یہاں ایک صاحب حاجی نعمت اللہ سرہندی رہتے تھے۔ انہیں کسی طرح پتا چل گیا کہ لاہور سے ایک درویش سرہند آئے ہوئے ہیں اور ان دنوں سخت علیل ہیں۔
حاجی نعمت اللہ کسی تاخیر کے بغیر حاضر ہوئے اور حضرت میاں میرؒ کی خدمت گزاری میں مصروف ہوگئے۔ آپؒ نے حاجی نعمت اللہ کو کئی بار منع کیا مگر وہ یہی کہتے رہے۔ ’’میں آپ کی تیمارداری کو اپنے لیے ایک سعادت سمجھتا ہوں۔‘‘
حاجی نعمت اللہ سرہندی کی ضد دیکھ کر حضرت میاں میرؒ خاموش ہوگئے اور انہیں اپنے حجرے میں آنے کی اجازت دے دی۔ حضرت میاں میرؒ کی بیماریوں کا سلسلہ تقریباً ایک سال تک جاری رہا۔ اس دوران حاجی نعمت اللہ سرہندی نے حضرت میاں میرؒ کی خدمت کا حق ادا کردیا۔ جس کام کو انجام دیتے ہوئے انسان کی اپنی اولاد بھی کراہیت کا احساس کرتی ہے، وہی کام حاجی نعمت اللہ سرہندی نہایت اخلاص اور خوش دلی کے ساتھ انجام دیتے تھے۔ تصوف کی تمام معتبر کتابوں میں یہ روایت درج ہے کہ حاجی صاحب، حضرت میاں میرؒ کی گندگی بھی صاف کرتے تھے اور اس طرح کہ ان کے چہرے پر ناگواری کا ہلکا سا عکس تک نہیں ہوتا تھا۔
حضرت میاں میرؒ، نعمت اللہ سرہندی کی اس مخلصانہ تیمارداری سے بہت خوش ہوئے اور پھر جب صحت یاب ہوگئے تو ایک دن آپ نے حاجی صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا۔ ’’نعمت اللہ! ہم ایک فقیر بے سروسامان ہیں، اس لیے تمہیں زر و مال کی صورت میں کچھ نہیں دے سکتے۔ ہاں! اگر تم کہو تو اپنے پالنے والے سے تمہارے لیے کچھ روحانی نعمتیں مانگ سکتے ہیں؟‘‘
حضرت میاں میرؒ کی گفتگو سن کر حاجی نعمت اللہ سرہندی نے عرض کیا۔ ’’اس سے بڑی نعمت اور کیا ہوگی کہ میں آپ کی دعائوں میں شامل ہوجائوں۔‘‘
حضرت میاں میرؒ نے اسی وقت حاجی نعمت اللہ سرہندی کو اپنے حلقۂ ارادت میں شامل کیا اور انتہائی مختصر عرصے میں انہیں سلوک کے درجۂ کمال تک پہنچایا۔ حاجی نعمت اللہ سرہندی کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ وہ حضرت میاں میرؒ کے پہلے مرید تھے۔ اس کے بعد حضرت شیخؒ دوبارہ لاہور تشریف لے آئے۔
روایت ہے کہ حاجی نعمت اللہ سرہندی، حضرت میاں میرؒ کے مرید ہونے کے بعد یادِ الٰہی میں مشغول ہوگئے۔ پھر کچھ دن بعد ہی حاجی صاحب کی یہ کیفیت ہوگئی کہ ان پر عالم ’’ملکوت‘‘ منکشف ہونے لگا۔ حاجی صاحب اس کیفیت کو برداشت نہ کرسکے اور ایک دن شیخ جمیل الدین کے پاس پہنچ کر کہنے لگے۔ ’’شیخ! مجھے ایک ایسا عالم دکھائی دیتا ہے جس کے دیکھنے سے ایک عجیب سی لذت حاصل ہوتی ہے۔‘‘
شیخ جمیل الدین، شیخ ولی الدین کے خلیفہ تھے اور سرہند میں رہا کرتے تھے۔ جب انہوں نے حاجی نعمت اللہ کی بات سنی تو بے ساختہ کہا۔ ’’حاجی! وہ عالم ملکوت نہیں جو تجھے نظر آتا ہے بلکہ عالم جنیات ہے۔ اگر کچھ دن اور تیری یہی کیفیت رہی تو تجھے شدید نقصان پہنچے گا۔‘‘ پھر شیخ جمیل الدین نے اس مبالغہ آمیزی سے کام لیا کہ حاجی نعمت اللہ سرہندی کا اعتقاد سست پڑ گیا اور انہوں نے اس عمل کو چھوڑ دیا جو پیر و مرشد نے بطور خاص بخشا تھا۔
پھر جیسے ہی حاجی نعمت اللہ سرہندی نے حضرت میاں میرؒ کے بتائے ہوئے عمل کو ترک کیا، عالم ملکوت بھی ان کی نظروں سے اوجھل ہوگیا اور پھر وہ لذت بھی جاتی رہی جو وظیفہ پڑھنے کے دوران انہیں حاصل ہوتی تھی۔ اپنی بدلی ہوئی کیفیت دیکھ کر حاجی نعمت اللہ اُداس رہنے لگے اور پھر ایک دن اپنی اسی اداسی سے تنگ آکر انہوں نے مکہ معظمہ جانے کا ارادہ کیا اور حاجی صاحب، پیر و مرشد سے اجازت لینے کے لیے لاہور حاضر ہوئے۔
پھر جیسے ہی نعمت اللہ سرہندی، حضرت میاں میرؒ کی خدمت میں پہنچے تو پیر و مرشد نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا۔ ’’کہیے حاجی صاحب! آپ کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا ہے؟‘‘
نعمت اللہ سرہندی، پیر و مرشد کی قوت کشف پر حیران رہ گئے اور پھر انہوں نے پورا واقعہ بے کم و کاست بیان کردیا۔
اپنے مرید کی گفتگو سن کر حضرت میاں میرؒ نے فرمایا۔ ’’حاجی! ہمارے ہوتے ہوئے تم غیر کے پاس کیوں گئے؟‘‘
نعمت اللہ سرہندی نے فرطِ ندامت سے سر جھکا لیا۔
’’نعمت اللہ! ہم نے تو تمہاری خدمات کو دل سے قبول کرلیا مگر افسوس تم نے ہماری دی ہوئی نعمتوں کی کوئی قدر نہیں کی۔‘‘ حضرت میاں میرؒ کے لہجے سے انتہائی آزردگی کا اظہار ہورہا تھا۔ ’’تمہیں معلوم ہے کہ اس درویش نے تمہارے ساتھ کتنا بڑا دھوکا کیا؟ وہ شخص تو جانتا ہی نہیں کہ عالم ملکوت کسے کہتے ہیں؟‘‘
خجالت اور شرمندگی کے سبب حاجی نعمت اللہ سرہندی کا سر کچھ اور جھک گیا تھا۔ ’’یہ خادم مکہ معظمہ جانا چاہتا ہے تاکہ اسے سکون قلب حاصل ہوسکے۔‘‘
حضرت میاں میرؒ کو اپنے مرید کی حالت پر ترس آگیا۔ ’’حاجی! اگر تم اسی جگہ بیٹھے بیٹھے مکہ معظمہ کی زیارت کرلو تو پھر…؟‘‘
’’میں یہی چاہتا تھا کہ وہ کھوئی ہوئی لذت دوبارہ حاصل ہوجائے۔‘‘ احساس ندامت کی شدت کے سبب نعمت اللہ سرہندی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
