دادی بڑی چاہ سے اپنی بھانجی بیاہ کر لائی تھیں۔ شاہ بانو نام تھا۔ بہت خوبصورت تھیں مگر قسمت کی خراب نکلیں ! چچا جان سے شادی تو ہو گئی مگر انہوں نے بیوی کو بیوی نہ سمجھا۔ شاہ بانو کی کبھی دل سے عزت کی اور نہ پیار سے مخاطب کیا۔ وہ انہیں بس ایک ادنی نوکرانی کا درجہ دیتے تھے۔ نہیں معلوم شاہ بانو میں ایسا کونسا عیب تھا جو چچا کو نہ بھائیں۔ اس خاتون نے بہت کوشش کی خاوند کا دل جیتنے کی مگر ناکام رہیں۔ سبھی ان کے دکھ کو سمجھتے تھے اور ہمدردی کرتے خاص طور پر میری والدہ، شاہ بانو کا خاص خیال کرتی تھیں کیونکہ چچی کا کوئی بھائی نہ تھا اور والد وفات پاچکے تھے۔
ان دنوں ہم ایبٹ آباد کے ایک چھوٹے سے گائوں میں رہا کرتے تھے۔ ہمارا گھر دو منزلہ تھا۔ ہم زیریں اور چچا بالائی منزل پر قیام پذیر تھے۔ چچی شوہر کی بد سلوکی سے غمزدہ ہوتیں تو امی کے پاس آجاتیں تب میری والدہ ان کو گلے لگا کر تسلی دیتیں کہ شاہ بانو ! صبر کرو، سب دن ایک سے نہیں رہتے، تمہارے بچے ہوں گے تو دن پھر جائیں گے ۔ جب تک دادی زندہ تھیں، چچا نے بیوی سے کسی طور نباہ کیا، چار بچے بھی ہو گئے تو چچی ان کی پرورش میں کھو گئیں اور شوہر کی بے اعتنائی کی عادی ہو گئیں۔ زندگی کی گاڑی جوں توں چل رہی تھی کہ ایک روز جبکہ چچا دکان سے لوٹے، آتے ہی بیوی کو آواز دی۔اس وقت وہ نہا رہی تھیں، جواب نہ دے سکیں۔ تھوڑی دیر بعد جب نہا کر نکلیں شوہر کو آگ بگولا پایا۔ وہ چلا رہے تھے کہ تم کہاں غارت ہو گئی تھیں، کب سے کھانا مانگ رہا ہوں، یہ کوئی وقت ہے نہانے کا…! جانتی نہیں ہو اس وقت میں دکان سے آتا ہوں ؟ وہ بیچاری بوکھلا کر کچن کو دوڑیں۔ جلدی جلدی کھانا گرم کر کے ٹرے میں رکھا۔ جب چچا کے سامنے کھانا آیا ا نہوں نے ہاتھ مار کر ٹرے کو الٹ دیا کہ مجھے اب کھانا چاہئے اور نہ تمہاری ضرورت ہے۔ بس اتنی سی بات بہانہ بنی اور انہوں نے اپنے چار بچوں کی ماں کو طلاق دے دی۔ چچی روتی ہوئی میکے چلی گئیں۔ ہم سب ہی رورہے تھے جب وہ جا رہی تھیں۔ یہ بہت بڑا ظلم چچا جان نے کیا تھا۔ ان کے بچے بھی رو رہے تھے لیکن باپ نے ان کو ماں کے ہمراہ جانے نہ دیا۔ کئی دنوں تک ہمارے گھر میں سوگ کی سی کیفیت رہی۔ میرے چاروں کزن اشعر ، ظفر، نادرہ اور رخسانہ بہت پریشان تھے، تبھی امی ان کو اپنے پاس لے آئیں۔ اب ان کا کھانا امی بناتیں، انہیں تیار کرتیں اور ہم سب اکٹھے اسکول جاتے۔ وہ ماں کی کمی کو بے حد محسوس کرتے جبکہ میری والدہ کی کوشش ہوتی کہ شاہ بانو کے بچے خوش رہیں لیکن ماں کے بغیر بھلا وہ کیونکر خوش رہ سکتے تھے۔ چچا ان کو شاہ بانو سے ملنے بھی نہیں دیتے تھے۔ ماں جیسی عظیم ہستی کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا، پھر بھی ہماری والدہ نے مقدور بھر کو کوشش کی کہ چچا کے بچوں کا دکھ سمیٹ لیں۔ بیوی کو طلاق دینے کے بعد چچا بہت کم گھر آتے تھے۔ ان کو اپنے بچوں کی فکر نہ تھی۔ مطمئن تھے کہ ان کی دیکھ بھال ہو رہی ہے اور وہ اکیلے نہیں ہیں۔
