Sunday, April 27, 2025

Ik Baar Qadam Bhatkey Tu | Teen Auratien Teen Kahaniyan

آج اپنے اکلوتے بھائی کی کہانی لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ دعا کرتی ہوں کہ جو ہمارے ساتھ پیش آیا ہے کبھی کسی کے ساتھ پیش نہ آئے۔

آذر میرا اکلوتا بھائی تھا۔ اسے پڑھائی کا جنون کی حد تک شوق تھا، جبکہ والد صاحب کی چشموں کی دکان تھی اور وہاں ان کو ایک معاون کی ضرورت تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ آذر کو اپنے ساتھ کاروبار میں لگالیں۔ ان دنوں ہم کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔

ابو بار بار ایک ہی بات کہتے تھے کہ بیٹے تو باپ کا بازو ہوتے ہیں۔ میں بس رزلٹ تک کا انتظار کررہا ہوں۔ آذر میٹرک کرلے تو پھر اسے دکان پر اپنے ساتھ بٹھالوں گا کہ ایک، اکیلا جبکہ دو، گیارہ ہوتے ہیں۔

بمشکل گزارہ ہورہا تھا کیونکہ دکان اپنی نہ تھی، اس کا کرایہ بھی دینا ہوتا تھا۔ آئے دن ہڑتالوں کی وجہ سے اکثر دکان بند ہوجاتی تو آمدنی پر منفی اثر پڑتا تھا۔ اسی وجہ سے والد صاحب دکان پر اپنی معاونت کے لئے ملازم نہیں رکھ پا رہے تھے۔

آذر ہم سب کو دل و جان سے عزیز تھا۔ وہ ایک ہونہار طالب علم تھا۔ جیسا کہ میں نے کہا اسے پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ کلاس میں اول آتا تھا اور اس کے عزائم بہت بلند تھے، پڑھ لکھ کر کچھ بننا اس کی زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا۔

بے شک وہ ماں کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور تھا لیکن والد صاحب کو اپنے بزنس میں اس کی اشد ضرورت تھی، جبکہ ہم بہنوں کی تمام امیدیں اس سے وابستہ تھیں۔ ہم اس کو ڈاکٹر، انجینئر یا کسی اعلیٰ افسر کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھیں۔

جب رزلٹ آیا۔ آذر ضلع بھر میں اول پوزیشن پر تھا، اس کی اور ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ، نہ تھا۔ اعلیٰ تعلیم کے دروازے اس پر کھل گئے تھے۔ وہ جس کالج میں چاہتا داخلہ لے سکتا تھا، مگر کہتے ہیں نا کہ کبھی کبھی والدین ہی اولاد کی آرزوئوں کے قاتل بن جاتے ہیں۔ میرے والد صاحب کی آنکھوں پر بھی پردہ پڑگیا۔ دن رات انہوں نے بس ایک رٹ لگادی کہ آذر کو آگے نہیں پڑھانا ہے کہ آج کل کے حالات بہت خراب ہیں، خاص طور پر کالجوں کے حالات ایسے نہیں رہے کہ جہاں بچے اور ان کا مستقبل محفوظ ہوں۔ لہٰذا ہرگز میں آذر کو اس پرآشوب ماحول میں امتداد زمانہ کے سپرد نہیں کرسکتا۔

والد کی ادھر یہ ضد تو ادھر آذر کی شدید تمنا کہ کسی اچھے کالج میں داخلہ لوں، انجینئر بنوں، اسکالر شپ ملے تو اس سے فائدہ حاصل کروں۔

باپ بیٹے کے نظریات میں اس قدر تضاد اس بنا پر بھی تھا کہ ابو خود پڑھے لکھے نہ تھے۔ وہ تعلیم کی اہمیت سے زیادہ بزنس کو اہم سمجھتے تھے، ان کے خیال میں اول درجہ کے ہونہار اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکے ڈگریاں اٹھائے حصول ملازمت کی خاطر مارے مارے پھر رہے تھے، جبکہ دکان داری عزت سے روٹی کمانے کا ایک ذریعہ تھا۔ یوں باپ بیٹے میں ٹھن گئی۔