حضرت میاں میرؒ نے اپنی خانقاہ کے ایک گوشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’آج رات وہاں بیٹھ کر خلوص دل کے ساتھ یہ اسم الٰہی پڑھو، پھر مجھے بتائو کہ تمہاری گمشدہ لذت تمہیں واپس ملی یا نہیں؟‘‘
حاجی نعمت اللہ سرہندی نے پیر و مرشد کے حکم کے مطابق عمل کیا اور پھر دوسرے دن جب حضرت میاں میرؒ خانقاہ میں تشریف لائے تو حاجی نعمت اللہ حاضرین مجلس کے سامنے زاروقطار رونے لگے۔
’’کیا ہوا حاجی؟‘‘ حضرت میاں میرؒ نے اپنا دست شفقت نعمت اللہ سرہندی کے سر پر رکھتے ہوئے فرمایا۔
’’پیر و مرشد کی دعائوں کے طفیل مجھے مکہ معظمہ کی زیارت ہوگئی۔‘‘ حاجی نعمت اللہ سرہندیؒ انتہائی وارفتگی کے عالم میں بول رہے تھے۔ ’’میں پہلے کی طرح منزل بہ منزل گیا اور مکہ معظمہ کی زیارت کرکے واپس آگیا۔‘‘
’’اب کہاں جانا چاہتے ہو؟‘‘ حضرت میاں میرؒ نے نعمت اللہ سرہندی سے دریافت کیا۔
’’مرشد کے قدموں کے سوا میرا کہاں ٹھکانہ ہے۔‘‘ حاجی نعمت اللہ اپنی غلطیوں کو یاد کرکے رو رہے تھے۔
’’تنہائی بہت بری چیز ہے نعمت اللہ۔‘‘ حضرت میاں میرؒ نے اپنے عاجز و نادم مرید کو مخاطب کرکے فرمایا۔ ’’اسی لیے تمہیں اوراد و وظائف بتائے تھے کہ تم ان کے سہارے اپنی تنہائی دور کرو مگر تم نے انہیں ترک کردیا اور تنہائی کا شکار ہوکر بھٹک گئے۔‘‘
اس واقعے میں فطرت کے کئی راز پوشیدہ ہیں۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ تنہا انسان بڑی آسانی سے دماغی خلل کا شکار ہوسکتا ہے اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ وہ وحشت و اضطراب میں مبتلا ہوکر کسی سنگین جرم کا ارتکاب کر بیٹھے۔ قانونی اعتبار سے بھی بعض خطرناک مجرموں کو ’’قید تنہائی‘‘ کی سزا دی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ تنہائی دنیا کا سب سے اذیت ناک عمل ہے۔ مادہ پرست ممالک میں اکثر تنہا انسان خودکشی کرکے اپنی کربناک زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں۔ اسی طرح بوڑھے انسان بھی جب ان کی زندگی کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا، دنیا سے بیزار و مایوس ہوکر اپنے آپ کو ہلاک کرلیتے ہیں اور اس عبرتناک انجام میں صرف ان کی تنہائی کارفرما ہوتی ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ صوفی دنیا کے تمام انسانوں سے زیادہ تنہا ہوتا ہے۔ بعض صوفیائے کرام نے تو پوری زندگی عالم تنہائی میں گزار دی مگر وہ کبھی دلبرداشتہ نہیں ہوئے اور آخری سانس تک بھرپور ذوق و شوق اور توانائی کے ساتھ زندہ رہے۔ اہل دنیا انہیں تنہا سمجھتے تھے مگر حقیقتاً وہ تنہا نہیں ہوتے تھے۔
صوفی کسی تاریک غار میں ہو یا خانقاہ کے کسی سنسان گوشے میں، جب وہ ذکرِالٰہی کرتا ہے تو تنہا نہیں ہوتا، حق تعالیٰ کی ذات اقدس اس کے قریب ہوتی ہے۔ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب۔ اگر ’’ذکر‘‘ کا علمی تجزیہ کیا جائے تو یہ بات ظاہر ہوجائے گی کہ جب صوفی ذکرحق کرتا ہے تو گویا اپنی تنہائی کو دور کرتا ہے۔ صوفیاء کے بعض گروہ جب بلند آواز سے اللہ کو پکارتے ہیں تو اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے خالق سے ہم کلام ہیں اور جب کوئی انسان کسی دوسری ذات سے ہم کلام ہے تو پھر اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ تنہا نہیں ہے۔
حضرت میاں میرؒ کے مرید حاجی نعمت اللہ سرہندیؒ چونکہ درجۂ کمال تک نہیں پہنچے تھے، اس لیے تنہائی سے گھبرا گئے اور اپنا ایک اہم راز شیخ جمیل الدین سے کہہ دیا جو معرفت کے اسرار و رموز سے واقف نہیں تھے اور پھر اپنی اسی کم علمی کے سبب شیخ جمیل الدین نے حاجی نعمت اللہ سرہندیؒ کو غلط راستے پر ڈال دیا اور وہ اپنی کمائی ہوئی دولت گنوا بیٹھے۔
اسی وجہ سے اکثر مشائخ کرام نے فرمایا۔ ’’ایک مریدکے لیے اکیلے رہنے سے بڑھ کر کوئی آفت نہیں ہوتی۔‘‘
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشادِ مقدس ہے۔ ’’اکیلے کے ساتھ شیطا ن ہوتا ہے اور دو سے وہ دور رہتا ہے۔‘‘ (ترجمہ)
الغرض حضرت میاں میرؒ نے حاجی نعمت اللہ سرہندی کی کوتاہیوں سے درگزر کیا اور پھر انہیں اپنی خانقاہ کے ایک گوشے میں بٹھا کر دوبارہ مشغول حق کیا، یہاں تک کہ پیر و مرشد کی خصوصی توجہ سے حاجی نعمت اللہؒ درجۂ کمال کو پہنچے۔
حاجی نعمت اللہ سرہندیؒ نے چونکہ حضرت میاں میرؒ کی گندگی صاف کی تھی، اس لیے آپؒ نے خوش ہوکر انہیں دولت روحانی سے مالا مال کردیا۔ تصوف کی معتبر کتابوں میں اسی انداز کا ایک اور عجیب واقعہ بھی نظر آتا ہے جسے پڑھ کر انسانی ذہن کے بند دریچے کھل جاتے ہیں اور خدمت کا حقیقی مفہوم واضح ہوجاتا ہے۔
دہلی میں ایک فقیر دوست انسان مُلا سعید خان تھے جو لاہور پہنچ کر اکثر حضرت میاں میرؒ کی مجلسوں میں شرکت کرتے تھے۔ ایک دن مولانا عبدالرحمن جامیؒ کی مشہور تصنیف ’’نغمات الانس‘‘ مُلا سعید خان کے زیرمطالعہ تھی۔ کتاب پڑھتے پڑھتے ایک مقام پر مُلا سعید خان کی نظریں جم کر رہ گئیں۔
