Wednesday, May 21, 2025

Hamesha Saath Dyna | Teen Auratien Teen Kahaniyan

خالہ نادرہ بہت اچھی اور خوشحال زندگی گزار رہی تھیں۔ اپنا دس مرلے کا دو منزلہ مکان تھا، شوہر کی نوکری بھی اچھی تھی۔ تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ کفایت شعاری سے خرچہ چلاتیں، اچھی سلائی کڑھائی جانتی تھیں، فارغ وقت میں اس ہنر سے خاصی رقم کما لیتی تھیں۔
بیٹے بڑے تھے، وہ کمانے لگے تو خالہ نے ان کی شادیاں کردیں۔ ایک ہی گھر سے رشتے لئے، ان کی بہوئیں آپس میں سگی بہنیں تھیں۔ بیٹوں کی شادیاں ہو گئیں، بہوئیں آئیں تو کچھ دن وہ سکون سے رہیں پھر گھر کے انتظام کو تلپٹ کرنا شروع کردیا۔ کوئی کام نہ کرتیں اور اپنی آرام طلبی سے سبھی کو بے سکون کرنے لگیں۔
گھر کا سارا نظام جو پہلے خالہ خوش اسلوبی سے چلاتی تھیں، بہوئوں کی ملی بھگت نے اسے درہم برہم کر ڈالا۔ دراصل ان کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ ساس نندوں سے علیحدہ اپنی مرضی کی زندگی بسر کریں۔ ان کا خیال تھا کہ ہمارے شوہر کی کمائی پر کماحقہ ہمارا حق ہے۔ لہٰذا یہ کمائی ہماری مرضی سے خرچ ہونی چاہئے۔
جب چپقلش زیادہ بڑھی تو خالہ نادرہ نے اپنی اور بچوں کی عافیت جانی کہ بہوئوں کو الگ کردیں۔ وہ تینوں سگی بہنیں تھیں اور ان کا گٹھ جوڑ مضبوط تھا لہٰذا ہتھیار ڈالتے ہی بنی۔ انکل بھٹی نے یہ فیصلہ کردیا کہ بیٹے اور بہوئیں اسی مکان میں رہیں اور وہ اپنی بیوی بچیوں کو لے کر دوسرے مکان میں شفٹ ہوجاتے ہیں۔
انکل کا دوسرا مکان نزدیکی محلے میں تھا جو کرائے پر تھا۔ مکان کرایہ دار سے خالی کرالیا گیا اور خالہ اپنے شوہر اور بچیوں کے ساتھ پانچ مرلے کے گھر میں منتقل ہوگئیں۔ یہ مکان بھی اچھا بنا ہوا تھا اور دو منزلہ تھا۔ نچلی منزل میں دو کمرے اور صحن بمعہ برآمدہ اور اوپر کی منزل میں بھی دو کمرے کچن، صحن اور باتھ روم وغیرہ بنے ہوئے تھے۔
علیحدگی کے بعد بیٹے اپنی بیویوں کے ہمراہ خوش و خرم زندگی بسر کرنے لگے۔ وہ اپنی کمائی اپنے پاس رکھتے تھے۔ کبھی کبھار ملنے آجاتے تھے۔ نادرہ خالہ کو ان سے علیحدہ رہ کر دکھ تو ہوتا لیکن سکون کی خاطر اس جدائی کو سہنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ بیٹے خوش تو ماں باپ بھی خوش۔ انہوں نے اسی فارمولے پر عمل کیا۔
خود کبھی عید تہوار یا پھر پوتے، پوتی کی سالگرہ پر چلے جاتے تھے اور حسب استطاعت ان کے لئے کھلونے اور تحفے بھی لے جاتے۔ انہی دنوں انکل بھٹی ریٹائر ہوگئے اور پنشن پر آگئے۔ ساری عمر کی جمع پونجی سے بس یہ دو مکان ہی بنوا پائے تھے اور اب بڑھاپا سر پر آگیا تھا۔ دونوں میاں بیوی کو ابھی تین بیٹیوں کی شادیاں کرنی تھیں اور بوڑھے کاندھوں پر جوان بیٹیوں کا بوجھ بہت بھاری ہوا کرتا ہے۔
