Wednesday, October 16, 2024

Hazrat Dawood Ka Insaaf

حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں ایک شخص ہمیشہ یہ دعا کیا کرتا تھا کہ الہی مجھے بغیر محنت مشقت کے روزی عطا کر۔ جب تو نے مجھے کاہل اور ناکارہ پیدا کیا ہے تو میری مثال ان گدھوں کی ہے جن کی پیٹھ زخمی ہو اور ان پر گھوڑوں اور اونٹوں کا بوجھ نہ لادا جا سکے۔ تو رزاق اور رحیم ہے اور مجھ جیسے کاہلوں اور راحت پسندوں کو بھی کسی نہ کسی طریقے سے روزی دیتا ہے۔ جب بچہ چل پھر نہیں سکتا تو ماں اس کی روزی کا وسیلہ بن جاتی ہے۔ اسی طرح میں روزی کمانے کے لیے محنت نہیں کر سکتا۔ تو دست غیب سے مجھے روزی عطا کر۔

لوگ اس کی دعا سنتے تھے اور ہنستے تھے کہ یہ احمق اور بے شعور کیسی دعا مانگتا ہے۔ شاید اس نے بھنگ پی رکھی ہے۔ روزی کے حصول کے لیے تو محنت کرنا شرط ہے۔ اس کے خلاف ہونا تو بعید از قیاس ہے۔ حضرت داؤد ہمارے بادشاہ اور خدا کے رسول ہیں۔ وحوش و طیور بھی ان کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ محنت مشقت کر کے اپنی روزی کماتے ہیں۔ جب تک وہ زرہ تیار کرنے پر اپنا خون پسینہ ایک نہیں کر لیتے ان کو روزی میسر نہیں آتی۔ لیکن یہ بے ہنر آدمی خدا سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اسے بغیر تکلیف اٹھائے روزی عطا کرے۔ بھلا آسمان پر کوئی بغیر سیڑھی کے بھی چڑھ سکتا ہے۔ اس احمق کی مثال تو ایسی ہے کہ کوئی شخص خالی تھیلے سے پنیر تلاش کرے۔ وہ شخص لوگوں کی باتیں سنتا تھا لیکن اپنی دعا سے باز نہ آتا تھا۔ آخر اس دھن کے پکے کی مراد بر آئی۔ ایک دن وہ بڑے خشوع و خضوع سے دعا میں مشغول تھا کہ ایک گائے نے سینگ مار کر اس کے گھر کا دروازہ توڑ دیا اور اندر گھس آئی۔ اس شخص نے اٹھ کر فورا اس گائے کے پاؤں باندھ دیئے اور اس کے گلے پر چھری پھیر دی۔ پھر اس کو قصاب کے پاس لے گیا تاکہ اس کی کھال اتار لے۔ گائے کے مالک کو پتہ چلا تو وہ دہائی دیتا آیا کہ ارے ظالم یہ تو نے کیا کیا۔ میری گائے راستہ بھول کر تیرے پنجے میں آپھنسی اور تو نے بے دریغ اس کے گلے پر چھری پھیر دی۔ اس سینہ زوری کا تجھے عدالت میں جواب دینا ہو گا۔ اس نے کہا کہ میں برسوں سے دعا مانگا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے بے محنت روزی عطا کرے۔ خدا نے آج میری سن لی اور اس نے یہ گائے میرے گھر بھیج دی۔ میں نے اس کو ذبح کر ڈالا۔ کیونکہ یہ میرا رزق تھا۔ گائے کا مالک اس کا جواب سن کر آگ بگولا ہو گیا۔ اس کو گریبان سے پکڑ کر تین چار گھونسے لگائے اور کہا کہ اے مکار ظالم ! میرے ساتھ داؤد نبی کی عدالت میں چل وہاں تجھے معلوم ہو جائے گا کہ پرائے مال کو ہڑپ کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ جو تیرے جی میں آئے کر۔ مجھے تو یقین ہے بارگاہ الہی میں میری دعا قبول ہو گئی ہے۔ گائے کے مالک نے زور زور سے چلانا شروع کر دیا۔ کہ اے مسلمانو! ذرا اس کی بکواس سنو۔ یہ اپنی دعا کی بنا پر پرائے مال پر اپنا حق جتاتا ہے اگر دنیا میں یہی قانون ہوتا تو لوگ دعائیں مانگ مانگ کر دوسروں کا مال چھین لیتے اور یہ فقیر تو سب کے سب دولت مند بن جاتے جو دن رات یہی دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے خدا تو ہم کو مال و دولت عطا کر۔ لوگوں نے کہا کہ گائے کا مالک سچا ہے۔ اس دعا فروش نے اس پر صریح ظلم کیا ہے۔ اس کے تو مسلمان ہونے میں بھی شک ہے۔ بھلا دعا مانگ کر دوسرے کے مال پر کیسے حق جتا سکتا ہے۔ ایسی دھاندلی کی تو شریعت ہرگز اجازت نہیں دیتی۔ کسی چیز کے مالک ہونے کا دعوئی تو وہی کر سکتا ہے جو اس کو خریدے یا خیرات میں حاصل کرے یا وصیت میں پائے یا کوئی اپنی خوشی سے اسے بطور انعام دے دے۔ پھر وہ اس سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ اس کی گائے واپس کرو یا قید خانے کی ہوا کھاؤ۔ اس دعا مانگنے والے نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور کہا کہ الہی تو نے ہی یہ دعا میرے دل میں ڈالی۔ اب تو ہی میری لاج رکھ۔ اندھا تو اپنی نادانی کی بنا پر مخلوق سے سوال کرتا ہے مگر میں نے تیرے سوا کسی کے سامنے دستِ طلب دراز نہیں کیا۔ تو جانتا ہے کہ میں ہمیشہ سچے دل سے تیرے سامنے گڑگڑایا کرتا تھا۔ لوگ میرے بھید کو نہیں جانتے اور میری باتوں کو بیہودہ سمجھتے ہیں۔ وہ بھی سچے ہیں۔ کیوں کہ غیب کے راز جاننے والا اور عیبوں کو چھپانے والا تیرے سوا کوئی نہیں ہے۔ گائے کے مالک نے کہا: ارے پاکھنڈی! آسمان کی طرف کیا دیکھتا ہے ۔ میری طرف دیکھ۔ بھلا اس طرح تیرے دھوکے میں کون آئے گا؟ تیرا دل تو مردہ ہے لیکن دعوا خدا رسیدہ ہونے کا کر رہا ہے۔