لاکھ منت سماجت کرنے کے والد صاحب نے آذر کو کالج میں داخلے کی اجازت نہ دی اور روز صبح بیدار کر کے اپنے ساتھ دکان پر لے جانے لگے۔ باپ کے جبر سے وہ دکان پر چلا جاتا مگر وہاںکام میں اس کا جی نہ لگتا، جس پر ابو اسے روز ہی لعنت ملامت کرتے کہ نکما کام چور ہے۔ اس کا جی روزی کمانے میں نہیں ہے۔ خدا جانے ہمارا کیا بنے گا۔

کسی کے ناپسندیدہ رویے کو ایک حد تک کوئی برداشت کرتا ہے۔ آخر بھائی کا دل ہر شے سے اچاٹ ہوگیا، پھر وہ نہ ہمارا رہا اور نہ ہی اپنا رہا۔

جن دنوں اس نے میٹرک پاس کیا تھا اس کی عمر اٹھارہ برس تھی۔ ایک دن ابو نے اسے دکان پر لے جانے کے لئے جگایا تو اس نے چارپائی چھوڑنے سے انکار کردیا۔ اس نے کہا آج میری طبیعت خراب ہے، پیٹ میں شدید درد ہے، رات بھر جاگتا رہا ہوں۔ دوا لے آئوں گا تو خود دکان پر آجائوں گا۔ ابو حسب معمول آذر کو بہانہ باز کام چور کہتے ہوئے بکتے جھکتے دکان پر چلے گئے۔

ان کے جانے کے بعد آذر نے امی سے ناشتا مانگا۔ جس پر ہم کو پتہ چل گیا کہ وہ واقعی بہانہ بنارہا تھا، وہ بالکل ٹھیک تھا۔ ناشتا کرنے کے بعد والدہ کو پیار کیا اور خدا حافظ کہہ کر گھر سے نکل گیا۔

امی نے یہی سمجھا کہ دکان پر جارہا ہے لیکن وہ وہاں نہیں گیا بلکہ اپنے ایک دوست کے پاس چلا گیا۔ جس کا نام سلیم تھا اور جو بھائی کا ہم جماعت تھا۔ سلیم کالج میں داخلہ لے چکا تھا۔ وہ اکثر آذر سے کہتا تھا یار اپنے والد کی نہ سنو اور کالج میں داخلہ لے لو۔ زندگی برباد مت کرو، یہ وقت پھر لوٹ کر نہ آئے گا۔ اتفاقاً اس روز کالج کی چھٹی تھی اور سلیم گھر پر تھا۔ جب آذر وہاں گیا تو سلیم کے پاس اس کا ایک کلاس فیلو بیٹھا ہوا تھا، اس کا نام نادر تھا اور کالج میں نیا نیا ہی سلیم کا دوست بنا تھا۔

اس کے سامنے آذر اور سلیم میں گفتگو ہونے لگی۔ آذر نے اپنے مسئلے کو نادر کے سامنے بیان کیا اور سلیم نے بھی بتایا کہ یہ ہونہار لڑکا جو ضلع بھر میں اول پوزیشن لے چکا ہے، باپ کی ضد سے تعلیم سے محروم ہوگیا ہے۔ یہ دکان داری نہیں کرسکتا، اس کا دل دکان میں نہیں لگتا، تبھی اس قدر پریشان ہے۔

نادر نے کہا… یار آذر کاش تم پہلے مجھ سے مل لئے ہوتے، خیر اب بھی دیر نہیں ہوئی تم چلو میرے باس کے پاس۔ وہ بہت اعلیٰ انسان ہے، تم جیسے ہونہار طالب علموں کو پناہ دینا ان کو پڑھانا اور رہائش وغیرہ کا تمام ذمہ اٹھانا اس کا شوق ہے۔ تمہارے والد کو بھی وہ خود سمجھالیں گے۔ اتنی بات سلیم کے سامنے ہوئی اور آذر، نادر کے ہمراہ نہ جانے کہاں چلاگیا۔

