Wednesday, July 16, 2025

Husn Bewafa Hae | Teen Auratien Teen Kahaniyan

ہمارے کالج میں بہت سی خوبصورت لڑکیاں تھیں لیکن مجھ جیسی کوئی نہ تھی۔ تبھی اپنی صورت پر غرور تھا۔ اپنے حسن کے فریب میں اتنی گم تھی کہ کسی اور کو کچھ سمجھتی تھی اور نہ منہ لگاتی تھی۔ ان دنوں یہ سمجھ نہ تھی کہ صورت اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت ہے۔ اس کی وجہ سے کوئی کمتر یا برتر نہیں ہوتا بلکہ افضل وہی ہوتا ہے جس کا اخلاق اچھا ہو۔ اچھی سیرت ہی اعلیٰ مقام پاتی ہے۔
ایف ایس سی کی طالبہ تھی اور ڈاکٹر بننے کا ارمان لے کر کالج میں داخلہ لیا تھا اور بھی بہت سے طالب علم اور طالبات ڈاکٹری کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے تھے۔ جو محنتی تھے، مقصد میں سنجیدہ تھے، وہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر پڑھنے میں مشغول رہتے۔ اگر کوئی پیریڈ خالی ہوتا تو کینٹین کا رخ کرنے کی بجائے لائبریری چلے جاتے تھے، لیکن میں بہت زیادہ پڑھائی کا بوجھ برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔ اگر کوئی پیریڈ خالی ہوتا اور ذہن تھکا تھکا ہوتا، لائبریری جانے کی بجائے کینٹین جا بیٹھتی۔
صفدر ہمارا کلاس فیلو تھا۔ میں لڑکیوں میں اپنی شکل و صورت کی وجہ سے منفرد تھی تو وہ اپنے حسن اور مردانہ وجاہت کے باعث تمام کلاس میں نمایاں اور بے مثال تھا۔ ہم دونوں میں ایک ہی بات مشترک تھی۔ صفدر کو احساس تھا کہ وہ سب سے حسین ہے، اسی لئے معمولی صورت والوں پر توجہ نہ دیتا لیکن میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے ذرا بھی نہ جھجکا۔ جہاں میں بیٹھی ہوتی، وہ وہاں آجاتا۔ لگتا تھا جیسے اس کی نظریں ہر دم میرا تعاقب کرتی ہیں۔ میں جب کینٹین میں ہوتی، وہ وہاں آکر پوچھتا۔ ہیلو! کیسی ہو؟ پھر کرسی اٹھا کر میرے سامنے لے آتا۔ چائے پیو گی یا کافی… جانے کیا بات تھی اس میں کہ باوجود غرور کی پتلی مشہور ہونے کے اس کی پیشکش رد نہ کرتی اور وہ میرے لئے کچھ نہ کچھ منگوا لیتا تھا۔ اس بات پر لڑکیاں چہ میگوئیاں کرتیں لیکن ہمیں کسی کی پروا نہ تھی۔
لڑکیاں کچھ عرصے میں ہماری عادی ہوگئیں، لیکن ایک لڑکا کلاس میں ایسا تھا جو میری اور صفدر کی دوستی سے پریشان رہا کرتا تھا اور وہ تھا عاطف…! وہ بے حد سنجیدہ اور پڑھاکو قسم کا لڑکا تھا۔ کلاس میں سب سے زیادہ ذہین اور صفِ اول کا طالب علم! ہر مضمون میں اس کے نمبر زیادہ ہوتے۔ وہ اساتذہ کا چہیتا اور لائق طالب علموں کا پسندیدہ تھا۔ سیرت کا اچھا مگر شکل کا اتنا گیا گزرا کہ مجھے اس کی طرف دیکھنا گوارا نہ تھا۔ کچھ دنوں سے محسوس کررہی تھی کہ عاطف قدرے مضطرب سا ہے۔ میں اپنے موڈ سے لائبریری جاتی تھی۔ جب طبیعت پڑھائی کی طرف مائل ہوتی، اسی وقت لائبریری کا رخ کرتی تھی۔ جب وہاں جاتی، عاطف کو موجود پاتی۔ میں اس کی طرف دیکھے بغیر ایک طرف بیٹھ جاتی۔