مولانا عبدالرحمن جامیؒ نے حضرت جنید بغدادیؒ کے بارے میں ایک واقعہ تحریر کیا تھا۔ حضرت شیخؒ کا ایک مرید تھا جس کی ابتدائی زندگی لہو و لعب میں بسر ہوئی تھی مگر حضرت جنید بغدادیؒ کی خصوصی توجہ نے اس کے نفس کی ساری کثافتیں دھو ڈالیں اور پھر وہ ولایت کے منصب پر فائز ہوا۔ یہاں تک کہ حضرت شیخ جنید بغدادیؒ نے اسے خرقۂ خلافت بھی عطا فرمایا۔ پھر جب حضرت شیخؒ دنیا سے رخصت ہوگئے تو وہ خلیفہ خانقاہ میں بیٹھ کر بطور فخر کہا کرتا تھا۔ ’’میں حضرت شیخ جنید بغدادیؒ کا
ایک ایسا خادم ہوں جس نے مسلسل تیس برس تک اپنے پیر و مرشد کی گندگی صاف کی ہے۔‘‘
حاضرین مجلس اس شخص کی بات سنتے اور داد و تحسین کے نعرے بلند کرتے۔ ’’کیا عجز و انکسار ہے اور کیا خدمت گزاری ہے۔‘‘
ملا سعید خان بھی اس واقعے سے بہت متاثر ہوئے۔ پھر ایک دن ملا سعید خان، حضرت میاں میرؒ کی مجلس میں حاضر تھے۔ انہوں نے حضرت شیخ جنید بغدادیؒ کے خلیفہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا۔ ’’سلوک کے راستے میں لوگوں نے کیسے کیسے کام کیے ہیں۔ ایک شخص تیس سال تک اپنے پیر و مرشد کے جسم سے خارج ہونے والی غلاظت اٹھاتا ہے اور پھر ہزاروں لوگوں کے سامنے اپنی اس خدمت پر فخر بھی کرتا ہے۔ یہ کیسا انکسار ہے اور کیسی خدمت گزاری ہے؟‘‘
جب ملا سعید خان اپنی بات مکمل کرچکے تو حضرت میاں میرؒ نے انہیں اور دیگر حاضرین مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’اسے انکسار نہیں کہتے بلکہ یہ فخر و غرور کی ہی ایک شکل ہے۔‘‘
’’پھر انکسار کسے کہتے ہیں؟‘‘ ملا سعید خان نے عرض کیا۔
’’انکسار اسے کہتے ہیں کہ اگر کوئی دوسرا شخص اس واقعہ کا حوالہ دیتا تو حضرت شیخ جنید بغدادیؒ کے خلیفہ کو یوں کہنا چاہیے تھا کہ یہ تو معمولی خدمت ہے۔‘‘ حضرت میاں میرؒ نے ملا سعید خان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’وہ شخص فخر و مباہات کا اسیر تھا اور نمود و نمائش کا غلام۔ وہ برسرمجلس اس واقعے کا ذکر کرکے لوگوں کو بہکانا چاہتا تھا کہ اس نے حضرت شیخؒ کی غیرمعمولی خدمت انجام دی ہے اور اسی خدمت کے نتیجے میں اسے خلافت حاصل ہوئی ہے۔‘‘
حضرت شیخؒ کی حکیمانہ گفتگو سن کر ملا سعید خان اور دیگر حاضرین مجلس حیرت زدہ رہ گئے۔ وہ لوگ جس بات کو کارِعظیم سمجھ رہے تھے، اب وہی خدمت ایک معمولی چیز نظر آرہی تھی۔
مختصر سے وقفۂ سکوت کے بعد ایک عارف کی پرجلال آواز سے خانقاہ کے دروبام دوبارہ گونج اٹھے۔ حضرت میاں میرؒ فرما رہے تھے۔ ’’گندگی اٹھانا کون سا مشکل کام ہے۔ یہ کام تو ہر شخص کرسکتا ہے اور کررہا ہے۔ کام تو وہ تھا جو حضرت شیخؒ جنید بغدادیؒ نے کیا کہ اس شخص کے باطن کو ماسوا اللہ سے پاک کردیا۔ جسم کی غلاظت تو تھوڑے سے پانی سے دور ہوجاتی ہے مگر روح کی کثافت کو دھونا کس قدر مشکل کام ہے، یہ بات حضرت شیخ جنید بغدادیؒ ہی جانتے تھے۔ اللہ حضرت شیخؒ کی قبر کو نور سے بھر دے کہ انہوں نے اپنے مرید کی بڑی خدمت انجام دی۔‘‘
٭…٭…٭
حضرت میاں میرؒ ایک سال سرہند میں قیام فرمانے کے بعد دوبارہ لاہور تشریف لائے اور آخر عمر تک باغبانوں کے محلے میں سکونت پذیر رہے۔ لاہور کے جدید جغرافیے میں اس محلے کو باغبان پورہ کہتے ہیں۔ یہاں رہ کر حضرت میاں میرؒ نے اپنے مریدوں کی اصلاح فکر اور تہذیب نفس کرکے ایک ایسی جماعت پیدا کی جس سے رشد و ہدایت کے چشمے پھوٹے، پورا پنجاب معرفت کے ان آبشاروں سے سیراب ہوا۔
حضرت میاں میرؒ بہت کم لوگوں کو اپنے حلقۂ ارادت میں شامل فرماتے تھے۔ جب کوئی شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو اس سے دریافت کرتے۔ ’’تمہیں میرا پتا کس نے بتایا ہے اور تم میرے پاس کس کام کے لے آئے ہو؟‘‘
اگر وہ شخص جواب میں یہ کہتا کہ میں حضرت شیخؒ کے دیدار کے لیے حاضر ہوا ہوں تو آپ اس کے ساتھ بہت شفقت اور مہربانی کے ساتھ پیش آتے اور فرماتے کہ آئو بیٹھ جائو۔ پھر تھوڑی دیر بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے اور آنے والے شخص سے مخاطب ہوکر فرماتے۔ ’’اب تم جائو، تمہارا کام ہوگیا۔‘‘
اگر آنے والا شخص یہ کہتا کہ میں طلب حق کے لیے حاضر ہوا ہوں تو حضرت میاں میرؒ اس کی طرف سے منہ پھیر لیتے۔ اگر وہ شخص آپ کے قریب بیٹھا ہوتا تو اسے اپنے پاس سے اٹھا دیتے اور انتہائی ناخوشگوار لہجے میں فرماتے۔ ’’بابا! حق کی طلب آسان نہیں۔ یہ دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ تم اس کام کے لائق نہیں ہو، اس لیے بہتر ہے کہ کوئی اور کام کرو۔‘‘
اگر وہ شخص بیعت ہونے کے لیے اصرار کرتا تو حضرت میاں میرؒ برہم ہوجاتے۔ ’’جب تک تم اس کی طلب میں یگانہ نہیں ہوجائو گے، اسے اس وقت تک نہیں پا سکو گے۔ تمہارے پاس ایک ہی دل ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ دنیاوی خواہشات سے بھرا پڑا ہے۔ پہلے اپنے دل کو ان بتوں سے خالی کرو، پھر میرے پاس آنا، پھر میں دیکھوں گا کہ تم میں طلب حق کی استطاعت ہے یا نہیں؟‘‘