کوئی نہیں جانتا تھا کہ میرا بھائی اس اجنبی پر بھروسہ کرکے کتنی بڑی بھول کرگیا ہے۔ اس نوجوان کا تعلق خدا جانے کس قسم کے لوگوں سے تھا کہ جو اسے ہم سے اور تعلیم سے بھی بہت دور لے گئے۔

شروع میں ابو نے خوب شور وغوغا کیا، مار دھاڑ مچائی، مگر بھائی پر کچھ اثر نہ ہوا، جیسے کہ اسے اپنی منزل مل گئی ہو، باپ کا خوف بھی اس کے دل سے جاتا رہا۔ اب وہ اکثر بغیر بتائے غائب ہوجاتا۔ کہاں جاتا تھا کسی کو بھی نہ بتاتا تھا۔

دوسال تک وہ ہم گھر والوں سے دور رہا۔ اس کے ساتھی کون تھے۔ اس سوال کا جواب وہ نہیں دیتا تھا، بس یہی کہتا تھا کہ میری زندگی کا ایک مقصد ہے اور اپنے مقصد کے لئے وقف ہوگیا ہوں۔ دراصل وہ کچھ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن گیا تھا جو اس کو اپنے کسی مقصد کے لئے استعمال کررہے تھے۔

بتا نہیں سکتی ان دنوں امی جان کتنی پریشان رہتی تھیں۔ وہ رات دن جائے نماز پر بیٹھی بھائی کے لئے دعاگو رہتی تھیں۔ اللہ نے ایک دن ان کی دعا سن لی۔ چار ماہ بعد آذر لوٹ کر گھر آگیا۔ آتے ہی ماں کے قدموں پر سر رکھ دیا اور بولا۔

امی جان دعا کیجئے اگر میں غلط سمت میں سفر کررہا ہوں تو جو راہ سیدھی ہے، خدا مجھے اس پر لے آئے ورنہ شہید ہوجائوں، اب میں اس سفر سے تھک گیا ہوں۔ ماں تو ماں ہوتی ہے، جہاں ابو بیٹے کو دیکھ کر منہ پھیر لیتے تھے وہاں ماں نے گلے سے لگالیا اور پیار کیا، سر اور ماتھا چوما اور کہا۔

بیٹے انشاء اللہ تم سیدھے رستے پر چلوگے اور تم پر اللہ کی رحمت ہوگی۔ یوں لگتا تھا میری ماں کی دن رات کی دعائیں رنگ لے آئی تھیں کہ آذر نے اب گھر سے نکلنا چھوڑ دیا تھا اور وہ گھر میں محصور ہو کر بیٹھ گیا تھا۔ ابو جان اسے منہ نہ لگاتے تھے اور لاتعلقی اختیار کرلی تھی۔ جبکہ امی کبھی کبھی اپنے شریک حیات سے شکوہ کر بیٹھتی تھیں کہ میرے ہونہار بچے پر تعلیم کے دروازے بند کرکے اسے اس حال تک پہنچانے والے، تم ہی ذمہ دار ہو اس کی ذہنی تباہی کے، کاش تھوڑی سی رقم خرچ کرکے اسے کالج میں داخلہ دلوادیتے تو آج نہ جانے وہ کہاں ہوتا۔

اس پر والد صاحب جواب دیتے کہ تم کو اور تمہارے بیٹے کو میرے بڑھاپے پر ترس نہیں آتا۔ مکان اور دکان کا کرایہ دے کر میرے پاس اسی قدر بچتا ہے کہ مہینے کا راشن پورا ہوجائے۔ لڑکیاں گھر میں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے بن بیاہی بیٹھی ہیں اور اس نکمے کو باپ کی مجبوریوں کا ذرا سا بھی احساس نہیں۔ خدا جانے کن آوارہ دوستوں کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے کہ ہماری تو الگ بات، خود اپنا بھی اسے ہوش نہیں ہے۔

