منزہ کالج میں نئی نئی آئی تو آتے ہی اس نے بہت سی لڑکیوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ دراصل وہ بڑی شوخ اور چنچل تھی۔ کلاس میں اس کی شوخیاں دوسروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلیتی تھیں۔ کالج کے کچھ منچلے طالب علموں کو بھی اس نے اپنی جانب متوجہ کرلیا تھا جو اس کے حسن کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے۔
جب کوئی فری پیریڈ ہوتا، وہ اس کی قربت حاصل کرنے کو اردگرد منڈلانے لگتے لیکن اس لڑکی کا تخیل تو آسمان کی بلندیوں میں پرواز کررہا تھا، پھر یکدم بہت سی توجہ پا کر وہ خود ستائی کا شکار ہوگئی۔ اس کا خیال تھا اتنے بہت سے لوگ مجھ پر مرتے ہیں۔ جب جس کو چاہوں گی، حاصل کرلوں گی۔
ادھر حسن اپنی مثال آپ تھا۔ وہ اپنے نام کی لاج تھا۔ اس کا حسن لڑکیوں کی آرزو بن گیا تھا۔ جس لڑکی سے بات کرلیتا، وہ بس ہوائوں میں اُڑنے لگتی تھی۔
منزہ بھی تواپنے نام کی لاج تھی۔ اس کی صورت، رکھ رکھائو، بے نیازی، کبھی نخوت تو کبھی شوخی اور شرارت اوپر سے اس کی بذلہ سنجی…! یہ سبھی اوصاف حسن کو بھا گئے۔ ادھر حسن کی مردانہ وجاہت نے اس پری جمال کا دل موہ لیا اور یوں حسن عشق کے در کا سوالی ہوگیا۔
حسن نے منزہ سے وعدہ کرلیا کہ تعلیم مکمل ہوتے ہی وہ اسے اپنا لے گا لیکن تعلیم مکمل ہوتے ہی منزہ گھر میں محصور ہوگئی کیونکہ کالج کا دور تمام ہوگیا تھا اور اب وہ گھر بیٹھ گئی تھی تبھی دونوں کا ملنا محال ہوگیا۔
چچا نے بیٹی کی شادی کیلئے تاریخ مانگی تو حسن کو ہوش آیا کہ اس کی منگنی بچپن میں چچازاد آسیہ سے طے ہوچکی تھی تاہم اس کے دل میں اپنی منگیتر کے لیے محبت کے جذبات موجود نہیں تھے کیونکہ دونوں کو کبھی قریب آنے کا موقع ہی نہ ملا تھا۔ یہی سبب تھا کہ اس کے ذہن پر آسیہ کی شخصیت کے کچھ گہرے نقش ثبت نہ ہوسکے تھے جبکہ منزہ کے ناز و نخرے، گہرے شوخ اور کبھی نہ بھولنے والے تھے۔ حسن دل سے اسے اپنانا چاہتا تھا مگر ملاقات کی دشواری نے اس کے دل کا قرار لوٹ لیا تھا، تبھی آہستہ آہستہ محبت کے رنگ پھیکے پڑنے لگے۔
ادھر گھر والوں نے شدید دبائو ڈالا تو حسن کو سنجیدگی سے اس معاملے پر سوچنا پڑا۔ رشتہ داری کا معاملہ تھا، آسیہ سگے چچا کی بیٹی تھی۔ سبھی نے حسن کو سمجھایا کہ انکار کی صورت میں رشتے داری ٹوٹ جائے گی، غرض وہ یوں حالات کے شکنجے میں کستا گیا کہ بالآخر ایک روز اسے گھر والوں کی مرضی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑ گئے۔ سب اسے یہی سمجھاتے اور باور کراتے رہتے تھے کہ محبت کچھ نہیں، بس ایک بے نام سا جذبہ ہے۔ یہ وقتی اور جلد بھلا دینے والا جذبہ ہوتا ہے۔ منزہ سے لگائو بھی جذبات کا کھیل تھا اور کچھ نہیں …!
