Sunday, April 20, 2025

Haye Yeh Bechargi | Teen Auratien Teen Kahaniyan

میں ایک بڑے ادارے میں کام کرتی تھی کہ بیٹے نے امریکا بلوا لیا۔ مجھے ملازمت کو خیرباد کہنا پڑا۔ کافی عرصے کے بعد پاکستان آنا ہوا تو ایک روز اس خاتون سے اتفاقیہ ملاقات ہوگئی جس کی کہانی رقم کررہی ہوں۔
اتوار کا دن تھا۔ آج پکانے کو جی نہ چاہا تو بہو نے کہا کیوں نہ باہر جاکر کچھ ہلکا پھلکا کھانا کھا لیں۔ ہم کھانا کھانے ایک معیاری ہوٹل میں آگئے۔ ابھی ہم نے کھانے کا آرڈر کیا ہی تھا کہ ایک خستہ حال عورت ہال میں گھس آئی اور منیجر سے جھگڑنے لگی۔ اگرچہ ہم دور بیٹھے تھے تاہم عورت کے جھگڑنے والے انداز کو دیکھ کر مجھے اس معاملے میں دلچسپی پیدا ہوگئی۔ آواز پوری طرح کانوں میں نہیں پہنچ پا رہی تھی، تبھی جذبۂ تجسس سے مجبور ہوکر میں کائونٹر کے پاس چلی گئی۔ وہ عورت بوسیدہ لباس میں ملبوس تھی۔ کافی عمر رسیدہ تھی اور منیجر سے تکرار کر رہی تھی کہ مجھے کھانا پیک کرکے دو۔ عورت کے چہرے کے نقوش بتا رہے تھے کسی اچھے خاندان سے تعلق ہے مگر حلیہ بتا رہا تھا کہ بچاری کے سارے سہارے غربت نے نگل لیے ہیں۔ بڑی بی کو کھانا کسی نے نہ دیا بلکہ دھتکار دی گئی تو وہ غصے میں آگئی۔ کم بخت نے کہا تھا دو وقت کا کھانا لے جانا، اب وہ بھی بند کردیا ہے۔ بتائو میرا گزارہ کیسے ہوگا۔ ہمارے مال پر یہ عیش کرے اور ہم بھوکے رہیں؟ میں نے منیجر کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ وہ خجالت سے بولا۔ یہ پگلی ہے۔ اس نے گارڈ کو خشمگیں نگاہوں سے گھور کر کہا۔ کیسے اندر آئی ہے؟ نکالو اسے۔ گارڈ ہچکچا رہا تھا۔ لوگ کھانا کھا رہے تھے اور وہ بوڑھی عورت کے ساتھ بدتمیزی سے پیش نہیں آسکتا تھا۔ اگر اُسے دھکے دیئے جاتے تو اس کے شور کرنے پر سارے کسٹمرز متوجہ ہوجاتے، ہوٹل کا ماحول خراب ہوجاتا۔ مجھے اس غریب پر ترس آگیا۔ مفلسی نے جسے کہیں کا نہ رکھا تھا۔ میں نے منیجر سے کہا۔ اسے کھانا دے دو اور رقم میرے بل میں شامل کردو، میں ادا کردوں گی۔ یہ روز آجاتی ہے میڈم! ایک دن کی بات نہیں ہے۔ غربت کا نہیں تو کم ازکم عمر رسیدگی کا ہی خیال کرو۔ اس طرح دھتکارنا ٹھیک نہیں ہے۔
اس نے بیرے کو بلا کر کہا۔ اسے کھانا پیک کرکے دے دو۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوا۔ اور بھی تو ہوٹل ہیں، یہ اکیلا ہوٹل تو نہیں ہے، پھر ہم ملازم ہیں یہاں میڈم، مجبور ہیں اور اس نے عادت بنا لی ہے۔ کھانا مل جاتا ہے نا، جب نہیں ملے گا تو کسی اور طرف جائے گی۔ یہ سن کر وہ آگ بگولہ ہوگئی۔ میں بھکارن نہیں ہوں، اپنے ہوٹل سے کھانا لیتی ہوں۔ کیا کہا…؟ میرے کان کھڑے ہوگئے۔ ہاں! یہ ہوٹل میرا ہے، میں مالک ہوں اس کی، دو وقت کا کھانا بھی میرا حق نہیں ہے کیا؟