ایک روز وہ اپنی نشست سے اٹھ کر میری جانب آیا اور بولا۔ آپ کو نوٹس چاہئیں تو بلاتکلف کہہ دیجئے۔ میرے پاس ہر مضمون کے نوٹس موجود ہیں۔
جی ہاں… جی نہیں…! بے اختیار یہ ذومعنی الفاظ میرے لبوں سے نکل گئے۔ میں سمجھا نہیں زریں صاحبہ! آپ نے ہاں کہا ہے یا نہیں؟ میری نظر اس کی جانب اٹھ گئی۔ اس کے چہرے پر شرافت کا ایسا سندر روپ تھا کہ بدصورت شکل بھی بدشکل نظر نہ آئی۔ میں نے کہا کہ مجھے فلاں مضمون کے نوٹس دے دیں۔ مجھے تمام مضامین کے نوٹس درکار تھے۔ میں زیادہ وقت تو خالی پیریڈ میں صفدر کے ساتھ کینٹین میں ضائع کردیا کرتی تھی۔ امتحان نزدیک تھا۔ پریشانی تھی کہ صفدر پڑھائی میں بالکل سنجیدہ نہ تھا۔ وہ مجھے بھی اپنے جیسا بنا رہا تھا۔ مجھے اس کی رفاقت میں خوشی ملتی تھی۔ یہ احساس کھو چکی تھی کہ کتنی مشکلوں سے اس کالج میں داخلہ ملا تھا اور کس مقصد کے لئے یہاں آئی تھی، حالانکہ والد ’’کوایجوکیشن‘‘ کے سخت مخالف تھے۔ اس شرط پر راضی ہوئے تھے کہ جی توڑ کر محنت کروں گی اور ان کو ڈاکٹر بن کر دکھائوں گی۔
عاطف سے میں نے نوٹس لئے اور ان کو کاپی کرنے لگی۔ جہاں سمجھنے میں دشواری ہوتی، ساتھ ساتھ پوچھتی بھی جاتی۔ اب مجھے خوبصورتی اور بدصورتی کے اپنے فلسفے کو بدلنا پڑا۔ اس کے اچھے اخلاق نے میری سوچ میں تبدیلی پیدا کردی۔ بدشکل انسانوں سے بیزاری کا جو جذبہ مجھ میں تھا، اس کی شدت میں کمی آتی جارہی تھی۔ گویا اب میں بدصورتی کو گوارا کرنے
لگی تھی۔ سوچنے لگی تھی کہ محض کم شکل ہونے کے باعث لوگوں سے احتراز برتنا ٹھیک نہیں ہے۔
رفتہ رفتہ دل پڑھائی کی طرف پھر سے مائل ہونے لگا۔ عاطف نے راضی کیا کہ میں فارغ وقت میں سے کچھ ٹائم لائبریری کو ضرور دوں اور یونہی ہنسی ٹھٹھول میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کیا کروں۔ اس کے سمجھانے کی وجہ سے احساس ہونے لگا کہ میری بیمار ماں کا مجھ پر بڑا حق ہے جو میری خاطر بیماری میں بھی سارے گھر کا کام کرتی ہیں، حتیٰ کہ میرے کپڑے دھو کر استری کردیتی ہیں اور کھانا پکا کر رکھ دیتی ہیں۔ ہر طرح سے میرے آرام کا خیال رکھتی ہیں تاکہ میں یکسوئی کے ساتھ پڑھائی کرسکوں، میرٹ بنا سکوں اور میڈیکل کالج میں داخلے کی اہل ہوجائوں، ڈاکٹر بن جائوں۔ یہ میرا ہی نہیں میری ماں کا بھی خواب تھا۔ ماں نے اپنے دور میں پڑھائی پر توجہ نہ دی اور فرسٹ ایئر میں فیل ہوگئیں تو ان کے والد نے بیٹی کی کمزور تعلیمی کارکردگی دیکھ کر کالج سے اٹھا کر شادی کے بندھن میں باندھ دیا۔