تھوڑی ہی دیر میں سارے شہر میں اس واقعہ کا چرچا ہونے لگا۔ اس دعا کرنے والے نے اپنا سر سجدے میں رکھ دیا اور بارگاہ الہی میں عرض کیا کہ اے خدا! اپنے اس ناچیز بندے کو رسوا نہ کر۔ اگر میں بُرا بھی ہوں تو میرا راز فاش نہ کر۔ تو جانتا ہے کہ میں نے کتنی طویل راتیں بصد عجز و نیاز دعائیں مانگنے میں صرف کی ہیں۔ میری دعاؤں کی قدر اگر مخلوق کو نہیں تو نہ سہی مگر تجھے تو ہر شے کا علم ہے۔ الہی یہ لوگ مجھ سے گائے مانگتے ہیں حالاں کہ اسے تو نے میرے پاس بھیجا تھا۔ اس میں میری خطا نہیں تھی۔ جب یہ جھگڑا حضرت داؤد علیہ السلام کی عدالت میں پیش ہوا تو آپ نے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ مدعی نے آگے بڑھ کر عرض کیا کہ اے نبی اللہ ! میں آپ کے سامنے اس شخص کے ظلم کے خلاف فریاد کرتا ہوں۔ میری گائے اتفاق سے اس کے گھر چلی گئی۔ اس نے خوفِ خدا سے بے نیاز ہو کر اس کو ذبح کر لیا۔ اس سے دریافت فرمائیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا ؟ حضرت داؤد علیہ السلام نے فرمایا: اے شخص! بتا تو نے دوسرے کا مال کیوں تلف کیا۔ ادھر اُدھر کی باتیں نہ کر ۔ بلکہ اپنے موقف کے حق میں کوئی معقول دلیل پیش کرتا کہ ہم صحیح نتیجہ پر پہنچ سکیں۔ اس نے کہا کہ اے نبی اللہ ! میں سات سال تک رات دن یہی دعا مانگتا تھا۔ کہ اے خداوند کریم! تو مجھ کو بے محنت رزق عطا کر۔ میری دعا اور آہ وزاری سے اس شہر کا بچہ بچہ آگاہ ہے۔ آپ کسی سے پوچھیں وہ میری بات کی تصدیق کرے گا۔ اتنی مدت کی دعاؤں کے بعد ایک دن میں نے یکایک ایک گائے اپنے گھر میں دیکھی۔ میں یہی سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمالی اور اس نے یہ رزق میرے لیے بھیج دیا۔ چنانچہ میں نے گائے کو ذبح کر دیا تا کہ اپنی دعا کے قبول ہونے کے شکرانہ میں اس کا گوشت فقراء اور مساکین میں تقسیم کر دوں۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے فرمایا کہ ان باتوں کو چھوڑ۔ اگر کوئی شرعی حجت ہے تو وہ بیان کر۔ کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میں بغیر کسی دلیل کے شریعت میں کوئی باطل چیز داخل کر دوں۔ وہ گائے تجھے کس نے بخشی! یا تو نے خریدی کہ اس کا وارث بن بیٹھا۔ آخر کوئی فصل ہوئے بغیر تو اس کو کیسے کاٹ سکتا ہے۔ زیادہ بک بک نہ کر اور گائے کے مالک کو اس کے مال کی قیمت ادا کر ۔ اگر پاس نہیں ہے تو قرض لے کر دے۔ اس نے کہا کہ اے بادشاہ آپ بھی وہی بات کہتے ہیں جو یہ بے درد کہتے ہیں۔ پھر اس نے ایک آہ بھری اور کہا کہ اے دونوں جہاں کے مالک! تو ہی غیب کا حال جانتا ہے۔ یہ بھید داؤد نبی پر ظاہر فرما دے۔ یہ کہہ کر زار زار رونے لگا۔ اس کی حالت دیکھ کر حضرت داؤد کا دل دہل گیا اور انہوں نے مدعی سے کہا کہ اے شخص! اس کو ایک دن کی مہلت دے۔ اس اثنا میں میں بھی مراقبہ کروں گا اور اللہ تعالیٰ سے حقیقت حال ظاہر کرنے کی دعا کروں گا۔ اس کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام خلوت میں تشریف لے گئے اور دروازہ بند کر کے نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت میں مصروف ہو گئے۔ حق تعالیٰ نے ان کو اپنے بھید سے آگاہ کر دیا اور وہ صحیح نتیجے پر پہنچ گئے۔