خدا کی کرنی… خالو کی طبیعت ایک دن خراب ہوئی۔ اسپتال تک جانے کی نوبت نہ آئی کہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور اچانک فرشتۂ اجل نے آ لیا۔
چند دن تو سوگ میں گزرے جب ہوش آیا تو پتہ چلا کہ سر سے سائبان اتر چکا ہے اور ذریعہ آمدنی بھی کوئی خاص نہیں ہے۔ خالہ سلائی تو پہلے بھی کرتی تھیں، بیٹیوں کو بھی یہ ہنر دیا تھا۔
اب یہ سب مل کر سلائی کرتیں جس سے گھر کا گزارا ہونے لگا لیکن نادرہ خالہ بچیوں کی شادی کی فکر میں گھلی جاتی تھیں۔ ادھر نالائق بیٹے تھے جو بیویوں کے غلام بن چکے تھے۔ ان سے بھی اس سلسلے میں کچھ خاص امیدیں نہیں تھیں۔ تبھی انہوں نے سوچا کہ اوپر کا پورشن جو خالی پڑا ہے کیوں نہ اسے کرائے پر اٹھا دیا جائے۔ اس طرح ایک مستقل ذریعہ آمدنی نکل آئے گا۔
ایک شریف اور مختصر کنبے کی تلاش تھی، محلے کے لوگوں سے کہا۔ کچھ دنوں بعد بطور کرایہ دار ایک ’’میاں بیوی‘‘ مل گئے جو دیکھنے میں شریف لگتے تھے، ایک محلے دار نے ان کا تعارف نادرہ خالہ سے کروایا۔ وہ لوگ پشاور سے آئے تھے اور پنڈی میں زمان کا کاروبار تھا۔ لہٰذا اس شہر میں مکان کی تلاش میں تھے۔ میاں بیوی سے مختصر گفتگو کے بعد خالہ نادرہ نے ان کو اپنے مکان کی اوپر کی منزل کرائے پر دے دی۔ زمان خان کی بیوی نے اپنا نام گل بانو بتایا۔ وہ بہت ملنسار اور خوش اخلاق تھی۔ زمان خان کافی فروٹ روزانہ گھر لاتا تھا جو گل بانو کی ضرورت سے زیادہ ہوتا۔ تب وہ آدھا فروٹ خالہ نادرہ کو دے دیتی۔ اسی طرح زمان خان جو بھی چیزیں لاتا وہ زیادہ مقدار میں ہوتیں اور اس کی بیوی ان میں سے کافی کچھ اپنی مالک مکان کو دے دیتی۔ وہ کہتی تھی میرے شوہر آپ کو اپنی ماں کی جگہ اور آپ کی بیٹیوں کو بہنیں سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کھانے پینے کی چیزوں میں ہمسایہ سانجھی ہوتے ہیں اسی وجہ سے زیادہ لے آتے ہیں۔
جلد ہی یہ میاں بیوی اپنی مالک مکان اور ان کی صاحبزادیوں سے گھل مل گئے۔ تبھی خالہ نے ان لوگوں کو اپنے نجی مسائل بتائے۔ شکوہ کرتی تھیں کہ سگے بیٹوں نے بیویوں کے چکر میں ماں اور بہنوں کو یکسر بھلا دیا ہے اور بیوگی میں ماں کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ تب زمان خان کہتا، امی جان مجھے ہی بیٹا سمجھ لیں۔ یوں انہوں نے اپنے کرایہ دار کو منہ بولا بیٹا بنا لیا۔
اب وہ اپنے تمام مسئلے مسائل اسی کو بتاتیں اور وہ اکثر ان مسئلوں کو حل کردیا کرتا تھا۔ اپنے سبھی دکھ سکھ وہ ان میاں بیوی کی گود میں ڈال کر خود گویا ہلکی پھلکی ہو جاتی تھیں۔