مغل شہزادے دارا شکوہ کے استاد شاہ صاحب فرماتے تھے۔ جب میں بدخشاں سے ہندوستان آیا تو میں نے چاروں طرف حضرت میاں میرؒ کے اسم گرامی کی گونج سنی۔ میرے دل میں شوق ملاقات پیدا ہوا، پھر اس شوق نے اضطرابی کیفیت اختیار کرلی۔ آخر ایک طویل مدت کے بعد حضرت میاں میرؒ نے چشم التفات سے میری طرف دیکھا اور نہایت مشفقانہ لہجے میں فرمایا۔ ’’شاہ صاحب! آخر تم اس فقیر سے کیا چاہتے ہو؟‘‘
حضرت شیخؒ کو اپنے آپ سے مخاطب پا کر شاہ صاحب کی حیرت و مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھے اور حضرت میاں میرؒ سے عرض کرنے لگے۔ ’’بس! حضور کی غلامی چاہتا ہوں۔‘‘
شاہ صاحب کی بے قراری دیکھ کر حضرت میاں میرؒ نے تبسم فرمایا۔ ’’ہاں! تمہارے سینے میں طلب حق کی آگ روشن ہے۔ اگر تم لالچی ہوتے تو چند ہی روز میں یہ چنگاری بجھ جاتی اور تم مجھے چھوڑ کر چلے جاتے۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت میاں میرؒ نے شاہ صاحب کا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے لیا اور ایک طالب حق کو مشغول حق بنا دیا۔
٭…٭…٭
حضرت میاں میرؒ بہت کم لوگوں کو مرید کرتے مگر جب کوئی شخص آپ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوجاتا تو اس کی تربیت پر خصوصی توجہ فرماتے۔ شوق نمائش سے منع کرتے کہ اسی کا دوسرا نام نفس پرستی ہے۔ ملا خواجہ بہاریؒ، حضرت میاں میرؒ کے خلیفہ تھے۔
خواجہ صاحبؒ اپنی زندگی کا ایک اہم ترین واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’کچھ لوگ مجھ سے ملنے آئے ہوئے تھے۔ ہمارے درمیان بہت دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ اچانک مجھے محسوس ہوا جیسے یہ مکان گرنے والا ہے۔ میں نے اس خطرے کے پیش نظر اپنے مہمانوں سے کہا۔ ’’آپ حضرات باہر چلے جائیں۔‘‘
مہمانوں نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ ’’کیا ہوا خواجہ صاحب؟‘‘
’’یہ مکان گرنے والا ہے۔‘‘ میری آواز سے شدید گھبراہٹ ظاہر ہورہی تھی۔ ’’جلدی کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم لوگوں کو کوئی گزند پہنچ جائے۔‘‘
میری بات سن کر تمام مہمان کھڑے ہوگئے۔ ’’جب مکان گرنے والا ہے تو آپ اطمینان سے کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟‘‘
’’سوال کرنے کا وقت نہیں ہے۔‘‘ میں نے انہیں سخت لہجے میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’اپنی اپنی جانیں بچانے کی کوشش کرو۔‘‘
الغرض میرے سارے مہمان گھر سے نکل گئے اور میں بہ آواز بلند کلمۂ طیبہ کا ورد کرنے لگا۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں پورا مکان منہدم ہوگیا۔ لوگ دیوانہ وار چیخنے لگے۔ ’’خواجہ بہاری ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں، انہیں نکالو۔‘‘
مہمان کی چیخیں سن کر محلے کے دوسرے لوگ بھی دوڑ پڑے اور مجھے ملبے کے اندر تلاش کرنے لگے۔ پھر جب وہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے میرے قریب آئے تو میں نے پکار کر کہا۔ ’’میں یہاں ہوں اور اللہ کے فضل سے محفوظ ہوں۔‘‘
آخر جب مکان کا ملبہ ہٹا کر مُلا خواجہ بہاریؒ کو نکالا گیا تو وہ بالکل صحیح و سلامت تھے اور ان کے جسم پر ہلکی سی خراش بھی نہیں آئی تھی۔ دراصل واقعہ یوں ہوا تھا کہ جب مکان کی چھت گری تو دو مضبوط کڑیاں اس طرح آپس میں مل گئیں کہ مُلا خواجہ بہاریؒ محفوظ رہے۔
پھر ایک دن جب حضرت میاں میرؒ کی مجلس میں کسی شخص نے اس واقعے کا ذکر کیا تو وہاں وہ لوگ بھی موجود تھے جو خواجہ صاحبؒ کے مہمان تھے اور جنہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے مکان کو زمین بوس ہوتے دیکھا تھا۔ ان لوگوں کو قوی امید تھی کہ حضرت شیخؒ اس واقعے کو سن کر مُلا خواجہ بہاریؒ کی تعریف فرمائیں گے مگر جب حضرت میاں میرؒ حاضرین مجلس سے مخاطب ہوئے تو سننے والے حیرت زدہ رہ گئے۔
حضرت میاں میرؒ نے نہایت افسردہ لہجے میں فرمایا۔ ’’ہائے مرتبہ… ہائے مرتبہ۔ مرتے وقت بھی اس کا خیال دل سے دور نہیں ہوتا۔‘‘
حضرت میاں میرؒ کا اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ مُلا خواجہ بہاریؒ نے کلمۂ طیبہ بلند آواز سے پڑھا تھا تاکہ لوگ ان کی تعریف کریں کہ مُلا بہاری کتنا بڑا درویش تھا کہ مرتے وقت بھی اللہ کو یاد کرتا رہا۔
مُلا خواجہ بہاریؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت شیخؒ نے مجھے اس طرح تنبیہ کی تھی اور یہ نکتہ سمجھایا تھا کہ کلمۂ طیبہ آہستہ پڑھنا چاہیے۔
٭…٭…٭
گزشتہ صفحات میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت میاں میرؒ عالم جوانی میں اس قدر قناعت پسند اور متوکل تھے کہ آٹھ آٹھ دن تک کھانا نہیں کھایا کرتے تھے۔ پھر جو کچھ غیب سے مل جاتا، اسے تناول فرماتے اور اپنے خالق کا اس طرح شکر ادا کرتے کہ تو جس حال میں رکھے، وہی حال بہتر ہے۔