اتفاق سے شوہر سخت مزاج ملا۔ وہ روتی تھیں اور کہتی تھیں۔ اے کاش! آج میں تعلیم یافتہ ہوتی، لیکچرار یا ڈاکٹر ہوتی تو کاہے اس شخص کی سختیاں سہتی۔ شوہر کی محتاجی کی وجہ سے اس کے ظلم کو برداشت کرنا پڑا۔ وہ مجھے بھی سمجھاتی تھیں کہ بیٹی! عورت کے لئے تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ دکھ سکھ میں تعلیم ہی اس کے کام آتی ہے۔ تم جب تک اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لائق نہ ہوجائو، تمہاری شادی نہ کروں گی۔ میں بھی ابو کا برا طرزعمل دیکھتی تو سوچتی کہ واقعی عورت کو اس قابل ہونا چاہئے کہ ضرورت پڑنے پر وہ معاشی طور پر اپنی کفالت کرسکے۔ استحصالی معاشرے میں مرد کی دست نگر رہ کر کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر یوں مجبور نہ ہو جیسے میری والدہ مجبور تھیں۔ ابو کے ظلم سہہ سہہ کر وہ السر جیسے مرض کو گلے لگا بیٹھی تھیں۔
امی جب بیمار پڑتیں، میں ان کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتی۔ والد صاحب کو ان کی ذرّہ بھر پروا نہ تھی۔ والد کے پاس گاڑی تھی لیکن والدہ کو اسپتال لے جانے کے لئے میں رکشہ لاتی۔ جی دکھتا لیڈی ڈاکٹر کے اسپتال میں ٹھاٹھ دیکھتی کہ لوگ ان کے آگے پیچھے پھرتے ان کی خوشامد کرتے ہیں اور وہ عزت و وقار کا پیکر نظر آتیں۔ سوچتی کہ چاہے جتنی محنت کرنی پڑے، میں ڈاکٹر بنوں گی۔ والدہ کا علاج کروں گی۔ مالی محتاجی سے بہتر ہے کہ انسان اپنی عزت نفس کو پامال نہ ہونے دے۔ خود کمائے اور عزت سے جیئے۔
ابو، امی کی زندگی کی مثال میرے سامنے تھی۔ مجھے شادی کا کوئی ارمان نہ رہا تھا۔ اگر صفدر میری زندگی میں نہ آتا تو میں کبھی شادی شدہ زندگی گزارنے کی طرف مائل نہ ہوتی کیونکہ میری آنکھوں کے سامنے امی سسک سسک کر زندگی بسر کررہی تھیں۔ اس پر میرا دل خون کے آنسو روتا تھا، تبھی میں نے فیصلہ کیا تھا کہ کبھی کسی سے محبت کروں گی اور نہ شادی کروں گی۔
عاطف نے مجھے احساس دلایا کہ میں اپنی ڈگر سے ہٹ گئی ہوں۔ صفدر کے ساتھ اپنے مقصد کو بھلا کر وقت ضائع کرنے میں لگی ہوں تو مجھے ملامت ہوئی اور دکھ بھی ہوا کہ واقعی میں نے ماں کے دکھوں کو بھلا کر اپنی خوشیوں کو ترجیح دینی شروع کردی تھی، لیکن اس کا کیا حاصل تھا؟ اب میں نے فاضل وقت باقاعدہ لائبریری میں گزارنا شروع کردیا۔ صفدر کی دلکشی کو نظرانداز کرکے محنت کرنے کی ٹھان لی۔ اسے بتا دیا کہ امتحانوں تک مجھے پڑھائی پر توجہ دینی ہے۔ گپ شپ میں وقت ضائع کرنے کی بجائے میرٹ پر توجہ دینی ہے، ورنہ میرا ڈاکٹر بننے کا خواب، خواب ہی رہ جائے گا۔ میں صفدر کے ساتھ گپ شپ کرنے سے گریز کرنے لگی۔