اماں کیا کہہ رہی ہو؟ میں حیرت میں ڈوب گئی۔ لگا واقعی یہ پاگل ہے۔ منیجر بولا۔ میں نے کہا نا یہ پاگل ہے، روز یہی کہتی ہے۔ کھانا دو، کھانا دو، یہ ہوٹل میرا ہے۔ اب آپ ہی بتایئے کیا کریں ایسے پاگلوں کا۔ دھکے دینے کی بجائے کھانا دینا پڑتا ہے ورنہ لوگ ہمیں ہی برا بھلا کہیں گے۔ اتنے میں بیرا کھانے کا ڈبہ لے آیا۔ بڑھیا کے ہاتھ میں تھما کر بولا۔ اب جائو اور شور نہ مچائو۔
سنو! سیٹھ کا حکم ہے کہ کھانا لینا ہو تو پچھلی طرف سے لے لینا جدھر کچن ہے۔ ادھر نظر آئیں تو دھکے دے کر نکال دیں گے۔ وہ بڑبڑائی۔ دیکھ لوں گی تیرے سیٹھ کو۔ میں کوئی بھکارن نہیں، اپنا حق لینے آتی ہوں۔ گھر میں بچے بھوکے بیٹھے ہوں تو کیا کروں، اپنے ہوٹل سے کھانا بھی نہ لوں؟ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور باہر لے آئی۔ اماں! ادھر آئو میرے ساتھ اور مجھے بتائو کیا قصہ ہے؟ وہ بولی۔ سڑک پر کیا بتائوں، بات سننا چاہتی ہو تو میرے گھر آجائو۔ گھر کہاں ہے تمہارا اماں جی؟
زیادہ دور نہیں ہے۔ میں نے سڑک سے ہی بہو کو فون کردیا کہ تم کھانا کھانے کے بعد بچوں کو لے کر گھر چلی جانا، میں تھوڑی دیر بعد آجائوں گی۔ میں نے اپنی گاڑی میں اس کے ساتھ جانا مناسب نہ سمجھا اور ٹیکسی لے کر اس عورت کے ہمراہ اس کے گھر آگئی۔
وہ ایک بوسیدہ مکان تھا۔ دو جھلنگے پلنگ اور دو کرسیاں جو پرانے وقتوں کی تھیں، ایک ٹوٹی پھوٹی میز اور صوفہ اتنا پرانا کہ اس کا رنگ روپ اُڑ چکا تھا۔ اس نے مجھے اسی صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ فرش پر میلی سی دری بچھی تھی جس پر دو کمسن لڑکے بیٹھے تھے۔ کہنے لگی۔ یہ دونوں میرے نواسے ہیں، بیٹی کو بیوہ ہوئے سات سال ہوچکے ہیں، تب یہ بہت چھوٹے تھے جب باپ کے سائے سے محروم ہوئے۔ اسی وقت اس کی دونوں بیٹیاں برابر والے کمرے سے آگئیں اور مجھے سلام کرکے ایک طرف بیٹھ گئیں۔ بڑی ان بچوں کی ماں تھی جبکہ دوسری بیس بائیس برس کی لگتی تھی اور غیر شادی شدہ تھی۔
میں نے سب پر گہری نگاہ ڈال کر سوال کیا۔ تمہارا کوئی بیٹا نہیں ہے ماں؟ ہے تو لیکن وہ جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ اور یہ ہوٹل کا کیا قصہ ہے؟ یہ ہوٹل میرے شوہر کا ہے۔ وہ کافی مالدار تھے اور ہم عیش وآرام سے رہا کرتے تھے۔ بڑی بیٹی کی شادی کرنے کے بعد وہ وفات پا گئے اور پھر بیٹی بھی ان کی وفات کے پانچ سال بعد بیوہ ہوکر میرے پاس آگئی۔ ان دنوں بیٹا 14 سال کا تھا۔ اسے کسی بات کی عقل نہ تھی کہ باپ کا کاروبار، گھربار کی ذمہ داری سنبھالتا۔ باپ کے مرتے ہی اس نے اسکول جانا بھی چھوڑ دیا اور شفیق جو اب ہوٹل کا مالک بنا بیٹھا ہے، اس نے ہمدردی کا جال ہمارے گرد پھیلایا تو میں نے اعتبار کرکے اسے اپنا سچا غمگسار سمجھ لیا۔ یہ شفق کون ہے؟ میرے داماد کا دوست ہے۔ جب میرا داماد نثار حیات تھا، یہ اس کا بھائی بنا ہوا تھا اور اس کے ہمراہ ہمارے گھر آتا تھا۔ نثار کہا کرتا تھا۔ اماں! یہ بہت اچھا لڑکا ہے۔ میری خواہش ہے کہ تم شاہینہ کی شادی اس سے کردو۔ اس نے اپنی چھوٹی بیٹی کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ یہ ان دنوں سولہ برس کی بمشکل ہوگی۔ میں اپنے مرحوم داماد سے کہتی تھی۔ کچھ دن سوچنے دو، ابھی شاہینہ بھی چھوٹی ہے، اسے میٹرک کرلینے دو، پھر فیصلہ کروں گی۔
نثار کی زندگی کم تھی۔ اس کی وفات کے بعد ہم تینوں کے سر سے مردوں کا سایہ اٹھ گیا اور یہ دونوں بچے یتیم ہوگئے تو شفیق ہم سے ہمدردی جتلانے آنے لگا۔ بچے اسے چچا کہتے تھے اور وہ کہتا تھا کہ میں مرحوم نثار کا بھائی بنا تھا تو اب بھی اس کا بھائی بن کر دکھائوں گا۔ ان بچوں کا حقیقی چچا بن کر دکھائوں گا۔ بس بیٹی! وہ ہمارے چھوٹے موٹے مسئلے حل کرتا اور ہم اس کا انتظار کرتے کہ شفیق آئے تو ہمارے کام ہوں جو ہم عورتیں نہ کرسکتی تھیں۔
میرا خیال تھا کہ میں شاہینہ کی شادی شفیق سے کردوں گی۔ داماد کی صورت میں بیٹا مل جائے گا جبکہ میرا اپنا بیٹا ریحان تو اس لائق نہ تھا کہ ہمارے کام آتا۔ وہ باپ کے مرتے ہی ہمارے ہاتھوں سے نکلنے لگا۔ اسکول چھوڑ کر آوارہ گردی میں لگ گیا۔ میں شفیق سے کہتی۔ تم میرے بیٹے ہو، تم کسی طرح ریحان کو دوبارہ تعلیم کی طرف راغب کرو۔ یہ کچھ پڑھ لکھ جائے گا تو ہمارے کنبے کو سنبھالے گا۔
شفیق تسلی دیتا۔ اماں! تم فکر نہ کرو، سب کچھ مجھ پر چھوڑ دو۔ میں اس کو راہ راست پر لے آئوں گا۔ اسے دوبارہ اسکول میں داخل کرائوں گا۔ تمہارے سب خواب میں پورے کروں گا۔ بیٹا ہوں میں تمہارا، مجھ پر بھروسہ کرو۔ بیٹی! یوں اس شخص نے پہلے ہمارے دلوں میں گھر کیا اور پھر ہمارے گھر میں گھس بیٹھا۔ میں نے ہوٹل کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تو اس نے ہوٹل کو سنبھالنے کا بھی ذمہ اٹھانے کی ہامی بھر لی۔ سوچا کہ یہ کچھ دے گا تو ہم معاشی بحران سے بچ جائیں گے۔ ہوٹل بند ہوگیا تو پھر کیا کھائیں گے اور گزارہ کیسے ہوگا۔
