والدہ گائوں اور والد شہر کے رہنے والے تھے۔ وہ ان دنوں پڑھ رہے تھے جب دادا جان بیمار ہوگئے۔ ڈاکٹروں نے گلے کا کینسر بتایا۔ بہت علاج کرایا، آپریشن بھی ہوا لیکن وہ ٹھیک نہ ہوسکے۔ جب کھانا پینا بند ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ اب مجھے اپنے بھائی کے پاس لے چلو۔ دادا جان بول نہ سکتے تھے، لکھ کر مدعا بیان کرتے تھے۔ ابو کے چچا نسبتاً ایک چھوٹے شہر میں رہا کرتے تھے۔ دادا کی خواہش پر دادی تینوں بچوں کے ہمراہ اپنی سسرال چلی گئیں۔
آٹھ ماہ بعد دادا کی وفات ہوگئی۔ عدت کے بعد بچوں کو لے کر وہ اپنے گھر لوٹ آئیں۔ کراچی میں ان کا ذاتی مکان تھا لیکن دونوں بیٹے ابھی پڑھ رہے تھے۔ پھپھو بھی ساتویں کی طالبہ تھیں۔
چند دن میں جمع پونجی ختم ہوگئی، گھر کیسے چلتا؟ دیور کو احوال لکھا۔ انہوں نے جواب دیا۔ اپنا مکان کرائے پر اٹھا دیں اور بچوں سمیت یہاں آجائیں، چھوٹے شہر میں اخراجات کم ہوں گے، گندم اناج کا خرچہ نہ ہوگا کہ یہ اشیاء گھر کی ہیں۔ تعلیم سستی ہے، عزت سے رہنا بہتر ہے۔ بڑے شہر بڑے اخراجات! آپ مسلسل مسائل میں گھرتی چلی جائیں گی۔ امی کو دیور کا مشورہ مناسب لگا۔ کوٹھی کو جو دو منزلہ تھی، کرائے پر اٹھا دیا، بوریا بستر سمیٹ کروہ دیور کے گھر آگئیں۔ وہ فیصل آباد کے نزدیکی گائوں میں رہتے تھے۔ یہاں ان کی زرعی زمین تھی اور شہر سے یہ گائوں بہت قریب تھا۔
کراچی کے اچھے کالج سے یہاں سرکاری کالج میں انہوں نے اپنے بیٹوں کا داخلہ کرا دیا۔ معیار تعلیم کچھ زیادہ بہتر نہ تھا لیکن بنیاد مضبوط تھی لہٰذا ابو نے اعلیٰ نمبروں سے بی۔اے کرلیا، چچا بھی شاندار نمبر لے کر کامیاب ہوگئے اور افسر بن گئے جبکہ ابو نے ایل ایل بی کے لئے دوبارہ کراچی کا رخ کرلیا۔ میں نے میٹرک پاس کیا تو گورنمنٹ گرلز کالج کی طالبہ ہوگئی۔
امی پر یہ کڑا وقت تھا۔ ددھیالی رشتہ دار اچھے لوگ تھے، ہر طرح سے سپورٹ کیا تو تینوں بہن، بھائی تعلیم مکمل کرسکے۔ ابو کی ایل ایل بی کے دوران ایک لڑکی سے دوستی ہوگئی، اس کا نام صبا تھا۔ ابو کو صبا پسند آگئی۔ وکالت پاس کرتے ہی دادی سے کہا کہ میں نے لڑکی پسند کرلی ہے۔ اس کے والدین ان دنوں کراچی میں سکونت پذیر ہیں، آپ چل کر صبا کو دیکھئے اور اس کے گھر والوں سے ملئے۔ آپ کو یہ لوگ اچھے لگیں تو رشتے کی بات کرلیں۔ دادی نے سوچا جب بیٹا اپنے منہ سے شادی کی بات کررہا ہے اور لڑکی بھی پسند کرلی ہے تو جانا چاہئے، ورنہ بڑے شہر میں اکیلے رہ کر اگر اپنی مرضی سے شادی کرلے تو میں کیا کرلوں گی۔ شوہر کا سایہ بھی سر پر رہا نہیں ہے۔ وہ ابو کے ساتھ صبا کے گھر گئیں۔ دونوں میں شادی کے عہدوپیمان ہوچکے تھے۔ لڑکی کے باپ نے کہا۔ بہن! اچھا ہوا کہ آپ آگئی ہیں۔ اگر نہ آتیں ہم آپ کے لڑکے کے ساتھ شادی کی تاریخ رکھ لیتے کہ ہماری بیٹی بہت لاڈلی ہے۔ دیکھئے آپ کے تاخیر سے آنے پر رورو کر ہلکان ہوچکی ہے، کھانا پینا چھوڑ رکھا ہے۔