ایک دن میں نے آذر کی منت کی کہ بھیا خدارا اب تم پڑھائی ہی کرلو… ایسے بیکار گھر میں بیٹھے رہنے سے تو ذہن کو زنگ لگ جاتا ہے۔ میری منت سماجت کا اس کے دل پر اثر ہوا۔ اور وہ کالج میں داخلہ لینے پر آمادہ ہوگیا۔ ہم لوگ متوسط طبقے کے علاقے میں رہائش پذیر تھے لیکن پھر ہمارے علاقے کے حالات خراب ہوگئے تو والد صاحب نے اپنی دکان سے نزدیک اچھے علاقے میں مکان کرایہ پر لے لیا۔

یہ مکان ہمارے لئے مبارک ثابت ہوا۔ والد صاحب کی آمدنی پہلے سے بہتر ہوگئی، اب مالی پریشانیاں کچھ کم ہوئی تھیں کہ ایک بار پھر آذر کے دوستوں نے در کھٹکھانا شروع کردیا، انہوں نے پرانے محلہ دار سے نئے مکان کا ایڈریس معلوم کرلیا تھا۔ اب جب کوئی دروازے پر دستک دیتا تھا، بھائی منع کردیتا تھا کہ کہہ دو آذر گھر پر نہیں ہے۔ تبھی مجھے یقین آگیا کہ میرے بھائی نے وہ راہ ترک کردی ہے، جس پر چل کر وہ گھر بار، ماں باپ اور بہنوں سے بیگانہ ہوگیا تھا۔ مجھے خوشی تھی کہ اس کی پراسرار سرگرمیاں جوکہ ہماری نگاہوں سے اوجھل تھیں، اب نہیں رہی ہیں۔

آذر بھائی نے کوئی ایسا کام نہ کیا تھا جس کی وجہ سے کوئی ان کو مجرم ٹھہراتا لیکن جب انہوں نے بار بار بلانے کے لئے آنے والوں سے ملنے سے انکار کردیا تو ایک دن پولیس گھر پر آگئی، پتہ چلا کہ ان کے خلاف کوئی کیس درج ہوگیا ہے۔

کس الزام میں؟ یہ کسی نے نہ بتایا، پولیس والوں نے بھی نہ بتایا۔ امی نے ابو سے کہا آپ جائیے تو سہی معلوم کریں آخر وہ لوگ کس جرم میں میرے بیٹے کو لے گئے، اس پر میرے سخت دل باپ نے کہا۔ کیا اب دکان کو بھی تالا لگانا ہے، اگر دکان کو تالا پڑگیا تو پھر کھائیں گے کہاں سے؟ میں روزی کمائوں یا دن رات پولیس تھانے کے چکر کاٹوں۔ مجھ سے یہ نہیں ہوگا، اوپر سے پولیس کو بھاری رشوتیں بھرنا بھی میرے بس کی بات نہیں ہے۔ جیب پہلے کون سی بھری ہوئی ہے جو اب میں اس نالائق کو چھڑوانے تھانے جائوں، بس جو جیسا کرے گا ویسا بھرے گا۔

پھر سنا کہ انہی لوگوں نے بھائی کو چھڑالیا ہے جنہوں نے تھانے میں بند کرایا تھا۔ اب وہ پھر سے سارا دن ساری رات گھر سے باہر رہتے تھے، آخر ماں کے آنسو ان کو کھینچ ہی لائے اور میں نے ہاتھ جوڑے کہ بھائی ہر حال کسی طرح تعلیم مکمل کرو اور علم کا دامن تھام لو۔