ریحان کو کنٹرول کرنے کی بجائے اس نے اسے بری راہ پر لگا دیا۔ وہ نشہ کرنے اور جوا کھیلنے لگا اور یہ گھر کا سربراہ بن گیا۔ شروع میں ہوٹل کی ساری کمائی میرے سامنے رکھ دیتا اور کہتا۔ اماں! گزارے کے لائق رقم مجھے تم خود اپنے ہاتھوں سے دے دیا کرو۔ میں تنخواہ سمجھ کر رکھ لوں گا۔ شروع میں یہ ہمارے ہوٹل کا منیجر بنا لیکن منیجر کی آڑ میں وہ سیاہ سفید کا مالک بن بیٹھا۔ میں اس کو اپنے ہونے والے داماد کی حیثیت سے اہمیت دیتی رہی، بعد میں چالاکی سے ہمارا ہوٹل اور تین مکانات جو میرے شوہر کی محنت کی کمائی کے بنے تھے، اپنے قبضے میں لے لیے۔ میرا بیٹا جوان ہوا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اپنے باپ کا سرمایہ اور وراثت سنبھالتا لیکن وہ نشے میں غرق تھا۔ شفیق اسے جتنا وہ مانگتا، روپیہ دے دیتا۔ اسے محنت کرکے کمانے کی کیا ضرورت تھی۔ نشہ تو ویسے بھی انسان کو ناکارہ اور اس کی غیرت و حمیت کو ختم کردیتا ہے۔ ایک روز شراب کے نشے میں ایک شخص سے جھگڑا ہوگیا اور جھگڑے میں اس آدمی کی جان چلی گئی۔ کیا ہوا، کیسے ہوا، کسی نے ہمیں تفصیل نہ بتائی۔ شفیق نے اتنا بتایا کہ اماں! نشے کی حالت میں تیرے بیٹے کا کسی سے جھگڑا ہوا اور وہ آدمی لڑائی میں مر گیا تو ریحان کو پولیس پکڑ کر لے گئی۔
یہ سنتے ہی میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ میں نے شفیق کی منت سماجت کی کہ کچھ بھی کرو، چاہے میری ساری جمع پونجی لے لو۔ ہوٹل، گھر، مکان سب تمہارے نام کردوں گی۔ میرے بیٹے کو کسی صورت سزا سے بچا لو۔ اس کے لیے کوئی اچھا وکیل کرو کہ اسے سزائے موت نہ ہو۔ شفیق نے اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ کیس چلنے لگا۔ ایک وقت آیا کہ میرے پاس کیس کی پیروی کے لیے پیسہ نہ رہا تو شفیق نے کہا کہ ہوٹل اور جائداد کے کاغذات دے دو، بینک میں گروی رکھ کر قرضہ لیتے ہیں کیونکہ کیس پر ابھی بہت خرچا ہونا ہے۔ بیٹے کو سزائے موت سے بچانا ہے تو روپیہ پانی کی طرح بہانا ہوگا۔
میں بیٹے کی محبت میں مری جاتی تھی۔ جیسا یہ کہتا، کرتی تھی۔ اس نے مختلف کاغذات پر دستخط کرائے۔ آخرکار کیس ختم ہوگیا۔ ریحان کو سزائے موت تو نہ ہوئی لیکن عمرقید ہوگئی۔ وہ اب سلاخوں کے پیچھے زندگی کے دن کاٹ رہا ہے اور یہ ہمارے ہوٹل اور جائداد کا مالک بن گیا ہے۔ آج میرے پاس کوئی کمانے والا نہیں ہے۔ ایک بیٹی بیوہ جو دو کم سن بچوں کے ساتھ میرے کندھوں کا بوجھ ہے اور دوسری بن بیاہی جوان ہے، اس کا بوجھ بھی مجھ بوڑھی کے کندھوں پر ہے۔ زمانے کے خوف سے ان کو گھر سے باہر بھی قدم نہیں نکالنے دیتی۔ یہ گھر میں ہی تھوڑی بہت سلائی کرتی ہیں تو دونوں بچوں کی فیسں دینا ممکن ہوتی ہے لیکن کھانے کے لالے پڑے رہتے ہیں، اسی لئے اپنے ہوٹل سے کھانا لینے جاتی ہوں۔ ہم پانچ بندوں نے پیٹ بھرنا ہوتا ہے۔ تم ہی کہو، میں پگلی یا بھکارن ہوں؟ یا


