میرے موبائل فون میں میرے دوستوں کے اتنے نمبر محفوظ نہیں تھے جتنے رشتہ کرانے والے لوگوں کے تھے۔ میری اماں کو میری شادی کی بہت فکر تھی۔ وہ چاہتی تھیں کہ میری شادی جلد ہو جائے، وہ کسی شادی کی تقریب میں جاتیں تو میرے لیے لڑکی زیادہ، کھانے کی ڈشیں کم دیکھتی تھیں۔ ہر ملنے والی کے ساتھ اگر اگر بات کسی اور موضوع پر بھی کر رہی ہوتیں تو بات گھما کر میری طرف لے جاتی تھیں اور میری تعریف شروع کر دیتی تھیں کہ شاید کوئی مجھ سے متاثر ہو جائے اور اس طرح میری شادی کی بات ہو جائے۔ میرے ابا بھی اپنے ملنے والوں سے کسی اچھے رشتے کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے۔ اب ایسا نہیں تھا کہ مجھ پر کسی نے جادو کر دیا تھا اور میری شادی نہیں ہورہی تھی جبکہ حقیقت یہ تھی کہ جب بھی میری شادی کی بات چلتی تو کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا تھا۔ جب پہلی بار مجھے لڑکی والے دیکھنے کے لیے آرہے تھے تو جونہی وہ رکشہ میں سوار ہوئے تو رکشہ الٹ گیا۔ لڑکی کا باپ زخمی ہو گیا۔ انہیں اسپتال لے گئے۔ میرے ابا کو اطلاع ملی تو وہ اس خیال سے اسپتال جا پہنچے کہ اس عیادت کی وجہ سے یہ رشتہ ہاتھ سے نہ جائے گا اور تعلق مزید مضبوط ہو جائے گا۔ ابا نے اپنی جیب سے لڑکی کے باپ کے لیے بائیس سو بیالیس روپے کی ادویات بھی خرید کر دیں۔ اسپتال سے فارغ ہو کر وہ جب گھر چلے گئے تو تین دن کے بعد ابا نے انہیں فون کر کے کہا۔ آج موسم اچھا ہے چھٹی کا دن ہے ، آج آپ ہمارے غریب خانے پر تشریف لے آئیں تو کتنا اچھا ہو ۔ مشکل ہے۔ دوسری طرف سے لڑکی کے ابا نے جواب دیا۔ کیا مشکل ہے؟ ابا نےدریافت کیا۔ کل ہم آپ کی طرف آنے کا فون کرنے والے تھے کہ جس فون پر آپ کا نمبر ملایا وہ فون اچانک ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گرا، نیچے گرنے سے بچانے کے لیے میرے بیٹے نے اسے کیچ کرنے کی کوشش کی۔ فون اس کے ہاتھ سے ٹکرا کر اچھلا اور وہ سیدھا میری بیوی کے ماتھے پر لگا اور میری بیوی کا ماتھا زخمی ہوا سو ہوا… موبائل فون بھی ٹوٹ گیا۔ لہٰذا اب ہم آپ کی طرف کبھی نہیں آئیں گے ۔ یہ بتانے کے بعد انہوں نے فون بند کر دیا۔ میں نے سنا تو اداس ہو گیا۔
اماں کا بھی منہ لٹک گیا اور ابا کو اس بات کا صدمہ زیادہ ہوا کہ ان کی جیب سے بائیس سو بیالیس روپے دوا کی مد میں نکل گئے تھے۔ اور ان کی واپسی ممکن نہ تھی۔ اس کے بعد ایسی خاموشی چھائی کہ کوئی رشتہ دور تک دکھائی نہیں دیا۔ ایک بار ابا مجھے ایک پیر جی کے پاس لے گئے۔ صحت مند پیر جی نے میری طرف دیکھتے ہی جلالی انداز میں دریافت کیا۔ کیا ہوا؟ اس کی شادی نہیں ہو رہی۔ ہر بار کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ ابا نے بتایا۔ اس کار شته باندھا ہوا ہے۔ پیر جی بولے۔ کہاں باندھا ہوا ہے میرا رشتہ ؟ میں نے معصومیت سے پوچھا تو پیر جی نے میری طرف گھور کر دیکھا اور پھر اپنے ایک آدمی کی طرف نظر گھمادی۔ وہ آدمی میرے ابا کے پاس بیٹھ کر ان کے کان میں کہنے لگا جس کی آواز مجھ تک بھی آرہی تھی۔ توڑ کرنا پڑے گا۔ سات دیسی بکرے پیر جی کی نظر کرنے پڑیں گے۔ میں نے فوراً حساب لگایا۔ سات دیسی بکروں کی اتنی قیمت بنتی تھی کہ اس رقم میں باآسانی میری منگنی ہو سکتی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں ابا کے کان میں کہتا کہ آپ صاف انکار کر دیں۔ اچانک پیر جی کا موبائل فون بجا۔ اس نے فون کان کو لگایا تو دوسری طرف سے ایک تیز آواز آئی جو میرے اور ابا کے کان میں بھی پڑرہی تھی۔ دوسری طرف سے کوئی خوشی سے چلاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ مبارک ہو مبارک ہو… بڑی مشکل اور بڑی کوشش کے بعد آپ کا رشتہ طے ہو گیا ہے پیر جی … اچھا واقعی … پیر جی نے خوش ہو کر جونہی یہ کہا۔ ہم اس جگہ سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ میں جس کمپنی میں کام کرتا تھا اس کے نفع و نقصان کا حساب ہو رہا تھا۔ ہم اکائونٹس کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے مسلسل اس کام میں مصروف تھے اور ہمیں گھر جانے کی چھٹی بھی نہیں ملی تھی۔ ہم سب کام میں اس قدر مصروف رہے کہ کسی نے بھی دو گھنٹوں سے زیادہ نیند نہیں لی تھی۔ لمبا چوڑا حساب تھا۔ کمپنی کے شراکت دار ہمارے سروں پر براجمان تھے۔ پھر جیسے ہی کام ختم ہوا تو دوسرے دن کے ساڑھے دس بج چکے تھے۔ اتوار کا دن تھا۔ یعنی کمپنی نے ہماری عام تعطیل میں سے بھی کچھ گھنٹے اپنے کام کے لیے لے لیے تھے۔ نیند کا خوب زور تھا۔ میری آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ گھر جاتے ہی بستر پر ڈھیر ہو جائوں گا اور خوب مزے سے سوئوں گا۔ جب میں بائیک پر بیٹھ کر جانے کی تیاری میں تھا اور ابھی میں نے بائیک کو کک نہیں ماری تھی کہ گھر سے فون آگیا۔ دوسری طرف اماں تھیں۔ ظہیر تم کب گھر آ رہے ہو ؟ اماں نے پوچھا۔ بس اماں نکلنے والا ہوں۔ میں نے جواب دیا۔ اچھا آتے ہوئے شیو بنوا کر آنا۔ اماں نے کہا۔ کیوں اماں خیر تو ہے؟ میں نے دریافت کیا۔ چار بجے لڑکی والے تمہیں دیکھنے کے لیے آرہے ہیں۔ دوسری طرف سے اماں کی خوش کن آواز سنائی دی۔ اچھا اماں ۔ یہ سن کر میرے دل میں جلترنگ سانج اٹھا۔ یہ احساس ہی اتنا خوبصورت تھا کہ مجھے لڑکی والے دیکھنے کے لیے آ رہے ہیں۔ اس بات نے جیسے میرے اندر توانائی بھر دی تھی اور جو نیند مجھ پر غالب ہو رہی تھی وہ خود بخود معدوم ہو گئی تھی۔ میں نے بائیک کو کک ماری اور وہاں سے چل پڑا۔ میرے دل و دماغ میں ابہام کاریلہ تھا۔ مجھے وہ سب رکاوٹیں یاد آرہی تھیں جو ہر بار کہیں نہ کہیں سے نکل آتی تھیں اور میرا رشتہ طے نہیں ہو پاتا تھا۔ دوسرے تمام واقعات کے ساتھ مجھے وہ واقعات بھی یاد آگئے تھے جو دادی اماں کے ساتھ منسلک تھے۔ ایک روز جب لڑکی والے مجھے دیکھنے کے لیے آرہے تھے تو ایک گھنٹہ قبل دادی اماں کی طبیعت خراب ہو گئی اور ہم ان کو اسپتال لے گئے۔ اس طرح لڑکی والے نہ آسکے۔ دادی اماں کو دو گھنٹوں کے بعد گھر لے آئے تو ابا نے لڑکی والوں کو فون کیا کہ وہ اب آنا چاہیں تو آجائیں۔ لڑکی والوں نے بتایا کہ ان کی نظر میں ایک اور رشتہ تھا اس لیے وہ وہاں چلے گئے اور انہیں لڑکا پسند آ گیا ہے۔ مجھے اس بات کا بہت افسوس ہوا کہ مجھے اپنا چہرہ دکھانے کا موقع نہیں مل تھا اور اس لڑکی کا رشتہ کسی اور جگہ طے ہو گیا تھا۔