لڑکے دل لگی کرتے ہیں تو وقت لڑکیوں کے گھائو پر مرہم رکھ دیا کرتا ہے۔ دیکھ لینا منزہ بھی جلد تمہیں بھول جائے گی، شادی ہوجائے گی تو چند دنوں میں ہی سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور آسیہ بیوی بنے گی تو اس کی ادائیں ازخود دل جیت لیں گی۔
جب منزہ کو حسن کی شادی کی خبر ملی، اس کے دل کا شیشہ چکناچور ہورہا۔ وہ یہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ اس جیسی من موہنی کو کوئی ٹھکرا بھی سکتا ہے۔ اس کے دل میں رقابت کے الائو جل اٹھے۔ سوچنے لگی کہ میری نسوانیت اور محبت کی توہین حسن نے کس آرام اور سکون سے کی ہے کہ خود شادی کرلی اور میری دنیا اجاڑ کر رکھ دی اور خود وہ چین کی بانسری بجا رہا تھا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔
دو آنسو بہا کر وہ دعا دینے والی لڑکی نہ تھی کہ کہتی میرا محبوب سدا خوش رہے اور خوشیوں کے پھول سمیٹتا رہے۔
وہ اپنی اس ہتک کو قیامت تک نہ بھلا سکتی تھی۔ انتقام کی آگ جوالا مکھی بن کر اس کے وجود میں دہک اٹھی۔ منزہ ان دنوں سخت مضطرب تھی۔ ایک دن میرے پاس آئی اور مجھے کہا کہ جب تک میں حسن کی جنت کو اُجاڑ نہ دوں گی، چین سے نہ بیٹھوں گی، اس بات کا میں نے تہیہ کرلیا ہے۔ میں نے اپنے طور پر اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے سے باز رہے۔ اسے کہا کہ انتقام کی آگ اگر دوسرے فریق کو برباد کرتی ہے تو اس سے پہلے انتقام لینے والا خود اپنی آگ میں جھلستا رہتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ بدلے کی آرزو خود تمہارے لیے ایک سزا بن جائے لیکن اس کے دل میں ایک ہی دھن تھی۔ سو اس نے میری باتوں پر کان نہ دھرا۔
اس کے بعد وہ احمر کے فرضی نام سے آسیہ کو خطوط بھجوانے لگی۔ وہ بیچاری سیدھی سادی لڑکی تھی، ایسے پینتروں سے نمٹنا نہیں جانتی تھی لہٰذا شوہر کی بدگمانی کے خوف سے وہ ہر بار یہ خطوط چھپا لیتی، پھر پڑھ کر چولہے میں ڈال دیتی۔ سمجھ رہی تھی جو بھی یہ مذموم حرکت کررہا ہے، بالآخر کچھ دنوں بعد جواب نہ پا کر مایوس ہوجائے گا تو ان خطوط کا سلسلہ آپ ہی بند ہوجائے گا۔
اتفاق یہ کہ آسیہ سے بھی میری اچھی دوستی ہوگئی تھی۔ وہ اچھی لڑکی تھی اور جلد ہی میرا خلوص دیکھتے ہوئے مجھ پر بھروسا کرنے لگی تھی۔ اس نے مجھ سے مشورہ کیا۔ میں نے کہا کہ ایسا کب تک کرو گی، ڈرو نہیں بلکہ ان خطوط کا تذکرہ اپنے شوہر سے کردو اور یہ بات اس کے علم میں لے آئو کہ کوئی تم کو بلیک میل کرنے کی کوشش کررہا ہے، اس سے پہلے کہ گیٹ پر گرا ہوا کوئی خط اس کے ہاتھ لگ جائے۔
آسیہ نے ایک خط مجھے پڑھوایا جس میں تحریر تھا کہ تم نے حسن سے شادی کرکے بے وفائی کی ہے اور اس بے وفائی کا درد اب مجھے بے چین رکھتا ہے۔ خدارا جلدی ملو ورنہ میں تمہارے در پر آکر جان دے دوں گا۔ فقط تمہارا احمر…!