سچ ہے وقت گہرے زخموں کو مندمل کر دیتا ہے ، اس زخم کو مندمل ہونے میں بھی وقت لگا۔ امی سیدھی سادی عورت تھیں، زمانے کی چالاکیوں کو نہ جانتی تھیں۔ وہ ہم سب بچوں سے یکساں پیار کرتی تھیں۔ ہم اسکول سے لوٹتے تو کھانا کھا کر بکریاں چرانے کھیتوں کو نکل جاتے۔ ہمارا بچپن تھا، آپس میں کھیل کود کر خوش رہتے تھے لیکن شاہ بانو اولاد کیلئے ضرور تڑپتی ہوں گی۔ ایک روز ہم اسکول سے لوٹتے تو پتا چلا کہ چچا نے دوسری شادی کر لی ہے اور نئی بیوی کو گھر لے آئے ہیں۔ اس کا نام دلشاد تھا۔ دراصل چچا شادی سے قبل ہی اس خاتون کے عشق میں گرفتار ہوئے تھے۔ دادی نے ان کی نہ چلنے دی اور شاہ بانو سے زبردستی شادی کرادی۔ ادھر دلشاد کی بھی اپنے کزن سے شادی ہوگئی۔ چچا مگر اس عورت کو نہ بھلا سکے۔ بدقسمتی سے دلشاد کو اس کی شادی کے دو سال بعد طلاق ہو گئی تو وہ پھر سے ہمارے چچا سے ملنے لگی اور دونوں کے مراسم زیادہ گہرے ہو گئے۔ یہی وجہ تھی کہ شاہ بانو، چچا کو کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی۔ وہ دلشاد سے شادی کے خواہاں تھے لیکن دادی اور چار بچے راہ کی رکاوٹ تھے۔ دادی کی وفات کے بعد یہ رکاوٹ نہ رہی۔ چچانے بیوی کو طلاق دے کر دلشاد سے نکاح کر لیا کیونکہ دلشاد کی یہی شرط تھی پہلے بیوی کو طلاق دو تبھی شادی کروں گی۔ یوں بیچاری شاہ بانو کا گھر اجڑا۔ یہ قصہ بعد میں ہم کو معلوم ہوا اور چچی کی طلاق کا عقدہ کھل گیا۔ اب ہم بھی سیانے ہو گئے تھے۔ نئی چچی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی لیکن والدہ نے سختی سے ہدایت کی تھی کہ تم لوگوں نے نئی چچی کی بھی عزت کرنی ہے اور کبھی چچا کو اس بارے شکایت کا موقع نہ دینا۔ تبھی ہم چپ رہتے حالانکہ وہ اپنے سوتیلے بچوں سے اچھا سلوک نہیں کرتی تھیں۔ اس بات کا غم تھا، مگرچچا سے کہہ نہیں پاتے تھے۔ میں ابھی چار سال کی تھی جب ابو نے میری منگنی اشعر سے کر دی تھی۔ ہم ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ ابو اسکول ٹیچر تھے اور چچا کا اپنا کاروبار تھا۔ وہ زیادہ خوشحال تھے تبھی میرے والد اپنے چھوٹے بھائی کے آگے بول نہیں سکتے تھے۔ نئی چچی اپنے شوہر کے سامنے ان کے بچوں سے پیار جتاتی لیکن جب وہ گھر پر نہ ہوتے ان پر بڑا ظلم ڈھاتی ۔ سب کو مارتی اور گھر سے نکال دیتی جس کی وجہ سے یہ سب ہماری امی کے پاس نچلی منزل میں آجاتے اور ہمارے ساتھ کھانا کھاتے۔ ہمارے گھر ہی سو جاتے۔ وہ اوپر اپنے گھر جانے سے کتراتے تھے۔ ان کا گھر دور تو نہ تھا لیکن وہ کئی کئی روز اوپر نہ جاتے۔
اب میری عمر چودہ سال تھی اور میں نویں میں پڑھتی تھی جبکہ چھوٹی بہن ماریہ بارہ سال کی ہو گئی تھی۔ میرا چچا زاد اشعر بہت اچھا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کا مزاج اور رویہ بدلنے لگا۔ منہ پھٹ اور بد تمیز ہو گیا، خاص طور پر اپنی سوتیلی ماں کو جواب دیتا تو وہ شوہر سے شکایت کر کے اسے پٹواتیں۔ بچپن میں تو ایسی باتوں کی سمجھ نہیں ہوتی۔ ہوش سنبھالا تب احساس ہوا کہ اشعر کا رویہ درست نہیں۔ اس سے خوف کھانے لگی اور دور دور رہنے لگی۔ اپنی حرکتوں کی وجہ سے اس نے گھر کا سکون برباد کر نا شروع کر دیا تھا، شاید یہ اس امر کا ردعمل تھا جو کچھ اس کے والد نے اپنی اولاد کے ساتھ کیا۔ خاص طور پر ان کی حقیقی ماں کو ان سے دور کر دیا تھا۔ اشعر سب سے بڑا ہونے کے سبب زیادہ حساس ہو گیا تھا جبکہ اس کا چھوٹا بھائی ظفر بہت اچھا، نیک اور شریف لڑکا تھا۔ وہ مجھ سے ایک برس چھوٹا تھا لیکن میرے برابر لگتا، تبھی میری اس کے ساتھ دوستی ہو گئی اور میں اشعر کی بجائے ظفر کو پسند کرنے لگی۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے ہم پر کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ ایک تو ہم ابھی چھوٹے تھے، پھر میری والدہ کی محبت پانے سے ہم سب ایک ہی آنگن میں کھیلتے تھے۔ شام کو جب ہم بکریاں چرانے جاتے تو اشعر ساتھ جانے سے انکار کر دیتا۔ سب بچے وہاں کھیل میں لگ جاتے لیکن میں اور ظفر پیار بھری باتیں کرتے تھے۔ یہ احساس ہی نہ تھا کہ میری نسبت اشعر سے ہے ، اس لحاظ سے ظفر میرا دیور بنے گا اور مجھے اس کے ساتھ پیار کا رشتہ نہیں جوڑنا چاہئے۔ بچپن نادان اور لڑکپن لاپروا ہوتا ہے۔ اشعر کی کچھ برے لڑکوں سے دوستی ہو گئی۔ وہ پڑھائی سے بھاگنے لگا اور زیادہ وقت باہر گزارنے لگا۔ اس پر چچا آئے دن اس کی پٹائی کرتے تھے۔ اس نے میٹرک کا امتحان دیا اور فیل ہو گیا۔امی ابو کو بہت دکھ ہوا کیونکہ وہ تو اسے داماد بنانے کا ارادہ کر چکے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ میری شادی اشعر سے تو ماریہ کی ظفر سے کر دیں گے۔ اس طرح گھر کی لڑکیاں گھر میں رہیں گی۔
والدین جو سوچتے ہیں، بچوں کو اس سے غرض نہیں ہوتی۔ وہ تو اپنے جذبات کے تابع ہوتے ہیں۔ میں اور ظفر دل ہی دل میں ایک دوسرے سے پیار کرنے لگے ۔ یہ خیال کئے بنا کہ ہمارے اس پیار کا انجام کیا ہو گا۔ اب میں روز ماریہ کو رخسانہ اور اپنے بھائی ناصر کے ساتھ بکریاں چرانے بھیج دیتی اور کہتی کہ مجھے اور ظفر کو اسکول کا کام کرنا ہے ۔ ہم ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے، تبھی امی ہم کو کچھ نہ کہتیں یہ سوچ کر کہ انہوں نے امتحان کی اکٹھے تیاری کرنی ہو گی۔ امی ان کو بکریاں چرانے بھیج دیتیں۔ کہتیں خیال رکھنا کسی کی فصل میں نہ چلی جائیں اور ان کو پڑھائی کرنے دو۔ میں ظفر سے کہتی تھی۔ کاش ! میری منگنی تم سے ہوئی ہوتی۔ اب اشعر سے کیسے منگنی ختم ہو گی اور ہماری شادی کیسے ہو گی ؟ وہ جواب دیتا۔ تم فکر نہ کرو، میں ذرا بڑا ہو جائوں تو خود تمہاری امی سے بات کر لوں گا۔ ان کو کہہ دوں گا کہ وہ میری شادی تم سے کر دیں اور ماریہ کی اشعر سے کردیں کیونکہ ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ ماریہ کی شادی اگر اشعر سے ہو جائے گی اور میری تم سے تو کیا فرق پڑے گا۔ فی الحال اس بات کو ظاہر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہم ابھی پڑھ رہے ہیں۔ تعلیم مکمل کر لیں گے تو کچھ بات کر سکیں گے ، ورنہ تو گھر میں الجھنیں جنم لیں گی۔ ہم نے میٹرک کا امتحان دیا اور دونوں پاس ہو گئے۔ اشعر نے پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ چچا اسے اپنے ساتھ دکان پر لے جاتے تاکہ قابو میں رہے اور آوارہ نہ پھرے، مگر وہ دل ہی دل میں باپ سے نفرت کرنے لگا تھا۔ جب موقع ملتا والد سے جھوٹ بول کر دکان سے نکل آتا اور آوارہ دوستوں سے جاملتا۔ اس نے دکان سے پیسے بھی چرانے شروع کر دیئے تھے۔ ایک روز چچا کو پتا چلا کہ وہ اپنی ماں سے چوری چھپے ملتا ہے اور رقم چرا کر وہ پیسے شاہ بانو کو دے آتا ہے حالانکہ یہ صحیح نہ تھا۔ وہ ماں سے ضرور ملتا تھا لیکن رقم شاہ بانو کو نہیں دیتا تھا بلکہ اپنے دوستوں پر خرچ کرتا تھا۔ چچا، اشعر کی طرف سے پریشان تھے کہ اس کا کیا بنے گا۔ دکان سے بھی ہٹالیا کہ روز چوریاں کرے گا تو کاروبار کو ہی ڈبودے گا۔ اشعر کو پیسے چرانے کا چسکا پڑ گیا تھا۔ اس نے اپنے چند بدمعاش قسم کے دوستوں کو ساتھ ملا لیا اور اپنے والد ہی کی دکان میں نقب لگائی۔ چچا کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ خود ان کا اپنا فرزند ان کی دکان میں چوری کرا سکتا ہے۔ انہوں نے پولیس میں رپٹ لکھوائی اور پولیس نے تفتیش کی تب پتا چلا کہ چوروں میں اشعر بھی شامل ہے۔ جب پولیس اس کو گرفتار کرنے آئی، والد اور چچا دونوں گھر نہیں تھے اور اشعر چوک میں اپنے دوستوں کے پاس بیٹھا تھا۔ پولیس اشعر کو گرفتار کر کے لے گئی۔ ابو اور چچا دوڑے تھانے گئے۔ بہرحال چچا نے بیٹے کو چھڑوا لیا، اسے جیل نہ ہونے دی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اشعر شرمندہ ہوتا اور زیادہ اس کا حوصلہ بڑھ گیا۔ وہ اپنے گروہ کے ساتھ گائوں میں چھوٹی موٹی چوری چکاری کرنے لگا۔
چچانے ابو سے کہا کہ اس کی شادی کر دیتے ہیں۔ یہ شادی کے بعد سدھر جائے گا۔ ابو پریشان تھے کہ کیا کریں۔ بھائی کی مانیں اور بیٹی کو جانتے بوجھتے کنویں میں دھکا دے دیں یا انکار کر دیں۔ دوسری صورت میں خاندان کا شیرازہ بکھرنے کا امکان تھا۔ اگر میری اشعر سے شادی نہ کرتے تو ماریہ کی بھی ظفر سے نہ ہوتی اور نادرہ اور رخسانہ کی شادیاں بھی میرے بھائیوں سے نہیں ہو سکتی تھیں۔ گویا ایک میری قربانی دے کر والد اپنے خاندان کو ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچا سکتے تھے۔انہوں نے والدہ سے مشورہ کیا۔امی نے کہا کہ اشعر فطرت کا برا نہیں ہے ، حالات نے اس کو ذہنی انتشار میں مبتلا کر دیا ہے۔ اگر وہ سگی ماں کے پاس چلا جائے تو مجھے امید ہے صحیح ہو جائے گا۔ والدہ کے کہنے پر ابو میری شادی اشعر سے کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ جب مجھے اور ظفر کو اس بات کا علم ہوا ہم دونوں بہت پریشان ہوئے۔ میں تو اسے سچے دل سے چاہنے لگی تھی۔ اشعر سے نفرت کرتی تھی۔ میں نے ظفر سے کہا کہ مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔ میں چاہتی تھی کسی طرح ابو کو اس اقدام سے روکیں۔ ظفر نے کہا۔ جو کہنا چاہتی ہو، کہو؟ گھر میں نہیں، بکریاں لے جانے کے بہانے کھیت میں چلتے ہیں ، وہاں بات کریں گے۔ میں اور ظفر بکریاں چرانے کے بہانے کھیت میں چلے گئے اور ایک پتھر پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ جب ہم باتیں کر رہے تھے ہم کو خبر نہ تھی کہ ہماری باتیں کوئی شخص سن رہا ہے ۔ وہ اشعر کا دوست تھا۔ اس لڑکے نے جاکر اشعر کو بتایا کہ تمہاری منگیتر تمہارے چھوٹے بھائی کے ساتھ ندی کنارے بیٹھی پیار کی پینگیں بڑھارہی ہے اور تم کہتے ہو کہ تمہاری آج کل میں اس کے ساتھ شادی ہونے والی ہے۔ میں نے ان کی پیار بھری باتیں ابھی ابھی اپنے کانوں سے سنی ہیں۔ یقین نہی یقین نہیں ہے تو نا نہیں ہے تو خود چل کر دیکھ لو۔اس بات کا سننا تھا کہ جذباتی اشعر آپے سے باہر ہو گیا۔ اس نے دوست سے چھرا لیا اور دوڑتا ہوا کھیت میں اس جگہ آگیا جہاں ہم دونوں بیٹھے اپنے مستقبل کے بارے میں رو دھو رہے تھے۔ اس نے آئو د یکھانہ تائو ، چھرے سے ظفر پر حملہ کر دیا۔ اس خوفناک منظر کی تاب نہ لاکر میں تو وقوع سے بھاگ کھڑی ہوئی اور بکریوں کے باڑے میں جا چھپی ۔ آدھ گھنٹے تک وہاں ہی چھپی رہی۔ خوف سے میرا لہو خشک تھا اور مجھ میں ہلنے جلنے کی سکت نہ رہی تھی۔
کچھ دیر بعد جب پولیس کی گاڑیوں کی آواز سنی اور لوگوں کا شور کانوں میں پڑا تو مجھے ہوش آیا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ افسوس بھائی نے بھائی کو مار دیا اور پولیس اشعر کو پکڑ کر لے گئی۔ ہمت کر کے کسی طرح میں گھر میں گھسی لیکن وہاں تو کہرام مچا تھا اور کسی کو دھیان نہ تھا کون کہاں ہے۔ گھر والوں کو کچھ پتا نہ تھا کہ میں کہاں تھی اور کب گھر آئی ہوں اور یہ کہ اشعر نے کیوں ظفر پر چھرے سے حملہ کیا۔ یہ بات اشعر نے بھی کسی کو نہ بتائی کہ اس نے کس وجہ سے اپنے بھائی پر حملہ کیا۔اس نے پولیس کو یہ بیان دیا کہ جب میں نے والد کی دکان میں چوری کروائی تھی تو ظفر نے میرے والد کو میرے دوستوں کے نام بتائے تھے جس کی وجہ سے ہم پکڑے گئے تھے۔ مجھے اپنے بھائی سے اس بات کی رنجش تھی۔ میں نے بھی خوف سے نہیں بتایا کہ جب اشعر نے ظفر پر حملہ کیا میں وہاں موجود تھی اور اپنی آنکھوں سے اس نے ظفر پر وار کرتے دیکھا تھا۔ مجھے تو زندگی کے ساتھ ساتھ اپنی عزت بھی مطلوب تھی۔ راز تو راز ہی رہا لیکن میرے دل پر ایسا گھائو پڑا جو آج تک ہرا ہے۔ ظفر جس سے میں پیار کرتی تھی، قتل ہو کر منوں مٹی تلے جا سویا۔ اشعر کو جیل ہو گئی۔ اس واقعے کے چار سال بعد میری شادی میرے خالہ زاد اور ماریہ کی شادی ابو کے ایک کزن کے بیٹے سے ہو گئی ۔ والد نے رخسانہ اور نادرہ کا بھی رشتہ نہ لیا کیونکہ وہ دونوں ظفر کے قتل کے بعد اپنی حقیقی والدہ کی تحویل میں چلی گئی تھیں۔ والد نے کچھ رقم چچا سے لے کر بستی میں ایک چھوٹا سا گھر خرید لیا اور چچا سے علیحدہ رہنے لگے۔ ہمارے گھر میں اب چچا اور ان کی چہیتی بیوی دلشاد رہتے ہیں کہ جس عورت کے کارن میرے چچا کے بچے در بدر ہو گئے اور ہم بھی اپنے آبائی گھر کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ، وہ ہماری جنت کی مالک ہے۔ سچ ہے کہ عشق کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے جیسا کہ ہمارے چچا کے عشق کے باعث ہوا۔ ان کا عشق بے شک ان کیلئے باعث راحت ہو گا، باقی سب کیلئے تو باعث عبرت ہی ثابت ہوا۔