ایک دفعہ میں نے ایک سپاہی کے نوخیز فرزند کو دیکھا کہ کمال درجے کا ذہین اور فطین تھا، بچپن ہی سے برائی کے آثار اس کی پیشانی سے ظاہر تھے۔ اس کے سر پر ہوش مندی کی وجہ سے بڑائی کا ستارہ چمک رہا تھا۔ بادشاہ نے اس کی غیر معمولی ذہانت اور فراست کا چر چاسنا تو اس کو اپنے دربار میں ایک اعلیٰ مرتبہ پر فائز کر دیا۔ دوسرے درباری اس سے حسد کرنے لگے اور بادشاہ کی نظروں سے اس کو گرانے کے لیے ایک دن اس پر خیانت کی تہمت لگادی، لیکن جب دوست مہربان ہو تو دشمن کیا کر سکتا ہے۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ یہ لوگ تم سے کیوں ناراض ہیں۔ نوجوان نے عرض کیا کہ جہاں پناہ جب سے غلام آپ کے زیر سایہ آیا ہے میں نے ہر شخص کو راضی کر لیا ہے۔ البتہ حاسدوں کو میں خوش نہ کر سکا۔ کیوں کہ ان کا دل تو اسی وقت ٹھنڈا ہو سکتا ہے۔ جب حضور مجھے ذلیل کر کے اپنے در سے دھتکار دیں۔ میں یہ تو کر سکتا ہوں کہ کسی کی دلآزاری نہ کروں۔ لیکن حاسد کا کیا کروں وہ تو یوں ہی جل رہا ہے۔
اے حاسد ! تو مر جا کہ یہ جلنا کڑھنا تو ایسا ہے کہ اس کی تکلیف سے صرف موت ہی تجھے نجات دلا سکتی ہے۔