عادل شاہ سوری اپنے مصاحب خاص کی بات کو نہ ٹال سکا اور اس نے حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کا گھوڑا عارضی طور پر اپنے مصاحب کو دے دیا۔
قاضی غیاث الدین نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ عادل شاہ سوری کو سمجھانا چاہتے تھے مگر صورت حال کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے خاموش رہے۔ عادل شاہ سوری کے مصاحب خاص نے عراقی گھوڑے پر سواری کی۔ پھر کچھ دیر بعد واپس آ کر بولا۔ ’’حضور! میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا برق رفتار گھوڑا نہیں دیکھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہ ہوا کے دوش پر تیر رہا ہے۔‘‘
عادل شاہ سوری گھوڑے کی تعریف سن کر بہت خوش ہوا اور اس نے قاضی غیاث الدین کے سامنے حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کی اس عنایت خاص کا شکریہ ادا کیا۔
کچھ دن بعد قاضی غیاث الدین فتح پور سیکری واپس چلے آئے اور حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ واقعہ بیان کر دیا۔ قاضی غیاث الدین کی گفتگو سن کر حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کا چہرئہ مبارک متغیر ہوگیا۔ ’’افسوس! عادل شاہ نے میرے تحفے کی قدر نہیں کی۔‘‘ قاضی غیاث الدین حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کا بدلا ہوا لہجہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ ’’میری ہدایت کے باوجود اس نے اپنے مصاحب کو گھوڑے پر سواری کرنے دی۔‘‘ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ ایک خاص عالم جذب میں بول رہے تھے۔ ’’عادل شاہ نے اس گھوڑے کو کیا سمجھا تھا؟‘‘
حضرت شیخؒ کا رنگ جلال دیکھ کر قاضی غیاث الدین لرزنے لگے۔ ’’شیخ محترم! میں نے عادل شاہ سوری کو سب کچھ سمجھا دیا تھا۔ اس میں میری کوئی تقصیر نہیں ہے۔‘‘
’’تمہارے سمجھانے سے بھی کیا ہوتا؟ لوح محفوظ پر تو کچھ اور ہی لکھا ہے۔‘‘ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ نے فرمایا۔ ’’اگر وہ گھوڑے کی پشت پر بیٹھ جاتا تو ہندوستان کا تخت اس کے نیچے ہوتا مگر کوئی شخص اپنی تقدیر سے کس طرح جنگ کر سکتا ہے؟ عادل شاہ سوری بھی جنگ ہار گیا اور اقتدار سے محروم ہوگیا۔‘‘
حضرت شیخؒ کے فرمودات سن کر قاضی غیاث الدین بہت آزردہ ہوئے مگر وقت ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔
عادل شاہ سوری اپنا لشکر لے کر سلیم شاہ سوری سے جنگ کرنے کے لیے آگرے کی طرف بڑھا۔ جب سلیم شاہ نے یہ خبر سنی تو اس نے اپنی فوج کو جمع کر کے پُرجوش انداز میں خطاب کیا۔ مگر بدقسمتی سے اس کے سپاہیوں کی اکثریت عادل شاہ سوری سے جا ملی۔ یہ بڑی سنگین صورت حال تھی۔ سلیم شاہ بدحواسی کے عالم میں قلعہ بند ہوگیا۔ عادل شاہ سوری کو اپنی فتح کا یقین ہو چلا تھا۔ سلیم شاہ سوری کی مایوسی لحظہ بہ لحظہ بڑھتی جا رہی تھی۔
آخر اس کے ایک امیر عیسیٰ خان نے مشورہ دیتے ہوئے کہا۔ ’’آپ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ سے رجوع کیوں نہیں کرتے؟ سنا ہے کہ سیکڑوں انسان حضرت شیخؒ کی دُعائوں سے فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔‘‘ عیسیٰ خان کی بات سن کر سلیم شاہ سوری کو یوں محسوس ہوا جیسے گہری تاریکی میں کسی دست غیب نے فانوس روشن کر دیا ہو۔ اس نے فوراً ہی اپنے ایک قاصد کو حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کی خدمت میں روانہ کر دیا۔
حضرت شیخؒ نے قاصد کی زبانی پورا واقعہ اور سلیم شاہ سوری کی درخواست سن کر نہایت پُرجوش لہجے میں فرمایا۔ ’’اِن شا اللہ! اب وقت اس کے ساتھ ہے۔ سلیم شاہ سے کہو کہ پورے اطمینان کے ساتھ قلعے سے باہر آئے۔ اللہ نے چاہا تو باقی لشکر اس سے دوبارہ آ ملے گا۔‘‘
سلیم شاہ سوری نے کسی پس و پیش کے بغیر حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے حکم کی تعمیل کی۔ قلعے کا دروازہ کھول دیا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سلیم شاہ سوری گھوڑے پر سوار ہو کر شمشیر لہراتا ہوا قلعے سے باہر نکلا۔ عادل شاہ سوری کے جاسوسوں نے اسے خبر دی کہ سلیم شاہ سوری مقابلے کے لیے میدان جنگ کی طرف آ رہا ہے۔ پھر جیسے ہی یہ خبر سلیم شاہ سوری کے باغی سپاہیوں تک پہنچی، وہ عادل شاہ کے لشکر سے الگ ہو کر اپنے بادشاہ سے جا ملے۔ پھر ایک معمولی سا تصادم ہوا اور کچھ دیر بعد ہی عادل شاہ میدان جنگ سے فرار ہو کر پٹنہ کی طرف چلا گیا۔ تمام معتبر تاریخیں اس بات پر متفق ہیں کہ آگرے سے فرار ہونے کے بعد عادل شاہ سوری کا کوئی پتا نہیں چلا۔ اس نے گمنامی کی حالت میں کیسی زندگی بسر کی، کب مرا اور کہاں دفن ہوا؟
یہ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کی دُعائوں کا اثر تھا کہ سلیم شاہ سوری نے کشت و خون کے بغیر تاج شاہی اپنے سر پر سجایا اور نو سال تک کامیابی کے ساتھ ہندوستان پر حکومت کرتا رہا۔
٭…٭…٭
ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ مشہور سردار خواص خان حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کا مرید تھا۔ اقتدار کی جنگ میں خواص خان نے عادل شاہ سوری کا ساتھ دیا تھا۔ پھر جب عادل شاہ سوری شکست کھا کر فرار ہوگیا تو خواص خان نے بھی شہری علاقہ چھوڑ دیا اور جنگلوں میں چھپ کر زندگی کے باقی دن گزارنے لگا۔ تاج و تخت حاصل کرنے کے بعد سلیم شاہ سوری کا یہ مزاج بن گیا تھا کہ وہ جب بھی کسی امیر کو طاقت پکڑتے دیکھتا تو اسے گرفتار کر کے نظربند کر دیتا یا پھر قتل کرا دیتا۔ بادشاہ کے اسی ظالمانہ سلوک کی وجہ سے خواص خان کئی سال تک روپوش رہا۔ پھر ایک دن وہ اس دربدری کی زندگی سے تنگ آ گیا اور 959 ہجری میں ’’سنبل‘‘ پہنچا۔ اس علاقے کا حاکم امیر تاج خان تھا۔ خواص خان نے امیر تاج خان سے سیاسی پناہ کی درخواست کی جو قبول کر لی گئی۔ پھر ایک دن امیر تاج خان نے دھوکے سے خواص خان کو قتل کرا دیا۔
خواص کے قتل سے لوگوں میں شدید بے چینی پھیل گئی۔ اس علاقے کی اکثریت خواص خان کو بہت چاہتی تھی۔ آخر لوگوں کا ایک بڑا ہجوم خواص خان کا جنازہ لے کر دہلی پہنچا اور اسے اس تاریخی شہر میں دفن کر دیا گیا۔
مشہور روایت ہے کہ ہندوستان کے لوگ خواص خان کو ولی سمجھتے تھے۔ جب یہ خبر عام ہوئی تو اکثر لوگوں نے دبے الفاظ میں کہا۔ ’’خواص خان ولی کا قتل ایک دن رنگ لا کر رہے گا۔‘‘
