Friday, April 25, 2025

Hazrat Mian Mir Lahori | Last episode

حضرت میاں میرؒ نے جس فقیر کے متعلق فرمایا تھا، وہ کوئی اور شخص ہوگا۔ ابھی خرقہ پوش درویش یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس فقیر نے سر اُٹھایا اور بڑے عجیب انداز میں بولا۔ ’’ہاں! میں ایک مزدور ہوں مگر اس بوجھ کو اُٹھاتا ہوں جس کے لیے حضرت میاں میرؒ نے تجھے یہاں بھیجا ہے۔ اپنی ہمیانی پہچان کر اُٹھا لے۔‘‘
جب خرقہ پوش درویش نے کشتی پر نگاہ کی تو وہاں بہت سی ہمیانیاں موجود تھیں۔ اس نے اپنی ہمیانی اُٹھا لی۔ فقیر نے اسے دوبارہ مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’پوری رقم گن لے۔‘‘
خرقہ پوش درویش نے رقم گنی تو پورے ایک سو ساڑھے بائیس روپے تھے۔ وہ خوشی خوشی اپنی ہمیانی لے کر حضرت میاں میرؒ کی خدمت میں واپس آیا اور شکریہ ادا کرنے لگا کہ آپ کی توجہ سے مجھے میری کھوئی ہوئی رقم دوبارہ مل گئی۔ لالچی درویش کو رقم تو مل گئی لیکن گردش وقت کے سبب وہ اس کے کام نہ آ سکی۔ روپے گم ہو جانے کا درویش کو اس قدر صدمہ پہنچا تھا کہ اسے خونی اسہال کی بیماری لاحق ہوگئی۔ پھر اسی بیماری میں اس کا انتقال ہوگیا۔ درویش کے مرنے کے بعد اس رقم پر اس کے ایک خدمت گار نے قبضہ کر لیا اور فرار ہوگیا۔ پھر جب دُوسرے خدمت گار کو اس بات کا پتا چلا تو اس نے پہلے خادم کو راستے میں جا لیا اور قتل کر ڈالا۔ راہ گیروں نے یہ منظر دیکھا تو درویش کے دُوسرے خادم کو پکڑ لیا اور قصاص کے طور پر اسے بھی مار ڈالا۔
جب لاہور کے باشندوں کو اس المناک واقعے کی خبر ملی تو انہیں حضرت میاں میرؒ کا ارشاد گرامی یاد آیا۔ ’’یہ ہوسِ زر درویش کو مار ڈالے گی۔‘‘
اور جس شکستہ حال شخص کو حضرت میاں میرؒ نے بتیس روپے دیئے تھے، وہ شاہجہاں کا ملازم ہوا اور اس کا گھر سیم و زر سے بھر گیا۔
حضرت میاں میرؒ کا طریقہ تھا کہ اپنی مجلس میں ذکرِ الٰہی پر بہت زور دیتے۔ اپنے مریدوں کو اسم ذات ’’اللہ‘‘ کے ذکر کی بار بار تلقین فرماتے۔ کبھی کسی مرید کے دِل میں یہ خیال آتا کہ پیر و مرشد نے کوئی مشکل وظیفہ کیوں نہیں بتایا تو حضرت میاں میرؒ اپنی تقریر کے دوران اشارات و کنایات میں ’’اسم ذات‘‘ کی اس طرح وضاحت فرماتے کہ حاضرین مجلس پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی۔
ایک بار آپ نے طالبان ذوق کو مخاطب کر کے فرمایا۔ ’’حضرت جنید بغدادیؒ وہ بزرگ تھے کہ تیس سال تک راتوں کو کھڑے ہو کر ’’اللہ اللہ‘‘ کیا کرتے تھے۔‘‘
ایک اور موقع پر حضرت میاں میر لاہوریؒ نے فرمایا۔ ’’حضرت شیخ ابوبکر شبلیؒ کا بھی یہی دستور تھا کہ اسم ذات کا ذکر کرتے اور آپ پر استغراق کی ایسی کیفیت طاری ہو جاتی کہ دُنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتے۔ جب بغداد میں گناہ حد سے زیادہ بڑھ گئے تو ایک بار آپ کو عالم خواب میں صدائے غیب سُنائی دی۔‘‘ اے شبلی! اگر تو بغداد میں نہ ہوتا اور اللہ اللہ نہ کرتا تو اس زمین پر ایک ایسی بلا نازل ہوتی کہ جس کے ہولناک اثرات سے پورا شہر ہلاک ہو جاتا۔‘‘
ایک دن حضرت شیخ ابوبکر شبلیؒ نے عبدالرحمن خراسانی سے پوچھا۔ ’’کیا تو نے شبلیؒ کے سوا کسی شخص کو دیکھا ہے جو فقط اللہ ہی اللہ کہتا ہو۔‘‘
عبدالرحمن خراسانی نے کسی تکلف کے بغیر جواب دیتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے شبلی کو بھی اللہ اللہ کہتے نہیں سُنا۔‘‘
عبدالرحمن خراسانی کا جواب سن کر حضرت شیخ ابوبکر شبلیؒ کی حالت غیر ہوگئی۔ پھر آپ نے نہایت پُرسوز لہجے میں فرمایا۔ ’’جس وقت تو اللہ کہے، اس وقت بھی وہ اللہ ہے… اور جب تو چپ رہے تو بھی وہ اللہ ہے… اور تو نہیں جانتا کہ اللہ کون ہے؟ وہ پاک، وحدہٗ لاشریک ہے۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت شیخ ابوبکر شبلیؒ بے ہوش ہوگئے اور زمین پر گر پڑے۔
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد حضرت میاں میرؒ نے فرمایا۔ ’’حضرت شیخ ابوبکر شبلیؒ ہمیشہ ’’اللہ اللہ‘‘ کہا کرتے تھے۔‘‘
ایک دن کسی شخص نے برسرمجلس ٹوکتے ہوئے کہا۔ ’’شیخ! آپ لا الٰہ الا اللہ کیوں نہیں کہتے؟‘‘
اس شخص کا سوال سن کر حضرت شیخ ابوبکر شبلیؒ نے فرمایا۔ ’’مجھے اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ پھر میں کس کی نفی کروں؟‘‘
یہ اقرار اور محبت کی آخری منزل ہے کہ بندہ اس ذات واحد کے تصور میں اس طرح گم ہو جاتا ہے کہ اسے اپنے مالک کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ پھر وہ کس چیز کا انکار کرے؟ حضرت شیخ ابوبکر شبلیؒ کے قول مبارک کا بھی یہی مفہوم ہے۔
حضرت میاں میر لاہوریؒ بھی ہم مجلسوں سے بہت کم کلام کرتے تھے۔ آپ کا بیشتر وقت سکوت اور خاموشی میں گزرتا۔ اگر کبھی کسی جگہ تشریف لے جاتے تو راستے بھر خاموش رہتے۔ اگر دوست اور خدمت گار سرِ راہ گفتگو کرتے تو انہیں واضح الفاظ میں منع فرماتے۔ ’’بات چیت کم کیا کرو کہ اس طرح انسان ذکرِ الٰہی سے محروم رہ جاتا ہے۔‘‘
کبھی حاضرین مجلس کو مخاطب کر کے فرماتے۔ ’’اگر تم راستوں اور بازاروں میں تنہا جائو گے تو ذکر الٰہی میں مشغول رہ سکو گے۔‘‘
حضرت میاں میرؒ کا طریقہ تھا کہ امراء کی محفلوں میں جانے سے گریز فرماتے تھے۔ تاریخ کے حوالے سے آپ کی حیات مبارکہ میں بس ایک ہی واقعہ نظر آتا ہے کہ جب مغل شہنشاہ جہانگیر نے بار بار درخواست کی تھی اور آپ فرمانروائے ہندوستان کی نیازمندی سے مجبور ہو کر قصرِ شاہی تشریف لے گئے تھے، ورنہ حضرت میاں میرؒ کسی شخص کے گھر یا مجلس میں جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی عقیدت مند التجا کرتا کہ شیخ اپنے وجود مسعود سے اس کے غریب خانے کو منور فرما دیں تو آپ ناراض ہو جاتے اور انتہائی ناخوشگوار لہجے میں فرماتے۔ ’’جو شخص اپنے گھر میں دُوسروں کی آمد برداشت نہ کرتا ہو، وہ کسی دُوسرے کے گھر جانا کب پسند کرے گا۔‘‘