دوسرے دن آپ کی عدالت میں پھر لوگ جمع ہوئے اور مدعی و مدعاعلیہ بھی حاضر ہوئے۔ مدعی نے چھوٹتے ہی مدعاعلیہ پر طعن و تشنیع کے تیر برسانے شروع کر دیئے کہ اے نابکار! میری گائے واپس دے اور اپنے خدا کے سامنے شرمسار ہو۔ پیغمبر حق کے عہد میں ایسا صریح ظلم کرتے ہوئے تجھے شرم نہ آئی کہ دوسرے کی گائے مار کر کھا گیا۔ پھر وہ حضرت داؤد علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ اے رسول برحق ! یہ کیسے روا ہو سکتا ہے کہ میری گائے خدا اس کو اس طرح دے دے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے فرمایا کہ اے شخص! اس مسلمان کو اپنی گائے معاف کر دے۔ جب اللہ تعالٰی ستار العیوب (گناہوں کو چھپانے والا) ہے تو تو بھی اس کی استاری کے صدقے میں صبر کر۔ یہ سن کر گائے والا واویلا مچانے لگا کہ یہ کیسا انصاف اور کیسی شریعت ہے کہ مجھ غریب کے لیے نیا قانون بن گیا۔ اے نبی اللہ ! آپ کے عدل کی زمین و آسمان میں دھوم ہے۔ مجھ پر جو ظلم ہوا ہے ، ایسا تو اندھے کتوں پر بھی نہیں ہوتا۔ اس تعدی سے تو پتھر اور پہاڑ بھی پناہ مانگتے ہیں۔ اے پیغمبر خدا! مجھ پر ایسا ظلم نہ کیجئے۔ آپ کا حکم تو سراسر زیادتی اور بے انصافی پر مبنی ہے۔ غرض وہ دیر تک حضرت داؤد علیہ السلام کو طعنے دیتا رہا اور آپ خاموشی سے سنتے رہے۔ جب اس نے اپنے دل کی بھڑاس نکال لی تو حضرت داؤد علیہ السلام نے فرمایا کہ بدذات اپنا سارا مال مویشی اس کے حوالے کر دے کیونکہ تیری سلامتی اسی میں ہے۔ یہ سن کر وہ اور بھی زور زور سے واویلا کرنے لگا یہ تو آپ نے ظلم میں اور اضافہ کر دیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے اسے اپنے قریب بلا کر فرمایا کہ ارے بد بخت ! اب بھی اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھ اور اس شور و غل سے باز آجا اگر تو باز نہیں آتا تو تیرے گھر والے اس کے غلام بنا دئیے جائیں گے۔ یہ سن کر وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سینہ کوٹنے لگا اور سر پر خاک ڈالنے لگا۔ لوگوں کو حقیقت حال کا علم نہ تھا۔ ان کو اس پر بڑا ترس آیا، اور انہوں نے حضرت داؤد علیہ السلام سے عرض کیا کہ اے نبی اللہ ! آپ کا حکم بظاہر انصاف سے بعید معلوم ہوتا ہے۔ از راہ شفقت اس پر نظر ثانی فرمائیے۔