پھر جب مجھے لڑکی والے دیکھنے کے لیے آرہے تھے تو دادی اماں گلی میں ٹہل رہی تھیں۔ اچانک گلی میں کھیلتے بچوں کی گیند دادی اماں کو لگ گئی اور دادی اماں بے ہوش ہو گئیں۔ ان کو اسپتال لے گئے ۔ لڑکی والوں کو فون کر کے پھر روک دیا کہ گھر میں مسئلہ ہو گیا ہے۔ اس دن بھی دادی اماں دو گھنٹے اسپتال میں رہی تھیں، جب دادی اماں گھر آئیں تو ابا نے لڑکی والوں کو فون کیا اور انہیں کہا کہ وہ آجائیں تو لڑکی والوں نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے بتایا کہ لڑکی اپنے کزن کو پسند کرتی ہے۔ چنانچہ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اس کی شادی اس کی مرضی کے مطابق کر دیں۔ اس جواب سے گھر والوں کو جو پریشانی ہوئی سو ہوئی، میں نے اس رات کھانا ہی نہیں کھایا۔ میں دونوں بار خوب تیار ہو کر بیٹھا تھا اور دونوں بار دادی اماں کی وجہ سے لڑکی والے ہمارے گھر کی دہلیز تک نہیں پہنچ پائے تھے۔ اس بار مجھے کوئی فکر نہیں تھی کیونکہ دادی اماں تایا ابا کے گھر شیخو پورہ گئی ہوئی تھیں۔ اور اگر خدانخواستہ اس دوران دادی اماں کو کچھ ہو جاتا ہے تو لڑ کی والوں کو گھر بلا کر ان سے ملاقات کرنے کے بعد ہم آسانی سے انہیں دیکھنے کے لیے نکل سکتے تھے۔ اس طرح لڑکی والے مجھے تسلی سے دیکھ لیتے اور میری شادی کی راہ بھی ہموار ہو جاتی۔ میں کا کا ہیئر ڈریسر کے پاس جا پہنچا۔ بائیک ایک طرف کھڑی کی۔ اندر کرسیاں خالی تھیں۔ نیند کا خمار زوروں پر تھا۔ لیکن دودن کی بڑھی ہوئی شیو بنوانا بھی ضروری تھا کیونکہ اگر میں گھر جا کر سو جاتا تو پھر شیو کا ہونا مشکل ہو جاتا۔اس طرح شیو کرانے کے بعد سو تو سکتا تھا۔ جب مہمان آتے تو تیار ہو کر ان کے سامنے چلا جاتا۔ جب میں شیو کرانے کے لیے کرسی پر بیٹھ رہا تھا تو عین میری ساتھ والی کرسی پر ایک اور نوجوان براجمان ہو رہا تھا۔ ہم دونوں کے منہ سے بیک وقت نکلا تھا، میں نے کہا کہ میری شیو کر دو اور وہ بولا تھا کہ میری ٹنڈ کر دو۔میرے گلے کے گرد تولیہ لپیٹ کر اس نے جیسے ہی اپنے ماہر ہاتھوں سے میرے ماتھے اور پھر آنکھوں کے اوپر کے حصہ کو سہلایا تو مجھے ایسا سکون ملا کہ میں نیند کی وادی میں پہنچ گیا۔ مجھے ہوش ہی نہ رہا۔ جب میری آنکھ کھلی تو کا کا ہیئر ڈریسر کہہ رہا تھا۔ اٹھ جائے نا۔ میں نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں تو مجھے کسی کے تیز بولنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے گردن گھما کر اس نوجوان کی طرف دیکھا جو میرے ساتھ سر گنجا کرانے کے لیے بیٹھا تھا۔ وہ غصے میں چیخ رہا تھا۔ دیکھو۔ مجھے نیندیوں آتی ہے جیسے نیند بنی ہی میرے لیے ہو۔ میں تم کو ٹنڈ کرنے کا کہہ کر سو کیا گیا تم نے میری شیو بنادی… میری اسٹائلش داڑھی صاف کردی۔“ آپ نے جو کہا تھا وہ میں نے کر دیا۔ اس نے معصومیت سے صفائی پیش کی۔ میں نے یہ کہا ہی نہیں تھا۔ وہ نوجوان غصے سے تلملا رہا تھا۔ہم غلطی نہیں کر سکتے جناب۔ وہ اپنی بات پر پوری اعتماد کے ساتھ قائم تھا۔ وہ مسلسل غصے سے بول رہا تھا۔ اسے اپنی اسٹائلش داڑھی کے صاف ہونے کا سخت تاسف تھا۔ جبکہ کا کا اس کے غصے کو نظر انداز کر کے دھیمے لہجے میں اس کی بات کی نفی کر رہا تھا۔میں نے سر جھٹک کر سامنے شیشے میں دیکھا تو چونک پڑا۔ مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ آخر سامنے میری شکل کا کون بیٹھا ہے جس کا سر بال نہ ہونے کی وجہ سے چمک رہا تھا۔ یہ کون ہے ؟میں نے شیشے کی طرف اشارہ کر کے کاکا سے پوچھا۔ یہ آپ ہیں۔ اس نے تولیہ تہہ کرتے ہوئے بتایا۔یہ میں ہوں تو میرے سر کے بال کہاں ہیں ؟ مجھے سخت دھچکا لگا تھا۔ آپ نے ٹنڈ کرنے کا بولا تھا وہ میں نے کر دی۔ اس نے کہا۔ اس کا دھیما لہجہ میرے احتجاج کو روند رہا تھا۔ ابے ٹنڈ کرنے کا تو اس نے بولا تھا میں نے شیو کرنے کو کہا تھا۔ مجھے غصہ آگیا۔ میرے خوبصورت بال سر سے غائب ہو چکے تھے ۔ آج لڑ کی والے مجھے دیکھنے آرہے تھے اور اس کمبخت نے میرے سر کے بال اس طرح صاف کر دیے تھے جیسے میرے دشمنوں نے اسے اس کام کے لیے بھاری رشوت دی ہو۔ میری بات سن کر نوجوان میری طرف بڑھا اور مجھے دیکھتے ہوئے بولا۔ تو اس نے آپ کی ٹنڈ کر دی اور میری شیو بنادی… ابے تم دونوں بہرے ہو کیا؟ وہ ایک بار پھر کا کا کی طرف متوجہ ہو کر چیخا۔ مجھے گنجا کیوں کر دیا؟ میں اپنی جگہ تڑپا۔ تمہیں سنائی نہیں دیا تھا۔ میری اسٹائلش داڑھی صاف کردی … گدھو… اس نوجوان کا غصہ کم نہیں ہو رہا تھا جبکہ میرا غصہ بھی دو چند ہوتا جارہا تھا۔ وہ پوری قوت سے دھاڑا تھا۔اس نوجوان نے بس گدھو ، کہا ہی تھا کہ دونوں حجامت بنانے والوں نے اس نوجوان کو پکڑ لیا اور اس کی دھلائی شروع کر دی۔ ایسی دھلائی کہ اس نوجوان کی بولتی بند ہو گئی۔ میں ایک طرف سہم کر کھڑا ہو گیا۔ جو نہی وہ اس کی دھلائی سے فارغ ہوئے میں نے جلدی سے جیب ہیں ہاتھ ڈال کر پیسے نکالے اور ان کی طرف بڑھا کر شرافت سے دکان سے باہر نکلا جیسے میری ٹنڈ میری عین منشا کے مطابق ہوئی ہو۔ اب میں اس صورتحال میں کچھ کہہ کر ایسی دھلائی کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ ٹنڈ کے ساتھ اگر وہ میرے چہرے کے نقوش بھی بدل دیتے تو میں لڑکی والوں کو کیا دکھاتا؟