حضرت میاں میرؒ کی نظر میں اہلِ دُنیا کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ ساری زندگی اللہ کے سہارے بسر کی اور مادہ پرستوں پر اس آیتِ مقدسہ کا مفہوم ثابت کر دیا۔ ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔‘‘ (ترجمہ: الفاتحہ)
ایک دن حضرت میاں میرؒ کی مجلس آراستہ تھی۔ ایک عقیدت مند نے دست بستہ عرض کیا۔ ’’شیخ! جب آپ کو اپنے رَبّ کی بارگاہ میں حضوری حاصل ہو تو میرا بھی خیال رکھنا۔‘‘
اس شخص کی درخواست سن کر حضرت میاں میر لاہوریؒ کو اپنے پیر و مرشد حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ یاد آ گئے۔ اس قسم کی درخواست سن کر حضرت شیخؒ نے فرمایا تھا۔ ’’اللہ مجھے اس وقت کے لیے زندہ نہ رکھے جب اس کے سوا مجھے کسی دُوسرے کا خیال آئے۔‘‘
حضرت میاں میرؒ نے بھی اس شخص کی التجا سن کر اپنے پیر و مرشد کی طرح کم و بیش یہی الفاظ فرمائے۔ ’’ایسے وقت پر خاک، جس میں اللہ کے سوا مجھے کوئی دُوسرا یاد آئے۔‘‘
حضرت میاں میرؒ کا یہی انداز اللہ طلبی تھا کہ جس نے آپ کو ہر شے سے بے نیاز کر دیا تھا اور جب بندہ ماسوا سے بے نیاز ہو جاتا ہے تو پھر اسے خالق کائنات کی طرف سے خوشخبری دی جاتی ہے۔
’’ہم اس کی آنکھ بن جاتے ہیں، ہم اس کی زبان بن جاتے ہیں اور ہم اس کا ہاتھ بن جاتے ہیں۔‘‘ (ترجمہ)
علامہ اقبالؒ نے اپنے ایک شعر میں مرد مومن کی اسی شان کی طرف اشارہ کیا ہے :
ہاتھ ہے اللہ کا بندئہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکشا، کارساز
حضرت میاں میر لاہوریؒ کی بھی یہی شان عارفانہ تھی۔ جس بات کے لیے زبان مبارک سے ارشاد فرما دیتے، اللہ تعالیٰ اسے پورا کر دیتا۔ جس شخص کے لیے اپنا دامن مراد پھیلا دیتے، اللہ اسے اپنی رحمتوں اور نعمتوں سے بھر دیتا۔
٭…٭…٭
شیخ عبدالواحدؒ، حضرت میاں میر لاہوریؒ کے مرید خاص تھے۔ حضرت شیخ ان پر نہایت شفقت فرماتے تھے۔ انہی شیخ عبدالواحدؒ کا بیان ہے کہ ایک دن پیر و مرشد مرزا کامران کے باغ کے سامنے دریا کے کنارے لیٹے ہوئے تھے اور میں حضرت شیخؒ کے پائوں دبا رہا تھا کیونکہ آپ کو جوڑوں کے درد کا عارضہ لاحق تھا۔ میں نے اسی اثناء میں ایک بہت بڑے کالے سانپ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا۔ خوف سے میرے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔
میری یہ حالت دیکھ کر حضرت شیخؒ نے فرمایا۔ ’’عبدالواحد! کیا بات ہے؟ میں تمہارے چہرے پر خوف اور بے چینی کے آثار دیکھ رہا ہوں۔‘‘
’’سیّدی! ایک بڑا کالا سانپ ہماری طرف آ رہا ہے۔‘‘ چہرے کے ساتھ ساتھ میرے لہجے سے بھی پریشانی کا اظہار ہو رہا تھا۔
حضرت میاں میر لاہوریؒ نے نہایت پُرسکون لہجے میں فرمایا۔ ’’آنے دو! اسے ہم لوگوں سے کوئی کام ہوگا۔‘‘
شیخ عبدالواحدؒ کہتے ہیں کہ میں پیر و مرشد کا ارشادِ گرامی سن کر خاموش تو ہوگیا مگر اس خوفناک زہریلے جانور کی دہشت مجھ پر طاری رہی۔ سانپ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا اور حضرت میاں میرؒ اطمینان سے لیٹے رہے۔
پھر جب وہ سانپ سامنے آ کرکھڑا ہو گیا تو پیر و مرشد اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ پھر میری آنکھوں نے عجیب و غریب منظر دیکھا۔ سانپ نے آگے بڑھ کر اپنا پھن حضرت میاں میرؒ کے قدموں کے قریب رکھ دیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہ زہریلا جانور ایک مردِ خدا کے سامنے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہا ہو۔ پھر چند لمحوں بعد وہ سانپ سیدھا ہوا اور اس کے منہ سے عجیب سی آوازیں نکلنے لگیں۔
حضرت شیخ کا انداز نشست ایسا تھا جیسے آپ ہمہ تن گوش ہوکر سانپ کی گفتگو سن رہے ہوں۔ پھر جب سانپ کے منہ سے آوازیں نکلنا بند ہوگئیں تو حضرت میاں میرؒ نے فرمایا۔ ’’ٹھیک ہے، اسی طرح سہی۔‘‘
جیسے ہی پیر و مرشد کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے، سانپ اپنی جگہ سے اُٹھا اور اس نے حضرت میاں میرؒ کے گرد تین چکر لگائے اور خاموشی کے ساتھ چلا گیا۔
شیخ عبدالواحدؒ مجسمۂ حیرت بنے بیٹھے تھے۔ جب وہ سانپ رُخصت ہوگیا تو پیر و مرشد کی خدمت میں عرض کرنے لگے۔ ’’سیّدی! یہ کیا راز تھا؟‘‘
حضرت میاں میرؒ نے فرمایا۔ ’’کوئی راز نہیں تھا۔ اس سانپ نے قسم کھائی تھی کہ وہ جب بھی مجھے دیکھے گا، میرے گرد تین چکر لگائے گا۔ جواب میں، میں نے اس سے کہا، ٹھیک ہے، اسی طرح سہی۔‘‘
٭…٭…٭
ان ہی شیخ عبدالواحدؒ کی روایت ہے کہ ایک دن حضرت میاں میرؒ زنجان کے باغ میں قیام فرما تھے اور یادِ الٰہی میں مشغول تھے۔ میں بھی حاضر خدمت تھا کہ ایک فاختہ کہیں سے اُڑتی ہوئی آئی اور قریب کے ایک درخت پر بیٹھ کر بولنے لگی۔
پیر و مرشد نے میری طرف دیکھا اور فرمایا۔ ’’عبدالواحد! غور سے سنو کہ یہ فاختہ کس شیرینی اور فصاحت کے ساتھ اپنے خالق کا نام لے رہی ہے۔‘‘
میں نے غور سے سنا۔ واقعتاً وہ فاختہ بڑے
والہانہ انداز میں بول رہی تھی۔ سنسان جنگل میں فاختہ کی آواز سے سحرانگیز سماں پیدا ہوگیا تھا۔
میں نے پیر و مرشد کی طرف دیکھا تو آپ پر وجد کی سی کیفیت طاری نظر آئی۔ اتنے میں اچانک کسی سمت سے ایک شکاری غلیل ہاتھ میں لئے ہوئے آیا۔ اس نے فاختہ کا نشانہ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے غُلّہ چھوڑ دیا۔ دُوسرے ہی لمحے فاختہ زمین پر گری اور مر گئی۔ شکاری دوڑتا ہوا پرندے کے پاس گیا اور اسے اُٹھا کر دیکھنے لگا۔ شرعی اعتبار سے شکار کیا جانے والا جانور اگر ذبح کئے جانے سے پہلے مر جائے تو وہ حرام اور مُردار کہلاتا ہے۔ اس فاختہ کا بھی یہی حال تھا۔ وہ زمین پر گرتے ہی مر گئی تھی، اس لیے شکاری اسے مُردہ حالت میں چھوڑ کر واپس چلا گیا۔
