Thursday, October 10, 2024

Haqaiq Say Chashm-poshi

جب میری شادی منیر سے ہوئی ، ان دنوں وہ ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھے اور ان کی ڈیوٹی رات کی ہوتی تھی۔ چونکہ وہ آفیسر تھے اس لیے ان کو رہائش بھی محکمہ کی طرف سے ملی ہوئی تھی۔ تاہم بنگلا بہت پرانا اور جس کالونی میں تھاوہ شہر سے دور ویران جگہ تھی۔ اس مقام پر یہی ایک اکیلا بنگلا تھا۔ نزدیک کوئی دوسرا گھر نہ تھا۔ دوسرے بنگلے کچھ دور تھے ، لہذا رات کو تنہا ر هنے سے مجھے ڈر لگتا اور خوف سے نیند نہیں آتی تھی۔ کبھی کچھ عجیب سی آوازیں سنائی دیتیں اور رات کے سناٹے میں کوئی گھر کے اطراف چلتا محسوس ہوتا تھا۔ اس مسئلے کا انہوں نے یہ حل نکالا کہ ایک ملازمہ کا انتظام کرادیا جس کا نام لالی تھا۔ اس کا شوہر بھی منیر کے دفتر میں ہی ملازم تھا۔ لالی کا رنگ اس کے نام کی طرح سُرخ و سفید تھا۔ وہ اچھے نین نقش کی عورت تھی اور خوش مزاج بھی، دلچسپ باتیں کرتی۔ اس تنہائی میں اس کا دم غنیمت تھا۔ میرا دل اس کے ساتھ لگ گیا۔ وہ گھر کا سارا کام کرتی، کچن سنبھالتی، کھانا بناتی اور جب فارغ ہوتی ، میرے پاس آبیٹھتی، ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگتی۔ ایک روز وہ یونہی میرے پاس بیٹھی باتیں کر رہی تھی کہ ایک نامانوس سی آواز آئی۔ میں نے پیچھے مڑ کر کھڑکی کی طرف دیکھا جدھر سے آواز آئی تھی، یہ بلی تھی، مگر بلی کودی نہیں تھی بلکہ اس کو کسی نے بیرونی دیوار سے اندر پھینکا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بر تن گرنے کی آواز آئی۔ میں چونک گئی، تبھی لالی بولی بی بی شاید کچن کا در کھلا رہ گیا ہے۔ بلی ہی ہو گی یہ کہہ کر وہ میرے کمرے کی جھاڑ پونچھ کرنے لگی اور میں اٹھ کر کچن میں چلی گئی کہ دیکھوں کون سا بر تن گرا ہے۔ دیکھا تو ایک پلیٹ میز کے نیچے پڑی تھی مگر وہ ٹوٹی نہیں تھی۔ میں حیران رہ گئی، کیونکہ کانچ کا برتن تو گرنے نے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ میں نے زندگی میں پہلی بار اس برتن کے گرنے سے خوف محسوس کیا تھا۔ جب لالی سے اظہار کیا کہ پلیٹ کرنے سے نہیں ٹوٹی تو وہ بالکل بھی حیران نہیں ہوئی، کہنے لگی۔ کبھی کبھی کانچ کے برتن اس طرح سے گرتے ہیں کہ ٹوٹنے سے بچ جاتے ہیں۔ اس کی بات سُن کر میں کچھ اور کہے بغیر کمرے میں واپس آگئی۔ اس روز دن پھیکا پھیکا سا گزر گیا۔ لالی دو پہر کا کھانا کھانے کے بعد میرے پاس آکر نہیں بیٹھی بلکہ اپنے کمرے میں جا کر سو گئی۔ شام کو واپس آگئے تو میں نے ان سے اس واقعے کا تذکرہ کیا۔ وہ بولے۔ صنوبر ! تم کو بھی جانے کیسے وہموں نے گھیر لیا ہے۔ انہوں نے بات کو ہنسی میں ٹال دیا جبکہ میں واقعی پریشان تھی۔ آخر کار میں نے بھی اس بات کو وہم سمجھ کر دل سے نکال دیا۔ صبح ہو گئی۔ نوکرانی نے ناشتہ تیار کیا، میرے شوہر ناشتہ کر کے دفتر چلے گئے۔ کچھ دیر بعد انہوں نے دفتر سے لالی کے شوہر کو بھیجا کہ میرے گھر سے سوٹ کیس لے آئو ، میں نے پنڈی جانا ہے۔ کمال نے آکر لالی سے کہا کہ صاحب دورے پر جارہے ہیں۔ بیگم صاحبہ سے کہو کہ ان کا سوٹ کیس دے دیں۔ میں نے دے دیا، وہ چند منٹ بیوی سے بات کر کے چلا گیا۔ میں نے لالی سے پوچھا۔ تمہارا شوہر کیا کہہ رہا تھا۔ وہ بولی۔ کمال کہہ رہا تھا کہ صاحب دفتری کام سے جار ہے ہیں اور میں بھی ان کے ساتھ جارہا ہوں۔ آج میری ان کے ساتھ ڈیوٹی ہے۔ پھر تو آج ہم شام سے کھانا پکا، کھا کر سو جاتے ہیں کیونکہ دیر تک جاگنے سے مجھ کو آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں اور ڈر لگتا ہے۔ آخر کاررات ہو گئی اور میں کمرے میں جا کر سو گئی جبکہ لالی ابھی تک جاگ رہی تھی۔ کہنے لگی۔ آپ سو جائیے بے فکر ہو کر، مجھے ابھی نیند نہیں آرہی۔ یہ کہ کر وہ بر آمدے میں جا کر لیٹ گئی۔ میں ابھی صحیح طریقے سے سو نہیں پائی تھی کہ اچانک ایک ڈرائونی آواز سنائی دی۔ میں جلدی سے اٹھ گئی ، ذہن پر زور ڈالا کہ یہ آواز کدھر سے آئی ہے، ابھی سوچ ہی رہی تھی شاید آواز بیرونی دیوار کے ادھر سے آئی ہے کہ آواز پھر سنائی دی اور میری چیخ نکل گئی۔ وہ دوڑتی ہوئی میرے پاس آئی۔ میں ہانپ رہی تھی، پوچھا۔ لالی ! تم نے کچھ سنا؟ بولی۔ نہیں تو، آپ شاید نیند میں ڈر گئی ہیں۔ میں سوئی نہیں تھی، ابھی جاگ رہی تھی، بیداری میں دو بار آواز سنی ہے۔ میری آواز میں لرزش تھی مگر اس کا چہرہ سپاٹ تھا جیسے اسے میری بات کا یقین نہ ہو ۔ کہنے لگی۔ مگر مجھ کو تو کچھ سنائی نہیں دیا۔ اس کی ایسی باتوں سے میں اور بھی سہم جاتی تھی۔ میں اب تک خوفزدہ تھی اد ھرادھر دیکھ رہی تھی۔ تبھی لالی نے کہا۔ بی بی جو کچھ ہے وہ آپ کے ساتھ ہے، میرے ساتھ تو کچھ نہیں ہے۔ تبھی میں بولی۔ کیا کروں پھر ؟ تم ہی بتائو۔ آپ کسی عامل سے پڑھوائیں اور جس دن صاحب کی ڈیوٹی ہو ، رات کو آپ بھی میکے چلی جایا کریں۔ ان کی تو اکثر راتوں کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ روز روز تو میکے نہیں جاسکتی۔ ابھی ہم یہ باتیں کر رہے تھے کہ لائٹ چلی گئی، ہوا بھی آج کچھ تیز چل رہی تھی۔ شائیں شائیں کی آواز سُن کر میں سہمی جاتی تھی۔ میری عمر کم تھی، اکیلے رہنے کی عادت نہ تھی، ایسے میں لالی ہی میرا سہارا تھی۔ میں نے کہا۔ لالی تم میرے کمرے سے مت جائو۔ وہ کچھ دیر تک میرے پاس بیٹھی رہی ، جب میں سو گئی تو وہ دبے قدموں باہر چلی گئی۔ وہ اب برآمدے ہی میں سونے لگی تھی۔ لالی برآمدے میں سورہی تھی کہ آدھی رات کو میری آنکھ کھلی۔ مجھے سر گوشیوں کی آواز سنائی دی۔ غور سے کان لگائے ، یوں محسوس ہوا جیسے اس کے ساتھ کوئی باتیں کر رہا ہو۔ میں نے آواز دی۔ لالی ! کون باتیں کر رہا ہے ؟ اس نے جواب نہ دیاتو میں نے اٹھ کر لائٹ آن کرنا چاہی۔ بجلی غائب تھی۔ اندھیرے میں میرا پائوں کرسی سے ٹکرایا آواز پیدا ہوئی تب لالی نے کہا۔ بیگم صاحبہ کیا بات ہے ؟ تبھی وہ میرے کمرے میں آگئی۔ تم روشنی کرو، جو بھی ہے آج دیکھ لیتے ہیں۔ وہ بولی۔ بی بی کیا ہوا ہے آپ کو ؟ میں باہر ہی سے تو آرہی ہوں وہاں کوئی نہیں ہے۔ اس نے مجھے روک تو لیا لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ باہر کوئی موجود ہے۔ اس نے مجھے پکڑ کر پلنگ پر لٹادیا اور پائوں دبانے لگی۔ اس نے کمرے کا دروازہ بھی بند کر دیا تھا۔ کب جانے میری آنکھ لگی، بالآخر رات گزر ہی گئی۔ صبح ہوئی۔ میں اٹھ کر کچن میں گئی۔ لالی موجود نہ تھی۔ میں نے ہاتھ منہ دھویا۔ اس کو آواز دینے لگی ، وہ سامنے والے کوارٹر سے نکلی، حالانکہ وہ کوارٹر ویران پڑا تھا اور وہ دن میں بھی ادھر نہیں جاتی تھی۔ لالی تم کوارٹر میں کیوں گئیں؟ تمہارا وہاں کیا کام تھا؟ وہ بولی۔ وہ کھٹر کی کا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا، صبح میری اچانک نظر پڑ گئی۔ سوچا گتا لگا کر بند کر دوں۔ اس ٹوٹے ہوئے شیشے سے بلی اور چمگادڑیں اندر جا کر آواز پیدا کرتی ہوں گی تو ہی آپ ڈر جاتی ہیں۔ بات معقول تھی، میں خاموش ہو گئی۔ لالی نے ناشتہ بنایا۔ مجھے دیا۔ بولی بیگم بی بی رات والے واقعے کو بھول جائے۔ اس بات پر میں حیران ہو گئی کہ یہ کیا کہ رہی ہے مگر بات کو کرید نا مناسب نہ سمجھا۔ میں نے ناشتہ کیا اور کمرے میں چلی گئی۔ میں کچھ دیر رسالہ پڑھتی رہی ، جب دل نہ لگا تو ٹہلنے لگی۔ مجھے یوں لگا جیسے سرونٹ کوارٹر کے بند در و دیوار کے اندر کوئی ہے کیونکہ کھٹر کی کے ٹوٹے ہوئے شیشے سے دھواں نکل رہا تھا جیسے کوئی کھڑکی کے پاس کھڑا سگریٹ پی رہا ہو۔ مگر پینے والا نظر نہیں آرہا تھا۔ میں پھر سے خوفزدہ ہو گئی اور اسے آواز دی۔ لالی ادھر آئو۔ وہ دوڑی آئی ، پوچھا۔ کیا بات ہے بیگم بی بی ! میں نے سرونٹ کوارٹر کی طرف اشارہ کیا۔ مجھے تو دھواں نظر نہیں آرہا اور سرونٹ کوارٹر تو بند ہے اس کے دروازے پر تالا لگا ہوا ہے۔ مگر وہ دیکھو وہاں سے دھواں نکلتا مجھے تو نظر آرہا ہے۔ بولی۔ نہیں تو، آپ کا وہم ہے۔ وہاں تو کچھ بھی نہیں ہے مگر برابر کا گتا نہیں ملا تو کام رہ گیا۔ سوچا بعد میں جب فرصت ملے گی تو مناسب گتا ڈھونڈ کر لگادوں گی۔ آج ہی ڈھونڈ کر سوراخ بند کر دو۔ ایسا ہی کروں گی۔ جس کو آپ نے دھواں جانا ہے کوئی چمگاڈر وغیرہ اڑی ہو گی تبھی دھول اُڑی ہے۔ اس کی عجیب تاویلوں سے خاموش ہو رہی مگر خوف تھا کہ میرے دل میں جاگزیں ہو گیا تھا اور کسی صورت چین نہیں لینے دیتا تھا۔ جب منیر آئے، میں نے رونا شروع کر دیا کہ میں یہاں نہیں رہتی۔ کم از کم جب آپ کی رات کی ڈیوٹی ہو ، ان دنوں مجھے میکے بھیج دیا کریں۔ جب انہوں نے میرا رونا دھونا دیکھا، بولے۔ ٹھیک ہے۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا کہ شکر ہے کہ میں اس پرسرار مکان کے اسرار ورموز کا شکار ہونے سے بچ گئی۔ میرامیکہ دو تین گھنٹے کی ڈرائیونگ پر تھا۔ لہذا جب منیر کی ہفتہ بھر کی ڈیوٹی ہوتی وہ مجھے امی کے گھر بھجوا دیتے اور چھٹی کے دن لے آتے۔ کچھ دن سکون سے گزرے۔ عید آگئی، منیر کو دو چھٹیاں ملیں، اس کے بعد ان کی لگاتار پندرہ روزرات کی ڈیوٹی تھی۔ وہ عید سے ایک روز قبل مجھ کو میکے چھوڑنے آئے۔ عید والا دن گزار کر اگلے دن لوٹ گئے۔ اب مجھے پند رہ روز یہاں رہنا تھا۔ بارہ دن گزرے تھے، میں نے ایک روز اخبار اٹھا کر دیکھا۔ نظر ایک خبر پر پڑی۔ لکھا تھا کہ لالی نامی عورت کو اس کے خاوند نے گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا۔ میرا دھیان لالی کی طرف چلا گیا، پھر اس خیال کو ذہن سے جھٹک دیا اور لاحول پڑھنے لگی کہ انسان کے دماغ میں بھی کیسے کیسے خیال آتے ہیں۔ میری عادت تھی کہ میں اس قسم کی خبریں پوری نہیں پڑھتی تھی۔ لالی تو ایک اچھی عورت تھی۔ اس نے کبھی اپنے شوہر کی برائی نہ کی تھی۔ اس کی شادی کو دس برس بیت چکے تھے مگر ابھی تک اولاد نہ ہوئی تھی ، اب اس کی عمر تیس برس ہو چکی تھی۔ نجانے کب سے وہ اپنے شوہر کو نا پسند کرتی تھی۔ یہ مجھے معلوم نہ تھا۔ مجھ کو کیا خبر تھی کہ راتوں کی ڈیوٹی کی وجہ سے وہ شوہر کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔ وہ تو سیدھی سادی خاموش طبیعت اور اپنے کام سے کام رکھنے والی تھی۔ کچھ شوقین مزاج ضرور تھی، بس پہننے اوڑھنے کی حد تک۔ لباس اچھا اور صاف ستھرا پہنتی تھی، خوشبووغیرہ اسے پسند تھی ، روز نہاتی اور نک سک سے درست رہتی تھی مگر سارا مسئلہ یہ تھا کہ وہ چاہتی تھی میں گھر میں نہ رہوں اور وہ اکیلی ہو، اسے کچھ وقت تنہائی میسر کر دوں۔ تبھی اس نے یہ کھیل کھیلا۔ وہ عجیب و غریب آوازیں اور روحوں کا چکر خود اسی کا چلایا ہوا تھا تا کہ میں ڈر کر میکے چلی جایا کروں اور وہ میرے گھر میں من مانی کر سکے اور اس کا چاہنے والا زاہداس سے ملنے با آسانی آسکے۔ ہمار ا گھر اس کے لئے ، اس معاملے میں بالکل محفوظ تھا۔ پہلے تو وہ میری موجودگی میں بھی آجاتا تھا، جبکہ میں سو جاتی، وہ رات کو دروازو کھول دیا کرتی اور یہ دونوں ہمارے سرونٹ کوارٹر میں رات کو ملتے تھے۔ ایک دن جو میں نے سگریٹ کا دھواں ٹوٹی ہوئی کھٹر کی سے نکلتے دیکھا تو اصل میں وہاں زاہد نامی اس کا شناسا وہاں موجود تھا۔ لالی نے مگر مجھے کو بہلا کر میر ادھیان ادھر سے بٹادیا۔ تبھی اس کے ساتھی نے مجھے کو ڈرانے کا ایک سلسلہ شروع کر دیا – اور یہ دونوں اپنی چال میں کامیاب ہو گئے کیونکہ میں واقعی ڈرنے لگی تھی اور ان سب آہٹوں کو جنوں بھوتوں کی کارستانی سمجھنے لگی حالانکہ یہ سب زاہد کے کرتوت تھے اور وہی چھپ چھپ کر مجھے ڈراتا تھا۔ خدا جانے یہ کھیل کب تک جاری رہتا لیکن بدی زیاد دنوں تک نہیں چھپتی۔ اللہ تعالی نے اس معاملے سے پرد ہ ہٹانا تھا اور یہ راز فاش کرنا تھا۔ اس سے پہلے کئی بار ایسا ہوا کہ دن میں بھی اچانک لالی غائب ہو جاتی۔ میں اسے آوازیں دیتی کمرے سے باہر آتی۔ برآمدے میں نہ ہوتی تو میں کچن اور پھر غسل خانے میں جھانکتی وہ تب بھی نہ ملتی۔ میں تھک کر اندر آ بیٹھتی تو وہ ذرا دیر بعد آجاتی کہ بی بی میں تو چھت پر تھی۔ سوچا آج چھت کی صفائی کر لوں۔ میں تو کبھی چھت پر نہ جاتی تھی کہ دیکھتی اس نے وہاں صفائی کی ہے یا نہیں۔ اس دن بھی میرے میاں رات کی ڈیوٹی کے لئے چلے گئے، تو میں نے لالی سے چائے بنا کر لانے کو کہا۔ میں نے چائے پی پھر ملازم لڑکے کو آواز دی۔ آج تم گھر جا کر رات کو واپس آجانا اور یہاں ہی سونا کیونکہ لالی اکیلی ہے۔ وہ بولا اچھا بی بی جی ، میں ماں کو بتا کر آجائوں گا۔ لالی ہمیشہ کہتی کہ اس کو اکیلے رہنے سے ڈر نہیں لگتا۔ اس لڑکے کو واپس آنے کا مت کہیں۔ آج بھی اس نے یہی کہا مگر میں نے اُسے سمجھایا کہ تم ہماری ذمہ داری ہو، بے شک تم کو ڈر نہیں لگتا تمہارے شوہر نے تم کو ہمیں سونپا ہے۔ کبھی انسان کی اچانک طبیعت بھی خراب ہو جاتی ہے، ایسے میں کوئی ڈاکٹر کو بلانے والا تو ہو ۔ کہنے لگی۔ مجھ کو کچھ نہیں ہونے والا، اب تک بھی تو اکیلی رہ لیتی ہوں۔ اس لڑکے کو بس بھیج ہی دیں اور منع کر دیں، یہ رات کو نہ آئے۔ بے شک تم نڈر ہو، بہادر ہو ، مگر ہمیں تو ڈر لگتا ہے۔ میں اس کو کو کہہ دیتی ہوں وہ اپنی ماں کو ساتھ لیتا آئے گا۔ دراصل مجھے منیر نے کہا تھا کہ اس کا شوہر کہتا ہے کہ بہتر ہے کہ ہم اس کو گھر میں بالکل اکیلا نہ چھوڑا کریں۔ میکے جاتے ہوئے میں نے اس کو کہا تھا کہ اگر ملازم لڑکا آئے تو اس کو برآمدے میں سلا دینا اور تم کمرے میں سو جانا اور اندر سے کنڈی لگا لینا۔ اسے واپس مت لوٹا دینا۔ وہ بولی ٹھیک ہے۔ تاہم اس کے چہرے پر پریشانی تھی جیسے وہ نہیں چاہتی تھی وہ آئے مگر ہماری وجہ سے مجبور تھی۔ اس شام منیر جلد چلے گئے اور ان کا ڈرائیور مجھے میکے چھوڑنے گیا۔ تھوڑی دور آگے جا کر مجھے یاد آیا کہ میں اپنا پرس تو گھر بھول آئی ہوں۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ واپس چلو۔ وہ مجھ کو گھر لے آیا۔ ابھی تک گیٹ کھلا ہوا تھا۔ لالی نے اسے بند نہیں کیا تھا۔ ملازم لڑکا بھی جا چکا تھا۔ میں لان سے گزر کر کمرے میں آئی وہاں کوئی نہیں تھا۔ میں نے کمرے کی کھڑکی سے دیکھا ، وہ بائیں باغ کی طرف جارہی تھی۔ میں خاموشی سے اس کو دیکھتی رہی۔ وہ ایک درخت کے پاس رک گئی۔ اس نے درخت کے تنے سے ٹیک لگالی۔ اچانک اسی جانب کی عقبی دیوار پر دو ہاتھ نمودار ہوئے۔ پھر ایک شخص کا سر نظر آیا۔ اس نے لالی کا اشارہ ملتے ہی دیوار پھلانگ لی اور گھر کے اندر کو د آیا۔ وہ اب بائیں باغ میں آچکا تھا۔ لالی اس کے نزدیک پہنچی اور اس سے باتیں کرنے لگی۔ باتیں کرتے ہوئے وہ میرے کمرے کی کھٹر کی کی جانب آرہے تھے۔ میں پردے کی اوٹ میں ہو گئی۔ وہ کہہ رہی تھی۔ آج تم جلدی آگئے، بیگم تو ابھی نکلی ہے، کہیں تم کو رستے میں تو نہیں دیکھا ؟ اچھا تم کوارٹر چلو، یہ لو چابی۔ میں گیٹ بند کر کے آتی ہوں۔ آج توملازم لڑکا بھی آئے گا۔ جب تک وہ سو نہ جائے تم کوارٹر میں دم سادھے رہنا۔ اور باہر نہ نکلتا۔ میں نے بنگلے سے ذراسی د ور گاڑی کھڑی دیکھی ہے ، جھانک کر دیکھ لو کہ کس کی ہے۔ آنے والے نے لالی کو بتایا۔ وہ بولی۔ ڈرائیور ، صاحب کی گاڑی کھڑی کرنے آتا ہے جب وہ دورے پر جاتے ہیں ، وہی ہو گا تم ایسا کرو کہ یہ چابی مجھے واپس دے دو اور اندر کوارٹر میں جائو، میں باہر سے تالا لگادیتی ہوں۔ وہ اسی طرح باتیں کرتے کوارٹر کی طرف گئے۔ جب وہ اس آدمی کو قید کر کے تالا لگا رہی تھی، میں تیزی سے نکل کر گیٹ کی طرف آئی اور باہر کو دوڑ لگا دی تا کہ وہ مجھے کو نہ دیکھ پائے۔ میکے پہنچ کر کافی پریشان تھی۔ سوچا کسی کو بتانے سے پہلے شوہر ہی کو بتانا چاہیے مگر وہ تورات کی ڈیوٹی پر تھے اور ان کے آنے تک میکے میں رہ کر مجھ کو ان کا انتظار کرنا تھا۔ اس معاملے پر میں نے میکے کے کسی فرد کے سامنے لب نہ کھولے۔ بہر حال ساری بات اب میری سمجھ میں آچکی تھی کہ وہ کیوں مجھے ڈراتی تھی۔ ۔ اس رات میری ہدایت پر ملازم ہمارے گھر رات سونے کو آگیا۔ آدھی رات کو اس کی آنکھ کھل گئی اور وہ لالی کے راز سے واقف ہو گیا۔ وہ بھی تو محکمے ہی کا ملازم تھا، کمال کو جانتا تھا۔ اس نے فون کر کے کمال کو آگاہ کر دیا اور وہ موقع پر پہنچ گیا۔ زاہد تو بچ نکلا لیکن لالی اس کے ہاتھ آگئی ، اس نے طیش میں آکر بیوی کا گلا دبا دیا۔ بہر حال یہ واردات ہمارے گھر پر ہوئی تھی، سو منیر کا پریشان ہو نا قدرتی بات تھی اور پھر خبر اخبارات میں بھی شائع ہو گئی۔ میرے شوہر نے شکر کیا کہ واردات والی رات میں گھر پر موجود نہ تھی۔ اس کے بعد ہم نے وہ گھر بدل لیا۔ کمال کو تو پولیس لے گئی مگر میں منیر سے کہتی تھی کہ اب تو یقین آگیا آپ کو ! میں خواہ مخواہ نہیں ڈرتی تھی۔ ہاں تم ٹھیک کہتی ہو صنوبر، کبھی کبھی ہم دوسروں کی باتوں میں آجاتے ہیں اور حقائق کی تہہ تک پہنچنے کی بجائے ان سے چشم پوشی کر لیتے ہیں۔ بہر حال جو بھی ہوا، بہت زیادہ افسوس ناک تھا، ایسا واقعہ کہ جس کو میں عمر بھر نہ بھلا سکوں گی۔

Latest Posts

Related POSTS