حضرت شیخؒ کے ایک خادم کا بیان ہے کہ آخری عمر میں آپ کا طریقۂ کار کسی قدر تبدیل ہوگیا تھا اور یہ تبدیلی بھی صرف مریدوں کی دلجوئی کے سبب تھی۔ حضرت میاں میرؒ نے اپنے خادم کو صرف ایک قسم کا کھانا پکانے کا حکم دیا تھا۔ خادم مٹی کے برتن میں کھانا پکا کر لے جاتا اور حضرت میاں میرؒ تمام مریدوں کے ساتھ مل کر نوش فرماتے۔ اگر اتفاق سے کوئی مرید موجود نہ ہوتا تو اس کا حصہ الگ کردیا جاتا، خاص طور پر شیخ محمد لاہوریؒ کے گھر کھانا بھیجتے اور فرماتے کہ وہ عیال دار ہے۔
شہزادہ دارا شکوہ تحریر کرتا ہے حضرت میاں میرؒ کا زیادہ تر وقت استغراق میں گزرتا تھا، اس لیے آپ دن رات میں بہت کم غذا استعمال فرماتے تھے اور جو تھوڑا بہت کھاتے تھے، اس کی بھی خبر نہیں ہوتی تھی کہ کیا کھایا ہے۔ ہمیشہ جمال حق کے مشاہدے میں غرق رہتے تھے اور اکثر حاضرین مجلس سے پوچھا کرتے تھے کہ آج کون سا دن یا کون سا مہینہ ہے۔ کبھی استغراق کا یہ عالم ہوتا کہ کھانا کھاتے وقت خادم سے پوچھتے کہ تم نے یہ کیا چیز پکائی ہے؟
حضرت میاں میرؒ امراء اور دیگر صاحبانِ ثروت کی نذریں قبول نہیں فرماتے تھے۔ ہاں اگر کوئی عقیدت مند اپنی حلال کی کمائی سے بطور نذر کچھ پیش کرتا تو آپ خوشی سے قبول فرما لیتے اور پھر فوراً ہی کھانا پکوا کر حاضرین کو کھلا دیتے۔
جب کھانا ختم ہوجاتا تو بہ آواز بلند فارسی کا یہ شعر پڑھتے۔ ’’اگر ساری دنیا خوان سے پُر ہو اور مال سے بھر جائے تب بھی مردِ خدا حلال
کچھ نہیں کھاتا۔‘‘
ایک دن جب حضرت میاں میرؒ نے کھانا کھانے کے بعد یہ شعر پڑھا تو اس وقت ملا عصمت اللہ بھی مجلس میں موجود تھے۔ ملا صاحب نے عرض کیا کہ کسی شاعر نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مضمون نظم کر دیا ہے۔
یہ سن کر حضرت میاں میرؒ نے سر نیاز خم کردیا اور نہایت پُرسوز لہجے میں کہا۔ ’’بے شک میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی ارشاد فرمایا ہے۔‘‘
اسی مجلس میں ملا معصوم بھی حاضر تھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’جو ایمان لائے اور پھر ان لوگوں نے نیک اعمال کئے، ان کے لیے کھانے میں کوئی کچھ حرج نہیں، پھر ڈرو اور نیکی کرو۔ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (ترجمہ)
شہزادہ دارا شکوہ لکھتا ہے کہ اگر کوئی شخص مسلسل کھانا پکا کر لاتا تو آپ اسے منع فرما دیتے تھے۔ ایک دن خادم نے منع کرنے کا سبب پوچھا تو حضرت میاں میرؒ نے فرمایا۔ ’’چاہے وہ حلال کمائی سے حاصل کیا ہوا رزق ہی کیوں نہ ہو، لیکن اگر کوئی شخص پے درپے نذر بھیجے تو انسانی دل میں ایک امید سی پیدا ہوجاتی ہے، پھر توکل ختم ہوجاتا ہے اور اس کی جگہ خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔‘‘
حضرت میاں میرؒ کے اس قول مبارک کے بارے میں داراشکوہ تحریر کرتا ہے کہ حضرت نے جس خطرے کے متعلق فرمایا تھا، اس کا تعلق آپ کی ذات مبارک سے ہرگز نہیں تھا۔ یہ بات محض طالب علموں اور مریدوں کو سمجھانے کے لیے کی گئی تھی۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ حضرت میاں میرؒ کے دل میں کبھی کوئی خطرہ پیدا نہیں ہوا اور اس شخص کے دل میں خطرہ کس طرح پیدا ہوسکتا ہے کہ جو شاہان وقت سے ملنا بھی گوارا نہ کرتا ہو۔
اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے شہزادہ دارا شکوہ لکھتا ہے کہ شہنشاہ جہانگیر ایک زمانے میں درویشوں اور صوفیوں سے برائے نام بھی عقیدت نہیں رکھتا تھا بلکہ اس جماعت کے لوگوں کو بے دریغ اذیتیں پہنچاتا تھا۔ ایک بار جہانگیر کے کسی مصاحب نے حضرت میاں میرؒ کے زہد و تقویٰ کا ذکر کیا۔ جہانگیر کو بہت حیرت ہوئی اور اس نے بے اختیار ہوکر کہا۔ ’’کیا میری سلطنت میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں؟‘‘
پھر جہانگیر نے حضرت میاں میرؒ کو آزمانے کے لیے اپنے مصاحب کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ شہنشاہِ ہند آپ سے ملاقات کے خواہشمند ہیں۔
جب مغل شہنشاہ جہانگیر کے مصاحب خاص نے حضرت میاں میرؒ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوکر فرمانروائے ہندوستان کا پیغام پہنچایا تو اس مرد درویش نے یہ کہہ کر معذرت کرلی۔ ’’میں اپنی عدیم الفرصتی کے باعث حکم شاہی کی تعمیل سے معذور ہوں۔‘‘
جہانگیر ایک مردِ درویش کا جواب سن کر حیران رہ گیا۔ پھر اس نے حضرت میاں میرؒ کی خدمت میں ایک عریضہ ارسال کیا۔ ’’شیخ بہتر جانتے ہیں کہ میں امورِ سلطنت کی انجام دہی کے سلسلے میں کس قدر مصروف ہوں مگر اس کے ساتھ ہی مجھے آپ سے ملنے کا شوق بھی بے چین رکھتا ہے، اس لیے مناسب یہی ہے کہ آپ میرے غریب خانے پر تشریف لا کر مجھے ممنون فرمائیں۔‘‘
حضرت میاں میرؒ نے شہنشاہ جہانگیر کا خط پڑھا اور کسی تامل کے بغیر طویل سفر طے کرکے قصرشاہی تشریف لے گئے۔
شہزادہ دارا شکوہ لکھتا ہے کہ جب حضرت میاں میرؒ، بادشاہ سے ملنے کے لیے ایک مخصوص کمرے میں جلوہ افروز ہوئے تو جہانگیر اپنی عادت کے خلاف آپ کے احترام میں کھڑا ہوگیا۔ (واضح رہے کہ جہانگیر کے دور حکومت میں سجدئہ تعظیم کا رواج تھا اور بڑے بڑے علماء چاروناچار اس رسم کو ادا کرتے تھے مگر جب حضرت شیخ مجدد الف ثانیؒ نے سجدئہ تعظیمی سے انکار کیا تو مغل شہنشاہ غضب ناک ہوگیا اور پھر اس نے حضرت شیخ مجددؒ کو نافرمانی کے جرم میں حوالۂ زنداں کردیا) آج یہ وہی جہانگیر تھا جو حضرت میاں میرؒ کے احترام میں اپنی نشست سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا تھا۔
