ولادت … 957ھ سہون (سندھ)
وفات … 1045ھ لاہور
خاندانی نام … میر محمد
بعض مؤرخین نے شیخ محمد بھی تحریر کیا ہے۔ والد محترم کا اسم گرامی سائیں دتہ اور دادا کا نام قاضی قلندر فاروقی تھا۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔ حضرت میاں میرؒ عہد شاہجہانی کے سب سے بااثر شیخ تھے۔ آپ کو عوام الناس کے ساتھ درباری اور علمی حلقوں میں بھی بڑی مقبولیت حاصل تھی۔ حضرت میاں میرؒ کے روحانی کمالات کے سبب سلسلۂ قادریہ کو دوبارہ فروغ حاصل ہوا۔
٭…٭…٭
شہنشاہ جہانگیر اور اس کی محبوب ملکہ نورجہاں دنیا سے رخصت ہوچکے تھے اور مغل سلطنت جو ایک طویل عرصے سے انتشار کا ہدف بنی ہوئی تھی، ایک بار پھر مستحکم ہوگئی۔ نوجوان شہزادہ خرم نے اپنے تمام سیاسی حریفوں کو شکست دی اور شہاب الدین، شاہ جہاں کے لقب سے ہندوستان کے تخت پر جلوہ افروز ہوا۔
مغل شہنشاہ کے شب و روز آرام سے گزر رہے تھے کہ اچانک اس کا سب سے بڑا اور محبوب بیٹا دارا شکوہ بیمار ہوگیا۔ شاہی طبیبوں نے ابتدائی معائنے کے بعد بیک زبان کہا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ یہ ایک عام سا بخار ہے جو معمولی دوائوں کے استعمال کے بعد اُتر جائے گا۔ شاہ جہاں اور ملکہ ممتاز محل طبیبوں کی گفتگو سن کر مطمئن ہوگئے۔ علاج جاری رہا مگر شاہی طبیبوں کے تجویز کردہ نسخے سے شہزادہ دارا شکوہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ مرض آہستہ آہستہ بڑھتا ہی رہا۔
مغل شہنشاہ نے دوبارہ طبیبوں سے رجوع کیا۔ شاہی حکیموں کو حیرت تھی کہ ان کی دوائیں بے اثر کیوں گئیں؟ ایک بار پھر شہزادے دارا شکوہ کا تفصیلی معائنہ کیا گیا۔ بہترین اور اثرانگیز دوائیں منتخب کی گئیں مگر بالآخر وہ بھی ایک مشت خاک ٹھہریں۔ شہزادہ دارا شکوہ کے مرض میں روزبروز اضافہ ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ ولی عہد سلطنت اس قدر لاغر و نحیف ہوگیا کہ بستر پر اٹھ کر بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا۔ شاہ جہاں اور ملکہ ممتاز محل کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ وہ اپنے محبوب فرزند کو ایک شمع کی طرح پگھلتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
آخر علمائے دربار نے مغل شہنشاہ کو مشورہ دیتے ہوئے عرض کیا۔ ’’شاہ عالی مقام! آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ یہ کوئی بیماری نہیں۔ اگر شہزادئہ معظم کو کوئی مرض لاحق ہوتا تو شاہی طبیب اب تک بیماری کی تشخیص کرچکے ہوتے۔‘‘
مغل شہنشاہ نے علمائے دربار کی گفتگو بہت غور سے سنی۔ پھر نہایت افسردہ لہجے میں بولا۔ ’’اگر یہ کوئی مرض نہیں تو پھر کیا ہے؟‘‘
’’کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ آسمانی بلائیں انسان کو گھیر لیتی ہیں۔‘‘ علمائے دربار نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’اور ان بلائوں کا رد کسی دوا سے ممکن نہیں۔ ایسے مواقع پر صدقات اور دعائیں ہی انسان کے کام آتی ہیں۔‘‘
دیکھتے ہی دیکھتے دارالحکومت میں اعلان کرا دیا گیا۔ پھر ہر مذہب و ملت کے لوگ اپنے اپنے طریقوں کے مطابق شہزادہ دارا شکوہ کی صحت یابی کیلئے دعائیں کرنے لگے۔ مسجدوں، مندروں اور گردواروں میں ایک ہی قسم کے الفاظ کی گونج سنائی دینے لگی۔ انداز مختلف تھے مگر ہر مسلمان، ہندو، سکھ اور دیگر عقائد رکھنے والے لوگوں کی دعائوں کا مفہوم ایک ہی تھا کہ خالق کائنات شہزادہ دارا شکوہ کو صحت عطا کرے۔
دعائوں کی گونج کے ساتھ صدقات بھی جاری تھے۔ خزانہ شاہی کے زیراہتمام قدم قدم پر لنگر خانے قائم کردیئے گئے تھے جہاں صبح و شام ہزاروں بھوکے کھانا کھا کر اپنے ’’اَن داتا‘‘ سے ولی عہد سلطنت کی زندگی کی بھیک مانگا کرتے تھے مگر وہ نامعلوم بلا یا بیماری کسی طرح بھی شہزادہ دارا شکوہ کا ساتھ نہیں چھوڑتی تھی۔ شاہ جہاں اور ملکہ ممتاز محل کا اضطراب اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ جواں سال بیٹے کی تیمارداری کرتے کرتے ماں باپ بھی بیمار نظر آنے لگے تھے۔
پھر ایک دن کسی مصاحب نے خلوت کدے میں مغل شہنشاہ سے عرض کیا۔ ’’ظل الٰہی! شہزادئہ معظم کی صحت و عافیت کے لئے بظاہر ساری تدبیریں آزمائی جا چکیں مگر فائدہ…؟‘‘
’’ہمارے اختیار میں کچھ نہیں۔‘‘ اپنے مصاحب کی بات سن کر شاہ جہاں رو پڑا۔ ’’اگر کوئی طبیب یا حکیم، شہزادے کی زندگی کی ضمانت دے تو ہم اسے یہ سلطنت بطور انعام دے سکتے ہیں۔‘‘ ایک عظیم الشان سلطنت کے فرمانروا کی بے چارگی قابلِ دید تھی۔
’’آپ ایک مردِ فقیر سے رجوع کیوں نہیں کرتے؟‘‘ مصاحب نے اپنے شہنشاہ کو مشورہ دیتے ہوئے عرض کیا۔ ’’اس مردِ فقیر کو نہ سیم و زر کی حرص ہے اور نہ منصب و جاہ کی طلب۔‘‘
’’کون ہے وہ فقیر؟‘‘ شاہ جہاں، مصاحب کی بات سن کر چونک اٹھا۔ اسے مایوسیوں کے اندھیرے میں امید کی ایک ہلکی سی کرن نظر آئی تھی۔ ’’کہاں رہتا ہے وہ فقیر؟ اس سے درخواست کرو کہ وہ اپنی جھولی میں پڑی ہوئی کیمیا دارا شکوہ کو بخش دے۔‘‘