حضرت میاں میرؒ کو شکاری کے اس عمل سے سخت اذیت پہنچی۔ پھر جب وہ چلا گیا تو آپ نے اپنے مرید خاص کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’عبدالواحد! اس معصوم پرندے کو اُٹھا لائو جو کچھ دیر پہلے اپنے رَب کی تسبیح بیان کر رہا تھا اور جسے ایک انسان کے دست جفاکار نے خاموش کر دیا۔‘‘
پیر و مرشد کا حکم سنتے ہی میں دوڑتا ہوا وہاں پہنچا اور مُردہ فاختہ کو اُٹھا لایا۔ حضرت میاں میرؒ اس خوبصورت پرندے کو ہاتھ میں لے کر چند لمحوں تک دیکھتے رہے۔ پھر آپ نے فاختہ کے مُردہ جسم پر اپنا دستِ مبارک پھیرتے ہوئے فرمایا۔ ’’اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا اور اپنے رَب کی پاکی بیان کر۔‘‘
جیسے ہی حضرت میاں میرؒ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے، فاختہ کے تنِ مُردہ میں حرکت پیدا ہوئی اور دُوسرے ہی لمحے وہ اُڑ کر درخت کی شاخ پر جا بیٹھی اور اسی والہانہ انداز میں بولنے لگی۔
شکاری جو پرندوں کی تلاش میں تھا، فاختہ کی آواز سن کر واپس لوٹا۔ حضرت میاں میرؒ نے اسے آتے ہوئے دیکھا تو نہایت پُرجلال لہجے میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’عبدالواحد! اس سنگدل شکاری سے کہہ دو کہ اگر دوبارہ اس پرندے کو کوئی ضرر پہنچا تو نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔‘‘
جب شیخ عبدالواحدؒ نے پیر و مرشد کا پیغام شکاری کو پہنچایا تو وہ عاقبت نااندیش انسان ایک درویش کے کلام کا مذاق اُڑانے لگا۔ ’’میں برسوں سے شکار کھیل رہا ہوں مگر آج تک میرا کچھ نہیں بگڑا۔ اگر کوئی نقصان پہنچے گا تو اسی فاختہ کو پہنچے گا۔‘‘ شکاری نے نہایت درشت لہجے میں کہا اور پوری طاقت سے غلیل کھینچی اور دُوسرے ہی لمحے اس کی دردناک چیخ فضا میں بلند ہوئی اور وہ زمین پر گر کر تڑپنے لگا۔
دراصل واقعہ یوں ہوا تھا کہ غلیل کھینچتے وقت اس کے ہاتھ کانپ گئے تھے اور نشانہ خطا ہو گیا تھا۔ پتھر کا غلہ فاختہ کے لگنے کے بجائے اس کے اپنے انگوٹھے پر لگا اور وہ درد کی شدت سے تڑپنے لگا۔
شیخ عبدالواحدؒ اپنے پیر و مرشد کے پاس پہنچے اور سارا ماجرا بیان کر دیا۔ جواب میں حضرت میاں میرؒ نے فرمایا۔ ’’یہ وہ درد نہیں ہے جو کسی دوا یا تدبیر سے ٹھیک ہو جائے۔ یہ لاعلاج ہے اور لاعلاج ہی رہے گا۔ فقیر نے تو اسے پہلے ہی تنبیہ کر دی تھی۔ اب اگر کوئی آفات و مصائب کے کنویں میں گر جائے تو اسے کون بچا سکتا ہے؟‘‘
شیخ عبدالواحدؒ دوبارہ شکاری کے پاس پہنچے اور آپ نے پیر و مرشد کے الفاظ اس کے سامنے دُہرا دیئے۔ شکاری درد کی شدت سے چیخ رہا تھا۔ شیخ عبدالواحدؒ کی بات سن کر وہ زمین سے اُٹھا اور تیزی کے ساتھ حضرت میاں میرؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ’’شیخ! میری حالت پر رحم کھائو۔ یہ درد مجھے مار ڈالے گا۔‘‘
’’جو انسان اپنی حالت پر رحم نہیں کھاتا، اس پر کوئی دُوسرا کیسے رحم کھائے گا؟‘‘ حضرت میاں میرؒ نے شکاری کی آہ و زاری سن کر فرمایا۔ ’’اے شخص کیا تو بھوکا تھا جو پرندے کو شکار کر رہا تھا؟‘‘
شکاری نے نفی میں جواب دیا تو حضرت میاں میرؒ نے انتہائی پُرجلال لہجے میں دوبارہ فرمایا۔ ’’شریعت نے شکار اسی لیے جائز قرار دیا ہے کہ انسان بھوک اور ضرورت کے وقت چرندوں اور پرندوں کو مار کر اپنے استعمال میں لائے۔ سیر و تفریح اور نفس کی تسکین کے لیے اللہ کی مخلوق کا خون بہانا مناسب نہیں۔‘‘
درد کی شدت اور حضرت میاں میرؒ کی پُرجلال گفتگو سن کر شکاری کا اندازِ فکر بدل گیا اور وہ گڑگڑاتے ہوئے کہنے لگا۔ ’’شیخ! اگر میرے ہاتھ کا درد چلا جائے تو میں ہمیشہ کے لیے شکار سے تائب ہو جائوں گا۔‘‘
’’تو پھر اللہ تعالیٰ بھی تجھے کسی قسم کی اذیت نہیں دے گا۔‘‘ ابھی فضا میں حضرت میاں میرؒ کے الفاظ کی بازگشت باقی تھی کہ شکاری کے ہاتھ کا درد اس طرح رفع ہوگیا جیسے کبھی یہ شکایت پیدا ہی نہیں ہوئی تھی۔
حضرت میاں میرؒ کی اس کرامت پر دُنیا داروں کو حیران نہیں ہونا چاہیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے دست مقدس سے مٹی کے پرندے بناتے تھے اور اس پر پھونک مار دیا کرتے تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ پرندے ہوا میں پرواز کرنے لگتے۔ اس کے علاوہ جب کبھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے کسی مُردہ شخص کو لایا جاتا تو آپ باآواز بلند فرماتے ’’قمہ باذن اللہ‘‘ (اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا) اور وہ مُردہ شخص دوبارہ زندہ ہو کر سرگرم عمل ہو جاتا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یہ دونوں معجزات تاریخ عالم میں شہرت عام کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ ایک پیغمبر جلیل کی ذاتی طاقت نہیں تھی کہ وہ مُردہ انسانوں کو زندہ کر دیتے اور مٹی کے بے جان پرندوں کو پھونک مار کر اُڑا دیتے۔ یہ خالق کائنات کی بخشی ہوئی صفت خاص تھی جس کے اثر سے ناممکن العمل باتیں بھی سہل اور ممکن نظر آتی تھیں۔ اب اگر کسی مرد خدا سے یہ کرامت ظاہر ہو جائے تو اسے انبیائے کرام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخصوص سنّت کہا جائے گا۔
جس ذات بے نیاز نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معجزات بخشے تھے، اسی بے حساب دینے والے نے حضرت میاں میرؒ کو بھی یہ کرامت عطا کی تھی کہ آپ کی دُعا سے مُردہ فاختہ جی اُٹھی تھی اور اپنے رَب کی پاکی بیان کرنے لگی تھی۔ اس سلسلے میں اکثر حضرات کا یہ کہنا کہ اس قسم کی باتیں ماورائے عقل ہیں، تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ معجزہ اور کرامت کا مفہوم ہی یہ ہے کہ ان کے بارے میں سوچتے ہوئے انسانی عقل عاجز آ جائے۔