سارے راستے میں روتا رہا۔ بس آنسو نہیں نکلے لیکن رہ رہ کر مجھے اپنا پیارا ہیئر اسٹائل یاد آتار ہا! اور یہ سوچ کرمیری جان نکلی جارہی تھی کہ آج مجھے لڑکی والے دیکھنے آرہے ہیں۔ گلی میں داخل ہوا تو کھیلتے ہوئے بچے رک کر میری طرف دیکھنے لگے ۔ ہماری پرانی ہمسایوں نے مسکراتے ہوئے اپنے منہ پر دوپٹے رکھ لیے۔ گھر میں داخل ہو کر میں نے بائیک ایک طرف کھڑی کی اور ابھی صحن میں قدم رکھا ہی تھا کہ اماں دیکھتے ہی چلائیں۔ کون ہے تو ۔۔ ہمارے گھر دن دیہاڑے گھس آیا … ارے کوئی پکڑوا سے … اماں کا شور روکنے کے لیے میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا انہوں نے سمجھا میں ان کو قابو کر رہا ہوں۔ انہوں نے مجھے ایک طرف زور سے دھکا دیا اور میں صحن میں ٹہلتے ہوئے پالتو مرغ کے اوپر آن گرا جیسے میں اسے ہی اٹھانے آیا تھا۔
اماں دروازے کی طرف دوڑیں تا کہ محلے والوں کو جمع کر سکیں۔ میں، اپنی جگہ سے اٹھا اوربولا۔ اماں یہ میں ہوں .. میری آواز سنتے ہی اماں کے قدم رک گئے ۔ انہوں نے میری طرف دیکھا اور مجھے پہچاننے کی کوشش کرنے لگیں۔ پھر جب مجھے وہ پہچان گئیں تو میری طرف بڑھیں اور بولیں ۔ یہ تو کیا کرا کے آگیا ہے۔ میں نے شیو کا کہا تھا تم سر منڈا کر آگئے۔ اس حالت میں تم بالکل اچھے نہیں لگ رہے ، لڑکی والوں کو کیا خاک اچھے لگو گے ۔ اماں ہاتھ نچاتے ہوئے بولیں۔ میں نے اماں کو ساری بات بتائی تو وہ میرا منہ حیرت سے دیکھتی رہیں۔ ہیں چپ ہوا تو وہ بولیں۔ اس کمبخت کو پکڑ لینا تھا… اس کا سر پھوڑ دیتے! اچھی خاصی ٹھکائی کر کے آیا ہوں اماں ۔ اپنی غلطی پر معافی مانگی تب چھوڑا تھا۔ میں نے جھوٹ بول کر دراصل اپنے آپ کو تسلی دی۔ میں سوچ رہی تھی کہ آج تیری دادی نہیں ہے ، سب ٹھیک رہے گا، لیکن دادی کی کسر تو اس کمبخت نے نکال دی جس نے تیری ٹنڈ کی ہے۔ اماں کو تاسف ہو رہا تھا۔ابھی ہم اسی طرح کھڑے تھے کہ ابا باہر سے آگئے۔ وہ آتے ہی بولے۔ یہ برخوردار کون ہیں ؟ ظہیر ہے اور کون ہے ؟“ اماں نے مرجھائے لہجے میں بتایا۔ ابا نے مجھے یوں دیکھا جیسے میں ان کے سامنے ایکسرے کی فلم ہوں اور وہ کوئی ڈاکٹر ہیں۔ پھر ابا کی حیرت ناک آواز نکلی۔ یہ کیسے ہوا؟ ابا کے اس سوال پر میں نے ان کو ساری کہانی سنادی۔ ابا سنتے رہے۔ سب کچھ سننے کے بعد انہوں نے میرا بازو پکڑا اور ایک طرف لے جا کر کہا۔ سچ بتائو اصل معاملہ کیا تھا، کسی کو چھیڑا تھا تم نے؟بابا کا مشکوک لہجہ اور ان کی نظریں میرے چہرے پر دوڑتی ہوئی مجھے پریشان کر گئی تھیں۔ بابا کیسی بات کر رہے ہیں۔ آپ میرے ساتھ دکان پر چلیں آپ کو پتا چل جائے گا۔ اس نے غلطی سے میری ٹنڈ کردی۔ میری اس بات سے ابا کو تسلی ہو گئی۔ وہ سوچنے لگے۔ بہت برا ہو گیا۔ وہ تو ماڈرن لوگ ہیں۔ ایک گنجے کو کیسے پسند کریں گے ۔ بابا بڑ بڑائے اور سوچتے رہے۔ بابا آپ ان کو روک دیں۔ میں نے مشورہ دیا۔میں اس سے پہلے دو بار لڑکی والوں کو روک چکا ہوں۔ اب ایسا نہیں کروں گا۔ لڑکی والے آئیں گے اور آج ہی آئیں گے۔ تم اپنا کوئی بند و بست کرو۔ بابانے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ میں سوچنے لگا کہ میں کیا بندوبست کروں۔ کہاں جائوں؟ کیا کروں؟ مجھے یہ بھی نہیں پتا تھا کہ وگ کہاں سے ملتی ہے؟ لیکن گنجے سر کے ساتھ لڑکی والوں کے سامنے جانا بھی ٹھیک نہیں تھا۔ وہ مجھے دیکھتے ہی نا پسند کر دیتے۔ بہر حال مجھے کچھ کرنا تھا۔ ساری عمر کنوارا نہیں رہنا تھا۔ ہر بار کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہوتارہا اس طرح میرے کنوارے رہنے کے چانس زیادہ تھے۔ چار بجے لڑکی والوں نے آنا تھا، کچھ گھنٹے باقی تھے ، ان گھنٹوں میں میرے سر پر بال تو آنے سے رہے۔ ایسا کریں لڑکی والوں کو آپ میری تصویر دکھا دیں اور ان کو بتادیں کہ میں مصروفیت کی وجہ سے نہیں آسکا۔ میں نے تجویز پیش کی۔لڑکی والے آرہے ہیں۔ تم ان سے ملو گے ۔ بات کرو گے ۔ بس یہ سوچو کہ تمہارا گنجا سر کس طرح کو ر ہو سکتا ہے۔ ابا تو فیصلہ کیے بیٹھے تھے۔ انہوں نے دوٹوک انداز اختیار کیا۔ ان کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ اماں گم صم کھڑی تھیں۔ اچانک مجھے پر وفیسر خلیل کا خیال آیا۔ پروفیسر خلیل تقریباً چار ماہ قبل ہمارے برابر والے گھر میں منتقل ہوئے تھے۔ وہ اکیلے ہی رہتے تھے۔ جب وہ شفٹ ہو رہے تھے تو ان کا ایک بیڈ ، کچھ کر سیاں اور ضرورت کا سامان آیا تھا لیکن کتا بیں اتنی تھیں کہ سب کو گمان ہوا کہ وہ پرانی کتابوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ پروفیسر خلیل بڑی پر اسرار شخصیت کے مالک تھے۔ پہلے تو کسی کو پتا ہی نہ چلا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ پھر کسی نے بتایا کہ وہ پروفیسر ہیں لیکن کسی کو نہیں پتا تھا کہ وہ فال نکالنے والے پروفیسر ہیں یا پڑھانے والے روزانہ وہ ایک کتاب بغل میں دبائے چلے جاتے اور واپسی پر ان کے پاس وہی ایک کتاب ہوتی، یا پھر دو ہو جاتی تھیں۔ وہ کسی سے بات نہیں کرتے تھے۔ کچھ لوگ ان کو پاگل کہتے تھے ، کچھ کی رائے تھی کہ وہ اچھے انسان ہیں، اپنے کام سے کام رکھتے ہیں لیکن ان کی اس پر اسرار شخصیت میں کیڑے نکالنے والے زیادہ تھے ۔ کوئی بھی ان کی حقیقت کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ ایک دن تیز ہوا میں ان کے سر پر رکھی وگ اڑ کر نیچے گر گئی۔ تب مجھ پر انکشاف ہوا کہ اصل بالوں کے قریب تر دراصل وہ وگ ہے۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے سوچا کہ اگر پروفیسر صاحب سے ایک دو گھنٹے کے لیے وگ ادھار مانگ لی جائے تو میر امسئلہ حل ہو سکتا ہے کیونکہ وہ ایسی تھی کہ وہ وگ لگتی ہی نہیں تھی۔ بالکل اصل بال لگتے تھے۔ ایسی خاص وگ تھی وہ۔ایک دم اس مسئلے کا حل میری سمجھ میں آیا۔ میں اس خیال کے آتے ہی بولا۔ وہ کیا ؟ ابا اور اماں نے بیک وقت میری طرف دیکھا۔ ساتھ والے پروفیسر صاحب وگ لگاتے ہیں۔ میں ان سے وگ ادھار مانگ لاتا ہوں۔ میں نے بتایا۔ وہ تم کو وگ دے گا ؟ وہ تو کسی سے بات تک نہیں کرتا۔ کسی کی طرف دیکھتا تک نہیں۔ کسی کو پتا ہی نہیں ہے کہ وہ کرتا کیا ہے۔ گھر سے جاتے اور آتے ہوئے اسے لوگ دیکھتے ہیں بس۔ آبانے کہا۔ باباجی اس مشکل گھڑی میں کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ میں نے سب کچھ جاننے کے باوجود امید کا پلو پکڑ لیا۔ کوشش کر دیکھو۔ لیکن جو کرنا ہے جلدی کرو۔ پونے تین ہو گئے ہیں۔ چار بجے انہوں نے آنا ہے۔ ابا بولے۔ میں ابھی آتا ہوں ۔ میں نے اٹھ کر اپنے سر پر ٹوپی رکھی تا کہ میری ٹنڈ اس کے اندر چھپ جائے۔ میں نے باہر نکل کر پروفیسر صاحب کے گھر کے دروازے کے سامنے پہنچ کر بیل پر انگلی رکھی۔ بیل شاید خراب تھی اس لیے مجھے اس کے بجنے کی آواز نہیں آئی۔
میں نے دروازہ بجایا۔ چار بار دروازہ بجایا تو اندر سے آواز آئی۔ کون ہے ؟ جی پروفیسر صاحب میں ہوں۔ میں نے بتایا۔ مسٹر میں … سوری میں آپ کو نہیں جانتا۔ پر وفیسر صاحب کی اندر سے آواز آئی۔ انہوں نے شاید سمجھ لیا تھا کہ میرا نام میں ہے۔ جی میرا نام ظہیر ہے اور میں آپ کے برابر میں رہتا ہوں۔ میں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے وضاحت کی۔ میرے برابر تو کتا بیں ہوتی ہیں، یا پھر لیپ ٹاپ۔ ان کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔ میرا مطلب ہے کہ آپ کے گھر کے ساتھ جس گھر کی دیوار ملتی ہے میں اس گھر میں رہتا ہوں۔ میں نے مزید وضاحت کی۔ گر آپ مجھے یہ بتانے آئے ہیں تو تشریف لے جائیے مجھے پتا چل گیا ہے ۔ پر وفیسر صاحب نے بات ختم کرنے کی کوشش کی۔ سر میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ ایک ضروری کام ہے مجھے آپ سے ؟ میں نے کہا۔ میں آپ کے صرف پانچ منٹ لوں گا۔ بولیں کیا کام ہے۔ انہوں نے دروازہ کھولنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ سر ذرا دروازہ کھولیں تو میں آپ سے بات کروں۔ میں نے کہا۔ اندر ایسی خاموشی چھا گئی جیسے بیوی نے اچانک شوہر سے خرچہ مانگ لیا ہو۔میں دس منٹ تک کھڑا رہا۔ اس کے بعد جب میں مایوس ہو کر جانے لگا تو دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور پروفیسر صاحب نے اتنا در وازہ کھولا جس سے ان کا صرف چہرہ باہر نکل سکے ۔ بالکل ایسے جیسے کوئی باتھ روم کا تھوڑا سا دروازہ کھول کر اپنا سر باہر نکال کر کسی سے تولیہ مانگتا ہے۔ میری نظر پروفیسر صاحب کے سر پر جمی وگ پر گئی۔ میں نے کہا۔ کیا ہم اندر بیٹھ سکتے ہیں۔ میری بات سن کر پروفیسر صاحب کے ماتھے کی سلوٹیں ابھریں اور پھر انہوں نے خشک لہجے میں کہا۔ کیوں ؟ بات کرنی ہے آپ سے۔ ہاں تو کرو۔ ذرا اندر بیٹھ جاتے تو مہربانی ہوتی۔ میں نے پھر استدعا کی اور پروفیسر صاحب سوچ میں پڑ گئے۔ پھر انہوں نے بادل نخواستہ دروازہ کھول دیا اور پیچھے ہٹ گئے۔ آپ کے پاس بات کرنے کے لیے صرف پانچ منٹ ہیں۔ پروفیسر صاحب نے یہ کہہ کر اپنی نگاہیں اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر مرکوز کر دیں۔ میں نے وقت کی نزاکت کا خیال کرتے ہوئے پہلے اختصار سے انہیں بتایا کہ میری ٹنڈ کس مغالطے میں ہو گئی تھی اور پھر بولا کہ مجھے ابھی لڑکی والے دیکھنے کے لیے آرہے ہیں۔ مجھے دو گھنٹوں کے لیے آپ کی وگ درکار ہے۔ وہ میری بات کو اپنی نگاہیں گھڑی پر مرکوز کیے سنتے رہے۔ جو نہی میں نے بات مکمل کی انہوں نے مجھے بڑے اپنائیت بھرے لہجے میں کہا۔ آپ ذرا باہر نکلیں گے؟ میں دروازے کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔ دروازہ کھول کر باہر قدم رکھا تو انہوں نے ایک دم کہا سوری ! اور تیزی سے دروازہ بند کر دیا اور میں بند دروازے کو یوں دیکھتا رہا جیسے میں نے کھل جاسم سم کہا ہو اور دروازہ کھلا نہ ہو۔ مجھے پروفیسر صاحب کے اس رویے پر سخت غصہ آیا کہ یہ کون سا طریقہ ہے انکار کرنے کا۔ اگر ان کو انکار ہی کرنا تھا تو مجھے اس طرح باہر نکال کر انکار نہ کرتے۔ میں کچھ دیر اس جگہ کھڑا رہا اور پھر واپس اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ جو نہی میں نے اپنے گھر کے اندر قدم رکھا میں چونک گیا۔ مجھے اندر سے آوازیں آرہی تھیں ۔ ابا پوچھ رہے تھے۔ آپ نے تو چارہ ربجے آنا تھا۔ آپ پہلے ہی آگئے؟ کہنے کے بعد ا با ہنسے بھی تھے۔ ایک خاتون نے جواب دیا۔ دراصل ہم نے تین بجے ایک اور جگہ رشتہ دیکھنے جانا تھا وہاں گئے تو ہم لڑکے کو دیکھتے ہی بھاگ کھڑے ہوئے لڑکے کے سر پر بال اتنے تھے کہ بس گنجا ہی سمجھ لیں۔ جی کوئی بات نہیں آجائیں ، ڈرائنگ روم میں بیٹھتے ہیں ۔ اماں کی آواز آئی۔ اماں کی آواز میں صاف گھبراہٹ عیاں تھی۔ ظاہر ہے وہ اس بات کی تھی کہ وہ اس لڑکے کو دیکھ کر بھاگ آئے جو پوری طرح سے گنجا نہیں تھا اور میری تو ٹنڈ ایسی تھی کہ وہ مجھے دیکھتے ہی بھاگنے کی بجائے شاید اسی جگہ کھڑے کھڑے غائب ہو جاتے۔ میں یہ سوچ کر متفکر ہو گیا تھا۔ میں باتیں سنتے ہوئے رکا نہیں تھا بلکہ دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا اور اس پریشانی کے عالم میں میں نے اپنے سر سے نادانستہ ٹوپی بھی اتار لی تھی۔ جب میں صحن میں پہنچا تو وہ سب مہمان ڈرائنگ روم میں جا چکے تھے بس ایک چھ سال کی بچی اندر کی طرف جارہی تھی کہ اچانک اس کی نظر مجھ پر پڑی اور وہ چلائی ۔ ماما… یہاں بھی ایک انکل گنجے ہیں … جلدی آکر دیکھیں ! بچی یوں مما کو بلا رہی تھی جیسے کوئی عید کا چاند دیکھ کر شور مچائے کہ مجھے دکھائی دے گیا ہے۔ وہ دیکھو! اس کا شور سن کر میں مضطرب ہو گیا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں ؟ ایک ۔ لمحے میں خیال آیا کہ دیوار میں گھس کر تحلیل ہو جائوں لیکن یہ میرے لیے ممکن نہیں تھا چنانچہ میں نے جلدی سے اوپر سیڑھیوں کی طرف دوڑ لگادی اور کمرے میں جا کر دم لیا۔ پانچ منٹ کے بعد اماں میرے پیچھے آگئیں ۔ لے آئے وگ؟ انہوں نے انکار کر دیا ہے ۔ میں نے منہ بنا کر جواب دیا۔ اب کیا کرو گے ؟ وہ ایسے لڑکے کو دیکھ کر بھاگ آئے ہیں جو ابھی پورا گنجا نہیں تھا۔ تمہارے سر پر استرے سے کمال کیا ہوا ہے .. اب جائو اور بازار سے وگ خرید لائو ۔ اماں نے پریشان ہو کر کہا۔ اماں جو وگ پر وفیسر صاحب کے سر پر ہے اسے دیکھ کر کوئی نہیں جان سکتا کہ وہ وگ ہے۔ میں نے کہا۔ اور مجھے کیا پتا کہ وگ کہاں ملتی ہے اور اس عجلت میں جانے میں کوئی مصنوعی وگ خرید لائوں۔ پھر اب کیا کرنا ہے ؟ اماں نے میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ آپ جائیں مہمانوں کے پاس بیٹھیں اور انہیں بتائیں کہ آفس میں کام تھا بس لڑکا آہی رہا ہے۔ میں کچھ انتظام کر کے آتا ہوں۔ میں نے ایک دم سے کچھ اور سوچ لیا۔ کیا کرو گے ؟ آپ جائیں۔ میں گنجے سر کے ساتھ ان کے سامنے نہیں آئوں گا۔ آپ بے فکر رہیں۔ میں نے اماں کو تسلی دی اور اماں پریشان کی نیچے چلی گئیں۔
میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ پروفیسر کی وگ اپنے سر پر جما کر ہی دم لوں گا۔ کیونکہ وہ ایسی وگ تھی جو اصل بالوں کی طرح تھی۔ بالکل سلکی بال تھے اور پھر اتنی جلدی میں کسی دوسری وگ کا کہیں سے انتظام بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے ایک بار اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے ساری زندگی کنوارا نہیں رہنا۔اس بار میں لڑکی والوں کے سامنے ضرور جائوں گا تا کہ بات آگے بڑھے۔ چنانچہ میں اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کمرے سے باہر نکلا اور چار پائی پر کھڑا ہو کر ارد گرد کے گھروں کی چھتوں کی طرف دیکھنے لگا۔ کسی چھت پر مجھے کوئی دکھائی نہیں دیا تھا۔میں بغیر لمحہ ضائع کیے دیوار کے پاس پہنچا اور جست لگا کر اوپر چڑھا اور پھر دوسری طرف کود گیا۔ اب میں پروفیسر صاحب کے گھر کی چھت پر تھا۔ میں سیڑھیوں کی طرف گیا۔ سیڑھیوں پر کمزور سا دروازہ لگا ہوا تھا۔ ایک طرف سے ٹوٹا تھا جس کے اندر ہاتھ ڈال کر میں نے آسانی سے کنڈی کھول لی۔ اس گھر میں میرا ایک دوست کرائے دار کی حیثیت سے رہ چکا تھا۔ اس لیے میں اس گھر سے خوب اچھی طرح واقف تھا اور یہ دروازہ میرے دوست نے ہی توڑا تھا جب ایک بار وہ اپنی بیوی کے ساتھ باہر سے تالا لگا کر گیا تھا۔ اور واپسی پر چابی گم ہو گئی تھی۔ تب وہ ہماری چھت سے اس طرف آیا تھا اور دروازہ توڑ کر اس نے کنڈی کھولی تھی اور پھر نیچے جا کر اس نے ڈرائنگ روم کا دروازہ جو باہر کی طرف کھلتا تھا اسے اندر سے کھول کر اپنی بیوی اور بچوں کو اندر لے گیا تھا۔ میں دھیمے قدموں سیڑھیاں اترا اور آخری سیڑھی پر کھڑے ہو کر دائیں بائیں دیکھا۔ مجھے لگا کہ بیڈ روم میں کوئی ہے۔ میں بغیر آہٹ پیدا کیے بیڈ روم کے دروازے تک پہنچا اور ادھ کھلے دروازے سے اندر جھانکا۔ پورا کمر اکتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ دائیں بائیں کتابیں تھیں۔ بیڈ کے سرہانے اور میز پر بھی کتابیں تھیں۔ پروفیسر صاحب دوسری طرف منہ کیسے براجمان تھے اور انہوں نے کان سے موبائل فون لگایا ہوا تھا۔ ان کا سر چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا۔ وگ اتار کر انہوں نے بیڈ کے ایک طرف رکھی ہوئی تھی اگر میں آگے بڑھتا تو بغیر آواز پیدا کیسے ان کے پیچھے سے وہ وگ اٹھا کر الٹے پیر واپس جا سکتا تھا۔ لیکن ان کی باتیں سن کر میں گھبرا کر وہیں رک گیا۔ وہ کسی سے کہہ رہے تھے ۔ میں نے سوچ لیا ہے کہ میں راشد کو مروادوں … اس کے قتل سے سحرش کی زندگی میں سکون آجائے گا۔ پروفیسر صاحب نے یہ بات اس قدر پر سکون انداز میں کہی کہ جیسے وہ کسی مکھی کو مارنے کی بات کر رہے ہوں جبکہ میں کانپ کر رہ گیا تھا۔ وہ دوسری طرف سے ہونے والی بات سننے لگے اور پھر بولے۔ میں نے پورا منصوبہ بنالیا ہے۔ راشد جب آفس کے لیے لفٹ میں بیٹھ کر اوپر جاتا ہے تو اسے لفٹ میں موجود ایک اجرتی قاتل اسے مار دے گا۔ ان کی باتیں سن کر میری سانس تیز ہو گئی تھی۔ میں سوچنے لگا کہ محلے والے ٹھیک کہتے تھے کہ پروفیسر بہت پراسرار آدمی ہے۔ وہ پر اسرار کہتے تھے میری نظر میں تو پروفیسر ایک سفاک انسان تھے جو دوسروں کی زندگیوں سے کھیلتا تھا۔ وہ کسی کو بھی اجرتی قاتل کے ذریعے قتل کرواسکتا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ پروفیسر کسی کو قتل کرنے کے لیے پیسے لیتا ہے۔ کتابوں کا انبار اور بغل میں کتاب دبا کر جانا دراصل ان کا اصل روپ چھپانے کی ایک چال تھی۔فی الحال مجھے وگ کی ضرورت تھی۔ کیونکہ میرا رشتہ طے ہو رہا تھا۔ میں پروفیسر کو فون پر باتوں میں منہمک دیکھ کر آگے بڑھا اور ہاتھ بڑھا کروگ اٹھالی۔ اس دوران وہ بولے ۔ راشد کے بعد میں سحرش کے باپ کو بھی روڈا ایکسیڈنٹ میں مروادوں گا … یہ بہت ضروری ہے ، وہ ایماندار ہے اور اپنی ایمانداری کی وجہ سے کامران کے غبن کا بتادے گا۔ اچانک میرا موبائل فون بج اٹھا۔ میری تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ میں نے برق رفتاری سے جیب سے موبائل فون نکال کر اس کی بیل بند کی۔ ان لمحات میں فون سنتے ہوئے پروفیسر نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا تب تک میں نیچے بیٹھ چکا تھا اور بیڈ کے نیچے بھس کر لیٹ گیا تھا۔ لمحوں میں سب کچھ ہو گیا تھا۔ میں نے اسی وقت فون سائلنٹ پر لگادیا۔ مجھے پروفیسر صاحب کی آواز سنائی دی۔ میں تمہیں دوبارہ کال کرتا ہوں۔ میں نے بیڈ کے نیچے سے دیکھا۔ ان کے قدموں نے حرکت کی اور وہ چلتے ہوئے دروازے کی طرف آئے وہاں کچھ دیر رکے اور پھر باہر چلے گئے۔ میں نے اماں کو کال کی اور جیسے ہی رابطہ ہوا میں نے سر گوشی کی۔ کیا بات ہے اماں ؟ دیکھو اطمینان سے وگ کا انتظام کر لو… لڑکی کے ماموں کا انتظار ہو رہا ہے اور وہ آدھے گھنٹے تک پہنچ رہے ہیں۔ میں نے کہہ دیا ہے کہ ظہیر ضروری میٹنگ میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کوئی بات نہیں وہ اطمینان سے آجائے ۔ اماں یہ بتاتے ہوئے خوش تھیں اور میں نے اچھا کہہ کر فون بند کر دیا۔ میں نے سوچا کہ جلدی سے یہاں سے باہر نکلنے کی کوشش کروں، لیکن اسی وقت پر وفیسر کی ٹانگیں مجھے دکھائی دیں۔ وہ دروازے کے پاس رک گئے۔ پھر مجھے ان کی آواز آئی۔ فون کی بیل مجھے اپنے قریب سے سنائی دی تھی۔ ہو سکتا ہے آپ کے کان بج رہے ہوں۔ ایک نسوانی آواز نے مجھے چونکادیا۔