’’وہ فقیر لاہور کے ایک سنسان گوشے میں رہتا ہے۔‘‘ مصاحب نے درویش کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر کس بات کا انتظار ہے؟ ہمارا پیغام اس درویش تک پہنچا دو۔‘‘ شاہ جہاں نے پُرجوش لہجے میں کہا۔ ’’اگر شہزادے کو کھوئی ہوئی صحت مل گئی تو ہم درویش کے ساتھ تمہارے بھی ممنون احسان ہوں گے۔‘‘
پھر کئی برق رفتار شہسوار قاصدوں کی حیثیت سے لاہور کی طرف دوڑ پڑے۔
درویش اپنے ایک خادم کے ساتھ ایک مختصر سی خانقاہ میں گوشہ نشیں تھا۔
’’شاہی کارندے حضور سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘ خادم نے دست بستہ عرض کیا۔
’’مگر یہ فقیر تو کسی سے ملنا نہیں چاہتا۔‘‘ درویش نے ناخوشگوار لہجے میں کہا۔ ’’پھر یہ شاہانِ مغرور، اللہ کے بندے کو کیوں ستاتے ہیں؟‘‘
شاہی قاصدوں کے چہرے اُتر گئے۔ درویش نے ملنے سے انکار کردیا تھا۔ پھر ان لوگوں نے خادم کی خوشامد کی۔ آخر درویش نے مغل شہنشاہ کے کارندوں کو اپنی خدمت میں طلب کرلیا۔
’’تمہارے فرمانروا کو مجھ ناکارہ سے کیا کام ہے؟‘‘ درویش کے لہجے میں اس قدر جلال تھا کہ شاہی سفیر کانپنے لگا۔
’’ولی عہد سلطنت بیمار ہے۔‘‘ شاہی سفیروں نے عرض کیا۔ ’’ظل الٰہی کی خواہش ہے کہ آپ ایک نظر شہزادے کو دیکھ لیں۔‘‘
’’میں کوئی طبیب ہوں کہ کسی بیمار کو دیکھ لوں؟‘‘ درویش نے بے نیازانہ کہا۔
شاہی قاصدوں نے بہت خوشامد کی مگر درویش کے ہونٹوں پر حرف انکار کے سوا کچھ نہیں تھا۔
پھر خادم کی درخواست پر درویش نے بس اس قدر آمادگی کا اظہار کیا۔ ’’اگر بادشاہ سمجھتے ہیں کہ یہ عاجز کسی مریض کا علاج کرسکتا ہے تو انہیں لازم ہے کہ وہ بیمار کو یہاں لے آئیں۔‘‘
شاہی قاصد طوفانی انداز میں دہلی واپس لوٹے اور درویش کا جواب شہنشاہ ہند کے گوش گزار کردیا۔ شہزادہ دارا شکوہ کی ظاہری حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ اتنا طویل سفر برداشت کرسکتا۔ پھر بھی مغل شہنشاہ نے اپنے درباری طبیبوں سے مشورہ کیا۔
’’ظل الٰہی! دہلی سے لاہور کا سفر ایسا ہی ہے جیسے ہم شہزادئہ معظم کی زندگی سے جان بوجھ کر ایک خطرناک کھیل کھیلیں۔‘‘ شاہی طبیبوں نے بیک زبان کہا۔ ’’خاکم بدہن! اس کھیل کا نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔‘‘ درباری حکیموں نے مبہم لہجے میں فرمانروائے ہندوستان پر یہ بات واضح کردی تھی کہ اگر مغل شہزادے نے یہ سفر اختیار کیا تو وہ اپنی زندگی سے ہاتھ بھی دھوسکتا ہے۔
شہنشاہ شاہ جہاں اور ملکہ ممتاز محل بہت دیر تک گہری سوچ میں ڈوبے رہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بیٹے کو لاہور لے جاکر ایک کھلا ہوا خطرہ مول لیں یا پھر شہزادے کو اسی طرح سسکتا ہوا چھوڑ دیں۔ بالآخر والیٔ ہندوستان نے ایک طویل ذہنی کشمکش کے بعد ملکہ ممتاز محل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’اگر وہ درویش اللہ کا برگزیدہ بندہ ہے تو پھر اس کی دعائوں سے شہزادہ ہر طرح محفوظ رہے گا اور اگر مشیت الٰہی میں دارا شکوہ کی موت مقدر ہوچکی ہے تو پھر قصرشاہی کی تمام سہولتیں اور آسائشیں مل کر بھی اس کی سانسوں میں اضافہ نہیں کرسکتیں۔‘‘ یہ ایک مشکل ترین فیصلہ تھا جس پر شاہ جہاں نے پوری قوت ارادی کے ساتھ عمل کیا۔
راستے میں ایسے کئی مقام آئے جہاں مغل شہنشاہ کو یہ محسوس ہوا کہ اب شہزادہ دارا شکوہ کے چراغ زندگی کو بجھنے سے نہیں بچایا جاسکتا مگر اچانک شاہ جہاں کو محسوس ہوتا کہ چراغ کی لو تھرتھراتے تھرتھراتے یکایک سنبھل گئی ہے۔ مختصر یہ کہ اسی اذیت ناک فضا میں شہاب الدین شاہ جہاں ایک ڈھانچے کو لے کر لاہور پہنچا اور پھر درویش کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ مستند تاریخی روایت ہے کہ فرمانروائے ہندوستان جلال و جبروت کے کسی مظاہرے کے بغیر ایک عام انسان کی طرح درویش کی خانقاہ میں حاضر ہوا۔
شاہ جہاں کا یہ عجز و انکسار دیکھ کر فقیر اپنی چٹائی سے اٹھا اور اسلامی آداب کے مطابق شاہ جہاں سے مصافحہ کیا۔ اس دوران دارا شکوہ کا پلنگ خانقاہ کے ایک گوشے میں رکھ دیا گیا تھا۔ پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ مملکت ہند کا مطلق العنان حکمراں ایک گدڑی پوش فقیر کے سامنے دست بستہ اور دوزانو بیٹھا ہے۔
’’بادشاہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں کوئی طبیب نہیں ہوں اور روحانیت میں بھی میرا کوئی مرتبہ نہیں ہے۔‘‘ فقیر نے اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے کہا۔ ’’اب میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تاجدار ہندوستان نے اس قدر دشوار گزار سفر کیوں اختیار کیا؟‘‘
’’میں حضور سے حسن ظن رکھتا ہوں۔‘‘ مغل شہنشاہ کے لہجے سے انتہائی عقیدت کا اظہار ہورہا تھا۔ ’’بے شک! آپ ایک غیرت مند صوفی اور مرد بے نیاز ہیں۔ اگر آپ کے دل میں ذرّہ برابر بھی طلب دنیا ہوتی تو میرے ایک اشارے پر دہلی چلے آتے۔‘‘
درویش فرمانروائے ہندوستان کے اس طرزکلام سے بہت متاثر ہوا۔ ’’اللہ، شہنشاہ کو اس حسن ظن کی جزا دے۔‘‘ یہ کہہ کر درویش نے مٹی کے پیالے میں پانی بھرا۔ پھر اپنی جگہ سے اٹھا اور شہزادہ دارا شکوہ کے پلنگ کے قریب پہنچ کر ولی عہد سلطنت سے مخاطب ہوا۔ ’’اے جان بے قرار! ہمیں تو بہت دنوں سے تیرا انتظار تھا مگر تو آیا بھی تو کس حال میں آیا۔‘‘ درویش کے لہجے میں اس قدر سوز تھا کہ شاہ جہاں کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں اور خود دارا شکوہ بھی رونے لگا۔