سائنس کی بے شمار موشگافیاں ایسی ہیں جن کے متعلق غور کرتے ہوئے عام انسانی ذہن تھک جاتا ہے اور پھر شدید جھنجھلاہٹ کے عالم میں کہہ دیا جاتا ہے کہ ان چیزوں کا کوئی وجود نہیں۔ سطحی ذہن رکھنے والوں کے انکار سے سائنس کی عظمتوں پر کوئی حرف نہیں آتا۔ اسی طرح معجزات اور کرامات کی حقیقت کو بھی اس وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا جب تک اللہ تعالیٰ بطور خاص اپنے بندوں کو ادراک اور مشاہدے کی طاقت نہ بخشے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ معجزہ اور کرامات سائنس سے بہت آگے کی چیز ہے۔
٭…٭…٭
حاجی محمدؒ بھی حضرت میاں میرؒ کے مریدوں میں شامل تھے۔ انہی کی روایت ہے کہ ایک دن حضرت میاں میرؒ حاضرین مجلس کو یہ واقعہ سنا رہے تھے۔
’’ایک بار چار آدمی مل کر پہاڑ کا سفر کر رہے تھے۔ اتفاق سے تین دن تک ان لوگوں کو کھانے کے لیے کچھ نہیں ملا۔ پھر چاروں مسافر آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ ہمیں حصولِ رزق کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے ورنہ بھوک کی شدت ہمیں مار ڈالے گی۔‘‘
آخر غور و فکر اور مشورے کے بعد تین مسافر اُٹھ کھڑے ہوئے اور چوتھے مسافر سے کہنے لگے۔ ’’ہم تلاش رزق میں آگے جاتے ہیں۔ تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔‘‘
چوتھا مسافر اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ پھر جب اس کے ساتھیوں نے آگے چلنے کے لیے اصرار کیا تو وہ بولا۔ ’’تم جائو۔ اگر کھانے کے لیے کچھ مل جائے تو میرا حصہ لیتے آنا۔‘‘
الغرض تینوں مسافر اپنے ساتھی کو چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔ پھر ان لوگوں نے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا ہوگا کہ راستے میں میوئوں سے لدا ہوا ایک درخت نظر آیا جس کے نیچے میٹھے پانی کی نہر جاری تھی۔ تینوں مسافروں نے بڑی حیرت سے اس میوہ دار درخت کو دیکھا جس کی شاخیں پانی پر جھکی ہوئی تھیں۔ قصہ مختصر کہ ان بھوکے مسافروں نے جی بھر کے میوے کھائے اور نہر کا آب شیریں پیا۔
’’یہ میوہ دُنیاوی میوئوں کی سی لذت نہیں رکھتا۔ یہ تو بہشت کا میوہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘
شکم سیر ہونے کے بعد تینوں مسافر حیرت و استعجاب کے عالم میں کھڑے رہے۔ پھر ان لوگوں نے اپنے چوتھے ساتھی کے لیے کچھ میوے توڑے اور انہیں ایک کپڑے میں باندھ کر واپس لوٹ آئے۔
’’اگر تم بھی ہمارے ساتھ چلتے تو بہت لطف آتا۔‘‘ تینوں مسافروں نے اپنے چوتھے ساتھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہم نے ایسے لذیذ پھل آج تک نہیں دیکھے۔ یوں لگتا تھا جیسے جنت کے میوے زمین پر اُتر آئے ہوں۔‘‘
چوتھا مسافر خاموشی کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی گفتگو سنتا رہا اور اس نے چہرے سے کسی قسم کا تاثر ظاہر نہیں ہونے دیا۔
’’کیا تمہیں ہماری باتیں سن کر حیرت نہیں ہوئی؟‘‘ تینوں مسافروں نے بیک زبان اپنے ساتھی سے کہا۔
’’اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟‘‘ چوتھے مسافر نے اپنے ساتھیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔ ’’قدرت جس طرح چاہتی ہے اپنے بندوں کو نعمتوں اور راحتوں سے سرفراز کرتی ہے۔‘‘
تینوں مسافروں نے اپنے چوتھے ساتھی کی باتوں کی گہرائی پر غور نہیں کیا اور ازراہِ احسان کپڑے میں بندھے ہوئے میوے اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہنے لگے۔ ’’لو تم بھی انہیں چکھ لو۔ تم نے اپنی پوری زندگی میں ایسے لذیذ میوے نہیں کھائے ہوں گے۔‘‘
چوتھے مسافر نے بڑی بے نیازی کے ساتھ ان میوئوں کی طرف دیکھا اور اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’اللہ نے تمہاری بھوک مٹا دی، بس یہی کافی ہے۔‘‘
’’اور تم جو تین دن سے بھوکے ہو؟‘‘ تینوں مسافروں نے حیرت زدہ لہجے میں کہا۔
’’تم لوگ میری بھوک کی کیوں فکر کرتے ہو؟‘‘ چوتھے مسافر نے بے نیازانہ کہا۔ ’’تم لوگ ان میوئوں کو بچا کر رکھ لو۔ پھر کام آئیں گے، مجھے ان کی حاجت نہیں ہے۔‘‘ یہ واقعہ سنانے کے بعد حضرت میاں میرؒ خاموش ہوگئے۔
حاضرین مجلس میں سے کسی شخص نے عرض کیا۔ ’’حضرت! وہ چوتھا مسافر کون تھا جس نے شدید بھوک کے عالم میں بھی اس بے نیازی کا مظاہرہ کیا؟‘‘
حضرت میاں میرؒ نے اپنے مخصوص تبسم کے ساتھ فرمایا۔ ’’بابا! وہ چوتھا مسافر کس طرح میوے کھاتا کہ وہ خود ہی درخت تھا، خود ہی میوہ اور خود ہی بہتا ہوا چشمہ۔‘‘
حضرت میاں میرؒ کی زبان مبارک سے یہ انکشاف سن کر حاضرین مجلس
زدہ رہ گئے۔ اس واقعے کے راوی میاں حاجی محمدؒ کہتے ہیں کہ وہ چوتھے مسافر خود حضرت میاں میرؒ تھے ۔
جہاں میں اہلِ ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اُدھر ڈُوبے اِدھر نکلے، اِدھر ڈُوبے، اُدھر نکلے
٭…٭…٭
حضرت میاں میرؒ کے ایک اور خدمت گار میر محمد خوانیؒ فرماتے ہیں کہ حاجی علیؒ ایک نہایت پرہیزگار انسان تھے جنہیں حضرت میاں میرؒ سے بے پناہ عقیدت تھی۔ حاجی علیؒ ہر پانچویں سال لاہور سے اپنے وطن جایا کرتے تھے اور میر محمد خوانیؒ کے والد کے یہاں قیام کرتے تھے۔
