی۔بھابھی نہ جی رہی تھیں، نہ مر رہی تھیں۔ ہر ایک کی طرف لٹی لٹی نظروں سے دیکھتیں اور پوچھتیں کہ کہاں گئی ہوگی میری بچی؟یہی حال بیگم اختر کا بھی تھا۔ وہ بے چاری تو بھابھی سے بھی زیادہ بے حال نظر آ رہی تھیں۔ ان کی اکلوتی بچی ہی ان کی کل کائنات تھی۔محلے کے سب بچوں سے پوچھا گیا۔ ایک بچے نے بتایا کہ ثمرینہ اور صائمہ تو خالہ صاحب جان کے ساتھ صبح کہیں جا رہی تھیں۔ ثمرینہ نے مجھ سے کہا تھا کہ ہم انکل خان کو لینے میرپور جا رہے ہیں۔ کل واپس آ جائیں گے، مگر تم کسی کو نہ بتانا، امی ہمیں میرپور نہیں جانے دیں گی۔

سارے محلے والے جمع ہو گئے۔ سب کی یہی رائے تھی کہ اب پولیس میں رپورٹ درج کرا دینی چاہیے، کیونکہ صاحب جان کا کوئی اور پتا کسی کے پاس نہ تھا، نہ ہی کوئی جانتا تھا کہ وہ کون لوگ تھے، کہاں کے رہنے والے تھے، کہاں سے آئے اور کہاں چلے گئے۔پولیس میں رپورٹ درج کروا دی گئی۔ اپنے طور پر بھی دونوں بچیوں کو بہت تلاش کیا گیا، مگر بے سود۔اختر صاحب کے گھر اور ہمارے گھر میں ایک جیسا ماتم برپا تھا۔تلاش کرتے کرتے ایک پان والے کے کیبن تک پہنچے، جس نے بتایا کہ میں نے صبح کے وقت ایک عورت کو دو چھوٹی بچیوں کے ہمراہ یہاں سے گزرتے دیکھا تھا۔ شاید وہ اسٹیشن کی طرف جا رہی تھی، کیونکہ وہ سڑک اُدھر کو جاتی تھی۔

فوراً اسٹیشن کی طرف دوڑے، پولیس بھی حرکت میں آ گئی، مگر صاحب جان کو نہ ملنا تھا، نہ ملی، اور ساتھ ہی ہماری دونوں بچیوں کا بھی کوئی سراغ نہ مل سکا۔ بھابھی صائمہ کو آواز دیتیں، مگر پھر مٹھیاں بھینچ لیتیں اور انہیں غش آ جاتا۔ ان کی حالت بہت خراب تھی۔ ڈاکٹر انہیں نیند کے انجیکشن لگا کر سلا دیتا تھا، کیونکہ وہ امید سے تھیں، اور ڈاکٹر کو یہ خدشہ تھا کہ اس صدمے سے ان کی جان کو خطرہ نہ لاحق ہو جائے۔ بیگم اختر کا حال تو اس سے بھی برا تھا۔ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک، ان کا جیتا جاگتا خواب، ان کی اکلوتی بیٹی ثمرینہ ہی تو تھی۔ ان کی حالت ایسی ہو گئی کہ بالآخر انہیں اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ مدتوں وہ اپنے حواسوں میں نہ آ سکیں۔

وقت کے ساتھ صدمہ تو سہہ لیا، مگر بھابھی کو صبر پھر بھی نہیں آیا۔ وہ کہتی تھیں کہ جیسے جیتے جی مر گئی ہوں۔ سانس تو چلتی ہے، مگر ہر سانس کے ساتھ بس یہی آس ہے کہ شاید کبھی میری لختِ جگر واپس آ جائے۔

Latest Posts

Related POSTS