عاطف نے پڑھائی میں میری بہت مدد کی۔ مجھے صحیح راہ دکھائی۔ وہ میرے لئے ایک روشن منزل کی مانند ہوگیا۔ ایک ایسا دوست جو مخلص تھا اور جس نے اپنی توجہ سے میرا دشوار کام آسان کردیا تھا۔ میرے من کی بجھتی شمع کو پھر سے جلا دیا تھا۔ میں اسے ایک اچھا دوست سمجھنے لگی، مگر اس کے سوا کچھ نہیں تھا میرے لئے وہ جس کی طرف اس کی بدصورتی کے باعث ایک نظر دیکھنا گوارا نہ کرتی تھی، اب وہ مجھے اتنا برا نہیں لگتا تھا۔ گھنٹوں اس کے ساتھ بیٹھ کر نوٹس تیار کرتی اور وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہوتا۔ خوش تھی کہ ایک اچھا رہنما مل گیا ہے تو منزل بھی مل جائے گی۔
مجھے عاطف کے قریب بیٹھے دیکھ کر صفدر کو حسد اور رقابت محسوس ہونے لگی، جبکہ وہ
طرح جانتا تھا کہ میں ہرگز کسی میں ’’انوالو‘‘ نہیں ہوسکتی، خاص طور پر عاطف جیسے بدشکل انسان میں تو بالکل نہیں جو بدصورتی میں اپنی مثال آپ تھا اور میں اچھی صورت کی دلدادہ اور بدصورتی سے نفرت کرنے والی لڑکی تھی۔
انسان بھی عجیب مخلوق ہے۔ اس کا ذہن کب کیا سوچنے لگے، نہیں معلوم…! انسان کو سمجھنا واقعی مشکل امر ہے۔ میں جس قدر عاطف کی احسان مند ہورہی تھی، اتنا ہی اس کے ساتھ نرم ہوتی جاتی تھی۔ اتنی نرم خو کہ مجھ ایسی مغرور لڑکی سے کوئی اتنی نرم مزاجی کی توقع نہیں کرسکتا تھا۔
افسوس آدمی جتنا چاہے قابل اور ذہین ہو، وہ دل کے ہاتھوں ٹھوکر کھا جاتا ہے۔ عشق عقل کی روشنی کو بجھا دیتا ہے۔ تب اچھا بھلا باہوش بھی ہوش کھو کر عقل سے پیدل ہوجاتا ہے۔ یہ دل ہے ہی کم بخت ایسی چیز کسی بھی وقت آپ کو دھوکا دے جاتا ہے اور آپ بھٹک کر اپنی منزل سے دور چلے جاتے ہیں۔ میری نرم روئی سے عاطف کو غلط فہمی ہوگئی کہ میں اس کی اتنی قدرداں ہوں کہ وہ اگر مجھ سے اظہار محبت کرے گا تو میں برا نہ مانوں گی۔ تبھی اس نے اپنی قسمت آزمائی کو ضروری جانا۔
خدا جانے کب سے اس کے دل میں میرے لئے محبت کا شعلہ تاباں تھا اور وہ دھیرے دھیرے جلاتا رہتا تھا۔ میں تو اپنے مطلب سے اس کے قریب آئی تھی۔ اس سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے، پڑھائی میں مدد لینے اور میرٹ بنانے کے لئے…! وہ سمجھا کہ میں اس پر مہربان ہوگئی ہوں، تبھی ایک روز جب ہم لائبریری میں پرچے کی تیاری کررہے تھے، اس نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اظہار محبت کردیا۔ اس نے کہا۔ زریں! اب تمہارے بغیر مجھے اپنی زندگی بیکار اور ادھوری لگتی ہے۔ پلیز میرا ہاتھ مت جھٹکنا۔ اگر تم نے میرا ہاتھ تھام لیا تو زندگی میں اتنی خوشیاں دوں گا کہ جس کا تم تصور بھی نہ کرسکو گی۔
مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ یااللہ! اسے کیا ہوگیا ہے؟ کالا کوا، حبشی صورت، دیو قامت جو آدمی سے زیادہ بن مانس نظر آتا ہے، کیا خرافات بک رہا ہے؟
تم پاگل تو نہیں ہوگئے عاطف! میں نے تنک کر کہا۔ ہوش میں تو ہو؟ ہاتھ ہی نہیں جھٹکوں گی، الٹے ہاتھ کا تھپڑ ماروں گی تمہاری اس اندھیری رات جیسی شکل پر! میں نے اپنا ہاتھ نفرت سے کھینچ لیا جیسے انگاروں نے چھو لیا تھا مجھے… تین بار میں نے زمین پر تھوکا اور نفرت سے کہا۔ اپنی شکل دیکھی ہے تم نے آئینے میں کالے دیو…؟ تم میرے شریک زندگی بننے چلے ہو۔ آئندہ کبھی میرے سامنے آئے تو آج تھپڑ سے بچ گئے ہو، کل سب کے سامنے تھپڑ مار دوں گی۔ یہ کہہ کر پیر پٹختی میں لائبریری سے نکلی۔ اس وقت میری آنکھوں میں آنسو بھرے تھے۔ اتفاق سے سامنے سے صفدر آرہا تھا۔ اس نے جو میرا چہرہ تمتماتا ہوا دیکھا تو میری جانب آگیا۔ پوچھا کیا ہوا ہے زریں طبیعت تو ٹھیک ہے؟ اس کا اتنا کہنا تھا کہ آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت گرنے لگے۔ اگر اردگرد کا خوف نہ ہوتا تو میں سب کے سامنے اس کے گلے سے لگ جاتی۔ مجھے اس دن بہت صدمہ ہوا۔ اتنا کہ بتا نہیں سکتی۔ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ عاطف اپنی بدشکلی کا اظہار مجھ سے اظہار محبت کی صورت میں دے گا۔ غصے میں جل رہی تھی کہ اس منحوس شکل انسان کو آخر اتنی ہمت کیسے ہوئی۔ اس نے یہ سوچا بھی کیوں کہ مجھ سی حور شمائل سے شادی کی خواہش کا اظہار میرا ہاتھ تھام کر کرے گا۔
صفدر کو ساری بات بتا کر دل ہلکا کیا۔ اس نے کہا۔ مجھے پہلے ہی گمان تھا کہ تمہیں اس بن مانس سے ضرور کوئی دکھ پہنچنے والا ہے۔ اللہ جانے کیوں ساری کلاس کو چھوڑ کر اس منحوس صورت کو تم نے اپنا دوست بنا لیا۔ میں پریشان تھا کہ مجھے بھی تم نے ان دنوں نظرانداز کردیا تھا۔
میں نے بہت سا وقت تمہارے ساتھ ضائع کردیا تھا۔ پڑھائی چھوڑ کر خوش گپیوں میں لگی ہوئی تھی۔ اس نے احساس دلایا تو میں پڑھائی میں لگ گئی۔ وہ بہت لائق ہے۔ چند دنوں میں اس نے مجھے وہ حصے کور کروا دیئے جو میری لاپروائی سے پڑھنے سے رہ گئے تھے، تبھی اس کا سہارا لیا اسے نیک شریف سمجھ کر! کیا جانتی تھی کہ دل میں محبت کا سانپ پال لے گا جو مجھے ڈس لے گا۔ مجھے نہیں معلوم عاطف کے دل پر کیا بیتی، میرا غصہ آسمان سے باتیں کررہا تھا۔ وہ کچھ دن کالج نہ آیا پھر امتحان کی تیاری کی وجہ سے چھٹیاں ہوگئیں اور اس کے بعد سالانہ امتحان شروع ہوگئے۔
رزلٹ آگیا۔ عاطف نے ٹاپ کیا تھا۔ میں اور صفدر میرٹ


سے رہ گئے۔ ہمارا ایڈمیشن میڈیکل کالج میں نہ ہوپایا۔ والدہ روزبہ روز کمزور ہوتی جاتی تھیں۔ وہ زیادہ بیمار ہوئیں تو اسپتال داخل کرانا پڑا۔ یہ دن بڑے مشکل تھے۔ امی کو میری فکر تھی اور مجھے ان کی فکر کھائے جاتی تھی۔