وہ پھر سے کالج جانے لگے لیکن اب ہم جماعت ان سے کنی کتراتے تھے ہر کوئی دور رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ ہم جماعتوں کے اس رویہ کو ان کی ایک پروفیسر خاتون نے محسوس کیا جس کا نام کرن تھا اور جو کرن بن کر میرے بھائی کی زندگی میں در آئی تھی۔ میڈم نے کلاس کو سمجھایا کہ آذر سے آپ لوگوں کا ایسا رویہ درست نہیں، سنی سنائی باتوں پر دھیان نہ دیں، یہاں سبھی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں اور حیثیت میں سبھی برابر اور اہم ہیں۔

ایک دن کسی کوتاہی پر میڈم کرن نے آذر کو اپنے آفس میں الگ بلا کر ڈانٹا اور خوب برا بھلا کہا مگر وہ خاموش رہا، سرجھکائے ان کی ڈانٹ ڈپٹ سنتا رہا۔

آذر کسی کی اتنی ڈانٹ ڈپٹ سننے والا نہ تھا، مگر جانے اس صاحبہ میں ایسی کیا بات تھی کہ برا منانے کی بجائے میرا بھائی اپنی اس پروفیسر صاحبہ کی بے حد عزت کرنے لگا۔ اب جو بھی میڈم کرن کہتیں، اس حکم کو آذر بلاچوں چرا مان لیتا۔ ظاہر ہے کہ یہ خاتون میرے بھائی کی اصلاح چاہتی تھی، تبھی اچھائی کی طرف راغب کرتی تھیں۔

میڈم کرن کی وجہ سے آذر تعلیم کی طرف منہمک ہوا۔ وقت کے زیاں سے دور رہنے لگا۔ تبھی میڈم کرن بھی میرے بھائی سے ایک ماں کی طرح پیار کرنے لگیں۔ آذر پوری طرح بدل گیا، ہر وقت پڑھائی اور اکثر کلام پاک کو ترجمہ سے پڑھتا تھا، جس سے اسے سکون قلب حاصل ہوتا تھا۔ ہم سب بہت خوش تھے، وہ ابو سے بھی ادب سے جھک کر بات کرتا اور ان کے پیروں پر ہاتھ رکھ دیا کرتا تھا۔ اسی وجہ سے ابو نے اس کی کوتاہیوں اور نادانیوں کو معاف کردیا۔

امی کہتی تھیں میڈم کرن ٹیچر نہیں فرشتہ ہیں جس نے میرے بیٹے کو پھر سے نیکی اور تعلیم کے رستے پر ڈال دیا ہے۔ جو پہلے علم کا دیوانہ تھا پھر بھٹک گیا، پراسرار ہوگیا، گھر والوں سے کوئی غرض نہ رکھتا تھا۔ کوئی سمجھاتا تھا تو کہتا تھا کہ تعلیم میں کیا رکھا ہے؟ استاد کیا پڑھاتے ہیں۔ سب بیکار ہے۔ بس دولت کمانی چاہئے، چاہے کسی سے چھین لینی پڑے۔

ایسی باتیں اب وہ نہیں کرتا تھا بلکہ اپنی کہی ہوئی باتوں پر شرمندہ ہوتا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم محنت کرنا نہیں چاہتے، شارٹ کٹ اختیار کرنا چاہتے ہیں، ورنہ سچ بات یہ ہے کہ آج بھی محنت میں عظمت ہے اور کتابیں ہمیں انسان بناتی ہیں۔ استاد آج بھی اچھے ہوسکتے ہیں۔ اگر ہم ان کی عزت کریں۔

ایک دن آذر بھائی کالج گئے تو ان کی ایک طالبہ سے مڈبھیڑ ہوگئی جس کا نام علینہ تھا۔ وہ حسن کا پورا چاند تھی، جو میرے بھائی کی نظروں میں سما گیا۔ آذر نے اس سے پہلے کبھی کسی لڑکی میں دلچسپی نہیں لی تھی لیکن اب وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ زندگی کے نئے خوابوں میں کھوگیا۔

