اس نے دس سال پہلے اپنی پسند سے عاصم سے شادی کی تھی، جس کی پاداش میں اس کے ڈیڈی، ایاز ملک، اس سے ناراض ہو گئے تھے۔ غصے اور انا کے عالم میں انہوں نے اپنی سیکرٹری سے شادی کر لی تھی، جو تقریباً ان کی بیٹی کی عمر کی تھی۔ یہ خبر انیلہ کے دل کو مزید توڑ گئی، اور اس کا اپنے باپ سے تعلق بالکل ختم ہو گیا۔وقت گزرتا گیا، اور اللہ نے انیلہ کو ایک بیٹے کی نعمت عطا کی، جس کا نام اس نے فائق رکھا۔ سالوں تک وہ اپنے والد کی طرف سے بے نیاز رہی۔ لیکن ایک ہفتہ پہلے، عاصم کی ایک خالہ کے سمجھانے پر، کئی سالوں بعد وہ ان سے ملنے گئی۔ وہ نزع کے عالم میں تھے۔ انیلہ کے وہاں پہنچنے کے بعد انہوں نے اسے گلے لگا لیا اور آنکھوں میں آنسو لیے معافی مانگتے رہے۔ وہ کچھ بول نہیں سکتے تھے، کیونکہ وہ فالج کے مریض تھے اور مہینوں سے بستر پر تھے۔ لیکن ان کے ہر انداز اور بہتے آنسو اس بات کے گواہ تھے کہ وہ اپنی بیٹی کو دل سے معاف کر چکے تھے۔انیلہ ابھی اس بات پر خوش بھی نہیں ہو پائی تھی کہ اس کے والد نے اس کے سامنے دم توڑ دیا۔ ان کی ناگہانی موت نے انیلہ کو اندر سے مزید توڑ دیا۔ہفتوں تک باپ کی جدائی کا سوگ منانے کے بعد، وہ دھیرے دھیرے زندگی کی طرف لوٹ رہی تھی کہ شہلا خالہ کی زبانی اسے پتا چلا کہ ایاز صاحب کی بیوہ ان کی ساری پراپرٹی بیچ کر امریکہ شفٹ ہونے کی تیاری کر رہی ہے۔ یہ خبر اس کے لیے کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔ وہ فوراً عاصم کے ساتھ ایاز ولا پہنچ گئی۔
ارے آئیے آئیے، آج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں ہمارے گھر۔ بھئی، خلیق، ان سے ملو۔ یہ ایاز صاحب کی بیٹی اور داماد ہیں۔ اور انو، ان سے ملو، یہ خلیق احمد ہیں، میرے منگیتر۔انیلہ اور عاصم کو لاؤنج میں داخل ہوتے دیکھ کر فضیلت نے بے نیازی سے سامنے بیٹھے شخص کا تعارف کروایا۔فضیلت، مجھے تم سے یا تمہارے ان سوکالڈ رشتوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ کیا سن رہی ہوں میں؟ تم ساری پراپرٹی بیچ کر امریکہ شفٹ ہو رہی ہو؟ تم یہ پراپرٹی بیچنے کا حق کیسے رکھتی ہو؟ اس جائیداد میں میرا بھی حصہ ہے، اور میرے ہوتے ہوئے تم میرے باپ کی محنت سے بنائی گئی جائیداد کو یوں کوڑیوں کے بھاؤ نہیں بیچ سکتی۔انیلہ نے تمام لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے فضیلت کو دو ٹوک جواب دے دیا۔اوکے فضیلت، میرا خیال ہے مجھے چلنا چاہیے۔ پھر ملاقات ہو گی۔ فطرتاً بزدل سا خلیق، انیلہ کے خطرناک تیور دیکھ کر عجلت میں ایاز ولا سے نکل گیا۔ فضیلت نے استہزائیہ انداز میں کہا اچھا جی، تو کیوں نہیں بیچ سکتی میں یہ پراپرٹی؟ کون روکے گا مجھے؟ تم؟ یعنی ایاز کی نافرمان بیٹی، جسے ایاز کئی سال پہلے اپنی زندگی سے نکال چکے تھے؟ اپنی حد میں رہو بی بی۔ ایاز مرتے ہوئے وصیت کر گئے تھے کہ وہ اپنی ناہنجار اولاد سے بوجہ نافرمانی سخت ناراض ہیں، اس لیے ان کے مرنے کے بعد ان کی ساری جائیداد مجھے، یعنی ان کی بیوہ، کے نام منتقل کر دی جائے۔فضیلت کی آنکھوں میں چھپا تمسخر گویا انیلہ کی جان لے رہا تھا۔ انیلہ غصے سے بولی کیا بکواس کر رہی ہو، غلیظ عورت! بھلا کبھی کوئی باپ اپنی بیٹی کو اس کے حق سے محروم کر سکتا ہے؟ رہی بات ناراضی کی، تو اگر مرنے سے کچھ دیر پہلے میں ان سے نہ ملی ہوتی، تو شاید تمہاری بکواس پر یقین کر لیتی۔ مگر اب؟ اب تو مر بھی جاؤ، تم مجھے قائل نہیں کر سکتیں۔انیلہ کے غصے کی شدت دیکھ کر عاصم نے فوراً آگے بڑھ کر اسے روکنے کی کوشش کی۔ ریلیکس انو، اتنا غصہ مت کرو، تمہارا بی پی شوٹ کر جائے گا۔ سنبھالو خود کو، عاصم نے مدبرانہ انداز میں کہا۔فضیلت نے تمسخرانہ انداز میں عاصم کی طرف دیکھ کر کہا خاصے عقل مند لگتے ہو، عاصم۔ سمجھاؤ اسے، اور لے جاؤ یہاں سے۔ اسے یہاں سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملنے والی۔ اس سے پہلے کہ ہم اسے دھکے دے کر نکالیں، عزت سے اسے یہاں سے لے جاؤ۔یہ کہتے ہوئے فضیلت سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔ انیلہ نے غصے سے پلٹ کر کہا تو نکلوائے گی مجھے دھکے دے کر؟ تمہاری اوقات کیا ہے جو یوں اچھل رہی ہو؟ پتا نہیں کس ذہنی کیفیت میں ڈیڈی نے تجھ جیسی غلاظت کو اپنے گھر میں سجا لیا تھا۔ تم اس گھر کی مالکن بن بیٹھی ہو، مگر وقت بتائے گا کہ کون کس کو دھکے دے کر نکالتا ہے۔ انیلہ کسی شیرنی کی طرح ہذیانی انداز میں دھاڑ رہی تھی۔ اگر عالم نے کسی کے اس کا ہاتھ یا تھام رکا ہوتا تو وہ نخوت سے سر جھٹک کر اوپر غائب ہوتی عورت کا حشر بگاڑ کر رکھ دیتی۔ تو انیلہ، جو کرنا ہے کر لو، میں چند ہی دن میں امریکہ شفٹ ہو جاؤں گی اور تم بے بسی سے دیکھتی رہ جاؤ گی۔ ہاہاہاہا! قدرے بلند آواز میں کہتی ہوئی فضیلت نے آخر میں قہقہہ لگایا، جس پر انیلہ کے منہ سے مخلصات کا طوفان نکلا۔ عاصم نے اس کو روکنے کی کوشش کی۔ بس کر دو انیلہ، بہت تماشا ہو چکا، چلو اب گھر!عاصم نے جنونی انداز میں انیلہ کو ہوش میں لانے کے لیے طمانچہ رسید کیا۔ وہ خاموش ہو کر زمین پر گرتی چلی گئی، اور اس کی سسکیاں لاؤنج میں گونج رہی تھیں۔ فضیلت نے ایاز کی وفات کے بعد تمام وفادار نوکروں کو نکال کر نئے ملازمین رکھ لیے تھے۔ گھر میں کام کرتے نوکروں نے حیرت سے سسکیاں بھرتی ہوئی لڑکی کو دیکھا۔ ہمیں ڈیڈی کی جائیداد سے کچھ بھی نہیں چاہیے۔ پلیز، تم حوصلہ کرو اور چلو! عاصم نے سامنے رکھی شیشے کی میز سے جگ اٹھا کر پانی گلاس میں ڈالا اور نرم مگر متکلم لہجے میں کہا۔ نہیں! ڈیڈی کی جائیداد نہیں چاہیے، مگر میں اپنے باپ کی خون پسینے کی کمائی اس گھٹیا عورت کو ہڑپ نہیں کرنے دوں گی۔ نہیں! نہیں! گلوگیر لہجے میں اپنی بات دہراتے ہوئے، انیلہ اٹھ کر اس گھر سے نکلتی چلی گئی۔ افسردگی سے سر جھٹک کر عاصم سرعت سے اس کے پیچھے بھاگ گیا۔ سلام بی بی، کیسی ہیں آپ؟ ٹھہرئیے، مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے۔ وہ بار بار نم ہوتی آنکھوں کو انگلی کی پوروں سے خشک کرتی ایاز ولا سے نکل کر تیزی سے عاصم کی سفید مہران کی طرف بڑھ رہی تھی کہ حفیظ تقریباً بھاگتے ہوئے اس کی طرف آیا۔ حفیظ یہاں کا پرانا خانساماں تھا۔حفیظ، تم یہاں کیسے؟ فضیلت نے تو سب پرانے ملازمین نکال دیے تھے، ناں؟ بتاؤ، کیا بتانا چاہتے ہو؟انیلہ نے حیرانی سے پوچھا۔ پیچھے آتا عاصم بھی حفیظ کی جانب متوجہ ہوگیا۔جی بی بی، نکال تو مجھے بھی دیا تھا، لیکن میں نے چوکیدار سے دوستی کرلی تھی۔ روز یہاں آپ کا انتظار کرتا تھا تاکہ آپ کو یہ بتا سکوں کہ ایاز صاحب نے مرنے سے ایک سال پہلے ساری جائیداد آپ کے نام کردی تھی۔ آپ جلد سے جلد کمال صاحب سے رابطہ کریں۔حفیظ نے وضاحت کرتے ہوئے امید کی ایک نئی کرن انیلہ کو تھمائی۔تمہارا بہت شکریہ، حفیظ۔ تم نے واقعی وفاداری کی ایک زندہ مثال قائم کی ہے۔ اللہ تمہیں اس کا اجر دے گا۔متشکر لہجے میں کہتی انیلہ کی آنکھیں دوبارہ نم ہوگئیں۔شرمندہ نہ کریں بی بی۔ یہ تو میرا فرض تھا۔ آپ کا نمک کھایا ہے، حق تو ادا کرنا ہی تھا۔حفیظ کے انداز میں خلوص تھا۔ انیلہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔کچھ دن بعد، انیلہ نے حقِ وراثت کا کیس دائر کردیا۔ فضیلت انیلہ کی اس جرات پر حیرت زدہ رہ گئی۔ وہ تو اپنے تئیں چند دنوں میں تمام معاملات نمٹا کر، بزنس اور جائیداد اونے پونے داموں بیچ کر، امریکہ جانے کی تیاری میں تھی۔ لیکن وقت اور حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ ایک مڈل کلاس شخص سے شادی کرکے سفید پوشی کی زندگی گزارنے والی انیلہ اب اس کی چالاکی سے ہتھیائی گئی جائیداد کی حصے دار بن چکی تھی۔
*********
ان کا مقدمہ بہت کمزور تھا۔ ان کے وکیل نے زیادہ امید نہیں دلائی تھی، کیونکہ فضیلت نے ایک نامور اور مہنگے وکیل کی خدمات حاصل کی تھیں، اور سب سے اہم بات یہ کہ اس کے پاس ایاز ملک کی دستخط شدہ وصیت بھی موجود تھی۔ مگر انیلہ کو ان دنوں ایک ہی جنون تھا کہ وہ اپنے باپ کی جائیداد کسی کی لالچ کی نذر نہیں ہونے دے گی۔ اسی نیت سے اس نے مقدمہ دائر کیا تھا۔ان کے وکیل کسی نہ کسی طرح اسٹے آرڈر لینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ انیلہ، کمال یزدانی کا انتظار کر رہی تھی، جو ان کے خاندانی وکیل تھے۔ وہ ایک سال پہلے وکالت کو خیر باد کہہ کر اپنے بیٹے کے پاس لندن شفٹ ہو گئے تھے۔ انیلہ نے ان کے آفس سے ان کا رابطہ نمبر لے کر انہیں کال کی، تو پتا چلا کہ وہ کومہ میں ہیں۔ یہ اطلاع سن کر اس کا حوصلہ ایک جھٹکے میں زیرِ صفر پہنچ گیا تھا۔ ان دنوں اس کی حالت کسی دیوانے سے کم نہ تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے اس کی زندگی اور ہنسی سب کچھ اس کیس میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ آج اس مقدمے کی پہلی پیشی تھی۔ فضیلت کے وکیل نے وہ وصیت عدالت میں پیش کی تھی جس کے مطابق ایاز صاحب اپنی ساری جائیداد اپنی بیوی فضیلت کے نام کر چکے تھے۔ انیلہ کے وکیل نے اس وصیت کی صداقت پر سوال اٹھایا تھا۔ عدالت نے وصیت کی تصدیق کروانے کے لیے اگلی تاریخ دی۔ انیلہ کا دل خود ڈانواں ڈول تھا، کیونکہ اس کے پاس اپنے دعوے کے حق میں کوئی مضبوط ثبوت نہ تھا، اور جھوٹ اس کے خلاف مضبوط دیوار بن کر کھڑا تھا۔ وہ کسی بھی صورت یہ کیس ہارنا نہیں چاہتی تھی۔ ایک عام سا دن ڈھل رہا تھا۔ اوس میں بھیگی شام نے تاریکی کی چادر اوڑھ لی تھی، جب عاصم گھر میں داخل ہوا۔ اور میرے شہزادے، یہاں اداس بیٹھے کیوں ہو؟ عاصم نے صوفے پر بیٹھے نو سالہ فائق کے بالوں کو بکھیرتے ہوئے پوچھا۔ہوم ورک کر رہا تھا بابا، ابھی فارغ ہوا ہوں۔ فائق نے نظر چرا کر قدرے اداس لہجے میں جواب دیا۔یہ تمہارا منہ کیوں اترا ہوا ہے، اور تمہاری والدہ کہاں ہیں؟ نظر نہیں آ رہیں؟ عاصم نے گہری نظروں سے اس کے اداس چہرے کو دیکھتے ہوئے انیلہ کے بارے میں پوچھا۔آپ کو تو بہتر ہوگا کہ وہ نظر نہ آئیں۔ ان دنوں ان کا موڈ بہت خراب ہے۔ آج دو بار مجھے ڈانٹ کر کمرے سے بھگا چکی ہیں۔ آپ وہاں گئے تو جھگڑے کا خدشہ ہے۔ فائق نے خبردار کرتے ہوئے کہا۔ عاصم ہنس دیا۔واہ، میرا بیٹا تو بہت سمجھدار ہو گیا ہے۔ اچھا، میں فریش ہو آتا ہوں، پھر مل کر کھانا کھاتے ہیں۔ عاصم نے فائق کے ماتھے پر بوسہ دیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔بابا، مت جائیں۔ میں نے کہا ناں، وہ بہت غصے میں ہیں۔ مجھے آپ دونوں کے جھگڑے سے ڈر لگتا ہے۔ فائق نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکنا چاہا۔اتنا کیوں ڈر رہے ہو، فائق؟ کوئی جھگڑا نہیں ہوگا، وعدہ کرتا ہوں۔ عاصم نے نرمی سے کہا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس نے لائٹ جلائی تو دیکھا کہ انیلہ بیڈ پر سر تھامے بیٹھی تھی اور اس نے ناگواری سے اسے دیکھا۔ عاصم بغیر کچھ کہے وارڈروب سے کپڑے نکال کر باتھ روم میں چلا گیا۔فریش ہو کر وہ سیدھا کچن میں گیا، جو اس قدر صاف تھا جیسے آج وہاں کسی نے جھانکا بھی نہ ہو۔ یہ دیکھ کر اس کے غصے کی شدت بڑھ گئی۔ فائق صوفے کی بیک سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ جانے وہ کب سے بھوکا تھا۔جلدی تیار ہو جاؤ۔ آج ہم سمندر کی سیر کریں گے اور پھر اچھا سا ڈنر کریں گے۔ عاصم نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے مسکراتے لہجے میں کہا اور فائق کو اس کے کمرے کی طرف دھکیل دیا۔
*********
بابا، میں ماما کو بھی بلالوں؟ انہوں نے بھی صبح سے کچھ نہیں کھایا۔ فائق اجازت لیتے ہوئے اپنے اندر ہمت جمع کر رہا تھا کہ عاصم بول اٹھا۔نہیں میری جان، ماما ابھی اداس ہیں، ناں؟ وہ تمہیں ڈانٹ دیں گی، اس لیے انہیں رہنے دو۔ ہم ان کے لیے کھانا پیک کروا کے لے آئیں گے، ٹھیک ہے؟ عاصم کی بات سن کر فائق نے سر تسلیم خم کیا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔ جبکہ عاصم کا ذہن پراگندہ سوچوں کی آماجگاہ بن گیا۔ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے کے بعد فائق چہکنے لگا تھا۔ گھر پہنچتے ہی عاصم نے پیک شدہ کھانے کا بیگ اٹھایا اور انیلہ کے پاس لے آیا۔ تم آخر میرا پیچھا چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ میں کوئی نوکر نہیں ہوں کہ تمہیں پکا پکا کے کھلاتی رہوں۔ دفع ہو جاؤ یہاں سے، اور بند کر دو یہ لائٹ۔ مجھے روشنی نہیں چاہیے۔ گھٹنوں میں سر دیے، وہ دھاڑتے ہوئے بولی۔فائق اس کی بات سن کر کانپ گیا۔ عاصم کے قدم وہیں تھم گئے۔