والدہ کا خیال تھا کہ میری شادی ان کی زندگی میں ہوجانی چاہئے کہ بعد میں میرا کیا بنے گا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ اگر تمہیں کوئی پسند ہے تو بتا دو تاکہ میں اس لڑکے کے والدین سے مل کر ان لوگوں کو دیکھ پرکھ لوں۔ سردست دوسرا کوئی مناسب رشتہ میرے لئے موجود نہ تھا۔ میں نے صفدر کو فون کیا۔ اس نے کہا۔ دل سے چاہتا تھا کہ تم سے شادی ہو۔ صدشکر تم نے خود پہل کی۔ عاطف کے انجام کا سوچ کر ہمت نہ پڑتی تھی کہ تمہارا ہاتھ طلب کروں۔ چند دنوں بعد صفدر کی رضا سے ان کے والدین رشتے کے لئے ہمارے گھر آئے۔ امی ان سے ملیں،صفدر کو بھی دیکھا، بات چیت کی۔ بولیں۔ بیٹی! لڑکا اچھا ہے مگر حسن پرست ہے۔ اللہ کرے تم سے وفا کرے کیونکہ شکل و صورت ہمیشہ نہیں رہتی۔ امی نے ابو سے بات کی کہ میری ایک سہیلی کے توسط سے یہ لوگ آئے ہیں۔ آپ ان سے مل کر اور دیکھ بھال کرکے اگر رشتہ مناسب لگے تو ہاں کردیں۔ میں اپنی زندگی میں بیٹی کو اس کے گھر کا کرنا چاہتی ہوں۔
والد نے ان سے ملنے کے بعد صفدر سے میرا رشتہ طے کردیا اور ہماری شادی دھوم دھام سے ہوگئی۔ میری شادی کے چھ ماہ بعد والدہ اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ میرا ایک ہی بھائی تھا جو بیرون ملک تھا۔ والد صاحب تنہا تھے لہٰذا پھوپی نے ان کی دوسری شادی کروا دی۔ سوتیلی ماں میرا زیادہ میکے آنا پسند نہ کرتی تھی، تب میں نے صفدر کو ہی سب کچھ سمجھ لیا اور اپنا گھر بسائے رکھنے میں کوئی کوتاہی نہ کی۔
قسمت عجب کھیل کھیلتی ہے۔ شادی کے پانچ برس اولاد نہ ہوئی تو میں سسرال والوں کے دل سے اتر گئی۔ وہ صفدر کی دوسری شادی کے درپے ہوگئے، خصوصاً میری ساس! صفدر پہلے تو راضی نہ تھے مگر جب میں بیمار پڑ گئی تو وہ پریشان رہنے لگے۔ مجھے چیچک نکل آئی اور جب میں اس بیماری سے صحت یاب ہوئی تو چہرے پر چیچک نے اپنے مہلک نشانات چھوڑ دیئے۔ میرے چہرے پر کالے داغ اور گڑھے پڑ گئے تھے۔ آئینے میں خود کو دیکھ کر یقین نہ آتا تھا کہ میں وہی حور شمائل ہوں جس کا مکھڑا چاند کی طرح چمکتا تھا اور حسن میں میرا کوئی ثانی نہ تھا۔
سچ ہے جیسے دولت اور جوانی بے وفا ہے، ویسے ہی حسن بھی آنی جانی شے ہے۔ آج جس خوبصورتی پر ہم ناز کرتے ہیں، وقت کے قدم اسے اس بری طرح پامال کر ڈالتے ہیں کہ آئینہ دیکھ کر یقین نہیں آتا یہ ہمارا ہی چہرہ ہے۔
میں نے آئینہ دیکھنا چھوڑ دیا، آنا جانا، لوگوں سے ملنا ملانا چھوڑ دیا۔ خود اپنی صورت سے خوف کھاتی تھی۔ اپنا چہرہ اچھا نہ لگتا تھا تو دوسروں کو کیونکر بھاتا۔