’’شیخ! میری ناتوانی کا یہ عالم ہے کہ میں اپنی کوشش سے اٹھ کر بیٹھ نہیں سکتا۔‘‘
’’شہزادے! ہمت تو کرو۔‘‘ یہ کہہ کر درویش نے ولی عہد سلطنت کے جسم کو اپنے بائیں ہاتھ کا ہلکا سا سہارا دیا۔
پھر
حاضرین خانقاہ نے اپنی آنکھوں سے یہ حیرت انگیز منظر دیکھا کہ دارا شکوہ جو ناتوانی کے سبب کروٹ بھی نہیں لے سکتا تھا، آسانی کے ساتھ اپنے پلنگ پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ پھر درویش نے اپنا ایک ہاتھ مغل شہزادے کے سر پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے پانی پلایا۔ مٹی کے پیالے کا وہ پانی کیا تھا، اپنی تاثیر میں آب حیات سے بڑھ کر تھا۔ چند گھونٹ حلق سے اترتے ہی دارا شکوہ کو محسوس ہوا کہ جیسے بے جان سے جسم میں توانائی کی نئی لہر دوڑ گئی ہے۔
شاہ جہاں نے درویش کی خانقاہ میں ایک ہفتے تک قیام کیا۔ اس دوران فرمانروائے ہند ایک فقیر بے مایہ کا مہمان تھا۔ درویش نے حسب استطاعت معمولی غذا تاجدارِ ہند کے سامنے دسترخوان پر رکھی اور مغل شہنشاہ نے اس غریبانہ خوراک کو نہایت ذوق و شوق کے ساتھ کھایا۔
دارا شکوہ اپنی مشہور تصنیف ’’سکینتہ الاولیاء‘‘ میں ایک مقام پر تحریر کرتا ہے۔ ’’میرے والد محترم مجھے اس وقت حضرت شیخؒ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے جب ہندوستان کے تمام حاذق اطباء میرے علاج سے عاجز آگئے تھے اور بظاہر میری سانسوں کا شمار ختم ہوتا نظر آتا تھا مگر حضرت شیخؒ نے مجھے مٹی کے اس پیالے سے پانی پلایا جسے آپ خود استعمال فرمایا کرتے تھے۔ پھر قدرتِ خداوندی کا کرشمہ اس طرح ظاہر ہوا کہ میں ایک ہفتے کے اندر اس طرح صحت یاب ہوگیا کہ جیسے کبھی بیمار ہی نہیں ہوا تھا۔‘‘
شاہ جہاں بیٹے کی صحت یابی کا جشن اس طرح منانا چاہتا تھا کہ فقیر کے قدموں میں سیم و زر کے انبار لگا دے اور اس کی خانقاہ کے درودیوار میں طلائی رنگ بھر دے مگر درویش نے یہ کہہ کر انکار کردیا۔ ’’اگر بادشاہ کچھ دینا چاہتے ہیں تو بس اتنا کرم کریں کہ مجھے تنہا چھوڑ دیں۔‘‘
مغل شہنشاہ نے پہلی بار کسی انسان کی یہ شان بے نیازی دیکھی تھی۔ آخر اس نے دوسرے زاویئے سے درخواست کی۔ ’’اگر شیخ یہ نذرات و تحائف خود قبول نہیں فرماتے تو اپنے خدمت گاروں میں تقسیم کردیں۔‘‘
’’بڑی عجیب بات ہے کہ میں جس چیز کو اپنے لیے پسند نہیں کرتا، اسے دوسروں کے لیے پسند کروں؟‘‘ درویش نے نہایت پُرسوز لہجے میں کہا۔ انجام کار شاہ جہاں دہلی لوٹ آیا۔ راستے بھر وہ زیرلب ایک ہی بات دہراتا رہا۔ ’’اللہ کا شکر ہے کہ ابھی اس کی مملکت میں ایسے جانباز موجود ہیں۔‘‘
جس درویش کے دست کارساز سے پانی کے چند گھونٹ پی کر مغل شہزادے دارا شکوہ نے ایک لاعلاج بیماری سے نجات حاصل کی تھی، وہ سلسلۂ قادریہ کے مشہور بزرگ حضرت میاں میر لاہوریؒ تھے۔
٭…٭…٭
حضرت میاں میرؒ کا خاندانی نام میر محمد تھا۔ بعض مؤرخین نے شیخ محمد تحریر کیا ہے۔ آپ سندھ کے قدیم شہر سیوستان میں پیدا ہوئے۔ سیوستان کو سہون بھی کہتے ہیں جو موجودہ پاکستان کے ضلع دادو میں واقع ہے۔ حضرت میاں میرؒ کی تاریخ پیدائش میں سخت اختلاف پایا جاتا ہے۔ مغل شہزادے دارا شکوہ نے اپنی مشہور تصنیف ’’سکینتہ الاولیاء‘‘ میں 938ھ کو آپ کا سال ولادت قرار دیا ہے۔ اس کے برعکس مشہور کتاب ’’تحفتہ الکرام‘‘ میں آپ کی تاریخ پیدائش 957ھ درج ہے۔
سرنصف نامہ کے اعتبار سے حضرت میاں میرؒ کا تعلق خلیفہ ثانی امیرالمومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان سے ہے، اسی لیے آپ فاروقی کہلاتے ہیں۔ حضرت میاں میرؒ کے والد محترم کا اسم گرامی قاضی سائیں دتہ تھا۔ بعض مؤرخین نے ’’سائیندنہ‘‘ تحریر کیا ہے۔ حضرت قاضی سائیں دتہ اپنے علم و فضل اور زہد و تقویٰ کے لحاظ سے نہ صرف سیوستان بلکہ پورے سندھ میں ممتاز مانے جاتے تھے۔ ابھی حضرت میاں میرؒ کی عمر صرف بارہ سال تھی کہ آپ کے سر سے والد ماجد کا سایہ اٹھ گیا مگر خاندان میں علم و فضل کا چرچا تھا، اس لیے تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت میاں میرؒ کی والدہ محترم بی بی فاطمہ، قاضی قازن کی صاحبزادی تھیں۔ خود بھی نہایت عالم و فاضل اور پرہیزگار خاتون تھیں۔ بعض تاریخی روایتوں کے مطابق حضرت میاں میرؒ کے چار بھائی تھے، دو بہنیں تھیں جن میں سے ایک کا نام بی بی جمال خاتون تھا۔ بی بی جمال کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے زمانے کی رابعہ بصریؒ تھیں۔
٭…٭…٭
علم ظاہری کی تکمیل کے بعد حضرت میاں میرؒ، حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت شیخ خضرؒ سندھ میں سلسلۂ قادریہ کے مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ حضرت شیخؒ کے صبر و قناعت اور توکل کی انتہا یہ تھی کہ ساری زندگی مال دنیا کے نام پر ایک کوڑی بھی اپنے پاس نہیں رکھی۔
حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ نے اپنی عمر کا طویل حصہ ایک قبرستان میں گزارہ۔ پھر آپ سیوستان کے باہر ایک پہاڑ میں سکونت پذیر ہوگئے جہاں سارا وقت عبادتوں، مجاہدوں اور یادِالٰہی میں گزارتے تھے۔ حضرت خضر سیوستانیؒ نے ایک تنور بھی بنوایا تھا۔ جب شدید سردی کا موسم آتا تو آپ اس تنور کو جلتی ہوئی لکڑیوں سے بھر دیتے۔ پھر برفانی راتیں اسی تنور کے قریب بسر کرتے۔ حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ سردی اور گرمی میں ہمیشہ ایک ہی لباس استعمال کرتے اور وہ لباس ایک تہہ بند پر مشتمل ہوتا۔ پہاڑ میں مقیم ہونے کے بعد شہر سے آپ کا رابطہ کم و بیش ختم ہوگیا تھا۔ اہل دنیا سے اجتناب کا یہ عالم تھا کہ اللہ کے سوا آپ کا کوئی دوست نہیں تھا۔ حضرت شیخ درختوں کے پتے کھا کر زندگی بسر کرتے تھے۔
مغل شہزادے دارا شکوہ نے اپنی دوسری مشہور تصنیف ’’سفینتہ الاولیاء‘‘ میں ایک مقام پر تحریر کیا ہے۔ ایک بار سیوستان کا حاکم حضرت شیخ خضرؒ کی زیارت کے لیے پہاڑ پر حاضر ہوا۔ اس وقت شدید گرمی کا موسم تھا۔ حاکم سیوستان نے دیکھا کہ حضرت شیخ خضرؒ پر استغراق کی کیفیت طاری تھی اور آپ جلتی ہوئی دھوپ میں ایک تپتے ہوئے پتھر پر بیٹھے تھے۔ حاکم دبے پائوں آگے بڑھا مگر حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ نے آنکھ کھول کر نہیں دیکھا۔ پھر وہ آپ کے قریب پہنچ کر اس زاویئے سے کھڑا ہوگیا کہ سورج اس کی پشت پر آگیا اور حضرت شیخؒ چند لمحوں کے لیے حاکم کے سائے میں آگئے۔ حاکم کی نیت یہی تھی کہ حضرت شیخؒ کچھ دیر کیلئے تیز دھوپ سے محفوظ رہیں۔
پھر جیسے ہی حضرت شیخ خضرؒ پر حاکم سیوستان کا سایہ پڑا، آپ نے آنکھیں کھول دیں اور نہایت پُرجلال لہجے میں فرمایا۔ ’’تم کون ہو اور یہاں کس مقصد سے آئے ہو؟‘‘
’’میں اس علاقے کا حکمراں ہوں۔‘‘ حاکم سیوستان نے انتہائی عقیدت و انکسار کے ساتھ عرض کیا۔ ’’آپ کی زیارت سے شرف یاب ہونے کیلئے حاضر ہوا ہوں۔‘‘
’’کیا تم نے زیارت کرلی؟‘‘ حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ نے حاکم سے پوچھا۔
’’جی ہاں! آپ کے صدقے میں یہ دولت دیدار مجھے حاصل ہوگئی۔‘‘ حاکم سیوستان نے فرطِ ادب سے کسی قدر خم ہوتے ہوئے کہا۔
’’جب مقصد پورا ہوگیا تو میرا پیچھا چھوڑ دو۔‘‘ حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ نے ایک خاص شان بے نیازی کے ساتھ فرمایا۔
’’اگر آپ مجھے کسی خدمت کا موقع عنایت کریں تو یہ میرے لئے انتہائی سعادت ہوگی۔‘‘ حاکم سیوستان، حضرت شیخؒ کے روبرو اپنے انکسار کا مظاہرہ کرنے کے لیے مزید خم ہوگیا۔
’’میرے بھائی! مجھے کیوں تنگ کرتے ہو؟‘‘ حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ نے نہایت بے نیازی کے ساتھ فرمایا۔ ’’بفضل اللہ میرا کوئی کام ایسا نہیں ہے جسے تم انجام دے سکو۔‘‘
’’میں جانتا ہوں مگر پھر بھی شیخ مجھے کسی خدمت کا موقع مرحمت فرمائیں۔‘‘
حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ کی بے زاری میں کچھ اور اضافہ ہوگیا مگر پھر بھی آپ نے نہایت تحمل کے ساتھ فرمایا۔ ’’اگر میں تمہیں اپنی کسی خدمت کا موقع دوں تو کیا تم اسے خوش دلی کے ساتھ انجام دو گے؟‘‘
حاکم سیوستان، حضرت شیخؒ کی بات کی گہرائی کو سمجھنے سے قاصر رہا اور انتہائی پُرجوش لہجے میں کہنے لگا۔ ’’شیخ! آپ حکم تو دیں۔‘‘
’’تم نے اپنا یہ سایہ جو مجھ پر ڈال رکھا ہے، اسے بلاتاخیر دور کردو۔‘‘ حضرت شیخ سیوستانیؒ نے فرمایا۔ ’’جو لوگ اللہ کے سائے میں زندگی بسر کرتے ہیں، انہیں کسی دوسرے سائے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘
چند لمحوں کے لیے حاکم سیوستان کے چہرے پر مسرت کا جو رنگ ابھر آیا تھا، وہ اس طرح ڈوب گیا کہ جیسے آندھی کا کوئی تیز جھونکا کسی چیز کو چھوتا ہوا گزر جائے۔
’’اور دوسری خدمت یہ ہے کہ تم جہاں سے آئے ہو، وہیں واپس چلے جائو۔‘‘ حضرت شیخ خضرؒ نے فرمایا۔
حاکم سیوستان کو محسوس ہوا کہ جیسے ایک تنہا شخص نے کسی لشکر جرار کو شکست دے دی ہو۔ وہ خجالت کے پسینے میں ڈوبا ہوا چند قدم پیچھے ہٹا اور اتنی دور جاکر کھڑا ہوگیا کہ اس کا سایہ حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ پر نہ پڑے۔
حضرت شیخؒ نے نظر اٹھا کر حاکم سیوستان کی طرف دیکھا اور ناخوشگوار لہجے میں فرمایا۔ ’’جب ہم دونوں کے درمیان بات طے ہوچکی تو پھر کیوں کھڑے ہو؟‘‘
حاکم سیوستان نے نہایت شکستہ لہجے میں عرض کیا۔ ’’میں شیخ کے ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے واپس جاتا ہوں مگر پھر بھی میری یہ تمنا ہے کہ اس خاص موقع پر جب آپ یادِ حق میں مشغول ہوں تو میرے لیے دعائے خیر فرمائیں۔‘‘
حاکم سیوستان کی درخواست سن کر حضرت شیخ خضرؒ نے نہایت رقت آمیز لہجے میں فرمایا۔ ’’اللہ تعالیٰ مجھے اس وقت کے لیے زندہ نہ رکھے جب میرے دل میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کا خیال آئے۔‘‘
یہ تھے سلسلۂ قادریہ کے جانباز حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ اور یہ تھی ان کے جینے کی ادا…!
حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ سے حضرت میاں میرؒ کی ملاقات کا واقعہ بھی بڑا عجیب ہے۔ اس سلسلے میں خود حضرت میاں میرؒ فرماتے ہیں کہ جب میں والدہ محترمہ سے اجازت لے کر گھر سے باہر نکلا تو بے اختیار میرا رخ جنگل کی طرف ہوگیا۔ یہاں تک کہ میں کوچئہ سیوستان میں پہنچا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایک گوشے میں ایک تنور موجود ہے جس کا منہ ڈھکا ہوا ہے۔ میں وہاں سے خاموشی کے ساتھ گزر جانا چاہتا تھا مگر یکایک میرے دل میں آئی کہ اس تنور کو کھول کر دیکھوں۔
پھر جب میں نے تنور کھولا تو وہ گرم تھا اور اس کے اندر ایک بڑا سا پتھر رکھا ہوا تھا۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ کسی مرد بزرگ کا مقام ہے۔ میں نے اپنے دل میں عہد کرلیا کہ اس وقت تک یہاں سے نہیں جائوں گا جب تک اس درویش کی زیارت نہ کرلوں جس کا ٹھکانہ جنگل کا یہ ویران گوشہ ہے۔ شاید یہ اس مرد بزرگ کی روحانی کشش تھی کہ میں اس مقام پر ٹھہر گیا جو خطرات سے بھرا ہوا تھا۔
حضرت میاں میرؒ فرماتے ہیں کہ دن
� طرح گزر گیا مگر جب رات آئی تو محسوس ہوا کہ موسم بہت سخت ہے۔ سرد ہوائیں انسانی جسم کو منجمد کئے دیتی تھیں۔ دوسرے یہ کہ جنگلی جانوروں اور درندوں کی آوازیں آس پاس سنائی دے رہی تھیں مگر کوئی میرے قریب نہیں آتا تھا۔ شاید یہ بھی اس مرد بزرگ کی کرامت تھی کہ خوفناک درندے اس مقام سے دور ہی رہتے تھے۔ پھر جنگلی جانوروں کی ضرررسانی کا خوف تو دور ہوگیا مگر سرد موسم نے اس قدر ستایا کہ میں کئی بار تنور کے قریب گیا اور چاہا کہ اسے کھول کر اندر بیٹھ جائوں اور یخ بستہ ہوائوں کے تیز جھونکوں سے محفوظ ہوجائوں مگر ہر مرتبہ یہ سوچ کر لوٹ آیا کہ جو مقام کسی بزرگ کا ہو، وہاں اس طرح بیٹھنا بے ادبی ہے۔
الغرض مجھے اس ویران جگہ پر پڑے ہوئے تین دن گزر گئے اور جن بزرگ کے دیدار کی تمنا تھی، ان کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ میں کسی دوسرے آباد علاقے میں جاکر اپنی بھوک اور پیاس مٹا سکتا تھا مگر اس خوف سے کہیں نہ جا سکا کہ اگر وہ بزرگ آکر واپس چلے گئے اور میں موجود نہیں ہوا تو پھر اس محرومی کا علاج ممکن نہیں ہوگا۔ بھوک اور پیاس بڑھتی جارہی تھی مگر اللہ نے غیب سے مجھے استقامت بخشی۔ آخر تین دن اور تین راتیں اسی عالم میں گزر گئے۔ اس دوران غذا کا کوئی لقمہ میرے حلق سے نیچے نہیں اترا اور نہ میں نے پانی کا ایک گھونٹ پیا۔ آخر تین دن بعد میری آزمائش بھی ختم ہوئی اور کشمکش انتظار بھی! آخر وہ مرد بزرگ نمودار ہوئے اور تنور کی طرف آتے ہوئے نظر آئے۔ میں انہیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ سردیوں کے سخت موسم میں صرف ایک تہہ بند پہنے ہوئے تھے۔ مجھے کسی دلیل اور گواہی کے بغیر یقین آگیا کہ یہی وہ مرد بزرگ ہوسکتے ہیں۔ وہ ضعیف العمر تھے اور ان کا جسم بہت لاغر و نحیف تھا مگر رفتار میں نوجوانوں سے زیادہ مضبوطی تھی۔ میں تنور سے کچھ فاصلے پر موجود تھا، اس لئے بزرگ مجھے نہ دیکھ سکے۔ وہ آئے اور خاموشی سے ایک پتھر پر بیٹھ گئے۔ میں نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا اور لرزتے قدموں سے آگے بڑھا۔ میرے پیروں کی یہ لرزش ان بزرگ کے ہیبت و جلال کے باعث تھی۔ میں نے قریب پہنچ کر بزرگ کی خدمت میں سلام پیش کیا۔ بزرگ نے میری طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور بہ آواز بلند فرمایا۔ ’’وعلیکم السلام میر محمد!‘‘ بزرگ کی زبان مبارک سے اپنا نام سن کر حیرت زدہ رہ گیا۔ اب ان کی روحانی عظمت اور روشن ضمیری میں کوئی کلام باقی نہیں رہ گیا تھا۔
’’کیسے ہو میر محمد؟‘‘ بزرگ نے دوبارہ مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
’’شیخ کی دعائوں کے طفیل تمام آفات ارضی و سماوی سے محفوظ ہوں۔‘‘ میں نے بصداحترام عرض کیا۔
’’کچھ کھایا پیا؟‘‘ حضرت شیخؒ نے ایک دلنواز تبسم کے ساتھ پوچھا۔
’’یہاں قرب و جوار میں غذا اور پانی میسر نہیں تھے۔‘‘ میں نے بزرگ کے سوال کا جواب دیا۔ میرے لہجے میں شدید نقاہت ظاہر ہورہی تھی۔
’’تو کچھ دور جاکر اپنے حصے کا رزق اور پانی تلاش کرلیا ہوتا۔‘‘ بزرگ کے اندازِِگفتگو سے اپنائیت اور محبت جھلک رہی تھی۔
’’کئی بار چاہا مگر ہر مرتبہ ایک ہی خوف دامن گیر ہوگیا۔‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا۔
’’میر محمد! کیسا خوف؟‘‘ بزرگ نے محبت آمیز لہجے میں پوچھا۔
’’اگر میں تلاش رزق و آب میں نکلا اور آپ آکر واپس تشریف لے گئے تو پھر اس محرومی کا ازالہ کس طرح ہوگا؟‘‘ میں نے بے کم و کاست اپنے دل کی کیفیت بیان کردی۔
’’جب ہمیں آنا تھا اور تم سے ملاقات طے ہوچکی تھی تو پھر محرومی کیسی… اور خوف کیسا؟‘‘ بزرگ نے باتوں ہی باتوں میں معرفت کا ایک عجیب نکتہ بیان فرما دیا تھا۔
میں خاموشی سے سر جھکائے کھڑا رہا۔
’’بیٹھ جائو، کشمکش انتظار نے تمہیں تھکا دیا ہوگا۔‘‘ بزرگ کے ہونٹوں پر بڑی دل آویز مسکراہٹ تھی۔ ایسی مسکراہٹ کہ جس کی حیات افزا تاثیر میں بھوک اور پیاس کی تکلیف کو یکسر فراموش کر بیٹھا تھا۔
جب میں دوزانو ہوکر بیٹھ گیا تو بزرگ نے فرمایا۔ ’’میر محمد! تم یہاں کتنے دن سے ٹھہرے ہوئے ہو؟‘‘
میں نے عرض کیا۔ ’’تین دن اور تین راتوں سے آپ کا منتظر تھا۔‘‘
’’تین دن اور تین راتیں؟‘‘ بزرگ نے میری بات سن کر شدید حیرت کا اظہار کیا۔ ’’دو دن سے تو میں یہیں تھا، بس آج ہی کچھ دیر کے لیے گیا تھا مگر میں نے تو تمہیں کہیں نہیں دیکھا۔‘‘
بزرگ کا یہ انکشاف سن کر مجھے بھی بہت تعجب ہوا۔ اب میرے لیے نئی پریشانی یہ تھی کہ میں بزرگ کے قول کی تردید کس طرح کروں۔ پھر میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا۔ ’’شیخ! بہتر جانتے ہوں گے کہ میں سچ بول رہا ہوں یا جھوٹ؟‘‘
بزرگ نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور اسی روح پرور تبسم کے ساتھ فرمایا۔ ’’شاید ایسا ہی ہو۔ فقیر کو تو اپنی ہی خبر نہیں ہے پھر وہ روزوشب کا حساب کیسے رکھے گا؟‘‘