ماما، ہم تو آپ کے لیے کھانا لائے تھے۔ آپ کچھ کھا لیں، آپ صبح سے بھوکی ہیں۔ فائق نے ہچکچاتے ہوئے کھانے کا بیگ بیڈ پر رکھا۔ عاصم بھی آہستہ قدم اٹھاتا ہوا کمرے کی دہلیز پر آ کھڑا ہوا۔انیلہ نے گھٹنوں سے سر اٹھایا اور غصے سے پہلے فائق اور پھر عاصم کو گھورا۔تم لوگ یہ دکھانا چاہتے ہو کہ میں بہت بری ہوں؟ کہ میں تم لوگوں کے لیے کھانا نہیں بنا سکتی؟ یہی ثابت کرنا چاہتے ہو، ناں؟ میں بری ہوں، میں اچھی ہو بھی کیسے سکتی ہوں؟ میں اپنے باپ کی محنت سے بنائی گئی جائیداد اور وہ گھر جہاں میرا بچپن گزرا، وہ نہیں بچا پا رہی۔ ہاں، میں بری بیٹی ہوں۔ اور جو بری بیٹی ہو، وہ اچھی ماں اور بیوی کیسے ہو سکتی ہے؟وہ ہذیانی انداز میں چیخ رہی تھی۔ مسلسل ذہنی دباؤ نے اس کے اعصاب کو مفلوج کر دیا تھا۔ فائق ڈر کے اپنے کمرے کی طرف بھاگ گیا۔کیوں اپنی فرسٹریشن ایک معصوم بچے پر نکال رہی ہو؟ یہ کیوں نہیں کہتی کہ تم مجھ جیسے مڈل کلاس شخص کے ساتھ آسائشوں سے محروم زندگی گزارنے سے تھک گئی ہو؟ اسی لیے اب باپ کی جائیداد کے لیے یوں مری جا رہی ہو کہ اپنی ناکامیوں کا غصہ ایک بچے پر نکال رہی ہو۔عاصم نے اشتعال آمیز لہجے میں کہا اور کمرے سے نکل گیا۔ انیلہ حیرت سے اسے دیکھتی رہ گئی۔عاصم بھی اسے نہیں سمجھ سکتا تھا۔ انیلہ نے اپنے والد کو کھو دیا تھا، اور اب وہ اپنے والدین کی یادوں سے بھرے اس گھر کو بھی کھونا نہیں چاہتی تھی، جہاں اس کا بچپن گزرا تھا۔ وہ اپنے والد کی کمائی ہوئی ایک ایک چیز کو بچانا چاہتی تھی کیونکہ ان چیزوں میں اس کے والد کا خون پسینہ شامل تھا۔ یہ بے چینی اور درد اس کی روح پر بوجھ بنے ہوئے تھے۔ عاصم کی باتوں نے اس کے دل کو مزید چیر دیا۔ اسے لگا کہ امید کے سب جگنو اس کی دسترس سے پرواز کر گئے ہیں۔ دل کی گہرائیوں میں اترے درد نے اسے زار و قطار رونے پر مجبور کر دیا۔رات آنکھوں میں کٹ گئی۔ فجر کی اذان گونجی تو وہ سرعت سے اٹھ کر وضو کرنے لگی۔ نماز پڑھتے ہوئے اس نے روتے ہوئے سکون کی دعا مانگی۔ کچھ سکون محسوس ہوا تو وہ بالکونی میں آ گئی۔باہر اداسی کی چادر اوڑھے خاموشی کا راج تھا۔ اس کی نظر سنسان سڑک پر دور سے آتی ایک بچی پر پڑی۔ سرخ میلے فراک میں ملبوس وہ بچی گلابی گڑیا جیسی لگ رہی تھی۔ کاندھے پر کوڑے سے بھری میلی بوری اٹھائے وہ ننھی سی جان تھکن سے چور تھی۔ زرد دوپٹے کے ہالے میں اس کی سپید رنگت پیلی پڑ رہی تھی۔وہ بچی اس کے گھر کی پچھلی گلی میں آ کر بیٹھ گئی۔ بچی نے آسمان پر ٹمٹماتے ستاروں کو دیکھتے ہوئے سرگوشی کی۔اللہ تعالی، یہ گھر کتنا پیارا ہے۔ یہ لوگ کتنے امیر ہوں گے۔ کینسر جیسی بیماری تو امیروں کو لگتی ہے، ناں؟ میری اماں کو کیوں لگ گئی؟ وہ تو میری طرح کوڑا چنتی ہیں۔ ہم کیسے کرائیں یہ مہنگا علاج؟اس ننھی سی شازیہ کی معصوم باتیں سن کر انیلہ کی آنکھیں بھر آئیں۔ بچی اپنی میلی بوری میں سے گلے سڑے پھل نکال رہی تھی اور انیلہ یہ منظر بے بسی سے دیکھ رہی تھی۔