میرے کان میں گھنٹیاں نہیں بج رہی تھیں۔ وہ موبائل فون کی اصل بیل تھی۔ پروفیسر نے ناگوار انداز میں کہا۔ آپ نے پورا گھر دیکھ لیا ہے۔ کوئی نظر آیا آپ کو ؟ نسوانی آواز آئی۔ کچھ نظر نہیں آیا۔ پھر اطمینان سے بیٹھ کر فون کریں۔ یہ آپ کا وہم تھا۔ نسوانی آواز نے کہا۔ میں نے پوری کوشش کی کہ دیکھ سکوں کمرے میں جو خاتون ہیں وہ کہاں کھڑی ہیں لیکن مجھے محض پروفیسر صاحب کی دو بانس نما ٹانگوں کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا۔ ٹھیک ہے تم جائو میرے لیے چائے بنا کر لائو ۔ پروفیسر کہتے ہوئے اس کرسی کی طرف بڑھے جہاں وہ پہلے براجمان تھے۔ خاتون نے تنک کر جواب دیا۔مجھ سے نہیں بنتی چائے خود بنالیں۔تم بڑی بد تمیز ہو۔ یہ بد تمیزی آپ سے ہی سیکھی ہے۔ پروفیسر صاحب چپ ہو گئے۔ میں حیران تھا کہ کسی خاتون کی آواز اسی کمرے سے آرہی تھی لیکن مجھے اس خاتون کی ٹانگیں دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ پروفیسر صاحب کھڑے تھے۔ پھر ان کی آواز آئی۔ انہوں نے مو بائل فون پر رابطہ کیا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے۔ ہیلو ہاں… میں تمہارے پاس آتا ہوں۔ بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ راشد کو قتل کرنے کا تم بھی اچھی طرح سے سوچ لو… میں آرہا ہوں … کیا تم آئو گے ؟ چلو تم آجائو میں انتظار کر رہا ہوں۔ انہوں نے فون بند کر دیا۔ کہاں جا رہے ہیں آپ؟ اچانک نسوانی آواز پھر ابھری۔ اور میں نے چونک کر اپنی نگاہیں دوڑائیں کہ شاید مجھے اس کی ٹانگیں دکھائی دے جائیں۔ لیکن مجھے پر وفیسر کی ٹانگوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جہنم میں جارہا ہوں۔ پروفیسر صاحب نے اکتا کر کہا۔ آپ روز یہی کہہ کر جاتے ہیں اور پھر واپس آجاتے ہیں ، وہ آپ کو واپس آنے کیسے دیتے ہیں ؟ خاتون کی آواز میں تمسخر تھا۔اچھے تعلقات کی وجہ سے …! پروفیسر بیڈ کے ارد گرد چکر کاٹ رہے تھے۔ شاید جانے سے پہلے وہ کوئی چلہ کاٹ رہے تھے۔ پھر مجھے کچھ چیزیں مادھر سے ادھر کرنے کی آوازیں آنے لگی تھیں۔اچانک پروفیسر صاحب کی پریشان سی آواز آئی۔ ادھر آئو اور دیکھو کہ میری وگ کہاں گئی ہے۔ اور کتنا ادھر آئوں .. آپ کے ساتھ تو کھڑی ہوں۔ خاتون کے اس جواب نے مجھے چونکانے کے ساتھ ساتھ ڈرا بھی دیا۔ وہ کہہ رہی تھی کہ وہ ان کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ مجھے بیڈ کے نیچے سے صرف پر وفیسر کی روٹانگیں ہی دکھائی دے رہی تھیں۔ اگر وہ خاتون ان کے پاس تھیں تو اس کی دو ٹانگیں کہاں تھیں؟ یہ سوچ کر مجھے خوف آنے لگا۔ مجھے گمان ہوا کہ وہ جن بھوت کو قابو کرنے والے پروفیسر ہیں۔ مجھے کمرے میں پھر ہلچل سی محسوس ہوئی۔ یقینا پروفیسر اپنی وگ تلاش کر رہے تھے۔ پھر مجھے ان کی ٹانگیں کمرے میں گھومتی دکھائی دیں۔ اور وہ غصے سے بولے ۔ میں نے یہاں وگ اتار کر رکھی تھی … کہاں چلی گئی … کوئی بھوت لے گیا کیا؟ تم سے بڑا کوئی بھوت ہے اس گھر میں ۔ خاتون کی آواز نے میرے جسم میں سنسنی سی پھیلا دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ پروفیسر انسان نہیں بلکہ بھوت ہے اور جو خاتون اس کے ساتھ باتیں کر رہی ہے وہ کوئی چڑیل ہے اس لیے تو وہ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ پروفیسر عجیب سے انداز سے ہنسے اور پھر بولے ۔ گر میں بھوت ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ تم چڑیل ہو… چڑیل ہی کسی بھوت کی بیوی ہو سکتی ہے۔ نسوانی آواز گونجی۔ چڑیل ہوں لیکن نیک اور معصوم ہوں۔نیک اور معصوم ۔ پر وفیسر خلیل کے لہجے میں تمسخر تھا۔ آپ کی ان طنزیہ باتوں کی وجہ سے میرا دل نہیں چاہتا کہ میں آپ سے ؟ بات کروں۔ نسوانی آواز میں غصہ تھا۔ میرا دل دھڑکنے لگا تھا۔ پروفیسر صاحب ایک جگہ کھڑے تھے۔ شاید وہ کچھ سوچ رہے تھے۔ پھر اچانک وہ کمرے سے باہر چلے گئے۔ میں اس وقت بیڈ کے نیچے سے نکلا، کمرے میں دیکھا، وہاں کوئی نہیں تھا۔ میں نے دروازے کے پاس جا کر باہر جھانکا۔ مجھے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ میں اوپر جانے کے لیے سیڑھیوں کی طرف دوڑا، ٹھیک اسی وقت مجھے اوپر سے کسی کے اترنے کی آواز سنائی دی۔ میں واپس پلٹا اور سوچنے لگا کہ کہاں جائوں۔ سیڑھیوں کے نیچے باتھ روم کا دروازہ دکھائی دے رہا تھا میں نے وہ دروازہ کھولا اور اندر جاکر کھڑا ہو گیا۔ دروازے میں ایک سوراخ بھی تھا جس کی مدد سے میں آسانی سے باہر دیکھ سکتا تھا۔ مجھے پروفیسر کی آواز سنائی دی۔ سیڑھیوں کا دروازہ کھلا ہوا ہے … اس کا مطلب ہے وہ بد تمیز ہمسایہ جو مجھ سے وگ لینے آیا تھا وہ اس راستے سے آیا اور میری وگ اٹھا کر لے گیا۔ موبائل کی بیل بھی اسی کی تھی۔ اسے لڑکی والے دیکھنے کے لیے آرہے تھے وگ لینا اس کی مجبوری تھی۔ اس کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ پروفیسر کا اندازہ بالکل ٹھیک تھا۔