شہزادہ دارا شکوہ کا بیان ہے کہ حضرت میاں میرؒ اور جہانگیر کے درمیان بہت دیر تک گفتگو جاری رہی۔ حضرت شیخ کی تقریر اس قدر پُرتاثیر تھی کہ شہنشاہ جہانگیر کا مزاج ہی بدل گیا اور اس کا دل دنیا کی رنگینیوں سے اُچاٹ نظر آنے لگا۔
’’آپ سے ملنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ دنیاوی جاہ و منصب کی کوئی حیثیت نہیں۔ سلطنت ہند کے جتنے زرو جواہر ہیں، وہ میری نظر میں اینٹ اور پتھر کے برابر ہیں۔ اگر آپ مجھ پر محبت کی نظر کریں تو میں تعلقات دنیا کو ترک کردوں؟‘‘
حضرت میاں میرؒ نے شہنشاہ جہانگیر کی یہ جذباتی گفتگو سن کر فرمایا۔ ’’کامل صوفی وہ ہے جس کی نظر میں پتھر اور جواہرات یکساں ہوں۔ تم کہتے ہو کہ تمہارے نزدیک ہیرے اور پتھر برابر ہیں، اس لیے تم صوفی ہو۔‘‘
ایک مرد درویش کی گفتگو سن کر مغل شہنشاہ حیران رہ گیا۔ پھر نہایت پُرسوز لہجے میں عرض کرنے لگا۔ ’’میاں جی! آپ ایسی دلیلیں دے کر مجھے مار ڈالنا چاہتے ہیں۔‘‘
حضرت میاں میرؒ نے فرمایا۔ ’’تمہارا وجود خلق خدا کی پاسبانی کے لیے ضروری ہے اور تمہارے عدل و انصاف کی برکت سے فقیر بھی دلجمعی کے ساتھ اپنے کاموں میں مشغول ہیں۔‘‘
مغل شہنشاہ، حضرت میاں میرؒ کی گفتگو سے اس قدر متاثر ہوا کہ باربار ایک ہی جملہ دُہراتا رہا۔ ’’براہ کرم آپ میرے حال پر توجہ فرمائیں۔‘‘
’’پہلے تم مخلوق خدا کی خدمت کے لیے اپنے جیسا نگہبان مہیا کردو پھر میں تمہیں اپنے ساتھ لے جاکر مشغول حق کردوں گا۔‘‘
شہنشاہ جہانگیر کو حضرت شیخؒ کی یہ بات بہت پسند آئی۔ پھر عرض کرنے لگا۔ ’’میری شدید خواہش ہے کہ آپ مجھے کسی خدمت کا موقع دیں۔‘‘
حضرت میاں میرؒ نے فرمایا۔ ’’میں جو کچھ تم سے طلب کروں گا، کیا تم وہ چیز مجھے دے دو گے؟‘‘
شہنشاہ جہانگیر نہایت پُرجوش نظر آنے لگا۔ ’’آپ اشارہ تو کریں، جو کچھ میرے دائرئہ اختیار میں ہے، وہ سب آپ کی نذر کردوں گا۔‘‘
’’کیا تم اپنے وعدے پر قائم رہو گے؟‘‘ حضرت میاں میرؒ نے فرمایا۔
’’حکم تو دیں۔ آپ مجھے ہر حال میں وعدے کا پابند پائیں گے۔‘‘ شہنشاہ جہانگیر نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر میری یہی خواہش ہے کہ شہنشاہ مجھے رخصت کریں اور آئندہ زحمت نہ دیں۔‘‘ حضرت میاں میرؒ نے شان بے نیازی کے ساتھ فرمایا۔ یہ وہی جواب تھا جو حضرت میاں میرؒ کے پیر و مرشد حضرت خضرؒ نے حاکم سیوستان کی خواہش کے جواب میں دیا تھا۔
شہنشاہ جہانگیر ایک مرد قلندر کا یہ انداز دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔ پھر اس نے ہرن کی کھال کا بنا ہوا ایک مصلیٰ حضرت میاں میرؒ کی خدمت میں پیش کیا۔ ’’شیخ! کم سے کم اسے تو قبول فرما لیجئے کہ میری بادشاہت کا بھرم رہ جائے۔‘‘
حضرت میاں میرؒ نے مصلیٰ قبول کرلیا اور قصر شاہی سے رخصت ہوگئے۔
دارا شکوہ اس تاریخ ساز واقعے کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جس مرد آزاد نے جہانگیر جیسے شہنشاہ کے عطیات کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہو، اس کے دل میں متاع دنیا کے حوالے سے کوئی خطرہ کس طرح پیدا ہوسکتا ہے۔ وہ تو حضرت شیخؒ نے اپنے مریدوں کو سمجھانے کی غرض سے یہ بات کہی تھی کہ اگر کوئی شخص باربار نذر بھیجے تو دل میں ایک امید سی پیدا ہوجاتی ہے، توکل جاتا رہتا ہے اور خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔
حضرت میاں میرؒ کے توکل کی شان تو یہ تھی کہ جب کوئی بادشاہ یا امیر آپ کی خدمت میں نذر بھیجتا تو سخت برہم ہوجاتے اور انتہائی پُرجلال لہجے میں فرماتے۔ ’’تو نے مجھے فقیر سمجھ کر یہ نذر بھیجی ہے لیکن یاد رکھ کہ میں فقیر بھی نہیں ہوں اور اس چیز کا مستحق بھی نہیں ہوں۔ میں غنی ہوں اس لیے کہ غنی کا بندہ ہوں۔ جس کا اللہ ہو، وہ فقیر نہیں ہوسکتا۔ اپنے تحائف واپس لے جائو، انہیں محتاجوں میں تقسیم کردو۔‘‘
ان تمام واقعات کا ذکر کرنے کے بعد دارا شکوہ، حضرت میاں میرؒ کو اس طرح خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ ’’میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا شخص نہیں دیکھا جس کی نگاہ میں دنیا اس قدر حقیر ہو، جتنی حضرت میاں میرؒ کی نظر میں تھی۔‘‘
٭…٭…٭
حضرت میاں میرؒ ان جاں باز صوفیا میں سے تھے جن کی ریاضت و عبادت اور نفس کشی تاریخ تصوف کا روشن ترین باب ہے۔ ایک بار آپ سرہند سے لاہور تشریف لا رہے تھے کہ ایک گائوں میں داخل ہوئے جہاں پٹھانوں کے کئی قبائل آباد تھے۔