میں بھی یہ خط پڑھ کر پریشان ہوگئی۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آسیہ کو کیا مشورہ دوں اور اس مسئلے کا کیا حل نکالا جائے۔ مجھے یقین تھا کہ آسیہ بے قصور اور معصوم تھی۔ یقینا کوئی اس کا بدترین دشمن تھا جو اس کا گھر اُجاڑنا چاہتا تھا۔ کئی بار مجھے منزہ کا خیال آیا لیکن میں نے اسے اپنے ذہن سے جھٹک دیا کہ اس نے جذباتی ہوکر انتقام والی بات کہی ہوگی ورنہ اس جیسی سمجھ دار اور سنجیدہ لڑکی ایسی حرکت نہیں کرسکتی۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ انتقام میں اندھی ہوچکی ہے اور حسن کا گھر اُجاڑنے کے لیے کسی حد تک بھی جاسکتی ہے۔
میں نے مشورہ دیا کہ تم دو چار خطوط محفوظ رکھو اور معلوم کرنے کی کوشش کرو کہ کون یہ خطوط بھیجتا ہے۔ شوہر کو بھی دکھائو تاکہ وہ اس معاملے کا کھوج لگانے میں معاون ہوں۔ بیچاری آسیہ نے یہی کیا۔ اس نے چند خطوط اپنی الماری کے سیف میں رکھ کر الماری کو تالا لگا دیا تاکہ کسی چھٹی کے دن جب اس کے شوہر کا موڈ خوشگوار ہو تو مناسب طریقے سے اعتماد میں لے کر اس سے بات کرے اور ساری بات بتا دے۔
یہ خطوط ایسے وقت میں کوئی گھر کے اندر دروازے کے نیچے سے ڈال جاتا تھا جب حسن گھر میں موجود نہ ہوتا تھا۔ پہلا خط اسے ملا تو اس کے بعد وہ چوکنی رہنے لگی تاکہ ہر خط اسی کے ہاتھ لگے، کوئی اور نہ اٹھا لے کیونکہ وہ بدنامی سے خوف کھاتی تھی۔
گھر میں حسن اور اس کے علاوہ وہ ایک ملازم لڑکا رہتا تھا، پھر ملازمہ تھی جو دوپہر کو آجاتی اور کام کاج سے فارغ ہوکر شام پانچ بجے چلی جاتی تھی۔ یہ دونوں اَن پڑھ تھے۔ جو خط یا بل وغیرہ ہوتے، یہ لا کر آسیہ کو ہی دیتے تھے۔
اس سلسلے میں وہ اس قدر پریشان تھی کہ اس نے سوچا حسن کو بتانے سے پہلے کیوں نہ اپنی کزن سے مشورہ لے۔ عابدہ اس کی بچپن کی سہیلی اور رازدار تھی۔ پس وہ ایک روز اپنی کزن عابدہ کے گھر چلی گئی۔ اسے معلوم تھا کہ حسن شام چار بجے سے قبل آفس سے گھر نہیں لوٹتا لہٰذا وہ صبح گیارہ بجے کے قریب گھر سے نکلی تھی تاکہ کسی طور اس ناگہانی مصیبت سے نجات حاصل کرنے کی ترکیب عابدہ سے پوچھے۔
شامت اعمال کہ اس دن کسی سبب حسن جلد گھر لوٹ آیا۔ اسے کچھ رقم کی ضرورت تھی۔ وہ جانتا تھا کہ رقم اس کی بیوی کے سیف میں موجود ہوتی ہے۔
آتے ہی آسیہ کو پکارا۔ وہ گھر میں ہوتی تو جواب دیتی تبھی، اس نے ملازم لڑکے دینو سے دریافت کیا۔
پتا نہیں بی بی کچھ بتا کر نہیں گئیں۔ لڑکے نے جواب دیا۔ ایسا پہلے کبھی آسیہ نے نہیں کیا تھا۔ اسے کہیں جانا ہوتا تو ضرور بتا کر جاتی تھی، حسن پریشان تو ہوا لیکن اس وقت خاموش ہورہا۔