وہ اس لڑکی سے فون پر گھنٹوں باتیں کرتا۔ کلاس میں بھی دونوں کا جھکائو ایک دوسرے کی طرف تھا۔ میڈم کرن نے بھی ان کی آپس میں گہری دلچسپی کو محسوس کرلیا۔ تبھی ایک روز انہوں نے آذر کو اپنے آفس میں بلاکر سمجھایا کہ اپنی پڑھائی کی طرف دھیان دو اور توجہ مقصد سے نہ ہٹائو، ورنہ زندگی کو روشن نہ بناپائو گے۔ یاد رکھو اگر پرنسپل صاحب کو شک ہوگیا کہ تم دونوں کالج میں ایک دوسرے میں دلچسپی لیتے ہو تو وہ تم دونوں کو کالج بدر بھی کرسکتے ہیں، سو چو تو پھر تمہارا کیا ہوگا؟ زندگی بنانے کا یہ تمہارا آخری موقع ہے۔ کیا تم اسے بھی کھونا چاہتے ہو؟

کرن ہی وہ ہستی تھی جس کی باتوں میں جادو کا اثر تھا، ورنہ آذر کسی اور کی بات کب سنتا تھا۔ اس بار بھی اس نے سرجھکا دیا اور کہا… میڈم جیسا آپ چاہیں گی ویسا ہی ہوگا۔ تبھی میڈم نے دلجوئی کی۔

آذر پہلے تم اپنا مستقبل روشن بنائو، اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائو۔ اس کے بعد میں خود علینہ کے والدین کے پاس تمہارے رشتے کے لے جائوں گی اور ان سے بات کروں گی۔ لیکن تم کو ایک وعدہ کرنا ہوگا کہ دل لگا کر پڑھوگے اور عشق و محبت کے چکر میں وقت ضائع نہ کروگے؟

بھائی نے اپنی محسنہ میڈم سے وعدہ کرلیا۔ اب وہ علینہ سے فون پر گھنٹوں باتیں نہیں کرتا تھا بلکہ ساری توجہ پڑھائی پر مرکوز کر رکھی تھی۔ انہی دنوں ہمارے محلے میں ایک گھر برائے فروخت ہوا، اتفاق سے علینہ کے والد کے دوست نے ان کو اس گھر کے بارے میں بتایا، انہوں نے یہ مکان خرید لیا اور یہ لوگ ہمارے قریب سکونت پذیر ہوگئے۔ ان کے اور ہمارے مکانات کے درمیان ایک خالی پلاٹ تھا، جہاں سے ان کا گھر صاف نظر آتا تھا اور قریب ہی ابو کا اسٹور تھا۔

بھائی نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ اب دکان پر بھی شام کو بیٹھنا شروع کردیا۔ وہ والد صاحب کو راضی رکھنا چاہتا تھا۔ تاکہ پسند کی شادی میں کوئی رکاوٹ نہ ڈال دیں۔ علینہ نے کافی بار شکایت کی کہ آذر تم مجھ سے دور ہوگئے ہو، اب تو بات بھی کرنا پسند نہیں کرتے، تب وہ جواب دیتا کہ میں میڈم کے لحاظ کی وجہ سے بات نہیں کرتا اور پڑھائی پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتا ہوں تاکہ میرا مستقبل روشن ہو اور میں تم کو عزت سے اپناسکوں۔ میڈم نے وعدہ کیا ہے کہ وہ خود تمہارا رشتہ میرے لئے تمہارے والدین سے طلب کرنے جائیں گی، بشرطیکہ میں نمایاں پوزیشن میں کامیابی حاصل کرلوں۔

میڈم کرن ہمارے گھر بھی کئی بار آئیں، وہ آذر بھائی کی وجہ سے آتی تھیں تاکہ باخبر رہیں کہ میرے بھائی کا رویہ اپنے گھر والوں سے کیسا ہے؟ میڈم کرن تو میرے بھائی کے لئے ماں اور بڑی بہن جیسا درجہ رکھتی تھیں۔ انہی کی خاطر عشق میں وقت ضائع کرنے کی بجائے وہ اب سب کچھ بھول کر پڑھائی میں لگ گیا تھا۔

