ماں جیسی ساس یہ الفاظ تو آپ کی سماعت سے کبھی نہ کبھی ٹکرائے ہی ہوں گے لیکن ساس جیسی ماں تو میں شرطیہ کہتی ہوں کہ آپ نے کبھی دیکھی ہوگی نہ ہی سنی ہوگی ۔ نہ جانے عالم بالا میں ہم سے ایسی کیا خطا سرزد ہو گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس نعمت سے سرفراز کر دیا۔ نہیں بھئی ہنسنے کی بالکل بھی نہیں ہو رہی … جب آپ میری داستان سنیں گے تو خود بھی میرے ہم خیال ہو جائیں گے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ میں نے کہانی شروع کی۔ یہ فرمائش میری ننھی منی اسٹوڈنٹ عاشی کی تھی جو اس وقت پڑھائی سے فارغ ہو کر میری گود میں چڑھی بیٹھی تھی۔ جی نہیں آپ کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں میں کوئی پکی عمر کی کھڑوس سی ٹیچر نہیں ہوں بلکہ میں تو خود بہت معصوم سی بھولی بھالی طالبہ ہوں اور یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں بیچلرز کر رہی ہوں۔ یہ گول مٹول گڑیا تو ہماری پڑوسن رابعہ باجی کی بیٹی تھی جنہیں ہمارے پڑوس میں آباد ہوئے ابھی صرف چھ ماہ ہی ہوئے تھے لیکن ہماری والدہ کے اعلیٰ اخلاق اور بہترین سفارتی تعلقات کے باعث اجنبیت کی دیوار کو گرنے میں محض چند روز ہی لگے اور اب تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہمارا اور ان کا برسوں کا ساتھ ہے۔ عاشی کا ابھی اسکول میں نیا، نیا ایڈمیشن ہوا تھا اور چونکہ باجی کا زیادہ وقت اپنے چھ ماہ کے بیٹے عمر کی دیکھ بھال میں گزر رہا تھا لہذا انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ میں تھوڑی دیر عاشی کو ہوم ورک وغیرہ کروا دیا کروں جو میں نے بخوشی قبول کر لی ۔ ہاں تو میں نے ابھی کہانی شروع ہی کی تھی کہ نہیں میرے خیال میں یہ دوسری دفعہ کا ذکر ہے۔ یہ آواز میرے دائیں طرف سے آئی۔ دو بلکہ میرے خیال میں تو یہ تیسری دفعہ کا ذکر ہے۔ لیجیے جناب یہ بھی حاضر ہو گئے ۔ یہ دونوں میرے نٹ کھٹ سے شرارتی بھائی تھے جن کی زندگی کا … واحد مقصد صرف مجھے تنگ کرنا تھا۔ امی! میں نے ناراضی سے امی کو آواز دی۔ ان دونوں کو دیکھیں نان کہانی نہیں سنانے دے رہے- امی کی کڑک دار آواز سنائی دی۔ ”ٹائم دیکھا ہے فوراً کچن میں آؤ۔ بھائی آ گئے ہیں، ابو بھی آنے والے ہیں ، فٹافٹ پھلکے بنا لو -لوجی کر لو گل میں بڑ بڑاتی ہوئی کچن کی طرف چل پڑی کیونکہ رات کی روٹی اور برتنوں کی دھلائی میری ذمے داری تھی ۔ پیچھے سے آواز آئی ۔ امی تو ہمیں روز ہی دیکھتی ہیں ۔ اور کھی کھی شروع. ٹھہریے پہلے میں آپ سے اپنا تعارف تو کروادوں ، میں یعنی خوش بخت جسے سب پیار سے خوشی کہتے ہیں اپنے ماں ، باپ کی اکلوتی بیٹی اور تین بھائیوں کی لاڈلی بہن تھی۔ ابو ڈاکٹر تھے اور اسپتال میں ملازمت ، علاوہ شام کو اپنا پرائیویٹ کلینک بھی کامیابی سے چلاتے تھے۔ جس کی وجہ سے گھر میں خوشحالی کا دور دورہ تھا۔ والدہ ایک مکمل ہاؤس وائف ۔ سب سے بڑے ارسلان بھائی تھے جو تعلیم سے فارغ ہو کر حال ہی میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی سے منسلک ہوئے تھے۔ پانچ سال کے وقفے کے بعد پہلے عمیر پھر میں اور آخر میں نمبر آگے پیچھے ہی اپنے والدین کی زندگی میں رونق افروز ہوئے۔ ابو اور ارسلان بھائی تو میرے بے حد لاؤ اٹھاتے لیکن ہماری والدہ جو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ، خوش اخلاق اور نہایت ہی منظم خاتون تھیں ، وہ بچوں کو کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نظر سے کے مقولے کی عملی تفسیر تھیں ۔ بیٹوں کو تو کبھی کبھار بھول چوک سے کوئی معمولی رعایت مل بھی جاتی ہے لیکن اکلوتی بیٹی کے لیے تو ان کے اصولوں میں نرمی کی کوئی گنجائش نہیں ہوئی تھی۔ گھر میں کام کاج کے لیے اگرچہ ملازمہ تھی لیکن دن بھر وہ خود بھی لگی رہتیں اور مجھے بھی لگائے رکھتی تھیں، کوکنگ ان کا شوق تھا اور ان کے ہاتھ میں لذت بھی غضب کی تھی۔
☆☆☆
صبح نماز اور قرآن پاک کی تلاوت کے بعد میں کچن میں پہنچ گئی۔ جہاں امی پراٹھے بنانے میں مصروف تھیں ۔ آملیٹ ، چائے بنانا اور سالن گرم کر کے ناشتا ٹیبل پر پہنچانا میری ذمے داری ہوتی ۔ گڑیا جلدی سے ناشتا کر کے تیار ہو جاؤ۔ مجھے آج جلدی جانا ہے۔ ارسلان بھائی صبح جاتے ہوئے مجھے یونیورسٹی چھوڑتے تھے اور واپسی پوائنٹ سے ہوتی تھی۔ جی بھائی، بس پانچ منٹ میں آتی ہوں۔ میں نے الٹا سیدھا ناشتا کیا اور فوراً تیار ہو گئی۔
یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں نورین میری منتظر تھی۔ مہکی مہکی خوشبو میں بسی ہوئی جبکہ مجھے تو صبح بہ مشکل تیار ہونے کا ٹائم ملتا تھا۔ جب میں اپنی دوستوں سے ان کے ناز نخروں اور ماؤں کے لاڈ پیار کے قصے سنتی تو میرے دل میں بھی طرح طرح کے ارمان جاگتے لیکن ہماری والدہ تو اسے اولاد کو لاڈ پیار سے بگاڑنا کہتیں جس کی وہ ہرگز قائل نہیں تھیں۔ مجھے شک ہوتا کہ شاید میں ان کی سوتیلی یا لے پالک اولاد ہوں اور ایک مرتبہ تو میں نے ارسلان بھائی سے پوچھ بھی لیا لیکن انہوں نے ہنس کر میرے سر پر ایک دھپ لگا دی۔ خوشی کل سے رات کا کھانا تم بناؤ گی۔ فائنل پیپر ختم ہوئے ابھی صرف ایک ہفتہ ہی ہوا تھا جب امی نے رات کو کھانے کی ٹیبل پر کہا۔ ابھی تو میری امتحان کی تھکاوٹ بھی ختم نہیں ہوئی کچھ دن تو آرام کرنے دیں ناں ہاں بیگم ہماری بیٹی کی ابھی چھٹی تو بنتی ہے، تھوڑے دن گھوم پھر کر تفریح کرلے ۔ ابو نے بھی میری سفارش کی ۔ آپ اس معاملے میں نہ ہی بولیں تو بہتر ہے، کل کو سسرال میں ہر بات پر ماں کی تربیت کو الزام دیا جائے گا آپ کو تو کوئی کچھ نہیں کہے گا ۔ امی نے ناگواری سے کہا۔ نہیں بھئی، ہماری بیٹی بہت سمجھدار ہے۔ ابو یہ کہہ کر خاموش ہو گئے ۔ انہی دنوں موسم نے انگڑائی لی اور تاحد نظر ہریالی ہی ہریالی نظر آنے لگی۔ رنگ برنگے خوشبو دار پھولوں نے ہمارے لان کو بھی مہکا دیا۔ بہار کے ان دنوں میں ایک روز رابعہ باجی اپنی والدہ اور مٹھائی کے ہمراہ ملاقات کے لیے آئیں۔ آنٹی نہایت نفیس، خوش اخلاق اور مشفق خاتون تھیں، بہت پیار سے ملیں اور مجھے پاس بٹھا کر ادھر اُدھر کی باتیں کرتی رہیں، تھوڑی دیر بعد امی نے مجھے اشارے سے چائے کے لیے وہاں سے اٹھا دیا۔ ان کے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ میرے لیے اپنے بیٹے کا رشتہ لائی تھیں ۔ نعمان ( ان کا بیٹا ) اعلیٰ تعلیم یافتہ ، دراز قامت اور خوب صورت نوجوان تھا ۔ MBA کرنے کے بعد ایک مشہور ادارے میں اعلیٰ پوسٹ پر فائز تھا۔ میرے والدین کو یہ رشتہ بے حد پسند آیا اور وہ اس پر سنجیدگی سے غور کرنے لگے۔ میرا تو یہ سن کر دل دھک سے رہ گیا ۔ اتنی جلدی اپنی فیملی سے جدائی کا تو میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا اور پھر بیاہ کر دوسرے شہر جانا تو مجھے کوہ ہمالیہ سر کرنے جیسا دشوار لگ رہا تھا۔ لہذا جب والدہ صاحبہ نے میری رائے پوچھی تو میں نے فوراً کہا۔ ۔ امی اپلیز آپ ان لوگوں کو انکار کر دیں۔ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی ہے۔ ابھی میں ماسٹرز کرنا چاہتی ہوں۔ امی نے خاموشی سے میری بات سنی اور بہت نرمی اور پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔ بیٹا ! والدین ہمیشہ اولاد کی بھلائی چاہتے ہیں ، ان کے فیصلوں میں ان کی زندگی کا تجربہ شامل ہوتا ہے۔ تمہاری تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ہم تمہارے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں۔ میری اور تمہارے ابا کی دلی خواہش ہے کہ ہم تمہیں اپنے گھر میں ہنستا بستا اور آباد دیکھیں ۔ رابعہ کا اور ہمار ا دن رات کا ساتھ ہے، دیکھے بھالے پُر خلوص لوگ ہیں اور نہایت چاہت سے رشتہ مانگ رہے ہیں، ہم جلد بازی سے کام نہیں لیں گے بلکہ بہت دیکھ بھال کر اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے اور اس میں تمہاری مکمل رضا مندی شامل ہوگی، تمہاری مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوگا اور مجھے امید ہے کہ میری بیٹی بہت خوش رہے گی ۔ اب کہنے کو کیا رہ گیا تھا لہذا میں نے خاموشی سے سر جھکا دیا۔ جب نعمان کی کمپنی اور دوستوں وغیرہ سے معلومات لی گئیں تو سب نے بہت تعریف کی۔ رشتے داروں سے بھی صلاح مشورہ کیا گیا اور جب رابعہ باجی کو مثبت جواب دیا گیا انہوں نے بے ساختہ مجھے گلے لگا کر پیار کر ڈالا تو میرے لیے شرم سے وہاں رکنا محال ہو گیا۔ اگلے ماہ ایک سادہ سی تقریب میں انگوٹھی پہنا کر مجھے نعمان سے منسوب کر دیا گیا اور آنٹی کے اصرار پر تین ماہ بعد شادی کی تاریخ مقرر کر دی گئی جبکہ امی ، ایو تیاری کے لیے کچھ مہلت چاہتے تھے لیکن آنٹی نے ہر قسم کے جہیز کے لیے منع کر دیا تھا۔ بقول ان کے جس نے اپنی بیٹی دے دی اس نے سب کچھ دے دیا۔ میں تو بس یہ چاہتی ہوں کہ یہ جلد از جلد آکر ہمارے آنگن کو خوشیوں سے بھر دیں ۔“ میرا خیال تھا کہ امی اب مجھے چند روزہ مہمان جان کر اگر میرے ساتھ کچھ رعایت کریں گی لیکن اب تو اور بھی سختی سے ٹرینینگ شروع ہوگئی تھی کیونکہ وقت کم تھا اور مقابلہ سخت وہ مجھے ہر کام میں پرفیکٹ کرنا چاہتی تھیں ۔ آنٹی کے منع کرنے کے باوجود حسب استطاعت جہیز بھی بن رہا تھا ۔ لہذا گھر داری اور مارکیٹ کے چکروں نے مجھے گھن چکر بنا دیا۔ اوپر سے عمیر اور نمیر جب مجھے دیکھتے تو کبھی برتن اور کبھی ٹیبل بجا بجا کر مبارک ہو تم کو یہ شادی تمہاری اور دوسرے اوٹ پٹانگ گیت گانا شروع کر دیتے جس پر کبھی تو میں مسکرا دیتی اور کبھی جھنجلا جاتی ۔ – وقت ریت کی طرح مٹھی سے پھسلتا چلا گیا اور شادی کے دن قریب آگئے تو گھر کے ماحول میں نا معلوم سی اداسی نے ڈیرے ڈال دیے۔ میرے شریر بھائی جو ہر وقت شور و ہنگامہ کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے اور ستا ستا کر ناک میں دم کر دیتے تھے۔ اب اکثر خاموشی سے میرے پاس بیٹھے رہتے۔ وہ ہر وقت کی چھیڑ چھاڑ، لڑائی جھگڑے اور شکایتیں تو لگتا تھا بھول ہی گئے تھے۔ ابو اور ارسلان بھائی جو پہلے مجھ سے فرمائش کر کر کے چائے بنواتے تھے اب اگر میں پوچھتی بھی تو. نہیں گڑیا تم آرام کرو بوا بنا دے گی۔“ کہہ کر ٹال دیتے تو ایسے میں میری آنکھیں نم ہو جاتیں۔ انہی اداس سے دنوں میں شادی کے ہنگامے شروع ہو گے تو گھر میں رونقیں جاگ اٹھیں – مایوں مہندی کی تقریبات میں امی کی نظر مجھ پر پڑتی تو میری بلائیں لیتی محسوس ہوئی ۔ شادی کے روز میری چوڑیاں کچھ تنگ تھیں اور پہنانے میں دقت ہو رہی تھی تو میری والدہ صاحبہ نے آکر میرا ہاتھ تھام لیا اور بے حد نرمی سے پہنانے لگیں۔ اس وقت وہ نظریں جھکا کر بیٹھی تھیں کیونکہ ان کی آنکھیں چھلکنے کے لیے بے تاب تھیں اور شدت جذبات سے وہ اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھیں ۔ فارغ ہو کر انہوں نے میری پیشانی پر بوسہ دیا اور تیزی سے چلی گئیں۔ رخصتی کے وقت میرا رو، روکر تو برا حال ہو رہا تھا بلکہ میں گاڑی میں بھی کافی دیر تک روتی رہی ، رابعہ باجی نے بہ مشکل مجھے چپ کرایا ۔ سسرال میں میرا بہت محبت سے استقبال ہوا۔ میں چونکہ لمبے سفر سے کافی تھک چکی تھی اس لیے رسموں کو مختصر کر کے مجھے میرے کمرے میں پہنچا دیا گیا جو کہ نہایت خوب صورتی سے سجا ہوا تھا۔
نعمان میرے لیے ایک آئیڈیل شوہر ثابت ہوئے۔ بے حد محبت کرنے والے اور خیال رکھنے والے۔ ان کی توجہ اپنائیت اور ہر قدم پر ساتھ دینے کی دینے کی وجہ سے میں ایک نئے گھر اور اجنبی ماحول میں آسانی سے سیٹ ہوگئی ۔ شروع کے دن تو دعوتوں اور گھومنے پھرنے میں پر لگا کر اڑ گئے ۔ پندرہ دن بعد جب رابعہ باجی نے عاشی اور عمر کے ساتھ واپسی کا ارادہ کیا تو میں بے اختیار ان کے گلے لگ کر سسک اٹھی ۔ارے پاگل لڑکی ! لوگ تو نندوں کے آنے پر روتے ہیں تم میرے جانے پر رورہی ہو۔“رابعہ باجی نے شرارت سے ہنس کر کہا۔ نہیں بھئی! میری بیٹی ایسی نہیں ہے ۔ امی جان نے مسکرا کر جواب دیا۔ جی ہاں اب میں ان کی خواہش پر ان کو امی جان کہنے لگی تھی۔ اب گھر میں نعمان اور ان کی والدہ کے علاوہ دو اور افراد تھے چھوٹی نند سامعہ اور دیور کامران … سسر چند سال قبل راہی ملک عدم ہو چکے تھے۔ سامعہ چونکہ میری ہم عمر تھی اس لیے چند دن میں ہی میری اس سے کافی دوستی ہو چکی تھی اور کامران کی باتوں اور شرارتوں میں مجھے اپنے بھائیوں کا عکس دکھائی دیتا۔ بھائی ! امی کی طبیعت بہت خراب ہے۔ ان کو بہت تیز بخار ہو رہا ہے ۔ صبح جیسے ہی ہم اپنے کمرے سے نکلے سامعہ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں اطلاع دی ۔ ہم فورا امی کے کمرے میں گئے تو وہ بخار سے نڈھال پڑی تھیں ۔ امی ! آپ کو اچانک کیا ہو گیا رات تک تو آپ ٹھیک ٹھاک تھیں ۔ نعمان پریشانی سے بولے۔ ہاں بیٹا شاید تھکاوٹ سے طبیعت خراب ہو گئی ہے، آرام کروں گی تو شام تک بالکل ٹھیک ہو جاؤں گئی۔ امی نے ہمیں تسلی دی۔ خوشی ، آج آفس میں ایک ضروری میٹنگ ہے اس لیے میں چھٹی نہیں کر سکتا ۔ نعمان فکر مندی سے بولے۔ ارے بیٹا پریشان نہ ہو، فکر کی کوئی بات نہیں بس ذرا شادی کی تھکن ہے۔ آپ آرام سے جا کر اپنا کام کریں ہم سب ناں امی کا خیال رکھنے کے لیے ” ۔ میں نے بھی یقین دہانی کرائی تو وہ تیار ہونے چل دیے۔ ناشتے کے لیے کچن میں آئی تو سامعہ کو پریشان کھڑا پایا۔ وہ امی کے ساتھ مل کر کام کروا لیتی تھی لیکن تنہا کرنے سے گھبراتی تھی۔ میں نے فٹافٹ آٹا گوندھ کر آملیٹ کا آمیزہ تیار کیا۔ جب تک میں پراٹھے تل کر فارغ ہوئی ، سامعہ آملیٹ اور چائے بنا کر ٹیبل سجا چکی تھی۔ امی کے لیے میں چائے اور بریڈ کمرے میں لے کر گئی تو وہ بولیں ۔ بیٹا مجھے بہت افسوس ہے میری بیماری کی وجہ سے تمہیں کام کرنا پڑ رہا ہے۔“ امی ! آپ مجھے بیٹا بھی کہتی ہیں اور تکلف بھی کرتی ہیں ، آپ کسی کام کی فکر نہیں کریں، ناشتا کر کے دوائی لیں اور آرام کریں ۔ میرے اصرار پر تھوڑا سا کھا کر انہوں نے دوائی لی۔ اچھا اب تم بھی جا کر آرام کرو دو پہر کا کھانا کامران باہر سے لے آئے گا۔ میں نے انہیں کمبل اڑھایا اور باہر آگئی تاکہ وہ نیند پوری کر لیں دروازہ میں نے نیم وا رکھا تھا ۔ ناشتے سے فارغ ہو کر میں نے فریج کا جائزہ لیا تو ہر طرح کا سامان موجود تھا۔ اپنی امی جان کی مہربانی سے کوکنگ میں تو میں اتنی ماہر ہو چکی تھی کہ چار پانچ افراد کا کھانا بنانا میرے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ میں نے مٹر پلاؤ اور چکن قورمہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ دو گھنٹے میں کھانا تیار کر کے میں نے امی کے لیے دلیا اور سوپ بھی بنا لیا ۔ اتنی دیر میں وہ بھی بیدار ہو چکی تھیں ۔ اب ان کی طبیعت قدرے بہتر تھی اور بخار بھی کم ہو چکا تھا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ جب ان کے لیے دنیا اور سوپ لے کر گئی تو وہ بے حد خوش ہوئیں اور مجھے ڈھیروں دعائیں دیں۔ ابھی پھلکے بنا کر ٹیبل لگا ہی رہی تھی کہ نعمان بھی امی کی خیریت دریافت کرنے لنچ بریک پر پر گھر آگئے ۔ انہیں بحال دیکھ کر وہ مطمئن ہو گئے پھر سب نے مل کر اتنے ذوق ، شوق سے کھانا کھایا اور کھانے کی خوب تعریف ہوئی کہ میرا ڈھیروں خون بڑھ گیا۔ دو تین دن میں امی کی طبیعت سنبھل گئی تو سب نے سکون کی سانس لی۔ بیٹا ، خوشی کو اس کے والدین سے ملوانے لے جاؤ۔ پہلی مرتبہ اپنے گھر سے اتنی دور آئی ہے، ۔ یہ سن کر میرا دل خوشی سے نہال ہو گیا میرا بہت خیال رکھتے تھےاور میں کافی گھل بھی مل مل گئی تھی لیکن ایک لمحے کے لیے بھی اپنے گھر اور گھر والوں کی یاد میرے دل سے محو نہیں ہوئی تھی ۔ جب میں جا کر اپنی امی کے گلے لگی تو اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں میرے والد، بھائی سب بے حد خوش تھے ۔ میری امی نے میرے اتنے ناز اٹھائے اتنا خیال رکھا کہ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ یہ وہی والدہ ہیں جو کبھی ہٹلر کی جانشین لگتی تھیں۔ دو دن کے بعد بعد ڈھیروں تحائف کے ساتھ ہماری واپسی ہوئی۔
رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مصروفیت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا تھا۔ سحری افطاری اور عبادت میں وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا ۔ روزانہ سب کی فرمائش پر افطار میں نت نئے ڈشز بنتیں لہذا رات کا کھانا گول ہو جاتا اور وہ سحری میں استعمال ہوتا۔ بیٹا! خوشی کی ہمارے ساتھ پہلی عید ہے۔ میں جوڑوں کی تکلیف کی وجہ سے مجبور ہوں ۔ تم دونوں عید کی شاپنگ پر جاؤ – ایک دن امی نے نعمان سے کہا۔ جی امی کل چھٹی ہے کل میں لے جاؤں گا ۔ بھائی آپ لوگ جلدی چلے جائیے گا افطاری میں بنالوں گی ، مارکیٹ میں کافی ٹائم لگ جاتا ہے۔” سامعہ نے بھی اپنی خدمات پیش کر دیں۔ رش کا یہ عالم تھا گویا کل ہی عید ہو اور سب نے اپنی شاپنگ آج ہی مکمل کرنی ہے۔ دکاندار نت نئی ورائٹی دکھا رہے تھے اور خواتین بھاؤ تاؤ میں مصروف تھیں۔ میں نے نعمان کی پسند سے اپنے لیے نیوی بلیو کلر کا ایمیر انڈری والا نہایت خوب صورت ڈریس لیا۔ ویسا ہی پنک کلر میں نے سامعہ کے لیے لیا اور امی کے لیے ایک بہت نفیس آف وائٹ کلر کا سوٹ لیا۔ اتنے میں روزہ کھلنے کا ٹائم ہو چکا تھا۔ ہم نے ایک ریسٹورنٹ میں افطاری کی اور اس کے بعد میچنگ جیولری ، کامران کا سوٹ اور شوز وغیرہ لے کر رات گئے لدے پھندے گھر پہنچے ۔ جب ہم نے امی کو سامان دکھایا تو خوشی سے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے آگے بڑھ کر میری پیشانی پر بوسہ دیا۔ میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے تمہارے جیسی بہو ملی ہے، اللہ تمہیں ہمیشہ خوش اور شاد آباد رکھے ۔ انہوں نے محبت سے کہا۔ سب کو اپنے ، اپنے سوٹ بہت پسند آئے تھے۔ عید کے دوسرے روز گھر پر قریبی رشتے داروں کی دعوت تھی ۔ تقریباً ہمیں پچیس افراد مدعو تھے۔ امی نے بریانی بنائی اور میں نے چکن کڑھائی اور کھیر بنائی۔ سامعہ نے فریزر سے نکال کر کباب تل لیے اور رائتہ سلاد وغیرہ بنا لیا۔ یوں مل جل کر ہم نے جلد ہی سارا کام نپٹا لیا۔ شاور لے کر میں نے امی کی طرف سے عید کا کام و اللہ گولڈن کام سے سجا ہوا انتہائی خوب صورت اورمیرون کلر کا فراک پہنا۔ سامعہ نے عیدی اور اپ نے مجھے دوبارہ چاند رات میں مہندی بھی لگا دی تھی ۔ نعمان تبھی گرے کلر سے کرتا شلوار میں انتہائی ہینڈ سم لگ رہے تھے۔ مہمانوں نے ہماری جوڑی کو بے حد سراہا اور خوب دعاؤں سے نوازا۔ اس کے بعد کھانے کا دور چلا۔ چکن کڑاہی سب کو ہی بے حد پسند آئی اور میری ساس سب کو فخر یہ بتاتی رہیں کہ یہ میری بہو نے بنائی ہے۔ کھانے کے بعد چائے ، کافی کا دور چلا اور پھر دھیرے دھیرے مہمان رخصت ہونے لگے۔ یوں یہ خوب صورت کی شام خوشگوار یادیں چھوڑ کر اختتام پزیر ہوئی ۔ عید کے فوراً بعد ایک اور خوشخبری نے ہمارے دروازے پر دستک دی اور یہ سامعہ کے لیے ایک شاندار رشتے کی آمد تھی۔ میرے سسر کے بہت قریبی دوست تھے جو اپنے بیٹے کے لیے سوالی بن کر آئے ۔ برسوں کی جان پہچان اور میل جول نے دوستی کو قرابت پر داری میں بدل دیا تھا۔ اسد ، امی کے ہاتھوں میں پلا الله بڑھا اور ان کے سامنے ہی کھیل کود کر جوان ہوا تھا ۔ پچھلے سال انجینئرنگ کی ڈگری مکمل کر کے ملازمت کے شروع کی تھی۔ تعلیم یافتہ لوگ تھے اور مختصر فیملی تھی۔ امی جو آج کل سامعہ کے سلسلے میں کافی پریشان تھیں اس رشتے کی آمد سے کھل اٹھیں۔ رسمی طور پر سوچنے کے لیے ٹائم کیا گیا اور اقرار کے ساتھ چٹ منگنی پٹ بیاہ کا ۔ سلسلہ شروع ہو گیا۔ ۔ گھر میں دھڑا دھڑ شادی کی تیاریاں شروع – ہوگئیں۔ مارکیٹ کے چکروں کے ساتھ، ساتھ گھر کی ذمے داریوں نے دن رات کا فرق مٹا دیا۔ سونے سے پہلے میں حسب معمول امی کے لیے گرم دودھ لے کر گئی۔ ابھی دستک دینے کو ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ اپنا نام ین کر وہیں رک گئی تھی تو یہ غیر اخلاقی حرکت لیکن کر رک تھی۔ تو یہ حرکت کے ہاتھوں مجبور ہو کر خاموشی سے سننے لگی۔
دیکھو بیٹا شادی دو افراد کا نہیں بلکہ دو خاندانوں کا ملاپ ہوتا ہے۔ اپنی بھائی کو دیکھو چند ماہ میں ہی اپنے پیار ، خلوص ، محنت سے اس نے سب کو اپنا بنالیا ہے۔ اور ہمارے دلوں پر راج کر رہی ہے۔ دراصل یہ سب اس کی والدہ کی دانشمندی اور بہترین تربیت کا کمال ہے۔ والدین کے لاڈ پیار سے بگڑے ہوئے بچے نہ صرف اپنے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ اپنے گھر میں ملازمین کے باوجود وہ ہر کام میں ماہر ہے۔ مجھے امید ہے کہ میری بیٹی بھی اپنی سسرال میں خوشی کی طرح سمجھداری اور معاملہ فہمی سے نہ صرف اپنا مقام بنائے گی بلکہ میری نیک نامی کا بھی باعث بنے گی کیونکہ اولاد کے رویے سے ہی والدین کے بارے میں رائے قائم کی جاتی ہے۔ اور بس یہی وہ لمحہ تھا جس نے مجھ پر آگہی کے در وا کر دیے اور میری والدہ کے رویے کے پس پردہ عوامل عیاں کر دیے۔ وہ تمام ڈانٹ ڈپٹ، اصول پرستی اور پابندیاں دراصل میری بھلائی کی خاطر تھیں ۔ ان کی سخت گیر ظاہری شخصیت کے پیچھے ایک شفیق، حساس اور ممتا بھرا دل چھپا ہوا تھا جو اپنی لاڈلی کو ہر تکلیف اور پریشانی سے بچانا چاہتا تھا۔ ایک کہاوت ہے جسے ماں نہیں مارتی ایسے دنیا مارتی ہے۔ وہ دنیا کی مار سے بچانا چاہتی تھیں۔ یہ سب تو میرے لیے blessing in disguise تھا۔ انہوں نے میری شخصیت کو ایسے انداز میں پروان چڑھ کہ اپنے اخلاق، خلوص، محنت اور سکھڑاپے سے میری زندگی خوشیوں اور بہار کے رنگوں سے سج گئی۔ امی جان! آئی ایم سوری میں دل ہی دل میں ان سے مخاطب ہوئی۔ مجھے اب آپ سے کوئی شکایت نہیں۔ ایک آسودہ سی مسکراہٹ نے میرے لیوں کا احاطہ کر لیا تھا۔