حسن نے الماری کو کھولنے کی سعی کی مگر اسے تالا لگا ہوا تھا جبکہ آسیہ کی عادت تھی کہ وہ کسی الماری یا بکس وغیرہ کو تالا نہیں لگاتی تھی۔ بہرحال جھنجھلا کر شوہر نے الماری کا تالا توڑ دیا لیکن سیف بھی مقفل تھا۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد الماری کے کپڑوں کے نیچے سیف کی چابی مل گئی۔
سیف کھول کر اس نے رقم کے لیے اندر رکھی چیزوں کو جب الٹ پلٹ کیا تو ایک چھوٹے سے ڈبے میں وہ خطوط مل گئے جس کے بارے گمان بھی نہ تھا کہ ایسی جگہ گویا یہ ایٹم بم محفوظ رکھے گئے ہیں۔
حسن جوں جوں خطوط پڑھتا جاتا تھا، اس کا دماغ گھومتا جارہا تھا۔ وہ سمجھنے لگا کہ بیوی کے یوں گھر سے جانے اور الماری کو تالا لگانے کا کیا مطلب نکلتا ہے، تبھی وہ دفتر کو واپس نہ گیا اور گھر بیٹھ کر آسیہ کا انتظار کرنے لگا۔
آسیہ آئی تو شوہر کو منتظر پایا۔ وہ شرمندہ سی ہوگئی کیونکہ جب کہیں جاتی، ہمیشہ شوہر سے اجازت لیتی تھی، آج بن بتلائے غائب تھی تو کھسیانی سی ہورہی تھی جبکہ حسن کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا اور آنکھوں سے ایک سفاک فیصلہ مترشح تھا۔
مل آئیں احمر صاحب سے؟
یہ جملہ سن کر آسیہ کے ہوش اُڑ گئے۔ وہ بری طرح ڈر گئی۔
اس سے پہلے کہ اپنی صفائی میں زبان کھولتی، حسن نے خطوط اس کے سامنے کردیئے اور پوچھا۔ یہ کس کے محبت نامے آتے ہیں تمہارے نام…؟ اور کب سے آرہے ہیں؟ کب سے میری آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہو؟
آسیہ رونے لگی۔ اب کچھ کہتی بھی تو حسن کو کیسے یقین آتا۔ لب کھولنے چاہے تبھی اس نے کہا۔ بس بس اب کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، میری طرف سے تم آزاد ہو۔ جب چاہو ان احمر صاحب سے بیاہ رچا سکتی ہو جس کی تم محبوبہ ہو اب بھی…!
آسیہ نے لاکھ سر پٹخا مگر حسن نے ایک نہ سنی اور کھڑے کھڑے اسے گھر سے نکال دیا۔ ان دنوں وہ ماں بننے والی تھی۔ حسن نے اس ہونے والے بچے کو بھی مشکوک قرار دے دیا۔
شوہر کا اعتبار کھو کر وہ نیم پاگل سی ہوگئی۔ گھر سے نکلی تو اس قدر حواس باختہ تھی کہ سڑک عبور کرتے ہوئے تیزی سے گزرتی ٹریفک کے بیچ پھنس کر ایک برق رفتار گاڑی کی زد میں آگئی اور شدید زخمی ہوگئی۔ لوگوں نے اسپتال پہنچایا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکی اور بے ہوشی کے عالم میں ہی انتقال کرگئی۔
جب حادثے کی خبر اسپتال سے حسن کو ملی
تو وہ بے حد پریشان ہوا۔ اسپتال پہنچا مگر زندگی ہار چکی آسیہ نے ہمیشہ کے لیے اس سے منہ پھیر لیا تھا۔