ایک دن حاجی علیؒ نے میر محمد خوانیؒ کو یہ واقعہ سناتے ہوئے کہا۔ ’’ایک بار میں اور میرے ساتھی سفر میں تھے۔ ہم لوگ ایران جا رہے تھے۔ پھر جب قافلے والوں کو شدید تھکن محسوس ہوئی تو اصفہان اور نیرو کے درمیان خیمہ زن ہوگئے۔ اس وقت شدید گرمی پڑ رہی تھی۔ نیلا آسمان صاف نظر آ رہا تھا اور سورج کی تیز کرنیں انسانی جسموں کو جلائے ڈالتی تھیں۔ میں اور میرے چند ساتھی دوپہر کا کھانا پکانے میں مشغول تھے۔ اچانک میری نظر اُٹھی تو مجھے دُور سے ایک بزرگ خیمے کی طرف آتے ہوئے نظر آئے۔ میں اس وقت آٹا گوندھ رہا تھا مگر میری نظریں بزرگ پر جمی ہوئی تھیں۔ پھرجب فاصلہ کم ہوا تو میں نے بڑی حیرت سے دیکھا۔ آنے والے بزرگ حضرت میاں میرؒ تھے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ پیر و مرشد یہاں کیسے تشریف لے آئے؟ کہاں اصفہان اور کہاں لاہور؟ چند لمحوں کے لیے مجھے خیال گزرا کہ آنے والے بزرگ ظاہری طور پر پیر و مرشد سے مشابہت رکھتے ہوں گے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ حضرت شیخؒ کچھ اور قریب آ گئے۔ اب آپ کے خد و خال واضح ہو چکے تھے۔ میں نے انہیں پہچان لیا۔ وہ حضرت میاں میرؒ ہی تھے… اور مجھے اپنے قریب آنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ میں اسی حالت میں سارے کام چھوڑ کر اُٹھا اور حضرت شیخؒ کے قریب پہنچ کر دست بوسی کی سعادت سے سرفراز ہوا۔‘‘
حضرت میاں میرؒ نے اپنے اسی اندازِ کریمانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے گلے لگا لیا۔ پھر میں نے دست بستہ عرض کیا۔ ’’سیّدی! آپ یہاں کیسے تشریف لائے؟‘‘
حضرت میاں میرؒ نے کچھ دیر تامل کیا اور پھر مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’حاجی علی! تم بہت بری جگہ خیمہ زن ہوئے ہو۔‘‘
’’پھر غلام کے لیے کیا حکم ہے؟‘‘ میں نے دست بستہ عرض کیا۔
’’یہ اہل قافلہ کے لیے وادیٔ ہلاکت ہے۔‘‘ حضرت میاں میرؒ نے فرمایا۔ ’’ابھی کچھ دیر میں یہاں ایک خوفناک طوفان آنے والا ہے۔ جلدی کرو! اپنا مال و اسباب اور خیمہ و قنات اُٹھا کر کسی اُونچی جگہ لے جائو اور اس کی اطلاع قافلے کے دُوسرے لوگوں کو بھی کر دو۔‘‘
میں چاہتا تھا کہ پیر و مرشد سے اس سرزمین پر تشریف لانے کا سبب پوچھوں کہ اچانک مجھے اپنے ساتھی کی تیز آواز سنائی دی۔ میں اس طرف متوجہ ہوگیا اور پھر جب پلٹ کر دیکھا تو حضرت میاں میرؒ وہاں موجود نہیں تھے۔ مجھے دُکھ بھی ہوا اور حیرت بھی۔ دُکھ اس لیے کہ حضرت شیخ کی محبت اور گفتگو سے محروم ہوگیا اور حیرت اس لیے کہ جب میں لاہور سے چلا تھا تو پیر و مرشد اپنے حجرئہ مبارک میں موجود تھے۔ پھر آپ اتنے دُور دراز علاقے میں کسی سواری کے بغیر کس طرح تشریف لائے؟ میں کچھ دیر تک ان ہی خیالات میں اُلجھا رہا۔ پھر یکایک مجھے پیر و مرشد کے ارشاداتِ گرامی یاد آئے اور میں نے جلدی جلدی اپنا مال و اسباب اُٹھا کر بلندی پر پہنچانا شروع کر دیا۔
میری یہ سرگرمی دیکھ کر میرے دُوسرے ساتھی حیرت کا اظہار کرنے لگے۔
’’تم بھی اپنے خیمے اُکھاڑ لو اور بلندی پر منتقل ہو جائو۔‘‘ میں نے نام لئے بغیر پیر و مرشد کی ہدایت اہلِ قافلہ کے گوش گزار کر دی۔ ’’ہم دریا کے قریب انتہائی نشیبی علاقے میں خیمہ زَن ہیں۔ ابھی کچھ دیر بعد یہاں ایک خوفناک طوفان آنے والا ہے۔ اگر بروقت ہم نے کوئی مناسب انتظام نہیں کیا تو ہلاکت و بربادی کے عمل کو کوئی نہیں روک سکے گا۔‘‘
’’یہ تم کہہ رہے ہو، پیر روشن ضمیر؟‘‘ اہلِ قافلہ نے میرے ساتھ تمسخر شروع کر دیا۔
’’اس موسم میں طوفان کہاں سے آئے گا؟‘‘ ایک ساتھی نے نیلے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’سورج کس قدر آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ ہوا ساکت ہے، فلک کی وسعتوں میں بادل کا ہلکا سا ٹکڑا بھی موجود نہیں، اور تم کسی طوفان کی آمد کی پیش گوئی کر رہے ہو؟‘‘
میں نے ان لوگوں کی استہزائیہ گفتگو سنی اور انتہائی دردمندانہ لہجے میں کہا۔ ’’میں خود تو پیر روشن ضمیر نہیں ہوں مگر جس بزرگ نے مجھ سے یہ بات کہی ہے، وہ ہندوستان کا بہت بڑا روشن ضمیر ہے۔‘‘
میں نے اہل قافلہ کو بہت سمجھایا مگر اکثر لوگوں نے میری بات نہیں مانی۔ کچھ ہم سفروں نے عذر پیش کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہم اس طویل اور دُشوارگزار سفر میں تھک کر چور ہو چکے ہیں۔ اتنی شدید گرمی میں پہاڑ پر چڑھنا ہمارے بس کی بات نہیں۔‘‘
الغرض چند لوگوں نے میری بات مان لی اور اپنا سامان اُٹھا کر بلندی پر لے گئے۔ باقی افراد طوفان بلاخیز سے بے خبر اپنے اپنے خیموں میں آرام سے لیٹے رہے اور میں نیلے آسمان کی طرف دیکھتا رہا جو سورج کی تمازت سے جل رہا تھا۔
ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ یکایک ایک سیاہ بادل اُٹھا اور پورے آسمان پر چھا گیا۔ اہلِ قافلہ جو شدید گرمی سے بے حال تھے، قدرت کا یہ پُرلطف منظر دیکھنے کے لیے اپنے اپنے خیموں سے باہر نکل آئے۔ پھر اچانک تیز ہوائیں چلنے لگیں۔ مسافروں کی خوشی میں مزید اضافہ ہوگیا مگر میں دل ہی دل میں اپنے اللہ کی پناہ مانگ رہا تھا۔ میرے ساتھی بھی پریشان تھے اور انہیں میری پیش گوئی پوری ہوتی نظر آ رہی تھی۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ آناً فاناً بارش اور ہوا کا خوفناک طوفان آگیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے دریا بھی اُبل پڑا۔ ہر طرف گہرا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ مسافروں نے محفوظ پناہ گاہوں کی طرف بھاگنے کی کوشش کی مگر نشیبی علاقے میں ایسی کوئی پناہ گاہ نہیں تھی جہاں انسانی جسم آفاتِ ارضی و سماوی سے محفوظ رہ سکیں۔ مسافروں کے خیمے اُڑ چکے تھے اور ان کا مال و اسباب دریا برد ہو چکا تھا۔ پھر دریا کے کنارے بھی ٹوٹ گئے۔ پھر خوں آشام سیلاب نے ان تمام مسافروں کو نگل لیا جو نشیبی علاقوں میں خیمہ زن تھے۔
جن ساتھیوں نے میری بات مان لی تھی، وہ بار بار اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے اور میری روحانی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ ’’شیخ! اگر آپ بروقت ہمیں خبردار نہ کرتے تو اس وقت ہم بھی لقمۂ اجل بن چکے ہوتے۔‘‘