مشہور مؤرخ قاسم فرشتہ بھی اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر کرتا ہے۔ ’’خواص خان کی موت سلیم شاہ سوری کے لئے انتہائی نامبارک ثابت ہوئی۔ خواص خان 959 ہجری کے آخر میں قتل ہوا تھا اور پھر چند ماہ بعد ہی 960 ہجری کے شروع میں سلیم شاہ سوری کی پشت میں ایک دنبل (پھوڑا) نکلا۔ بادشاہ نے درد کی شدت سے بے چین ہو کر فصد کھلوائی۔ اس کے بعد سلیم شاہ سوری محل سے باہر نکلا۔ اس وقت ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ہوا کا اثر ہوتے ہی سلیم شاہ زمین پر گر پڑا۔ خدمت گار اسے اُٹھا کر دوبارہ محل میں لے گئے۔ تمام شاہی طبیب سلیم شاہ سوری کے گرد جمع ہوگئے مگر کوئی دوا کارگر ثابت نہ ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بادشاہ دُنیا سے رُخصت ہوگیا۔
مؤرخ قاسم فرشتہ نے جس بنیاد پر خواص خان کو ولی تحریر کیا ہے، وہ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کی تربیت کا ہی نتیجہ تھا۔ عادل شاہ سوری نے حضرت شیخ کے گھوڑے کی قدر نہ کی، اقتدار سے محروم ہوگیا۔ سلیم شاہ سوری نے خواص خان کو ستایا، نتیجتاً خود بھی دردناک بیماری میں مبتلا ہو کر مر گیا۔ یہی قدرت کے راز ہیں۔
٭…٭…٭
وقت کروٹیں بدلتا رہا۔ سوری افغانوں کی حکومت ختم ہوگئی اور مغل شہنشاہ نصیرالدین ہمایوں اپنے کھوئے ہوئے تخت پر دوبارہ قابض ہوگیا۔ پھر ایک دن ہمایوں بھی لقمۂ اَجل بن گیا اور اس کی جگہ جلال الدین اکبر تخت نشیں ہوا۔ پھر اچانک ہمیوں بقال کا فتنہ کھڑا ہوا۔ اسی ہنگامہ خیز دور میں حضرت شیخ سلیم چشتیؒ نے ہجرت کا ارادہ کیا۔ اس واقعے سے پہلے حضرت شیخ سلیم چشتی ؒنے پاپیادہ چل کر اور گھوڑے پر سوار ہو کر 23 حج کئے تھے۔ اب کی بار حضرت شیخ کا ارادہ تھا کہ بحری جہاز کے ذریعے سفر کریں اور مستقل طور پر مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کرلیں۔ بالآخر حضرت شیخ سلیم چشتیؒ
نے چوبیسواں حج کیا اور پھر دیارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے۔
پھر ایک دن درود و سلام پڑھتے ہوئے حضرت شیخ سلیم چشتیؒ نے عرض کیا۔ ’’آقا! میری خواہش ہے کہ مجھے اسی شہر مقدس میں موت آئے اور پھر میں اسی اَرضِ پاک میں پیوند خاک ہو جائوں۔‘‘
حضرت شیخ سلیم چشتیؒ گریہ و زاری کے ساتھ دن میں کئی بار یہی دُعا کرتے۔ آخر ایک رات آپ نے سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے۔ ’’سلیم! تم ہندوستان واپس جائو۔ تمہارے لیے یہی مقرر کیا گیا ہے کہ تم دیارِ ہند میں دین اسلام کی تبلیغ کرو اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف بلائو۔ اِن شا اللہ تمہاری خواہش پوری ہوگی اور تمہاری قبر کے لیے اُسی زمین کو مدینے کی زمین بنا دیا جائے گا۔‘‘
جب حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کی آنکھ کھلی تو آپ بے حد مسرور ہوئے۔ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس پر آخری بار درود و سلام پیش کیا اور ہندوستان کی طرف روانہ ہوگئے۔
واپسی میں آپ امام اعظم حضرت ابوحنیفہؒ کے مزار مبارک پر حاضر ہوئے اور روحانی فیوض و برکات حاصل کئے۔
اس کے بعد حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ نے سیّدنا غوث اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے مزار پر حاضر دی۔ اس وقت کے سجادہ نشیں آپ کے ساتھ بڑی قدر و منزلت سے پیش آئے۔ حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ نے مہمان خصوصی کے طور پر یہاں کئی دن گزارے۔
روایت ہے کہ ایک رات مزار مبارک کے سجادہ نشیں نے حضرت غوث اعظمؒ کو خواب میں دیکھا۔ آپ فرما رہے تھے۔ ’’ہمارا خرقہ اور خلافت نامہ سلیم ہندی کو مرحمت کر دو۔‘‘
جب نماز فجر سے پہلے مزار مبارک کے سجادہ نشیں کی آنکھ کھلی تو وہ بہت حیران ہوئے۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ اس پائے کے بزرگ ہیں۔ الغرض سجادہ نشیں نے حضرت غوث اعظمؒ کے حکم کے مطابق خرقۂ مبارک حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کو پیش کر دیا۔ یہ ایک بہت بڑا واقعہ تھا جسے بغداد کے لوگوں نے شدید حیرت کے ساتھ سنا۔ پھر بہت سے لوگ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے دیدار کے لیے حاضر ہوئے۔
مقامی لوگ چاہتے تھے کہ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کچھ دن بغداد میں قیام کریں اور اہل طلب کو اپنی روحانی صحبتوں سے فیض یاب ہونے کا موقع دیں مگر حضرت شیخ سلیم چشتیؒ نے یہ کہہ کر ان لوگوں کو خاموش کر دیا۔ ’’صاحبان دل! آپ حضرات کا یہ عقیدت مندانہ سلوک مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ ہر قدم پر آپ کی محبتیں مجھے روک رہی ہیں۔ مگر کیا کروں میں تو ایک مسافر ہوں جسے طویل سفر درپیش ہے۔ اگر آپ حضرات خوش دلی کے ساتھ مجھے اجازت دے دیں تو میرا یہ سفر آسان ہو جائے گا۔‘‘
حضرت شیخ کی گفتگو سن کر اہل بغداد مجبور ہوگئے۔ پھر جب حضرت شیخؒ اس مبارک سرزمین سے روانہ ہوئے تو آپ کے جسم پر حضرت سیدنا غوث اعظمؒ کا خرقۂ مبارک جگمگا رہا تھا۔
روایت ہے کہ بدویوں کی بھی ایک بڑی جماعت حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سے بے پناہ عقیدت رکھتی تھی۔ جب ان لوگوں نے سنا کہ حضرت غوث اعظمؒ کا خرقۂ مبارک ہندوستان جا رہا ہے تو وہ سب کے سب شدید اضطراب میں مبتلا ہوگئے۔ بدویوں نے خانقاہ کے احترام میں تو کچھ نہیں کہا مگر وہ دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتے رہے۔ (بدویوں سے مراد عرب کا وہ قبیلہ ہے جو تہذیب کی شائستگی سے ناآشنا تھا اور جہالت کی زندگی بسر کر رہا تھا)
مختصر یہ کہ حضرت شیخ سلیم چشتی ؒنے آخری بار حضرت غوث اعظمؒ کی رُوح کو ایصال ثواب کیا اور صوفیائے بغداد سے ملاقات کر کے ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے۔ بدویوں کی جماعت بڑی خاموشی اور رازداری کے ساتھ آپ کے تعاقب میں تھی۔ پھر جب حضرت شیخ سلیم چشتیؒ بغداد کے مضافات سے باہر نکلے تو ایک ویران سے مقام پر وہ تمام بدوی سامنے آ گئے۔ اس وقت حضرت شیخ سلیم چشتیؒ ، حضرت سیدنا غوث اعظمؒ کا خرقۂ مبارک زیب تن کئے ہوئے تھے۔ بدویوں کے چہروں پر انتہائی ناخوشگواری کا رنگ نمایاں تھا۔
حضرت شیخ سلیم چشتیؒ نے بدویوں کی طرف دیکھا اور نہایت محبت آمیز لہجے میں فرمایا۔ ’’کیا آپ حضرات کو مجھ فقیر سے کوئی کام ہے؟‘‘
’’بہت ضروری کام ہے۔‘‘ ایک بدوی نے اُونچی آواز میں کہا۔
’’اگر میں اس لائق ہوا تو اِن شا اللہ تمہارا وہ کام ضرور کروں گا۔‘‘ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ نے بدوی کی گستاخی کو نظرانداز کرتے ہوئے فرمایا۔