ایک روز محلے کی ایک عورت کے ذریعے خالہ کی بڑی بیٹی صاحبہ کا رشتہ آیا۔ وہ ہر بات میں زمان اور اس کی بیوی سے مشورہ کرتی تھیں۔ ان سے تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اگر اچھا گھر اور ٹھیک لڑکا ہے تو سوچ بچار کس بات کی ہے۔
سوچ بچار یہ ہے کہ لڑکی کا جہیز بنانا ہے اور شادی کا خرچہ یہ سب کہاں سے آئے گا۔ زمان نے فوراً کہا۔ ماں… مجھے بیٹا کہا ہے تو پھر یہ بیٹا کس دن کام آئے گا جو کچھ پس انداز کیا ہے اس سے مناسب جہیز خرید لیں اور باقی کی رقم میں ڈال دوں گا کمی بیشی پوری ہو جائے گی، اس کی آپ فکر نہ کریں اور رشتہ طے کرلیں جو رقم آپ کی بچی کی شادی پر دوں گا وہ کرایہ سے کاٹتا رہوں گا۔
اس بیان سے خالہ کو بڑی ڈھارس ملی اور وہ جی اٹھیں۔ خدا کا شکر ادا کیا کہ ایسا اچھا کرایہ دار ملا تھا۔ کسی بیوہ کو ایسے مسائل میں کوئی سہارا دے تو وہ کیوں نہ مشکور ہو۔
اب جہیز کا سامان خریدنے کا مرحلہ تھا۔ خالہ نے گل بانو سے کہا بیٹی سامان کی خریداری میں تم ساتھ چلو۔ مجھے تو خریداری کا زیادہ تجربہ نہیں ہے، مل کر مشورے سے خریدیں گے تو اچھا رہے گا۔ گل بانو بولی کہ ہماری پسند ناپسند سے زیادہ لڑکی کی پسند ضروری ہے، صاحبہ کو بھی ساتھ لے لیتے ہیں۔
ماں نے اس بات سے اتفاق کیا۔ صاحبہ بازار جانے کو تیار ہوگئی تو دوسری بہنوں نے فرمائش کی ہم بھی ساتھ چلیں گے۔ ہمیشہ آپا ہمارے مشورے اور پسند کو اہمیت دیتی ہیں، انہیں خود اچھی چیزوں کا انتخاب نہیں آتا۔ یوں تینوں بہنیں گل بانو کے ہمراہ کچھ کپڑوں وغیرہ کی خریداری کو نکلیں تو زمان نے پوچھا کہ آپ لوگ کیسے جا رہی ہو۔ ہم بس پر جائیں گے اس کی بیوی نے جواب دیا۔
تم لوگ بس اسٹاپ تک چلو اور میں دوست کو گاڑی کے لئے استدعا کرتا ہوں، اگر گاڑی مل جاتی ہے تو پھر میں بس اسٹاپ آجائوں گا، ساتھ خریدا ہوا سامان ہوگا تو واپسی میں آسانی ہو جائے گی۔
برقع پہن کر یہ چاروں خواتین بس اسٹاپ پر پہنچیں، خالہ نے رقم گل بانو کو دے کر کہا۔ بیٹی تم اسے اپنے پرس میں رکھنا یہ بچیاں ہیں کہیں گرا نہ دیں۔ وہ خود ساتھ نہ گئیں کہ کھانا پکانے کا مسئلہ تھا۔
یہ بس اسٹاپ پر انتظار کر رہی تھیں، زمان خان اپنے دوست کی گاڑی لے کر آگیا۔ کار اس کا دوست ہی چلا رہا تھا۔ گل بانو سے کہا کہ بس پر خوار ہونے کی بجائے اس پر بیٹھ جائو میں کار لے آیا ہوں۔ گل بانو ہمراہ تھی لہٰذا تینوں لڑکیاں بھی بلاتامل اس کے ساتھ سوار ہوگئیں۔
زمان خان برابر کی نشست پر آگے بیٹھا تھا اور اس کا ساتھی کار ڈرائیو کر رہا تھا۔ سواری فراٹے بھرتی جا رہی تھی اور لڑکیاں آپس میں باتیں کرنے میں مصروف تھیں۔ انہوں نے نظر بھر کر بھی سڑک کی طرف نہ دیکھا کہ وہ کدھر جا رہی ہیں۔