کسی طرح اس گینگ کو پتہ چل گیا کہ آذر پڑھائی میں سنجیدہ ہے اور تعلیم میں آگے آگے جارہا ہے، تبھی ان لوگوں نے پھر سے آذر کا پیچھا کیا جو کیس انہوں نے ڈالا تھا وہ ابھی تک پڑا ہوا تھا۔ میرے بھائی کو دوبارہ اسی کیس میں گرفتار کرلیا گیا۔ مگر آذر مطمئن تھا وہ کہتا تھا میں بری ہوجائوں گا کیونکہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا، بس یہ لوگ مجھ کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں اور میں ان کا ساتھ اب چھوڑچکا ہوں۔

ان کے گروپ میں شامل رہنا نہیں چاہتا، مجھ سے اسی وجہ سے پرخاش رکھتے ہیں۔ معاملہ کی تحقیق ہوگی، میں بے گناہ ثابت ہوجائوں گا۔

بھائی کو اگر غم تھا تو یہ کہ حوالات جانے کی وجہ سے ایک تو تعلیم متاثر ہو جائے گی، اگر کسی نے پرنسپل کو خبر کردی تب اسے کالج سے بھی نکال دیا جائے گا، دوسرے یہ کہ علینہ کے گھر والے اسے بیٹی کا رشتہ دینے سے کترائیں گے۔

ہوا بھی ایسا ہی، ادھر کسی نے پرنسپل کو مخبری کردی لہٰذا وہ کالج سے باہر ہوگیا۔ دوسری جانب علینہ کے والدین نے رشتہ سے انکار کردیا اور اس کی شادی کسی اور جگہ کردی گئی۔

ان حالات سے آذر پر قیامت ٹوٹ پڑی، گرچہ بے گناہ قرار دے کر اسے رہائی مل گئی لیکن جو نازنین اس کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی تھی وہ ہمیشہ کے لئے کسی اور کی ہوگئی۔

آذر تو اسی باعث محنت کررہا تھا اور دکان پر بھی بیٹھنے لگا تھا کہ والد کو منا کر علینہ کا ہاتھ مانگ لیں گے لیکن بے گناہ ہوکر بھی لوگ اسے مجرم جان رہے تھے، جبکہ وہ باعزت بری ہوگیا تھا، رہائی تو مل گئی مگر اب یہ رہائی کس کام کی۔ ایک بار اچھے چال چلن پر دھبہ لگ جائے تو پھر یہ دھبہ مر کر بھی دھویا نہیں جاسکتا۔

علینہ کیا کھوئی کہ میرے بھائی کا تو جیسے سب کچھ ہی کھو گیا۔ وہ ہر کسی سے خفا ہوگیا۔ میڈم کرن گھر آئیں تو ان سے بھی بات نہ کی۔ وہ اپنے آپ تک سے روٹھ گیا۔ دوبارہ ان لوگوں کے پاس چلا گیا جو پیسے کا لالچ دے کر بلاتے تھے اور بھائی ان کی ہر پیش کش کو ٹھکرادیا کرتا تھا۔ اب یہ سوچ کر گیا کہ جان جاتی ہے تو جائے اب کسی بات کی پروا نہیں، اس جان کی حفاظت اب کس کے لئے؟

ایک سال تک آذر گم رہا۔ امی رو رو کر اور ابو تلاش کرکے ہار گئے اس نے کسی سے رابطہ کیا اور نہ گھر لوٹا۔ ہم اس کی صورت دیکھنے کو ترس رہے تھے، خدا جانے وہ کہاں تھا اور کیا کررہا تھا؟

وہ دن ہم پر قیامت جیسے تھے، ہم جیتے تھے اور نہ مرتے تھے۔ ماں کا برا حال تھا اور ابو، امی کو ہی دوش دیتے تھے کہ یہ تمہاری وجہ سے ہوا ہے، تمہارے لاڈ پیار نے ہی اسے خودسر کیا تھا۔