دراصل یہ بزرگ کے استغراق کی کیفیت تھی۔ اگرچہ انہیں یہاں سے گئے ہوئے تین دن گزر چکے تھے لیکن وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ آج ہی گیا ہوں اور آج ہی واپس آگیا ہوں۔
بزرگ کچھ دیر تک خاموش رہے۔ پھر نہایت شفقت آمیز لہجے میں فرمانے لگے۔ ’’میر محمد! تم نے میرے انتظار میں بہت زحمت برداشت کی مگر تم اپنے گھر سے کس کام کے لیے نکلے تھے؟‘‘
’’میں حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ کی خدمت میں حاضر ہونے کے ارادے سے نکلا تھا کہ راستے میں تنور دیکھ کر ٹھہر گیا اور پھر شوق دیدار میرے پیروں کی زنجیر بن گیا۔‘‘
’’خضر سیوستانی تو یہی گناہ گار ہے مگر پتا نہیں کہ تم کس خضر کی تلاش میں ہو؟‘‘
بزرگ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سن کر میں حیرت زدہ رہ گیا اور بہت دیر تک حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ کے روشن چہرے کو دیکھتا رہا۔ پھر جب حیرت و استعجاب کے اثرات زائل ہوئے تو میں نے بے اختیار ہوکر حضرت شیخؒ کے دست مبارک کو بوسہ دیا۔
’’خود ہی زنجیر پہنائی اور خود ہی زنجیر کو کھول دیا۔‘‘ جوش مسرت میں میری آواز لرز رہی تھی۔
’’جو کچھ ہوتا ہے، اسی کی طرف سے ہوتا ہے۔‘‘ حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ نے فرمایا۔ ’’بندے تو محض درمیان کا ایک واسطہ ہیں۔ وہ مختار کل جسے چاہے ہدایت بخشے اور جسے چاہے صراط مستقیم سے محروم کردے۔‘‘
میں نے اپنی خوش قسمتی پر خالق کائنات کا شکر ادا کیا اور پھر حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ سے درخواست کی۔ ’’گھر سے یہی نیت کرکے نکلا تھا کہ اگرمیرے بخت نے یاوری کی تو شیخ کے حلقۂ غلامی میں شامل ہوجائوں گا۔‘‘
حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ نے میری درخواست سنی اور پھر مجھے بیعت سے شرف یاب فرمایا۔
حضرت میاں میرؒ اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں کتنے دن رہے، کسی تاریخی دستاویز سے اس کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا۔ مغل شہزادے دارا شکوہ نے اپنی تصنیف ’’سکینتہ الاولیاء‘‘ میں صرف اتنا تحریر کیا ہے۔ ’’حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ سے بیعت ہونے کے بعد حضرت میاں میرؒ نے ریاضتیں اور مجاہدے شروع کردیئے۔ پھر تھوڑے ہی عرصے بعد حضرت شیخؒ نے فرمایا۔ ’’شیخ محمد! تم نے اپنا کام مکمل کرلیا۔ اب تمہیں یہاں رہنے کی ضرورت نہیں، جہاں چاہو بودوباش اختیار کرو اور اللہ نے اپنے لامحدود خزانوں میں سے تمہیں جو دولت عطا کی ہے، اسے اس کے بندوں میں حسب ضرورت تقسیم کرو۔‘‘
بالآخر حضرت میاں میرؒ اپنے پیر و مرشد سے اجازت لے کر لاہور کی طرف روانہ ہوگئے۔
حضرت میاں میرؒ کے سفر لاہور کے متعلق دو متضاد روایات مشہور ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ آپ نے پیر و مرشد سے اجازت لے کر سیوستان چھوڑا تھا۔ اس روایت کو اکثر مؤرخین نے بیان کیا ہے۔ دوسری روایت یہ ہے کہ جب حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ کا وصال ہوگیا تو حضرت میاں میرؒ عازم لاہور ہوئے۔ اس بحث سے قطع نظر حضرت میاں میرؒ پچیس سال کی عمر میں لاہور تشریف لائے۔ یہ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کا زمانہ تھا۔ لاہور پہنچ کر حضرت میاں میرؒ، مولانا سعداللہؒ کے حلقۂ درس میں شامل ہوگئے۔ مولانا سعداللہؒ یگانۂ روزگار عالم تھے۔ حضرت میاں میرؒ کئی سال تک مولانا کے فضل و کمال سے فیضیاب ہوئے۔
پھر آپ مفتی عبدالسلام لاہوریؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مفتی عبدالسلامؒ ایک طویل عرصے تک شاہی ملازمت سے وابستہ رہے، پھر اس منصب سے الگ ہوکر درس و تدریس میں مشغول ہوگئے اور تقریباً پچاس سال تک بندگانِ خدا میں علم کی دولت تقسیم کرتے رہے۔ حضرت میاں میرؒ نے مفتی عبدالسلام لاہوریؒ سے اس طرح اکتساب علم کیا کہ استاد گرامی اپنے شاگرد پر ناز کیا کرتے تھے اور برسرمجلس فرماتے تھے کہ اللہ نے شیخ محمد کو وہ ذہن رسا عطا کیا ہے کہ لمحوں میں ان پر علم کے رموز و نکات آشکار ہوجاتے ہیں۔
مفتی عبدالسلام لاہوریؒ کے علاوہ حضرت میاں میرؒ، مولانا نعمت اللہؒ کے حلقۂ درس میں بھی شامل ہوا کرتے تھے۔ مولانا نعمت اللہؒ، مولانا سعداللہؒ کے شاگرد تھے۔ حضرت میاں میرؒ نے تھوڑے ہی عرصے میں ان بزرگ سے معقولات اور منقولات کا علم حاصل کیا، یہاں تک کہ مولانا نعمت اللہؒ کے تمام پرانے شاگرد پیچھے رہ گئے اور مکتب میں داخل ہونے والا ایک نووارد اپنے ساتھیوں پرسبقت لے گیا۔
حضرت مولانا نعمت اللہؒ، حضرت میاں میرؒ کی ذکاوت اور فہم و تدبر کے بارے میں فرمایا کرتے تھے۔ ’’ہم کئی سال تک شیخ محمد کو پڑھاتے رہے اور اس دوران انہوں نے ہم سے ہمارا سارا علم لے لیا مگر اس طویل عرصے میں ہمیں ان کے اصلی حالات کا علم نہیں ہوسکا۔‘‘ یہ حضرت میاں میرؒ کی شخصیت کی گہرائی پر ان کے استاد گرامی کی کھلی ہوئی گواہی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت میاں میرؒ معرفت کے رازوں کو دوسرے لوگوں سے کس قدر پوشیدہ رکھتے تھے۔
حضرت میاں میرؒ کا یہ معمول تھا کہ آپ دن کے وقت بزرگوں کے مقبروں، باغوں یا جنگلوں میں جاکر یادِحق میں مشغول رہتے تھے۔ جو دوست آپ کے ہمراہ ہوتے، وہ بھی الگ الگ ایک درخت کے نیچے ذکرالٰہی میں مشغول ہوجاتے۔ پھر جب نماز کا وقت آتا تو تمام ساتھی مل کر نماز باجماعت ادا کرتے۔ حضرت میاں میرؒ لوگوں کے میل جول اور اہل دنیا کی محبتوں سے ہمیشہ متنفر رہتے تھے۔ آپ رات کو حجرے کا دروازہ بند کرکے تنہا قبلے کی طرف منہ کئے بیٹھے رہتے اور ساری رات ذکرالٰہی ٰمیں مشغول رہتے۔ واضح رہے کہ حضرت میاں میرؒ کا تعلق صوفیائے کرام کے اس گروہ سے تھا جو ذکرخفی کو پسند کرتے ہیں۔ تصوف کی اصطلاح میں ذکرخفی سے مراد اللہ کو اس طرح یاد کرنا ہے کہ قریب بیٹھے ہوئے