حضرت شیخ نے کچھ دنوں تک مقامی مسجد میں قیام فرمایا۔ اتفاق سے رمضان کا مہینہ تھا، حضرت میاں میرؒ نے تین دن اور تین رات تک کوئی چیز نہیں کھائی، بس پانی سے روزہ افطار کرتے اور ذکرالٰہی میں مشغول ہوجاتے۔ چوتھی رات نماز مغرب کے بعد آپؒ مسجد سے باہر نکلے اور ایک گائوں میں داخل ہوگئے۔ پھر ایک مکان پر پہنچے جس کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ حضرت میاں میرؒ دستک دے کر مالک مکان کو بلانا چاہتے تھے کہ آپ کی نظر ایک خوان پر پڑی جو مختلف قسم کے کھانوں سے بھرا ہوا تھا۔
حضرت میاں میرؒ اس واقعہ کے بارے میں خود فرماتے ہیں۔ ’’جب بھوک کی شدت بڑھ گئی تو میرے نفس نے مجھ سے کہا۔ تم نے سوال کرنا تو اپنے آپ پر حرام کرلیا ہے۔ اب پیٹ بھرنے کی یہی ایک صورت رہ گئی ہے کہ تم خیانت کرو اور کھانا اٹھا کر کھا لو۔‘‘
میں نے اپنے نفس کو مخاطب کرکے کہا۔ ’’خیانت کرنے سے سوال کرنا بہتر ہے۔‘‘
میرے نفس نے عجیب دلیل پیش کی۔ ’’حالت اضطرار میں مُردار بھی جائز ہے۔‘‘
الغرض کچھ دیر تک مجھ میں اور میرے نفس میں شدید جنگ ہوتی رہی۔ آخر میں سوال کیے بغیر مسجد میں واپس چلا آیا۔
ابھی مجھے مسجد میں آئے ہوئے کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ایک لونڈی کھانے کا خوان اٹھائے ہوئے میرے پاس آئی۔ میں نے خوان کی طرف غور سے دیکھا۔ اس میں وہی کھانا موجود تھا جسے میں کچھ دیر پہلے ایک مکان کے دروازے میں رکھا ہوا چھوڑ آیا تھا۔ میں نے لونڈی سے پوچھا۔ ’’تو یہ کھانا کہاں سے لائی ہے؟‘‘
’’میرے مالک نے مجھ سے کہا تھا کہ مسجد میں ایک بھوکا شخص بیٹھا ہے، اسے یہ کھانا پہنچا دو۔‘‘ لونڈی نے جواباً کہا۔ ’’کیا تم وہ شخص نہیں ہو؟‘‘
’’وہ بھوکا شخص تو میں ہی ہوں مگر اب مجھے اس کھانے کی ضرورت نہیں۔‘‘ میں نے لونڈی کو مخاطب کرکے کہا اور ہنسنے لگا۔
لونڈی چند لمحوں تک میری حالت کو تعجب سے دیکھتی رہی اور پھر خوان اٹھا کر واپس چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد وہ شخص مسجد میں داخل ہوا جس نے کھانا بھیجا تھا۔ ’’آخر تم نے کھانا کیوں واپس کردیا؟‘‘ اس شخص نے میرے قریب آکر پوچھا۔ ’’اور اس میں
ہنسنے کی کیا بات تھی؟‘‘
میں نے اس شخص کو تمام واقعہ سناتے ہوئے کہا۔ ’’میرے نفس نے مجھے ورغلایا تھا مگر بفضل اللہ اس نے شکست کھائی۔‘‘
یہ ماجرا سن کر وہ شخص میرا معتقد ہوگیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ یہ بات جو رات کی تنہائی میں کہی گئی تھی، پورے گائوں میں مشہور ہوگئی۔ لوگ قطار در قطار میرے پاس آنے لگے۔ مجھے ان کی صورتیں دیکھ کر وحشت سی ہوتی تھی۔ آخر ایک دن میں رات کی تاریکی میں خاموشی کے ساتھ لاہور چلا آیا۔
عبادت و ریاضت، صبر و قناعت اور نام و نمود سے بیزاری، حضرت میاں میرؒ کے نمایاں اوصاف تھے۔ جہادِ زندگانی میں یہی آپ کے ہتھیار تھے اور ان ہی ہتھیاروں کے ذریعے ایک بندئہ مزدور سے لے کر شہنشاہ وقت تک، سب پر حکومت کی۔
مجذوبوں کے بارے میں مشہور ہے کہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے مگر حضرت میاں میرؒ کے رعب و جلال کا یہ عالم تھا کہ بڑے سے بڑا مجذوب بھی آپ کے سامنے آتے ہوئے گھبراتا تھا۔ اگر کسی مجذوب کو معلوم ہوجاتا کہ حضرت میاں میرؒ فلاں راہ سے گزر رہے ہیں تو وہ اپنا راستہ بدل لیتا۔
مغل شہزادہ دارا شکوہ لکھتا ہے کہ اگر کوئی برہنہ مجذوب حضرت میاں میرؒ کے سامنے سے گزر جاتا تو آپ نہایت غضب ناک لہجے میں فرماتے۔ ’’بے ادب! کیا تماشا دکھاتا پھرتا ہے؟ اپنے آپ کو ڈھانک۔‘‘
خواہ وہ کسی مرتبے کا مجذوب ہوتا مگر حضرت میاں میرؒ کی پُرجلال آواز سن کر فوراً ہوش میں آجاتا اور اپنا بدن ڈھانپنے کی کوشش کرتا۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ ایک درویش خرقہ اور عمامہ پہنے دو تین خدمت گاروں کے ساتھ حضرت میاں میرؒ کی مجلس روحانیت میں حاضر ہوا۔ اس کے داخل ہونے کا انداز بڑا متکبرانہ تھا۔ اس نے خود پسندی کے ساتھ چاروں طرف نظر ڈالی اور ایک اونچے مقام پر بیٹھ گیا۔ حاضرین مجلس کو یہ بات ناگوار گزری مگر حضرت شیخؒ کے احترام کے پیش نظر سب لوگ خاموش رہے۔ حضرت میاں میرؒ نے بھی اس درویش کے ریاکارانہ عمل کو دیکھا مگر کوئی تعرض نہیں فرمایا۔
تھوڑی دیر بعد ایک شکستہ حال شخص خانقاہ میں داخل ہوا اور اس جگہ بیٹھ گیا جہاں لوگوں کی جوتیاں رکھی ہوئی تھیں۔ حضرت میاں میرؒ نے اس شخص کو بھی ایک نظر دیکھا مگر زبان مبارک سے کچھ ارشاد نہیں فرمایا۔
ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک آسودہ حال شخص مجلس میں داخل ہوا اور اس نے حضرت میاں میرؒ کی خدمت میں بتیس روپے پیش کئے۔ (واضح رہے کہ اس زمانے کے بتیس روپے موجودہ دور کے ہزاروں روپے سے زیادہ قیمت رکھتے تھے) حضرت میاں میرؒ کی عادت تھی کہ آپ ہر کس و ناکس کی نذر قبول نہیں فرماتے تھے مگر اس روز خلاف دستور آپ نے ہاتھ بڑھا کر وہ روپے لے لئے۔ نذر پیش کرنے والے شخص کو حاضرین مجلس میں سے کوئی نہیں پہچان سکا۔ وہ اچانک آیا اور تیز رفتاری کے ساتھ واپس چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی حضرت میاں میرؒ نے اس شخص کو آواز دے کر اپنے پاس بلایا جو حاضرین مجلس کے جوتوں کے قریب بیٹھا ہوا تھا۔