حضرت داود نے فرمایا کہ دوستو ! اب وقت آگیا ہے کہ تم کو اصل واقعات کا علم ہو جائے۔ سب لوگ میرے ساتھ دریا کے کنارے فلاں جنگل میں چلو۔ وہاں ایک بہت تناور اور گھنا درخت ہے۔ مجھے اس کی جڑ سے انسانی خون کی بو آتی ہے۔ جانتے ہو یہ کون سے انسان کا خون ہے۔ یہ انسان مدعا علیہ کا باپ تھا اور یہ مدعی اس کا غلام تھا۔ اس بد بخت غدار نے مال و دولت کے لالچ میں اپنے مالک کو قتل کر کے اس درخت کی جڑ میں دبا دیا اور اس کے سب مال و جائیداد کا مالک بن بیٹھا۔ مدعا علیہ اس وقت بہت کم سن تھا اس لیے اس کو اس واقعہ کا علم نہیں۔ یہ ظالم اپنے مالک کے اہل و عیال کی خبر گیری تک سے غافل ہو گیا۔ یہ جانتا تھا کہ مدعا علیہ اس کے مالک کا فرزند ہے۔ لیکن یہ ایک حقیر گائے کے لیے اس کی رسوائی کے درپے ہو گیا۔ اس طرح اس نے خود ہی اپنا راز فاش کرنے کا سامان مہیا کر دیا۔ ورنہ شاید خدا اس کے جرم پر پردہ پڑا رہنے دیتا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے ارشادات سن کر سب لوگ انگشت بدنداں ہو گئے پھر وہ سب حضرت کے ساتھ اس درخت کے پاس پہنچے۔ آپ نے حکم دیا کہ مدعی کے ہاتھ پیچھے باندھ دو۔ پھر آپ نے اس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے کتے ! پہلے تو نے مدعا علیہ کے دادا کو قتل کیا اور اس کی سزا میں تجھ کو مقتول کے فرزند کا غلام بنایا گیا۔ پھر تو نے اس کے ساتھ بھی غداری کی اور اس کو قتل کر کے اس کے مال و دولت پر قبضہ جما بیٹھا۔ تیری بیوی تیرے مقتول مالک کی لونڈی تھی۔ لہذا اس سے جو اولاد پیدا ہوئی ان سب کا وارث یہی مدعاعلیہ ہے۔ تو بھی اس کا غلام ہے اور تیرا مال و دولت بھی اس کی ملک ہے۔ تو نے شرع کے مطابق فیصلہ چاہا تھا تو لے اب یہ شرع کا فیصلہ ہے، جا اور اس کی تعمیل کر۔ ارے ظالم ! تو نے اسی جگہ اپنے مالک کو کیسی بیدردی سے قتل کیا۔ اس بیچارے نے تیری کس قدر منت سماجت کی لیکن تجھے ذرا ترس نہ آیا۔ اس بے گناہ کا سرکاٹ کر تو نے چھری سمیت اس درخت کے نیچے دفن کر دیا۔ اے لوگو! یہاں سے زمین کھودو۔ سر اور چھری دونوں مل جائیں گے ۔ چھری پر اس کتے کا نام بھی کندہ ہے جو اس کے قاتل ہونے کا بین ثبوت ہے۔

لوگوں نے زمین کھودی تو جیسا حضرت داؤد نے فرمایا تھا ویسا ہی ظاہر ہوا۔ لوگوں کی فرط حیرت سے چیخیں نکل گئیں۔ پھر حضرت داؤد نے درخت سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے درخت! تو اس واقعہ کے متعلق کیا جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس درخت کو قوت گویائی عطا فرمائی اور اس کی ایک ایک شاخ اور ایک ایک پتہ پکار اٹھا کہ اے اللہ کے رسول! آپ نے بالکل سچ فرمایا اس واقعہ کا شاہد خود حق تعالی ہے۔ یہ دیکھ کر لوگ اپنی بدظنی پر سخت پشیمان ہوئے اور حضرت داؤد سے رو رو کر معافی مانگی اور عرض کیا کہ اے نبی اللہ ! ہم اندھے تھے۔ اسی لیے آپ نے جو کچھ فرمایا تھا اس پر ہم نے اعتبار نہ کیا۔ ہمیں معذور جان کر درگزر فرمائیں۔ آپ کے معجزہ نے لاکھوں دلوں کی آنکھیں کھول دی ہیں اور ہر شخص کا اللہ تعالٰی پر ایمان پختہ ہو گیا۔ ایک ظالم کیفر کردار کو پہنچا اور ایک جہاں زندہ ہو گیا۔ اے عزیز! تو بھی اپنے نفس کو مار اور ایک جہاں کو زندہ کر۔

Latest Posts

Related POSTS