کو بھی یہ بات معلوم نہ ہوسکے کہ ذکر کرنے والا کسے پکار رہا ہے۔ دوسرے گروہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ لوگ زوروشور کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ پوری خانقاہ ان کی آوازوں سے گونج اٹھتی ہے۔
مغل شہزادہ دارا شکوہ لکھتا ہے کہ حضرت میاں میرؒ کا باغوں میں جانا، رسالت پناہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق مبارک کے عین موافق تھا۔ جیسا کہ ’’صحیح مسلم‘‘ اور ’’مشکوٰۃ‘‘ کی تیسری فصل ’’کتاب الایمان‘‘ میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے۔ ’’ایک دن سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی مجلس سے اٹھ کر ایک طرف تشریف لے گئے۔ حضرت ابوہریرہؒ نے تلاش کے بعد سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک باغ میں دیکھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہؒ کو اپنے نعلین مبارک دے کر فرمایا۔ ’’اے ابوہریرہ! اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جسے تو’’لاالہ الا اللہ‘‘ کہتے ہوئے دیکھے، وہ ضرور بالضرور بہشت میں داخل ہوگا۔‘‘
اس حدیث مبارک سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یکسوئی اور جمعیت خاطر کے لیے باغوں میں تشریف لے جاتے تھے۔ ان مقامات پر سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو وجد اور ذوق حاصل ہوتا تھا۔ اسی لیے مومنوں کو بشارت دی اور ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کے ذکر کی تلقین فرمائی جو ہر مسئلے کا حل ہے اور ہر قفل کی چابی ہے۔
شہزادہ دارا شکوہ کے بیان کے مطابق ایک معزز درباری مُلا سید خان کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت میاں میرؒ ’’ذکر‘‘ کے موضوع پر تقریر فرما رہے تھے۔ اسی دوران آپ نے اپنا ایک واقعہ سناتے ہوئے فرمایا۔ ’’شہر کے باہر ایک غیر آباد مکان پڑا تھا۔ مشغول حق ہونے کے لئے میں تقریباً پندرہ روز تک وہاں جاکر بیٹھتا رہا مگر مجھے جمعیت خاطر حاصل نہ ہوسکی۔ آخر میں نے طے کرلیا کہ یہاں سے چلے جانا چاہیے۔ اس مکان کے قریب ہی ایک کنواں تھا اور وہاں پر ایک سقہ رہا کرتا تھا۔ الغرض جب میں اس مکان کو چھوڑ کر جانے لگا تو سقے نے مجھ سے کہا۔ ’’شیخ! آپ یہاں سے کیوں جارہے ہیں؟ آپ کے دم سے تو بڑی آبادی تھی۔‘‘
’’یہ مقام میرے لئے موزوں نہیں۔ مجھے آج تک یہاں اطمینان قلب حاصل نہیں ہوا۔‘‘ میں نے سقے کو مکان چھوڑ کر جانے کی وجہ بتائی۔ ’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟‘‘
سقہ کچھ دیر تک سوچتا رہا، پھر اس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’شیخ! کچھ دن پہلے اس علاقے میں ایک بارات آئی تھی۔ جب وہ لوگ یہاں پہنچے تو رات ہوچکی تھی۔ مجبوراً انہیں اسی مکان میں قیام کرنا پڑا، پھر وہ لوگ رات بھر تفریح میں مشغول رہے اور صبح ہوتے ہی بارات لے کر چلے گئے۔‘‘
جب سقہ یہ واقعہ سنا چکا تو مجھ پر حقیقت ظاہر ہوئی کہ یہ ان کی ہنگامہ آرائی اور تفریح کا اثر ہے، اس کی وجہ سے مجھے جمعیت خاطر حاصل نہیں ہوئی۔ نتیجتاً میں نے اسی روز وہ مکان چھوڑ دیا اور دوسری جگہ منتخب کرلی۔
اس واقعہ سے اہل نظر کو اندازہ کرنا چاہیے کہ جس طرح ذکرالٰہی سے کسی مکان یا مجلس پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اسی طرح لہو ولعب کی باتوں اور کاموں سے بھی وہ خطہ زمین متاثر ہوتا ہے اور برائی کے نقوش جگہ پکڑ لیتے ہیں۔
٭…٭…٭
حضرت میاں میرؒ ہفتہ ہفتہ بھر بھوکے رہتے تھے مگر اپنا حال کسی پر ظاہر نہیں کرتے تھے۔ غیرت نفس اور خودداری کا یہ عالم تھا کہ امراء اور وزراء قیمتی نذریں لے کر حاضر ہوتے تھے مگر آپ یہ کہہ کر انہیں لوٹا دیتے۔ ’’اللہ کے بے شمار مستحق بندے ہیں، یہ چیزیں ان تک پہنچا دو۔‘‘
جب آپ امراء کی نذریں واپس کرتے تو اس وقت آٹھ دن کے فاقے سے ہوتے تھے۔ یہ صبر و قناعت اور توکل آپ کے کردار کا روشن ترین پہلو ہے۔
ایک دن حضرت میاں میرؒ نے فرمایا۔ ’’تیس سال تک ہمارے گھر کچھ نہیں پکا۔‘‘
اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت میاں میرؒ اور آپ کے اہل خانہ نے تیس سال تک کچھ نہیں کھایا۔ شہزادہ دارا شکوہ نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ حضرت میاں میرؒ کا رزق اس آیت کریمہ کے مطابق تھا۔ ’’تمہارا رزق اور جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، آسمان میں ہے۔‘‘ (ترجمہ)
اسی فرمان الٰہی کے مطابق حضرت میاں میرؒ کو غیب سے رزق حاصل ہوتا تھا مگر اس طرح کہ آٹھ آٹھ دن فاقے سے گزر جاتے تھے۔ ایک دن آپ کے حقیقی بھائی سیوستان (سندھ) سے لاہور تشریف لائے۔ بھائی کو دیکھ کر حضرت میاں میرؒ بہت متفکر ہوئے۔ اپنی اس پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’میرا بھائی ایک مدت کے بعد میرے پاس آیا تھا۔ اسے دیکھ کر مجھے خوشی حاصل ہوئی مگر دوسرے ہی لمحے میری یہ خوشی، فکر و غم میں تبدیل ہوگئی۔ اس وقت میرا کوئی مرید تھا اور نہ معتقد کہ میں اس سے بھائی کے کھانے کا بندوبست کرنے کے لیے کہتا۔ خود میری ناداری کا یہ عالم تھا کہ گھر میں ایک کوڑی بھی نہیں تھی۔ آخر میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ تم میرے حجرے میں بیٹھ جائو تاکہ میں تمہارے لیے کھانے کا انتظام کروں۔ یہ کہہ کر میں باغ میں چلا آیا۔ پھر وضو کیا اور دو رکعت نماز ادا کی۔ اس کے بعد اپنے خالق کے سامنے دامن مراد پھیلا دیا۔ ’’اے میرے پالنے والے! تیرے سوا اس دنیا میں کوئی دوست، کوئی مہربان نہیں۔ تجھے معلوم ہے کہ میرے گھر مہمان آیا ہوا ہے اور میں رسم میزبانی ادا کرنے کے قابل نہیں ہوں۔‘‘
ابھی میری دعا مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ایک صدائے غیب سنائی دی۔ ’’جب ہمارے سوا تمہارا کوئی نہیں ہے تو پھر پریشان کیوں ہوتے ہو۔ ہم نے دعا مانگنے سے پہلے ہی تمہاری خواہش پوری کردی ہے۔‘‘