*********
ڈاکٹر نے کہا ہے کہ امی کو روز ایک ہزار کا ٹیکہ لگے گا، مگر یہ نہیں بتایا کہ لگوائے گا کون۔ ابا تو نشے کی نذر ہو کر مر گیا، اور ایک ہزار۔ اللہ تعالیٰ، ایک ہزار تو اتنے زیادہ پیسے ہیں کہ میں نے کبھی اکٹھے دیکھے بھی نہیں۔ اب امی کو ٹیکہ کیسے لگواؤں یہ آپ سوچ کر بتائیے۔ہوا کے دوش پر اڑتی یہ سرگوشی انیلہ کے لیے نئی آگاهی کے دروازے کھول رہی تھی۔ وہ جس خود ساختہ دکھ کا ماتم کرتے ہوئے خود فراموشی کی کیفیت میں گم تھی، اس بچی کا دکھ تو اس کے ہر گمان سے بہت زیادہ تھا۔ حیرت سے وہ دیکھتی رہی، ننھی بچی ادھ کھایا کیلا غریبانہ خوشی سے کھا رہی تھی اور اپنے اللہ سے بات کرکے جیسے مطمئن ہو گئی تھی۔انیلہ بالکونی سے فیصلہ کن انداز میں ہٹی اور جلدی سے اپنے پرس سے ہزار روپے کا نوٹ نکالا۔ اسے حقیقتاً ایسا لگا کہ شاید یہ نوٹ اس کے لیے کسی اور کی زندگی بدل دے گا۔ وہ جلدی سے نوٹ بالکونی سے نیچے پھینک کر اپنی جگہ واپس جا کر بیٹھ گئی۔ نوٹ شازیہ کی بھری ہوئی چیزوں کے تھیلے پر گرا۔ شازیہ نے حیرت سے آنکھیں مل کر دیکھا اور پھر اِدھر اُدھر کسی ذی روح کو ڈھونڈنے لگی۔ لیکن جب کوئی نظر نہ آیا، تو وہ اپنی جگہ بیٹھ گئی۔اللہ تعالی، امی کہتی تھیں کہ آپ کبھی نہ کبھی ہماری ضرور سنتے ہیں۔ مگر آج آپ نے واقعی میری سن لی، مجھے اندازہ نہیں تھا۔ شکریہ اللہ جی، آج میں ڈاکٹر بی بی کو گھر لے جاؤں گی، شکریہ۔شازیہ نے جلدی سے باقی گلے سڑے پھل تھیلے میں رکھے اور خوشی سے بھری قدموں کے ساتھ وہاں سے چل دی۔اس کے لہجے کی خوشی اور اطمینان جیسے انیلہ کو اندر تک سکون دے گئی۔ وہ سوچتی رہی کہ کس طرح وہ اپنے خود ساختہ دکھوں میں گم ہو کر ان چھوٹے چھوٹے معجزوں کو نظرانداز کر رہی تھی۔ اسی دن، انیلہ نے کافی عرصے بعد گھر میں کھانا بنایا، کام والی کے ساتھ صفائی کروائی، اور خود کو تروتازہ کیا۔اب وہ عاصم اور فائق کا انتظار کر رہی تھی۔چل بھئی، میرا شیر، جلدی سے منہ ہاتھ دھو لے، پھر میں تیرے لیے لنچ لاتا ہوں۔ کیا کھائے گا آج میرا بیٹا۔ عاصم فائق کا بیگ تھامے، لاؤنج میں داخل ہوا۔لزانیہ کھاؤں گا آج۔ ریسٹورینٹ والے ماما جیسا مزیدار لزانیہ تو نہیں بناتے، پھر بھی ٹھیک ہوتا ہے۔ فائق کے بجھے لہجے نے کچن میں سب سنتی انیلہ کو دکھ دیا۔کوئی ضرورت نہیں آج باہر سے کھانا لانے کی۔ میں نے کھانا بنا لیا ہے۔ جلدی سے فریش ہو جاؤ، میں کھانا لگاتی ہوں۔کچن سے نکلتے ہوئے انیلہ نے دونوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ ماما، آپ کو کیسے پتا چلا کہ آج میرا لزانیہ کھانے کا موڈ ہے۔ فائق نے خوشی سے کھاتے ہوئے پوچھا۔عاصم کی پلیٹ میں بریانی سرو کرتے ہوئے انیلہ کے ہاتھ کانپنے لگے۔ عاصم نے اس کا مرجھایا ہوا چہرہ دیکھا۔مجھے نہیں پتا تھا، فائق۔ بس تمہارا فیورٹ تھا، اس لیے بنایا۔ ورنہ میں تو اپنے جنون میں سب کچھ بھول گئی تھی۔معاف کرنا، میرے بیٹے۔انیلہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، اور اس بار اس نے انہیں روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ریلیکس انیلہ۔ یہ تمہاری غلطی نہیں۔ حالات نے ہی عجیب رخ بدل دیا ہے۔ لیکن اب ہم حالات کا سامنا کریں گے، اور دیکھنا سب ٹھیک ہو جائے گا۔ عاصم نے نرمی سے کہا۔ماما، میں نے آپ کو اداس کر دیا، ناں؟ چلیں، میں آپ کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتا ہوں۔فائق نے اپنی جگہ سے اٹھ کر انیلہ کی پلیٹ میں بریانی منتقل کی اور اصرار کے ساتھ اسے کھلانے لگا۔ انیلہ سوچتی رہی کہ اس کا معصوم بیٹا اس کی ذرا سی توجہ پر کیسے کھل اٹھا تھا۔اسی وقت انیلہ کا موبائل بجا۔ فون سن کر وہ چند لمحوں کے لیے گم صم ہو گئی۔کیا ہوا انیلہ خیریت تو ہے؟ کس کا فون تھا؟ عاصم نے فکرمندی سے پوچھا۔شمال انکل کے بیٹے فرحان کی کال تھی۔ کمال انکل کو ہوش آ گیا ہے۔ تم نے سنا، عاصم؟ وہ کومے سے باہر آ گئے ہیں۔ اللہ نے معجزہ کر دیا۔ اب ہم یہ کیس نہیں ہاریں گے۔خوشی سے کھنکتی آواز کے ساتھ انیلہ جلدی سے وضو کرنے چلی گئی۔ چند ہی لمحوں میں وہ رب کے حضور سجدہ شکر ادا کر رہی تھی۔
*********
دوسرے دن انیلہ اس بچی کا پیچھا کرتی اس چھٹی تک جا پہنچی جہاں کسمپرسی کے عالم میں خستہ حال چار پائی پر پڑی عورت حقیقت میں موت سے زندگی کی جنگ لڑ رہی تھی – انیلہ کو اس کی حالت دیکھ کر شدید دکھ ہوا، اور اس نے دل میں اس کی مدد کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ اب یہ اس کا معمول بن گیا تھا کہ وہ گاہے بگاہے پھل، دوائیں اور موسم کے مطابق کپڑے لے کر وہاں جاتی تھی۔ اس کی ان عنایات پر بختاں کی تشکر سے بھیگی ہوئی آنکھیں گویا انیلہ کے دل سے تمام غم چرا لیتیں۔ واقعی، رب کی بے کس مخلوق کی مدد کرنے پر ایسے معجزے بھی ہو جاتے ہیں جن کی انسان کبھی امید نہیں رکھتا۔انیلہ نے دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ فیس بک پر ایک کمپین شروع کی۔ اس نے مخیر حضرات کو بختاں اور شازیہ کی جھگی تک پہنچانے کا تہیہ کر لیا۔ اس کے لاشعور میں کی گئی نیکی کے انعام کے طور پر اللہ نے ان کی واحد امید، کمال یزدانی، کو اندھیروں کی دنیا سے نکال کر ہوش و خرد بخشا۔ اللہ اس کی دانستہ کی گئی نیکی کو مزید رنگ دینے والا تھا، اور یہ سوچ کر انیلہ کا دل خوشی سے سرشار ہو جاتا۔وہ یہ سوچ کر پرجوش تھی کہ کمال انکل کے پاکستان آتے ہی وہ ان سے اصل کاغذات حاصل کرکے عدالت میں جمع کرائے گی اور کیس کا رخ اپنی طرف موڑ لے گی۔ لیکن وہ اس حقیقت سے بے خبر تھی کہ زندگی ابھی اس کے لیے مزید حیرتوں اور سرپرائزز کا سامنا لے کر کھڑی ہے۔
*********
وہ ایک عام سا دن تھا جب ڈور بیل بجنے پر انیلہ نے دروازہ کھولا، اور سامنے کھڑی شخصیت کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس کے سامنے لیاز ولا کی کیئرٹیکر فیروزاں بی کھڑی تھیں۔ وہی فیروزاں بی جن کی گود میں انیلہ نے اپنا بچپن گزارا تھا۔ انیلہ کافی دیر ان کے گلے لگ کر روتی رہی، پھر انہیں لے کر اندر آ گئی۔بیٹی، بڑی مشکل سے تمہارا گھر ملا۔ اللہ بھلا کرے حفیظ کا، جس نے مجھے تمہارا ایڈریس دیا۔ تم تو جانتی ہو، اس مکار عورت نے سب نوکروں کو نکال دیا تھا، فیروزاں بی نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا اور ڈرنک کا گلاس تھام لیا۔