میں نے ساتھیوں کی بات کی تردید کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں کوئی شیخ نہیں بلکہ ایک عام گناہ گار انسان ہوں۔ یہ تو میرے مرشد کا فیض روحانی ہے جس نے مجھے طوفان آنے سے پہلے تنبیہ کی۔‘‘
میرے ساتھی حضرت شیخؒ کے بارے میں پوچھنے لگے تو میں نے اُنہیں بتایا کہ وہ اس وقت لاہور میں قیام فرما ہیں۔ مسافروں کو میری بات کا یقین نہیں آیا اور سچ تو یہ ہے کہ میں خود بھی تذبذب کا شکار تھا۔
پھر جب میں کئی ماہ بعد لاہور آیا اور میں نے خانقاہ عالیہ کے دُوسرے خدمت گاروں سے پوچھا کہ کیا پیر و مرشد کچھ دن کے لیے اصفہان (ایران) تشریف لے گئے تھے، تو خدام نے انتہائی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’اس دوران میں حضرت شیخؒ خانقاہ سے باہر تشریف نہیں لے گئے اور تم اصفہان جانے کی بات کر رہے ہو؟‘‘
آخر ایک دن میں نے خلوت میں عرض کیا۔ ’’سیّدی! میں نے کھلی آنکھوں سے آپ کو اصفہان میں جلوہ افروز دیکھا تھا۔ آخر یہ کیا راز ہے؟‘‘
اپنے مرید کی بات سن کر حضرت میاں میرؒ نے نہایت رازدارانہ انداز میں فرمایا۔ ’’حاجی علی! تم نے جاگتی آنکھوں سے جو منظر دیکھا، سمجھ لو کہ کچھ نہیں دیکھا۔ یہ راز اپنے سینے میں رکھو اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہیں بڑی آفت سے بچا لیا۔‘‘
٭…٭…٭
اپنے آخری ایّام میں مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر کشمیر میں سکونت پذیر تھا۔ بعض مصاحبوں نے مشہور بزرگ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ اور حضرت خواجہ محمد باقیؒ کے مرید مرزا حسام الدینؒ کے خلاف بادشاہ کے کان بھرے۔ جہانگیر نے بلاتاخیر حکم جاری کر دیا کہ دونوں بزرگ کشمیر میں حاضر ہو جائیں۔ الغرض حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ اور مرزا حسام الدینؒ مغل شہنشاہ کی خدمت میں پہنچے۔
مغل شہنشاہ نے انتہائی ناخوشگوار نظروں سے دونوں بزرگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’مرزا حسام الدین! تمہاری سزا یہ ہے کہ تم اپنے وطن دہلی سے دُور کشمیر میں میری نظروں کے سامنے رہو۔‘‘ مغل شہنشاہ کا لہجہ غضب ناک تھا۔ ’’میں تمہاری جلالت علمی کو دیکھتے ہوئے صرف اسی سزا پر اکتفا کرتا ہوں ورنہ حکومت کے خلاف سازش کرنا ایک ناقابل معافی جرم ہے۔‘‘
اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے مرزا حسام الدینؒ نے فرمایا۔ ’’شہنشاہ! میں اس تہمت سے بری الذمہ ہوں جو میرے دُشمنوں نے مجھ پر لگائی ہے۔‘‘
اسی طرح حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے بھی اپنی صفائی پیش کی مگر مغل شہنشاہ نے دونوں بزرگوں میں سے کسی کا عذر قبول نہیں کیا اور نہایت درشت لہجے میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’اور تمہاری سزا یہ ہے کہ تم اور تمہارا بیٹا شیخ نورالحقؒ کابل چلے جائو اور میری نظروں سے دُور ہو جائو۔‘‘
حکم شاہی سن کر حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ بہت آزردہ ہوئے مگر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ آپ ہندوستان چھوڑ کر کابل چلے جائیں۔ پھر جب حضرت شیخؒ کابل جانے کے لیے لاہور پہنچے تو انہیں اچانک خیال آیا کہ یہاں حضرت میاں میرؒ قیام فرما ہیں۔ اس خیال سے حضرت عبدالحق محدث دہلویؒ کو ایک اطمینان سا حاصل ہوا اور پھر آپ حضرت میاں میرؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
اپنے دور کے عظیم محدث کو دیکھ کر حضرت میاں میرؒ بہت خوش ہوئے اور آپ نے نہایت والہانہ انداز میں حضرت شیخ عبدالحقؒ کا استقبال کیا۔ پہلے رسم خانقاہ کے مطابق حضرت میاں میرؒ نے مہمان کی تواضع کی۔ پھر حضرت عبدالحق محدث دہلویؒ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’شیخ! کیا بات ہے؟ آپ چہرے سے بہت پریشان نظر آ رہے ہیں۔‘‘
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ چند لمحوں تک خاموش رہے۔ پھر افسردہ لہجے میں کہنے لگے۔ ’’حضرت! کیا عرض کروں؟ عتاب شاہی کے زیر اثر ہوں۔ حکم ہوا ہے کہ میں اور میرا بیٹا نورالحق اسی وقت ہندوستان چھوڑ کر کابل چلے
جائیں۔‘‘
حضرت میاں میرؒ نے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کی گفتگو سن کر کچھ دیر کے لیے سکوت اختیار کیا۔ پھر مسکراتے ہوئے فرمایا۔ ’’شیخ! اِن شاء اللہ آپ بھی دہلی میں رہیں گے اور آپ کا فرزند بھی۔‘‘
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ اس راز سے باخبر تھے کہ مغل شہنشاہ جہانگیر، حضرت میاں میرؒ کا بہت احترام کرتا ہے، اس لیے حضرت شیخ نے یہی سمجھا کہ حضرت میاں میرؒ جہانگیر سے ان کی سفارش کریں گے۔
’’تو پھر حضرت! اس کام میں ذرا جلدی کیجئے۔‘‘ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے کہا۔
’’کس کام میں عجلت کروں؟‘‘ حضرت میاں میرؒ نے حضرت عبدالحق محدث دہلویؒ کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا۔
’’یہی کہ آپ سفارش میں جلدی کیجئے تا کہ میں اور میرا بیٹا سفر کی صعوبتوں سے بچ جائیں۔‘‘ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے کہا۔
’’میں بادشاہ سے تمہاری سفارش کیوں کروں؟‘‘ حضرت میاں میرؒ نے پُرجلال لہجے میں فرمایا۔ ’’مجھے جس سے کہنا ہے، اسی سے کہوں گا۔‘‘
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے حضرت میاں میرؒ کا ارشادِ گرامی سنا مگر ان کے چہرے سے بے اطمینانی کا اظہار ہو رہا تھا۔