اب اسے آسیہ کی آہ و زاری تڑپاتی تھی۔ سوچتا تھا کاش بیوی کی بات سن لیتا۔ لیکن حسن کی ناراضی بھی بے جا نہ تھی۔ اسے اس بات کا بے حد صدمہ تھا کہ آسیہ نے وہ خطوط اس قدر سنبھال کر کیوں رکھے! جانتا تھا آسیہ اس سے اتنی محبت کرتی ہے کہ اس کے بغیر جی نہ سکے گی لیکن یہ بات تو اس کے وہم و گمان میں نہ تھی کہ موت یوں آناًفاناً اسے اچک لے گی۔
آسیہ کی وفات کے سال بھر بعد بالآخر منزہ، حسن سے ملی اور اس نے بتا دیا کہ تمہاری بیوی بے قصور تھی۔ اسے وہ خطوط میں کسی سے لکھوا کر بھجواتی تھی، اسے ہراساں کرنے کے لیے اور تمہارا سکون اجاڑنے کی خاطر…! مجھے خبر نہ تھی کہ وہ اس کھیل میں جان سے چلی جائے گی۔
اب تو منزہ بھی پشیمان تھی اور حسن کی تو بری حالت تھی۔ اپنی پیاری اورباوفا بیوی کو جلد بازی میں گھر سے نکال کر جو ستم اس نے توڑا تھا، اس کا ازالہ کیونکر ممکن تھا۔ وہ بیچاری تو جان سے گزر کر وفا کے امتحان میں پوری اتر گئی تھی مگر حسن کے دل پر نہ مٹنے والا گھائو لگا گئی تھی۔
منزہ نے حسن سے بہت معافیاں مانگیں، پائوں پر پڑی، پرانی محبت کے واسطے دیئے، وعدے یاد دلائے جو حسن نے اس سے کئے تھے۔ التجا کی کہ اب مجھ سے شادی کرلو، تمہارے دل کے سب غموں کو بھلا دوں گی۔ ہر طرح سے سکون دوں گی، تم کو حاصل کرنے کی آرزو نے مجھے پاگل کردیا تھا، اب مجھے اپنا لو۔ پہلے بے وفائی تم ہی نے کی تھی۔
حسن پر اس کی باتوں کا کچھ اثر نہ ہوا۔ اس نے منزہ کی جانب سے نفرت سے منہ پھیر لیا۔ بددعا دی کہ خدا تم کو تمہاری صحت اور حسن سے محروم کردے جس طرح تم نے بے قصور آسیہ کو ہراساں کرکے اس کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔
آسیہ کے مرنے کا دکھ صرف حسن کو ہی نہیں ہم سب کو تھا۔ منزہ بھی افسردہ تھی کہ انتقام کی رو میں بہہ کر اس نے کتنی بڑی خطا کی تھی۔ وہ اب بھی خوش نہ تھی۔ حسن نے ایک بار پھر اسے ٹھکرا دیا تھا اس کا عشوہ، غمزہ، نخرہ کچھ بھی کام نہ آیا۔ اسی نے خود مجھے بھی حقیقتِ حال سے آگاہ کیا تھا۔
آج بھی وہ زندہ ہے مگر مُردوں سے برتر ہے۔ اب وہ کینسر کی مریضہ ہے اور زندگی کے آخری دن پورے کررہی ہے۔ ہوا کے ایک ہلکے سے جھونکے سے اس کی زندگی کا چراغ گل ہوسکتا ہے۔ آج وہ قدرت کے انتقام کی دھیمی دھیمی آنچ میں گیلی لکڑی کی طرح سلگ رہی ہے اور جب تک اس کے بدن سے سانس کی ڈور باقی ہے، وہ یونہی سلگتی رہے گی، یہاں تک کہ حیاتی کا آخری لمحہ نہ آجائے۔ خدا ایسی خطائوں سے سب کو بچائے جو کسی معصوم کی جان لے لیتی ہیں۔ سچ ہے انتقام کی آگ بُری ہوتی ہے۔ اس سے لاکھ ہمدردی رکھنے کے باوجود آج اس کے لیے کوئی کچھ نہیں کرسکتا … کاش وہ پہلے دن ہی میرے سمجھانے بجھانے پر دھیان دیتی تو معصوم آسیہ کی جان لینے کا عذاب اس کی گردن پر نہ آتا۔
(الف۔ ک … لاڑکانہ)