پھر میں نے بھائی کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا۔ مجھے اپنی دعا کی قبولیت کا یقین تھا۔ پھر بھی میں نے بھائی سے سوال کیا۔ ’’کیا بات ہے، تم یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘
’’آپ کے جانے کے کچھ دیر بعد ہی ایک شخص کھانا لے کر آیا اور پوچھنے لگا کہ شیخ میر محمد کہاں ہیں؟‘‘ میرے بھائی نے بتایا۔ ’’وہ شخص آپ کا انتظار کررہا ہے۔‘‘
میں فوراً ہی اپنے بھائی کے ہمراہ گھر پہنچا۔ وہاں جاکر دیکھا کہ ایک نہایت خوبصورت نوجوان موجود ہے، پھر جب ہم دونوں بھائی کھانے سے فارغ ہوگئے تو اس نوجوان نے برتن اٹھائے اور ہمیں سلام کرکے چلا گیا۔ اس نوجوان کے چلے جانے کے بعد مجھے ایک فکر سی لاحق ہوگئی۔ آخر بہت دن بعد مجھ پر یہ راز فاش ہوا کہ وہ فرشتہ تھا جو رسم میزبانی ادا کرنے کے لیے آیا تھا:
خدا خود میر سامان است ارباب توکل را
(توکل کرنے والوں کے لیے اللہ خود ہی میر سامان بن جاتا ہے)
دہلی میں میاں حاجی محمدؒ صاحب ایک بزرگ گزرے ہیں۔ ایک دن مغل شہزادہ دارا شکوہ نے ان سے کہا۔ ’’حاجی صاحب! حضرت شیخؒ کی کوئی کرامت سنایئے۔‘‘
حاجی صاحبؒ کچھ دیر تک سوچتے رہے۔ پھر کہنے لگے۔ ’’میں ایک دن حضرت میاں میرؒ کی خدمت میں حاضر تھا۔ حضرت شیخؒ نے کسی درویش کے حوالے سے یہ واقعہ بیان کیا کہ سیوستان اور بھکر کے لوگوں میں قدیم رسم تھی کہ جب تک کسی شخص کے پاس مویشیوں کا ریوڑ یا نقد مال نہ ہو، اس وقت تک اس کی لڑکی کے لیے کوئی شادی کا پیغام نہیں بھیجتا تھا۔ ان ہی لوگوں میں ایک عزت دار شخص تھا جس کا سارا مال و متاع گردش وقت کے سبب برباد ہوچکا تھا۔ اس کی ایک جوان لڑکی تھی مگر مفلسی کے باعث لڑکی کا رشتہ نہیں آتا تھا۔ اسی علاقے میں ایک فقیر بھی رہتا تھا جو کبھی کبھی اس شخص کے گھر آتا اور پانی مانگتا۔ لڑکی بڑے ذوق و شوق سے فقیر کو پانی پلاتی اور فقیر اسے دعائیں دے کر چلا جاتا۔
پھر جب بیٹی کی شادی کے سلسلے میں ماں باپ بہت پریشان رہنے لگے تو ایک دن لڑکی نے اپنی ماں سے کہا۔ ’’وہ درویش بابا مجھے بہت دعائیں دیتے ہیں، آپ اس سلسلے میں ان سے بات کیوں نہیں کرتیں؟‘‘
اتفاق سے دوسرے دن وہ فقیر آگیا۔ لڑکی کی ماں نے درویش سے شکایتاً کہا۔ ’’تیری فقیری ہمارے کسی کام نہیں آتی۔ تو آتا ہے اور پانی پی کر چلا جاتا ہے۔ تیری نگاہ کی برکت سے ہمیں کوئی آسودگی حاصل نہیں ہوئی۔ ہمارے حالات ویسے ہی ہیں جیسے تیرے آنے سے پہلے تھے۔‘‘
فقیر اس عورت کی بات سن کر مسکرایا۔ ’’آخر تم کیا چاہتی ہو؟‘‘
’’میں اپنی لڑکی کی شادی کرنا چاہتی ہوں مگر میرے پاس ایک تنکہ (سکہ) بھی نہیں۔‘‘ عورت اپنی حالت زار بیان کرتے ہوئے رونے لگی۔
فقیر نے اس عورت کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ عورت حیران و پریشان درویش کے ساتھ چلتی رہی۔ پھر وہ فقیر ایک بنیے کی دکان پر پہنچا اور عورت کو مخاطب کرتے ہوئے بولا۔ ’’تمہیں جس چیز کی ضرورت ہو، اس شخص سے لے لینا مگر اپنے لیے سامان کی ذخیرہ اندوزی نہ کرنا۔‘‘
اس کے بعد وہ فقیر پانی پینے اس مکان پر نہیں آیا۔ عورت روزانہ بنیے کی دکان پر جاتی اور اپنی ضرورت کا اسباب لے کر واپس آجاتی۔ کچھ دن بعد لڑکی کا رشتہ آیا اور شادی کی تاریخ طے ہوگئی۔ عورت بنیے کے پاس گئی اور شادی سے متعلق ساز و سامان اور نقد رقم طلب کی۔ بنیے نے کسی حیل و حجت کے بغیر عورت کو مطلوبہ چیزیں فراہم کردیں۔ پھر شادی کا دن آیا اور عورت نے اتنی دھوم دھام سے اپنی بیٹی کی شادی کی کہ محلے والے دیکھتے رہ گئے۔
شادی کے کچھ دن بعد عورت بنیے کی دکان پر گئی اور ذخیرہ کرنے کے لیے بہت سا اناج لے آئی۔ دوسرے روز کپڑا اور دیگر اشیاء لینے کے لیے دکان پر پہنچی تو حیرت زدہ رہ گئی۔ وہاں نہ بنیا موجود تھا اور نہ دکان، بس ایک ویران جگہ پڑی ہوئی تھی۔ عورت روتی پیٹتی واپس چلی آئی۔
پھر ایک مدت کے بعد اس نے فقیر کو دوبارہ دیکھا تو دیوانہ وار اس کے قدموں پر گر کر کہنے لگی۔ ’’مجھے بس اتنا بتا دے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘
’’تو نے میری بات نہ مانی اور حاجت روائی کا ایک آسان ذریعہ کھو دیا۔‘‘ فقیر نے پُرجلال لہجے میں کہا۔
’’اللہ کے لیے مجھے یہ راز بتا دے کہ وہ دکان کہاں چلی گئی؟‘‘ عورت رورو کر اصرار کرنے لگی۔
’’اگر تو اس دکان کا حال پوچھے گی تو پھر مجھے بھی نہیں پائے گی۔‘‘ فقیر نے عورت کو اس کے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ مگر عورت اصرار کرتی رہی کہ تجھے بتانا ہی ہوگا۔
’’وہ اناج، کپڑا، دکان اور بنیا سب کچھ میں ہی تھا۔‘‘ فقیر نے کہا اور نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
جب حضرت میاں میرؒ یہ واقعہ بیان کرچکے تو حاجی محمدؒ نے پوچھا۔ ’’کیا وہ درویش آپ ہی تھے؟‘‘
’’وہ کوئی بھی تھا، تمہیں اس سے کیا
غرض۔‘‘ حضرت میاں میرؒ نے فرمایا۔ ’’وہ تو بس ایک قصہ تھا، جو تمہیں سنا دیا گیا۔‘‘
میاں حاجی محمدؒ نے دوبارہ وہی سوال کیا تو حضرت میاں میرؒ نے انہیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’خبردار! اس بات کو کسی پر ظاہر مت کرنا۔‘‘
میاں حاجی محمدؒ کہتے ہیں کہ میں نے بعد میں کچھ ثقہ لوگوں سے تحقیق کی تو پتا چلا کہ سیوستان اور بھکر کے وہ فقیر حضرت میاں میرؒ ہی تھے۔
جب لاہور میں حضرت میاں میرؒ کی کرامات کا چرچا ہونے لگا تو آپ ایک دن خاموشی کے ساتھ رات کے اندھیرے میں سرہند تشریف لے گئے۔ سرہند مشرقی پنجاب (ہندوستان) کا مشہور شہر ہے۔ سلسلۂ نقشبندیہ کے عظیم بزرگ میاں میرؒ کو سرہند کی آب و ہوا راس نہیں آئی۔ یہاں آکر آپ گھٹنوں کے درد اور دوسری سخت بیماریوں میں مبتلا ہوگئے مگر پھر بھی خودداری کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اس قدر سنگین اوقات میں بھی کسی کو مدد کیلئے نہیں پکارا۔ (جاری ہے)