’’اس کام میں زیادہ محنت اور کوشش کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ دُوسرے بدوی نے ناخوشگوار لہجے میں کہا۔ ’’ایک انسان کو اپنے جسم سے لباس اُتارنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔‘‘
’’کیا تم میں سے کسی شخص کو لباس کی ضرورت ہے؟‘‘ حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ نے بدویوں سے پوچھا۔
’’یہ ہمارے رُوحانی پیشوا کا لباس ہے۔‘‘ ایک بدوی نے حضرت غوث اعظمؒ کے خرقۂ مبارک کی طرف اشارہ کیا۔
’’یہ تو مجھے حضرت غوث اعظمؒ کی بارگاہ کرم سے عنایت ہوا ہے۔‘‘ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ نے خرقۂ مبارک کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا۔
’’اسی لباس کو تو دیکھ کر ہم لوگ جیتے ہیں۔‘‘ بدویوں نے بیک زبان کہا۔ ’’ہم حضرت غوث اعظمؒ کے کسی تبرک کو بغداد سے باہر نہیں جانے دیں گے۔‘‘
حضرت شیخ سلیم چشتیؒ نے بدویوں کو لاکھ سمجھایا کہ یہ خرقۂ مبارک حضرت غوث اعظمؒ کا عطیہ ہے مگر وہ اَن پڑھ لوگ آپ کی ایک بات کو بھی سمجھنے سے قاصر رہے اور تنبیہ کے انداز میں یہی کہتے رہے۔ ’’سلامتی اسی میں ہے کہ اس خرقے کو اُتار کر ہمارے حوالے کر دو۔‘‘
آخر حضرت شیخ سلیم چشتیؒ نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ ’’اگر تمہیں خرقۂ مبارک میرے جسم پر نظر آئے تو بے شک اُتار لو۔ میں کسی قسم کی مزاحمت نہیں کروں گا۔‘‘
یہ سن کر بدویوں نے ایک زوردار نعرہ مارا کہ ان کی مراد پوری ہوگئی۔ پھر کچھ بدوی، حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے جسم سے خرقۂ مبارک اُتارنے کے لیے آگے بڑھے مگر دُوسرے ہی لمحے وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے جسم پر حضرت غوث اعظمؒ کا خرقۂ مبارک موجود نہیں تھا بلکہ حضرت شیخؒ کا اپنا لباس نظر آ رہا تھا۔ تمام بدوی بار بار اپنی آنکھیں ملنے لگے مگر یہ نظروں کا دھوکا نہیں تھا۔ واقعتاً حضرت غوث اعظمؒ کا خرقۂ مبارک موجود نہیں تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے خرقۂ مبارک حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے جسم مبارک میں جذب ہو گیا ہو۔
تمام بدویوں کی حالت غیر ہو گئی تھی۔ ان کی آنکھیں حلقوں سے باہر تھیں اور جسم پتھر کے مجسموں کی طرح ساکت تھے۔
’’میرے بھائیو! اب تو مجھے جانے دو۔‘‘ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ نے بدویوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
حضرت شیخؒ کی آواز سن کر بدویوں کا سکوت ٹوٹا اور پھر انہیں احساس ہوا کہ وہ جس شخص سے جھگڑا کر رہے ہیں، وہ کوئی عام انسان نہیں ہے۔
’’ہزاروں انسانوں نے دیکھا کہ حضرت غوث اعظمؒ کا خرقۂ مبارک آپ کے جسم پر موجود ہے، پھر وہ اچانک کہاں غائب ہوگیا؟‘‘
’’اب میں کیا کہہ سکتا ہوں؟ میں نے تو تمہیں اجازت دے دی تھی کہ میرے جسم سے خرقۂ مبارک اُتار لو۔‘‘ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ نے نہایت شفقت آمیز لہجے میں فرمایا۔
’’اسے کوئی نہیں اُتار سکتا۔ اسے کوئی نہیں اُتار سکتا۔‘‘ بدوی شدت جذبات میں چیخ رہے تھے۔
’’تو پھرمجھے جانے دو۔‘‘ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ نے فرمایا۔
تمام بدوی گریہ و زاری کرنے لگے۔ ’’شیخ! ہم آپ کو پہچانے نہیں تھے۔ اللہ کے واسطے ہمیں غوث اعظمؒ کے خرقۂ مبارک کا آخری بار دیدار کرا دیں۔‘‘
حضرت شیخ سلیم چشتیؒ نے ان لوگوں کی یہ درخواست قبول کرلی۔ پھر بدویوں نے حیران ہو کر دیکھا۔ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے جسم مبارک پر خرقۂ مبارک کی دا ہنی آستین نمودار ہوئی،
پھر بائیں آستین، پھر گریبان، پھر دامن۔ یہاں تک کہ پورا خرقۂ مبارک ظاہر ہوگیا۔
حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کی یہ کرامت دیکھ کر تمام بدوی زمین پر گر پڑے۔ حضرت شیخؒ نے آگے بڑھ کر انہیں اُٹھایا۔ ’’اب آپ کچھ دن ہمارے مہمان رہیں گے۔‘‘ بدوی جوش عقیدت سے سرشار ہو کر چیخ رہے تھے۔
آخر حضرت شیخ سلیم چشتیؒ مجبور ہوگئے اور آپ نے بدویوں کی میزبانی قبول کرلی۔ پھر وہ پوری جماعت حضرت شیخؒ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئی۔ تقریباً ایک ماہ بعد حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ ہندوستان روانہ ہوئے۔
ہندوستان پہنچ کر حضرت شیخؒ سب سے پہلے اپنے مورث اعلیٰ حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کے مزار مبارک پر حاضر ہوئے۔ آپ نے حضرت غوث اعظمؒ کا خرقۂ مبارک حضرت بابا صاحبؒ کے سجادہ نشین دیوان فیض اللہ صاحب کے سپرد کر دیا۔ یہ خرقۂ مبارک سفید صوف کا بنا ہوا ہے اور آج تک بطور امانت موجود ہے۔
حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کو ظاہر علوم میں بھی کمال حاصل تھا اور آپ رُوحانی اعتبار سے بھی ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔ آپ کا کوئی عمل شریعت کے خلاف نہیں تھا۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر خود عمل کرتے اور دُوسروں کو بھی تلقین فرماتے۔ اگر کسی جگہ شرعی احکام کی خلاف ورزی دیکھتے تو انتہائی جرأت کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کر دیتے۔ آپ کی پرہیزگاری کا یہ عالم تھا کہ انتہائی سادہ غذا استعمال کرتے اور رمضان المبارک کے علاوہ تسلسل کے ساتھ روزے رکھتے۔ کیسی ہی سردی ہو، روزانہ ٹھنڈے پانی سے غسل فرماتے۔ ہمیشہ ایک جیسا لباس پہنتے، یہاں تک کہ جاڑے کے موسم میں بھی جسم مبارک پر باریک کرتہ نظر آتا۔ جب آپ خانقاہ میں جلوہ افروز ہوتے تو ہر شخص پر گہری نگاہ رکھتے۔ کسی کو سخت الفاظ میں تنبیہ کرتے اور کسی کو محبت آمیز لہجے میں نصیحت فرماتے۔
آپ راہ سلوک کے مسافر تھے۔ اس لیے ساری زندگی شان جمالی میں بسر کی۔ جذب کی کیفیت بہت کم طاری ہوتی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آپ سے شاذ و نادر ہی کرامت کا ظہور ہوتا تھا لیکن پھر بھی جو واقعات آپ کے نام سے منسوب ہیں، ان میں اہل نظر کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔
ایک دن مجلس وعظ آراستہ تھی۔ آپ زور شور سے تقریر فرما رہے تھے۔ ہزاروں عقیدت مند سر جھکائے حاضر خدمت تھے۔ کسی میں آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی طاقت نہ تھی۔ یکایک آپ نے گفتگو کا موضوع بدل دیا۔ ’’لوگو! زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ اپنے اپنے مکانوں کو کشادہ کر لو۔ فقیر کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ پھر تمہیں کہیں جگہ نہیں ملے گی۔‘‘ حاضرین آپ کے طرز کلام پر چونک پڑے۔ آج باتوں کا انداز ہی جداگانہ تھا۔ آپ نے دوبارہ فرمایا۔ ’’اپنے گھروں کے صحن وسیع کر لو، زمین سمٹ رہی ہے۔ شہر کے تمام باشندوں سے کہہ دو۔ وقت گزر گیا تو کفِ افسوس ملتے رہو گے۔ جلدی کرو۔‘‘