آذر نے ہمیشہ ابو کی نہ سنی تھی، تو وہ بھی اپنی جگہ ٹھیک تھے کہ برے دوستوں میں پڑ کر بھائی نے ابو کی عزت مٹی میں ملائی تھی، مگر امی بیچاری کا کیا قصور تھا۔ ممتا کی ماری ادھر بیٹے کی وجہ سے پریشان تو ادھر شوہر کے طعنوں سے ہلکان رہتی تھیں۔ ابو بھی کم پریشان نہ تھے۔ آخر تو ان کا بھی اکلوتا بیٹا تھا۔

ایک روز بھائی کا فون آگیا کہ میں کہیں روپوش ہوں، گھر نہیں آسکتا۔ زندگی رہی تو شاید مل سکیں گے۔ خدا جانے میرے بھائی نے کیا کیا تھا اور وہ کہاں چھپا ہوا تھا۔ ہم تو اس کی سلامتی کے لئے وظیفے کررہے تھے۔ اللہ جانے اس کے دوست کون لوگ تھے، وہ کوئی اسمگلر تھے یا کہ چور ڈاکو تھے، یہ تو اللہ ہی جانے، ہم تو کبھی ان کی حقیقت تک نہ پہنچ سکے۔ وہ اس کے دوست بھی تھے اور دشمن بھی تھے، جن سے وہ نہیں ڈرتا تھا مگر ڈرتا بھی تھا، ہم تو اس کی دید کو ترس رہے تھے کہ ایک دن اطلاع آئی کہ وہ ڈکیتوں کے گروپ میں تھا اور پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔

اس نے کون سی ڈکیتیاں کی تھیں، ہم نے تو کبھی اس کے پاس کوئی ہتھیار یا کوئی لوٹ مار کا سامان نہ دیکھا تھا۔

یہ خبر ہمارے لئے قیامت سے کم نہ تھی، ایسی اندوہناک خبر سن کر میرے بوڑھے ماں باپ تو جیتے جی مرگئے۔ ہمارا ہنستا بستا گھر ویرانے میں بدل گیا۔ ہمارا مکان ہماری ہی قبر بن گیا۔ آذر کیا گیا ہماری کائنات لٹ گئی۔

ابو روتے تھے اور کہتے تھے نہ جانے مجھ سے ایسی کیا خطا ہوئی، یہ سزا ملی ہے۔ امی اور بہنیں کہتی تھیں کہ ہم نے آذر کے روشن مستقبل کے خواب دیکھے تھے اور اس کی تعبیر کیسی ملی ہے۔

میڈم کرن ہم کو پرسہ دینے آئیں وہ رو رہی تھیں ، انہیں غم تھا کہ ہمارے گھر کا چراغ ہی گل نہیں ہوا تھا، ان کا کالج بھی ایک ہونہار طالب علم سے محروم ہوگیا تھا۔

علینہ کی امی بھی تعزیت کرنے آئیں، تبھی میں نے سوچا۔ کاش وہ ہمارے محلے میں مکان نہ خریدتے۔ کاش وہ اپنے شوہر کو منالیتیں اور وہ علینہ کی شادی میں اتنی جلدی نہ کرتے۔ میڈم کرن بھی اس شادی کو نہ رکواسکیں۔ اور علینہ…

کیا خبر وہ بھی آذر کی وفات کا سن کر آنسو بہا رہی ہو جو چند ماہ میں اپنا وعدہ بھول کر کسی اور کی ہوگئی۔ آج بھی میرا دل کہتا ہے کہ اگر علینہ اور اس کے گھر والے میرے بھائی سے بے وفائی نہ کرتے تو وہ ایسے نہ اجڑتا اور نہ جان سے جاتا۔ (ک ۔ م … لاہور)

Latest Posts

Related POSTS