دادی نے لڑکی کی صورت بھی صحیح طرح سے نہ دیکھی اور اس کے باپ کو رضامندی دے دی۔ جلد ہی شادی ہوگئی اور صبا دلہن بن کر ابو کے گھر آگئیں۔ پھر جلد ہی پھپھو کی شادی کردی۔ گھر میں ابو، ان کی دلہن اور دادی رہ گئے۔ چچا کو ملازمت کے سلسلے میں گھر سے دور رہنا پڑتا تھا۔ ان کی ڈیوٹی جہاں ہوتی، وہاں رہتے۔ کبھی کبھار عید وغیرہ پر ایک دو روز کے لئے گھر آجاتے تھے۔
ابو، دادی اور صبا (امی) کرائے کے گھر میں رہتے تھے۔ ابو نے وکالت شروع کردی۔ نئی نئی پریکٹس تھی، ابھی کوئی خاص آمدنی نہ تھی۔ ایسے میں گھر کرائے کا ہو تو کیسے گزارہ ہو۔ صبا قناعت پسند لڑکی تھی۔ اپنے گھر میں اچھے برے دن دیکھے تھے، تنگی ترشی میں بھی صبر سے کام لیتی تھی۔ دادی کو اس سے یوں تو کوئی شکایت نہ تھی لیکن وہ جس گھرانے سے آئی تھی، وہاں کا طرززندگی دادی کے گھر کی طرز زندگی سے کافی مختلف تھا تاہم دادی نے یہ سوچ کر سمجھوتہ کرلیا کہ اس میں میری بہو کا کیا قصور، اس نے جس ماحول میں آنکھ کھولی، وہی ماحول اس کے ساتھ رہے گا۔ رفتہ رفتہ ہمارے گھرانے کا طورطریقہ سیکھ لے گی۔ امی، ابو کی شادی کے تین سال بعد میں نے جنم لیا۔ میرے جنم لیتے ہی والد صاحب کے دن پھرنے لگے۔ ان کی وکالت خوب چلنے لگی۔ جس کام میں ہاتھ ڈالتے، کامیاب ہوجاتے۔ مٹی کو بھی ہاتھ لگاتے تو وہ سونا بن جاتی۔ والد مجھے پا کر بہت خوش تھے۔ کہتے تھے کہ اللہ نے ایک ننھی سی پری سے نوازا ہے۔ میری پیدائش کے بعد ابو میری ماں کا بھی بہت خیال رکھنے لگے۔ ان کو نوکر اور خدمت گار رکھ کر دیئے۔ وہ سارا دن مجھے لے کر اے۔سی والے کمرے میں بیٹھی رہتیں۔
ابو کہتے بے شک جتنی چاہے ملازمائیں رکھ لو مگر میری بیٹی کو گود سے نیچے نہ اتارنا، اس کے پیر میلے نہ ہوں، اس کو نہ رلانا۔ اللہ نے مجھے بہت خوبصورت بیٹی دی ہے، جتنا شکر کروں کم ہے۔ میں واقعی بہت خوبصورت تھی۔ ہمارے ددھیال والے حسین لوگ تھے، ننھیال بھی اچھی صورت و شکل والے تھے۔ میں نے دونوں طرف سے حسن کی دولت سمیٹی تو صورت لاکھوں میں ایک ہوگئی اور یہ سب اللہ تعالیٰ کا کرشمہ تھا، ورنہ صورت معمولی بھی ہوسکتی تھی۔ رب عظیم جس کو چاہے حسن کی دولت سے نوازے۔