جب کافی فاصلہ طے ہوگیا تو صاحبہ کو احساس ہوا کہ وہ تو کسی لمبے رستے پر رواں دواں ہیں۔ چونک کر سوال کیا کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔ اس پر زمان خان نے کہا کہ ہم پشاور جارہے ہیں کیونکہ وہاں کپڑا سستا اور اعلیٰ درجے کا ملے گا۔ کم پیسوں میں عمدہ خریداری کرسکیں گے۔ میرے یہ دوست جو ساتھ ہیں، ان کی کپڑا مارکیٹ میں چار دکانیں ہیں۔
لڑکیاں تو بچیاں تھیں وہ خوش ہوگئیں کہ زمان بھائی ان کے خیرخواہ ہیں، اچھا سوچ رہے ہیں۔ ان کی بیوی ساتھ ہے خطرہ کس بات کا ہے۔ جب یہ پشاور پہنچے تو گاڑی ایک گھر کے سامنے رکی۔ ہارن پر چوکیدار نے گیٹ کھول دیا اور پھر زمان خان ان کو اندر لے گئے۔ ایک کمرے میں بٹھایا۔
ملازمہ ٹھنڈا پانی لے آئی اور کھانا وغیرہ میز پر رکھ دیا گیا۔ واش روم میں فریش ہونے کے بعد گل بانو نے کہا جلدی جلدی کھانا کھا لو تاکہ پھر بازار چلیں۔ واپس بھی جانا ہے کہیں دیر نہ ہو جائے، بھوک سب کو محسوس ہو رہی تھی۔ یہ بہنیں کھانا کھانے لگیں اور گل بانو اپنے شوہر کے پاس دوسرے کمرے میں جا کر باتیں کرنے لگی۔
کھانا کھا چکنے کے بعد انہوں نے گل بانو کو پکارا مگر کوئی جواب نہ ملا، تبھی انہوں نے کمرے سے باہر جھانکنے کی خاطر دروازہ کھولنا چاہا تو پتا چلا کہ باہر سے کنڈی لگی ہے۔ دروازہ پیٹا کوئی جواب نہ ملا۔ وہ کھڑکی کی طرف آئیں، اسے کھول کر جھانکا باہر ملازمہ موجود تھی۔ ہٹی کٹی ملازمہ نے کہا کہ شور نہ مچائو وہ لوگ چلے گئے ہیں اور اب تم ہیبت خان کی قید میں ہو۔ وہ کل آئے گا اور تمہیں کھولے گا۔ اب خاموشی سے سو رہو۔
یہ سنتے ہی لڑکیوں کی جان نکل گئی۔ انہیں یقین نہ آتا تھا کہ زمان بھائی اور گل بانو ایسا کیونکر کرسکتے ہیں۔ سوچنے لگیں شاید تھوڑی دیر کو کہیں گئے ہیں کیونکہ ان کا گھر پشاور میں ہے۔ رشتہ دار بھی ہوں گے غالباً انہی سے ملنے گئے ہوں گے۔
انتظار میں شام سے رات ہوگئی اور وہ نہ آئے۔ درحقیقت بردہ فروش لوگوں سے ان کا تعلق تھا اور ایک نہیں تین جواں سال خوبصورت لڑکیاں ہاتھ لگ چکی تھیں، بیچ کر دام کھرے کرلئے اور خود غائب ہوگئے۔ رات بھر لڑکیاں روتی رہیں لیکن وہ کچھ بھی نہیں کرسکتی تھیں سوائے انتظار کے۔ تمام رات جاگتی رہیں اور ان کو ایک پل کے لئے نیند نہیں آئی۔ ماں کی فکر کہ جانے اس بیچاری پر کیا بیت رہی ہوگی۔
صبح ہیبت خان آگیا اور لڑکیوں کو دہشت زدہ کرنے کے بعد وہ اور ان کے ساتھی انہیں وطن کی سرحد سے پار لے گئے۔ ان کو یقین ہوگیا کہ اب وہ کبھی اپنے گھر نہ لوٹ سکیں گی اور اپنی ماں سے نہ مل سکیں گی۔ انہوں نے ایسے کئی قصے سن رکھے تھے جب بردہ فروش لڑکیوں اور بچوں کو آگے بیچنے کے لئے دوسرے ملک اسمگل کردیتے تھے اور خرکاروں کے واقعات تو عام تھے، آئے دن اخبارات میں چھپتے رہتے تھے۔