حضرت میاں میرؒ نے حضرت محدث دہلویؒ کی اس کیفیت کو محسوس کر لیا اور پھر ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’شیخ! آپ مطمئن رہیں۔ میں آپ کا اور آپ کے بیٹے کا ذمہ لیتا ہوں۔ آپ اور آپ کا فرزند، بادشاہ کو دیکھے بغیر، اِن شاء اللہ دہلی ہی میں رہیں گے۔‘‘
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ حضرت میاں میر لاہوریؒ کا رنگ جلال دیکھ کر مطمئن ہوگئے۔ پھر حاضرین مجلس نے دیکھا کہ جب حضرت شیخؒ واپس جا رہے تھے تو ان کے چہرے پر خوشی کا گہرا رنگ نمایاں تھا۔
ابھی حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ اور ان کے فرزند نورالحقؒ لاہور ہی میں مقیم تھے کہ چوتھے دن ہندوستان کی ایک ایک گلی شور ماتم سے گونج اُٹھی۔ مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر شدید عالم بے بسی میں دُنیا سے رُخصت ہو گیا اور حضرت شیخ عبدالحقؒ اپنے بیٹے کے ساتھ دہلی روانہ ہوگئے۔
٭…٭…٭
ایک بار شہر لاہور میں طاعون کی سخت وباء پھیلی۔ جب اس بیماری میں گھر کے گھر ویران ہوگئے تو لاہور کے ایک اور بزرگ شیخ پیر نبیؒ، حضرت میاں میرؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے۔ ’’شیخ! آئیں، ہم دونوں مل کر اس وباء کو دفع کرنے کے لیے کوشش کریں۔‘‘
شیخ پیر نبیؒ کی بات سن کرحضرت میاں میرؒ نے فرمایا۔ ’’شیخ! جب لوگوں کی قضا آجاتی ہے تو پھر کوئی دُعا کارگر ثابت نہیں ہوتی۔‘‘
شیخ پیر نبیؒ نے حضرت میاں میرؒ کی بات پر توجہ نہیں دی اور اکیلے ہی دفع بلا کے لیے ریاضت میں مشغول ہوگئے۔ ابھی شیخ پیر نبیؒ کو وظیفہ پڑھتے ہوئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ان پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ روایت ہے کہ شیخ پیر نبیؒ تین دن اور تین رات تک بے ہوش رہے جس کے سبب ان کی تمام نمازیں قضا ہوگئیں۔ پھر جب چوتھے روز شیخ پیر نبیؒ کو ہوش آیا تو دوبارہ حضرت میاں میرؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شیخ پیر نبیؒ کے چہرے پر ندامت و شرمساری کے آثار نظر آ رہے تھے۔
’’شیخ! میری ساری کوششیں رائیگاں گئیں اور فرض نمازوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔‘‘ پیر نبیؒ کے لہجے میں انتہائی شکستگی کا اظہار ہورہا تھا۔
پیر نبیؒ کا احوال سن کر حضرت میاں میرؒ نے فرمایا۔ ’’شیخ! تم نے دلیری تو بہت کی مگر اس سے خلق خدا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔‘‘
حضرت میاں میرؒ کی ذات گرامی سے بے شمار کرامات ظاہر ہوئیں مگر آپ اظہارِ کرامت کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ آپ کا قول مبارک ہے کہ جہاں تک ہو سکے اللہ کی بخشی ہوئی اس نعمت کو پوشیدہ رکھا جائے۔
مغل شہزادہ دارا شکوہ اپنی مشہور تصنیف ’’سکینۃ الاولیاء‘‘ میں لکھتا ہے کہ حضرت میاں میرؒ کا چہرئہ مبارک دیکھ کر آنکھوں میں نور آ جاتا تھا۔ آپ کا رنگ گندمی تھا جس میں بہت زیادہ ملاحت موجود تھی۔ حضرت میاں میرؒ کی پیشانی بلند تھی جس سے کرامت و سعادت کے آثار نمایاں تھے۔ آپ کی ریش مبارک شرع کے مطابق مٹھی بھر تھی جو آخری عمر میں سفید ہو گئی تھی۔ حضرت میاں میرؒ کا قد درمیانہ تھا اور آپ کثرت ریاضت کے سبب بہت کمزور ہوگئے تھے۔ جب حضرت شیخؒ سو سال کے قریب ہوئے تو پیروں کے درد اور ضعیفی کے سبب بیٹھ کر نماز ادا کیا کرتے تھے۔
آخری دنوں میں حضرت میاں میرؒ کی بینائی اتنی کمزور ہوگئی تھی کہ آپ کوئی کتاب یا خط نہیں پڑھ سکتے تھے مگر پھر بھی دل کی آنکھیں روشن تھیں۔ ایک دن شہزادہ دارا شکوہ کے اُستاد حضرت اخوند میرکؒ، حضرت میاں میرؒ کی زیارت کرنے کے لیے خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے۔ رُخصت ہوتے وقت شہزادہ داراشکوہ نے اپنے اُستاد کو رقعہ دیا کہ اسے حضرت شیخؒ کی خدمت میں پیش کر دیا جائے۔
حضرت اخوند صاحبؒ فرماتے ہیں کہ جب میں حضرت میاں میرؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے اپنے نزدیک بٹھایا اور بڑی شفقت سے پیش آئے۔ شہزادہ داراشکوہ کا دیا ہوا خط میری دستار میں موجود تھا مگر میرے ذہن سے اُتر گیا تھا۔ حضرت شیخؒ گفتگو کے دوران معرفت کے اسرار و رموز کھولتے رہے۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ میں نے آج تک حضرت شیخؒ کی کوئی کرامت نہیں دیکھی، ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ حضرت میاں میرؒ نے دست مبارک بڑھا کر میری دستار سے شہزادہ داراشکوہ کا رُقعہ نکال لیا اور اوّل سے آخر تک لفظ بہ لفظ میرے سامنے پڑھ کر سنا دیا۔
جب آپ پورا خط پڑھ چکے تو مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’اس کام سے فقیر کا مطلب اظہارِ کرامت نہیں تھا۔ کرامت کا اظہار تو اس گروہ کے لیے نہایت آسان کام ہے۔‘‘
حضرت میاں میرؒ کا لباس فقیروں اور درویشوں کی طرح نہیں تھا۔ آپ خرقہ اور مرقع نہیں پہنتے تھے بلکہ بہت کم قیمت کپڑے کی ایک پگڑی سر پر اور موٹے کپڑے کا کرتا زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ جب کبھی آپ کا لباس میلا یا ناپاک ہو جاتا تو عام طورپر دریا کے کنارے جا کر اپنے ہاتھ سے صاف کرتے۔
حضرت میاں میرؒ کے مریدوں اور خدمت گاروں کا لباس بھی آپ ہی جیسا تھا، یعنی جامہ اور دستار۔ حضرت شیخؒ کے کسی مرید نے خرقہ نہیں پہنا۔ آپ کے مسلک میں گدڑی پہننے کا رواج نہیں۔ حضرت میاں میرؒ فرمایا کرتے تھے۔ ’’لباس اس قسم کا ہونا چاہیے کہ کوئی شخص فقیر اور عام انسان میں تمیز نہ کرسکے۔‘‘
حضرت میاں میرؒ کے مرید خاص میاں حاجی محمدؒ بڑا بے تکلف لباس پہنا کرتے تھے۔ جب آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ میرا لباس حضرت شیخؒ کے فرمان کے مطابق ہے۔ یہی میاں حاجی محمدؒ کہتے ہیں کہ جب پیر و مرشدؒ نے میرے حال پر توجہ فرمائی تو میں نے گدڑی پہن لی۔ پھر ایک مدت کے بعد وہ گدڑی پارہ پارہ ہوگئی۔ ایک دن میں بازار سے گزر رہا تھا کہ لوگ میرے گرد جمع ہوگئے۔