وعظ ختم ہوگیا۔ لوگ شدید حیرت کے عالم میں اُٹھ کر چلے گئے۔ کسی نے آپ کی تقریر کو معرفت کا اہم نکتہ قرار دیا۔ کسی نے سیاسی انقلاب کی پیش گوئی سمجھا۔ غرض ہر شخص نے اپنے ذہن کی رسائی کے مطابق آپ کی باتوں سے نیا مفہوم اخذ کیا۔ بہت دن تک شہر میں اسی تقریر کے چرچے ہوتے رہے۔ دُنیا داروں نے ہذیان سمجھ کر فقیر کی باتوں کا مذاق اُڑایا۔ کچھ لوگوں نے آپ کے الفاظ کی مادی توجیہ کرتے ہوئے اپنے مکانات کا رقبہ بڑھانا شروع کر دیا۔ بیشتر افراد اس تقریر کو یاد نہ رکھ سکے اور پھر آہستہ آہستہ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے الفاظ کی بازگشت بھی ختم ہوگئی۔
پندرہ سال بعد فتح پور سیکری میں شاہی عمارات کی تعمیر کا سلسلہ اس قدر تیزی سے شروع ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورا شہر سرکاری دفاتر اور رہائش گاہوں سے بھر گیا۔ اس وقت لوگوں کے ذہنوں میں حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے الفاظ گونجنے لگے۔ ’’اپنے اپنے مکانوں کو کشادہ کر لو۔ زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے۔‘‘
اب عام انسان بھی درویش خدا مست کے الفاظ کا مفہوم سمجھ رہا تھا مگر مہلت ختم ہو چکی تھی اور وقت بہت دُور جا چکا تھا۔
٭…٭…٭
حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کی اور بھی کئی کرامات مشہور ہیں لیکن ان کی دو کرامتیں ایسی ہیں کہ جنہیں دُنیا کا بڑے سے بڑا مادہ پرست بھی نہیں جھٹلا سکتا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر اپنی فطری جہالت اور درباریوں کی بے جا خوشامد کے باعث اس حد تک گمراہ ہوگیا تھا کہ اس نے دین اسلام چھوڑ کر نیا مذہب ایجاد کر لیا تھا۔ یہ نیا مذہب دین الٰہی کے نام سے رائج ہوا۔ اس مذہب میں اکبر کو کم و بیش خدا کا درجہ حاصل تھا۔ مملکت کے دو بدعقیدہ وزیروں ابوالفضل اور فیضی نے اس کے ذہن پر تاریکی کے اتنے گہرے پردے ڈال دیئے تھے کہ وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا۔ اس نے غیراسلامی طریقے پر راجپوت لڑکی جودھا بائی سے شادی کی۔ اپنی ترقی پسندی اور روشن خیالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مغل شہنشاہ نے مہارانی کو نہ صرف مذہبی آزادی بخشی بلکہ جودھا بائی کی دلجوئی کے لیے اپنے محل کو بھی بت خانہ بنا دیا۔ اہل ایمان پر وہ ستم توڑے گئے کہ انہیں سر چھپانے کو پورے ملک میں کہیں جائے پناہ نہیں ملتی تھی۔ شراب اور بدکاری کا عام رواج تھا۔ راجپوت سردار اور نام نہاد مسلمان اسے صرف ایک ہی خواب دکھا رہے تھے اور وہ تھا عظیم الشان سلطنت کا خواب۔ کسی نہ کسی طرح اکبر کا یہ خواب شرمندئہ تعبیر ہوگیا۔ اس نے اپنے بے شمار دشمنوں کو شکست دی۔ کئی قابل ذکر فتوحات حاصل کیں مگر ایک غم اسے شب و روز دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔ شادی کو طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ اولاد کی نعمت سے محروم تھا۔ ہندوستان کے گوشے گوشے سے بہترین طبیب بلائے گئے۔ سیکڑوں دوائیں تجویز ہوئیں اور پھر اتفاق رائے سے تمام حکیموں نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ شہنشاہ وقت اولاد کی خوشی دیکھنے سے قاصر رہیں گے۔ مہارانی کے کہنے پر ہندو سادھوئوں اور جوگیوں کے کمالات کا سہارا لیا گیا۔ جادوگروں نے بھی اپنی شعبدہ بازیاں دکھائیں لیکن سب کچھ رائیگاں گیا اور کوئی تدبیر کام نہ آئی۔ اب اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اپنوں اور بیگانوں کی حزیمانہ نظریں وسیع و عریض سلطنت پر جمی ہوئی تھیں۔ تاج و تخت موجود تھے مگر ان کے وارث کا دُور دُور پتا نہ تھا۔ مجبوراً اس نے حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کی بارگاہ کا رُخ کیا۔ یہ ایک مطلق العنان بادشاہ کی پہلی شکست تھی۔
آپ نے اکبر کو اپنی بارگاہ میں داخل ہوتے دیکھا مگر کسی خصوصی عزت و احترام کا مظاہرہ نہیں کیا۔ شہنشاہ وقت ایک عام ضرورت مند کی طرح آپ کے سامنے بیٹھا رہا اور تقریر وعظ سنتا رہا۔ جب حضرت شیخؒ اپنے اس کام سے فارغ ہوگئے تو اس کی طرف متوجہ ہوئے اور آمد کا سبب دریافت کیا۔ یہ ایک ظاہری رسم تھی ورنہ آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ اکبر جیسا گمراہ انسان ایک درویش کی خانقاہ میں کیوں آیا ہے؟ بالآخر اس نے آپ سے تخت ہندوستان کے وارث کے لیے دُعا کی درخواست کی۔ آپ نے پہلے اس کے عقائد پر شدید اعتراض کیا اور پھر حکم دیا کہ خلوص دل کے ساتھ سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی بارگاہ عالیہ میں حاضری دے۔ اکبر خاموش رہا۔ آپ نے اس کی خاموشی کا مفہوم سمجھتے ہوئے دوبارہ فرمایا۔ ’’وہ میرے مرشد اعلیٰ ہیں اور میں ان کے دربار کا ادنیٰ ترین خادم ہوں۔ اس خانقاہ کی یہی رسم ہے کہ آنے والا پہلے شہنشاہ معرفت کی قدم بوسی کا شرف حاصل کرے گا اور پھر اس غلام کی جھونپڑی میں داخل ہوگا۔ تو نے اُلٹا سفر اختیار کیا ہے۔ شہنشاہ کو چھوڑ کر غلام کے پاس چلا آیا ہے۔ پہلے صحیح راستے کا انتخاب کر، پھر تیرے وارث کے لیے دُعا کروں گا۔‘‘
قدم قدم پر اپنی ذلت و شکست کے
مظاہرے دیکھتا ہوا مغل شہنشاہ اُٹھا۔ اب وہ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے حکم کے مطابق اجمیر شریف کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اکبر نے تمام بزرگ لوگوں کی شان میں گستاخیاں کی تھیں، اب وہ ان ہی کی خانقاہوں میں، ایک بھکاری کی مانند مسلسل حاضری دے رہا تھا۔ یہ جلال الدین اکبر کی دُوسری شکست تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مغل شہنشاہ دیارِ غریب نوازؒ میں پہنچا اور پھر چند عمارتیں تعمیر کرا کے ہمیشہ کے لیے اپنی آمد کا ثبوت چھوڑ گیا۔ یہاں ایک مشہور عمارت ’’اکبری دروازہ‘‘ بھی ہے۔ آج بھی لاکھوں زائرین کی نگاہیں اس عبارت پر جم جاتی ہیں جو کافی فاصلے سے دیکھنے کے باوجود نمایاں نظر آتی ہے۔
’’خاک پائے سلطان الہندؒ ، جلال الدین اکبر۔‘‘
صدیوں پہلے دُنیا سے گزر جانے والے ایک فقیر کو سلطان الہندؒ کہنا اور پھر اپنی غلامی کا تحریری اعلان کرنا (وہ بھی اس طرح کہ آنے والی نسلیں، قیامت تک اس اعلان کو دن رات دیکھتی رہیں) یہ اکبر اعظم کی تیسری شکست تھی۔