رات گہری ہوئی تو وہ اجنبی مردوں کے ساتھ کہاں سے کہاں پہنچ چکی تھیں۔ انہیں نجانے وہ لوگ کہاں لے جا رہے تھے جو کہ اسلحہ سے لیس تھے اور تعداد میں کافی تھے جبکہ لڑکیاں بے بس تھیں اور کلی طور پر ان کے رحم و کرم پر تھیں۔
ادھر جب رات ہوگئی اور لڑکیاں نہ لوٹیں تو خالہ نادرہ کو تشویش ہوگئی۔ خدا جانے گل بانو اور زمان خان ان کو کدھر شاپنگ کرانے لے گئے تھے۔ اے کاش میں انہیں اکیلا نہ بھیجتی ،خود ساتھ جاتی، وہ اب پچھتانے اور ہاتھ ملنے لگیں کہ اب نہ لڑکیاں تھیں اور نہ کرایہ دار میاں بیوی ہی کا کوئی اتا پتا تھا۔
صبح تک خالہ کی حالت غیر ہوگئی، خدارا کیا ہوا ہے، کیا کوئی سنگین حادثہ انہیں پیش آگیا ہے۔ ان کے پیروں تلے زمین کھسکتی محسوس ہونے لگی، وہ دوڑی ہوئی کبھی ایک پڑوسی کے گھر اور کبھی دوسرے پڑوسی کے گھر گئیں مگر کوئی کیا اس سلسلے میں مدد کرسکتا تھا۔ ہر کسی نے کہا کہ شام تک انتظار کرو۔ اگر نہیں آتی ہیں تو تھانے جا کر رپورٹ لکھوا دیتے ہیں۔
قیامت کی رات اور دن بیچاری بیوہ پر بہت بھاری تھے۔ وہ پل پل مرتی جیتی تھیں اور جوان بیٹیوں کے لوٹ آنے کی دعا کرتی تھیں۔ جب دوسرے روز بھی وہ نہ لوٹیں تو مجبوراً خالہ اپنے بیٹوں کے پاس گئیں اور ان کو احوال سے آگاہ کیا۔ دو بیٹے خالہ کے ساتھ آئے اور ان کے ہمراہ تھانے رپورٹ درج کرانے گئے۔ بڑی مشکل سے پولیس نے رپورٹ درج کی۔ ایسے معاملات میں پولیس بھی اکثر ناکام رہتی ہے جبکہ لڑکیاں سرحد پار اسمگل ہوچکی ہوں۔ کچھ دنوں کی بھاگ دوڑ کے بعد پولیس بھی کچھ نہ کرسکی اور ان لڑکیوں کا سراغ لگانے میں ناکام رہی۔
ماں کے دکھ کا کسی کو کیا اندازہ ہوسکتا ہے جس کی تین جواں سال غیر شادی شدہ بیٹیاں غائب ہوچکی ہوں۔ جس بیوہ نے دن رات محنت کر کے عزت کی زندگی بسر کی ہو۔ آخری عمر میں شقی القلب کرایہ دار نے اعتماد کی فضا بنا کر اس کی عزتوں کو نیلام چڑھا دیا تھا۔
خالہ دن رات دیواروں سے ٹکریں مارتیں مگر ٹکریں مارنے سے تو صرف اپنا سر ہی زخمی ہوتا ہے۔ دیوانی خالہ نے گلی گلی کی خاک چھان لی مگر ان لڑکیوں کا کہیںسراغ نہ ملا۔ تمام محلے والے تسلی دیتے تھک گئے مگر انہیں تسلی نہ ہوئی۔
وقت گزرتا رہا۔ خالہ کا ایک بیٹا اور بہو ان کے پاس آ کر رہنے لگے۔ وہ بھی آخرکار ان کی غمگساری کر کر کے تھک ہار گئے اور اپنے اپنے کام دھندوں سے لگ گئے۔ انہیں روزی بھی تو کمانی تھی۔ کب تک کھوئی ہوئی بہنوں کو تلاش کرتے، ان کے پاس اتنا سرمایہ کہاں تھا۔