جب میرا نام رکھنے کا مرحلہ آیا تو بہت دنوں تک سب سوچ و بچار کرتے رہے۔ کسی نے کوئی نام بتایا اور کسی نے کوئی…! دادی میرا نام عائشہ یا مریم رکھنا چاہتی تھیں اور ابو نے صوفیہ تجویز کیا لیکن امی نہ مانیں۔ ایک روز دادی کی ملنے والی آئیں۔ میں پالنے میں سو رہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی بے اختیار ان کے منہ سے نکلا یااللہ…! کتنی معصوم صورت ہے۔ آج تک میں نے ایسی صورت نہیں دیکھی۔ اس کے مکھڑے پر تو جیسے معصومیت نور کی طرح برس رہی ہے۔ نام کیا رکھا ہے اس کا…؟ ابھی سوچ رہے ہیں۔ دادی نے جواب دیا۔ میری مانو تو اس کا نام اس کی صورت کی نسبت سے ’’معصومہ‘‘ رکھ دو۔ یہ نام اس پر خوب جچے گا۔ اس خاتون نے کچھ اس طرح زور دے کر کہا کہ ابو نے بھی سن لیا۔ اپنے کمرے سے اٹھ کر آگئے۔ کہنے لگے۔ ٹھیک ہے بھابی حیات نے بالکل صحیح نام تجویز کیا ہے۔ ہم اپنی بیٹی کا نام ’معصومہ‘ رکھیں گے۔ یوں میرا نام معصومہ رکھ دیا گیا۔ ان دنوں والد صاحب، دادا کا مکان جو دادی نے کرائے پر دیا تھا، اسے خالی کرانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ کرائے دار ایسے جم کر بیٹھ گئے کہ نکلتے ہی نہ تھے، کرایہ بھی نہ دیتے تھے اور خالی بھی نہ کرتے تھے کہ بیوہ کا گھر ہے، زبردستی ہضم کرلیں گے۔ پہلے تو ابو طالب علم تھے کچھ کر نہ سکتے تھے لیکن دس برسوں میں جب وکالت جم گئی اور وہ نامی گرامی وکیل بن گئے تو اس لائق ہوگئے کہ اپنا گھر واگزار کراسکیں۔
چچا بھی اب آفیسر تھے۔ دونوں بھائیوں نے مل کر کورٹ میں درخواست دی اور چھ ماہ بعد کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ کردیا۔ ان کو اپنی کوٹھی مل گئی اور وہ اپنے ذاتی گھر کے مالک بن گئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا انعام تھا کیونکہ جن کو گھر کرائے پر دیا تھا، وہ غیر ملک چلے گئے اور اپنے رشتے داروں کو بٹھا گئے تھے۔ ان رشتہ داروں نے رقم لے کر کسی اور فیملی کو گھر حوالے کردیا جو ہمیں جانتی تھی اور نہ ہم ان کو! وہ طاقتور لوگ تھے لیکن عدالت کے آرڈر کے آگے بے بس ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے دادی کی دعائیں قبول کرلیں اور ہماری کھوئی ہوئی شے بطور انعام ہمیں واپس کردی۔ یہ وہ دور تھا جب والد کو فریق مخالف جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے تھے۔ تب ہمارے گھر کے چاروں طرف گارڈ بیٹھے رہتے تھے اور والد صاحب گھر سے نکل کر آفس بھی نہ جاسکتے تھے کہ باہر فریق مخالف کے آدمی منڈلاتے رہتے تھے۔