یہ چور، لٹیرا شفیق غاصب ہے جو اب مالک بنا بیٹھا ہے۔ مجھے میری بیٹی سے شادی کا جھانسا بھی دیتا رہا اور شادی کسی امیر گھرانے کی لڑکی سے کرلی۔ اب کہتا ہے کھانا لینا ہو تو ہوٹل کے پچھلے دروازے سے کچن کی طرف سے لے جایا کرو۔ وہاں جو خانساماں ہیں، وہ دھتکارتے ہیں کہ روز آجاتی ہو۔ ہمارا سیٹھ منع کرتا ہے، نوکر ہماری شکایت کردیتے ہیں کہ ہم کھانا چُراتے ہیں۔ بس ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرکے میری بے عزتی کرتے ہیں۔ اب میں سامنے والے در سے اندر جاتی ہوں۔ گارڈ روکتا ہے، کبھی منیجر دھمکاتا ہے اور بیرے لوگوں کو کہتا ہے کہ یہ بھکارن عورت پاگل ہے۔ یہ بتاتے ہوئے وہ بیچاری زاروقطار رونے لگی، ساتھ اس کی دونوں بیٹیاں بھی رو پڑیں اور دوپٹے کے پلوئوں سے آنسو پونچھنے لگیں۔
اماں! تم نے ایک غیر شخص پر اتنا کیوں بھروسہ کرلیا جو تمہارا رشتے میں کچھ نہیں لگتا تھا؟ یہ تمہاری غلطی ہے، تمہیں اتنا بھروسہ کسی غیر آدمی پر نہ کرنا چاہیے تھا۔ بیٹی! بھروسہ نہ کرتی تو کیا کرتی۔ جب سر پر اپنے مرد کا سایہ نہ ہو تو ایسے ہمدرد ہی ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہوتے ہیں۔ کوئی بھائی، دیور نہ تھا۔ کس سے اپنے مسائل حل کرواتی۔ یہ ہمارے گھر پہلے سے آتا تھا۔ اپنے بچوںکی طرح عزیز تھا۔ ہم عورتیں تنہا تھیں، اس پر اعتماد کیا۔ میں نے سوچا تھا کہ میرے بے سہارا خاندان کو سہارا مل جائے گا اور میرے سر سے چھوٹی بیٹی کا بوجھ بھی اتر جائے گا۔ کیا جانتی تھی کہ اس کی محض میری جائداد پر نظر ہے۔ میں اس آسرے پر لٹی کہ میرے اکلوتے بیٹے کو یہ کیس لڑ کر پھانسی کے پھندے سے بچا لے گا، تب مجھے لٹنے کا بالکل احساس نہ تھا۔ بس ایک ہی خیال کہ میرا بچہ بچ جائے گا۔ میں خود کو اس کی احسان مند محسوس کرتی تھی۔ وہ کہتا تھا تمہارا لڑکا بری ہوکر گھر آجائے گا۔ میں شاہینہ سے شادی کرلوں گا۔
قسمت میں یہی لکھا تھا جسے اپنا سمجھ کر سرمایہ سونپا، اس نے دغا کی۔ بیٹا بھی عمرقید کی نذر ہوگیا اور میرے پلے بھی کچھ نہ رہا۔ آج یہ میرے شوہر کے ہوٹل کا مالک بنا بیٹھا ہے۔ کسی سے فریاد کروں تو جھوٹی سچی رسیدیں دکھا کر کہتا ہے کہ اتنے سال اس کو خرچہ دیا۔ اس کے بیٹے کے لیے وکیل کئے، ان کی بھاری فیسیں دیں، کیس پر ہزاروں کا خرچہ اٹھا۔ آخر یہ سب کس نے کیا۔ آج اپنے ہوٹل سے بچوں کے لیے کھانا لینے جاتی ہوں تو یہ دھتکارتے ہیں۔ بتائو یہ کہاں کا انصاف ہے؟ اس مظلوم عورت کی داستان سن کر میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اتنا ہی کہہ سکی۔ اماں جی! واقعی یہ دنیا اتنی ہی ظالم ہے۔ کسی مفلس کے رہنے کی یہ جگہ نہیں ہے۔ یہاں صرف طاقتور ہی رہ سکتے ہیں۔ (الف… ملتان)

Latest Posts

Related POSTS