ایک دن اچانک ڈاکیے نے ان کو ایک خط لا کر دیا۔ شاید کہ ان کی آہ و بکا اور دن رات کی دعائیں رنگ لے آئیں۔ یہ خط ان کی منجھلی بیٹی ماریہ کا تھا۔ اس نے تمام احوال ماں کو لکھے تھے کہ کیسے زمان خان اور اس کی بیوی انہیں پشاور لے گئے اور کمرے میں بند کر کے چلے گئے پھر بردہ فروش نے انہیں سرحد پار لے جا کر فروخت کیا۔ اس نے مزید لکھا کہ مجھے، صاحبہ اور ناجیہ کے بارے میں کوئی علم نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں لیکن مجھے مشرق وسطیٰ کے ایک امیر آدمی نے خریدا تھا۔ میں اسے اتنی پسند آگئی کہ اس نے مجھے تیسری بیوی بنا لیا۔ یوں قسمت میں خوار ہونے کے باوجود خواری نہیں لکھی گئی۔ ترکی میں ہوں اور اس شخص کے شاندار گھر میں عیش و عزت کی زندگی بسر کر رہی ہوں۔ آج اس کی اجازت سے خط لکھ رہی ہوں لیکن آپ سے فی الحال ملنے سے قاصر ہوں۔ دوسری دونوں بہنوں کے بارے میں میرے خاوند نے معلوم کرنے کی کوشش کی تھی بس اسی قدر علم ہوا ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کے قحبہ خانوں میں پہنچائی گئی تھیں آگے ان کی قسمت کیا ہوئی خدا کو معلوم… مگر ظالم گل زمان نے چند روپوں کی خاطر ہمارے ساتھ بہت برا کیا۔ خدا اسے جہنم رسید کرے گا۔ خط میں ماریہ نے اپنا پتہ لکھا تھا مگر ویز ے کی دشواریوں کے سبب فی الحال وہ نہ ماں کو بلوا سکتی تھی اور نہ خود اسے وطن آنے کی اجازت تھی۔
خالہ اپنے بیٹوں کے پاس گئیں ماریہ کا خط دکھا کر کہا کہ تمہاری ایک بہن کا سراغ مل گیا ہے اب تم کسی طرح اسے وطن لانے کی سبیل کرو یا پھر میری اس کے ساتھ ملاقات کا بندوبست کرائو۔ بیٹوں نے معذوری ظاہر کر دی کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ ہماری نہ کوئی پہنچ ہے اور نہ اثر و رسوخ ہے۔ دولت کام کرتی ہے اور ہم دولت مند بھی نہیں ہیں۔ غلطی تو آپ کی ہے کہ آپ نے کیوں کسی غیر پر اعتبار کیا اور جوان بیٹیاں ان لوگوں کے ہمراہ کردیں۔
بیوہ خالہ کا دکھ اور بڑھ گیا۔ پہلے تین جوان بیٹیوں کا بوجھ کندھوں پر تھا اب ان کے کھوئے جانے کا غم پہاڑ جیسا تھا جس کا بوجھ ان کا کمزور دل سہہ نہ پاتا تھا۔ بیٹے تو خالہ کو دوش دیتے تھے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ خالہ سے زیادہ ان کے بیٹوں اور بہوئوں کا قصور ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں آزادی کے رنگ بھرنے کی خاطر بوڑھی ماں اور جوان بہنوں کو تنہا چھوڑ دیا تھا۔ بیویوں کو خوش کرنے کی خاطر اکثر بیٹے ماں کو ضعیفی میں اکیلا چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے فرائض سے غفلت برتتے ہیں، جس کے نتائج برے نکلتے ہیں۔ یقیناً ایسے بیٹے اور بہوئیں لائق ستائش نہیں ہوتے۔ معاشرے کا فرض ہے کہ وہ اس قسم کی خودغرض اولاد کا محاسبہ کر ے، ورنہ اس قسم کے المیے تو جنم لیتے رہیں گے۔ بیوہ والدہ اور غیر شادی شدہ جوان بہنوں کو بے یارومددگار چھوڑنا کسی طرح بھی قابل معافی امر نہیں ہے۔
(ریحانہ… کراچی)

Latest Posts

Related POSTS