وہ مفلوک الحال شخص سر جھکائے آگے بڑھا اور حضرت میاں میرؒ کے قریب پہنچ کر دست بستہ کھڑا ہوگیا۔
’’یہ تمہارے لیے ہیں۔‘‘ حضرت میاں میرؒ نے وہ بتیس روپے اس شخص کو دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’اس رقم سے ایک گھوڑا خریدو اور کچھ پیسے اپنے پاس رکھو، پھر فلاں شہزادے کے پاس ملازمت کے لیے جائو، اِن شاء اللہ تمہارا کام ہوجائے گا۔‘‘
اس پریشان حال شخص نے حضرت میاں میرؒ کا شکریہ ادا کیا۔ پھر آپ کے دست حق پرست کو بوسہ دیا اور الٹے قدموں واپس چلا گیا۔
اونچی جگہ بیٹھا ہوا وہ خرقہ پوش درویش یہ تمام منظر چپ چاپ دیکھتا رہا۔ پھر جب وہ شخص چلا گیا تو خودپسند ریاکار درویش، حضرت میاں میرؒ سے تلخ لہجے میں مخاطب ہوا۔ ’’شیخ! تم نے یہ کیا کیا، فقیروں کا حق غیر مستحق انسان کو دے دیا؟ میں اس شخص سے پہلے مجلس میں داخل ہوا تھا، اس لیے اس رقم پر میرا حق زیادہ تھا۔‘‘
’’ظاہری طور پر اس شخص کا حق تم سے زیادہ تھا۔‘‘ حضرت میاں میرؒ نے انتہائی نرم و شیریں لہجے میں فرمایا۔
خرقہ پوش درویش نے حضرت میاں میرؒ کی پیش کردہ توجیہ کو لائق اعتنا نہیں سمجھا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر جانے لگا۔ حاضرین مجلس نے دیکھا کہ اس مغرور درویش کے چہرے پر غصے کے آثار نمایاں تھے۔
’’ناراض ہوکر کیوں جاتے ہو؟‘‘ حضرت میاں میرؒ کے ہونٹوں پر وہی دلنواز تبسم موجود تھا۔ ’’کھانا تو کھاتے جائو۔‘‘
خرقہ پوش درویش نے ان کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا اور وہ پائوں پٹختا ہوا خانقاہ سے باہر چلا گیا۔
اس کے جاتے ہی حضرت میاں میرؒ نے حاضرین مجلس کو مخاطب کرکے فرمایا۔ ’’کیا زمانہ آگیا ہے کہ لوگوں نے خرقہ پوشی کو حصول آمدنی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ اس درویش کی کمر کے گرد ایک سو ساڑھے بائیس روپے بندھے ہوئے ہیں اور پھر بھی ضرورت مندوں کے مقابلے میں اپنا حق جتلاتا ہے۔ افسوس! وہ نہیں جانتا کہ یہ ہوس زر اسے مار ڈالے گی۔‘‘
حاضرین مجلس نے حضرت میاں میرؒ کا ارشاد گرامی سنا اور اپنے سر جھکا لیے مگر جو لوگ حضرت شیخؒ کے مقام روحانی سے کسی قدر واقف تھے، انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ اس خرقہ پوش درویش کے ساتھ عنقریب کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آنے والا ہے۔
دو تین دن بعد وہ درویش غسل کے لیے ایک حمام میں گیا۔ پھر غسل سے فارغ ہوکر اس نے خرقہ پہنا اور دوبارہ حضرت میاں میرؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس مرتبہ بھی اس کے خانقاہ میں داخل ہونے اور بیٹھنے کا وہی متکبرانہ انداز تھا۔ حضرت میاں میرؒ نے درویش کو دیکھ کر فرمایا۔ ’’یہ فقیروں کی مجلس ہے، کمر کھول کر اطمینان سے بیٹھو۔‘‘
حضرت میاں میرؒ کی بات سن کر درویش کو کچھ یاد آیا اور اس نے گھبرا کر اپنی کمر پر ہاتھ مارا، پھر وحشت زدہ انداز میں اٹھ کھڑا ہوا۔ حضرت میاں میرؒ نے درویش سے اس کی گھبراہٹ کا سبب پوچھا تو کہنے لگا۔ ’’میری کوئی چیز کھو گئی ہے، میں اس کی تلاش میں جاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بدحواسی کے عالم میں خانقاہ سے چلا گیا۔
دراصل واقعہ یہ تھا کہ خرقہ پوش درویش کی کمر کے گرد ایک ہمیانی بندھی ہوئی تھی جس میں ایک سو ساڑھے بائیس روپے موجود تھے۔ جب درویش غسل کرنے کے لیے حمام میں داخل ہوا تو وہ ہمیانی غائب ہوگئی مگر درویش کو اس کا احساس تک نہیں ہوا مگر جب حضرت میاں میرؒ نے درویش سے کمر کھولنے کے لیے کہا تو اسے پتا چلا کہ وہ اپنی رقم سے محروم ہوچکا ہے۔
درویش اپنی کھوئی ہوئی ہمیانی کی تلاش میں صبح سے شام تک سرگرداں پھرتا رہا مگر جب اسے اپنی گمشدہ رقم نہیں مل سکی تو وہ پریشان چہرے اور تھکے ہوئے قدموں کے ساتھ حضرت میاں میرؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ خرقہ پوش درویش کا سارا غرور رخصت ہوچکا تھا اور اب وہ ایک انتہائی شکستہ انسان نظر آرہا تھا۔ ’’شیخ! میں اپنی گستاخی کی معافی چاہتا ہوں۔ میری کھوئی ہوئی چیز مجھے واپس دلا دیں۔‘‘
حضرت میاں میرؒ نے اس کی گداگرانہ درخواست سن کر فرمایا۔ ’’مجھے کیا معلوم تمہاری کیا چیز تھی اور وہ کہاں گم ہوگئی۔‘‘
آخر خرقہ پوش درویش افشائے راز پر مجبور ہوگیا۔ ’’شیخ! میری ہمیانی گم ہوگئی ہے۔ اس میں ایک سو ساڑھے بائیس روپے موجود تھے۔‘‘
درویش کی بات سن کر حاضرین مجلس حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ حضرت میاں میرؒ اس رقم کی طرف پہلے ہی اشارہ فرما چکے تھے۔
درویش کا واویلا سن کر حضرت میاں میرؒ نے فرمایا۔ ’’دریا کے کنارے فلاں مقام پر ایک بڑی کشتی موجود ہے، اس میں ایک فقیر بیٹھا گدڑی سی رہا ہوگا، اس کے پاس جا، وہ تجھے تیری ہمیانی دے دے گا۔‘‘
خرقہ پوش درویش بھاگتا ہوا دریا کے کنارے جا پہنچا۔ واقعتاً وہاں ایک بڑی کشتی موجود تھی جس میں ایک فقیر بیٹھا ہوا گدڑی سی رہا تھا۔ خرقہ پوش درویش فقیر کے پاس گیا مگر دل میں یہی سوچتا رہا کہ یہ کوئی معمولی مزدور ہے۔ (جاری ہے)