اسی وجہ سے ابو کے مالی حالات خراب ہونا شروع ہوگئے۔
بنگلہ تو واپس مل گیا لیکن وکالت سے مسلسل غیر حاضری کی وجہ سے ان کی وکالت بیٹھ گئی۔ ان دنوں میں تیسری کلاس میں تھی۔ جب والدہ کا زیور، ہماری گاڑی غرض گھر کی تمام قیمتی اشیاء بکنا شروع ہوگئیں، کیونکہ والد کوئی کام نہ کرسکتے تھے۔ گھر کا آدھا خرچہ تو چچا کی مدد سے چل رہا تھا، وہی مجھے ایک مہنگے اسکول میں داخل کرا کر گئے تھے لہٰذا میری فیس چچا دیتے تھے لیکن روزبروز بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے حالات خراب سے خراب تر ہونے لگے۔ بجلی، پانی، گیس کے بل، ملازمین کی تنخواہیں، راشن وغیرہ چار سال دگرگوں حالات میں جوں توں کرکے نکلے۔ امی جان پریشان رہتی تھیں۔ دادی بوڑھی تھیں مگر تعلیم یافتہ تھیں، وہ بیچاری عمر رسیدہ ہوکر بھی ایک پرائیویٹ ادارے میں پارٹ ٹائم جاب کررہی تھیں حالانکہ ان کے آرام کرنے کے دن تھے۔
والد صاحب اپنے بھائی کے پاس گئے اور اپنے حصے کی جائداد کا بٹوارہ کرکے اسے فروخت کردیا۔ تمام رقم کراچی لے آئے اور ایک تعمیراتی کمپنی میں رقم لگا دی کہ چلو وکالت ختم ہوگئی ہے، ادھر سے کچھ قسمت یاوری کرے گی تو حالات سنبھل جائیں گے۔ میرا چھوٹا بھائی ریحان پیدا ہوا تو والد کنسٹرکشن کے کام میں سرمایہ لگا چکے تھے۔ امید تھی کہ اچھے لوگوں کو سرمایہ دیا ہے، بزنس پارٹنر منافع دیں گے لیکن شہر کے حالات خراب ہوجانے سے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ گئے۔ امید کا یہ آخری دیا بھی بجھ گیا۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ میرے نوزائیدہ بھائی کے دودھ کے لئے بھی رقم موجود نہ ہوتی۔ وہ بیمار ہوتا تو اسے ڈاکٹر کو دکھانے کے لئے بھی پیسے نہ ہوتے۔
ان حالات کی وجہ سے چچا نے اپنا تبادلہ کراچی کروا لیا اور وہ ہمارے ساتھ رہنے لگے۔ اب انہوں نے گھر سنبھال لیا، اخراجات اٹھانے لگے۔ ایسے حالات میں بھی انہوں نے مہنگے اسکول سے مجھے نہ نکالا۔ کہتے تھے۔ یہ وقت جوں توں کرکے کٹ جائے گا مگر میں نہیں چاہتا کہ معصومہ کی تعلیم متاثر ہو اور وہ احساس کمتری کا شکار ہوجائے۔ ان دنوں چچا کی شادی ہوئی تھی۔ وہ مجھے بہت پیار کرتے تھے۔ کہتے تھے ہمارے گھر کی رونق یہی معصوم فرشتہ ہی تو ہے، ہم سب جھیل لیں گے۔ اس کو شاندار ادارے میں پڑھائیں گے، اعلیٰ تعلیم دلوائیں گے، اس کے ناز و نعم میں کوئی کمی نہ آنے دیں گے۔ جب تک چچا ساتھ رہے، مجھے کسی قسم کی کمی کا احساس نہ ہوا۔ امی، ابو بہت پریشان رہتے تھے لیکن چچا مجھے پوری توجہ دیتے۔ روز میرا بیگ کھولتے، اسکول کی کاپیاں چیک کرتے اور خود ہوم ورک کراتے تاکہ میں کلاس میں پیچھے نہ رہ جائوں۔