اجمیر شریف سے واپسی کے بعد مغل شہنشاہ دوبارہ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ’’تو نے اپنی طاقت کا اندازہ کرلیا؟‘‘ یہ لفظوں کا ایک نشتر تھا جو فرمانروائے ہند کے دل میں اُترتا چلا گیا۔ ’’اگر خداوند ذوالجلال تیری نسل کا سلسلہ منقطع کردے تو یہ عظیم الشان سلطنت کہیں کام آئے گی؟ دُشمن تیرے منصوبوں کو زیر و زبر کر کے رکھ دیں گے اور تو کسی قیدخانے میں ایڑیاں رگڑ رہا ہوگا یا تیری لاش پھانسی کے تختے پر جھول رہی ہوگی۔ تخت والوں کا اکثر یہی انجام ہوتا ہے۔ زمین پر آہستہ چل کہ تو اسے پھاڑ نہیں سکتا اور گردن جھکا لے کہ تو آسمانوں تک بلند نہیں ہو سکتا۔‘‘
آپ کے لفظوں کی تیغ بے نیام دیکھ کر مغل شہنشاہ کے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا۔ اس کا پورا بدن ندامت کے پسینے میں غرق تھا۔ ’’شیخ! مجھ پر رحم کرو۔ اب میں چلتے چلتے تھک گیا ہوں۔ اگر میں کسی قابل ہوتا تو تمہارے آگے ہاتھ کیوں پھیلاتا؟‘‘
حضرت شیخ سلیم چشتیؒ، اکبر کا یہ جواب سن کر مسکرائے اور پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا دیئے۔ ’’اے مالک لوح و قلم! کائنات کی پیشانی پر لکھی ہوئی ایک ایک تحریر تیری ہے تو جسے چاہے قائم رکھے اور جسے چاہے مٹا دے۔ کوئی تیرے فیصلوں میں مداخلت کرنے والا نہیں۔ یہ شخص جلال الدین اکبر جسے تو نے زمین ہند کی حکومت بخشی ہے، مجھے تیرا بندہ سمجھ کر میرے پاس آیا ہے۔ اکثر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ مجھ گناہ گار کو تیری ذات سے نسبت خاص ہے۔ اے رحیم و کریم! اپنی مخلوق کی ان خوش گمانیوں کو قائم رکھ۔ میرے عیبوں کی پردہ پوشی فرمانے والے اس بے اولاد کو اپنے بے مثال فضل و کرم سے نواز دے۔‘‘ حضرت شیخؒ اس گریہ و زاری سے دُعا مانگ رہے تھے کہ خود اکبر بھی رو پڑا۔
پھر کچھ دن بعد آگرے کے باشندوں نے دیکھا کہ پورا شہر رنگ و نور میں نہا گیا۔ مسرت و شادمانی کا یہ عالم تھا کہ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔ مغل شہنشاہ انتہائی وارفتگی کے عالم میں فتح پور سیکری کی طرف جا رہا تھا۔ پھر وہ دیوانہ وار دوڑتا ہوا حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کی خانقاہ میں داخل ہوا۔
’’شیخ! آپ کی دُعائوں سے تخت ہندوستان کا وارث دُنیا میں آ گیا۔ دلکش اور پُرجلال چہرہ رکھنے والا وارث، میرا وارث، اکبر اعظم کا وارث، نسل بابری کا امین، شہنشاہ ہمایوں کا جانشین میرا فرزند۔‘‘ اکبر اعظم کو اپنے آپ پر قابو نہیں رہا تھا اور الفاظ اس کی زبان سے ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہو رہے تھے۔
حضرت شیخؒ ان تمام باتوں سے بے نیاز آسمان کی طرف دیکھتے رہے، پھر حاضرین کے سامنے ایک طویل سجدئہ شکر ادا کیا۔ ’’خالقِ اَرض و سما! تیرا یہ احسان عظیم ہے کہ تو نے انسانوں کے ہجوم میں اپنے سب سے عاجز بندے کی آبرو رکھ لی۔ بے شک تو اپنے پکارنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔‘‘ دُعا سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے شہزادے کو خانقاہ میں لانے کے لیے کہا۔
حکم کی دیر تھی شاہی خدام نومولود کو ریشمی کپڑوں میں لپیٹے ہوئے حاضر خدمت ہوئے۔ حضرت شیخؒ نے شہزادے کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ بچے کی معصوم شکل دیکھ کر مسکرائے۔ پھر بلند آواز کے ساتھ اس کے کان میں اذان دی۔ بادشاہ کسی ستون کی طرح ساکت یہ منظر دیکھتا رہا۔ تمام اسلامی رسموں کی ادائیگی کے بعد حضرت شیخؒ نے شہزادے کی پیشانی کو بوسہ دیا اور یہ کہتے ہوئے اکبر کو اس کی امانت سونپ دی۔ ’’اللہ سلیم کی عمر اور اقبال مندی میں اضافہ کرے۔‘‘
آپ نے مغل شہزادے کا نام اپنے نام پر رکھا اور پھر یہی نام تاریخ ہندوستان کا ایک حصہ بن گیا۔
اکبر اعظم اور مہارانی جودھا کی بے قراریوں کو قرار آ گیا تھا اور وارث تخت کی پرورش جس انداز میں کی جا رہی تھی۔ آج کے لوگ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ماں باپ جوش محبت میں دن رات شہزادے کے بستر کا طواف کرتے رہتے، یہاں تک کہ سلیم بڑا ہوگیا اورگھٹنوں چلنے لگا۔ شہنشاہ اور ملکہ کی خوشی ناقابل بیان تھی مگر اس وقت ان دونوں کے چہرے اُداس ہو جاتے، جب سلیم اپنی زبان سے کوئی لفظ ادا نہیں کرتا تھا۔ اکبر بہت دیر تک شہزادے سے باتیں کرتا مگر سلیم کے منہ سے کسی قسم کی آواز نہیں نکلتی تھی، حالانکہ اس عمر کے بچے مکمل نہیں تو ٹوٹے پھوٹے الفاظ ضرور بولتے ہیں۔ اکبر اعظم شہزادے کی یہ حالت دیکھ کر اکثر سوچ میں ڈُوب جاتا۔ یقیناً یہ ایک فکرانگیز علامت تھی۔ محل کے رہنے والے سرگوشیوں میں کہنے لگے۔ ’’ہندوستان کے تخت کا وارث پیدائشی گونگا ہے۔‘‘
اُڑتے اُڑتے کوئی خبر بادشاہ کے کانوں تک بھی پہنچ جاتی تھی اور وہ اس تصور ہی سے لرز جاتا تھا کہ اس کا جانشین بے زبان ہے۔ بالآخر اس نے بڑی رازداری کے ساتھ شاہی طبیبوں کو طلب کیا۔ تفصیلی معائنے کے بعد سارے طبیبوں نے متفقہ طور پر اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا کہ شہزادے کے بات کرنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اگر عمر کے کسی حصے میں زبان سے کچھ الفاظ ادا بھی ہوئے تو وہ انتہائی مبہم اور غیرواضح ہوں گے۔ اس طبّی تشخیص کے بعد ایک بار پھر اکبر کا ذہن مایوسیوں کے اندھیروں میں غرق ہوگیا۔
وقت تیزی سے گزرتا جا رہا تھا مگر شہزادے کی بے زبانی کا وہی عالم تھا۔ خاموشی سے ماں باپ کے چہروں کو دیکھتا، ان کی دلچسپ حرکتوں پر مسکراتا لیکن زبان سے کوئی لفظ نہ ادا کرتا۔ بظاہر اس سنگین صورت حال کا کوئی علاج نظر نہ آیا تو مہارانی جودھا نے شہنشاہ کو مشورہ دیا کہ وہ اس سلسلے میں حضرت شیخؒ سے رجوع کرے۔ اکبر کے تاریک دماغ میں قندیل سی جل گئی۔ وہ اپنی بدحواسیوں میں حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کو بھول ہی گیا تھا۔
’’اب کیوں آیا ہے؟‘‘ سلیم چشتی ؒ نے اکبر کو اپنے سامنے پا کر اس سے سوال کیا۔
’’شیخ! آپ کا شہزادہ بات نہیں کرتا۔ شاہی طبیب کہتے ہیں کہ وہ پیدائشی گونگا ہے۔‘‘ اکبر کا لہجہ رقت آمیز تھا اور اس کی آنکھوں سے دُنیا کے سب سے مجبور انسان کی بے کسی جھلک رہی تھی۔
’’شاہی حکیم کیا جانیں؟ ان رازوں کو صرف طبیب حقیقی سمجھتا ہے۔‘‘ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ تبسم فرماتے ہوئے بولے۔ ’’صبر کر، شہزادہ بولے گا اور خوب بولے گا۔‘‘
حضرت شیخؒ کا جواب سن کر اکبر مطمئن ہوگیا اور مہارانی جودھا کو بھی اطمینان دلا دیا۔ شاہی محلات کا کھویا ہوا سکون لوٹ آیا۔