میری فیروزاں بی، وہ عورت مکار ہے اور اسے وفاداری کی سزا آپ سب کو دی، مگر دیکھنا، وہ کچھ بھی حاصل نہیں کر پائے گی، انیلہ نے عزم سے کہا۔ایسی عورت کو کچھ ملنا بھی نہیں چاہیے۔ جس طرح اس نے ایاز صاحب کو بیماری کے عالم میں دوا دینے کے بجائے کمرے میں بند کر دیا تھا، وہی ان کے فالج کی بھی ذمہ دار تھی۔ میں نے تو یہ تک سنا تھا کہ وہ انہیں سلو پوائزن دے رہی تھی، فیروزاں بی کے لہجے میں غم اور نفرت جھلک رہی تھی۔یہ آپ سے کس نے کہا؟ پاپا کو تو ہارٹ اٹیک ہوا تھا، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انہیں زہر دیا جاتا رہا ہو اور کسی کو خبر بھی نہ ہوئی؟ انیلہ نے حیرت سے پوچھا۔بیٹی، یہ حقیقت ہے۔ میں نے خود اسے فون پر کسی سے یہ بات کرتے سنا تھا۔ میں نے اعتراض بھی کیا، مگر اس نے مجھے نوکری سے نکال دیا۔ غریب کی بات کون سنتا ہے؟ میں بھی خاموش ہوگئی، فیروزاں بی نے آنکھوں میں نمی لیے کہا، اور انیلہ گہرے صدمے میں چلی گئی۔فیروزاں بی، انسان کتنا عجیب ہے۔ دولت اور جائیداد کے پیچھے انسانوں سے زندگیاں چھین لیتا ہے، حالانکہ یہ سب کچھ فانی ہے اور قبر میں ساتھ نہیں جاتا۔ پھر بھی یہ سب کچھ انسان کی انسانیت سے زیادہ قیمتی بن جاتا ہے، انیلہ کے لہجے میں دکھ اور کرب تھا۔ فیروزاں بی کافی دیر تک اسے تسلی دیتی رہیں، لیکن باپ کی وفات کا زخم پھر سے ہرا ہو گیا تھا۔ دو دن کے اندر کمال یزدانی اصل کاغذات لے کر پہنچ گئے تھے۔ ان کاغذات کے مطابق، ایاز ملک کی ساری جائیداد انیلہ اور عاصم کے نام تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ ایاز صاحب نے بہت پہلے اپنی جائیداد اپنی بیٹی کے نام کر دی تھی اور کمال یزدانی کو اس کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی تھی۔ کمال یزدانی کئی سال انیلہ کو تلاش کرتے رہے، پھر لندن چلے گئے، جہاں ایک حادثے کے بعد کومے میں چلے گئے۔ وقت نے انہیں یہ امانت حق دار تک پہنچانے کا موقع دیا، اور وہ اپنی حالت کی پروا کیے بغیر پاکستان پہنچ گئے۔آج انیلہ نے اپنا کیس جیت لیا تھا اور سرخرو ہو چکی تھی۔ عدالت میں فضیلت پر ایاز صاحب کے قتل کا جرم ثابت ہو گیا، اور اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ انیلہ کو وہ سب کچھ مل گیا جس کی وہ چاہت رکھتی تھی، مگر اب اس کی خواہشات رب کی مرضی سے ہم آہنگ ہو چکی تھیں۔چند ہی ماہ میں، ایاز ولا کے باہر دارالسکون کا بورڈ لگ چکا تھا، جو بے گھر لوگوں کے لیے پناہ گاہ بن چکا تھا۔ ایاز صاحب کا کاروبار ان کے قابل بھروسہ منیجر آفاق صاحب دیکھ رہے تھے، اور اس کاروبار سے دارالسکون، ایک این جی او، اور ایک اسکول چلایا جا رہا تھا، جس کی نگرانی انیلہ اور عاصم خود کرتے تھے۔ اللہ نے ان پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیے تھے۔ ان کی آمدنی میں اس قدر اضافہ ہوا کہ وہ ایک اسپتال تعمیر کروا رہے تھے۔انیلہ نے جب سے زندگی کے راز کو پا لیا تھا، سکون اور اطمینان اس کی میراث بن چکے تھے۔ بے شک، انسان جو عمل کرتا ہے، وہی اسے پلٹ کر ملتا ہے، خواہ وہ دھوکہ ہو یا خیر۔