امی، ابو اپنی پریشانیوں میں ایسے کھوئے کہ انہیں خبر نہ رہی ان کے دو بچے بھی ہیں جن کو ہر لمحہ ان کے پیار اور توجہ کی
ضرورت ہے۔ وہ پیار تو کرتے مگر خود الجھے الجھے رہتے اور توجہ اس طرح نہ دے سکتے جیسے ماں، باپ کو دینا چاہئے۔ میں نے چچا کی توجہ کے سہارے ابھی تک خوداعتمادی کو کھویا نہ تھا اور یہ احساس ہونے کے باوجود کہ گھر کے ماحول میں تلخیاں گھلتی جارہی ہیں، زیادہ اثر نہ لیا تھا، حالانکہ میں بہت نازک مزاج اور حساس بچی تھی۔ ساتھ ہی ذہین بھی تھی کہ ہر بات آنکھ کے اشارے سے سمجھ جاتی تھی۔
جس گھر میں مالی تنگی روزبروز جڑ پکڑتی جائے، قدرتی بات ہے کہ اس گھر کے ماحول میں تلخیاں پنپنا شروع ہوجاتی ہیں۔ رفتہ رفتہ یہ تلخیاں زہر بن کر امی اور ابو کی زندگی میں گھلتے گھلتے بڑے جھگڑوں کی صورت اختیار کرنے لگیں۔ اماں کے چوبیس گھنٹے سر میں درد رہنے لگا، وہ بستر پر لیٹی ٹی وی دیکھ کر غم غلط کرتی رہتیں۔ ہانڈی چولہے سے بے نیازی برتنے لگیں۔ دادی بوڑھی تھیں ہر ممکن کوشش کرتیں کہ گھریلو ماحول میں تلخی نہ بڑھے، مگر ان کا وجود بھی امی، ابو کو کھٹکنے لگا تو انہوں نے کنارہ کرلیا۔ گھبرا کر پھپھو کے گھر ملتان چلی جاتیں۔
چچا کا کھانا امی بناتی تھیں مگر وہ ٹینشن میں رہنے کی وجہ سے خود کو زیاہ بیمار محسوس کرتیں۔ تب چچا نے سوچا کہ مجھے گھر بسا لینا چاہئے تاکہ میں اپنے ذاتی کاموں کی وجہ سے کسی پر بوجھ نہ بنوں۔ دادی، پھپھو کے گھر دو ماہ رہ کر واپس آئیں۔ انہوں نے چچا کی شادی اپنے عزیزوں میں کردی اور پھر ان کا تبادلہ دوسرے شہر ہوگیا۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے سال بعد اولاد سے نواز دیا۔ جب کسی کا گھر بس جاتا ہے اور وہ صاحب اولاد ہوجاتا ہے تو قدرتی بات ہے کہ زیادہ توجہ اپنی بیوی، بچوں کو دینے لگتا ہے۔ اب چچا مجھے فون کرتے تھے مگر اس طرح میرا خیال نہ رکھ سکتے تھے جیسے پہلے رکھتے تھے۔ پہلے اپنی گاڑی پر اسکول پہنچاتے، اب میں اکثر رکشے پر جاتی۔ جب رکشے کا کرایہ نہ ہوتا مجھے چھٹی کرنی پڑتی۔ مسلسل اس روٹین سے میری پڑھائی کا حرج ہونے لگا۔ اکثر غیر حاضری سے سبق پورے نہ پڑھ پاتی۔ اگلے روز کلاس ٹیچر کی ڈانٹ کھاتی۔ میرا چہرہ بے رونق، آنکھیں بجھی بجھی اور کم خوراکی کی وجہ سے لاغر اور کمزور ہوتی گئی۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ رات کا کھانا نہ کھایا، صبح ناشتہ پوری طرح نہ ملا اور لنچ کا ڈبہ بھی خالی…! جب متعدد بار ایسا ہوا تو میں ایک روز اسکول میں بے ہوش ہوگئی، تب ٹیچر نے مما کو فون کیا کہ آکر اپنی بچی کو لے جایئے، اس کی طبیعت خراب ہوگئی ہے۔ میری صحت گرتی گئی، اسکول سے غیر حاضریاں بڑھتی گئیں۔ ہم جماعت لڑکیاں میری پریشان صورت سے گریزاں رہنے لگیں۔ ایک لڑکی نرجس نے مجھے ہر وقت تضحیک کا نشان بنانا اپنا مشغلہ سمجھ لیا، وہ امیر ماں، باپ کی بیٹی تھی۔ دوسری لڑکیاں بھی اس کی دیکھا دیکھی مجھ پر طنزیہ جملے کستیں۔
امی بیمار تھیں۔ دادی نے حالات کی وجہ سے ملازمہ نکال دی تھی۔ وہ بوڑھی ہونے کے باوجود نوکری بھی کرتی تھیں اور گھر کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتی تھیں۔ کبھی میرا یونیفارم دھونے سے رہ جاتا، کبھی جوتے پالش نہ ہوپاتے اور کبھی ناخن بروقت نہ کٹے ہوتے تب ٹیچر کلاس کے سامنے مجھے تنبیہ کرتیں تو میں اپنی سبکی محسوس کرتی۔ چوتھی میں تھی مجھے کسی نے نہ سکھایا کہ اپنے کام خود کرلوں۔ میری پریشانیوں میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ ادھر دادی جو مسائل میرے حل کرنے کی کوشش کرتیں، وہ ایک جگہ ٹک کر نہ رہتیں۔ کبھی ملتان پھپھو کے گھر چلی جاتیں اور کبھی راولپنڈی چھوٹے بیٹے کے پاس چلی جاتیں۔ ایسے میں خود کو میں بہت تنہا اور بے یارومددگار محسوس کرتی۔ گھٹ گھٹ کر جینے سے میری خود اعتمادی اس حد تک متاثر ہوئی کہ بولنے کی سکت ختم ہوگئی۔ گھر آئے مہمانوں کو دیکھ کر چھپ جاتی، کسی کے سامنے بات نہ کرسکتی۔ اب میںاپنا مسئلہ کسی کو نہ بتاتی بس کونوں میں چھپ چھپ کر روتی اور آنکھیں پونچھ لیتی۔ اسکول میں بھی خواہ بھوک سے پیٹ میں مروڑ ہوتی یا ویسے ہی پیٹ میں درد ہوتا، گھٹ گھٹ کر روتی مگر کسی کو کچھ بتا نہ پاتی۔ ہم جماعت زیادتی کرتے، ٹیچرز نالائق سمجھ کر لفٹ نہ دیتیں، پیچھے کردیتیں۔ کسی ڈرامے، فنکشن اور ٹیبلو میں حصہ نہ دیتیں۔ میرا جی چاہتا مجھے بھی حصہ دیں مگر بول نہ سکتی۔ یہ میں ہی تھی کہ جب میرا نرسری میں داخلہ ہوا تو ہر فنکشن میں مجھے حصہ دیا جاتا اور میں فرسٹ پرائز یا ٹرافی جیت لیتی۔ مجھے ڈائس پر میڈم اپنے ساتھ کھڑا کرکے تصاویر بنواتیں جو اسکول میگزین میں شائع ہوتیں۔