دن گزرتے رہے لیکن شہزادے کی حالت میں کوئی انقلاب نہیں آیا۔ اس کی بے زبانی پہلے دن کی طرح برقرار رہی۔ اکبر پھر عالم وحشت میں خانقاہ کی طرف بھاگا۔ ’’شیخ! وہ اب بھی نہیں بولتا۔ یہ کیسی روشنی ہے کہ میں پہلے سے زیادہ اندھیروں کا شکار ہوگیا ہوں۔‘‘
’’تجھے کیا پتا کہ یہ کیا راز ہے؟ بس لکھنے والے نے یوں ہی لکھا ہے کہ ایک
ایک ہی سلیم بول سکتا ہے۔‘‘ حضرت شیخؒ کے چہرئہ مبارک سے ناگواری عیاں تھی۔ ’’بس بہت ہو چکا۔ آئندہ فقیر کو پریشان نہ کرنا۔‘‘ یہ کہہ کر آپ نے منہ پھیر لیا اور اکبر تھکے ہوئے قدموں سے محل واپس آ گیا۔ حضرت شیخؒ کی گفتگو مغل شہنشاہ کی عقل سے بالاتر تھی۔ وہ اتنا ہی سمجھ سکا تھا کہ اب شیخ سلیم چشتی ؒ اسے شرف ملاقات نہیں بخشیں گے۔ یہ ایک اور غم تھا کہ مسیحا نے دل کا درد سننے سے انکار کر دیا تھا۔
غرض اس کشمکش میں کچھ اور وقت گزر گیا۔ روز بروز شہزادے کی عمر میں اضافہ ہو رہا تھا لیکن اب تک اس میں بولنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہو سکی تھی۔ شہنشاہ اور ملکہ کے علاوہ مغل سلطنت کے تمام بہی خواہ اس اذیت ناک صورت حال سے دوچار تھے اور انہیں شہنشاہ بابر کی عظیم وراثت کا مستقبل تاریک نظر آ رہا تھا۔ آخر جب ایک انسانی ذہن نااُمیدی کی انتہائی حدوں تک پہنچ گیا تو قدرت کی کرشمہ سازی کا آغاز ہوا۔
آج سلیم نے اپنی زبان سے پہلا لفظ ادا کیا تھا۔ کچھ دیر تک تو اکبر اور مہارانی جودھا کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا مگر جب مغل شہزادے نے مسلسل کئی بے ترتیب الفاظ ادا کئے تو اکبر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور فرط مسرت سے بے اختیار ہو کر رونے لگا۔ دراصل یہ سلیم نہیں بلکہ مغل سلطنت کا مستقبل بول رہا تھا۔ محلات شاہی میں ہر طرف کیف اور نشاط کی لہر دوڑ گئی۔ حسن طرب کے اہتمام کا حکم دیا گیا۔ وزیر و امیر اپنے اپنے گھروں سے نکل آئے اور ’’ظل الٰہی‘‘ کو مبارکباد دینے لگے۔ ایک عجیب ہنگامہ تھا، ایک عجیب شور برپا تھا۔
پھر اسی شور میں کسی درباری نے اکبر سے کہا۔ ’’حضرت شیخ سلیم چشتیؒ انتقال کرگئے۔‘‘
مسرت و شادمانی کی لہریں تھم گئیں اور دَرو دیوار ساکت ہوگئے۔ اکبر محل کے ایک گوشے میں مہارانی کے ساتھ اُداس کھڑا تھا اور حضرت شیخؒ کے الفاظ بار بار اس کی سماعت میں گونج رہے تھے۔ ’’ایک وقت میں ایک ہی سلیم بول سکتا ہے۔‘‘
آج مغل سلطنت کا نیا وارث شہزادہ سلیم بول رہا تھا اور خاندان چشتیہ کے شبنم فشاں اور شعلہ بار مقرر سلیم چشتیؒ بولتے بولتے ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئے تھے۔ یہ بھی آپ کے کشف کا ایک انداز تھا جو تاریخ ہند کا ناقابل فراموش باب بن کر رہ گیا ہے۔ اس واقعے کو پڑھ کر بڑے بڑے دانشمند حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ زبان کی کیسی تاثیر تھی کہ درویش کے ہونٹوں سے جو الفاظ ادا ہوئے، وہی عالم اسباب کا مقدر ٹھہرے۔ ایک وقت میں ایک ہی سلیم بولا۔ خاندان چشتیہ کا سلیم دُنیا سے رُخصت ہوا تو خاندان مغلیہ کے سلیم کو قوت گویائی میسر آئی۔
’’توزک جہانگیری‘‘ مغل شہنشاہ کی خود نوشت سوانح ہے۔ جہانگیر ایک مقام پر لکھتا ہے۔ ’’جب میری پیدائش کا وقت قریب آیا تو والدہ کو حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے گھر بھیج دیا گیا۔ حضرت شیخؒ کا حکم تھا کہ جب تک شہزادہ اس دُنیا میں نہ آ جائے اس وقت تک ملکۂ ہند گھر سے باہر قدم نہ رکھیں۔‘‘
اُمید و بیم کی بڑی عجیب کیفیت تھی۔ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرما چکے تھے کہ اِن شا اللہ تخت ہندوستان کا وارث عنقریب دُنیا میں ظاہر ہوگا مگر خود جلال الدین اکبر اور مہارانی جودھا سوچ رہے تھے کہ بیٹے کے بجائے بیٹی بھی تولد ہو سکتی ہے۔ وزراء اور امراء بھی اسی قسم کے اندیشوں میں مبتلا تھے اور یہ کوئی غیرفطری بات بھی نہیں تھی۔ کوئی نہیں جانتا کہ پردئہ غیب سے کیا ظاہر ہوگا؟ مگر ایک فقیر بوریا نشین کو اپنے اللہ کی ذات پاک پر یقین کامل تھا کہ اس کی دُعائیں بے اثر نہیں جائیں گی۔
شہنشاہ جہانگیر لکھتا ہے۔ ’’چار شنبہ 17؍ ربیع الاوّل 977ھ کو میری پیدائش حضرت شیخؒ کے خانۂ مبارک میں ہوئی۔ حضرت شیخؒ نے اپنے نام پر میرا نام سلطان سلیم رکھا۔ والد محترم حضرت شیخؒ کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ انہوں نے نشے کی حالت میں بھی مجھے سلطان سلیم یا محمد سلیم کہہ کر نہیں پکارا۔ جب بھی آواز دیتے تھے ’’شیخو بابا‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔
٭…٭…٭
دُوسری کرامت حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کے وصال کے بہت عرصے بعد ظاہر ہوئی۔ شہزادہ سلیم، شہنشاہ نورالدین جہانگیر کے نام سے تخت ہندوستان پر جلوہ افروز ہوا۔ مغل شہنشاہ فطرتاً انتہائی جمال پرست انسان تھا۔ اس لیے ایک حسین و جمیل شادی شدہ عورت نورجہاں کے عشق میں گرفتار ہوگیا۔ بعض مؤرخین نے یہاں تک تحریر کیا ہے کہ جہانگیر ہی کے حکم پر نورجہاں کے پہلے شوہر علی قلی شیر افگن کو قتل کیا گیا تھا۔ کچھ مؤرخین کا کہنا ہے کہ شہنشاہ جہانگیر اس سازش سے بری الذمہ تھا۔ قصہ مختصر جہانگیر نے ایک بیوہ عورت نورجہاں سے شادی کرلی اور پھر یہ حسن پرستی اس حد تک بڑھی کہ مغل فرمانروا کو نورجہاں کے سوا دُنیا کی کوئی شے یاد ہی نہیں رہی۔ معتبر روایت ہے کہ جب شہنشاہ جہانگیر دربار عام منعقد کرتا تھا، اس وقت نورجہاں بھی ریشمی پردوں کے پیچھے اس طرح موجود رہتی کہ اس کا دست نازک جہانگیر کے کاندھے پر ہوتا تھا۔ اس واقعے سے مغل شہنشاہ کے جذبات کی شدت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جہانگیر کا یہ شہرئہ آفاق جملہ بھی تاریخ ہند کے اوراق پر ثبت ہو کر رہ گیا ہے۔ ’’میں نے ہندوستان کی حکومت ایک جام شراب کے بدلے میں نورجہاں کے ہاتھوں فروخت کر دی۔‘‘ بظاہر وہ ہندوستان کا خودمختار حکمراں تھا مگر اس کے دل و دماغ ہر وقت نورجہاں کی غلامی میں مصروف رہتے تھے۔ مختصر یہ ایک عورت نے مملکت ہند کے پورے سیاسی نظام کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا تھا۔ وہ جسے چاہتی گمنامی کی پستیوں سے اُٹھا کر بام عروج تک پہنچا دیتی اور جسے چاہتی اس سے عہد و منصب چھین کر اسے ذلت و بربادی کے تاریک غاروں میں دھکیل دیتی۔ یہ خاندان مغلیہ کے وارث کی عجیب بدنصیبی تھی کہ وہ حسن کی شعلہ فشانیوں کے آگے محض راکھ کا ایک ڈھیر بن کر رہ گیا تھا۔
