حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں ایک دفعہ قیصر روم نے اپنا سفیر آپ کی خدمت میں بھیجا۔ جب وہ مدینہ منورہ پہنچا تو اس نے لوگوں سے پوچھا کہ خلیفہ کا محل کہاں ہے تاکہ میں وہاں اپنا گھوڑا اور اسباب پہنچاؤں؟ لوگوں نے کہا کہ ہمارے خلیفہ کا کوئی محل نہیں ہے۔ گو ان کی حکومت کا ڈنکا ساری دنیا میں بج رہا ہے لیکن وہ خود درویشوں کی طرح معمولی جھونپڑی میں رہتے ہیں۔ اگر تجھے ان کا مقام دیکھنے کی آرزو ہے تو پہلے اپنے دل و دماغ کو ہر قسم کے وسوسوں اور جذبات سے پاک کرلے۔
سفیر نے جب اہل مدینہ سے اس قسم کی باتیں سنیں تو اس کے دل میں خلیفہ سے ملنے کا اشتیاق اور بھی بڑھ گیا۔ چنانچہ اس نے گھوڑا اور اسباب وہیں چھوڑا اور خود حضرت عمر فاروق کی تلاش میں سرگرداں ہو گیا۔ پھرتے پھرتے اس کا گزر ایک اعرابی خاتون کے پاس سے ہوا۔ اس سے خلیفہ کا پتہ پوچھا تو اس نے کہا کہ عمر کھجور کے اس درخت کے نیچے سو رہے ہیں۔ سفیر ادھر بڑھا۔ جب اس کی نظر حضرت عمرؓ پر پڑی تو آپ کی ہیبت سے اس کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا۔ اگر چہ محبت اور ہیبت ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن اس نے محسوس کیا کہ یہ دونوں ضدیں اس کے دل میں جمع ہو گئی ہیں۔ اس نے اپنے جی میں کہا کہ میں نے بہت بادشاہ دیکھے ہیں اور ان کی صحبتوں میں رہا ہوں، لیکن آج تک مجھے کسی بادشاہ سے خوف محسوس نہیں ہوا۔ معلوم نہیں اس شخص (حضرت عمر) کی ہیبت سے میرے اوسان کیوں خطا ہو گئے ہیں۔ میں شیروں اور چیتوں سے بھرے ہوئے جنگلوں میں بھی پھرتا رہا ہوں لیکن میرے چہرے پر خوف کی زردی کبھی نہیں چھائی۔ میں نے بار بار جنگوں میں حصہ لیا اور شیروں کی طرح لڑ کر دنیا پر اپنی شجاعت کا سکہ بٹھایا ہے۔ حریف کو زخم لگائے بھی ہیں اور اس سے زخم کھائے بھی ہیں لیکن میرے دل نے کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی کمزوری نہیں دکھائی۔ لیکن آج معلوم نہیں کیا بات ہے کہ اس سوئے ہوئے آدمی کو دیکھ کر میرے جسم کی بوٹی بوٹی کپکپا رہی ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حق کی ہیبت ہے۔ اس گدڑی پوش آدمی کی نہیں ۔ وہ دل ہی دل میں ایسی باتیں کر رہا تھا کہ حضرت عمر فاروق کی آنکھ کھل گئی۔ سفیر نے آگے بڑھ کر بڑے ادب سے آپ کو سلام کیا۔ آپ نے نہایت شفقت سے سلام کا جواب دیا۔ سفیر کو اپنے پاس بٹھا کر تسلی دی اور دیر تک اس کے ساتھ معرفت کی باتیں کرتے رہے۔ سفیر آپ کے اخلاق حسنہ اور سادگی سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس کے دل سے کفر و شرک کا زنگ یکسر دور ہو گیا اور وہ مشرف بہ اسلام ہو گیا۔