جس حسن کی چکاچوند سے مرعوب ہوکر صفدر نے مجھ سے شادی کی تھی، وہ بھی اب میری شکل پر نگاہ ڈالنے سے گھبراتا تھا اور میری ساس…! اسے تو جیسے بہانہ مل گیا تھا۔ وہ پہلے ہی مجھے بانجھ کہتی تھی، اب اپنے بیٹے کی دوسری شادی کرنے میں اس نے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ بالآخر اس نے طلاق کرا کر دم لیا اور صفدر کی دوسری شادی کردی۔ صفدر خود حسین و جمیل تھا تو حسن پرست بھی تھا۔ اس نے ماں کے کندھے پر رکھ کر وہ بندوق چلائی کہ میں جیتے جی مر گئی۔
والد کے گھر سوتیلی ماں نے کڑے تیوروں سے استقبال کیا اور اس کے بعد رفتہ رفتہ میرا جینا حرام کردیا۔ یہاں تک کہ میں گھر سے بھاگ جانے کی تمنائی ہوگئی۔ ایسے میں اگر سرجن عاطف سے ملاقات نہ ہوتی تو جانے میں کہاں ہوتی۔
ایک روز ماں کی بدسلوکی اور طعنوں سے تنگ آکر میں نے خواب آور گولیاں کھا لیں اور بے ہوش ہوگئی۔ ابو اسپتال لے گئے۔ ڈاکٹروں نے بڑی جدوجہد کرکے میری جان بچا لی۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی باقی رکھنی تھی، سو بچ گئی۔ ہوش میں آتے ہی آنکھیں کھول کر جس صورت کو دیکھا، وہ ڈاکٹر عاطف تھے۔ وہی شخص جس کو میں نے بدشکل بن مانس اور کالا کوا کہہ کر دھتکارا تھا، اسی قابل انسان نے مجھے موت کے منہ سے بچایا تھا۔ آج وہ ایک قابل ڈاکٹر تھا اور میں جو حسن پرست اور اپنے حسن پر مغرور تھی، ایک بدشکل مریضہ کے طور پر اس کے سامنے تھی۔ اس نے میری بڑی دل جوئی کی۔ ایک بار پھر ہاتھ پکڑ کر میری حوصلہ افزائی کی اور جینے کی راہ سجھائی۔ اس کی اچھی سیرت اور اخلاص
کی میں قائل ہوگئی۔ آج میرے پاس وہ شکل و صورت نہ رہی تھی جس کے برتے پر میں بدصورت کہہ کر اس کی توہین کرتی۔
ڈاکٹر عاطف نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی۔ اس بار میں نے ان سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا اور معافی بھی مانگی۔ ان کے دل میں ابھی تک میری محبت کی شمع روشن تھی۔ والد صاحب سے میرا ہاتھ مانگا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ میں نے ہاں کہی تب میری شادی عاطف سے ہوگئی۔
میرا غرور جھوٹا تھا اور عاطف کی لگن سچی تھی۔ ایک بار پھر میرا گھر آباد ہوگیا۔ عاطف نے صحیح کہا تھا۔ انہوں نے مجھے دنیا کی ہر خوشی دینے کی کوشش کی، یہ جان کر بھی کہ میں بانجھ ہوں، کبھی میری اس محرومی کا احساس نہ دلایا بلکہ کاسمیٹک سرجری کے لئے انگلینڈ لے گئے۔ آج میں عاطف کے ساتھ ایک پرآسائش زندگی بسر کررہی ہوں۔ پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو ماضی کی راہوں میں بس خاک ہی خاک اڑتی نظر آتی ہے۔ سچ ہے کہ حسن بے وفا ہے۔
(ل۔م … ڈیرہ غازی خان)

Latest Posts

Related POSTS