اب میرا دل خون کے آنسو روتا لیکن زبان خاموش رہتی جیسے گونگی ہوگئی تھی۔ والدین کا آپس میں ایسا رویہ کہ جیسے دو اجنبی…! مما بستر پر لیٹی رہتیں اور ابو گھر کی بے کیف فضا سے اکتا کر کئی کئی روز گھر سے غائب ہوجاتے۔ کسی کو کچھ نہ بتاتے کہ وہ کہاں چلے جاتے ہیں۔ چچا کا فون آتا۔ وہ پوچھتے معصومہ کیسی ہو؟ خوش تو ہو؟ کیا کھایا؟ اسکول لنچ میں کیا لے کر گئی تھیں؟ کیا بتاتی کہ ابلے ہوئے آلو اور فرحان کا دودھ کا ڈبہ نہیں آیا ہے۔ وہ صبح سے رو رہا ہے۔ مما بھی ٹینشن میں ہیں، وہ رو رہی ہیں اور ابو…؟ وہ غائب ہیں۔ جانے کہاں گئے ہیں، جانے کب آئیں گے۔ ابو نے اپنی وکالت والا دفتر فروخت کردیا، اپنی کتابیں اور دفتر کا فرنیچر بیچ دیا اور اب ان کے پاس کیا رہ گیا تھا اور مما، ان کے سارے زیور بک گئے، میری چھٹی کلاس تک آتے آتے۔ چچا نے تنبیہ کی تمہاری فیس بھرتا رہوں گا لیکن تم اسکول مت چھوڑنا اور نہ اسکول تبدیل کرنا۔ بس ہمت سے کام لو۔ لینا ہی ہوگا، بھوک پیاس برداشت کرنی ہوگی۔ اگر کچھ بننا ہے تو…! میں تمہارا جیب خرچ الگ سے بھیجوں گا، فیس کے علاوہ! چچا جب ہمارے گھر تھے، میرے لنچ کا خرچہ دیتے تھے، پھر ہمارے اسکول کی کینٹین بند ہوگئی اور وہ جو جیب خرچ میرا بھیجتے، دادی اس سے گھر کا راشن ڈلوا لیتیں۔ دادی کی تنخواہ تھوڑی تھی جو بجلی اور گیس کے بل میں چلی جاتی۔ کچھ رقم بچتی تو اپنی شوگر اور بلڈ پریشر کی دوائیں لے لیتیں۔
ہم بازار سے گزرتے ہوئے پھل فروٹ صرف دیکھ سکتے تھے، خرید نہیں سکتے تھے۔ میرے ابو لاکھوں میں کھیلنے والے شخص تھے جن کے در پر درجن بھر نوکر تھے۔ میری ماں کے آگے ملازم عورتیں صبح، شام کام کرتی تھیں۔ آج دونوں ہی حالات کے ہاتھوں بے بس تھے۔ مما مستقل ہائی بلڈ پریشر کی مریضہ، دو قدم چل نہ سکتیں اور دل تھام کر بیٹھ جاتیں۔ ابو نے برے وقت میں دوستوں کو آزمایا سوائے ایک دو کے کوئی کام نہ آیا۔ ہر طرح سے کوشش کی، والد کے برے دن ختم نہ ہوئے۔ میری عمر اب آٹھ برس ہوگئی تھی۔ دادی مجھے اپنے پاس لٹا کر رات کو کہانیاں سناتیں۔ مجھے ہمت اور صبر سے کام لینے کی ترغیب دیتیں اور میں تھوڑی دیر بعد سکون کی دنیا میں کھو کر سو جاتی۔
مجھے میوزک اچھا لگتا، آرٹ اور پینٹنگ سے بہت لگائو تھا۔ پانچویں میں ہمارے اسکول میں میوزک کی کلاسز بند کردی گئیں، آرٹ کی کلاس بھی ختم کردی گئی۔ میں بچی تھی۔ ماں، باپ ڈپریشن میں تھے، اسی لئے گھر کے ماحول میں سکتا رہتا۔ کبھی بولتے تو لگتا لڑ رہے ہیں۔ والدین کو یوں بولتے سنتی تو کانوں میں انگلیاں دے کر کمرے کے کونے میں دبک جاتی۔ آنسو بہتے اور آواز نہ نکالتی۔ کبھی ماں روتے دیکھ لیتیں تو کس کر تھپڑ لگا دیتیں کہ منحوس تم تو روتی رہتی ہو۔ پہلے کیا کم پریشانی ہے جو اور نحوست پھیلا رہی ہو۔ اب رونا بھی جرم بن گیا تھا۔