اتفاق سے حضرت میاں میرؒ اس طرف تشریف لے آئے اور مجھے دیکھتے ہی فرمانے لگے۔ ’’حاجی محمد! یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟‘‘
میں نے پیر و مرشد کی بات سن کر دست بستہ عرض کیا۔ ’’سیّدی! میں نے جان بوجھ کر یہ حالت نہیں بنائی ہے۔ میں اس سلسلے میں بے اختیار ہوں۔‘‘
حضرت میاں میرؒ نے فرمایا۔ ’’جب تجھے اپنے آپ پر اختیار نہیں ہے تو پھر اس لباس کو اُتار دے اور کوئی ایسا لباس پہن جس سے تیری پہچان ظاہر نہ ہو۔‘‘
حضرت میاں میرؒ کے گھر کا فرش پرانے بوریا کا تھا۔آپ کو دُنیاوی ساز و سامان سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ حضرت میاں میرؒ فقیروں کو دولت مندوں سے افضل جانتے تھے اور اگر کوئی درویش مالی آسودگی حاصل کرلیتا تو اس پر سخت اعتراض کرتے۔
حضرت میاں میرؒ برملا فرماتے تھے کہ زیادہ روزے رکھنے اور نمازیں ادا کرنے کا نام درویشی نہیں۔ نماز، روزہ اور شب بیداری، یہ سب بندگی کے اسباب ہیں۔ درویشی تو لوگوں کو خوش کرنے کا نام ہے، اگر تو دولت حاصل کرے گا تو واصل جہنم ہو جائے گا۔
حضرت میاں میرؒ سماع سُنا کرتے تھے اور تمام راگوں میں ہندی راگ کو بہت زیادہ پسند فرماتے تھے۔ اگر کوئی قوّال آ جاتا تو سماع سنتے ورنہ یہ ضروری نہ تھا کہ قوّال ہر وقت آپ کی خانقاہ میں موجود رہیں۔ حضرت میاں میرؒ پر جب سماع کے دوران وجد کی کیفیت طاری ہوتی تو آپ کا چہرئہ مبارک چمکنے لگتا لیکن بلند حوصلگی اور وقار و تمکنت کے سبب آپ رقص کی حالت سے دُور رہتے۔ یہاں تک کہ کسی شخص نے آپ کو ہاتھ اُٹھاتے ہوئے بھی نہیں دیکھا۔
حضرت میاں میرؒ کا خلق اس درجے کا تھا کہ اگر کوئی شخص گھڑی بھر بھی آپ کی خدمت میں حاضر رہتا تو اس پر اس قدر عنایت و شفقت فرماتے کہ جیسے اس سے زیادہ آپ کو کوئی دُوسرا عزیز نہیں۔ ابوجعفر حدادؒ فرماتے ہیں کہ اگر عقل مرد کی شکل میں نظر آتی تو حضرت شیخ جنید بغدادیؒ کی صورت میں ہوتی۔ حضرت میاں میرؒ کے خلق کے بارے میں داراشکوہ لکھتا ہے کہ اگر خلق کسی مرد کی شکل میں ہوتا تو حضرت میاں میرؒ کی صورت میں نظر آتا۔
حضرت میاں میرؒ جس شخص پر عنایت فرماتے اسے یار اور عزیز کے لفظ سے مخاطب کرتے۔ اپنے کسی مرید کو کبھی مرید نہ کہتے بلکہ یوں فرماتے۔ ’’یہ سب میرے یار ہیں۔‘‘
جب شہر لاہور میں حضرت میاں میرؒ کے قیام کو ساٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا تو آپ کو اسہال کا عارضہ لاحق ہوا اور پانچ روز تک جاری رہا۔ جب آپ کی بیماری کا علم حاکم شہر وزیر خاں کو ہوا تو وہ خدمت عالیہ میں حاضر ہوا مگر آپ نے اس سے ملنے سے انکار کر دیا۔ پھر جب مریدوں نے عرض کیا کہ وزیر خاں عیادت کے لیے حاضر ہوا ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ اندر آجائے مگر زیادہ دیر نہ ٹھہرے۔ وزیر خاں نے حجرئہ مبارک میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ وہ ایک طبیب حاذق کو اپنے ساتھ لے کر آیا ہے۔ اگر حضرت شیخؒ اجازت دیں تو حکیم علاج شروع کرے۔
حضرت میاں میرؒ نے وزیر خاں کی درخواست سن کر فرمایا۔ ’’بس اب تم جائو! مجھے حکیم مطلق ہی کافی ہے۔‘‘
آخری وقت میں میاں شیخ لاہوریؒ حضرت میاں میرؒ کی خدمت میں حاضر تھے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت شیخؒ کو نزع کی حالت میں دیکھا۔ آپ کا دہن مبارک آہستہ آہستہ جنبش کر رہا تھا۔ پھر جب میں قریب پہنچا تو حضرت میاں میرؒ کے چہرئہ مبارک پر ہلکا سا اضطراب نظر آیا۔ پھر ہونٹوں کو جنبش ہوئی، میں نے دو بار اللہ کا لفظ سنا اور پھر معرفت کا یہ سورج غروب ہوگیا۔ یہ 17؍ ربیع الاوّل 1045ھ کا دن تھا جب ایک صدی تک بادشاہانِ وقت کی نفی کرنے والا، شہنشاہِ حقیقی
میں حاضر ہوا۔
وصال سے پہلے اپنے بعض مریدوں کو مخاطب کر کے فرمایا کرتے تھے۔ ’’دیکھو! میری موت کے بعد میری ہڈیوں کو فروخت نہ کرنا اور دُوسرے لوگوں کی طرح دُکان نہ سجا لینا۔‘‘
حضرت میاں میرؒ کی وفات کے بعد داراشکوہ نے روضۂ مبارک کی تعمیر کے لیے مسالا وغیرہ جمع کیا مگر وقت نے اسے تعمیر کا موقع نہ دیا اور وہ اپنے چھوٹے بھائی اورنگزیب عالمگیر کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس کے بعد عالمگیر خود قبر مبارک پر حاضر ہوا اور اسی نے حضرت میاں میرؒ کا مزار تعمیر کرایا۔
روضۂ مبارک کی چار دیواری میں اتنی زیادہ قبریں ہیں کہ وہ اچھا خاصا قبرستان بن گیا۔ یہ قبریں زیادہ تر حضرت میاں میرؒ کے عزیزوں، خادموں اور سجادہ نشینوں کی ہیں۔ ان ہی قبروں میں حضرت شیخؒ کی دو بہنوں کی قبریں بھی ہیں۔ ایک قبر شاہجہاں کی بیٹی اور داراشکوہ کی بہن نادرہ بیگم کی ہے۔ یہ قبر بارہ دری کے نام سے مشہور ہے اور حضرت میاں میرؒ کی زندگی میں تعمیر ہوئی تھی۔ نادرہ بیگم نو سال کی تھی، جب وہ حضرت میاں میرؒ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ مغل شہزادی دو سال تک ایک مرد درویش کی خدمت انجام دیتی رہی۔
پھر ایک دن حضرت میاں میرؒ نے نادرہ بیگم کو اپنی خدمت گزاری سے روک دیا اور فرمایا۔ ’’شہزادی! اب تم جوان ہوگئی ہو۔ اس لئے اپنے گھر چلی جائو۔‘‘
نادرہ بیگم قصرِ شاہی واپس چلی گئی مگر بارہویں سال میں قدم رکھنے سے پہلے 1045 ہجری میں اس کا انتقال ہوگیا۔ اہلِ نظر کہتے ہیں کہ اپنے گھر جانے سے حضرت میاں میرؒ کی مراد سفرِ آخرت تھا۔ شہزادی نادرہ بیگم کی دو سالہ خدمت کا صلہ یہ ہے کہ وہ شہنشاہِ معرفت کے دربار کے ایک گوشے میں محوِ خواب ہے، جہاں ہر وقت اللہ کی رحمتوں کا نزول رہتا ہے۔ (ختم شد)

Latest Posts

Related POSTS