بے شک! نورجہاں ایک نہایت ذہین، حوصلہ مند اور جاں باز خاتون تھی مگر اس کے سیاسی نظریات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اوّل و آخر وہ ایک خودپرست عورت تھی۔ اسے صرف اپنے مفادات عزیز تھے۔ وہ مملکت اسلامیہ کی فلاح و بہبود سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ اسی وجہ سے دربار شاہی میں صرف اُنہی لوگوں کو اعلیٰ مراتب بخشے گئے تھے جو نورجہاں کے ہمنوا ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی زمانہ ساز انسان تھے۔ الغرض اسی کشاکش میں نورجہاں کا ایک منہ چڑا مصاحب بہت طاقت پکڑ گیا۔ وہ ایک مادہ پرست انسان تھا اور اکثر مواقع پر علماء کی تحقیر کیا کرتا تھا۔ تمام اہل دانش اس سے بیزار رہتے تھے مگر ملکہ ہند نورجہاں کی پشت پناہی کے سبب اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے تھے۔
علماء کی جماعت نے کئی بار کوشش کی کہ وہ شہنشاہ جہانگیرکو اس شخص کی ریشہ دوانیوں سے باخبر کر سکیں مگر مغل فرمانروا نے ہر مرتبہ ان کی بات سُنی اَن سُنی کر دی۔
’’ہم نے امور مملکت بھی ملکہ ہند کو سونپ دیئے ہیں۔ وہ بہتر سمجھتی ہیں کہ کسے برطرف کریں اور کسے برقرار رکھیں۔‘‘ جہانگیر کا یہ جواب ایک ہوش مند حکمراں کے بجائے کسی بدمست عاشق کے مزاج کی عکاسی کرتا تھا۔
علمائے ہند اپنے فرمانروا کے یہ الفاظ سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔ اب انہیں یقین ہو چلا تھا کہ بادشاہ نے جس جام شراب کے بدلے حکومت ہندوستان نورجہاں کے ہاتھوں فروخت کی ہے، اسی جام میں ہندوستانی عوام کی تقدیریں بھی غرق ہو کر رہ گئی ہیں۔
نورجہاں کے مصاحب خاص کی سرکشی روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔ پھر ایک دن ایک علمی مجلس میں اولیاء اور ان کی کرامات کا ذکر چھڑ گیا۔ نورجہاں کا مصاحب خاص بہت دیر تک علماء کی گفتگو سنتارہا۔ پھر کسی شخص نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’اولیاء
کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘
نورجہاں کے مصاحب خاص کو اقتدار کا نشہ تھا۔ اس لئے وہ حسب عادت اپنی دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولا۔ ’’کیا اولیاء اور کیا ان کی ولایت؟ یہ سب شعبدہ بازیاں ہیں اور جاہل لوگوں کی سادہ لوحی سے دنیاوی فائدے حاصل کرنے کا پُرفریب ہنر ہے۔‘‘
مصاحب خاص کی بات سن کر ایک عالم نے کہا۔ ’’آج تم جس شخص کی مملکت میں اس قدر آسودہ حال زندگی بسر کر رہے ہو، وہ خود بھی ایک بزرگ کی دُعائوں کے صدقے میں پیدا ہوا ہے۔‘‘ عالم کا اشارہ مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر کی طرف تھا۔ ’’اور وہ بزرگ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ تھے۔ تمہارا ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
نورجہاں کا مصاحب خاص بزرگوں کی تحقیر کرنے کا عادی تھا، اس لیے وہ اس صورت حال کی سنگینی کو سمجھنے سے قاصر رہا۔ جب اس سے حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ غضب ناک ہو گیا اور سلسلۂ چشتیہ کے عظیم بزرگ کی شان میں گستاخیاں کرنے لگا۔ اتفاق سے اس مجلس میں جہانگیر کے کچھ خدمت گار بھی موجود تھے۔ نورجہاں کے مصاحب خاص کی گفتگو سن کر خدمت گاروں کے چہرے خوف سے زرد پڑ گئے۔
پھر ایک خدمت گار مغل شہنشاہ کی خلوت میں داخل ہوا اور لڑکھڑاتی ہوئی زبان میں عرض کرنے لگا۔ ’’ظل الٰہی! آج تو غضب ہوگیا۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں آسمان نہ ٹوٹ پڑے۔‘‘
اس وقت نورالدین جہانگیر بدمستی کے عالم میں تھا۔ اس نے دُھندلی آنکھوں سے اپنے خدمت گار کی طرف دیکھا۔ ’’کیا ہوگیا؟ تو کانپ کیوں رہا ہے۔‘‘ شراب نوشی کی وجہ سے مغل شہنشاہ کی آواز میں ہلکی سی لرزش تھی۔
’’حضور! وہ شخص برسر مجلس آپ کے پیر و مرشد حضرت شیخؒ کی شان میں گستاخیاں کر رہا ہے اور اسے کوئی روکنے والا نہیں۔‘‘
خدمت گار کی بات سن کر جہانگیر کے ہوش و حواس اُڑ گئے۔ نشے کے باوجود وہ اتنی زور سے چیخا کہ قصر شاہی کے بام و دَر گونج اُٹھے۔ ’’وہ رُوسیاہ! بدکار اور لعنت زدہ شخص کون ہے؟ اسے کسی جانور کی طرح کھینچتے ہوئے مابدولت کے حضور پیش کرو۔‘‘
آمریت کے دور میں حکم شاہی انسانی تقدیر ہوا کرتا تھا۔ جہانگیر کی زبان سے چند الفاظ ادا ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کئی شمشیر بدست سپاہی اس مجلس کی طرف دوڑ پڑے جہاں نورجہاں کا مصاحب خاص علماء سے جاہلانہ بحث کر رہا تھا۔ پھر اہل شہر نے اپنی آنکھوں سے یہ عبرت ناک منظر دیکھا کہ اس شخص کو نہایت ذلت و رُسوائی کے ساتھ دربار شاہی کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔
ملکۂ ہند کے جاسوسوں نے اسے خبر دی کہ آپ کا سب سے پسندیدہ شخص زیرعتاب آچکا ہے۔ نورجہاں نے بڑی حیرت سے یہ خبر سنی مگر فوراً ہی اس کے خوبصورت چہرے سے تعجب کے سارے آثار مٹ گئے۔ اسے اپنے حسن کی طاقت پر حد سے زیادہ اعتماد تھا۔ وہ ایک خاص ادائے محبوبانہ کے ساتھ مغل شہنشاہ کے خلوت کدے میں داخل ہوئی اور بصد ناز و اَدا کہنے لگی۔ ’’ظل الٰہی! آپ نے جس شخص کی گرفتاری کا حکم دیا ہے، وہ میرا پسندیدہ آدمی ہے اور اسے میں نے ہی اس منصب پر پہنچایا ہے۔‘‘
’’ملکہ عالیہ! اگر آپ اسے وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچا دیتیں، تب بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔‘‘ مغل شہنشاہ نے پُرجلال لہجے میں کہا۔ ’’ہم نے کسی سیاسی جرم کے سلسلے میں اس کی گرفتاری کا حکم جاری نہیں کیا ہے۔ اس کا گناہ کچھ اور ہے جو ہمارے نزدیک ناقابل معافی ہے۔‘‘
’’کچھ بھی سہی مگر میں اس کی سفارش کر رہی ہوں۔‘‘ نورجہاں نے انتہائی غرور و تمکنت کے ساتھ کہا۔
’’آپ درمیان سے ہٹ جائیں۔‘‘ شدت غضب سے مغل شہنشاہ کی آواز کانپ رہی تھی۔ ’’اگر وہ ہماری ذات کو ہدف ملامت بناتا تو ہم آپ کی درخواست پر اس کی جان بخش دیتے مگر یہ ہمارے پیر و مرشد کا معاملہ ہے۔ ہم اس سلسلے میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘
نورجہاں کھلی آنکھوں سے اپنے شوہر کی غضب ناک حالت کو دیکھ رہی تھی مگر پھر بھی اسے اپنی عشوہ طرازیوں پر اس قدر یقین تھا کہ وہ حکم شاہی کو بدل ڈالے گی۔ ’’کیا ظل الٰہی میری مداخلت کو بھی پسند نہیں فرمائیں گے؟‘‘ نورجہاں بڑی عجیب خوش گمانی میں مبتلا تھی۔
’’اگر اس شخص کی جگہ آپ بھی ہوتیں تو قہر شاہی اسی انداز سے نازل ہوتا۔‘‘ مغل شہنشاہ کچھ اور غضب ناک نظر آنے لگا۔ ’’جس زبان نے پیر و مرشد کی شان میں گستاخی کی ہو، وہ اس قابل نہیں کہ اس کا وجود برقرار رہے۔‘‘ یہ کہہ کر مغل شہنشاہ اپنے خلوت کدے سے باہر نکل گیا۔