میں حیران تھا کہ پروفیسر نے کس تیزی سے اندازہ لگا لیا تھا اور بات کی تہہ تک بھی پہنچ گئے تھے۔ اس کے دو ہی مطلب ہو سکتے تھے پروفیسر غیر معمولی ذہین تھے اور یا پھر وہ واقعی بھوت تھے۔ وہ اچانک بولے ۔ میں ابھی اس کے گھر جاتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ چوری کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ یہ سن کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ اگر پروفیسر نے وہاں ہنگامہ کھڑا کر دیا تو عزت بھی نہیں رہے گی۔ آپ اس کے گھر جائیں گے ؟ خاتون کی آواز آئی۔ اور کیا سیر کو جا رہا ہوں؟ پروفیسر صاحب غصے سے بولے۔ کیا ثبوت ہے آپ کے پاس کہ وگ وہ اٹھا کر لے گیا ہے ۔ خاتون نے میری دانست کے مطابق عقل کی بات کی تھی۔ کیونکہ وہ وگ مانگنے آیا تھا۔ یہ کوئی ثبوت نہیں ہے۔ الٹا ان کے گھر جانے پر اگر وہ آپ کے گلے پڑ گئے تو پھر ؟ نسوانی آواز آئی۔ کیا مطلب ہے تمہارا؟ وہ الٹا آپ پر کوئی الزام لگادیں۔ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ اس بات کا آپ کو یقین ہے ؟ پھر کیا کروں؟ پروفیسر صاحب کا انداز سوچنے والا تھا۔تحمل سے کام لیں۔ اندر آئیں بتاتی ہوں کہ کیا کرنا ہے۔ کسی کے دروازے پر جا کر ہنگامہ کرنے کی بجائے بات کرنے کا کوئی اور طریقہ بھی ہو سکتا ہے۔ خاتون نے کہا مجھے لگا کہ پروفیسر چل رہے ہیں۔ میں نے تھوڑا سا دروازہ کھولا تو وہ بیڈ روم کی طرف جارہے تھے۔ جیسے ہی وہ اندر گئے میں باتھ روم سے باہر نکلا اور اوپر کی طرف دوڑ لگادی۔ چھت پر جاتے ہی میں نے دیوار پھلانگی اور اپنی چھت پر چلا گیا۔ میں سیدھا باتھ روم میں گیا۔ اماں کا فون آگیا۔ وہ کہہ رہی تھیں جلدی آجائو۔ اس کے ماموں بھی آگئے ہیں۔ میں نے وگ کا انتظام کر لیا ہے بس دس منٹ میں تیار ہو کر آرہا ہوں ۔ میں نے کہا اور جلدی سے کپڑے تبدیل کیے، وگ اپنے سر پر جمائی اور آئینے میں جائزہ لیا۔ بالکل نہیں لگتا تھا کہ میرے سر پروگ ہے۔ میں مسکرایا اور نیچے چلا گیا۔ جو نہی میں ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو چونک گیا کیونکہ پروفیسر سر پر ٹوپی رکھے ایک طرف براجمان تھے۔ انہوں نے میری طرف دیکھ کر ایک معنی خیز مسکراہٹ عیاں کی میں نے سب کو سلام کیا اور بیٹھتے ہوئے ابا سے آہستہ سے پوچھا۔ پروفیسر صاحب یہاں کیا کر رہے ہیں ؟انہوں نے بیل دی، میں باہر گیا تو بولے کہ اگر مجھے اندر لے کر نہیں گئے تو میں یہیں ہنگامہ کھڑا کر دوں گا کہ آپ کے بیٹے نے میرے گھر میں چوری کی ہے۔ میں انہیں اندر لے آیا اور اپنا بہت اچھا ہمسایہ بتا کر انہیں یہاں بٹھا دیا۔ ابانے بڑی تیزی سے سر گوشی کی اور پھر پوچھا۔ یہ وگ چوری کر کے لایا ہے ؟ مجبوری تھی ۔ میں نے آہستہ سے جواب دیا۔ پہلی بار میں لڑکی والوں کو اپنا چہرہ دکھا رہا تھا۔ وہ چہرہ جسے وہ اپنی بیٹی کے لیے پسند کرنے آئے تھے۔ میرے اندر کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا لیکن مجھے یہ خوف کھل کر مسکرانے نہیں دے رہا تھا کہ جانے پر وفیسر یہاں کیا گل کھلادیں کہ میرا رشتہ ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے ۔ جبکہ ابا اور اماں بھی اپنی جگہ مضطرب تھے۔ وہ مجھ سے گپ شپ کرتے رہے، مختلف سوال پوچھتے رہے ، چائے کا دور بھی چلتا رہا اور پھر اچانک پر وفیسر اٹھ کر میرے بالکل برابر براجمان ہو گئے جب اماں اور ابا ان مہمانوں کے ساتھ باتوں میں مشغول تھے تو پروفیسر نے سر گوشی کی۔ ان کو بتائوں کہ جس لڑکے سے آپ اپنی بیٹی کا رشتہ طے کر رہے ہیں وہ گنجا ہے اور وہ میرے گھر سے میری وگ چوری کر کے اپنے سر پر جمائے بیٹھا ہے ؟ آپ بتائیں گے تو میں بھی بتادوں گا کہ آپ کسی راشد کو قتل کرنے والے ہیں۔ اس کے بعد آپ سحرش کے باپ کو بھی مار دیں گے۔ آپ پر وفیسر کے روپ میں قاتل ہیں ۔ میں نے ہمت سے کام لیتے ہوئے پروفیسر کو دھمکی دے دی۔ میری بات سن کر پروفیسر کامنہ کھل گیا۔ وہ مجھے اس طرح حیرت سے دیکھنے لگے جیسے میں نے ان کے ہاتھ سے چائے کا کپ چھین لیا ہو۔ ہمیں آپ کا بیٹا بہت پسند آیا۔ ہماری طرف سے ہاں سمجھیں ، اب آپ ہمارے گھر تشریف لائیں۔ اچانک لڑکی کے ماموں نے اعلان کیا تو میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں خوشی منائوں یا افسردہ ہو کر بیٹھ جائوں کیونکہ میرے برابر بیٹھے ہوئے پروفیسر میرے لیے کچھ اچھا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ میں ابھی تمہارا بھانڈا پھوڑتا ہوں۔ پروفیسر نے اچانک کہا۔ اور میں ابھی پولیس کو فون کرتا ہوں۔ میں نے بھی دھمکی دی۔ کچھ لوگ بالکل گنجے ہوتے ہیں اور انہوں نے وگ لگائی ہوتی ہے۔ اچانک پروفیسر بولے اور وہاں موجود ہر ایک نے ان کی طرف حیرت سے دیکھنا شروع کر دیا۔ ابا اماں اور میں تو پروفیسر کی طرف یوں دیکھ رہے تھے جیسے انہوں نے اچانک پستول نکال کر ہم پر تان لیا ہو۔ میرا منہ ایسا بن گیا تھا جیسے بے چارگی کا پیکر ہو۔
بھائی جی ہم آپ کی بات کا مطلب نہیں سمجھے۔ لڑکی کے ماموں نے بڑی معصومیت سے دریافت کرنا چاہا۔ پروفیسر نے میری طرف گھوم کر اپنی شہادت کی انگلی میری طرف کی اور ابھی کچھ کہنے ہی والے تھے کہ میں نے لمحہ ضائع کیے بغیر پیچھے شیلف میں پڑی بھاری بھر کم ڈکشنری اٹھائی اور پروفیسر کے سر پر زور سے دے ماری۔ بے چارے پروفیسر ضخیم ڈکشنری کا وار برداشت نہ کر سکے اور بے ہوش ہو گئے جبکہ یہ منظر دیکھ کر سب مہمان سہم گئے۔ میں نے کہا۔ گھبرانے کی بات نہیں۔ یہ دماغی طور پر بیمار شخص ہیں اور ہمارے ہمسائے ہیں، جیسے ہی ان کی طبیعت خراب ہونے لگتی ہے اگر ان کے سر پر ہلکی سی چوٹ لگادی جائے تو یہ کچھ دیر اس طرح پڑے رہنے کے بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ یہ کیسی بیماری ہے۔لڑ کی کا ماموں بولا۔
