Thursday, October 10, 2024

Hum Johar Shanas Nahi

ممتا سے محرومی کے بعد اسکول تو چھٹا مگر چھوٹی سی عمر میں گھر کے کام کاج میں طاق ہو گئی۔ تینوں بھائی جب اسکول چلے جاتے تو تنہائی کاٹ کھانے لگتی جبکہ ابو کی سختی سے ہدایت تھی کہ بیٹی اندر سے تالا لگا کر رکھنا اور جب تک ہم نہ آجائیں کسی کے لئے بھی دروازہ مت کھولنا۔ میں بھی ان کی ہدایت پر سختی سے عمل کرتی تھی لیکن خود کو قیدی اور تنہا محسوس کرتی۔ جی چاہتا گھر میں کوئی ہو، جس سے بات کروں۔ سچ کہتی ہوں، تنہائی بہت ڈرائونی شے ہے، تب درو دیوار تک سے خوف آتا تھا۔ والد نے زندگی ہمارے نام وقف کر دی تھی۔ کہتے تھے جب تک صبا گھر میں ہے ،دوسری شادی نہ کروں گا۔ میں نے خود سوتیلی ماں کے زخم سہے ہیں، جانتا ہوں کہ اگر سوتیلی ماں آگئی میری بیٹی کا سکون چھین لے گی۔ ابا کو سوتیلی ماں کا تجربہ تھا، لیکن مجھے نہیں، سو میں کہتی تھی کہ آپ دوسری شادی کر لیں۔ ابو نے میری فرمائش رد کر دی۔ ایک روز خاله شبو ملنے آئیں، مجھ کو قید تنہائی میں پا کر رو پڑیں۔ کہنے لگیں۔ بیٹی مجھ پر گھر بار کی ذمہ داریاں نہ ہو تیں تو تمہارے پاس رہ جاتی۔ تم ایسا کرو کوئی جانور پال لو اور میں تم کو طوطالا دیتی ہوں، خوب باتیں کرتا ہے۔ میں نے خوب سکھا یا پڑھایا ہے اسے۔ سچ کہتی ہوں اس کے ساتھ تمہارا ایسا دل لگے گا کہ تنہائی کو بھول جائو گی۔ دوروز بعد خالہ نے ایک طوطا پنجرے سمیت لا کر دے دیا۔ واقعی وہ خوب ہی پٹر پٹر باتیں کرتا تھا۔ میراجی لگ گیا۔ اب جہاں کام کرنے بیٹھتی، اس کا پنجرہ میرے ساتھ ہوتا۔ کام بھی کرتی جاتی اور اس کے ساتھ باتیں بھی کرتی جاتی۔ کیسا اس معصوم نے میرا دکھ بانٹا ، بتا نہیں سکتی۔ اب تو وہ مجھ کو جان سے بھی پیارا ہو گیا۔ جی کرتا ہر دم آنکھوں کے سامنے رہے ایک پل اپنے سے جدا نہ کروں، اس کی بے وفائی تو مشہور ہے ورنہ اسے طوطا چشم کیوں کہتے۔ میں اس کہاوت کو بھلا بیٹھی۔ ہوا یوں کہ پہلے وہ ہمہ وقت پنجرے میں قید رہتا تھا۔ جب مجھ سے خوب مانوس ہو گیا تو میں نے ایک دن اس کے پنجرے کا در کھول دیا۔ پہلے تو وہ پنجرے سے نکلا ہی نہیں، بعد میں ڈرتے ڈرتے اس نے اپنا سر نکالا۔ دیر تک میں یہی تماشا دیکھتی رہی، جیسے وہ آزادی کا تصور نہ رکھتا ہو یا پھر باہر کی دنیا میں آنے سے ڈرتا ہو۔ میری ایک دو دن کی محنت سے بالآخر وہ پنجرے سے باہر نکل آیا۔ جب اس نے آزاد ی کا مزہ چکھ لیا، صبح کا نکالا شام ڈھلے پنجرے کے اندر گھستا۔ سارا دن میرے پیچھے پیچھے رہتا۔ کبھی میرے ہاتھ پر بھی میرے کندھے پر اور کبھی اڑ کر جھولی میں بیٹھ جاتا۔ پہلے پہل ڈرتی تھی کہ کہیں یہ اڑ ہی نہ جائے لیکن جب کئی دن وہ نہ اڑا تو یقین ہو گیا کہ اب کہیں نہیں جائے گا۔ بے شک اعتبار بڑی چیز ہے لیکن بیچ یہ بھی ہے کہ قابل اعتبار دنیا میں کوئی شے نہیں۔ ایک دن جب میں اپنے پیارے مٹھو کے لئے چوری بنارہی تھی کہ اس کو اپنے ہاتھ سے کھلائوں ، وہ کھانا بھی میرے ہی ہاتھ سے کھاتا تھا ۔ میرے ایک ہاتھ پر بیٹھ جاتا تھا اور میں اپنے دوسرے ہاتھ سے اس کی چونچ میں کھانا دیتی جاتی تھی۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا۔ چوری کی کٹوری دیکھتے ہی وہ اڑ کر لپکا اور میرے کندھے پر بیٹھ گیا۔ جو نہی میں اس کی چونچ میں چوری دینے کو ہوئی، اس نے چونچ کھولنے کی بجائے ایک جست لگائی اور پھر سے نیلگوں آسمان کی طرف اڑ گیا۔ سمجھ میں نہ آیا، یہ اچانک کیا ہو گیا ہے۔ میر ا تنہائیوں کا ساتھی بے وفائی کا مر تکب ہو چکا تھا۔ وہ ہمیشہ کے لئے کھو چکا تھا۔ میں نے اس کی یاد میں کئی دن تک آنسو بہائے، کچھ بھی تو اچھا نہیں لگتا تھا، جی چاہتا کہ پر لگوا کر اڑ جائوں اور کھلے آسمانوں میں اس کو تلاش کرنے لگوں۔ ان ہی غمزدہ دنوں کی بات ہے کہ جب مجھ کو وہ ملی، کیا بتائوں میں کتنی خوش تھی لیکن وہ بھی بے وفا نکلی میں دن رات اس کو یاد کر کے رویا کرتی۔ ایک پل میں جانے کتنی مرتبہ اس کی یاد آتی مگر مجھ کو تسلی دینے والا کوئی نہیں تھا۔ میرے دُکھ درد اور غم کو مٹانے والا کوئی نہیں تھا۔ وہ میری کزن تسلیم تھی، جس کی امی نے مجھے وہ اپنا پیاراسا، بے وفا طوطادیا تھا اور پھر طوطے کی بے وفائی کاد کھ بھلانے کو اپنی بیٹی کو میرے پاس چھوڑ گئی تھیں لیکن وہ بھی مجھ سے بچھڑ گئی۔ اس نے مجھ سے بے وفائی نہیں کی تھی بلکہ زندگی نے اس سے وفا نہیں کی۔ جب طوطا اڑ گیا۔ میں اس کو ڈھونڈ نے محلے کے کئی گھروں میں گئی۔ زیبا کے گھر بھی گئی جو کبھی میرے ساتھ چوتھی جماعت میں پڑھا کرتی تھی۔ وہ صحن میں بیٹھی تھی ، کافی دنوں بعد اسے دیکھا تھا۔ وہ بھی مجھ کو دیکھ کر خوش ہو گئی۔ بولی اتنے دنوں بعد کیسے آنا ہوا؟ میرا طوطا اڑ گیا ہے، میں نے اسے بتایا سوچا تم سے پوچھ لوں شاید تمہارے گھر کی منڈیرپر آبیٹھا ہو۔ وہ خوب ہنسی، بولی۔ کیسی نادان ہو! میری بھولی سکھی بھلا طوطے بھی منڈیروں پر بیٹھتے ہیں۔ جواز گیا سواڑ گیا۔ اس کے پیچھے مت خوار ہو۔ کسی اور میں دل لگاؤ اور اس بے وفا پنچھی کو بھول جائو۔ اس کی بات سچی تھی مگر میرے جی کو نہ لگی۔ میں نے کہا۔ جانتی ہو ، امی کی وفات کے بعد سے میں اکیلی ہو گئی ہوں اور اسکول بھی چھوٹ گیا، تم نے مگر میری ایک بار بھی خبر نہ لی۔ کیا ایسے ہوتے ہیں دوست جو بُرے وقت میں ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ کہنے لگی۔ اسکول سے گھر ، پھر گھر کا کام، کئی بار تم سے ملنے کا سوچا مگر فرصت ہی نہ ملی۔ امی کاموں میں لگائے رکھتی ہیں اور دادی اماں کسی سہیلی کے گھر جانے نہیں دیتیں۔ تم بھی تو نہیں آتیں ؟ مجھے ابا کی ہدایت ہے کہ گھر میں رہوں اور گھر کو اندر سے تالا لگا کر رکھوں۔ خیر ، زیبا سے باتیں کر کے میں تھوڑی دیر کے لئے طوطے کا غم بھول گئی۔ اگلے دن زیبا اپنی امی کولے کر ہمارے گھر آئی۔ جب اس کی امی نے مجھ کو گھر میں بالکل اکیلا پایا، ان کو کچھ ہوا۔ انہوں نے زیبا کی ڈیوٹی لگادی کہ وہ روزانہ شام کو ایک گھنٹے کے لئے میرے گھر آجایا کرے گی۔ اب وہ اسکول کے بعد میرے پاس تھوڑی دیر کو آجاتی۔ میں نے اس کی بھولی بھالی صورت سے دل لگالیا۔ جب تک بھائی اسکول اور ٹیوشن سے نہ آجاتے ، وہ میرے پاس رہتی۔ ایک سچی غمگسار دوست مجھے کو مل گئی تھی۔ دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کی دوستی سے جلتے ہیں، ان کے درمیان دیوار بن جاتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ایک لڑکی ندا ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ وہ زیبا کے گھر بھی آتی جاتی تھی۔ ایک دن وہ زیبا کے ساتھ میرے گھر آئی اور بعد میں اکیلی آنے جانے لگی۔ اس نے مجھ کانوں کی کچی کو الٹی سیدھی باتیں کر کے زیبا سے بد ظن کر دیا۔ میں زیبا کو نظر انداز کرنے لگی کیونکہ ندا کی جھوٹی باتوں سے میرا دل متاثر ہوا اور زیبا سے جی کھٹا ہو گیا۔ اب میرے لئے ندا ہی سب کچھ تھی اور زیبا کہیں پیچھے رہ گئی تھی۔ ایک روز ندا مجھے گھر لے گئی۔ مجھے بیٹھک میں بٹھا کر خود کچن میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد ایک لڑکا آکر میرے پاس بیٹھ گیا۔ مجھے بہت غصّہ آیا۔ اس نے کہا۔ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتیں، منہ کیوں پھیر لیا ہے ؟ مجھے تو ندا نے تم سے ملوانے کو بلایا ہے۔ اتنا سنا تھا کہ میں غصّے میں اسی وقت اٹھ کر دروازے سے نکل گئی۔ اب سمجھ میں آیا کہ میں نے ندا کو پہچاننے میں کتنی غلطی کی ہے۔ جو بُرا ہوتا ہے وہ بُرا ہی ہوتا ہے ، وہ کبھی اچھا نہیں بن سکتا۔ میں نے اس مکّار لڑکی کے کہنے میں آکر اتنی اچھی دوست سے ناتا توڑ لیا اور اب پچھتانے لگی۔ اس کو منانے اس کے گھر گئی تو پتا چلا کہ وہ لوگ ساہیوال چلے گئے ہیں۔ زیبا کے کھو جانے کا کتنا غم تھا، کیا بتائوں۔ اب نہ دن کو چین تھا اور نہ رات کو ۔ خُدا سے دعا کرتی تھی کہ ایک بار پھر مجھے زیبا جیسی پاکیزہ سوچ والی دوست دے دے جو تنہائی میں مجھ کو سہارا دے سکے۔ آخر کار مجھے ایسی دوست مل ہی گئی۔ یہ خالہ کی بیٹی تسلیم تھی انہی دنوں لاہور سے خالہ آئیں، ساتھ تسلیم بھی تھی۔ میں نے بے وفا طوطے کا بتایا اور روپڑی۔ ان سے میرارونانہ دیکھا گیا۔ بولیں۔ اداس نہ ہو۔ اب جو دوست تیرے پاس چھوڑے جاتی ہوں وہ طوطے جیسا بے وفا نہیں ہے، میری بیٹی تسلیم بہت اچھی ہے ، اس کے ہوتے ہوئے تم خود کو تنہا محسوس نہ کرو گی اور بہت خوش رہو گی۔ تسلیم کے رہنے سے ابو بھی خوش ہو گئے کہ چلو میری بیٹی کو بہن مل گئی ، اب یہ خوش رہے گی لیکن میں خوش نہ تھی اور اس کی وجہ کچھ اور نہیں، اس کی صورت تھی ، وہ کافی بد شکل تھی کہ میرا دل اس سے گھلنے ملنے یاد دوست بنانے کو نہ چاہتا تھا، یوں بھی وہ مجھ سے عمر میں پانچ برس بڑی تھی۔ جب سے تسلیم گھر آئی تھی، گھر کا کام اس نے سنبھال لیا تھا پھر بھی میں اس سے ناخوش تھی، بہت کم بات کرتی تھی۔ وہ جتنا میرے قریب آتی، میں اتنا اس سے دور بھاگتی۔ ایک دن میں نے تسلیم کو جھڑک دیا کہ میرے سر پر سوار رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بچاری اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔ عمر کا فرق تھا، شاید اس وجہ سے میری اس کی ذہنی ہم آہنگی نہ ہو پارہی تھی۔ وہ کسی اور نہج پر سوچتی اور میں کسی اور طرح، پھر میں کچھ حسن پرست بھی تھی، خود میری صورت اچھی تھی اور میری جتنی دوست بنیں، ساری لڑکیاں خوب صورت تھیں۔ مجھ کو بد شکل لوگ پسند نہ آتے تھے۔ ابو کہتے کہ یہ تمہاری بڑی بہن ہے، اس کے ساتھ تعظیم سے رہا کرو۔ وہ جس قدر میر اخیال رکھتی ، میں اسی قدر اس سے چڑتی تھی۔ وہ میرے لئے روٹی پکا کر رکھتی۔ میں اس کے ہاتھ کی پاکی روٹی نہیں کھاتی تھی۔ پیار سے بات کرتی، میں منہ دوسری طرف پھیر لیتی۔ یہ میرے اختیار میں نہ تھا۔ سوچتی شاید میرے اور اس کے ستارے ہی آپس میں نہیں ملتے کہ اس کو دیکھ کر میں بیزار ہونے لگتی تھی۔ تسلیم اب اکثر میرے رویئے سے دُکھی ہو جاتی تھی، مجھے خود سے بیزار دیکھ کر کہتی۔ دیکھ لینا صبا! ایک دن تم میری ضرورت محسوس کرو گی اور مجھ کو یاد کر کے روئو گی۔ کبھی نہیں۔ میں جواب دیتی، میں تم کو یاد نہیں کروں گی اور نہ مجھ کو تمہاری ضرورت محسوس ہو گی۔ جتناوہ مجھ سے قریب آتی، اس سے میں دُور بھاگتی۔ سوچتی اس الجھن سے تو مجھ کو میری تنہائی بھلی ہے، لیکن ابو اور خالہ کہتے لڑکیوں کا اکیلے گھر میں رہنا ٹھیک نہیں ہوتا۔ تسلیم ہی رہے گی تمہارے ساتھ۔ ایک دن سنا زیبا ساہیوال سے آگئی ہے۔ میں نے پہلی بار تسلیم کی ضرورت محسوس کی۔ میں اس کے پاس خود گئی اور کہا کہ میری دوست آگئی ہے لیکن مجھ سے ناراض ہے۔ تم اس کو منادوتو مجھے خوشی مل جائے گی۔ ہاں کیوں نہیں ، میں اس کے پاس جاتی ہوں۔ تسلیم نے کہا اور اس کے گھر چلی گئی۔ وہ ساری غلط فہمیاں دور کر کے اسے منا کر لے آئی۔ زیبا سامنے آئی تو میں خوشی سے کھل اٹھی، جیسے گھر میں بہار آگئی ہو۔ میری دنیا بس گئی پھر سے جی اٹھی تھی میں۔ اس احسان کی وجہ سے اب میں تسلیم سے بات کرنے لگی اور میری اس کے ساتھ کچھ کچھ دوستی ہو گئی یوں کہ میں اس کو تنگ کرنے میں لطف محسوس کرتی لیکن وہ برا ماننے کی بجائے مسکراتی رہتی۔ اگر وہ کچھ پڑھنے لگتی، میں اس کو شعر سنانے بیٹھ جاتی۔ کبھی گانے گا کر شور کرتی۔ ہر وقت اس کو موٹو موٹو پکارتی۔ کبھی اسے جتلاتی تسلیم تم مجھ سے مت روٹھنا، میں نہیں چاہتی ایک بار پھر میرا د ل ٹوٹے اور میں آنسوئوں میں ڈوب جائوں۔ اس بات پر وہ اور زیادہ ہنستی، پھر مذاق میں کہتی کہ تم تو میری زندگی ہو۔ تم ہی تو میری ہر خوشی ہو۔ تسلیم کھانا بہت اچھا بناتی تھی۔ میرے لئے تو خاص طور پر میری پسند کی ڈش بناتی۔ میں کہتی چنے ابال کر اس پر نمک مرچ اور املی کا پانی مکس کر کے دو۔ وہ بنا کر لاتی۔ ہم دونوں مزے سے کھاتے وقت کتنا اچھا تھا جس کی قدراب مجھ کو آئی ہے۔ اب وہ وقت یاد آتا ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے جب وہ مجھ سے ہمیشہ کو روٹھ گئی اور میری جان بچانے کو اس نے اپنی جان مجھ پر وار دی۔ گرمیوں میں ہم نے سیر کا پروگرام بنایا۔ ہم شکر پڑیاں گئے۔ ابو اور بھائی ایک طرف اور میں اور تسلیم دوسری جانب بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ تسلیم کے منہ سے اچانک چیخ نکل گئی۔ ایک سانپ رینگتا ہوا میری شلوار کے پائنچے پر چڑھ آیا تھا۔ مجھ کو خبر نہ ہوئی لیکن تسلیم کی نظر سانپ پر پڑ گئی۔ وہ ترنت دوڑ کر میرے قریب آئی اور سانپ کو مٹھی میں دبوچ لیا۔ میں نے جوتے اتار رکھے تھے۔ اگر وہ اس طرح سانپ کو نہ پکڑ لیتی تو وہ میرے پیر پر کاٹ لیتا۔ اس نے تسلیم کی کلائی پر کاٹ لیا۔ میں تو سانپ سے بچ گئی مگر اس نے تسلیم کے جسم میں اپنا ہر اتار دیا تھا۔ یہ بہت زہریلا سانپ تھا کہ جس کا کاٹا پانی نہیں مانگتا۔ تسلیم پر غنودگی طاری ہونے لگی ، ناک اور منہ سے خون آنے لگا، اس سے پہلے کہ اسے کسی اسپتال تک لے جاتے اس نے دم دے دیا۔ تسلیم نے مجھ پر جان وار دی۔ آہ! وہ بدصورت تھی لیکن اس کا دل تو خو بصورت تھا۔ آج میں اس کو یاد کرتی ہوں تو واقعی آنسوئوں میں ڈوب جاتی ہوں۔ آج میرے پاس اس کی یادوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ میں اس کی صورت دیکھنے کو ترس رہی ہوں اے کاش ! ایک بار اور اس کی صورت دیکھ سکتی کہ وہ اب میرے خیالوں میں بدصورت نہیں رہی ہے ، حسن کی تصویر ہو گئی ہے۔ مجھ کو خبر نہ تھی کہ اس کے مرنے کے بعد مجھے اس سے اتنا پیار ہو جائے گا کہ ہر وقت اس کی راہ تکتی رہوں گی لیکن وہ پھر بھی نہیں آئے گی۔ اتنا وقت بیت گیا لیکن اب تک تسلیم کی خوشبو میری سانسوں میں بسی ہوئی ہے ، وہ آج بھی میرے دل میں رہتی ہے اور کل بھی رہے گی۔ سوچتی ہوں کاش! میں اس وقت اس کو پیار دے سکتی ، کاش ! وہ مجھ کو اس قدر ٹوٹ کر نہ چاہتی کہ اب میں اس کو کھلا بھی نہیں پاتی۔ اگر اپنی جان دے کر اسے واپس بلا سکتی تو جان بھی دے دیتی، لیکن یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ مر جانے والے کسی قیمت پر واپس نہیں آتے۔ سچ ہے اگر ہم جو ہر شناس نہیں تو بہت سے اچھے لوگوں کو کھو دیتے ہیں اور برے لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لیتے ہیں پھر ہمیں ایسا خسارہ ہوتا ہے کہ جس کا پورا کر ناکسی کے بس کی بات نہیں رہتی۔

Latest Posts

Related POSTS