بھائی اتنا چھوٹا تھا کہ میرا دکھ سن سکتا تھا اور نہ دکھ بانٹ سکتا تھا۔ الٹا میں ہی اسے بھوک سے بلکتا دیکھ کر رو پڑتی تھی۔ ایک روز سوچا کہ اب خود کو ختم کرکے اس دنیا سے چلی جائوں لیکن کیسے…! بھوکی، پیاسی رہ کر اب ابلے ہوئے آلو بھی نہیں کھائوں گی اور نہ پانی پیوں گی۔ پس میں نے ایسا ہی کیا۔ لاغر ہوکر بستر پر پڑگئی۔
دادی مجھے دیکھ کر رونے لگتیں۔ چچا کا فون آگیا۔ دادی بولیں۔ آئو اور آکر اسے لے جائو۔ اس نے کچھ نہ کھا کر مرنے کی ٹھان لی ہے۔ انہوں نے مجھ سے بات کی۔ معصومہ! کیوں بھوک ہڑتال کررکھی ہے تم نے؟ دادی کیا کہہ رہی ہیں؟ جیب خرچ تو بھیجتا ہوں میں تمہیں! کیا بتاتی کہ میرے جیب خرچ سے یہ آلو خرید لیتی ہیں۔
چچا نے اگلے دن مجھے برش، رنگ اور کینوس پینٹنگ کا سامان لا کر دے دیا۔ بولے جب تمہارا دل گھبرائے تم رنگ اور برش لے کر بیٹھ جایا کرو۔ انہوں نے خود ہی مجھے پینٹنگ کرنا سکھائی۔ وہ تو چلے گئے مگر ابو بہت اچھی پینٹنگ جانتے تھے۔ اب وہ روز مجھے وقت دینے لگے اور پینٹنگ سکھانے لگے۔ رفتہ رفتہ میں جو مرنے کے بارے میں سوچنے لگی تھی، پھر سے جی اٹھی۔ میرا کھویا ہوا اعتماد بحال ہونے لگا، کلاس کی لڑکیوں سے دوستی ہونے لگی، پڑھائی میں جی لگنے لگا، اچھے نمبر آنے لگے۔
ابو دوبارہ وکالت سے جڑ گئے تھے۔ شہر کے حالات سنبھل گئے تھے۔ ابو نے جو سرمایہ تعمیراتی کمپنی میں لگایا تھا، سات برس بعد اس کے ملنے کی دوبارہ سبیل نکل آئی تھی۔ میں مشغلے کے طور پر فارغ وقت میں روز ایک پینٹنگ بناتی رہی۔ ایک روز چچا آئے، میری پینٹنگ دیکھی اور عش عش کر اٹھے۔ بولے یقین نہیں آتا یہ تم نے بنائی ہے، لگتا ہے یہ کسی بڑے آرٹسٹ نے بنائی ہے۔ انہی دنوں اخبار میں بچوں کی بنائی ہوئی پینٹنگ کی نمائش کا اشتہار آگیا۔ چچا نے پڑھا اور میری بنائی ہوئی پینٹنگ نمائش میں رکھوا دی۔ بڑے بڑے آرٹسٹ آئے تھے۔ جج حضرات نے میری کاوش کو دیکھا تو ٹھٹھک گئے۔ انہوں نے اسے اول انعام کا حقدار قرار دے دیا۔ بیرون ملک رسائل میں بھی میری بنائی ہوئی تصویر کو جگہ ملی۔ یوں میں اپنے سلگتے احساس کی تپش میں جلتی ہوئی محرومیوں کی سیڑھیاں چڑھتی اس مقام پر جا پہنچی کہ آج ہر شخص مجھے پہچانتا ہے۔ میری بنائی ہوئی تصاویر مہنگے داموں بکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ مجھے شہرت اور عزت کی بلندیوں کی جانب سرفراز کرتا جارہا ہے۔ سوچتی ہوں اگر میں نے اپنے آپ کو خود سہارا نہ دیا ہوتا۔ ہمت نہ ہاری ہوتی تو میں غربت اور افسردگی کی دلدل میں دھنس کر ختم ہوچکی ہوتی۔ (معصومہ … کراچی)