یہ ایسی بیماری ہے کہ پورا محلہ ان کی اس بیماری کے بارے میں جانتا ہے۔ کئی لوگوں نے ردی فروش سے ایسی ہی بھاری بھر کم ڈکشنریاں خرید کر اپنے گھر میں رکھی ہوئی ہیں۔ میں نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا۔ آپ لوگ اس کو اپنے گھر آنے کیوں دیتے ہیں ۔ ایک مہمان خاتون نے سوال کیا۔ انکار نہیں کر سکتے ۔ میں بولا۔ وہ کیوں ؟ اسی خاتون نے پھر استفسار کیا۔ اگر انکار کر دیں تو یہ دروازہ پیٹنے لگتا ہے، اینٹیں اٹھا کر دروازے میں مارنے لگتا ہے ، ایک ہنگامہ کھڑا کر دیتا ہے ۔ میں بولا۔ یہ تو بہت خطر ناک ہے۔ وہ خاتون ڈر گئیں۔ ایسا ہے لیکن سارا محلہ ان کو سنبھال لیتا ہے۔ میری وضاحت سے مہمانوں کو تسلی ہوئی کہ نہیں البتہ وہ مسکرائے اور اماں ابا کو جلد اپنے گھر آنے کی دعوت دے کر ڈرائنگ روم سے نکل گئے ، میں بھی پیچھے چل پڑا۔ جاتے ہوئے بھی مہمان باتیں کر رہے تھے اور میں یہ دیکھنے کے لیے پروفیسر کا کیا حال ہے ڈرائنگ روم کی طرف بڑھا تو مجھے خاتون کی آواز سنائی دی، اسی خاتون کی جس کی آواز میں نے پروفیسر کے گھر سنی تھی۔ وہ کہہ رہی تھیں۔ میں نے کہا بھی تھا کہ مت جائوان کے گھر ؟ جھوٹ مت بولو… تم نے ہی مجھے کہا تھا کہ اس طرح ان کے گھر جائو۔ پروفیسر کی آواز آئی۔ میں ڈر گیا۔ پروفیسر تو اکیلے تھے۔ پھر وہ خاتون کیسے آگئیں۔ میری ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ ہیں اندر جاکر ان کو دیکھ سکوں۔ میرے قدم دروازے پر ہی جم گئے تھے۔ کچھ وقت گزرا تو اندر سے آواز آئی بند ہو گئی۔ میں نے ہمت کی اور آہستہ سے اندر کی طرف بڑھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اندر جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اندر کوئی نہیں تھا اور ہمارے ڈرائنگ روم کا وہ درواز جو باہر کی طرف کھلتا تھا۔ وہ کھلا ہوا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ پروفیسر اس دروازے سے باہر چلے گئے تھے لیکن وہ خاتون کیا اسی دروازے سے اندر آئی تھیں ؟ میرے لیے یہ معمہ حیران کن تھا۔ میں، پروفیسر کی وگ واپس کرنا چاہتا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ کیسے وگ واپس کروں ؟ دو تین دن میں یہی سوچتا رہا۔ ایک دن آفس سے واپس آیا تو اماں نے بتایا کہ پروفیسر اپنا سامان لے کر چلے گئے ہیں۔ مجھے افسوس بھی ہوا۔ میں سوچنے لگا کہ انہوں نے اچانک مکان کیوں چھوڑ دیا۔ اس کی وجہ کہیں یہ تو نہیں ہے کہ میں ان کے قتل کے منصوبے سے آگاہ ہو گیا تھا۔ میں یہ بھی جانا چاہتا تھا کہ وہ خاتون کون تھیں جو دکھائی نہیں دیتی تھیں ؟ میرے لیے تو وہ پروفیسر بھی ایک معمہ تھے کہ وہ کون تھے ؟ کوئی اجرتی قاتل ..؟ کوئی بھوت …. کوئی ایسا عامل جس کے قبضے میں ایک بھوت اور ایک عدد چڑیل بھی تھی ؟ لیکن میرے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس بات کو کئی دن گزر گئے تھے۔ ایک دن مجھے میرا دوست اردو بازار لے گیا۔ ایک بڑی سی کتابوں کی دکان پر وہ کچھ کتابیں خرید نا چاہتا تھا کہ میں چونک گیا۔ کیونکہ اس دکان کے مالک کے پاس پروفیسر خلیل بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں
نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا وہ اٹھ کر میرے پاس آگئے اور بولے ۔ میری وگ کہاں ہے ؟ میرے پاس ہے گھر میں ۔ میں نے جواب دیا۔ تم نے میرے سر پر بڑے زور سے ڈکشنری ماری تھی۔ انہوں نے مسکرا کر شکوہ کیا۔ آپ بھی تو ولن بننے جارہے تھے۔ میں نے کہا۔ جانتے ہو میں اچانک وہاں سے کیوں چلا گیا تھا؟ پروفیسر خلیل نے مجھ سے پوچھا۔ کیوں چلے گئے تھے ؟ میں نے سوالیہ انداز میں کہا۔ کیونکہ تم نے میری بیوی کی آواز سن لی تھی۔ انہوں نے انکشاف کیا۔ اور مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوا کہ تم میری بیوی کی آواز سنو۔ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھتا رہا۔ اور بولا ۔ میرا خیال ہے کہ اصل وجہ یہ تھی کہ میں جان گیا تھا کہ آپ ارشد کو قتل کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے میری طرف دیکھا اور مجھے ایک شیلف کی طرف لے گئے۔ انہوں نے سامنے اشارہ کیا تو وہاں ایک در جن سے زیادہ ناول لگے ہوئے تھے جن پر بطور مصنف خلیل احمد لکھا ہوا تھا۔ پھر ایک ناول نکال کر انہوں نے اس ناول کی پشت پر اپنی تصویر بھی دکھائی اور بولے ۔ میں ناول نگار ہوں۔ یہ میرے پبلشر کی دکان ہے۔ اس دن میں اپنے پبلشر سے کہانی کے کردار راشد کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ چاہو تو وہ سامنے بیٹھے ہیں ان سے پوچھ لو۔ میں ان کی بات سن کر مزید حیران ہو گیا۔ پہلی بار مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ وہ ناول نگار ہیں۔ آپ کی بیوی کی میں نے صرف آواز سنی تھی۔ اتنی سی بات آپ سے برداشت نہیں ہوئی۔ میں نے کہا۔ وہ کچھ توقف کے بعد بولے ۔ مجھے اپنی بیوی سے بہت محبت تھی۔ ہماری پندرہ سالہ رفاقت ہنستے مسکراتے ، نوک جھونک کرتے گزری تھی ۔ وہ اچانک مر گئی اور میں اکیلا رہ گیا۔ پروفیسر خلیل نے کہا۔ وہ اداس ہو گئے اور میں مزید ششدر رہ گیا کہ اگر ان کی بیوی مر چکی تھی تو وہ باتیں کون کرتی تھی؟ پھر انہوں نے یہ کہہ کر مجھے مزید حیران کر دیا۔ وہ بولے ۔ میں اپنی بیوی سے روز باتیں کرتا ہوں… وہ میری تنہائی میں آتی ہے جس کا صرف مجھے پتا ہے کسی اور کو نہیں لیکن تم کو پتا چل گیا اور تم نے اس کی آواز بھی سن لی۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ وہ مرے چکی ہے اور آپ کی تنہائی میں آتی ہیں۔ آپ ان سے باتیں کرتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے ؟ میں حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔ وہ مجھ پر انکشاف کر کے مجھے مزید حیرت کے سمندر میں دھکیل کر اپنے پبلشر کے پاس چلے گئے۔ انہوں نے کہا تھا۔ میں تنہائی میں اپنی مرحومہ بیوی کی آواز میں خود باتیں کرتا ہوں۔ کبھی میں بیوی بن جاتا ہوں اور کبھی شوہر ۔