ملکۂ ہند نورجہاں کو اپنی زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ جیسے وہ فرمانروائے ہندوستان کی محبوبۂ دلنواز نہ ہو بلکہ قصر شاہی کی ایک ادنیٰ کنیز ہو۔
پھر اس فتنہ پرداز شخص کو پابہ زنجیر کر کے مغل حکمراں کے سامنے پیش کیا گیا۔ جہانگیر لڑکھڑاتا ہوا کرسی سے اُٹھا اور نورجہاں کے مصاحب خاص کے منہ پر تھوک دیا۔
’’حضرت شیخ سلیمؒ کی شان میں گستاخی کرتا ہے؟ ابھی تو میں زندہ ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر مغل شہنشاہ سپاہیوں کی طرف مڑا۔ ’’اس شخص کی ناپاک زبان گدی سے کھینچ لو۔‘‘
حکم شاہی سن کر حاضرین لرزنے لگے کیونکہ گدی سے زبان کھینچنا انتہائی دردناک سزا تھی۔ روایت ہے کہ سزا کی تکمیل سے پہلے نورجہاں نے ایک بار پھر دبے لفظوں میں شہنشاہ سے رحم کی درخواست کی تھی مگر جہانگیر نے اسے بڑی بے رحمی کے ساتھ جھڑک دیا تھا۔
پھر وقت حساب آ پہنچا۔ جہانگیر کا ہاتھ بلند ہوا اور اس اشارے کے ساتھ ہی جلادوں نے مجرم کی گردن میں سوراخ کرنا شروع کر دیا۔ قیدی کی چیخیں کسی ذبح کئے جانے والے جانور سے مشابہ تھیں۔ نورجہاں نے خوف و دہشت کے باعث وہاں سے ہٹ جانا چاہا لیکن جہانگیر نے اسے یہ کہہ کر روک لیا۔ ’’ملکۂ ہند آپ یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ میرے پیر و مرشد کی شان میں گستاخی کرنے والے کا کیا حشر ہوتا ہے؟‘‘
کچھ دیر بعد اس بدنہاد شخص کی زبان نکال لی گئی۔ جہانگیر نے مرنے والے پر ہزار بار لعنت بھیجی اور دُوسرا حکم جاری کیا۔ ’’اس کی لاش پہاڑیوں سے نیچے پھینک دی جائے۔ یہاں تک کہ جنگلی درندے اس کے غلیظ جسم کو کھا جائیں۔‘‘
میرے ذاتی خیال میں یہ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کی سب سے بڑی کرامت تھی جو آپ کے وصال کے برسوں بعد ظہور پذیر ہوئی۔ مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر کو اکثر مؤرخین نے ’’نورجہاں کا غلام‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے مگر میں اسے حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کا غلام سمجھتا ہوں۔ اہل نظر اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک حسن پرست اور بادہ نوش حکمراں زندگی بھر اپنے نفس کے زیراثر رہا۔ وہ کوئی عبادت گزار شخص نہیں تھا۔ اکثر تذکرہ نگاروں نے جہانگیر کو ایک آزاد خیال انسان قرار دیا ہے جو بظاہر کسی مذہب پر کاربند نظر نہیں آتا تھا۔ دین الٰہی کی جو تحریک جلال الدین اکبر کے دور میں شروع ہوئی تھی، جہانگیر کے عہد حکومت میں اسے بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا۔ یہاں تک حضرت شیخ مجدد الف ثانیؒ جیسے بزرگ جہانگیر ہی کے حکم پر پابند سلاسل ہوئے اور انہیں حوالۂ زنداں کیا گیا۔ جس شخص کی کج روی کا یہ عالم ہو، اس سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ مگر یہ حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کی نگاہ معرفت ہی کا طلسم تھا جس سے جہانگیر زندگی بھر آزاد نہیں ہوسکا۔ پھر جب عشق کی آزمائش کا وقت آیا تو نورجہاں کے حسن کا سحر باطل قرار پایا اور پیر و مرشد کی محبت باقی رہ گئی۔ جوش ملیح آبادی کے پیش نظر تو کوئی اور زاویہ رہا ہوگا مگر جب ہم تاریخ کی روشنی میں جہانگیر کے حوالے سے اس مشہور واقعے کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ شعر بے ساختہ یاد آ جاتا ہے:
کہیں ٹھوکر نہ لگ جائے زمیں کے آبگینوں کو
ترے رندوں کو مستی میں بھی اتنا ہوش ہے ساقی
یہاں ایک اور تاریخی حقیقت کا ذکر کرتا
کہ یہ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کی محبت کا نتیجہ تھا کہ جہانگیر نے حضرت شیخ مجدد الف ثانیؒ کو نہایت اَدب و احترام کے ساتھ قید سے رہا کیا اور ’’دین الٰہی‘‘ کی تحریک کو مکمل طور پر ختم کر کے ہندوستان کے مسلمانوں کو اس فتنۂ عظیم سے نجات دلائی۔ یہ جہانگیر کا ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے جو رہتی دُنیا تک قائم رہے گا۔
٭…٭…٭
حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ نے تقریباً پینتیس سال کی عمر میں شادی کی۔ اللہ کے حکم سے تین لڑکے پیدا ہوئے۔ سب سے چھوٹے صاحب زادے شیخ تاج الدینؒ کا ڈھائی سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ دُوسرے لڑکے کا تفصیلی ذکر کسی مستند تاریخ میں نہیں ملتا۔ بعض کتابوں سے بس اتنا پتا چلتا ہے کہ ان کا نام قطب الدینؒ تھا اور وہ جہانگیر کے دور حکومت میں کسی بڑے عہدے پر فائز تھے۔ بڑے صاحب زادے حضرت شیخ بدرالدینؒ آپ کے وصال کے بعد سجادہ نشین ہوئے اور ان ہی سے سلسلۂ چشتیہ کو فروغ حاصل ہوا۔
962ھ میں مکہ معظمہ حاضر ہوئے اور چودہ سال کی طویل سیاحت کے بعد 976ھ میں فتح پور سیکری واپس تشریف لائے۔ پھر یہیں 29؍ رمضان المبارک 979ھ کو آپ خالق حقیقی سے جا ملے۔
آفتاب معرفت زیر خاک روپوش ہوگیا مگر اس کی حیات افزا شعاعیں آج بھی محسوس کی جاتی ہیں۔ دُنیا کے گوشے گوشے سے بے شمار انسان تاج محل دیکھنے کے لیے آگرہ پہنچتے ہیں اور اس شخص کی قبر کا نظارہ کرتے ہیں جس نے یہ عجوبۂ روزگار عمارت تعمیر کرائی تھی۔ اگرچہ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے مزار مبارک پر انسانوں کا وہ ہجوم نہیں ہوتا۔ پھر بھی ہزاروں غیرمسلم آستانۂ عالیہ پر حاضر ہوتے ہیں اور بہ آواز بلند یہ اعتراف کرتے ہیں کہ فتح پور سیکری کی پہاڑیوں پر سونے والا درویش حقیقی شہنشاہ ہے اور تاج محل کا خالق شاہ جہاں اپنے وقت میں خاندان چشتیہ کا خادم تھا۔ ادنیٰ ترین خادم۔ جس کی محبت نے انتہائی سرمستی کے باوجود جہانگیر کو ہوش میں رکھا، اس کے مزار سے آج بھی عشق کی روشنی پھوٹ رہی ہے۔ جب کوئی عقیدت مند فتح پور سیکری کی ایک پہاڑی پر پہنچتا ہے تو اسے حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کی آخری آرام گاہ نظر آتی ہے۔ روضۂ مبارک کے احاطے کو خالص ’’سمندری سیپ‘‘ سے تراش کر اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس میں بظاہر کوئی جوڑ نظر نہیں آتا۔ یہ فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے۔ تقریباً ساڑھے چار سو سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی نقش و نگار کی وہی دلکشی قائم ہے پھر بھی محکمۂ اوقاف نے احتیاط کے پیش نظر مزار مبارک کے باہر ایک کتبہ آویزاں کر دیا ہے جس پر یہ الفاظ تحریر ہیں۔ ’’براہ کرم دیواروں کو ہاتھ نہ لگائیں، یہ بوسیدہ ہو چکی ہیں۔‘‘
گردش ماہ و سال نے یقیناً سیپ کی دیواروں کو بوسیدہ کر دیا ہوگا مگر وہ سوختہ جاں جو زیر قبر سو رہا ہے، اس کی رُوح کبھی بوسیدہ نہیں ہوگی۔ (ختم شد)